24 May 2019

رمضان کے آخری عشرے میں نبی اکرم ﷺ کے سات مخصوص اعمال

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

خودنبی اکرم ﷺ نے رمضان کریم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصہ کا نام ’رحمت‘، دوسرے کا نام ’مغفرت‘ اور تیسرے کا نام ’نجات‘  رکھاہے۔ یوں تو نبی کریم ﷺ ہر ایک حصہ کی قدر فرمایا کرتے تھے اور پورے رمضان خصوصیت کے ساتھ دو کام کیا کرتے تھے:
(۱) سخاوت۔(۲)تلاوت۔
 حدیث شریف میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تو تھے ہی؛ لیکن جب رمضان آتا تھا، تو آپ کی سخاوت کی مقدار بہت بڑھ جاتی تھی۔ آپ ﷺ کی سخاوت تیز رفتارہوا  سے بھی زیادہ تیز ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح عام دنوں کے مقابلے رمضان میں تلاوت کلام پاک کا زیادہ اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ رمضان کی ہر رات کو تلاوت اور تلاوت کے ساتھ ساتھ سخاوت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَجْوَدُ مَا یَکُونُ فِی رَمَضَانَ، حِینَ یَلْقَاہُ جِبْرِیلُ، وَکَانَ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ  یَلْقَاہُ فِی کُلِّ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَیُدَارِسُہُ القُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالخَیْرِ مِنَ الرِّیحِ المُرْسَلَۃِ۔ (صحیح بخاری،کِتَابُ المَنَاقِبِ،بَابُ صِفَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)
تلاوت و سخات تونبی اکرم ﷺ کے پورے رمضان کا معمول تھا؛ ان کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ آخری عشرے میں سات ایسے اعمال کیا کرتے تھے، جو پہلے دونوں عشرے میں نہیں کرتے تھے۔ وہ اعمال درج ذیل ہیں:
(۱) شب بیدار ی: آپ ﷺ اخیر عشرے میں شب بیداری کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ جس میں نماز، تلاوت،ذکر اور استغفار کیا کرتے تھے۔
(۲) اہل و عیال کو بیدار کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ حضرات علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کا دروازہ کھٹکھٹا کر کہا کرتے تھے کہ ’دونوں اٹھ جاؤ اور نماز پڑھو‘۔
 أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ أَخْبَرَہُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَرَقَہُ وَفَاطِمَۃَ بِنْتَ النَّبِیِّ عَلَیْہِ السَّلاَمُ لَیْلَۃً، فَقَالَ: أَلاَ تُصَلِّیَانِ؟ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَنْفُسُنَا بِیَدِ اللَّہِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ یَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ حِینَ قُلْنَا ذَلِکَ وَلَمْ یَرْجِعْ إِلَیَّ شَیْءًا، ثُمَّ سَمِعْتُہُ وَہُوَ مُوَلٍّ یَضْرِبُ فَخِذَہُ، وَہُوَ یَقُولُ: وَکَانَ الإِنْسَانُ أَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا۔(الکہف: ۴۵)(صحیح البخاری، کتاب التہجد، باب تحریض النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی صلاۃ اللیل والنوافل من غیر إیجاب)
(۳) نبی اکرم ﷺ اس عشرے میں بیویوں سے جدا رہا کرتے تھے اور مکمل انہماک کے ساتھ ہمہ وقت عبادت میں مصروف ہوتے تھے۔
عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا، قَالَتْ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ العَشْرُ شَدَّ مِءْزَرَہُ، وَأَحْیَا لَیْلَہُ، وَأَیْقَظَ أَہْلَہُ۔ (صحیح بخاری،کتاب فضل لیلۃ القدر،بَابُ العَمَلِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ)
 (۴)  لیلۃ القدر کی تلاش: شب بیداری کا ایک بنیادی مقصد نبی اکرم ﷺ کا یہ تھا کہ شب قدر کو پالیں۔اور آخری عشرے میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے؛ چنانچہ ارشاد گرامی ہے کہ
کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُجَاوِرُ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَیَقُولُ: تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ القَدْرِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ۔ (صحیح بخاری،کتاب فضل لیلۃ القدر، بَابُ تَحَرِّی لَیْلَۃِ القَدْرِ فِی الوِتْرِ مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ)
(۵) اعتکاف: آخری عشرے میں آپﷺ خصوصیت کے ساتھ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْتَکِفُ العَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ۔ (صحیح بخاری، کِتَابُ الِاعْتِکَافِ، بَابُ الِاعْتِکَافِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالِاعْتِکَافِ فِی المَسَاجِدِ کُلِّہَا)
(۶)آخری عشرے میں آپ کا ایک معمول یہ بھی تھا کہ کھانے کا مقدار بہت کم کردیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ صرف افطاری کیا کرتے تھے، افطاری کو سحری کے طور پر کھایا کرتے تھے۔
(۷) مغرب و عشا کے درمیان غسل فرمایا کرتے تھے۔
 حضرت  حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کے ساتھ قیام رمضان کیا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے غسل فرمایا، تو حضرت حذیفہ ؓ نے پردہ کیا اور پھر بقیہ پانی سے خود غسل کیا۔ حضرت انس بن مالک ۴۲/ رمضان کی رات کو غسل کرکے، عمدہ لباس پہنتے تھے اور خوشبو لگانے کا اہتمام کرتے تھے۔ لطائف المعارف میں اوربھی کئی اکابرین کے مختلف معمولات درج کیے گئے ہیں۔
 کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم إذا کان رمضان قام و نام فإذا دخل العشر شد المئزر و اجتنب النساء و اغتسل بین الأذانین و جعل العشاء سحورا۔ أخرجہ ابن أبی عاصم و إسنادہ مقارب(لطائف المعارف، صفحۃ 207)
اللہ تعالیٰ ہمیں اسوہ نبوی پر چلنے اور آپ ﷺ کے ان سبھی اعمال پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین۔

17 May 2019

روزہ کی مقبولیت کا پتہ لگانے والا فارمولہ مل گیا

روزہ کی مقبولیت کا پتہ لگانے والا فارمولہ مل گیا


محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت نافع ابن عبد الحارث کو مکہ اور طائف کا حاکم بنایا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ امیر المومنین کی آمد کی خبر پاکر حضرت نافع استقبال کے شوق میں مکہ سے ایک سو ایک کلو میٹر کی دوری پر واقع وادی عسفان چلے آئے۔ عند الملاقات حضرت عمر نے پوچھا کہ اپنے غائبانہ میں کس کو حاکم کو بناکر آئے ہو؟ تو حضرت نافع ؓ نے جواب دیا کہ (عبد الرحمان) ابن ابزیٰ کو۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو حضرت نافع نے جواب دیا کہ یہ میرا غلام ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے تعجب سے پوچھا کہ تم نے سادات قریش اور ثقیف مولی پر ایک غلام کو حاکم بنادیا!؟۔ تو حضرت نافعؓ نے جواب دیا کہ دراصل وہ قاری بھی ہیں اور فرائض کے عالم بھی۔ یہ جواب سن کر حضرت عمر ؓ نے کہا کہ تمھارے نبی ﷺ نے سچ فرمایا کہ 
إِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا، وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ۔ (مسلم، کِتَابُ صَلَاۃِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِہَا،  بَابُ فَضْلِ مَنْ یَقُومُ بِالْقُرْآنِ، وَیُعَلِّمُہُ، وَفَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ حِکْمَۃً مِنْ فِقْہٍ، أَوْ غَیْرِہِ فَعَمِلَ بِہَا وَعَلَّمَہَا)
قرآ ن کریم لوگوں کو قدرو منزلت بھی عطا کرتا ہے اور قعرمذلت میں بھی گرا دیتا ہے۔ 
حضرت عبد الرحمان ابن ابزیٰ ؓ کوفہ کے رہنے والے تھے۔ بعد میں حضرت علیؓ نے خراسان کا حاکم بنادیا تھا، جوصرف اور صرف قرآن کریم کی بدولت تھا۔
قرآن کریم رمضان کے مہینے میں نازل ہوا ہے۔(۱) اورشک و شبہ سے بالاتر اس کتاب سے تقویٰ صفت حضرات ہدایت پاتے ہیں۔ (۲)اور قرآن کریم ہی کی شہادت کے مطابق روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ ہے۔ (۳) تو نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے روزہ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم اس ماہ قرآن میں قرآن سے کتنا جڑے ہوئے ہیں۔ماہ رمضان میں قرآن کریم سے جڑنے کے تین ذرائع ہیں: 
(۱) تلاوت کرنا۔ (۲) اس کے اوامر ونواہی پر عمل کرنا۔ (۳) تراویح میں سننا سنانا۔
 اگرہم پورے آداب کے ساتھ روزہ رکھتے ہوئے قرآن کی تلاوت بھی کرتے ہیں، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی کرتے ہیں اور تراویح میں بھی سننے سنانے کا اہتمام کرتے ہیں، تو ہمارا یہ طرز عمل اس بات کا اشارہ ہے کہ ہم ماہ رمضان کے مقدس فریضہ: روزہ کے مقصد میں کامیاب ہوکر تقویٰ شعار بنتے جارہے ہیں اور ہمارا روزہ عند اللہ مقبول ہورہا ہے۔ اور جس درجہ ان تینوں چیزوں میں کوتاہی ہوگی، اسی درجہ ہمارا روزہ مقبولیت سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ مثال کے طور پر آپ قرآن کی تلاوت، عمل اور تراویح میں سے صرف تلاوت اور عمل کرتے ہیں، تراویح نہیں پڑھتے، تو تین درجوں میں سے ایک درجہ آپ کے روزہ کی مقبولیت گھٹ جائے گی۔ اسی طرح تلاوت یا تراویح تو پڑھتے ہیں، لیکن عمل نہیں کرتے، یا عمل بھی کرتے ہیں اور تراویح بھی پڑھتے ہیں، لیکن تلاوت نہیں کرتے، یا پھر تینوں کاموں سے صرف ایک ہی کام کرتے ہیں، دو کام نہیں کرتے؛ تو ان تمام صورتوں میں اسی درجہ روزہ کی مقبولیت میں کمی آجائے گی۔خلاصہ کلام یہ نکلا کہ اس ماہ قرآن یعنی رمضان میں آپ کوقرآن سے جتنا شغف اور تعلق ہوگا، آپ کا روزہ اتنا ہی عند اللہ مقبول اور مقصد تقویٰ میں کامیاب ہوگا۔ اور اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ قرآن کریم اپنے قدر دانوں کو بالیقین قدرو منزلت سے نوازتا ہے، تو ایسا ہونا شاید ناممکن ہے کہ آپ روزہ کی وجہ سے متقی توبن جائیں، لیکن قرآن سے نہ جڑسکیں، کیوں کہ قرآن تو متقیوں ہی کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح جو لوگ روزہ رکھ کر بھی قرآن کی تلاوت و عمل اور تراویح پر توجہ نہیں دیتے، تو یہ اس بات کا اشاریہ ہے کہ قرآن کریم کو چھوڑنے کی وجہ سے قرآن نے اس سے یہ توفیق چھین لی ہے۔ اور قرآن سے محرومی کا مطلب تقویٰ سے محرومی ہے اور جب تقویٰ ہی حاصل نہیں ہوسکا، تو بالیقین اس کا روزہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا، یعنی مقبولیت حاصل نہیں کرسکا۔ 
اس مثال کے علاوہ بھی اس فرمان نبوی  ﷺکے بیشمار عملی مظاہر ہیں۔ تمام مہینوں میں رمضان کے تقدس کا رازیہی قرآن ہی ہے۔ تمام راتوں میں شب قدر کو جو تاج افضلیت حاصل ہوا ہے، اس کی وجہ بھی یہی قرآن کریم ہی ہے، کیوں کہ اسی رات کو سمائے دنیا پر قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ عام مجمع میں حافظ و عالم  ہی امامت و خطابت کے ستارے قرار پاتے ہیں، کیوں کہ یہ دونوں قرآن کے عملی عاشقین میں سے ہیں۔
اولین عہد اسلام کے مسلمان سب سے زیادہ قرآن کریم سے وابستہ تھے، اس لیے یہ لوگ جہاں جہاں بھی گئے، خوش بختیوں اور نیک کامرانیوں نے ان کے قدم چومے؛ لیکن جوں جوں امت قرآن سے دور ہوتی چلی گئی، توں توں ذلت و رسوائی کے دلدل میں پھنستی چلی گئی؛ تاآں کہ موجودہ حالات کی عکاسی کے لیے علامہ اقبال کو کہنا پڑا کہ  ؎
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
کیوں کہ صادق و مصدوق سرور کائنات ﷺکا فرمان کبھی بھی خلاف واقعہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ”یہ قرآن قوموں کو عروج بھی عطا کرتا ہے اور زوال کا مزہ بھی چکھا دیتا ہے۔“
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا روزہ مقبول ہو، ہم متقی بن جائیں، تو اس کے لیے علامہ اقبال ہی کی تعبیر میں کہنے دیجیے کہ ؎ 
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
یعنی اگر تم مسلمان کی زندگی گزارنا چاہتے ہو تو قرآن کریم کو زندگی کا حصہ بنائے بغیر ایسا ممکن نہیں۔
 اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کی تلاوت اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔ 
مآخذو مصادر
(۱) شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ۔ (البقرۃ، ۵۸۱)
(۲) ذَٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ? فِیہِ? ہُدًی لِّلْمُتَّقِینَ (البقرۃ، ۲) 
(۳)یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (البقرۃ، ۳۸۱)

10 May 2019

کیا چندہ لینے دینے کے لیے رمضان ہی ضروری ہے؟

کیا چندہ لینے دینے کے لیے رمضان ہی ضروری ہے؟

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ حضرات رمضان کا استقبال کیسیکرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ صحابہ کو جب چاند نظر آجاتا تھا، تو کسی بھی مسلم بھائی کے لیے دل میں کینہ نہیں رکھتے تھے۔ یعنی اپنا دل بالکل صاف کرلیا کرتے تھے۔ 
حضرت عمر ؓ رمضان میں مسجدوں کو چراغوں سے منور کیا کرتے تھے۔ مسجدوں میں قمقمے لگانے اور تراویح کی نماز باجماعت ادا کرنے کا سلسلہ حضرت عمرؓ نے ہی شروع کیا ہے۔ ابن اسحاق الہمدانی فرماتے ہیں کہ رمضان کی ایک رات میں حضرت علی ؓ گھر سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ چراغوں سے مسجد جگمگا رہی ہے اور تراویح میں قرآن کی تلاوت سے فضاوں میں نورانیت چھائی ہوئی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر بے ساختہ حضرت علی کی زبان سے حضرت عمر کے لیے یہ دعا نکلی کہ 
نور اللہ لک یابن الخطاب فی قبرک، کما نورت مساجد اللہ بالقرآن۔
ائے ابن اخطاب! اللہ تیری قبر کو ایسے ہی نور سے بھردے، جس طرح آپ نے مساجد کو قرآن کی تلاوت سے منور کردیا ہے۔ 
صحابہ کرام اپنی زکاۃ شعبان میں نکال دیاکرتے تھے اور رمضان کو عبادت کے لیے فارغ رکھتے تھے۔ ماہ شعبان رمضان کے لیے خود کو تیار کرنے کا مہینہ ہے، اس لیے اس میں بالخصوص رمضان میں کیے جانے والے اعمال یعنی روزہ اور تلاوت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔علامہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ ’لطائف المعارف میں لکھتے ہیں کہ:
”ماہ شعبان میں روزوں اور تلاوتِ قرآن حکیم کی کثرت اِس لیے کی جاتی ہے تاکہ ماہ رمضان کی برکات حاصل کرنے کے لیے مکمل تیاری ہو جائے اور نفس، رحمن کی اِطاعت پر خوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہو جائے۔“(ص: 258)۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول سے اِس حکمت کی تائید بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ شعبان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
کان المسلمون إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ أکبُّوا علی المصاحِفِ فقرؤوہا، وأَخْرَجُوْا زَکَاۃَ أموالہم تقوِیَۃً للضَّعیفِ والمسکینِ علی صیامِ و رمضانَ.(ابن رجب حنبلی، لطائف المعارف: 258)
”شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں۔“
ہندستان میں علمائے کرام نے رمضان میں خود کو رمضان کے لیے فارغ کرنے کے بجائے چندہ اور سفر پر نکلنے کا جو معمول بنایا ہوا ہے،اس میں درج ذیل دس اعتبار سے رمضان کی حرمت کی پامالی ہوتی ہے: 
(۱) بالعموم زمینی مدارس، اور بالخصوص تجارتی مدارس اقامتی و بیرونی طلبہ کی تعداد میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ اور یہ جھوٹ ثواب سمجھ کر بولا جاتا ہے۔ مدارس کے ذمہ داران حقائق سے دور رپورٹ بناکر اپنے ملازمین و اسٹاف کو دیتے ہیں۔ اور یہ حضرات حقیقت کو جاننے کے باوجود اسی غلط رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کرکے چندہ کی اپیل کرتے ہیں۔ بہ الفاظ مختصر رمضان میں دروغ گوئی پر مجبور ہونا پڑتا ہے، جس سے روزہ پھٹ جاتا ہے اوررمضان کے روحانی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
(۲) سفر میں ہونے اور موسم کی شدت کی وجہ سے سفرائے کرام روزہ نہیں رکھ پاتے۔ جب موسم رمضان میں روزہ نہیں رکھ پاتے ہیں، تو بعد رمضان شاید ہی کسی کو توفیق مل پاتی ہے۔ اور سفر میں ہونے کی وجہ سے جس کو جہاں موقع ملتا ہے، وہیں کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ عوام چوں کہ سفرائے عظام کو علما کے بھینس میں دیکھتی ہے، اس لیے عوام میں یہ بدگمانی عام ہوتی جارہی ہے کہ علما روزہ نہیں رکھتے اور کھلے عام کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ پھر یہ مقولہ بولا جاتا ہے کہ ”مولوی جو کہے، وہ سنو، جو وہ کرے، وہ نہ کرو۔“ جس سے علمائے کرام کے متعلق شریعت پر عمل کے حوالے سے دوہرے نظریے فروغ پاتے ہیں اور پھر عوام علما کی باتوں پر عمل کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتی۔ 
(۳) بعض بعض مہتمم اپنے سفرا کو ٹارگیٹ دیے ہوتے ہوتے ہیں، جو اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں کہ اگر اسے پورا نہیں کیا، تو ملازمت سے نکال دیا جائے گا، یا پچھلے کئی مہینے کی بقیہ تنخواہ رمضانی چندہ سے خود حاصل کرنے کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے، جس کے باعث انھیں سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھکاوٹ کی وجہ سے تراویح، تلاوت وغیرہ عبادات کے لیے موقع نہیں نکال پاتے۔ اگر زمینی رپورٹ کی بات کریں، تو بہت سے سفرائے کرام فرض نماز تک کے لیے حاضر نہیں ہوپاتے ہیں۔ان تمام خرابیوں کی وجہ ایک ہی ہے اور وہ ہے رمضان میں چندہ کرانا۔
(۴) مچندین میں جو حافظ قرآن ہوتے ہیں، وہ بالعموم قرآن بھول جاتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ چندہ کی وجہ سے کسی ایک جگہ ٹھہرنانہیں ہوپاتا اور نہ ہی قرآن سنانے کے لیے جو یکسوئی اور محنت درکار ہوتی ہے، وہ میسر ہو پاتی ہے۔ 
(۵) رمضان المبارک تزکیہ و تصفیہ قلب کا بھی مہینہ ہے۔ اسی مہینہ میں اکابرین امت اور اہل سلوک و معرفت اپنا حلقہ تصوف لگاتے ہیں، تاکہ لوگوں کے دلوں کے زنگ دور ہوجائے۔ لیکن چندہ کی وجہ سے خانقاہ کا رخ کرنا دشوار ہوجاتا ہے اور پورا مہینہ شہر در شہر گھومنے میں گذارنا پڑتا ہے۔ 
(۶) سفر کی وجہ سے سحرو افطار کا مستقل نطم نہیں ہوپاتا۔ جس سے جو سفرا عزیمت کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں، وہ امور حفظان صحت کا خیال نہیں رکھ پاتے، نتیجۃ صحت بگڑنے لگتی ہے اور بعد میں وہ روزہ رکھنے کے قابل نہیں رہ پاتا۔ 
(۷) خود نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ وہ رمضان شروع ہوتے ہی چندہ کے لیے نکل پڑتے تھے۔ بلکہ نبی اکرم ﷺ کے بارے میں یہ آتا ہے کہ آپ ﷺ رمضان میں حد سے زیادہ سخی ہوجاتے تھے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کا دور فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح صحابہ کا معمول یہ تھا کہ وہ تجارت، زکات اور دیگر ضروری کاموں سے شعبان میں ہی فارغ ہوجایا کرتے تھے، تاکہ رمضان کو یکسو ہوکر گذار سکیں۔ اسی طرح علما اپنے خطاب میں عوام کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے روزہ مرہ کے شیڈول کو رمضان میں تبدیل کرکے زیادہ سے زیادہ وقت رمضانی اعمال میں لگائیں، لیکن خود علمائے کرام کا ایک بڑا طبقہ چندہ میں لگ کر رمضانی اعمال سے محروم ہوجاتے ہیں۔ 
(۸) آخری عشرہ میں اعتکاف کا مسئلہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن چندہ کی وجہ سے سفرائے کرام اس عمل سے محروم رہ جاتے ہیں۔ 
(۹) بھارت میں وصولیابی کا اجتماعی نظم نہ ہونے کی وجہ سے کروڑوں کا سرمایہ غیر مستحقین کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔ بلکہ شہادات کے مطابق مچندین کے بھیس میں غیر قوموں کے لوگ بھی زکات اور صدقات کے پیسے لے اڑتے ہیں۔ اور یہ بالعموم رمضان جیسے مقدس مہینے میں ہوتا ہے۔ اس لیے بعض اہل فتاویٰ کے مطابق اس طرح مشکوک آدمی کو زکاۃ دینے سے ادا نہیں ہوپاتی، اس لیے بجائے اس کے کہ ہم رمضانی سفیروں کا انتظار کریں، ہمیں خود ہی مستحق افراد و مدارس کو ڈھونڈھ کر پہنچانا چاہیے۔
(۰۱) دن بھر روزہ، رات میں تراویح اور علیٰ الصباح سحری کے نظام کی وجہ سے غیر رمضان کی بنسبت رمضان میں سبھی لوگوں کا لائف شیڈول بہت ٹائٹ ہوجاتا ہے۔ ایسے میں لمحہ بہ لمحہ اہل ثروت کے پاس کوئی نہ کوئی سفیر پہنچتے رہتے ہیں، جس سے وہ بہت زیادہ ڈسٹرب ہوتے ہیں، جب کہ غیر رمضان میں ملنے ملانے کا کافی وقت ملتا ہے۔ 
درج بالا دس وجوہات کے پیش نظرراقم کی رائے یہ ہے کہ چندہ کامہینہ تبدیل کردینا چاہیے۔ بالیقین مدارس اسلامیہ اور دیگر ملی ادارے چلانے کے لیے چندہ ضروری ہے، اس کے بغیر ملت کے کام نہیں ہوسکتے۔ لیکن کیا ضروری ہے کہ یہ کام رمضان میں ہی کیا اور کرایا جائے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ شعبان کے پہلے عشرے میں چھٹی کراکر بقیہ دو عشرے چندے کے لیے مخصوص کردیے جائیں اور رمضان شروع ہوتے ہی اپنی اپنی جگہوں پر لوٹ کر اطمینان سے رمضان گذاریں۔ اور رمضان کی مناسبت سے لگنے والے حلقہ تصوف و سلوک سے بھی فائدہ اٹھاکر اپنے ایمان کو تازہ اور صیقل کریں۔ اور علمائے کرام اپنے خطابات کے ذریعہ لو گوں کا ذہن بنائیں کہ وہ رمضان کے بجائے شعبان میں ہی صدقات وغیرہ مستحقین کو دے کر اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوجائیں۔ 
ہمیں اہل بصیرت اور زمینی سچائیوں سے واقف حضرات سے قوی امید ہے کہ ان کے ہاتھ ضرور اس فکر کی تائید میں اٹھیں گے اور ایک دن ایسا انقلاب ضرور آئے گا کہ لوگ رمضان کے مقدس لمحات کو رمضانی اعمال کے لیے فارغ رکھیں گے اور چندہ اور اس جیسے دیگر کاموں سے شعبان میں ہی فارغ ہوجائیں گے، کیوں کہ یہی ہمارے صحابہ کا طریقہ تھا اور کامیابی ہمیشہ اسی طریقہ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کے طریقہ پر چلنے کی توفیق دے، آمین۔


5 May 2019

Chaina ka Cahnd

چائنا کا چاند
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


کیا یہ چاند برت رکھنے والی مہیلاؤں کی پریشانیوں، رمضان، عید، بقرعید اور ایام حج کے اختلافات کو ختم کرنے میں کام آئے گا 
ٹکنالوگی کی نت نئی ایجادات کے جذبے ایسی خبریں بھی سنانے لگتے ہیں، جن کے بارے میں عام انسان کا حاشیہ خیال بھی گذرنا مشکل ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں چینی میڈیا پیپلز ڈیلی آن لائن کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 2020 تک چین کے پاس اپنا ایک مصنوعی چاند ہوگا۔ یہ چاند سچوان صوبے کے چینگدو میں لگایا جائے گا، جو زمین سے 500 کلومیٹر کی اونچائی پر، 360 ڈگری کے اوربٹ پر نصب کیا جائے گا، جو دس سے اسی کلو میٹر کے دائرے تک روشنی بکھیرے گا۔ اس میں چاند سے آٹھ گنا زیادہ روشنی ہوگی، جس سے دس ارب اٹھاون کروڑ اسی لاکھ روپیے کے برابر بجلی کی بچت ہوگی۔ یہ چاند در اصل ایک شیشہ کا ہوگا، جو دن میں سورج کی روشنی کو قید کرے گا اور پھر اسے رات میں خرچ کرے گا۔ 
اس سے قبل روس بھی مصنوعی چاند بنانے کی کوشش کرچکا ہے۔1993 میں، روس نے ایک پلاسٹک آئینہ تیار کیا تھا۔نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق تقریبا دو ڈھائی میل کے فاصلے تک زمین پر اس کی روشنی پھیلی تھی۔ 
تقریبا ہر ایک مذہب میں چاند کئی تہواروں اور خوشیوں کا پیغام لاتا ہے۔ اسلامک کلینڈر چاند کی ہی گردش پر قائم ہے۔ مسلمانوں کی عید، روزہ اور دیگر کئی شرعی احکام چاند ہی کے مرہون منت ہیں۔لیکن نظر نہ آنے پر کبھی کبھار اتنے گہرے اختلافات سامنے آجاتے ہیں کہ چاند نکل آنے کے باوجود دل سے بس یہی دعا نکلتی ہے کہ 
چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی
ائے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے
عبد الحمید عدمؔ
چاند (The Moon)
قرآنِ مجید میں چاند کا ذِکر دیگر اَجرامِ سماوِی سے کہیں زیادہ ہے۔ اللہ ربّ العزت نے چاند کی بہت سی خصوصیات کی بناپر قرآنِ مجید میں قسم کھا کر اُس کا ذِکر فرمایا:
کلَّا وَالْقَمَرِ(القمر، 74: 32)
سچ کہتا ہوں قسم ہے چاند کی۔
جس طرح زمین اور نظامِ شمسی کے دِیگر ستارے سورج کے گرد محوِ گردِش ہیں اور جس طرح سورج کہکشاؤں کے لاکھوں ستاروں سمیت کہکشاں کے وسط میں واقع عظیم بلیک ہول کے گرد محوِ گردِش ہے، بالکل اُسی طرح چاند ہماری زمین کے گرد گردِش میں ہے۔ نظام شمسی میں واقع اکثر سیاروں کے گرد اُن کے اپنے چاند موجود ہیں، اور اکثر کے چاند متعدّد ہیں۔ زمین کا صرف ایک ہی چاند ہے جو زمین سے اَوسطاً 4,00,000 کلومیٹر کی دُوری پر زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہ اپنی گردِش کا ایک چکر 27.321661 زمینی دِنوں میں طے کرتا ہے۔ چاند کا قطر 3,475 کلومیٹر ہے اور یہ نظامِ شمسی کے آخری سیارے پلوٹو سے بڑا ہے۔ 
قمری تقوِیم (Lunar calendar)
قمری تقوِیم میں چاند کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ سورج سے وقت کی پیمائش کے لیے اِنسان کو اپنے علمی سفر کی اِبتدا میں سخت دُشواریوں سے گزرنا پڑا اور ابھی تک یہ سلسلہ تھم نہیں سکا۔ کبھی مہینے کم و بیش ہوتے آئے اور کبھی اُن کے دن، یہی حالت سال کے دِنوں کی بھی ہے۔ شمسی تقوِیم میں جا بجا ترمیمات ہوتی آئی ہیں؛مگر اُس کے باوجود ماہرین اُس کی موجودہ صورت سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ موجودہ عیسوی کیلنڈر بار بار کی اُکھاڑ پچھاڑ کے بعد 1582ء میں موجودہ حالت میں تشکیل پایا، جب 4 /اکتوبر سے اگلا دِن 15/ اکتوبر شمار کرتے ہوئے دس دن غائب کر دیے گئے۔ پوپ گریگوری کے حکم پر ہونے والی اِس تشکیلِ نو کے بعد اُسے ’گریگورین کیلنڈر‘ کہا جانے لگا۔
دُوسری طرف قمری تقوِیم میں خودساختہ لیپ کا تصوّر ہی موجود نہیں۔ سارا کیلنڈر فطری طریقوں پر منحصر ہے۔ قدرتی طور پر کبھی چاند 29 دِن بعد اور کبھی 30دِن بعد نظر آتا ہے، جس سے خودبخود مہینہ 29 اور 30 دِن کا بن جاتا ہے۔ اِسی طرح سال میں بھی کبھی دِنوں کو بڑھانے یا کم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
چاند زمین کے گرد مدار میں اپنا 360 درجے کا ایک چکر 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی مدّت میں مکمل کرتا ہے اور واپس اُسی جگہ پر آ جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بڑی اہم بات قابلِ توجہ ہے کہ زمین بھی چوں کہ اُسی سمت میں سورج کے گرد محوِ گردِش ہے اور وہ مذکورہ وقت میں سورج کے گرد اپنے مدار کا 27 درجے فاصلہ طے کر جاتی ہے، لہٰذا اَب چاند کو ہر ماہ 27 درجے کا اِضافی فاصلہ بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ گویا ستاروں کی پوزیشن کے حوالے سے تو چاند کا ایک چکر 360 درجے ہی کا ہوتا ہے، مگر زمین کے سورج کے گرد گردش کرنے کی وجہ سے اُس میں 27 درجے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اُسے زمین کے گرد اپنے ایک چکر کو پورا کرنے کے لیے 387 درجے کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ 27 درجے کی اِضافی مسافت طے کرنے میں اُسے مزید وقت درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری ماہ کی مدّت 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی بجائے 29 دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ قرار پاتی ہے۔ 29 دن اور 12 گھنٹے کی وجہ سے چاند 29 یا 30 دنوں میں ایک مہینہ بناتا ہے اور باقی 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ کی وجہ سے سالوں میں کبھی دو ماہ مسلسل 30 دنوں کے بن جاتے ہیں اور یہ فرق بھی خود بخود فطری طریقے سے پورا ہو جاتا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے اُس میں کوئی ردّوبدل نہیں کرنا پڑتا۔(اسلام اور جدید سائنس، ص/ ۳۰۳، تا/ ۵۰۳)
چاند نظر آنے اور نہ آنے کا فلسفہ
ماہر فلکیات مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب گڈاوی، چئیرمین ہلال کمیٹی لندن کی تشریحات کے مطابق زمین سے اسی وقت چاند نظر آسکتا ہے، جب کہ افق پر کم از کم دس ڈگری اوپر ہو اور مطلع پر پینتالیس منٹ تک باقی رہے۔ اور چاند کی عمر اس وقت تقریبااٹھارہ گھنٹے ہوچکی ہو۔ اگر چاند دس سے بارہ ڈگری اوپر ہوتا ہے، تو انتیسویں کا چاند ہوتا ہے،لیکن اگرانتیسویں تاریخ کوبوقت غروب دس ڈگری سے کم اونچائی پر ہو تو، اس دن چاند نظرنہیں آتا اور مہینہ تیس دن کا مکمل ہوجاتا ہے۔ 
ان تمام علمی موشگافیوں اور سائنسی انکشافات کے باوجود، رمضان اور عید و بقرعید کا چاندسخت اختلاف کا شکار ہوجاتا ہے، جس سے چاند بھی شکستگی محسوس کرتے ہوئے تمنا کرتا ہوگا کہ نہ نکلتے تو ہی اچھا ہوتا۔ بہر کیف اسلام نے چاند کے ہونے نہ ہونے کا سادہ اور آسان طریقہ یہ بتلادیا ہے کہ مہینے کی انتیس تاریخ کو چاند دیکھنے کی کوشش کرو، اگر نظر آتا ہے، تو ٹھیک ہے۔ اور اگر نظر نہیں آتا ہے اور ایسی مصدقہ خبربھی کسی جگہ سے نہیں آتی، جہاں کہ چاند دیکھا گیا ہے، تو پھر تیس دن کا مہینہ تسلیم کرلو۔
اس واضح اسلامی تعلیمات کے باوجود اگر ہم آپس میں اختلاف کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کو غلط ٹھہرانے کی کوشش کرتیہوئے ملت فروشی کا الزام عائد کرنے سے بھی نہیں چوکتے، تو اس سے بہتر ہے کہ ہم چائنا کے مصنوعی چاند کو دیکھ کر برت کھولیں اور عید بقرعید کی خوشیاں اسی کی مصنوعی کرنوں میں تلاش کرلیں؛ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ …… کیا کسی کا بھی مذہب اس کی اجازت دے گا……؟ اور اگر بالفرض و المحال مان بھی لیں کہ اجازت مل جائے گی، تو چائنا کے تین چاند وں میں سے کس چاند کا اعتبار ہوگا……؟ اور اگر دوسرے ملک والوں نے بھی اپنے اپنے چاند بنا لیے، تو پھر کس ملک کاچاند زیادہ اہم ہوگا……؟ اور پھرا س کے نتیجے میں تاریخ کا جو ایک لامتناہی اختلاف شروع ہوگا، اس کے حل کے لیے کس سورج کی پناہ ڈھونڈھنی ہوگی……؟

3 May 2019

Larki hi to gala kaat den kia

لڑکی ہے تو گلا کاٹ دیں کیا

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


عمرہ ادا فرماکر سرور کائنات ﷺ واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ وہیں پاس حضرت علی ؓ بھی کھڑے ہیں۔ ان کے پاس جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ بتول ؓ بھی موجود ہیں۔ اچانک ایک بچی کی سریلی آواز کانوں میں گونجتی ہے۔
چچا…… چچا۔ حضرت علی پیچھے مڑ تے ہیں، تو کیا دیکھتے ہیں کہ سید الشہدا حضرت حمزہ ؓ کی بچی امامہ پکار رہی ہے۔ حضرت علی بچی کی طرف لپکے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر گود میں لے لیا۔ پھر اپنی بیوی کو سونپتے ہوئے کہا کہ یہ لو تمھارے چچا کی بیٹی ہے۔ وہیں قریب میں بچی کے خالو حضرت جعفر طیار ؓ بھی ہیں، وہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ یہ بچی مجھے ملنی چاہیے، کیوں کہ اس کی خالہ میرے گھر میں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت زید ؓ خود کو روک نہیں پاتے ہیں اور وہ بھی بچی کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ یہ بچی مجھے ملنی چاہیے، کیوں کہ حضرت حمزہ میرے مذہبی بھائی تھے۔ حضرت علی ؓ بچی سے محرومی کا احساس کرتیہوئے گویا ہوتے ہیں کہ یا رسول اللہ اس بچی پر صرف میرا حق ہے، کیوں کہ وہ سب سے پہلے میری گود میں آئی ہے۔ سرور کائنات ﷺ یہ خوش کن منظر دیکھ کر مسکراتے ہیں اور پھر سب کے دعوے میں یکسانیت دیکھ کر امامہ کو اس کی خالہ کی گود میں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”خالہ ماں کے برابر ہوتی ہے“۔ 
اپنی تو دور؛ دوسروں کی بچیوں کی پرورش و پرداخت کا یہ جذبہ اور دل کش منظر ایک ایسے سماج کا ہے، جہاں لوگ لڑکیوں کو بلا اور مصیبت سمجھ کر زندہ گاڑ دیا کرتے تھے۔ لیکن نبوی تعلیم و تربیت نے ایسا انقلاب برپا کیا کہ اس وجود بلا و مصیبت کو عین وجود رحمت اور جنت میں جانے کا ذریعہ بنا دیا۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، ان کے لیے دکھ تکلیف پرصبر کیا اور انھیں اپنے مال میں سے کپڑے پہنائے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی۔
آپ نے درج بالا سطور میں اسلامی تربیت یافتہ سماج کا ایک خوش نما منظر دیکھا۔ آئیے آپ کو تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھاتا چلوں جو اسی سماج کے لوگ تھے؛ لیکن وہ اسلام کے دامن رحمت سے محرومی کے دور میں زندگی گذار رہے تھے۔ 
اسلام سے پہلے عورت کا مقام
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام سے پہلے عورت کے وجود ہی کو شرم و عار سمجھا جاتا ہے۔ کلام پاک گواہی دے رہا ہے کہ 
وَإِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْأُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ ٭ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ایُمْسِکُہُ عَلٰی ہُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہُ فِیْ التُّرَابِ اَلاَ سَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ النحل: 58،59 
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے، جو بری خبر اسے دی گئی ہے اس کی وجہ سے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت ورسوائی کے باوجود اپنے پاس رکھے، یا اسے زندہ در گورکردے، آہ! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں۔
امام بغویؒ فرماتے ہیں کہ عرب میں یہ رواج عام تھا کہ جب کسی کے گھر میں بیٹی پیدا ہوتی اور وہ اسے زندہ باقی رکھنا چاہتا تو اسے اونی جبہ پہنا کر اونٹوں اور بکریوں کو چرانے کے لیے دور دراز بھیج دیتا۔اور اگر اسے مارنا چاہتا تو وہ جب 6 سال کی ہو جاتی تو کسی جنگل میں ایک گڑھا کھودتا، پھر گھر آ کر اپنی بیوی سے کہتا کہ اسے خوب اچھا لباس پہنا دو تاکہ وہ اسے اس کے ننھیال (یا اس کے دادا دادی) سے ملا لائے۔ پھر جب اس گڑھے تک پہنچتا تو اسے کہتا: اس گڑھے کے اندر دیکھو، چنانچہ وہ اسے دیکھنے کے لیے جھکتی تو یہ اسے پیچھے سے دھکا دے دیتا وہ اس میں گر جاتی اور یہ اس کے اوپر مٹی ڈال دیتا۔(معالم التنزیل: ج 5 ص 25)
ایک شخص کاشانہ نبوی پر حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ! ﷺ ہم لوگ جاہلیت والے تھے۔ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور اولاد کو مارڈالتے تھے۔ میری ایک لڑکی تھی۔ وہ کچھ بڑی ہوئی، تو جب میں آواز دیتا تھا، تو وہ میری بات سن کر دوڑی چلی آتی تھی۔ میرے ساتھ ہنستی کھیلتی تھی۔ وہ بچی مجھ سے بہت زیادہ مانوس ہوگئی تھی اور مجھے بھی اس سے کچھ محبت ہوگئی تھی۔ لیکن جاہلی عقیدے کی بنیاد پر میں اسے باعث عار سمجھنے لگا۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں نے اسے بلایا وہ میری آواز پر خوشی خوشی دوڑی چلی آئی۔ میں آگے بڑھا، وہ میرے پیچھے پیچھے آنے لگی۔ میرے گھر کے قریب ایک کنواں تھا، میں وہاں پہنچا، میری بچی بھی میرے پیچھے پیچھے وہاں پہنچی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اٹھا کر کنویں میں پھینک دیا۔ وہ چیختی رہی، چلاتی رہی، مجھے ابو ابو کہہ کر پکارتی رہی اور یہی اس کی زندگی کی آخری آواز تھی، لیکن میں نے ایک بھی نہ سنی اور اسے چیختے چلاتے ڈوب کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور بالآخر تھوڑی دیر کے بعد یہ ننھی سے معصوم آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔
رحمت کونین اس پر درد افسانہ کو سن کر آنسو ضبط نہ کرسکیاور روتے روتے یہ حالت ہوگئی کہ ریش مبارک آنسووں سے تر ہوگئی۔ اس کے باوجود نبی اکرم ﷺ نے ان سے دوبارہ کہا کہ میاں! اپنا قصہ پھر سے سناؤ۔سرور کائنات بار بار اس قصے کو سنتے رہے اور روتے رہے۔ (سنن دارمی، المقدمہ، باب ماکان علیہ الناس قبل مبعث النبی ﷺ من الجھل والضلالۃ۔)
قبیلہ بنو تمیم کا سردار حضرت قیس بن عاصم التیمی رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ ﷺ!میں نے زمانہ جاہلیت میں آٹھ لڑکیاں زندہ دفن کی ہیں۔ 
اسلا م سے پہلے، دوسرے تمام مذاہب و سماج میں والدین کو اپنی اولاد پر لا محدود اختیارات و حقوق حاصل تھے، لیکن اولاد کا والدین پر کوئی حق نہیں تھا، کیوں کہ یہ باپ کی عظمت کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ عرب کے سفاکانہ مراسم میں بے رحمی سے بچیوں کو زندہ دفن کردینے کے پیچھے جہاں یہ عقیدہ تھا، وہیں درج ذیل وجوہات بھی تھیں: 
(۱) اپنی دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے بچوں کی قربانی دے دیا کرتے تھے۔ (موطا امام مالک، کتاب النذور،باب مالایجوز من النذور فی معصیۃ اللہ،)یہ رسم اہل عرب کے علاوہ رومۃ الکبریٰ کے متمدن قوموں اور ہندستان میں راجبوپتوں میں بکثرت پایا جاتا تھا۔ جو شادی وغیرہ کی عار کی وجہ سے عام حالات میں، بیوہ ہونے کی صورت میں ستی کی شکل میں اور جنگ وغیرہ کے حالات میں جوہر کی صورت میں لڑکیوں کو مار ڈالتے تھے۔ 
(۲) فقرو فاقہ کا ڈر۔ وہ سمجھتے تھے کہ اولاد ہوگی، تو اس کے کھانے پینے کا خرچ اٹھانا پڑے گا، اس لیے ان کے خون سے اپنا ہاتھ رنگ کر اس سے چھٹکارا پا لیتے تھے۔ 
(۳) لڑکیوں کو زندہ دفن کردینا۔ اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ لڑکیاں شرم و عار کی باعث ہیں، اس لیے جب لڑکی پیدا ہوتی تھی، تو باپ کو سخت رنج ہوتا تھا اور لوگ لڑکیوں کے وجود کو بلا اور مصیبت سمجھتے تھے،لیکن اسلام نے ان تمام نظریات کے خلاف اولاد کے بھی حقوق متعین کیے اور دنیائے انسانیت کو تعلیم دیتے ہوئے بتایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس کو اس بچے کی زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، تو اس کے نقش زندگی کو مٹانے کی کوشش کرنا جرم عظیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں عزل اور اسقاط حمل کو حرام قرار دیا گیا ہے اور لڑکی کے وجود کو مصیبت و عار کے بجائے رحمت ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ جو کوئی ان لڑکیوں میں سے کسی لڑکی کی مصیبت میں مبتلا ہواور پھر اس کے ساتھ مہرو محبت کا معاملہ کرے، تو وہ لڑکی اسے دوزخ کے عذاب سے بچا لے گی۔ اور وہ اس کے اور دوزخ کے درمیان پردہ بن جائے گی۔ (بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الولد)
اور یہ کس قدر حیرت انگیز تھا کہ عورتیں خود اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے کے لیے خوشی خوشی مردوں کے حوالے کردیا کرتی تھیں، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے صلح حدیبیہ، فتح مکہ، عید کے اجتماع میں اور انفرادی ملاقاتوں کی جب بھی عورتوں سے بیعت لیا کہ تو ان سے اقرار کرایا کہ وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔ 
”ان تمام تدبیروں کے علاوہ قرآن پاک کی ایک مختصر سی آیت نے عرب کی ان تمام قساوتوں، ان تمام سنگ دلیوں اور ان تمام سفاکیوں کو مٹانے میں وہ کام کیا، جو دنیا کی بڑی بڑی تصنیفات نہیں کرسکتی تھیں۔ قیامت کی عدالت گاہ قائم ہے، مجرم اپنی اپنی جگہ کھڑے ہیں، غضب الٰہی کا آفتاب اپنی پوری تمازت پر ہے، دانائے غیب قاضی اپنی معدلت کی کرسی پر ہے، اعمال نامے شہادت میں پیش ہیں کہ ایک طرف سے ننھی ننھی معصوم بے زبان ہستیاں خون سے رنگین کپڑوں میں آکر کھڑی ہوجاتی ہیں، شہنشاہ قہار کی طرف سے سوال ہوتا ہے، ائے ننھی معصوم جانو! تم کس جرم میں ماری گئیں؟
وَاِذَا الْمَوْؤُودَۃُ سُءِلَتْ۔ بِاَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ۔(سورۃ، آیات 8، 9)
”یاد کرو جب (قیامت میں) زندہ دفن ہونے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تم کس جرم میں ماری گئی۔“(سیرۃ النبی جلد ۶، ۴۵۳)
آج اپنے سماج کے رویے پر غور کیجیے، تو آپ بے ساختہ یہی کہیں گے کہ ہمارا معاشرہ پھر دور جاہلیت کے نقش قدم کا اسیر ہوچکا ہے۔ بیٹیوں کے بارے میں جہالت و جاہلیت کے عقیدے دوبارہ جاگ اٹھے ہیں، نئے نئے طریقوں سے لڑکیوں کو زندگی سے محروم کیا جارہا ہے۔ پہلے صرف والدین ہی اپنی بچیوں کو مارتے تھے، آج والدین کے ساتھ ساتھ پورا معاشرہ لڑکیوں کے وجود کا متنفر ہوچکا ہے۔ایک طرف جہاں والدین نقش زندگی ہی مٹادینے کے درپے ہیں، تو وہیں دوسری طرف سماج، جہیز اور دوسری کمر توڑ رسم و رواج کے ذریعہ انھیں یہ احساس کرایا جارہا ہے کہ تمھارا وجود ایک بوجھ ہے، تم ایک بزنس پوائنٹ ہواور بنام محبت تجارت کا سب سے خوب صورت ذریعہ ہو۔ سماج کی ایسی ذہنیت کو دیکھ کر لڑکیاں بھی احساس مظلومیت کی شکار ہوچکی ہیں، وہ خود کو والدین کے لیے مصیبت اور بوجھ سمجھ کر زندہ لاش بنتی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ خود کو تجارت کا مرکز بناکر اپنی چادر نسوانیت کو تار تار کرنے پر مجبور ہورہی ہیں۔ یہاں پر سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ان سب کا ذمہ دار کون ہے۔۔۔ لڑکی ہونا۔۔۔۔ معاشرہ کا جاہلانہ و انسانیت سوز طرز عمل، یا پھر دین فطرت سے بغاوت۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وجود رحمت کی قدر و پرورش کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔

پروف ریڈینگ کے بغیر


محمد یاسین جہازی

ناچیز نے اپنی ایک تالیف کا بے پروف ریڈ مسودہ ایک مکتبہ والے کو یہ جاننے کے لیے دیا کہ کیا یہ کتاب مارکیٹنگ کرسکتی ہے؛ کیوں کہ اس کے بغیر کوئی بھی اشاعتی ادارے کتاب شائع کرنے کے لیے جلدی تیار نہیں ہوتا۔ تجارتی تجربہ کی بنیاد پر اس نے صاحب کتاب کو اطلاع دیے بغیرآنا فانا اسی مسودہ کو چھاپ دیا۔ جب مقبولیت کے ہاتھوں میں گردش کرنے لگی، تو متعدد قارئین کا فیڈ بیک آیا کہ ”کتاب کمپوزنگ کی غلطیوں سے پاک نہیں ہے“۔ بہرحال کچھ ہی مہینوں میں جب اس کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت عمل میں آئی، تو ”آسان انگریزی قواعد“  کے نیچے ٹائٹل پر ”اضافہ شدہ ایڈیشن“ کا ٹیگ دے دیا گیا، تاکہ قارئین کی شکایت دور ہوجائے۔ 
 اپنی بات کے بعد آئیے کچھ اکابر کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ میرے سامنے ”حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کی سیاسی ڈائری“ جلد دوم ہے۔ اس کے صفحہ نمبر۸۹/ پرمجلس منتظمہ جمعیت علمائے ہند کی فہرست درج ہے، جو ”مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند“ کا اقتباس ہے۔ اصل کتاب میں تو تئیس افراد کے نام درج ہیں، جب کہ اس میں مولوی محمد فاخر الٰہ آبادی کا نام غائب ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ پروف ریڈنگ کی غلطی ہی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اسی جلد کے صفحہ نمبر ۶۴۳/ پر ۰۲، ۱۲/ ستمبر ۳۲۹۱ء کے بجائے ۰۳، ۱۳ اکتوبر ۳۲۹۱ء لکھ دیا گیا ہے، جو تاریخی حقیقت کے خلاف ہے۔ 
بعینہ یہی غلطی ”جمعیت علما کیا ہے“ کے جلد دوم کے صفحہ نمبر ۷۱/ پر ہوئی ہے، جہاں ایک کے بجائے دو دو نام کمپوزنگ میں رہ گئے ہیں۔اس کتاب میں درجنوں مقامات ایسے ہیں، جہاں صراحتا کمپوزنگ کی غلطی ہے، کہیں پر تاریخ میں الٹ پھیر کردی گئی ہے، تو کہیں پر علما کو علم بنادیا گیا ہے۔ کہیں پر ایک ہی میٹنگ کی الگ الگ نشستوں کی کارروائی کے درمیان دوسرے مضامین اور رپورٹ شامل کردی گئی ہیں، جو تاریخی تسلسل کے خلاف ہے۔ 
بالکل نئی مطبوعہ کتاب کی بات کریں، تو ناچیز کے سامنے ”تذکرہ ابوالمحاسن“ موجود ہے، جس کے صفحہ نمبر ۶ / پر جمعیت علمائے ہند کے ناظم عمومی مولانا محمود اسعد مدنی صاحب کا اظہار تشکر ہے۔ مضمون کے آخر میں محمود کو محمد کردیا گیا ہے۔ اسی مضمون کے دوسرے پروگرام میں ایک وضاحت کے ضمن میں دو کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے، لیکن صفحہ نمبر کے لیے:’ص……‘ لکھ دیا گیا ہے۔ کتاب کے دیگر مضامین کے بات کریں، تو کمپوزنگ اور تاریخ و سن؛ بالخصوص ہجری و عیسوی کے التباس کے ساتھ اس قدر رد و بدل کردی گئی ہے کہ کسی بھی تاریخ پر بھروسہ کرنا حقیقت سے مایوسی کا دوسرا حوالہ ہوگا۔ اس میں بالخصوص مولانا مفتی محبوب فروغ صاحب کے مقالہ کا شاید ہی کوئی پیراگراف ہوگا، جو کمپوزنگ کی غلطی سے پاک ہو۔ 
تقابلی مطالعہ میں پایا گیا کہ اکابرین کی تحریروں میں عیسوی و ہجری میں سے کسی ایک کا التزام نہیں کیا گیا ہے، ایک ہی پیراگراف میں ایک جگہ ہجری ہے، تو اگلی ہی سطر میں اسی سلسلے کے لیے عیسوی تاریخ رقم کردی گئی ہے، جس تاریخ سے الجھن کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ 
دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ مولانا محمد منیر الدین عثمانی صاحب گڈاوی طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے بارہا کہا کرتے ہیں کہ ”حضرت قاضی مجاہد الاسلام صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آج کل لوگ روز اول ہی سے چھپنا چاہتے ہیں۔“ جس کا نتیجہ اس شکل میں ظاہر ہوتا ہے کہ رطب و یابس پرنٹ ہوجاتی ہے اور اہل تحقیق کے لیے الجھن کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے قاعدہ یہی ہے کہ جو چیز آگے چل کر تاریخی شہادت کا درجہ حاصل کرنے والی ہے، اسے بہت ہی احتیاط کے ساتھ لکھا اور پرنٹ کیا جانا چاہیے۔

26 Apr 2019

kia aap Allah se Razi hin?

کیا آپ اللہ سے راضی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


انسان کو پیدا کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خالق کائنات کی عبادت کرے۔ اور عبادت کا ایک ہی مقصد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ مقررین و واعظین بار باراس مقصد کی یاد دہانی کراتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ بھائی اللہ کو راضی کرلو۔ بھائی اللہ کو راضی کرلو۔ 
جس طرح شریعت میں بتائے ہوئے طریقے کو اختیارکرتے ہوئے اللہ کو منانا ضروری ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ آپ بھی اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں۔ کیوں کہ آپ کے اللہ سے راضی ہوئے بغیر اللہ آپ سے راضی نہیں ہوسکتا۔حدیث قدسی ہے 
عن ابي ھریرۃ، قال:قال رسول اللہ ﷺ:یقول اللہ عز وجل:”انا عند ظن عبدي بي۔“ (سنن الترمذی، کتاب الدعوات، باب فی حسن الظن باللہ عز و جل)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کہتا ہے: میں اپنے بندے کے میرے ساتھ گمان کے مطابق ہوتا ہوں۔
اگر آپ اللہ کو راضی کرنے میں شب و روز عبادت کرتے ہیں، لیکن آپ خود اللہ سے نا راض ہیں، تو آپ کا اللہ کے ساتھ معاملہ کے مطابق اللہ کبھی بھی راضی نہیں ہوگا۔ 
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا مشہور مقولہ ہے کہ ”تم اللہ سے راضی ہوجاؤ تو اللہ بھی تم سے راضی ہوجائے گااور جو حقو ق اللہ ہیں، انھیں ادا کرو۔ کیا تم نے اللہ کا قول نہیں سنا ہے کہ ”اللہ ان سے راضی ہوگئے اور لوگ بھی اللہ سے راضی ہوگئے (التوبہ، ۰۰۱)۔ حضرت محمد ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ ایک عالم سے سوال کیا گیا کہ اہل رضا کا مقام کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ تو عالم نے جواب دیا کہ معرفت الٰہی سے۔ اور رضامعرفت کی ایک شاخ ہے۔ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ ”رضا اللہ کا بڑا دروازہ، دنیا کی جنت، عبادت گذاروں کے لیے باعث تسکین اوراہل عشق کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ جس شخص کا دل مقدر کی رضا سے بھرا ہوا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو بے نیازی اور سکون سے لبریز کردیتے ہیں، اس کے دل کو اپنی محبت، رجوع اور توکل کے لیے خالص کردیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے راضی نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو پلٹ دیتا ہے اور سعادت و فلاح سے محرومی مقدر کردیتا ہے۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ”جو کوئی مقدرات الٰہی سے راضی ہوتا ہے،اسے اجر ملتا ہے، اور جو راضی نہیں ہوتا، اس کے اعمال صالحہ بھی ضائع ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ایمان کی تکمیل کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ہم خیرو شر کی تقدیر پر رضا کا اقرار کریں۔
درج بالا تمام حوالے سند ہیں کہ اگر آپ اللہ کو راضی کرنا چاہتے ہیں، تو اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ پہلے آپ خود اللہ سے راضی ہوجائیں۔ فرمان نبوی ضامن ہے کہ اگر آپ اللہ سے راضی ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ آپ سے ضرور راضی ہوجائے گا۔

24 Apr 2019

مولانا محمد اسلام مظاہری نور اللہ مرقدہ ( جون ۱۹۴۳ء۔ ۱۹؍ اپریل ۱۹۷۲ء ؁ بروز بدھ)

مولانا محمد اسلام مظاہری نور اللہ مرقدہ
( جون ۱۹۴۳ء۔ ۱۹؍ اپریل ۱۹۷۲ء ؁ بروز بدھ)محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ کے بعدجہازی اکابرین میں دوسرا بڑا نام مولانا محمد اسلام ساجد مظاہری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ محمد اسلام نام تھا، ساجدؔ تخلص کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ مظاہر علوم سہارنپور سے سند فراغت حاصل کی تھی، اس لیے اس نسبت سے کبھی مظاہری اور کبھی مظہری لکھا کرتے تھے۔ ان کے والد محترم کا نام جناب عبدالرحمٰن تھا، جو نصیرالدین عرف نسو کے فرزند تھے۔ نسو ابن پھیکو، ابن گھولی ابن دروگی تھے۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب نہ کسی کو معلوم ہے اور نہ ہی محفوظ ہے۔ دستیاب نسب نامہ کی تحریر پر ہر نام کے ساتھ شیخ یا مرڑ کا لاحقہ لگا ہوا ہے، جس سے پوری برادری شیخ کہلاتی ہے۔ گرچہ اس حوالے سے کوئی مستند معلومات نہیں ہیں، تاہم قبائلی روایت کو تسلیم کرتے ہوئے مولانا بھی شیخ برادری میں آتے ہیں۔مولانا مرحوم کی پیدائش اور تعلیمی معلومات کے حوالے سے ان کی ایک تحریر موجود ہے، جو انھوں نے ’’حرف آخر ‘‘ نامی کتاب کے شروع میں تعارف کے عنوان سے لکھا ہے ۔ اس تحریر کو من و عن یہاں پیش کیا جارہا ہے: نام: محمد اسلام ساجدؔ پتہ: مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ، ڈاک خانہ اعظم پکڑیا، تھانہ پتھر گاماں، ضلع دمکا بہارتاریخ پیدائش: ماہ جمادی الثانیہ۱۳۶۲ھ، (مطابق جون ۱۹۴۳ء) میں ولادت ہوئی، تاریخ متعین نہ کی جاسکی۔ تعلیم: غالبا ۱۳۶۶ء (مطابق۱۹۴۷ء) سے طفل مکتب بنا۔ ۱۳۷۹ء (مطابق ۱۹۵۹ء) تک مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں تعلیم شرح جامی، کنز الدقائق، اصول الشاشی تک حاصل کی۔ شوال ۱۳۷۹ھ (مطابق مارچ ۱۹۶۰ء) میں مظاہر علوم سہارنپور، بتکمیل تعلیم پہنچا۔ شعبان ۱۳۸۴ھ( مطابق دسمبر ۱۹۶۴ء) فراغت (مدرسہ مذکور سے ) پائی۔ پیشہ: آبائی پیشہ کاشتکاری ہے۔ والد ماجد کے ذمہ ایک ایکڑ چند ڈسمل زمین کاشت ہے۔ فراغت کے بعد مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں بحیثیت مدرس چہارم کام کرنا شروع کیا۔ نوٹ: دنیا مجھے اسلام کے نام سے جانتی ہے۔ گھر، گاوں، مدرسہ، حتیٰ کہ مظاہر علوم سہارنپور میں بھی ’’محمد اسلام دمکوی ہی تھا۔ ساجدؔ ۔مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ میں درجہ سوم تک کی کتابوں کی تدریس وابستہ کی گئی۔ نور الایضاح،قدوری،میزان و منشعب، نحومیر، گلستاں اور بوستاں کا درس بہت زیادہ مقبول تھا۔ تا دم وفات تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ میں ایک استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ناظمدارالاقامہ بھی تھے، جس کے ذریعے بچوں کی تربیت پر خاص نگاہ رکھتے تھے ۔ مطبخ کی ذمہ داری بھی وابستہ تھی، جس سے تہذیبی و سماجی تربیت پر بھی خصوصی توجہ فرماتے تھے۔ان تمام ذمہ داریوں کے ساتھ وہ ایک باکمال خطیب بھی تھے اور جمعہ کے دن جامع مسجد میں خصوصیت کے ساتھ خطاب فرمایا کرتے تھے۔ وہ کم گو تھے، لیکن طبیعت میں ظرافت تھی۔ساتھ ہی وہ قابل تقلید اخلاق کے بھی مالک تھے۔نرم خوئی ان کی خاص صفت تھی، اس لیے مدرسے کے بچے آپ سے بہت زیادہ بے تکلف رہا کرتے تھے۔ تدریس سے فراغت کے بعد بالعموم تحریر و کتابت میں مصروف رہتے تھے۔اور کئی کتابیں ان کی علمی وراثت کی یادگار ہیں۔ گاؤں میں دو بڑے سیلاب کے حادثے، وارثین کی نااہلی اور کتابوں کے تعلق سے بے حسی کی وجہ سے مولانا مرحوم کی ذاتی لائبریری فنا کے حوالے ہوگئی، تاہم ان حوادث کے باوجود جو سرمایہ محفوظ رہا ہے، اس میں مولانا کے کتابوں کا کچھ مسودہ موجود ہے، جس کا تعارف پیش ہے۔
۱۔ دل کی راہ سےاس کتاب میں اخباری تراشے ہیں ، تراشوں میں چھپے مضامین اور خبروں پر تبصرے کیے گئے ہیں ، جس میں مولانا ؒ نے حالات حاضرہ پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے ، اپنی قیمتی رائے پیش کی ہے ۔ اپنے وقت کا سب سے مشہور اور معیاری اخبار الجمعیۃ کے مضامین بکثرت موجود ہیں۔ جا بجا منظر کشی کے لیے لائنوں کے خاکے بھی بنے ہوئے ہیں، جس میں اشارے اورطنز و مزاح پائے جاتے ہیں۔ اس کا مسودہ اب تک راقم الحروف کے پاس محفوظ ہے۔۲۔اشعار برجستہاس میں مولانا مرحوم نے اپنی یاد داشت کی بنیاد پر ایک سو تین مختلف عناوین پر بڑے بڑے شاعروں کے شعروں کاانتخاب پیش کیا ہے۔اس کا پورا مسودہ صحیح و سالم ملا۔ الحمد اللہ اس کی کمپوزنگ بھی مکمل ہوگئی ہے اور عن قریب چھپ کر منظر عام پر آجائے گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ۳۔ حرف آخراس کتاب میں مولانا مرحوم نے مختلف ممالک کا نقشہ پیش کیا ہے ۔ اور قدیم و جدید جغرافیائی حدود پر عالمانہ و محققانہ بحث کی ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ جہاں تحقیق و مراجع کا کوئی جدید ذریعہ موجود نہیں تھا، اور معلومات کا کوئی بھی فاسٹ وسائل مہیا نہیں تھے، ایسے بے سروسامانی کے عالم میں اتنا تحقیقی کام کیسے کیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے مسودے میں صرف تین چار صفحات ہی دستیاب ہوسکے۔اور سر دست وہ بھی ناقابل استفادہ ہوچکے ہیں۔ ۴۔ فیض القدیر لمولانا امیرؒ مظاہر علوم سہارنپور کے استاذ حدیث حضرت مولانا امیر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ ترمذی کا درس دیا کرتے تھے۔ مولانا محمد اسلام صاحب نے درس کی تقریر قلم بند کی ہے۔ راقم کے پاس جو کاپی موجود ہے، اس میں کتاب السیر کے باب ما جاء فی الطیرۃ تک کی تقریر موجود ہے۔ اور مسودہ پر پانی نے اپنے اثرات چھوڑے ہیں، لیکن بہ مشکل اسے پڑھا جاسکتا ہے۔ اور اسے شائع بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسلوب تحریرمولانا مرحوم نور اللہ مرقدہ بہت ہی سادہ اور سلیس نثر لکھتے تھے ،جس میں انشا نگاری کا عکس جھلکتا تھا۔ اسلوب میں رنگینی فکر غالب تھی اور کسی بات کو دلچسپ پیرایہ میں بیان کرنے کے ہنر میں کمال رکھتے تھے ۔ ان کے اسلوب کا اندازہ لگانے کے لیے اس اقتباس کو ملاحظہ فرمائیں: جمعہ کی رات(شب اول) سہانی، خوشگوار پرفضا چاند کی کوثر تسنیم میں دہلی ہوئی چاندنی اور اس پرہولے ہولے جھکولے کھاتی ہوا، کتنا پرسکون ہوتا ہے اور پھر اس پر سونے پر سہاگہ کیوں نہ ہوجائے، جب کہ ایسی حالت میں دوست اور یار غار آجائے!۔ا س پر فضا ماحول میں ہم بیٹھے ہوئے تھے، بعد نماز مغرب کے آدھ گھنٹے گفتگو میں گذر جانے کے بعد اچانک دروازے کی جانب سے السلام علیکم کی آواز آئی۔ سر اٹھا کر دیکھا، آواز جانی پہچانی تھی۔ خوشی دوبالا ہوگئی۔ رات گفتگو میں گذری۔صبح کو بعد ناشتہ جب مہمان اپنے میزبان کے ساتھ تنہا تھے، نہایت سنجیدگی کے ساتھ یہ بات پیش کی: ’’مولوی اسلام! آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں، اکثر چاہا، مگر بھول جاتا ہوں۔ ابھی پھر خیال آیا، دیکھیے آج ہماری، آپ کی اور نہ جانے کتنے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ نہ وہ گھر کا گنا جاتا ہے اور نہ باہر کا۔ اور ان میں سے اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں، جو مدارس نظامیہ سے تعلیم حاصل کرکے آتے ہیں اور معمولی سی تنخواہ میں بچوں کو تعلیم دینا شروع کردیتے ہیں۔ اول پیسے کی کمی۔ دوئم وقت سے فراغت کم ہونے کی وجہ سے وہ گھر کے کسی اور کام کو انجام دے نہیں پاتا۔ اور گھر سے ایک قسم کی بے تعلقی ہوجاتی ہے۔ اور پھر گھر والے اس کو علاحدہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا گھاٹ کا‘‘ والی مثال ہوجاتی ہے۔ ایسے عالم میں وہ جاہل مزدور سے بھی گیا گذرا ہوجاتا ہے، جو روزانہ کم از کم دو سیر مزدوری کرلیتا ہے۔ لوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنستے ہیں اور تماشائی بنتے ہیں۔آج ہمیں ضرورت ہے کہ ایک ایسی انجمن ہو، جس کی کچھ مالی حیثیت ہو اور وہ ایسے لوگوں نیز اور دوسرے غربا و مفلسوں کی وقتی امداد کرسکے اور جب فراغت ہوجائے، وہ شخص اس قرض حسنہ کو ادا کردے۔ میں اس چیز کی اہمیت کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ تم کیا کہتے ہو؟؟!‘‘۔اور محمد اسلام نے اپنے دوست کو اپنا دلی ترجمان دیکھ ہاں کہہ کر اپنا وہ منصوبہ پیش کردیا جو ایک مدت سے اپنے دل میں پال رکھا تھا۔ اور۔۔۔ اسی وقت ان دونوں ’’میزبان اور مہمان‘‘ نے ایک انجمن کی داغ بیل ڈال دی! خدا کرے ان دو دوستوں کی دلی تمنا پوری ہو۔ اور دونوں کی کوشش بار آور ہو!!!!۔ملی کارنامےتصنیف و تالیف اور خطابت کے علاوہ مولانا ملی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے تھے ۔ اور سماجی مسائل کے حل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا کرتے تھے۔ علاقہ میں بے پناہ غربت کے پیش نظر ملی و سماجی کاموں کو سہارا دینے کے لیے مولانا نے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسے ’’تنظیم ملت‘‘ کا نام دیا۔ اس میں لوگوں کو جوڑ کر ملت کے وہ تمام کام انجام دیتے تھے، جو وقت کی ضرورت ہوتی تھی، جو بالیقین مولانا مرحوم کی ملی خدمات پر شاہد عدل ہیں۔ مولانا کے شاگردمولانا مرحوم نور اللہ مرقدہ تقریبا آٹھ سال تک مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے استاذ رہے۔ درجہ سوم تک تعلیم تھی، آپ سے سبھی درجات کی کتابیں متعلق تھیں، اس لیے آپ کے بہت سے شاگرد تھے، چند مشہور شاگردوں کے نام یہ ہیں: مولانا محمد یونس صاحب کیتھپورہ، محمد اسلام، فیض الرحمان، محمد عرفان، محمد فاروق رجون، حافظ ظفیر الدین، رحمت علی تلوائی، شوکت علی مرنئی، محمد اکرام الحق صاحبان۔حادثہ فاجعہ مولانا کا شب و روز درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں گذر رہا تھا کہ اچانک مولانا مرحوم کو پہلے سردی والا بخار آیا، جو رفتہ رفتہ میعادی بخار میں تبدیل ہوگیا۔گاؤں کے ڈاکٹر جناب ثمیر الدین صاحب نے علاج شروع کیا، لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، جس کے پیش نظر جھپنیاں کے ڈاکٹراکرام صاحب سے رجوع کیا گیا، لیکن یہاں بھی کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ صلاح و مشورہ کے بعد یہ طے کیا گیا کہ حکیمی علاج شروع کیا جائے، چنانچہ گاؤں کے حکیم جناب محمد حسین مرحوم نے علاج شروع کیا، لیکن یہاں بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آیا، بالآخر علاقے کے سب سے مشہور ڈاکٹر جناب شہید پچوا قطعہ سے رابطہ کیا گیا۔ انھوں نے خصوصی توجہ کے ساتھ تقریبا بارہ تیرہ ایام تک علاج کیا اور اپنے گھر پر ہی اپنی نگرانی میں رکھا، لیکن مرضی مولیٰ برہمہ اولیٰ ہوتا ہے، اس لیے اس بیماری سے وہ جاں بر نہ ہوسکے اور داعی اجل کو لبیک کہہ کر واصل بحق ہوگئے۔والد محترم کی ملی ایک تحریر کے مطابق تاریخ وفات ۱۹؍ اپریل ۱۹۷۲ء ؁ بروز بدھ تقریبا دو بجے دن ہے۔ اس کے اگلے دن آبائی قبرستان جہاز قطعہ میں تدفین عمل میں آئی۔ پسماندگان میں ایک لڑکا جناب محمد اطہر اور ایک لڑکی مَسُودہ (مسعودہ) خاتون ہے ، جو تا دم تحریر با حیات اور صاحب اولاد ہیں۔ ان کے انتقال کے وقت لڑکی ابھی کچھ ہی مہینوں کی تھی اور بڑی اولاد لڑکے کی عمر کچھ سال کی تھی۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردو س میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، آمین۔

12 Apr 2019

Meri Aankhen Faqa Kash hin

اک چھوٹا سا وہ لمحہ، جو کاٹے نہیں کٹتا
میری آنکھیں فاقہ کش ہیں 

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

سماجیات کے ماہرین انسان اور جانور میں ایک فرق یہ بھی بتاتے ہیں کہ جانور صرف جھنڈ بناتا ہے، خاندان اور معاشرہ نہیں، جب کہ یہ دونوں خصوصیات انسان کے ساتھ مخصوص ہیں اور اسی وجہ سے اسے ’’سماجی حیوان‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔ 
سماج و معاشرہ میں زندگی گذارنے کے رجحانات کے لیے ایک اور دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ انسان کے خمیر میں انسیت کا عنصر شامل ہے اور انسیت سوشل لائف گذارنے کی محرک ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جرم کرنے والوں کو سماجی بائکاٹ اور قید تنہائی کی سزا دی جاتی ہے۔ 
تعلیمی و معاشی ؛ یہ دو ضرورتیں ایسی ہیں، جن کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان سماج و معاشرہ میں رہنے کے باوجود بائکاٹ اور تنہائی کی مجرمانہ قید میں زندگی گذار رہا ہے۔ناچیز جب علم و معرفت کے لیے محو سفر ہوا، تو لاشعوری عہد تھا ۔ تحصیل علم کے مکمل دس برس کے بعد خیال آیا کہ والدین اور اپنے سماج سے اتنے طویل عرصے الگ تھلگ رہنے کے بعد اب اپنے سماج میں اور والدین کے زیر سایہ عاطفت زندگی گذارنی چاہیے؛ لیکن تعلیمی مجبوری کی طرح معاشی مجبوری نے اتنا موقع ہی نہیں دیاکہ اس تجویز پر عمل درآمد کرسکوں۔ اور اس طرح سے تقریباچھ سال کا عرصہ بھی غریب الوطنی کی نذر ہوگیا۔ 
اس کے بعد زندگی میں ایک نجی معاشرتی ذمہ داری کا اضافہ ہوا اور جدائی کے غم میں شریک غم یعنی بیگم بھی شریک ہوگئی۔ پہلے صرف والدین اور معاشرے سے جدائی کا غم تھا ، اب یہ تیسرا غم بھی پابہ رکاب ہوگیا۔ کافی کوشش کی کہ معاشرہ اور والدین نہ سہی، تودنیاوی دستور اور تقاضہ فطرت کے تحت کم از کم شریک زندگی کو ہی ساتھ رکھ لیں؛ لیکن یہ کوشش تا ہنوز بار آور نہیں ہوپائی؛ حتیٰ کہ تا حال دو اورایسے وجود کا اضافہ ہوگیا، جن کی آنکھیں میری دید کے لیے اور میری آنکھیں ان کے دیدار کے لیے مضطرب رہتی ہیں؛ لیکن نوشتہ تقدیر شاید یہی ہے کہ ناچیز سے منسوب ہر آنکھوں کے لیے فاقہ کشی مقدر ہوچکی ہے۔
زمانہ طالب علمی میں چھٹی کا تصور مژدہ جاں فزا ہوا کرتا تھا۔ جمعرات آنے سے ایک دو روز قبل ہی رخصت کی فرحت کا احساس شروع ہوجایا کرتا تھا۔ شب و روز درس و تدریس کے دورانیہ کے تسلسل سے جب آزادی ملتی تھی، تو ایسا لگتا تھا کہ خوشی کا کوئی خزانہ ہاتھ آگیا ہے؛ لیکن جب سے جمعرات اتوار میں تبدیل ہوگئی ہے اور اقتصادی زندگی کا آغاز ہوا ہے، تب سے یہ احساس بالکل برعکس کیفیت پیدا کرتا ہے۔ اس زندگی میں چھٹی کا دن آتے ہی خوفناک تنہائی ستانے لگتی ہے۔ روز مرہ کے معمولات کا تسلسل ٹھہرتا ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے نبض حیات ٹھہر گئی ہو۔ آفس اور کمرے کے درودیوار بھی سناٹے کے مجسمے نظر آتے ہیں۔ حالاں کہ ہر روز وہی آفس اور وہی کرسی ہوتی ہے، لیکن چھٹے کے دن آفس آنے سے ایسا لگتا ہے کہ کرسی اور آفس دونوں ہمارے نوشتہ تقدیر پر ہنس رہے ہوں، جس کی برداشت کی تاب نہ لاکر باہر چلا جاتا ہوں، جہاں ہمیں ہزاروں چہرے نظر آتے ہیں، لیکن ان کے بیچ بھی اکیلا پن کی کیفیت دور نہیں ہوتی، کیوں کہ ان ہزاروں چہروں میں ایک بھی چہرہ شناسائی کا چہرہ نہیں ہوتا ہے۔ ؂ 
آئینہ کے سو ٹکڑے کرکے ہم نے دیکھے ہیں
ایک میں بھی تنہا تھے، سو میں بھی اکیلے ہیں 
اس دن کا چھوٹا لمحہ بھی صدیاں بتانے جیسا لگتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ جائز و ناجائز کے تصور سے محروم افراد تنہائی میں تفریح طبع کے لیے گانوں ، فلموں، لیونگ ان ریلیشن شپ، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ،کلچرل پروگرام وغیرہ کو ضروریات زندگی میں شمار کرتے ہیں اور غریب الوطنی میں وقت گذارنے کا بہترین ذریعہ حیات سمجھتے ہیں۔ 
حصول تعلیم کے تحت اپنے گھر معاشرے سے دور رہناایک ایسی وجہ ہے، جو سنہرے مستقبل کی ضامن ہے، لیکن معاشی اور ملازمت کی مجبوری کے تحت زندگی کو تنہائی کی سزا دینا انسان کے خمیر انسیت اور سماجی فطرت کے خلاف ہے ، اس لیے یہاں چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں، جن کو عملہ جامہ پہناکر فطری سماجی زندگی گذار سکتے ہیں: 
(۱) تعلیم کے بعد ملازمت کے بجائے تجارت کو ذریعہ معاش بنانے کی کوشش کریں۔
(۲) سرمایہ یا تجربہ ، یا اور کسی مجبوری کی وجہ سے تجارت کرنا ممکن نہ ہو، تو صلاحیت کے مطابق قرب و جوار میں جوب تلاش کریں۔
(۳) آپ کی صلاحیت کے اعتبار سے گاوں معاشرے کے قریب ملازمت نہ ملے، تو دوردراز بھی ملازمت کرنے سے گریزاں نہیں ہونا چاہیے، البتہ ایسی صورت میں درج ذیل مقاصد کو فراموش نہ کریں: 
(الف) اگر مستحکم ملازمت ہے، تو وطن ملازمت کو ہی وطن اصلی بنالیں۔ 
(ب) بصورت دیگروطن ملازمت کو فیملی کے لیے بھی وطن اقامت بنائیں۔
(۴) اگر درج بالا دونوں صورتیں ممکن نہ ہوں، جس کی بنیادی وجہ ’’کم تنخواہ‘‘ ہوسکتی ہے، تو وطن اصلی آمد و رفت کرنے کی تعداد بڑھادیں، جو شرعی اعتبار سے ایک سال میں کم از کم تین مرتبہ ہے، یعنی ہر چار ماہ کے اندر ایک مرتبہ والدین کی زیارت اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ضرور سفر کریں۔ 
(۵) اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو، جس کے تین بنیادی اسباب ہوسکتے ہیں، یعنی کم تنخواہ، کم رخصت، یا پھر موقع بہ موقع کام کا اضافی بوجھ، تو ایسی صورت میں ناچیز کا مشورہ یہ ہے کہ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے ملازمت، چھوٹنے، تنخواہ کٹنے اور اس جیسے اندیشے سے باہر آکر دل اور ارادے کو مضبوط رکھیں اور حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے تھوڑی بہت آگے پیچھے کرکے اپنا کام نکالنے کی کوشش کریں۔ یاد رہے کہ حکمت عملی اور آگے پیچھے کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ضمیر فروشی اور خصیہ برداری تک گر جائیں؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آمدو رفت کے دورانیہ میں کم و بیشی سے کام چلائیں۔ 
(۶) اس موقع پر ، مدارس کے مہتمم، مساجد کے ذمہ داران، اداروں کے نگراں اور کمپنیوں کے مالکان سے بھی یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ اپنے ملازمین کے ساتھ اسلامی تعلیمات و ہدایات کے مطابق معاملہ کریں، انھیں سیلری نہیں؛ بلکہ اپنی ضروریات کی طرح تن خواہ دیں، ان کی گھریلو ضروریات ، فیملی کی خواہشات اور عید و تہوار جیسے مواقع پر چھٹی، تحفہ وغیرہ کا خصوصی خیال رکھیں۔ اور یہ بھی خیال رکھیں کہ آپ کی زندگی کو کامیاب و شاندار بنانے میں آپ کے ملازم کا خون پسینہ بھی شامل ہے، اس لیے اس کے خونی رشتوں کے ساتھ کچھ لمحات گذارنے اور فیملی کے لیے پسینہ بہانے کے لیے مواقع فراہم کرنا آپ کا دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلنا آسان فرمائے، اور اپنے ملازمین کے حقوق و ضروریا ت کا خاص خیال رکھنے کی توفیق ارزانی کرے، آمین۔ 

5 Apr 2019

Dustbin of knowledge

معلومات کا ڈسٹبن

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

سوشل میڈیا کے ایزی ایکسس کی وجہ سے آج ہر شخص واٹس ایپ کالج اور فیس بک یونی ورسٹی میں داخل ہوکراپنے مبلغ فکر کے اعتبار سے گیان بانٹنے اور بٹورنے کوپیدائشی حق سمجھ رہا ہے۔چوں کہ یہاں معلومات کو فلٹر کرنے، یا صحیح یا غلط بتانے والا کوئی استاذ نہیں ہوتا، اس لیے ضروری، غیر ضروری، یا درست اور غلط میں تفریق کیے بغیر ہر قسم کی معلومات ہمارے دماغ میں بھر جاتی ہیں۔ اور ہمارا حافظہ خانہ معلومات کا ڈسٹبن بن جاتا ہے۔ 
ایک مسیج آتا ہے کہ جو شخص رمضان کی آمد کی سب سے پہلے اطلاع دے گا، وہ ایک سال پہلے جنت میں جائے گا۔ اس مسیج میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ایسا حدیث میں کہا گیا ہے۔ 
ایک ایسا ویڈیو آتا ہے،جس میں خزاں سے متاثر ایک درخت سے بڑا ناگ لپٹا ہوا ہے، اور ساتھ میں آواز آتی ہے کہ جو شخص اس ویڈیو کو دس گروپ میں نہیں بھیجے گا تو اسے سخت نقصان پہنچے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایک صاحب نے اسے جھوٹ سمجھ کر ڈیلیٹ کردیا اور آگے فارورڈ نہیں کیا تو اس کا بیٹا مرگیا ۔ 
ایک آڈیو آتا ہے کہ مدینہ کے شیخ نے ایک خواب دیکھا کہ اس آڈیوکو دس گروپ میں بھیجنے والے کو رسول اللہ ﷺ کی زیارت نصیب ہوگی۔ اور جو نہیں بھیجے گا وہ ایمان سے محروم ہوجائے گا۔ 
مکہ کے شیخ کا فرمان لکھا ہوا ٹیکسٹ آتا ہے کہ رسول اللہ نے انھیں پابند کیا ہے کہ بیس گروپ میں اس بات کو پھیلادو ، نہیں تو روز قیامت میری شفاعت سے محروم رہو گے۔ 
ایک شخص یہ پوسٹ وائرل کرتا ہے کہ جو کوئی شب براتمیں روزہ رکھے گا، تو ایک سال تک روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا ۔ اور جو کوئی اس مسیج کو آگے بھیجے گا، تواس کو دو سال تک روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ 
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو تین سال پہلے ایک بچہ لاپتہ ہوگیا تھا، جس کو تلاش کرنے کی خبر پر مشتمل کوئی امیج بنائی گئی تھی۔ دو تین سال بعد کسی نے ایک شخص کو کسی گروپ میں شامل کردیا ، تو اب وہ شخص قدیم و جدید خبر کی تصدیق کیے بغیر لگاتار اسے فارورڈ کرتا رہتا ہے اور اپیل بھی کرتا ہے کہ اسے سارے گروپ میں شئیر کریں، تاکہ کسی کو اپنا گم کردہ لعل مل سکے۔ 
ایک مقرر نے کسی خاص پس منظر میں کوئی تقریر کی تھی۔ کئی سالوں بعد ایک شخص واٹس ایپ کالج میں نیا نیا داخلہ لیتا ہے، تو وہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ تقریر حال کی ہے اور اسے آگے بھیجنا ہمارے اوپر فرض ہے۔ 
کہیں گستاخانہ حرکت کی جاتی ہے، تو اس سے باز رہنے یا اس پر لعنت بھیجنے کے لیے ایسے مسیج کواتنا فارورڈ کیا جاتا ہے کہ جتنا تخلیقی سورس سے گستاخی نہیں پھیلتی، اس سے کہیں زیادہ لعنت بھیجنے کی اپیل سے گستاخی پھیل جاتی ہے۔
سالوں پہلے کہیں ٹرین حادثہ ہوا تھا، جس کی تصویریں وائرل ہوئی تھیں۔ ایک نیا شخص یا فارورڈ کے شوقین ان کو سالوں بعد شئیر کرنے کو نیک کام سمجھتا ہے ، جس سے یہ گمراہی پھیلتی ہے کہ شاید یہ کوئی نیا حادثہ پیش آگیا ہے ۔ یا کوئی نیا حادثہ پیش آتا ہے، تو لوگ اول مرحلہ میں یہ سمجھنے پر آمادہ ہوتے ہیں کہ شاید یہ کوئی پرانہ حادثہ ہو۔ 
ایک شخص دنگا فساد برپا کرنے کے مقصد سے جان بوجھ کر تاریخی حقائق سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے اور اسے فرقہ وارانہ ذہنیت کے ساتھ پیش کرتا ہے، جس سے قاری یا تو متعصب بن جائے یا نفرت کے پجاری۔ تاریخ سے نا انجان فیس بکیہ اور واٹس ایپیہ ایسے پیغامات سے بہت جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور اپنے دماغ میں غلط معلومات بھر لیتے ہیں۔
کچھ پیغامات کی تمہید میں لکھا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان ہو تو شئیر کرو۔ ۔۔۔ اگر نبی کے سچے عاشق ہو، تو اسے آگے بھیجو۔ کوئی کافر ہی ہوگا، جس اس تصویر کو لائک یا شئیر نہیں کرے گا۔ ۔۔۔ تجھے قسم ہے رب کعبہ کی ، اس مسیج کو ضرور آگے بھیجنا ، وغیرہ وغیرہ۔
یہ جو کچھ بھی پیش کیا گیا ہے، ’’مشتے نمونے از خروارے‘‘ ہے۔ اس قسم کے لاتعداد مسیج اور معلومات اسکرین کے توسط سے ہم تک پہنچتی ہیں ۔ اور ہمارا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی طرح کی تحقیق کیے بغیر ہم سبھی معلومات کو اپنے دماغ میں جگہ دے رہے ہیں، جس سے ہمارا دماغ حافظہ خانہ نہیں، بلکہ معلومات کے کچرے کا ڈبہ بن جاتا ہے۔ جس سے برین واش ضروری ہے۔
اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ احادیث کی کتابوں میں متن احادیث کے ساتھ ساتھ سندیں بھی ہوتی ہیں۔ سند کا سلسلہ نبی اکرم ﷺ تک ملنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر متن حدیث کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ سند کی ضرورت و اہمیت بتاتے ہوئے حضرت عبد اللہ ابن المبارک فرماتے ہیں کہ ’’ سند بھی دین کا حصہ ہے، کیوں کہ اگر سند نہ ہوتی، تو جس کے جی میں جو آتا، وہ کہہ دیتا کہ یہ رسول اللہ کا فرمان ہے۔ اور پھر ہر شخص اپنے مفاد کی بات کو آگے رکھنے کے لیے رسول اللہ کا فرمان گھڑ لیتا اور ذخیرہ احادیث شکو ک و شبہات اور تحریفات کا پلندہ بن کر رہ جاتے۔ 
الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّینِ، وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ۔( مقدمۃ الإمام مسلم رحمہ اللہ، بَابُ في أَنَّ الْإِسْنَادَ مِنَ الدِّینِ)
اس سے بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی بلا سند بات مان لینا اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہے۔ 
آج سوشل میڈیاجھوٹ ، جعلی خبروں اور افواہوں کو پھیلانے کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن چکا ہے ، اس لیے کوئی بھی بات خواہ وہ قرآن و احادیث کے حوالے سے ہی کیوں نہ کہی گئی ہو ، بلا تحقیق اس کو اپنے دماغ میں محفوظ رکھنا اور اس کو پھیلانا ، خود اپنی نگاہ میں جھوٹا اور بے اعتبار ہونے کے لیے کافی ہے ۔ ایسے ہی مواقع کے لیے نبی اکرم ﷺ کی ہدایت موجود ہے کہ 
کَفی بِالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔(مقدمۃالإمام مسلم رحمہ اللہ بَابُ النّھْيِ عَنِ الْحَدیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ)
انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی باتوں کو دوسروں کے سامنے بیان کردے۔ 
یاد رکھیے کہ ہماری ایک جعلی اور جھوٹی معلومات بانٹنے یا بٹورنے سے ہماری جان بھی جاسکتی ہے۔ جان کیا چیز ہے، ہم ایمان سے بھی محروم ہوسکتے ہیں یا کرسکتے ہیں، جس کے باعث دنیوی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت بھی تباہ و برباد کرنے کے مجرم ٹھہریں گے۔ اس سے یہ سبق لینا ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے دماغ کو معلومات کا کچڑا دان نہ بنائیں اور صرف حقیقی ، مستند اور سچی معلومات کو ہی اپنے حافظہ کے نہاخانہ میں محفوظ رکھیں۔

29 Mar 2019

Gali dena ka Saheeh Tareeqa Daryaft

گالی دینے کا صحیح طریقہ دریافت
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
انسان تو انسان ؛ اور جانور بھی بہت دور کی بات ہے؛ چھوٹے موٹے موذی کیڑے؛ آپ کو کاٹ بھی لیں، تو بھی اسلامی تعلیمات اسے برا بھلا کہنے اور گالی دینے کی اجازت نہیں دیتیں۔ ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی محفل میں ایک شخص کو مچھر نے کاٹ لیا تو وہ اس پر لعنت بھیجنے لگا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مچھر کو گالی مت دو،کیوں کہ اس نے ایک نبی کو نماز فجر کے لیے جگایا تھا۔ 
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالکٍ، أَنَّ رَجُلًا لَعَنَ بُرْغُوثًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:لَا تَلْعَنْہُ، فَإِنّہُ أَیْقَظَ نَبِیًّا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ لِلصَّلَاۃِ۔ (الادب المفرد، باب لاتسبوا البرغوث، قال الشیخ الالبانی: ضعیف)
ایک دوسری حدیث میں مرغے کو گالی دینے پر تنبیہہ کی گئی ہے ارشاد نبوی ہے کہ مرغے کو گالی مت دو، کیوں کہ وہ نماز کی دعوت دیتا ہے۔ 
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’لَا تَسُبُّوا الدِّیکَ فَإِنَّہُ یَدْعُو إِلَیٰ الصَّلَاۃِ۔ (مسند ابی داؤد الطیالسی، باب اسند عن زید بن خالد)
مچھر، مرغ تو ذی روح مخلوق ہیں؛ نبوی تعلیمات غیر ذی روح کو بھی گالی دینے سے منع کرتی ہیں۔ چنانچہ حدیث قدسی ہے کہ زمانہ کو برا بھلا مت کہو ، کیوں کہ زمانہ تو میں ہی ہوں۔ ہوا کو گالی مت دو ، کیوں کہ وہ اللہ کے حکم سے چلتی ہے۔ 
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ: یُؤْذِینِي ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدّھْرَ وَأَنَا الدَّھْرُ، بِیَدِي الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنّھَارَ۔(بخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب: وما یھلکنا الا الدھر الجاثیۃ، ۲۴)
لا تَسُبُّوا الرِّیحَ ۔ (الترمذی، ابواب الفتن،باب ما جاء فی النھی عب سب الریح)
ان تعلیمات سے یہ واضح ہوگیا کہ زبان سے گندے الفاظ نکالنا، اور غیر ذی روح کو بھی گالی دینا اسلامی اخلاق و تعلیم کے منافی ہے۔ اور جب ان چیزوں کے ساتھ معاملہ ایسا ہے، تو پھر انسان ، جس کی توقیر و تعظیم ضروری ہے، اسے گالی دینا شرافت و نجابت سے گری ہوئی بے شعور ذہنیت کی ہی اپج ہوسکتی ہے۔ 
ان تعلیمات کے باوجود ہم کبھی کبھار اس بے شعور ذہنیت کے عملی مجسمہ بن جاتے ہیں ، اور اپنی زبان سے ان تمام گندگیوں کو گذار دیتے ہیں، جن کا تصور بھی تعفن خیز ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر گالی دینا ہماری فطرت بن جائے، تو ہم آپ کے لیے ایک نایاب فارمولہ لائے ہیں۔ ہمارا عندیہ ہے کہ اگر اس فارمولہ پر عمل کریں گے، تو بالیقین گالی دینا ، آپ کے لیے عذاب جان بن جائے گا اور آپ ایسی توبہ کرلیں گے کہ اس تو بہ کی تقلید کرنے والے کی بھی گالی دینے کی فطری عادت بدل جائے گی ۔
ڈاکٹر کلیم عاجز نے ہمیں سکھایا ہے کہ 
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کرنے کا سلیقہ چاہیے
تواس کا فارمولہ یہ ہے کہ گالی کے کسی بھی لفظ سے پہلے، ’’تیری‘‘ کے بجائے ’’ میری ‘‘ لگاکر گالی دیا کریں۔ 
ہمیں امید ہی نہیں؛ یقین ہے کہ گالی دینے کا یہ نایاب طریقہ آپ کی فطرت بدل کر رکھ دے گا۔ اگر ہمیں گالی دینے کی عادت ہے، تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس فارمولہ پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے، اللہم آمین یا رب۔

22 Mar 2019

رمضان میں ووٹنگ۔۔۔ کیا یہ سازش ہے؟ ایک ووٹ ستر ووٹوں کا کرشمہ بھی توکرسکتا ہے

حمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
بہانہ جواور ذمہ داری کی جواب دہی سے بے شعور فرد، اسی طرح فکری مفلوک قوموں کی ہر بے عملی اور ناکامی کے پیچھے غیروں کی سازش نظر آتی ہے۔ راقم نے جب سے ادراک سنبھالا ہے، تب سے یہی سنتا آیا ہے ؛ حتیٰ کہ مثبت اور تعمیری ایجادات میں بھی یہود و نصاریٰ کی سازش کا ہی عقیدہ رکھتے ہیں۔حقیقی واقعہ ہے کہ ایک مسجد کے صحن میں بیٹھا تھا، قریب میں دو عمر رسیدہ افراد محو گفتگو تھے ۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ وضو کے لیے بنائی گئی یہ ٹوٹیاں بھی یہودی سازش کی تخلیق ہیں، کیوں کہ اس سے لوٹے کی بنسبت پانی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ ادنی عقل و شعور کا حامل شخص بھی ایسی فکری دو رنگیوں کے مناظر سے اچنبھے میں پڑ جاتے ہیں کہ اگر سازش ہے، تو اس کا حصہ کیوں بنتے ہیں۔۔۔ ؟ کیا کسی یہودی نے آپ کو مجبور کیا تھا کہ اپنی مسجد میں آپ ٹوٹی لگائیں۔۔۔ ؟
آ ج کل مسلمانوں کا ایک طبقہ جوفیس بک یونی ور سیٹی اور واٹس ایپ کالجز سے بے سند یافتہ فضیلت کیے ہوئے ہیں، کا ماننا ہے کہ رمضان میں ووٹنگ در اصل بی جے پی ، آر ایس ایس اور ہندو راشٹر واد کے لیے کوشاں افراد کی تخریبی ذہنیت ہے۔ اس میں کتنی سچائی ہے، یہ کہنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ پارلیمنٹری الیکشن کے سسٹم اور تاریخی دورانیہ سے جو لوگ واقفیت رکھتے ہیں، وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ یہ سازش نہیں؛ بلکہ سسٹم کا میعادی دورانیہ ہے، جسے عام حالات میں آگے پیچھے نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے باوجود ، عام لوگ تو عام لوگ ہیں، خود کو موقر کہلانے والے کچھ اخبارات اس عنوان سے مستقل کالم اور مراسلہ لکھواکر مسلمانوں کے جذبات کی خدمت کے نام پر جو صفحات سیاہ کررہے ہیں، آپ اسے کیا کہیں گے۔۔۔ ؟ ۔
حالاں کہ اس موقع پر دیگر کئی اہم مسائل تھے، جنھیں اگرموضوع بحث بناکر خصوصی اشاعتیں کی جاتیں،تو بالیقین امت کو بڑا فائدہ ہوتا۔ مثلا ، رمضان میں مدارس میں چھٹیاں ہوتی ہیں اور اکثر اساتذہ سفارت کے سفر پر نکل جاتے ہیں۔ حفاظ کی بڑی تعداد تراویح کے لیے دوسری جگہوں پر رمضان گذارتے ہیں۔ حلقہ تصوف سے وابستہ افراد اپنے شیوخ کی خدمت میں اعتکاف کے لیے محو سفر ہوتے ہیں۔ ملازمت پیشہ افراد ، گھریلو، معاشی ، چھٹی اور دیگر ضروریات کی وجہ سے اپنے ووٹنگ بوتھ سے دور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور اس قسم کے کئی دیگر مسائل پر بحث و گفتگو کرکے اس کا مناسب حل نکالنے اور ووٹ ڈالنے کی مہم چلاتے، تو یہ زیادہ کارگر بحث ہوتی۔ ۔۔۔ لیکن کیا کریں، ہمارے کچھ وہ مسائل جن کا حل خود ہمارے پاس ہے، ان کے حل کرنے کی باتیں کریں گے، تو سماج کا مفکر طبقہ یہی کہے گا کہ ۔۔۔ارے یہ تو سازش ہے۔۔۔!!۔
راقم کا ماننا ہے کہ رمضان برکتوں کا پربہار موسم لاتا ہے۔ اس میں نوافل فرائض کے درجات حاصل کرلیتے ہیں ۔ اور ہر ایک فرض ستر فرضوں کا عوض بن جاتا ہے۔ تو بھلا کیا پتہ ۔۔۔رمضان میں ایک مسلمان کا ایک ووٹ ۔۔۔ سترووٹوں کا کرشمہ کرجائے ۔ اور اس طرح سے ظالم و جابر حکمراں سے آزاد ہونے کا خوب صورت موقع میسر آجائے۔ اس لیے ناچیز درخواست گذار ہے کہ کسی بھی مسئلے کو لے کر جذباتی ہونے سے پہلے غوروفکر کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ صحیح مسئلہ اور فیصلے پر ہمیں اکساکر ہماری غلط شبیہہ بنانے کی منظم سازش ہورہی ہے ۔ اور اس طرح سے ہم سازش سے پاک کام میں ہمیں غلط طور پر شامل کرکے ہمارے خلاف تو سازش نہیں کی جارہی ہے ۔ ۔۔۔ یہ سوچنا ضروری ہے کہ ۔۔۔کیوں کہ قرآن بارہا ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ۔۔۔افلا تدبرون۔۔۔ افلا تعقلون۔۔۔۔

15 Mar 2019

مجھے ایک ٹرانسلیٹر چاہیے:خفتہ بزرگ کی کرب آمیز اپیل


مزاروں پہ آویزاں مختلف زبانوں کے خطوط کو سمجھنے کے لیے بزرگ کی فریادمحمد یاسین جہازی
جب کوئی قوم فکری دیوالیہ پن کی شکار ہوجاتی ہے، تو چاہے فکرو دانش میں کتنی ہی لچرو پوچ حرکت کیوں نہ ہو، اسے جذباتیت کی تسکین اور ایمان کی تکمیل کا حصہ سمجھنے لگتی ہے۔ یہ حرکت اور اس کے پیچھے چھپے عقیدے ؛ اسلام کے نقطہ نظر سے دونوں غلط ہیں۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر ۷۳ میں ہے کہ و الذین اذا ذکروا بآیات ربھم لم یخروا علیھا صما و عمیانا۔ اور جب انھیں اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے، تو وہ ان پر بہرے اور اندھے بن کر نہیں گرتے۔ اس کی تفسیر میں صاحب تفسیر بغوی اور علامہ طنطاوی تفسیر وسیط میں لکھتے ہیں کہ مومنین کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ محض دین کی بات سن کر اندھے بہرے ہوکر تقلید نہیں کرتے، جب تک کہ وہ یہ نہ دیکھ لیں کہ ایا وہ عقلی طور پر بھی صحیح ہوسکتی ہے یا نہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں ہر کسی سے سنی ہوئی باتوں کو دین سمجھ کر اسے ایمان و تسلیم کا حصہ نہیں بنانا چاہیے ۔ اس میں خود بھی غور کرکے دیکھنا چاہیے کہ ایسی بات صحیح ہوسکتی ہے یا نہیں۔ ایک حدیث میں پیروکاران اسلام کے لیے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ۔ غیر ضروری چیزوں سے پرہیز مسلمان کے کردار کو خوب صورت بناتا ہے۔ اسلام کی ان تعلیمات کے جاننے کے بعدہمارے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ یوں تو زندگی میں ہم کئی لایعنی کام کرتے ہیں، جسے دیکھ کر ادنیٰ شعور و آگہی رکھنے والا فرد یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ’’ کیا یہی اسلام ہے!‘‘ ۔ ’’ کیا اسلام میں اس کی گنجائش ہوسکتی ہے!‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ ان میں سے ہمارا ایک کام یہ بھی ہے کہ ہم اپنی حاجت روائی کے لیے اللہ کے علاوہ بزرگ کے مزار پر بھی جاتے ہیں۔ اگر معاملہ صرف جانے تک رہتا تو بھی غنیمت تھی؛ لیکن ہم اس سے آگے کیا کرتے ہیں کہ اللہ سے مانگنے کے بجائے بابا بزرگ سے ہی مانگنے لگتے ہیں۔ چلو کسی حد تک مان لیتے ہیں کہ یہ بھی درست ہوسکتا ہے، لیکن غضب تو تب ڈھاتے ہیں، جب ہم اپنی فریادیں ایک کاغذ پر لکھ کر مزار کی دیوار پر لٹکا آتے ہیں۔ چلو اسے بھی مان لیتے ہیں کہ بابا کو جب فرصت ملے گی تو پڑھ کر ہماری حاجت روائی کردیں گے۔ لیکن بزرگ بابا آج تک حیران و پریشان ہے کہ ان چٹھیوں کو پڑھیں کیسے۔۔۔ ؟ کیوں کہ بھارت کی بات کریں، تو اکثر بابا بزرگ کے بارے میں یہی بتاتے ہیں کہ وہ عرب ایران توران سے آئے تھے، تو ان کی زبان تو عربی فارسی وغیرہ تھی، تو یہ بابا تو وہی خطوط پڑھ پائیں گے، جو عربی فارسی میں لکھے ہوئے ہوں۔ یا پھر ان زبانوں میں ہوں، جو زبان ان کے یہاں بھارت میں آبسنے کے وقت رائج تھی اور جو زبان انھوں نے سیکھی تھی۔ اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ اس وقت نہ تو آج کی اردو تھی، نہ ہندی تھی اور انگریزی تو تھی ہی نہیں۔ اور آج ہم جو خطوط بابا کو بھیج رہے ہیں، وہ زیادہ تر ہندی، اس سے کم انگریزی اور اس سے بھی کم اردو میں لکھ کر بھیج رہے ہیں۔ اور بابا ہیں کہ خطوط سمجھنے کے لیے ہی بہت پریشان ہیں ، انھیں کوئی ٹرانسلیٹر ہی نہیں مل رہا ہے ۔ تو جب بابا ہمارے خطوط ہی نہیں سمجھ پار ہے ہیں اور انھیں کوئی ٹرانسلیٹر بھی نہیں مل رہا ہے، تو بھلا بتائیے سہی ۔۔۔ بابا ہماری حاجت روائی کیسے کرے اور ہماری درخواستوں پر کیسے غور کرے۔۔۔۔ جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ بابا مزاری سے کی گئی ہماری کوئی بھی درخواست قبول ہی نہیں ہورہی ہے اور ہم آج بھی اتنے ہی پریشان ہیں، جتنے کہ درخواست بھیجنے سے پہلے تھے۔ اسلامی ہدایت کے مطابق حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس کے لیے علاوہ کسی اور کو ایسا سمجھنا کفرو شرک کے مترادف ہے، بھلا بتائیے جو انسان زندہ ہونے کی صورت میں ہر ایک کی ضرورت پوری نہیں کرسکتا اور نہ ہی ہر زبان پڑھ سکتا ہے، بھلا وہ مرنے کے بعد ، جب کہ خود کی حرکت کے لیے وہ دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔۔۔ ہماری حاجت روائی کیسے کرسکتا ہے۔۔۔ افلا تعقلون !!!!۔ x

8 Mar 2019

آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔

آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔
محمد یاسین جہازی، خادم جمعیۃ علماء ہند


ایک دوسرے کی دعوت کرتے رہنا ، اسلامی تعلیمات کا ایک اہم باب ہے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ سے جب دریافت کیا گیا کہ کونسا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے یہی جواب دیا کہ کھانا کھلانا بہترین اسلام ہے۔عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الإِسْلاَمِ خَیْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ۔ (صحیح البخاری،کتاب الایمان، باب اطعام الطعام من الاسلام)ایک مومن کی شان کرم و سخا یہی ہے کہ اپنی ضرورت و خواہش کے باوجود ضرورت مندوں کو کھانا کھلاتا ہے ۔ اور اس کے بدلے اس کا معاوضہ تو بہت دور کی بات ہے، شکریہ ادا کرنے کی بھی تمنا دل میں نہیں رکھتا ۔وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا ویَتِیمًا وَأَسِیرًا (8) إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لَا نُرِیدُ مِنکُمْ جَزَاءً وَلَا شُکُورًا (9)( سورۃ الانسان)کائنات عالم میں سب سے زیادہ سخی خود نبی اکرم ﷺ تھے، بعد ازاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا۔ اسی طرح ان حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت میں بھی ایک دوسرے کی دعوت کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ یوں تو دعوت کرنے کا کوئی وقت معتین نہیں ہے، آپ کا جب جی چاہے، کسی کی دعوت کرسکتے ہیں، اس کے باوجود زندگی کے کچھ اہم موڑ ایسے ہیں، جہاں اسلام یہ رہنمائی کرتا ہے کہ اپنی خوشی کے اظہار یا بھوکے پیاسوں کو کھلانے کے لیے اپنے دوستوں، رشتوں اور ضرورت مندوں کی دعوت کرنا چاہیے۔ فقہی اصطلاحات کے اعتبار سے دعوت کی تین قسمیں ہیں: مستحب، سنت اور واجب۔ (۱) مستحب دعوت(۱) عقیقہ کی دعوت: بچے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار فطرت کا تقاضا ہے ، اس لیے شریعت کہتی ہے کہ اس خوشی میں اپنے احباب کو بھی شامل کرنا چاہیے اور ساتویں دن ان کی دعوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ عقیقہ عام دعوت کی طرح ہی ایک دعوت ہے، لیکن ہم نے اپنے بے جا رسوم و رواج کی زنجیروں میں قید کرکے اسے مشکل بنادیا ہے۔ہر علاقے میں الگ الگ رسمیں ہیں، بعض علاقے میں دیکھا گیا ہے کہ عقیقہ اسی وقت درست مانا جاتا ہے،جب تک کہ دعوت میں شریک سبھی افراد کو کپڑے اور قیمتی تحفے نہ دے دیے جائیں۔ یہ سب غلط چیزیں ہیں۔ وسعت کے مطابق محض دعوت کردینا کافی ہے۔(۲) افطاری کی دعوت: رمضان المبارک میں افطاری کی دعوت کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اس لیے ہر شخص کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ روزہ داروں ؛ بالخصوص مسافر روزے داروں کو افطاری کرائیں، اور اس طرح سے روزہ رکھنے کا ڈبل ثواب حاصل کریں۔(۲)سنت دعوتدعوت ولیمہ: ولیمہ کی دعوت کے پیچھے اسلام کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مرد کو عورت پر دو وجہ سے حاکمیت بخشی ہے: (۱) کائنات کے نظام کو چلانے کے لیے حاکم و محکوم کا رشتہ ضروری ہے، اس لیے ایک کو حاکم اور دوسرے کو محکوم بنادیا گیا ہے۔ (۲) چوں کہ مرد مال خرچ کرتا ہے، اس لیے خرچ کرنے والا خرچ کیے جانے والے سے اونچا مقام رکھتا ہے۔ اخراجات چوں کہ مرد کے ذمہ ہے ، اس لیے ولیمہ کے اخراجات بھی مرد ہی کے ذمہ ہوں گے۔ علاوہ ازیں فرمان نبوی کے بموجب لڑکی رحمت ہے ۔ اور شادی کے بعد جب رحمت لڑکے کے گھر آئی ہے، تو اس کی خوشی کے اظہار کے لیے ولیمہ کرنا مسنون قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے ہمیں ولیمہ کی دعوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ لیکن آج کل ولیمہ کی دعوت ، دعوت کم اور بزنس زیادہ بن چکی ہے، لفافہ کا رواج اور اس میں مقابلہ آرائی کی ذہنیت ، اسی طرح کم لفافہ پیش کرنے والے کو حقیر اور ثانوی حیثیت دینے کے رجحانات سے سنت کے بجائے لعنت کا سبب بنتا جارہا ہے۔ اسی طرح جب ولیمہ کا کھانا بچ جاتا ہے یا خراب ہونے لگتا ہے، توتب ہم مدرسے کے بچوں کو کھلانا ثواب کا کام سمجھتے ہیں؛ ایسارویہ عذاب الٰہی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس سے پرہیز ضروری ہے۔ (۳) واجب دعوتدرج بالا تمام دعوتیں اختیاری دعوتیں ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ دعوت کریں گے، تو اس کا ثواب ملے گا ۔ اور اگر نہیں کریں گے، تو کوئی بات نہیں؛ لیکن اسلام نے کچھ لازمی دعوتیں بھی رکھی ہیں،جنھیں انسان کو کرنا ضروری ہے، تاکہ آپسی ہمدردی اور غم خواری کا جذبہ فروغ پاسکے ، اس کی تفصیلات پیش ہیں: (۱) مہمان کی دعوتفرمان نبوی علیہ السلام کے مطابق ایک دن اور ایک رات مہمان کا اعزازو اکرام اور دعوت کرنا واجب ہے۔ اس کے بعد تین دن تک سنت ہے۔ بعد ازاں مستحب ہے۔ ( بخاری، کتاب الادب،باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ) (۲) روزہ کے کفارہ کی دعوتاگر کوئی اتنا بوڑھا ہوگیا ہے کہ رمضان میں روزہ رکھنے کی قدرت باقی نہیں رہی اور نہ ہی یہ امید ہے کہ آگے قدرت لوٹ پائے گی ، تو ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ ہر روزہ کے بدلہ غریبوں کی دعوت کرے۔ (البقرہ، آیت ۱۸۴) (۳) قسم کے کفارہ کی دعوتکسی نے صحیح قسم کھائی اور اس کو پورا نہیں کرپایا، قسم حانث ہوگیا، تو اس کے کفارہ کے لیے ضروری ہے کہ دس غریبوں کی دعوت کرے۔ (المائدہ، آیت ۸۹) (۳) حالت احرام میں شکار کے کفارہ کی دعوتاگر کوئی شخص حالت احرام میں تھا اور اس نے کوئی جانور شکار کرلیا، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسی جیسا جانور کی قربانی حرم میں کرکے فقیروں کی دعوت کرے۔(المائدہ، آیت ۹۵) (۴) ظہار کے کفارہ کی دعوتکسی نے اپنی بیوی کو کسی محرمات کی عورت سے تشبیہ دے دی، مثلا یہ کہہ دیا کہ تو میری ماں کی طرح ہے، تو شریعت میں اسے ظہار کہا جاتا ہے۔ اس سے بیوی ماں کی طرح حرام ہوجاتی ہے۔ زوجیت کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے اس سے رجوع کرنا ضروری ہے؛ لیکن جب رجوع کریں گے، تو ظہار کا کفارہ دینا پڑے گا ۔ اور وہ کفارہ یہ ہے کہ غلام آزاد کرے۔ آج کل چوں کہ غلام نہیں ہے، اس لیے دوسرا حکم یہ ہے کہ دو مہینے مسلسل روزے رکھے۔ لیکن اگر بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے، تو دو وقت پیٹ بھر کر ، ساٹھ غریبوں کی دعوت کرنا ضروری ہے۔ (المجادلہ، آیت : ۴) خلاصہ کلام یہ ہے کہ سماجی نفسیات کے تناظر میں اسلام دعوت کرنے کرانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور انسان کے حسب ضرورت مستحب، سنت اور واجب قرار دیتا ہے۔ ان تمام دعوتوں کے پیچھے داعی کا دل اس جذبہ سے لبریز ہونا ضروری ہے کہ وہ محض رضائے الٰہی اور حکم خداوندی کی تعمیل میں دعوت کر رہا ہے۔ اگر دل میں ذرا سا بھی مفاد خوری تو دور ؛شکر طلبی کی تمنا بھی آگئی، تو آپ کی دعوت ، رحمت اور ثواب کے بجائے لعنت اور عذاب کا ذریعہ بن جائے گی۔ اس لیے آئیے ہم سب اپنے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خالص دل سے ایک دوسرے کے ساتھ یہ کہنے اور کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ: ’’ آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔‘‘۔