24 May 2019

رمضان کے آخری عشرے میں نبی اکرم ﷺ کے سات مخصوص اعمال

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

خودنبی اکرم ﷺ نے رمضان کریم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصہ کا نام ’رحمت‘، دوسرے کا نام ’مغفرت‘ اور تیسرے کا نام ’نجات‘  رکھاہے۔ یوں تو نبی کریم ﷺ ہر ایک حصہ کی قدر فرمایا کرتے تھے اور پورے رمضان خصوصیت کے ساتھ دو کام کیا کرتے تھے:
(۱) سخاوت۔(۲)تلاوت۔
 حدیث شریف میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تو تھے ہی؛ لیکن جب رمضان آتا تھا، تو آپ کی سخاوت کی مقدار بہت بڑھ جاتی تھی۔ آپ ﷺ کی سخاوت تیز رفتارہوا  سے بھی زیادہ تیز ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح عام دنوں کے مقابلے رمضان میں تلاوت کلام پاک کا زیادہ اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ رمضان کی ہر رات کو تلاوت اور تلاوت کے ساتھ ساتھ سخاوت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَجْوَدُ مَا یَکُونُ فِی رَمَضَانَ، حِینَ یَلْقَاہُ جِبْرِیلُ، وَکَانَ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ  یَلْقَاہُ فِی کُلِّ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَیُدَارِسُہُ القُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالخَیْرِ مِنَ الرِّیحِ المُرْسَلَۃِ۔ (صحیح بخاری،کِتَابُ المَنَاقِبِ،بَابُ صِفَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)
تلاوت و سخات تونبی اکرم ﷺ کے پورے رمضان کا معمول تھا؛ ان کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ آخری عشرے میں سات ایسے اعمال کیا کرتے تھے، جو پہلے دونوں عشرے میں نہیں کرتے تھے۔ وہ اعمال درج ذیل ہیں:
(۱) شب بیدار ی: آپ ﷺ اخیر عشرے میں شب بیداری کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ جس میں نماز، تلاوت،ذکر اور استغفار کیا کرتے تھے۔
(۲) اہل و عیال کو بیدار کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ حضرات علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کا دروازہ کھٹکھٹا کر کہا کرتے تھے کہ ’دونوں اٹھ جاؤ اور نماز پڑھو‘۔
 أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ أَخْبَرَہُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَرَقَہُ وَفَاطِمَۃَ بِنْتَ النَّبِیِّ عَلَیْہِ السَّلاَمُ لَیْلَۃً، فَقَالَ: أَلاَ تُصَلِّیَانِ؟ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَنْفُسُنَا بِیَدِ اللَّہِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ یَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ حِینَ قُلْنَا ذَلِکَ وَلَمْ یَرْجِعْ إِلَیَّ شَیْءًا، ثُمَّ سَمِعْتُہُ وَہُوَ مُوَلٍّ یَضْرِبُ فَخِذَہُ، وَہُوَ یَقُولُ: وَکَانَ الإِنْسَانُ أَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا۔(الکہف: ۴۵)(صحیح البخاری، کتاب التہجد، باب تحریض النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی صلاۃ اللیل والنوافل من غیر إیجاب)
(۳) نبی اکرم ﷺ اس عشرے میں بیویوں سے جدا رہا کرتے تھے اور مکمل انہماک کے ساتھ ہمہ وقت عبادت میں مصروف ہوتے تھے۔
عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا، قَالَتْ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ العَشْرُ شَدَّ مِءْزَرَہُ، وَأَحْیَا لَیْلَہُ، وَأَیْقَظَ أَہْلَہُ۔ (صحیح بخاری،کتاب فضل لیلۃ القدر،بَابُ العَمَلِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ)
 (۴)  لیلۃ القدر کی تلاش: شب بیداری کا ایک بنیادی مقصد نبی اکرم ﷺ کا یہ تھا کہ شب قدر کو پالیں۔اور آخری عشرے میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے؛ چنانچہ ارشاد گرامی ہے کہ
کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُجَاوِرُ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَیَقُولُ: تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ القَدْرِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ۔ (صحیح بخاری،کتاب فضل لیلۃ القدر، بَابُ تَحَرِّی لَیْلَۃِ القَدْرِ فِی الوِتْرِ مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ)
(۵) اعتکاف: آخری عشرے میں آپﷺ خصوصیت کے ساتھ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْتَکِفُ العَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ۔ (صحیح بخاری، کِتَابُ الِاعْتِکَافِ، بَابُ الِاعْتِکَافِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالِاعْتِکَافِ فِی المَسَاجِدِ کُلِّہَا)
(۶)آخری عشرے میں آپ کا ایک معمول یہ بھی تھا کہ کھانے کا مقدار بہت کم کردیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ صرف افطاری کیا کرتے تھے، افطاری کو سحری کے طور پر کھایا کرتے تھے۔
(۷) مغرب و عشا کے درمیان غسل فرمایا کرتے تھے۔
 حضرت  حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کے ساتھ قیام رمضان کیا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے غسل فرمایا، تو حضرت حذیفہ ؓ نے پردہ کیا اور پھر بقیہ پانی سے خود غسل کیا۔ حضرت انس بن مالک ۴۲/ رمضان کی رات کو غسل کرکے، عمدہ لباس پہنتے تھے اور خوشبو لگانے کا اہتمام کرتے تھے۔ لطائف المعارف میں اوربھی کئی اکابرین کے مختلف معمولات درج کیے گئے ہیں۔
 کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم إذا کان رمضان قام و نام فإذا دخل العشر شد المئزر و اجتنب النساء و اغتسل بین الأذانین و جعل العشاء سحورا۔ أخرجہ ابن أبی عاصم و إسنادہ مقارب(لطائف المعارف، صفحۃ 207)
اللہ تعالیٰ ہمیں اسوہ نبوی پر چلنے اور آپ ﷺ کے ان سبھی اعمال پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین۔