Showing posts with label عصر حاضر. Show all posts
Showing posts with label عصر حاضر. Show all posts

10 Aug 2018

حج

حج
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
mediajahazi.blogspot.com
شریعت اسلامی میں مقررہ عبادتوں کی ہیئتوں پر غور کیا جائے، تو تین طرح کی عبادتیں نظر آتی ہیں: (۱) بدنی عبادت، جیسے کہ نماز، ورزہ، ذکر تلاوت وغیرہ۔ (۲) مالی عبادت، جیسے کہ زکوٰۃ، صدقات، فطرہ وغیرہ۔ (۳) بدنی و مالی عبادت، جیسے کہ حج۔ حج ایک ایسی عبادت ہے، جس میں اپنا وجود بھی لگانا پڑتا ہے اور اس میں مال بھی خرچ ہوتا ہے۔ حج کے ستر ایام ہیں، جس کی شروعات یکم شوال سے ہوتی ہے اور دس ذی الحجہ کو تکمیل پذیر ہوتا ہے۔ حج سن ۹ ؍ ہجری میں فرض ہوا ہے۔ اس کے فرض ہونے کی پانچ شرطیں ہیں: (۱) مسلمان ہونا۔ (۲) عقل مند ہونا۔ (۳) بالغ ہونا۔ (۴) آزاد ہونا۔ (۵) استطاعت ہونا۔ مرد و عورت دونوں کے لیے استطاعت میں چار چیزیں شامل ہیں: (۱) اخراجات سفر کا ہونا۔ (۲) تندرست ہونا۔ (۳) راستہ مامون ہونا۔ (۴) جانا ممکن ہونا۔ اور صرف عورتوں کے لیے دو چیزیں اور استطاعت میں شامل ہیں: (۱) محرم ساتھ میں ہونا۔ (۲) حالت عدت میں نہ ہونا۔ 
فضائل حج
حج کی فضیلتوں پر مشتمل احادیث کا خلاصہ کیا جائے، تو تقریبا آٹھ قسم کے فضائل سامنے آتے ہیں، جن میں : 
(۱)سابقہ تمام گناہ یک بیک معاف ہوجاتے ہیں۔ 
(۲) حج زندگی کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ 
(۳) حاجی کے تلبیہ میں دیگر مخلوق بھی ہم نوائی کرتی ہے۔ 
(۴) ایک حاجی کو چار سو لوگوں تک کی سفارش کا حق ملتا ہے۔ 
(۵) حج میں خرچ کرنے کا ثواب جہاد میں خرچ کرنے کے برابر ملتا ہے، یعنی ایک کا بدلہ سات سو ملتا ہے۔ 
(۶) حج کرنے والا کبھی غریب نہیں ہوسکتا۔ 
(۷) حج بوڑھے، کمزور اور عورتوں کے لیے جہاد ہے۔ 
(۸) حج و عمرہ کے لیے جاتے ہوئے راستے میں انتقال ہوجائے، تو بلاحساب جنت میں جائے گا۔ 
فضیلت نمبر(۱) 
ابنشماسہ مَہری فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرو ابن العاصؓ بستر مرگ پر تھے، تو میں عیادت کے لیے حاضر ہوا۔میں نے دیکھا کہ انھوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کیا ہوا ہے اور زارو قطار رو رہے ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر ان کے بیٹے نے پوچھا کہ ابا جان! آپ اتنا کیوں رو رہے ہیں؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے ایسی ایسی خوش خبری نہیں دی ہے؟ یہ سن کر حضرت عمرو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمارا سب سے افضل عمل تو یہ ہے کہ ہم نے گواہی دی کہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ پھر فرمایا کہ میری زندگی کے تین حصے ہیں۔
پہلا حصہ تو یہ ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سے سخت نفرت کرتا تھا اور میری دلی تمنا تھی کہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ مجھے مل جائیں، تو میں انھیں قتل کردوں۔ اگر ایسی حالت میں موت آجاتی، تو بالیقین میں جہنمی ہوتا۔ 
دوسرا حصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عظمت اور محبت کو میرے دل میں ڈال دیا۔ تومیں کاشانہ نبوی ﷺ پر حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ اپنا داہنا ہاتھ بڑھائیے ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ آگے بڑھایا، لیکن میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔ یہ دیکھ کر سرکار کائنات ﷺ نے فرمایا کہ عمرو کیا ہوا؟ تو میں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ نبی امی فداہ امی و ابی نے فرمایا کہ کیا شرط رکھنا چاہتے ہو۔ میں نے کہا کہ میرے سابقہ تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے، تبھی میں اسلام قبول کروں گا۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
اما علمت یا عمرو! ان الاسلام یھدم ماکان قبلہ، و ان الھجرۃ تھدم ماکان قبلھا، و ان الحج یھدم ماکان قبلہ۔ (شرح السنۃ،کتاب الایمان،باب من مات ولایشرک باللہ شیئا)
ائے عمرو کیا تمھیں پتہ نہیں ہے کہ اسلام پہلے کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، ہجرت بھی سابقہ تمام گناہ معاف کردیتی ہے اور حج سے بھی سابقہ تمام گناہ ختم کردیے جاتے ہیں۔
چنانچہ میں نے اسلام قبول کرلیا۔ جس وقت اسلام قبول کیا، تو میری نگاہ میں رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی اور محبوب نہیں رہ گیا تھا۔ کلمہ پڑھتے ہی آپ ﷺ کی عظمت و جلال میرے وجود پر اس قدر چھا گیا کہ میرے اندر رسول اللہ ﷺ کو نگاہ بھر دیکھنے کی بھی سکت نہیں رہ گئی۔ اگر اس حالت میں مجھے موت آجاتی، تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا۔ 
میری زندگی کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد ہمارے اوپر کچھ ذمہ داریاں دی گئیں، جن کے ادا کرنے میں کوتاہیاں سرزد ہوئیں، اس لیے اب پتہ نہیں کہ میرا کیا ہوگا۔ 
پھر آپؓ نے وصیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر مرجاؤں تو رونے والی اور آگ میرے جنازے کے ساتھ نہ ہو۔ اور دفن کے بعد میری قبر پر اتنی دیر ٹھہرنا، جتنی دیر میں ایک اونٹ کو ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کردیا جاتا ہے تاکہ تمھاری قربت سے مجھے انسیت ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ حج کرنے سے پچھلی زندگی کے سبھی گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ 
فضیلت نمبر (۲) 
عن ابی ھریرۃؓ قال: سمعتُ رسول اللّٰہ ﷺ یقول: من حج للّٰہ، فلم یرفث، ولم یفسق، رجع کیوم ولدتہ امہ۔ (بخاری، کتاب الحج، باب فضل حج مبرور)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کا ارشاد سنا کہ جو شخص صرف اللہ کے لیے حج کرے، جس میں نہ توفحش گوئی کرے اور نہ ہیلڑائی جھگڑا،تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہوجاتا ہے جیسے کہ وہ آج ہی پید اہوا ہو۔ جس طرح ایک دن کا بچہ کوئی گناہ نہیں کرسکتا، نہ ہاتھ سے ، نہ پیر سے اور نہ ہی جسم کے کسی دوسرے اعضا سے، اسی طرح حاجی کی زندگی معصومیت کا عکس بن جاتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ حج کو درج بالا تینوں شرطوں کے ساتھ کیا ہو۔ اس حدیث کی تشبیہ پر غور کریں، تو یہ پہلو سامنے آتے ہیں کہ 
(۱) انسانی زندگی میں سب سے زیادہ مشکل کام زچگی کا عمل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حج بھی تمام عبادتوں میں سب سے مشکل کام ہے۔ 
(۲) پیدائش کے وقت زچہ بچہ دونوں زندگی اور موت کے مرحلے سے گذرتے ہیں۔ اسی طرح حج کا بھی معاملہ ہے کہ کیا پتہ کہ بری، بحری اور فضائی سفر حادثہ سے مامون رہے گا یا نہیں، یا حج کو زندگی ملے گی یا نہیں، یعنی قبول ہوگا کہ نہیں۔ 
(۳) پیدائش کے بعد زچہ بچہ دونوں کی طرز زندگی بدل جاتی ہے۔ اسی طرح حج کے بعد ایک حاجی کی زندگی میں مثبت تبدیلی نظر آئے گی، تبھی حج مقبول ہونے کی امید ہے۔ 
(۴) ایک دن کا بچہ اپنے کسی بھی عضو سے گناہ کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ حاجی کی بھی شان یہی ہونی چاہیے کہ اسے گناہوں سے سخت نفرت ہوجائے۔ 
(۵) زچہ بچہ دونوں انتہائی نگہ داشت کے محتاج ہوتے ہیں۔ حاجی کو بھی اپنے حج کے تعلق سے قدم قدم پر محتاط اور ہر عمل پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
(۶) زچہ بچہ کی سلامتی کے بعد ساتویں دن عقیقہ کیا جاتا ہے۔ حج سے لوٹنے کے بعد مقبول حج کی تین علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ مہمان نواز بن جاتا ہے۔
یہ تمام اشارات شاہد ہیں کہ حج انسانی زندگی کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ اور نقطہ انقلاب ہے، جہاں سے حاجی کی زندگی کی ایک نئی شروعات ہوتی ہے۔ ایک ایسی زندگی جو گناہوں کی کثافت سے پاک و صاف ہو اور اس کی رحمت و برکت سے دوسرے لوگ بھی بہرہ مند ہوں۔ 
فضیلت نمبر (۳) 
جب ایک حاجی حج کے لیے تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں بائیں اینٹ پتھر درخت جو مخلوق بھی ہوتی ہے زمین کی آخری حد تک اس کے تلبیہ کی ہم نوائی کرتی ہے۔ حضرت سہل ابن سعدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ 
ما من مسلم یُلبی الا لبّٰی من عن یمینیہ او عن شمالہ من حجراو شجر او مدر، حتیّٰ تنقطع الارض من ھٰھنا و ھٰھنا۔ (سنن الترمذی، باب ما جاء فی فضل التلبیۃ)
فضیلت نمبر(۴)
حاجیوں کو اپنی قوم کے چار سو لوگوں کی سفارش کا حق مل جاتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ 
الحاج یشفع فی اربع مءۃ من قومہ۔ (مصنف عبد الرزاق، ج؍۵، ص؍ ۷)
فضیلت نمبر(۵) حج میں خرچ کرنے کااتنا ہی ثواب ہے ، جتنا کہ جہاد میں خرچ کرنے کا ثواب ہے، یعنی ایک کا بدلہ سات سو گنا ملتا ہے۔ حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ 
النفقۃ فی الحج، کالنفقۃ فی سبیل اللّٰہ بسبع مءۃ ضعف۔ (مسند احمد، حدیث بریدۃ الاسلمی)
اس سے معلوم ہوا کہ حج کے سفر میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہیے اور اخراجات سے طبیعت پر گرانی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے کہ آدمی کے کریم ہونے کے آثار میں سے یہ ہے کہ اس کے سفر کا توشہ عمدہ ہو یا سفر میں خرچ کرنے سے طبیعت پر بوجھ محسوس نہ ہو۔
فضیلت نمبر(۶)
حدیث میں وعدہ ہے کہ جو شخص حج کر لے گا وہ شخص کبھی بھی غریب نہیں ہوسکتا، اس لیے جمع پونجی کو سفر حج میں خرچ کرنے سے اس لیے گریز نہ کرے کہ یہ ختم ہوجائے گا ہم غریب ہوجائیں گے، بلکہ اس سفر میں حصول ثواب کے لیے خرچ اور بڑھا دینا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ
عن جابر بن عبدا للہ یرفعہ: ما امعر حاج قط، فقیل لجابر: ما الامعار؟ قال: ما افتقر۔ (شعب الایمان للبیہقی، باب ما امعر حاج قط)
فضیلت نمبر(۷) 
بوڑھوں ، کمزوروں اور عورتوں کا جہاد حج ہے۔ ان حضرات کو حج کرنے سے جہاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔ 
عن عائشۃؓ استاذنتُ النبی ﷺ فی الجھاد، فقال: جھادکن الحج۔ (بخاری، جہاد النساء)
فضیلت نمبر(۸)
حج کے لیے جارہا تھا کہ راستے میں ہی انتقال ہوگیا تو قیامت تک اس کے لیے حج کا اجر لکھا جائے گا۔ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ 
من خرج حاجا فمات، کتب لہ اجر الحاج الیٰ یوم القیامۃ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، قطعۃ من المفقود)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حج کی سعادت سے نوازے ، آمین۔ 

3 Aug 2018

جمعیۃ یوتھ کلب کیا ہے؟

جمعیۃ یوتھ کلب کیا ہے؟
محمد یاسین قاسمی جہازی
۲۴؍ جولائی ۲۰۱۸ء پیر کے دن شہر علم دیوبند میں ، جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام تقریبا گذشتہ چار سال سے جاری بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ کا مظاہرتی پیروگرام ہوا۔ اور اسی پروگرام میں جمعیۃ یوتھ کلب کو بھی متعارف کیا گیا۔ مظاہرتی پروگرام میں آفات و حادثات کے مواقع پر وسائل کے بغیرمتاثرین میں فرسٹ ایڈ اور راحت رسانی کا کام کیسے کیا جائے اور اپنے اندر انسانی خدمت کے جذبہ کے کیسے پیدا کیا جائے؛ اس قسم کے طریقوں پر مشتمل تربیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرہ کی یہ خبر بھارتی میڈیا میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور کچھ چینلوں نے حقیقت سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ،پروگرام کو کچھ منفی کردار والی تنظیموں کی سرگرمیوں سے جوڑ دیا۔ یہ خبر ٹرینڈ ہوجانے کی وجہ سے لوگوں میں حقیقت جاننے کا تجسس پیدا ہوا۔ یہ تحریر اسی تجسس کی تسکین کی ایک کوشش ہے۔ 
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ جمعیۃ یوتھ کلب کیا ہے؟ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ مختلف سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں کو متحرک و فعال رکھنے کے لیے کیڈر اور والنٹیر کی ضرورت ہوتی ہے، جو تقریبا ہر زندہ تنظیموں اور پارٹیوں کے پاس ہوتے ہیں۔ جمعیۃ بھی اسی مقصد سے اپنے والٹنیر کو جوڑنے کا کام کر رہی ہے، جس کو جمعیۃ یوتھ کلب کا نام دیا گیا ہے۔ اس سوال کا ایک جواب تو یہ تھا اور دوسرا جواب یہ ہے کہ جمعیۃ یوتھ کلب کوئی نیا معاملہ نہیں ہے؛ بلکہ 20 / واں اجلاس عام منعقدہ 9/10/11/ 1960 میں منظور کردہ دستور اساسی جمعیۃ علماء ہند کی دفعہ (93) میں مذکور خدام ملت کی تشکیل کے تحت اس کا بنیادی و ضمنی ڈھانچہ ہے، جس کا نام جمعیۃ یوتھ کلب رکھا گیا ہے۔ یہ کلب بزرگوں کے خوابوں کی تعبیر کا حسین عنوان ہے اور وقت کے نبض کی صحیح تشخیص ہے۔ یہ کلب جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری حفظہ اللہ اور حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کی دور رس نگاہوں کا پرتو جمیل ہے۔ اورہند میں ملت اسلامی کے سنہرے مستقبل کا اشاریہ بھی ہے۔ 
جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ جمعیۃ علماء ہند کا ہر کام قرآن و احادیث کی ہدایات کے مطابق کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کلب کے بھی دو بنیادی مقاصد ہیں، جن کے حوالے احادیث میں موجود ہیں۔
(۱) طاقت ور مومن تیار کرنا۔اس مقصد کا سرچشمہ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ المومن القوی خیر و احب الیٰ اللہ من المومن الضعیف۔ یعنی طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے زیادہ بہتر اور محبوب ہے۔ 
(۲) انسانیت کا خدمت گار بنانا۔یہ اس نبوی فرمان کا عملی مظہر ہے کہ خیرکم من ینفع الناس۔یعنی لوگوں کو نفع پہنچانے والا سب سے زیادہ بہتر شخص ہوتا ہے۔ 
ان دونوں مقاصد کے دائرہ کارکا تعین کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کی دستور اساسی کی دفعہ (۹۳) شق نمبر ۲ میں کہا گیا ہے کہ ’’جمعیۃ علماء ہند کی ہدایات کے بموجب:
(الف) سماجی اور جماعتی خدمات انجام دینا۔
(ب) بلا امتیاز مذہب و ملت مظلوموں کی امداد اور خلق خدا کی خدمت کرنا۔
(ج) قیام امن، حفاظت وطن اور ملک کے تعمیری پروگراموں میں تنہا یا دوسری جماعتوں کے ساتھ حصہ لینا۔
(د) مسلمانوں میں دینی رجحان پیدا کرنا۔
(ھ) اسکاؤٹنگ کے طریقے پر تربیت حاصل کرنا۔‘‘
دیوبند میں منعقد پروگرام کے موقع پر اس کلب کے تعارف و طریق کار پر مشتمل جو کتابچہ پیش کیا گیا ہے، اس میں درج بالا اغراض و مقاصد کے علاوہ شرائط داخلہ بھی بیان کیا گیا ہے، جو دستور اساسی کی دفعہ (۹۳) شق نمبر ۳ سے لیا گیا ہے۔ دستور کا متن یہ ہے کہ 
’’۳۔ شرائط داخلہ
اس تنظیم میں ہر وہ عاقل و بالغ مسلمان داخل ہوسکتا ہے ، جو جمعیۃ علماء ہند کے مقاصد اور طریقۂ کار سے پورا اتفاق رکھتا ہو۔
(الف) جمعیۃ علماء ہند کی ہدایا ت پر عمل کرنے اور اس کے پروگراموں کو کامیاب بنانے ۔
(ب) احترام مذاہب اور حتیٰ الامکان پابندیِ شریعت کرنے۔
(ج) نیک چلن رہنے ، خدمت خلق اور ہر ایک ساتھ اخلاق سے پیش آنے کا عہد کرے ۔
(د) جمعیۃ علماء ہند کا منظور کردہ عہد نامہ منظور کرے۔
(ہ) اس کی عمر کم سے کم ۱۸؍ سال ہو اور جسمانی قوت کے لحاظ سے رضا کارانہ خدمات انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔(دستوراساسی، ص؍ ۳۶؍۳۷۔ دستخط شدہ : محمود اسعد مدنی، ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند، ۲۸،۲۹؍ مئی ۲۰۰۵ء ؁)
کتابچہ میں اس کے علاوہ کلب کا جھنڈا، وردی اور تنظیمی خاکہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، چنانچہ اس کے مطابق جمعیۃ علماء ہند کا جھنڈا ہی اس کلب کا جھنڈا ہوگا، علاوہ ازیں جمعیۃ کے جھنڈے کلر کی ٹوپی اور لباس پر جمعیۃ کا مونو گرام اس کی وردی کا حصہ ہوگا۔ اور ان سب کے حوالے دستور کی دفعہ (۹۳) کی ذیلی شقوں میں موجود ہیں۔ 
جمعیۃ یوتھ کلب کا پیش کردہ دستور اور طریق عمل کے مطابق ،اس کے تین پروسیس ہیں: اس میں شامل ہونے والوں کو سب سے پہلے بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ کی ٹریننگ دی جائے گی، بعد ازاں جمعیۃ یوتھ کلب میں شامل کیا جائے گا۔ اور پھر اس میں سے منتخب افراد کو خدام ملت کا ممبر بنایا جائے گا۔ اور یہی افراد جمعیۃ علماء ہند کے اصل خادم اور والنٹیر قرار پائیں گے۔ 
اس کی ٹریننگ میں دو قسم کی ٹریننگ کا تذکرہ کیا گیا ہے، جو دونوں اس کے دونوں بنیادی مقاصد کے پیش نظر طے کیا گیا ہے۔پہلا مقصد طاقت ور مومن بنانے کے لیے جسمانی ٹریننگ کو لازم کیا گیاہے، جس میں اسکاؤٹ کی ٹریننگ لازمی کی گئی ہے ۔ اور دوسرا مقصد نافع بخش مومن بنانے کے لیے ذہنی تربیت کا خاکہ پیش کیا گیا ہے، جس کے تحت اسوہ نبوی ﷺ پر عمل، دینی خدمات کی ترغیب اور خدمت خلق کا جذبہ و داعیہ پیدا کرنے کے لیے مختلف پروگرام کیے جائیں گے۔ 
جمعیۃ یوتھ کلب کا ایکشن پلان بھی پیش کیا گیا ہے، جس کے مطابق دو ایکشن پلان ہیں: قلیل مدتی اور طویل مدتی۔ قلیل مدتی میں جنوری ۲۰۱۹ء تک دس ہزار نوجوانوں کو کلب کا ممبر بنانے کا ہدف رکھا گیا ہے ، جب کہ طویل مدتی پلان میں دس سالہ منصوبہ پیش کیا گیا ہے، اس کے مطابق آنے والے ۲۰۲۸ء تک سوا کروڑ نوجوانوں کو اس سے جوڑ ا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر سال بارہ لاکھ پچاس ہزار افراد کو ممبر بنایا جائے گا۔ 
دستور میں تنظیمی ڈھانچہ کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں، جس میں چھ عہدوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، سب سے چھوٹی یونٹ کے ذمہ دار کا نام مانیٹر رکھا گیا ہے، جو دس افراد پر ہوگا۔ اس کے بعد دوسرا عہدہ آرگنائزر کا ہے، جو ہر پانچ مانیٹر یعنی پچاس افراد پر ہوگا۔ تیسرا عہدہ نقیب کا ہے، جو پانچ آرگنائزر یعنی دو سو پچاس افراد پر منتخب کیا جائے گا۔ نقیب کے بعد رائد ہوگا، جو پانچ نقیب یعنی ایک ہزار دو سو پچاس افراد پر منتخب ہوگا۔ پھر پانچ رائد یعنی چھ ہزار دو سو پچاس افراد پر ریاستی سالار ہوگا۔ اور سارے ریاستی سالار قومی سطح پر منتخب سالار ملت کے ماتحت ہوں گے۔
اسی طرح خدام ملت کے عہدیداران کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں، جن میں پانچ عہدوں کا تسلسل ہے اعلی ترتیب سے مرکزی؍ریاستی؍ ضلعی ناظم،سکریٹری،آرگنائزر، آگنائزنگ ممبر اور عام ممبر ان ہیں۔ 
کسی بھی تحریک کے ہدف کا تعیین اس کے مقاصد سے کیا جاتا ہے۔ جمعیۃ یوتھ کلب کے دستوری کتابچہ اور جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی صدر و ناظم صاحبان کے بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی آئین و قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے یہاں کے مسلم شہریوں کو ملک و ملت اور انسانیت کے لیے کار آمد و فعال بنانے کے لیے جمعیۃ یوتھ کلب کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔مظلوموں اور مصیبت زدوں کی آہ سننا اور خدمت خلق کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا اس کے ممبران کی خصوصی شناخت ہوگی۔ اس سے وابستہ افراد دینی رجحانات سے اس طرح لبریز ہوں گے کہ ان کی زندگی نبوی سیرت کے عملی مجسمے بن جائیں گے۔اور رحمۃ اللعالمین کے امتی اپنے اندر بھی خلق خدا کے تئیں الفت و محبت کے جذبہ سے سرشار نظر آئیں گے۔ 
اور جس تحریک و تنظیم کے یہ مقاصد ہوں، اسے کسی منفی کردار والی تنظیموں سے جوڑنا ، یقیناًحقیقت کا منھ چڑھانا ہوگا، لہذا جو لوگ اس کے خلاف غلط بیان سے کام لے رہے ہیں، در حقیقت کالے دل اور منفی نظریات و کردار کے پرستار ہیں، جنھیں سچائی اور انسانی ہمدردی سے چڑھ ہے۔ 
آئیے دعا کریں اللہ تعالیٰ اس تحریک کو تمام شرور فتن سے محفوظ رکھے اور اسے قوم و ملت اور بھارت کے لیے نافع بنائے ، آمین۔ 

27 Jul 2018

اور ہم خوار ہیں زمانے میں مسلماں ہوکر۔۔۔!!!!

اور ہم خوار ہیں زمانے میں مسلماں ہوکر۔۔۔!!!!
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408

علامہ اقبالؒ نے نیرنگی فطرت کا راز کھولتے ہوئے کہا ہے کہ 
سکوں محال ہے قدرت کے کار خانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
فطرت کی بوقلمونی میں قوموں کی حالت بھی مستثنیٰ نہیں ہے، اس لیے ان کے عروج و زوال کی کہانیوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ 
ہر زمانے کے ارباب دانش و فکر نے اپنی قوم کے زوال کی وجوہات کا پتہ لگانے کی کوشش کی ہے اور اپنی قوم کو ان سے واقف کرایا ہے۔ چنانچہ علامہ قبال اپنے دور میں مسلمانوں کے زوال کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ 
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ:
’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اِس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی و دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے: ایک اُن کا قرآن کو چھوڑ دینا، دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی؛ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اِس کام میں صرف کروں کہ قرآنِ کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی مکاتب بستی بستی قائم کیے جائیں، بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اُس کے معانی سے روشناس کیا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیاجائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے‘‘۔ (وحدتِ امت، ص: 39۔40، ط: مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور 1985ء)
اب تک ملت اسلامیہ کے جن جن دانشوروں نے مسلم قوم کی حالت زار پر غور کیا ہے، مشترکہ طور پر ان سبھوں نے زوال کے اسباب بتانے کے ساتھ ساتھ اس کے انجام سے بھی باخبر کیاتھا؛ لیکن اس قوم کی غفلت کا تسلسل بتلاتا ہے کہ ہم نے ان مفکرین کی کسی بھی بات پر توجہ دے کر عملی اقدامات نہیں کیے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہیں کہ اب صرف ہم زوال پذیر نہیں؛ بلکہ دنیا کی سب سے ذلیل ترین قوم بن چکے ہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ 
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
حریم ملت اسلامیہ ہند، قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے ۲۴؍ جولائی ۲۰۱۸ء بروز سوموار دیوبندمیں منعقد جمعیۃ یوتھ کلب کے تعارفی و مظاہرہ پروگرام سے خطاب کے دوران پوری دنیا میں مسلمانوں کی نفسیات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 
’’ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا مقام ایسی جگہ نہیں ہے، جہاں ہم ذلیل اور رسوا نہ ہوگئے ہوں۔ اگر بے عزتی کا نام لیا جائے تو ہمارے نام کے ساتھ لگ چکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ احساس ختم ہوگیا ہے ۔ ہم خود اپنے منھ سے اپنی تعریف کرلیتے ہیں۔ اپنا جلسہ ہوتا ہے، اپنی مجلس ہوتی ہے ، اپنی تعریف کرنے والے اپنے ساتھی ہوتے ہیں، وہ قائد بھی بنادیتے ہیں، وہ امیر بھی بنا دیتے ہیں، فرما روا بھی بنادیتے ہیں؛ سب کچھ بنادیتے ہیں۔ لیکن سچائی اس سے بہت پرے ہے۔ سچائی یہ ہے کہ ذلت و رسوائی ہم اپنے دامن میں لے کے گھوم رہے ہیں۔ بالکل گھوم رہے ہیں اور کہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور اپنے احوال کو اپنے حالات کو اپنے ایٹی ٹیوڈ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں‘‘۔ 
یہ تو قوم کی بات ہے، قوم کے قائد کے بارے میں مولانا مدنی کہتے ہیں کہ 
’’ لوگ نعرے لگاتے ہیں کہ قائد ملت فلاں فلاں فلاں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ بھیا قوم تو ذلیل ہورہی ہے ، آپ کہتے ہیں کہ قائد ملت۔ جس قائد کی قوم ذلیل ہورہی ہو وہ قائد باعزت کیسے ہوسکتا ہے!۔ ‘‘
مفکرین ملت کے ان اقوال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہندستانی سماج و حالات میں مسلمانوں کی حالت کا تجزیہ کیا جائے، تو معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ پہلے جہاں مسلمان ہونا عزت و افتخار کی بات ہوا کرتی تھی، آج مسلمان کہلانا اور دکھنا ذلت وخواری کا عنوان بن چکا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کے بارے میں غیروں کا نظریہ نہیں؛ بلکہ مسلمان خود اپنی نگاہ میں ذلت و رسوائی محسوس کر رہا ہے۔ چنانچہ ہم دو تین عملی نمونہ پیش کرتے ہیں:
(۱) مسلمان اپنے اکثریتی محلہ میں اسلامی تشخص و شعار کو کسی قدر اپناتے ہیں، لیکن جب اکثریتی طبقہ کے محلوں میں رہتے یا جاتے ہیں، تو اپنی شناخت چھپانے میں ہی عزت سمجھتے ہیں۔ 
(۲) عصری تعلیم گاہوں اور یونی ور سیٹیوں کا رخ کرنے والے ایسے افراد جن کی زندگی کا ایک بڑا حصہ اسلامی لباس و شعار میں گذرتا ہے ؛ حتی کہ اس زندگی میں اس کے تحفظ کے لیے جان و مال کی بھی پرواہ نہیں کرتے، لیکن اس ماحول سے نکلتے ہی دوسرے ماحول سے متاثر ہوجاتے ہیں اور اثر پذیری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ خود کو مسلمان دکھنے ، دکھانے اور کہلانے میں بھی شرم محسوس کرنے لگتے ہیں۔
(۳) یہ سچ ہے کہ اسلامی شعار و ہیئت اکثریتی طبقہ کے لیے اور پنڈت کے لباس و تشخص اقلیتی طبقہ کے لیے اجنبیت پیدا کرتے ہیں؛ لیکن محض اجنبیت کی بنیاد پر اپنے وجود سے شرم محسوس کرنا اور اپنے تشخصات کو ذلت و نکبت کا باعث سمجھنا ، فکری دیوالیہ پن نہیں تو اور کیا ہے!!۔ 
(۴) مسلمانوں کے دو ظاہری تشخصات ہیں: چہرے پر داڑھی اور ٹوپی کرتا لباس ۔ اور غیروں کے کئی شناخت ہیں، جن میں داڑھی صفا چٹ، ہاتھ میں رکشہ بندھن کے دھاگے، مرد کے ہاتھ میں کڑے اور چوڑیاں، گلے میں عورتوں والے ہاراور شرٹ پتلون عمومی لباس۔ میں نے زندگی میں آج تک کسی غیر مسلم کو نہیں دیکھا کہ وہ چہرے پر سنتی داڑھی، سر پر ٹوپی اور کرتا پاجامہ پہن کر کسی معاشرہ میں رہتا ہو، لیکن لاکھوں مسلمان ہندوانہ شعار و لباس میں آپ کو ہرجگہ نظر آئیں گے؛ حتیٰ کہ بعض افراد غیروں کی مداہنت میں یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ تشقہ لگانے اور مندروں میں بھی پھول چڑھانے سے نہیں چونکتے ۔
زمینی حقائق اور بھی ہیں۔ یہ تو مشتے نمونے از خرورے ہیں۔ ان حقائق کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ پہلے قوم بحیثت قوم زوال پذیر ہوتی تھی، لیکن آج ہم بحیثت فرد عملی اور فکری دونوں اعتبار سے اس قدر پست ہوچکے ہیں کہ اسے اس کے علاوہ اور کیا کہاجاسکتا ہے کہ ع
اور ہم خوار ہیں زمانے میں مسلماں ہوکر
مسلمان ہونا کل بھی عزت کی بات تھی ، آج بھی عزت کی علامت ہے اور کل بھی عزت کا مرکز رہے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم صحیح معنی میں مسلمان ہوجائیں اور یہ عہد کرلیں کہ ہم محض نام کے نہیں ؛ بلکہ کردار و عمل والے مسلمان بن کر رہیں گے۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں سچا پکا مسلمان بنائے اور مسلمانوں کی ساری عزت و رفعت ہمیں دوبارہ عطا فرمائے، آمین۔

20 Jul 2018

شریعت پر صرف داڑھی، ٹوپی اور کرتا پاجامہ والے کا حق ہے۔۔۔!!!

شریعت پر صرف داڑھی، ٹوپی اور کرتا پاجامہ والے کا حق ہے۔۔۔!!!


محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
Add caption
دیگر مذاہب میں اس تصور کو مذہبی حکم تسلیم کیا گیا ہے کہ صرف مخصوص برادری کو ہی مذہب سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ ہندو کی مذہبی تعلیم میں کہا گیا ہے کہ’’ وید سننے پر (شودر کے) دونوں کانوں میں سیسہ ڈال دو،پڑھے تو زبان کاٹ دو، یاد کرے تو دل چیر دو‘‘۔ (باب چہارم منو شاستری)
یہ تفریق تعلیم تک ہی محدود نہیں ہے؛ بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی تفریق سے کام لیا گیا ہے، ہم یہاں پر چند مختصر حوالے پیش کر رہے ہیں:
برہمن پرماتما کے منہ سے کشتری بازوؤں سے ویش رانوں سے شودر پاؤں سے پیدا ہوا (رگ وید باب ۰۱ بھجن ۰۹ ص ۸۳‘ یجروید‘ اتھرو وید)
وید کے لیے برہمن حکومت کے لیے چھتری (کشتری) کاروبار کے لیے و بیش اور دکھ اٹھانے کے لیے شودر کو پیدا کیا ہے۔ (یجروید ۰۳:۵)
برہمنوں کے لیے وید کی تعلیم اور خود اپنے اور دوسروں کے لیے دیوتاؤں کو چڑھاوے دینا اور دان (چندہ) لینے دینے کا فرض قرار دیا (منو شاستر باب اول ۸۸)
چھتری کو اس نے حکم دیا کہ مخلوق کی حفاظت کرے دان دے چڑھاوے چڑھائے وید پڑھے اور شہوات نفسانی میں نہ پڑے (منو شاستر باب اول ۹۸)
ویش کواس نے حکم دیا کہ وہ مویشی کی سیوا کرے‘ وان دے‘ چڑھاوے چڑھائے‘ تجارت لین دین اور زراعت کرے (منو شاستر باب اول ۰۹)
شودر کے لیے قادر مطلق نے صرف ایک ہی فرض بنایا ہے وہ ہے ان تینوں (برہمن قوم‘ کشتری قوم اور ویش قوم کی خدمت کرنا) (منو شاستری باب اول ۱۹)
’’جس برہمن کو رگوید یاد ہو وہ بالکل گناہ سے پاک ہے اگرچہ وہ تینوں اقوام کو ناس کردے یا کسی کا بھی کھانا کھالے ( منوشاستری باب نہم ۲۶۲)
سزائے موت کے عوض برہمن کاصرف سر مونڈا جائے لیکن اور ذات کے لوگوں کو سزائے موت دی جائے گی (باب ہشتم ۹۷۳)
شودر جس عضو سے برہمن کی ہتک کرے اس کا وہ عضو کاٹ دیا جائے(منو باب دوم ۱۸۳)
لیکن ان کے برعکس اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خواہ تعلیم و تعلم کا میدان ہو یا احکامات کے اجرا و نفاذ کا؛ اس میں سب انسان برابر ہیں۔ نہ کسی مولوی کویہ کاپی رائٹ حاصل ہے کہ صرف وہیں جنت کے حق دار ہیں اور باقی سب لوگ جہنم کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ شریعت پر عمل کے مکلف صرف داڑھی، ٹوپی اور کرتا پاجامہ والے ہیں اور بقیہ دیگر حضرات عمل سے مستثنیٰ ہیں۔ اسلام میں ہر شخص اس کے احکام کا براہ راست مخاطب اور مکلف ہے اور خدا تک پہنچنے کے لیے کسی واسطے کی بھی ضرورت نہیں؛ ہر انسان براہ راست اللہ تک پہنچ سکتا ہے اور اسے راضی کرسکتا ہے۔ 
آج جب ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لیتے ہیں، تو اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسلم قوم بھی ہندو مذہب کے درج بالا نظریوں سے متاثر ہیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے حوالے سے خود کو شودر سمجھتے ہیں۔ ہمارا عمومی نظریہ یہ بن چکا ہے کہ نماز ، روزہ اور دیگر فرائض صرف وہیں ادا کریں گے، جو ٹوپی، داڑھی اور کرتا پاجامہ والے ہیں۔ جو لوگ یہ لباس اور ہیئت اختیار نہیں کرتے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان فرائض سے مرفوع القلم ہیں۔ 
تعجب کی انتہا تو اس وقت ہوتی ہے کہ جو بے ریش کبھی بھی نماز نہیں پڑھتے، وہ باریش افراد کو نماز کے لییایسے ٹوکتے ہیں، جیسے کہ اس پر نماز ہی فرض نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ داڑھی رکھ کر، ٹوپی پہن کر، اور کرتا پاجامہ پہن کر نماز نہیں پڑھتے!۔ اور جب پلٹ کر ان سے کہا جاتا ہے کہ بھائی! آپ بھی تو مسلمان ہیں، آپ داڑھی کیوں نہیں رکھتے اور نماز کیوں نہیں پڑھتے، تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ میں مولوی تھوڑی ہوں۔ گویا ہم اپنی فکر سے یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم شودر ہیں اور اسلامی احکامات ہمارے لیے نہیں؛ بلکہ صرف مولویوں کے لیے ہے۔ 
اگر معاملہ صرف اپنی ذات تک محدود رہتا تو بھی غنیمت تھا، معاملہ ایں جا رسید کہ اگر کوئی نوجوان دینی معلومات سے آگاہ ہوکر اپنے چہرے پر سنت سجانے کا آغاز کرتا ہے، تو اس کے شودر ساتھی یہ کہہ کر گناہ کی دعوت دینے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کہ ارے یار! تم تو دن بدن مولوی ہوتے جارہے ہو! داڑھی رکھنے کے بعد بادۂ رنگیں سے کیسے محظوظ ہو پاؤگے۔ قصۂ مختصر یہ کہ ہم نے نظریاتی اور عملی طور پر یہ ثابت کردیا ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے حوالے سے ہم شودر ہیں۔ ان پر صرف وہی عمل کریں گے، جو داڑھی، ٹوپی اور کرتا پاجامہ پہنتے ہیں۔ اور نہ صرف ہم عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں؛ بلکہ عمل کرنے والے ساتھیوں کو بھی باز رکھنے کی دعوت گناہ دیتے ہیں؛ ہمارے اس رویہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے ، کم ہے۔ 
میرے اسلامی بھائیو! سب سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اسلام جیسے آفاقی اور فطرت سے ہم آہنگ دین سے نوازا، جس میں دیگر مذہبوں کی طرح انسان کے کسی بھی طبقے کے لیے تفریق و تذلیل نہیں ہے۔ اور ہمیں ہر احکام میں برابری کا حق دیا اور اس کے نتیجے میں ملنے والی خدا کی رضا اور جنت پر کسی ایک طبقہ کو قبضہ نہیں دیا، اتنی عظیم نعمت ملنے کے باوجود اگر ہم خود کو عملی طور پر شودر سمجھیں تو ہماری عقل و فکر پر ماتم اور توفیق الٰہی سے محرومی کے علاوہ اورکیا کہا جاسکتا ہے۔ آئیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم اور فکر رشید عطا فرمائے ۔ اور ہمیں شودر جیسی ذلت آمیز طرز عمل اور فکر سے نجات دے کر اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق بخش دے، آمین۔

14 Jul 2018

ننگی زندگی

ننگی زندگی
محمد یاسین جہازی
رابطہ: 9871552408

عریانیت سے عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ آج کل کی لڑکیاں بے لباسی میں آخری حد تک پہنچ گئی ہیں اور جو باقی ہیں وہ بھی وہاں تک پہنچنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ لیکن ایک زمینی تجزیہ بتلاتا ہے کہ اس میں لڑکے بھی پیچھے نہیں رہ گئے ہیں۔ عریانیت اور فحاشی کے مظاہرے میں دونوں کسی سے کم نہیں ہیں۔ 
راقم الحروف کسی خاص مقصد سے تقریبا ایک ہفتہ کے لیے جھارکھنڈ کے آدی واسی علاقوں میں قیام پذیر رہا۔ اس دوران ان کی طرز معاشرت کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ لباس کے حوالے سے ان کے شب و روز کا معمول یہ دیکھا کہ لڑکیاں اور عورتوں کے جو روایتی لباس ہیں، خواہ اس میں پردہ اورستر پوشی ہو یا نہ ہو، وہ چوبیس گھنٹے زیب تن رہتی ہیں۔ لیکن جو مرد ہیں، وہ بالعموم ہاف چڈی یاتولیہ کے چیتھڑے میں نظر آئے۔ اس کی وجہ غربت اور عدم دستیابی کے علاوہ لباس و تہذیب سے ناآشنائی تھی۔ لیکن ایک دو افراد سے استفسار میں ان کا یہ نظریہ معلوم ہوا کہ ’’ہم مردوں کے بدن میں کوئی چیز پرکشش نہیں ہے، اس لیے اس کو چھپانے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ لڑکیوں کو چھپانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ ان کے جسم دوسروں کے لیے آکرست ہیں‘‘۔ 
تہذیب و ثقافت سے ناآشنا افراد اگر یہ وجہ پیش کریں، تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں؛ لیکن تعجب بالائے تعجب تو یہ ہے کہ تہذیب و تمدن کے ٹھیکے دار معاشرہ، ان آدی واسیوں سے بھی کہیں زیادہ بودے فکر اور لباس کی بے ڈھنگی کے شکار ہیں۔مہذب سماج کی لڑکیوں کے لباس کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں ہے کہ’’مہذب طوائفیں‘‘ جہاں تک ننگی ہوچکی ہیں، ان کی تقلید میںیہ شریف زادیاں بھی وہاں تک عریاں ہوچکی ہیں ۔ لیکن لڑکوں کے لباس کا جائزہ لیں، تو یہ بھی ننگے پن میں آخری حدوں کو پہنچ چکے ہیں۔ چنانچہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جب یہ پہنتے ہیں، تو گلے کے شگاف اور پیر کی ایٹری تک کو چھپاتے ہیں، لیکن ننگے پن پر آتے ہیں، تو چڈیوں اور ہاف پینٹ پہن کر کھلے عام گھومتے نظر آتے ہیں۔ آفس یا کسی فنکشن کے موقع پر پورے لباس میں نظر آتے ہیں، لیکن جوں ہی گھر لوٹتے ہیں ، تو ساری چیزیں اتار کر ایک چڈی ، ایک بنیان پہن کر سرعام گھومتے ہیں، حتیٰ کہ گھر میں اپنی ماں بہنوں اور بیٹیوں کے سامنے بھی اسی لباس میں رہتے ہیں۔اسی طرح بالعموم نوجوانوں میں لوور پہننے کا جنون ہے، جس میں ستر اعظم ہی کھل جاتا ہے اور جس حصہ کو ڈھانکنے کے بنیادی نظریے سے لباس پہنا جاتا ہے، وہی کھلا رہ جاتا ہے۔سماج کے اس منظر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی عریانیت اور ننگے پن کا دوسرا نام ہے۔ 
لباس انسان کے لیے ایک زینت ہے ، آرائش و زیبائش کا فطری سلیقہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین فطرت میں اس کے طریقے اور حدود متعین کیے گئے ہیں۔ مرد کے لباس کا شرعی ضروری حد یہ ہے کہ ناف سے لے کر گھٹنے کے نیچے تک چھپایا جائے۔ اور عورتوں کا پورا بدن ضروری حد میں شامل ہے، صرف دونوں ہاتھ گٹوں تک، چہرہ اور ٹخنے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ مردوں کے لیے ٹخنے سے نیچے تک کوئی لباس پہننا ناجائز ہے، اس کے علاوہ زینت کے لیے وہ جتنے بھی چھپائیں یا دکھائیں، سب جائز ہے۔
اسلام کے اس طریقے اور مہذب سماج کے طریقوں کا تقابلی جائزہ لیں، تو یہ کہنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ اسلام نیلباس کا جو شعور دیا ہے، اس میں زیبائش بھی ہے اور پرکشش بھی۔ جو لڑکیاں بالعموم اسکرٹ یا موجودہ چلن والے لباس میں گھومتی ہیں، ہر وقت ہوس کے درندے انھیں تاڑتے رہتے ہیں اور ننگا سماج بھی ان کو بہت زیادہ تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھتا؛ لیکن جو عورتیں شرعی لباس کا اہتمام کرتی ہیں، انھیں ننگا سماج بھی عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ علاوہ ازیں لباس میں ایک عورت جتنی پرکشش نظر آتی ہے ، عریانیت میں وہ حسن مفقود ہوتا ہے۔ اسی طرح جو لڑکے شرعی لباس کا خیال رکھتے ہیں، وہ زیادہ مہذب اور دوسروں کے لیے پرکشش ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ چڈیوں اور ہاف پینٹ پہن کر گھومتے ہیں، ان کے بدن کا مکروہ منظر ہر شخص کو تنفر کی دعوت دیتا ہے؛ بالخصوص جو لوگ بغل کے بالوں کی صفائی کا اہتمام نہیں کرتے اور ہاف بنیان پہن کر گردش کرتے رہتے ہیں، ان کے بدن کی یہ ہیئت کتنا کریہہ منظر ہوجاتی ہے، اسے صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔۔۔ الامان والحفیظ۔ 
لباس کے حوالے سے اگر ایسے سماج کے افراد یہ روش اختیار کریں، جنھیں مذہب کی کوئی رہنمائی حاصل نہیں ہے، تو معقول عذر سمجھا جاسکتا ہے، لیکن افسوس اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ مسلمان کا معاشرہ بھی اس معاشرہ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آج مسلمانوں کی لڑکیاں اور لڑکے بھی دوسرے سماج کے دوش بدوش ہیں اور ننگے پن میں ایک انچ بھی پیچھے نہیں رہ گئے ہیں۔ اس لیے میرے اسلامی اور دینی بھائیو!دوسروں کی دیکھا دیکھی اس طرح ننگی زندگی کا مظاہرہ سے باز آئیں اور نبی کریم ﷺ کی سیرت اور طریقے کو اپناتے ہوئے شرعی لباس کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مرضیات پر چلنا ہمارے لیے آسان کردے۔ اور اسلامی لباس کا نمونہ بن کر زندگی گذارنے کی توفیق ارزانی کرے، آمین۔

6 Jul 2018

سازش ہے؟

سازش ہے؟
محمد یاسین جہازی، جمعیۃ علماء ہند
رابطہ: 9871552408

فرمان الٰہی کے مطابق نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی اقدس سارے جہاں کے لیے رحمت بناکر بھیجی گئی ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو کام بھی رحمۃ اللعالمین کے طریقے اور ہدایت کے خلاف ہوگا، وہ سراسر زحمت اور پرمشقت ہوگا۔آج دنیا سماجی، سیاسی، اقتصادی اور دیگر تمام شعبہ ہائے حیات میں کسمپرسی اور شکست و ریخت کی شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے کہ وہ نبی رحمت کے اسوہ اعلیٰ و بالا سے روشنی حاصل نہیں کررہی ہے ۔ یہ دنیا اور اہل دنیا کا عجیب نظریہ ہے کہ زندگی کے کسی مسئلہ کا حل تلاش کرتے وقت اگر فارمولہ نبوی ﷺ کو پیش کردیا جائے، تو تعصب اور تنگ نظری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جان بوجھ کر اس سے پہلو تہی کرتے ہیں، جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ صحیح حل تلاشنے میں ناکام رہتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اس ذات گرامی اطہر و مقدس سے اپنی نسبت جوڑنا ہی متاع دین و دنیا سمجھتے ہیں، ان کے عمل اور طرز عمل کا جائزہ لیں، تو اس سے کہیں زیادہ تعجب و حیرانی ہوگی ۔ کیوں کہ ان کے قول و عمل میں زمین و آسمان کا فرق ملے گا۔ اہل نبی رحمت اس دعویٰ سے کبھی دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے کہ اسلام اور دامن رسول ﷺ سے وابستگی میں ہی کائنات کی بھلائی و کامرانی ہے؛ لیکن عمل کا جائزہ بتلاتا ہے کہ یہ محض ان کا زبانی دعویٰ ہے، عملی زندگی کا نمونہ اس سے کوسوں دور ہے۔ 
اگر معاملہ صرف یہی تک رہتا تو بھی قدرے غنیمت ہوتی، لیکن تعجب بالائے تعجب تو یہ ہے کہ اس حوالے سے عملی رکاوٹ پر یہ کہتے نظر آئیں گے کہ ’’یہ یہود کی سازش ہے‘‘۔ ’’یہ کفر کا فریب ہے‘‘۔ ’’یہ نصاریٰ کا فتنہ ہے‘‘۔ ’’یہ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کیا جارہا ہے‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ 
داڑھی پر پابندی کی بات کہی جائے، تو کفر کی سازش نظر آتی ہے، لیکن یہ تلقین کی جائے کہ نبی اکرم ﷺ کا چہرہ ریش مبارک سے منور تھا، تو عمل کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ مائک سے اذان پر حدبندی کی جائے ، تو غیروں کا تعصب جھلکتا ہے؛ لیکن صدائے حی علیٰ الفلاح سے ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ عوامی مقام پر نماز کی پابندی کا فرمان جاری کیا جائے، تو یہ مذہبی پابندی کا اعلان عام ہے؛ لیکن اپنی مسجد میں جمعہ کے علاوہ حاضری کو باعث عار سمجھنا ہمارا شیوہ ہے۔ امریکہ اسرائیل کے لیے رحم دلی دکھائے، تو یہود و نصاریٰ اسلام کی بیخ کنی کے درپے ہیں، لیکن ہم اپنے عمل و فکر سے ہر لمحہ اسلام کی ہدایات کی دھجیاں اڑائیں اور نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ کا منھ چڑائیں، تو کوئی بات نہیں!!!!!! ایں چہ بو العجبی است۔۔۔؟!!!!۔ 
اوپر جتنے بھی حوالے آئے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ راقم السطور ان چیزوں کا حامی ہے؛ راقم صرف آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہے کہ آج اسلام اور صاحب شرع دین متین نبی عربی و امی ﷺ سے ہمارا تعلق محض جذباتی رہ گیا ہے۔ ہماری عملی زندگی اسلام اور شارع اسلام سے بالکل خالی ہوچکی ہے۔ جب جذباتیت کا کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو ہمارا مبلغ فکر فورا پکار اٹھتا ہے کہ یہ ’’یہود، نصاریٰ اور کفر کی سازش ہے‘‘۔ اس کی سچائی پر ہم سوال نہیں اٹھاتے، لیکن اس سوال سے بھی توپہلی تہی نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری زندگی اسوہ رسول اکرم ﷺ سے مختلف کیوں ہے؟ اس میں کس کی سازش ہے۔۔۔؟!!!!!!!!!۔