زمزم کے پانی پینے کا طریقہ
قسط نمبر (29)
تصنیف:
حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
طواف کی نماز کے بعد آب زمزم پر آئے اور اپنے ہاتھ سے پانی کھینچے۔ اگر سہولت سے پانی کھینچنا ممکن نہ ہو تو دوسرے کا کھینچا ہوا پانی لے اور بسم اللہ پڑھ کر کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر قبلہ رو ہوکر یہ دعا پڑھ کر پیے اور خوب ڈٹ کر پیے۔
الْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ عِلْمَاً نَافِعَاً وَ رِزْقَاً واسِعَاً و شِفَا ءً مِنْ کُلِّ داءٍ
اور تین مرتبہ سانس لے کر پیے اور پھر خدا کی حمد کرے اور سر اور منھ کو بھی پانی ملے اور باقی بدن پر ڈالے ۔ اور جو پانی بچ رہے اس کو کنویں میں ڈال دے یا بدن پر ڈال لے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عباسؓ سے زمزم کا پانی طلب کیا ۔ انھوں نے عرض کیا کہ اس پانی میں (جس میں پانی کا رکھا ہوا تھا) سب لوگ ہاتھ ڈال دیتے ہیں، گھر میں صاف پانی رکھا ہوا ہے ، اس میں سے لاؤں؟ حضورﷺ نے فرمایا: نہیں، جس میں سے سب پیتے ہیں، اسی میں سے لاؤ۔ انھوں نے پیش کیا۔ حضورﷺ نے پیا اور آنکھوں پر ڈالا، پھر دوبارہ لے کر پیا اور اپنے اوپر دوبارہ ڈالا۔ (کنز)
ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا کہ ہم میں اور منافقین میں یہ فرق ہے کہ وہ زمزم کے پانی خوب سیراب ہوکر نہیں پیتے۔ (اتحاف)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ ڈول بھرنے کا حکم فرمایا۔ ڈول بھر کر کنویں کے کنارے پر رکھا گیا ۔ حضور ﷺ نے اس ڈول کو ہاتھ سے پکڑ کر بسم اللہ کہہ کر دیر تک پیا ، پھر فرمایا: الحمد للہ اس کے بعد پھر بسم اللہ کہہ کر دیر تک پیا ، پھر فرمایا: الحمد للہ،پھر ارشاد فرمایا کہ ہم میں اور منافقوں میں یہی فرق ہے کہ وہ خوب سیر ہوکر اس کو نہیں پیتے۔ (اتحاف)
اور تین مرتبہ سانس لے کر پیے اور پھر خدا کی حمد کرے اور سر اور منھ کو بھی پانی ملے اور باقی بدن پر ڈالے ۔ اور جو پانی بچ رہے اس کو کنویں میں ڈال دے یا بدن پر ڈال لے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عباسؓ سے زمزم کا پانی طلب کیا ۔ انھوں نے عرض کیا کہ اس پانی میں (جس میں پانی کا رکھا ہوا تھا) سب لوگ ہاتھ ڈال دیتے ہیں، گھر میں صاف پانی رکھا ہوا ہے ، اس میں سے لاؤں؟ حضورﷺ نے فرمایا: نہیں، جس میں سے سب پیتے ہیں، اسی میں سے لاؤ۔ انھوں نے پیش کیا۔ حضورﷺ نے پیا اور آنکھوں پر ڈالا، پھر دوبارہ لے کر پیا اور اپنے اوپر دوبارہ ڈالا۔ (کنز)
ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا کہ ہم میں اور منافقین میں یہ فرق ہے کہ وہ زمزم کے پانی خوب سیراب ہوکر نہیں پیتے۔ (اتحاف)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ ڈول بھرنے کا حکم فرمایا۔ ڈول بھر کر کنویں کے کنارے پر رکھا گیا ۔ حضور ﷺ نے اس ڈول کو ہاتھ سے پکڑ کر بسم اللہ کہہ کر دیر تک پیا ، پھر فرمایا: الحمد للہ اس کے بعد پھر بسم اللہ کہہ کر دیر تک پیا ، پھر فرمایا: الحمد للہ،پھر ارشاد فرمایا کہ ہم میں اور منافقوں میں یہی فرق ہے کہ وہ خوب سیر ہوکر اس کو نہیں پیتے۔ (اتحاف)
مسائل متفرقہ
مسئلہ: مریض معذور کو طواف کرانے کے لیے اجرت پر اٹھانا جائز ہے ۔
مسئلہ: اگر اٹھانے والے نے طواف کی نیت نہیں کی اور معذور بے ہوش نہیں تھا ، اس نے خود طواف کی نیت کرلی تو طواف ہوگیا ۔ اور اگر بیہوش تھا تو طواف نہیں ہوا۔
مسئلہ: طواف میں اگر عورت مرد کے ساتھ ہوجائے تو طواف فاسد نہیں ہوتا، نہ مرد کا نہ عورت کا ۔
مسئلہ: معذور جس کا وضو نہیں ٹھہرتا، چوں کہ اس کا وضو وقت تک رہتا ہے اور وقت کے نکلنے کے بعد وضو ٹوٹ جاتا ہے ، اس لیے ایسے آدمی کا اگر چار شوط کے بعد وقت نکل جائے تو دوبارہ وضو کرکے طواف پورا کرے اور اگر چار شوط سے کم ہی کیے تھے کہ وقت نکل گیا ، جب بھی وضو کرکے باقی شوط پورے کرسکتا ہے ، لیکن از سر نو طواف کرنا افضل ہے۔
مسئلہ: طواف کی جگہ جس کو مطاف کہتے ہیں ، خانہ کعبہ کے چاروں طرف اور مسجد حرام کے اندر اندر ہے، چاہے بیت اللہ سے قریب ہو یا بعید، اور چاہے ستون اور زمزم وغیرہ کو درمیان میں لے کر طواف کرے ، طواف ہوجائے گا۔
مسئلہ: اگر کوئی مسجد کی چھت پر چڑھ کر طواف کرے ، اگرچہ بیت اللہ سے اونچا ہوجائے، تب بھی طواف ہوجائے گا۔
مسئلہ: مسجد حرام سے باہر نکل کر اگر طواف کرے گا تو طواف نہ ہوگا۔
مسئلہ: اگر کوئی طواف میں حطیم کی دیوار پر چڑھ کر طواف کرے، تو طواف ہوجائے گا، لیکن مکروہ ہے۔
مسئلہ: طواف میں بالکل خاموش رہنا اور کچھ نہ پڑھنا بھی جائز ہے۔
مسئلہ: طواف میں دعا پڑھنا قرآن پڑھنے سے افضل ہے، لیکن دعا میں ہاتھ نہ اٹھائے۔
مسئلہ: طواف میں ناجائز امور سے نہایت اہتمام سے بچنا چاہیے ۔ لڑکوں اور عورتوں کی طرف نہ دیکھے اور فضول بات بھی نہ کرے۔
مسئلہ: اگر کوئی مسئلہ سے ناواقف ہو تو اس کو حقیر مت سمجھو ، اس کو نرمی سے مسئلہ بتادو۔
مسئلہ: عورتوں کو مردوں کے ساتھ مل کے طواف کرنا اور خوب دھکم دھکا کرنا جیسا کہ اکثر عورتیں آج کل کرتی ہیں ، حرام ہے۔ عورتوں کو رات یا دن کو ایسے وقت طواف کرنا چاہیے کہ مردوں کا ہجوم نہ ہو اور طواف میں مردوں سے جہاں تک ہوسکے علاحدہ رہنا چاہیے۔
مسئلہ: بادشاہ ، امرااور بڑے لوگ جب طواف کے لیے آتے ہیں، تو ان کے خدام اور ملازمین عام مسلمانوں کو روکتے ہیں اور مطاف سے باہر نکال دیتے ہیں، یہ ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔
طواف کی دعائیں
طواف کی نیت دل سے کرے اور زبان سے یہ کہے:
اَلْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ طَوافَ بَیْتِکَ الْحَرامِ، فَیَسِّرْہُ لِیْ وَ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ۔
جس وقت ملتزم کے سامنے آئے تو یہ پڑھے:
الْلّٰھُمَّ اِیْمَاناً بِکَ وَ تَصْدِیْقَاً بِکِتَابِکَ وَ وَفَاء اً بِِعَھْدِکَ وَ اِتِّباعَاً لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ محمَّدٍ ﷺ ۔
اور جب حجر اسود سے آگے بڑھے اور دروازہ کے سامنے آئے تو یہ دعا پڑھے:
الْلّٰھُمَّ اِنَّ ھذا البیتَ بیتُک والحَرَمَ حرَمُکَ والامنَ اَمَنُکَ و ھذا مقامُ العاءِذِ بکَ مِنَ النَّارِ فاَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
اور جب رکن شامی(شمالی مشرقی گوشہ) کے برابر آئے تو یہ دعا پڑھے:
الْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُ بِکَ من الشَّکِّ وا لشرْکِ والشِّقاقِ والنِّفاقِ و سُوءِ الاخلاقِ و سُوءِ المُنْقَلَبِ فی الاھْلِ والمالِ والوَلَدِ
اور جب میزاب رحمت (بیت اللہ کے پرنالے) کے برابر آئے تو یہ پڑھے:
الْلّٰھُمَّ اَظِلِّنِی تحتَ ظِلِّ عرْشِکَ یومَ لا ظِلَّ الَّا ظِلُّکَ ولا باقی الا وجْھُکَ و اسْقِنِیْ مِنْ حَوْضٍ نَبِِیََّکَ ﷺ شُرْبَۃً ھَنِیْءَۃً لا اَظْمَاُ بَعْدَھَا اَبَدَاً۔
اور جب رکن یمانی سے نکل جائے تو یہ دعا پڑھے:
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
یہ سب دعائیں سلف سے مروی ہیں جناب رسول اللہ ﷺ سے کوئی خاص دعا ثابت نہیں ہے کہ وہی دعا پڑھے اور دوسری نہ پڑھے۔ طواف کرتے ہوئے تلبیہ نہ کہے۔ جو دعا یاد ہو، وہی پڑھے اور جو ذکر چاہے، کرے۔
عن ابی ھریرۃ ان النبی ﷺ قال: من طافَ بالبیتِ سبعاً لایتکلمُ الا ب سبحان اللّٰہ، والحمدُ للّٰہِ، ولا الٰہ الا اللّٰہُ، واللّٰہ اکبرُ، ولا حولَ ولا قوۃَ الا باللّٰہِ مُحِیتْ عنہ عشَرُ سیئاتٍ و کُتبَ لہ عشرُ حسناتٍ و رُفع لہ عشرُ درجات۔ (روہ ابن ماجہ)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص خانہ کعبہ کا سات پھیرا طواف کرے اور اس میں سبحان اللہ، والحمدُ للہ، ولا الٰہ الا اللہ، واللہ اکبر، ولا حولَ ولا قوۃَ الا باللہ کے سوا کو ئی کلام نہ کرے، تو اس کے دس گناہ مٹائے جائیں گے۔ اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے دس درجے بلند کیے جائیں گے۔
اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان رسول اللہ ﷺ پڑھا کرتے تھے:
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
عن ابی ھریرۃ ان النبی ﷺ قال: و کل بہ سبعون ملکا یعنی الرکن الیمانی فمن قال: اللھم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی الدنیا والاٰخرۃ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِقالوا آمین۔ (رواہ ابن ماجہ)
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے رکن یمانی پر ستر فرشتے متعین ہیں، جو شخص اَلْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّار کہتا ہے، تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔
اور رسول اللہ ﷺ سے یہ پڑھنا بھی طواف میں ثابت ہے :
الْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ الرَّاحَۃَ عِنْدَ الْمَوتِ وَ الْعَفْوَ عِنْدَ الحِسَابِ۔
اور رکن یمانی پر پہنچ کر یہ پڑھنا بھی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے:
الْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الُکُفْرِ والْفَاقَۃِ وَ مَواقِفِ الْخِزْیِ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ۔
اور ملتزم پر کھڑے ہوکر جو دعا چاہے مانگے، اس جگہ دعا قبول ہوتی ہے اور یہ دعا پڑھے:
الْلّٰھُمَّ رَبَّ ھَذَا البیْتِ العَتیقِ اَْعتِقْ رِقابَنا مِنَ النارِ و اَعِدْنَا مِنَ الشَّیْطانِ الرَّجِیْمِ وَ بارِکْ لنا فیما اعْطَیْنَا الْلّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ اَکْرِمِ وَفْدِکَ عَلَیْکَ، الْلّٰھُمَّ لَکَ الْحَمدُ علیٰ نِعْماءِکَ وَ أفْضَلَ صَلَوتِکَ عَلٰی سَیِّدِ اَنْبِیَاءِکَ وَ جَمِیْعِ رُسُلِکَ وَ أصْفِیَاءِکَ وَ عَلیٰ اٰلِہ وَ صَحْبِہِ و اَوْلِیَاءِکَ۔
طواف قدوم کے احکام
مسئلہ: طواف قدوم آفاقی کے لیے جو صرف حج کا احرام باندھے ہوئے ہو یا قران کا اس کے لیے سنت ہے ۔ متمتع مکی اور حلی کے لیے مسنون نہیں ہے۔ البتہ اگر مکی اور حلی میقات سے باہر جاکر مکہ آئے تو اس کے لیے بھی مسنون ہے ، جب کہ مفرد یا قارن ہو۔ عمرہ کرنے والوں پر طواف قدوم نہیں ہے۔
مسئلہ: طواف قدوم کا وقت مکہ میں داخل ہونے کے وقت سے وقوف عرفہ تک ہے۔ اگر وقوف عرفہ کرلیا اور طواف نہیں کیا تو اس کا وقت ختم ہوگیا۔ اس کے بعد طواف قدوم ساقط ہوگیا ۔
مسئلہ: آفاقی سیدھا عرفہ چلا جائے اور وقوف عرفہ کے بعد مکہ آئے تو اس سے طواف قدوم ساقط ہوجاتا ہے۔
مسئلہ: طواف قدوم پر قدرت کے باوجود طواف چھوڑ کرعرفات چلا گیا اور وہاں جاکر طواف قدوم کا خیال ہوا۔ اگر نویں کے زوال سے پہلے لوٹ کر طواف کرلیا تو طواف قدوم ہوگیا ، ورنہ طواف قدوم نہیں ہوا۔
مسئلہ: طواف قدوم کے بعد اگر صفا و مروہ کے درمیان سعی کا بھی ارادہ ہو تو اس طواف میں اضطباع اور تین شوط میں رمل بھی کرے ، ورنہ اضطباع و رمل نہ کرے۔
مسئلہ: مفرد کے لیے سعی طواف زیارت کے بعد افضل ہے اور قارن کے لیے طواف قدوم کے ساتھ سعی کرنا افضل ہے۔ اور جو شخص طواف زیارت سے پہلے حج کی سعی کرلے وہ طواف زیارت کے بعد نہ کرے۔
مسئلہ: وقوف عرفہ سے پہلے اگر کوئی نفلی طواف کرلیا اور طواف قدوم کی نیت نہیں کی، تو بھی طواف قدوم ہوگیا ۔ طواف قدوم کی خاص طور سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔
صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کا بیان
صفا و مروہ کے درمیان مخصوص طریقے سے سات چکر لگانے کا نام سعی ہے۔ سعی کے معنی دوڑنے کے ہیں۔
صفا ومروہ دو پہاڑیاں ہیں، جو مسجد حرام سے متصل ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اِنَّ الصَّفا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاءِرِ اللّٰہِ، فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ أنْ یَّطُوَّفَ بِھِمَا و مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرَاً فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ۔
بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ (کے دین) کی یادگاروں میں سے ہیں، سو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ تو اس پر ذرا بھی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرنے پر۔
تمت بالخیر