3 May 2019

Larki hi to gala kaat den kia

لڑکی ہے تو گلا کاٹ دیں کیا

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


عمرہ ادا فرماکر سرور کائنات ﷺ واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ وہیں پاس حضرت علی ؓ بھی کھڑے ہیں۔ ان کے پاس جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ بتول ؓ بھی موجود ہیں۔ اچانک ایک بچی کی سریلی آواز کانوں میں گونجتی ہے۔
چچا…… چچا۔ حضرت علی پیچھے مڑ تے ہیں، تو کیا دیکھتے ہیں کہ سید الشہدا حضرت حمزہ ؓ کی بچی امامہ پکار رہی ہے۔ حضرت علی بچی کی طرف لپکے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر گود میں لے لیا۔ پھر اپنی بیوی کو سونپتے ہوئے کہا کہ یہ لو تمھارے چچا کی بیٹی ہے۔ وہیں قریب میں بچی کے خالو حضرت جعفر طیار ؓ بھی ہیں، وہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ یہ بچی مجھے ملنی چاہیے، کیوں کہ اس کی خالہ میرے گھر میں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت زید ؓ خود کو روک نہیں پاتے ہیں اور وہ بھی بچی کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ یہ بچی مجھے ملنی چاہیے، کیوں کہ حضرت حمزہ میرے مذہبی بھائی تھے۔ حضرت علی ؓ بچی سے محرومی کا احساس کرتیہوئے گویا ہوتے ہیں کہ یا رسول اللہ اس بچی پر صرف میرا حق ہے، کیوں کہ وہ سب سے پہلے میری گود میں آئی ہے۔ سرور کائنات ﷺ یہ خوش کن منظر دیکھ کر مسکراتے ہیں اور پھر سب کے دعوے میں یکسانیت دیکھ کر امامہ کو اس کی خالہ کی گود میں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”خالہ ماں کے برابر ہوتی ہے“۔ 
اپنی تو دور؛ دوسروں کی بچیوں کی پرورش و پرداخت کا یہ جذبہ اور دل کش منظر ایک ایسے سماج کا ہے، جہاں لوگ لڑکیوں کو بلا اور مصیبت سمجھ کر زندہ گاڑ دیا کرتے تھے۔ لیکن نبوی تعلیم و تربیت نے ایسا انقلاب برپا کیا کہ اس وجود بلا و مصیبت کو عین وجود رحمت اور جنت میں جانے کا ذریعہ بنا دیا۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، ان کے لیے دکھ تکلیف پرصبر کیا اور انھیں اپنے مال میں سے کپڑے پہنائے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی۔
آپ نے درج بالا سطور میں اسلامی تربیت یافتہ سماج کا ایک خوش نما منظر دیکھا۔ آئیے آپ کو تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھاتا چلوں جو اسی سماج کے لوگ تھے؛ لیکن وہ اسلام کے دامن رحمت سے محرومی کے دور میں زندگی گذار رہے تھے۔ 
اسلام سے پہلے عورت کا مقام
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام سے پہلے عورت کے وجود ہی کو شرم و عار سمجھا جاتا ہے۔ کلام پاک گواہی دے رہا ہے کہ 
وَإِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْأُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ ٭ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ایُمْسِکُہُ عَلٰی ہُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہُ فِیْ التُّرَابِ اَلاَ سَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ النحل: 58،59 
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے، جو بری خبر اسے دی گئی ہے اس کی وجہ سے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت ورسوائی کے باوجود اپنے پاس رکھے، یا اسے زندہ در گورکردے، آہ! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں۔
امام بغویؒ فرماتے ہیں کہ عرب میں یہ رواج عام تھا کہ جب کسی کے گھر میں بیٹی پیدا ہوتی اور وہ اسے زندہ باقی رکھنا چاہتا تو اسے اونی جبہ پہنا کر اونٹوں اور بکریوں کو چرانے کے لیے دور دراز بھیج دیتا۔اور اگر اسے مارنا چاہتا تو وہ جب 6 سال کی ہو جاتی تو کسی جنگل میں ایک گڑھا کھودتا، پھر گھر آ کر اپنی بیوی سے کہتا کہ اسے خوب اچھا لباس پہنا دو تاکہ وہ اسے اس کے ننھیال (یا اس کے دادا دادی) سے ملا لائے۔ پھر جب اس گڑھے تک پہنچتا تو اسے کہتا: اس گڑھے کے اندر دیکھو، چنانچہ وہ اسے دیکھنے کے لیے جھکتی تو یہ اسے پیچھے سے دھکا دے دیتا وہ اس میں گر جاتی اور یہ اس کے اوپر مٹی ڈال دیتا۔(معالم التنزیل: ج 5 ص 25)
ایک شخص کاشانہ نبوی پر حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ! ﷺ ہم لوگ جاہلیت والے تھے۔ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور اولاد کو مارڈالتے تھے۔ میری ایک لڑکی تھی۔ وہ کچھ بڑی ہوئی، تو جب میں آواز دیتا تھا، تو وہ میری بات سن کر دوڑی چلی آتی تھی۔ میرے ساتھ ہنستی کھیلتی تھی۔ وہ بچی مجھ سے بہت زیادہ مانوس ہوگئی تھی اور مجھے بھی اس سے کچھ محبت ہوگئی تھی۔ لیکن جاہلی عقیدے کی بنیاد پر میں اسے باعث عار سمجھنے لگا۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں نے اسے بلایا وہ میری آواز پر خوشی خوشی دوڑی چلی آئی۔ میں آگے بڑھا، وہ میرے پیچھے پیچھے آنے لگی۔ میرے گھر کے قریب ایک کنواں تھا، میں وہاں پہنچا، میری بچی بھی میرے پیچھے پیچھے وہاں پہنچی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اٹھا کر کنویں میں پھینک دیا۔ وہ چیختی رہی، چلاتی رہی، مجھے ابو ابو کہہ کر پکارتی رہی اور یہی اس کی زندگی کی آخری آواز تھی، لیکن میں نے ایک بھی نہ سنی اور اسے چیختے چلاتے ڈوب کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور بالآخر تھوڑی دیر کے بعد یہ ننھی سے معصوم آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔
رحمت کونین اس پر درد افسانہ کو سن کر آنسو ضبط نہ کرسکیاور روتے روتے یہ حالت ہوگئی کہ ریش مبارک آنسووں سے تر ہوگئی۔ اس کے باوجود نبی اکرم ﷺ نے ان سے دوبارہ کہا کہ میاں! اپنا قصہ پھر سے سناؤ۔سرور کائنات بار بار اس قصے کو سنتے رہے اور روتے رہے۔ (سنن دارمی، المقدمہ، باب ماکان علیہ الناس قبل مبعث النبی ﷺ من الجھل والضلالۃ۔)
قبیلہ بنو تمیم کا سردار حضرت قیس بن عاصم التیمی رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ ﷺ!میں نے زمانہ جاہلیت میں آٹھ لڑکیاں زندہ دفن کی ہیں۔ 
اسلا م سے پہلے، دوسرے تمام مذاہب و سماج میں والدین کو اپنی اولاد پر لا محدود اختیارات و حقوق حاصل تھے، لیکن اولاد کا والدین پر کوئی حق نہیں تھا، کیوں کہ یہ باپ کی عظمت کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ عرب کے سفاکانہ مراسم میں بے رحمی سے بچیوں کو زندہ دفن کردینے کے پیچھے جہاں یہ عقیدہ تھا، وہیں درج ذیل وجوہات بھی تھیں: 
(۱) اپنی دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے بچوں کی قربانی دے دیا کرتے تھے۔ (موطا امام مالک، کتاب النذور،باب مالایجوز من النذور فی معصیۃ اللہ،)یہ رسم اہل عرب کے علاوہ رومۃ الکبریٰ کے متمدن قوموں اور ہندستان میں راجبوپتوں میں بکثرت پایا جاتا تھا۔ جو شادی وغیرہ کی عار کی وجہ سے عام حالات میں، بیوہ ہونے کی صورت میں ستی کی شکل میں اور جنگ وغیرہ کے حالات میں جوہر کی صورت میں لڑکیوں کو مار ڈالتے تھے۔ 
(۲) فقرو فاقہ کا ڈر۔ وہ سمجھتے تھے کہ اولاد ہوگی، تو اس کے کھانے پینے کا خرچ اٹھانا پڑے گا، اس لیے ان کے خون سے اپنا ہاتھ رنگ کر اس سے چھٹکارا پا لیتے تھے۔ 
(۳) لڑکیوں کو زندہ دفن کردینا۔ اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ لڑکیاں شرم و عار کی باعث ہیں، اس لیے جب لڑکی پیدا ہوتی تھی، تو باپ کو سخت رنج ہوتا تھا اور لوگ لڑکیوں کے وجود کو بلا اور مصیبت سمجھتے تھے،لیکن اسلام نے ان تمام نظریات کے خلاف اولاد کے بھی حقوق متعین کیے اور دنیائے انسانیت کو تعلیم دیتے ہوئے بتایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس کو اس بچے کی زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، تو اس کے نقش زندگی کو مٹانے کی کوشش کرنا جرم عظیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں عزل اور اسقاط حمل کو حرام قرار دیا گیا ہے اور لڑکی کے وجود کو مصیبت و عار کے بجائے رحمت ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ جو کوئی ان لڑکیوں میں سے کسی لڑکی کی مصیبت میں مبتلا ہواور پھر اس کے ساتھ مہرو محبت کا معاملہ کرے، تو وہ لڑکی اسے دوزخ کے عذاب سے بچا لے گی۔ اور وہ اس کے اور دوزخ کے درمیان پردہ بن جائے گی۔ (بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الولد)
اور یہ کس قدر حیرت انگیز تھا کہ عورتیں خود اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے کے لیے خوشی خوشی مردوں کے حوالے کردیا کرتی تھیں، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے صلح حدیبیہ، فتح مکہ، عید کے اجتماع میں اور انفرادی ملاقاتوں کی جب بھی عورتوں سے بیعت لیا کہ تو ان سے اقرار کرایا کہ وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔ 
”ان تمام تدبیروں کے علاوہ قرآن پاک کی ایک مختصر سی آیت نے عرب کی ان تمام قساوتوں، ان تمام سنگ دلیوں اور ان تمام سفاکیوں کو مٹانے میں وہ کام کیا، جو دنیا کی بڑی بڑی تصنیفات نہیں کرسکتی تھیں۔ قیامت کی عدالت گاہ قائم ہے، مجرم اپنی اپنی جگہ کھڑے ہیں، غضب الٰہی کا آفتاب اپنی پوری تمازت پر ہے، دانائے غیب قاضی اپنی معدلت کی کرسی پر ہے، اعمال نامے شہادت میں پیش ہیں کہ ایک طرف سے ننھی ننھی معصوم بے زبان ہستیاں خون سے رنگین کپڑوں میں آکر کھڑی ہوجاتی ہیں، شہنشاہ قہار کی طرف سے سوال ہوتا ہے، ائے ننھی معصوم جانو! تم کس جرم میں ماری گئیں؟
وَاِذَا الْمَوْؤُودَۃُ سُءِلَتْ۔ بِاَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ۔(سورۃ، آیات 8، 9)
”یاد کرو جب (قیامت میں) زندہ دفن ہونے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تم کس جرم میں ماری گئی۔“(سیرۃ النبی جلد ۶، ۴۵۳)
آج اپنے سماج کے رویے پر غور کیجیے، تو آپ بے ساختہ یہی کہیں گے کہ ہمارا معاشرہ پھر دور جاہلیت کے نقش قدم کا اسیر ہوچکا ہے۔ بیٹیوں کے بارے میں جہالت و جاہلیت کے عقیدے دوبارہ جاگ اٹھے ہیں، نئے نئے طریقوں سے لڑکیوں کو زندگی سے محروم کیا جارہا ہے۔ پہلے صرف والدین ہی اپنی بچیوں کو مارتے تھے، آج والدین کے ساتھ ساتھ پورا معاشرہ لڑکیوں کے وجود کا متنفر ہوچکا ہے۔ایک طرف جہاں والدین نقش زندگی ہی مٹادینے کے درپے ہیں، تو وہیں دوسری طرف سماج، جہیز اور دوسری کمر توڑ رسم و رواج کے ذریعہ انھیں یہ احساس کرایا جارہا ہے کہ تمھارا وجود ایک بوجھ ہے، تم ایک بزنس پوائنٹ ہواور بنام محبت تجارت کا سب سے خوب صورت ذریعہ ہو۔ سماج کی ایسی ذہنیت کو دیکھ کر لڑکیاں بھی احساس مظلومیت کی شکار ہوچکی ہیں، وہ خود کو والدین کے لیے مصیبت اور بوجھ سمجھ کر زندہ لاش بنتی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ خود کو تجارت کا مرکز بناکر اپنی چادر نسوانیت کو تار تار کرنے پر مجبور ہورہی ہیں۔ یہاں پر سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ان سب کا ذمہ دار کون ہے۔۔۔ لڑکی ہونا۔۔۔۔ معاشرہ کا جاہلانہ و انسانیت سوز طرز عمل، یا پھر دین فطرت سے بغاوت۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وجود رحمت کی قدر و پرورش کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔