محمد یاسین جہازی
ناچیز نے اپنی ایک تالیف کا بے پروف ریڈ مسودہ ایک مکتبہ والے کو یہ جاننے کے لیے دیا کہ کیا یہ کتاب مارکیٹنگ کرسکتی ہے؛ کیوں کہ اس کے بغیر کوئی بھی اشاعتی ادارے کتاب شائع کرنے کے لیے جلدی تیار نہیں ہوتا۔ تجارتی تجربہ کی بنیاد پر اس نے صاحب کتاب کو اطلاع دیے بغیرآنا فانا اسی مسودہ کو چھاپ دیا۔ جب مقبولیت کے ہاتھوں میں گردش کرنے لگی، تو متعدد قارئین کا فیڈ بیک آیا کہ ”کتاب کمپوزنگ کی غلطیوں سے پاک نہیں ہے“۔ بہرحال کچھ ہی مہینوں میں جب اس کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت عمل میں آئی، تو ”آسان انگریزی قواعد“ کے نیچے ٹائٹل پر ”اضافہ شدہ ایڈیشن“ کا ٹیگ دے دیا گیا، تاکہ قارئین کی شکایت دور ہوجائے۔
اپنی بات کے بعد آئیے کچھ اکابر کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ میرے سامنے ”حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کی سیاسی ڈائری“ جلد دوم ہے۔ اس کے صفحہ نمبر۸۹/ پرمجلس منتظمہ جمعیت علمائے ہند کی فہرست درج ہے، جو ”مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند“ کا اقتباس ہے۔ اصل کتاب میں تو تئیس افراد کے نام درج ہیں، جب کہ اس میں مولوی محمد فاخر الٰہ آبادی کا نام غائب ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ پروف ریڈنگ کی غلطی ہی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اسی جلد کے صفحہ نمبر ۶۴۳/ پر ۰۲، ۱۲/ ستمبر ۳۲۹۱ء کے بجائے ۰۳، ۱۳ اکتوبر ۳۲۹۱ء لکھ دیا گیا ہے، جو تاریخی حقیقت کے خلاف ہے۔
بعینہ یہی غلطی ”جمعیت علما کیا ہے“ کے جلد دوم کے صفحہ نمبر ۷۱/ پر ہوئی ہے، جہاں ایک کے بجائے دو دو نام کمپوزنگ میں رہ گئے ہیں۔اس کتاب میں درجنوں مقامات ایسے ہیں، جہاں صراحتا کمپوزنگ کی غلطی ہے، کہیں پر تاریخ میں الٹ پھیر کردی گئی ہے، تو کہیں پر علما کو علم بنادیا گیا ہے۔ کہیں پر ایک ہی میٹنگ کی الگ الگ نشستوں کی کارروائی کے درمیان دوسرے مضامین اور رپورٹ شامل کردی گئی ہیں، جو تاریخی تسلسل کے خلاف ہے۔
بالکل نئی مطبوعہ کتاب کی بات کریں، تو ناچیز کے سامنے ”تذکرہ ابوالمحاسن“ موجود ہے، جس کے صفحہ نمبر ۶ / پر جمعیت علمائے ہند کے ناظم عمومی مولانا محمود اسعد مدنی صاحب کا اظہار تشکر ہے۔ مضمون کے آخر میں محمود کو محمد کردیا گیا ہے۔ اسی مضمون کے دوسرے پروگرام میں ایک وضاحت کے ضمن میں دو کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے، لیکن صفحہ نمبر کے لیے:’ص……‘ لکھ دیا گیا ہے۔ کتاب کے دیگر مضامین کے بات کریں، تو کمپوزنگ اور تاریخ و سن؛ بالخصوص ہجری و عیسوی کے التباس کے ساتھ اس قدر رد و بدل کردی گئی ہے کہ کسی بھی تاریخ پر بھروسہ کرنا حقیقت سے مایوسی کا دوسرا حوالہ ہوگا۔ اس میں بالخصوص مولانا مفتی محبوب فروغ صاحب کے مقالہ کا شاید ہی کوئی پیراگراف ہوگا، جو کمپوزنگ کی غلطی سے پاک ہو۔
تقابلی مطالعہ میں پایا گیا کہ اکابرین کی تحریروں میں عیسوی و ہجری میں سے کسی ایک کا التزام نہیں کیا گیا ہے، ایک ہی پیراگراف میں ایک جگہ ہجری ہے، تو اگلی ہی سطر میں اسی سلسلے کے لیے عیسوی تاریخ رقم کردی گئی ہے، جس تاریخ سے الجھن کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ مولانا محمد منیر الدین عثمانی صاحب گڈاوی طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے بارہا کہا کرتے ہیں کہ ”حضرت قاضی مجاہد الاسلام صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آج کل لوگ روز اول ہی سے چھپنا چاہتے ہیں۔“ جس کا نتیجہ اس شکل میں ظاہر ہوتا ہے کہ رطب و یابس پرنٹ ہوجاتی ہے اور اہل تحقیق کے لیے الجھن کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے قاعدہ یہی ہے کہ جو چیز آگے چل کر تاریخی شہادت کا درجہ حاصل کرنے والی ہے، اسے بہت ہی احتیاط کے ساتھ لکھا اور پرنٹ کیا جانا چاہیے۔