اک چھوٹا سا وہ لمحہ، جو کاٹے نہیں کٹتا
میری آنکھیں فاقہ کش ہیں
میری آنکھیں فاقہ کش ہیں
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
سماجیات کے ماہرین انسان اور جانور میں ایک فرق یہ بھی بتاتے ہیں کہ جانور صرف جھنڈ بناتا ہے، خاندان اور معاشرہ نہیں، جب کہ یہ دونوں خصوصیات انسان کے ساتھ مخصوص ہیں اور اسی وجہ سے اسے ’’سماجی حیوان‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔
سماج و معاشرہ میں زندگی گذارنے کے رجحانات کے لیے ایک اور دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ انسان کے خمیر میں انسیت کا عنصر شامل ہے اور انسیت سوشل لائف گذارنے کی محرک ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جرم کرنے والوں کو سماجی بائکاٹ اور قید تنہائی کی سزا دی جاتی ہے۔
تعلیمی و معاشی ؛ یہ دو ضرورتیں ایسی ہیں، جن کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان سماج و معاشرہ میں رہنے کے باوجود بائکاٹ اور تنہائی کی مجرمانہ قید میں زندگی گذار رہا ہے۔ناچیز جب علم و معرفت کے لیے محو سفر ہوا، تو لاشعوری عہد تھا ۔ تحصیل علم کے مکمل دس برس کے بعد خیال آیا کہ والدین اور اپنے سماج سے اتنے طویل عرصے الگ تھلگ رہنے کے بعد اب اپنے سماج میں اور والدین کے زیر سایہ عاطفت زندگی گذارنی چاہیے؛ لیکن تعلیمی مجبوری کی طرح معاشی مجبوری نے اتنا موقع ہی نہیں دیاکہ اس تجویز پر عمل درآمد کرسکوں۔ اور اس طرح سے تقریباچھ سال کا عرصہ بھی غریب الوطنی کی نذر ہوگیا۔
اس کے بعد زندگی میں ایک نجی معاشرتی ذمہ داری کا اضافہ ہوا اور جدائی کے غم میں شریک غم یعنی بیگم بھی شریک ہوگئی۔ پہلے صرف والدین اور معاشرے سے جدائی کا غم تھا ، اب یہ تیسرا غم بھی پابہ رکاب ہوگیا۔ کافی کوشش کی کہ معاشرہ اور والدین نہ سہی، تودنیاوی دستور اور تقاضہ فطرت کے تحت کم از کم شریک زندگی کو ہی ساتھ رکھ لیں؛ لیکن یہ کوشش تا ہنوز بار آور نہیں ہوپائی؛ حتیٰ کہ تا حال دو اورایسے وجود کا اضافہ ہوگیا، جن کی آنکھیں میری دید کے لیے اور میری آنکھیں ان کے دیدار کے لیے مضطرب رہتی ہیں؛ لیکن نوشتہ تقدیر شاید یہی ہے کہ ناچیز سے منسوب ہر آنکھوں کے لیے فاقہ کشی مقدر ہوچکی ہے۔
زمانہ طالب علمی میں چھٹی کا تصور مژدہ جاں فزا ہوا کرتا تھا۔ جمعرات آنے سے ایک دو روز قبل ہی رخصت کی فرحت کا احساس شروع ہوجایا کرتا تھا۔ شب و روز درس و تدریس کے دورانیہ کے تسلسل سے جب آزادی ملتی تھی، تو ایسا لگتا تھا کہ خوشی کا کوئی خزانہ ہاتھ آگیا ہے؛ لیکن جب سے جمعرات اتوار میں تبدیل ہوگئی ہے اور اقتصادی زندگی کا آغاز ہوا ہے، تب سے یہ احساس بالکل برعکس کیفیت پیدا کرتا ہے۔ اس زندگی میں چھٹی کا دن آتے ہی خوفناک تنہائی ستانے لگتی ہے۔ روز مرہ کے معمولات کا تسلسل ٹھہرتا ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے نبض حیات ٹھہر گئی ہو۔ آفس اور کمرے کے درودیوار بھی سناٹے کے مجسمے نظر آتے ہیں۔ حالاں کہ ہر روز وہی آفس اور وہی کرسی ہوتی ہے، لیکن چھٹے کے دن آفس آنے سے ایسا لگتا ہے کہ کرسی اور آفس دونوں ہمارے نوشتہ تقدیر پر ہنس رہے ہوں، جس کی برداشت کی تاب نہ لاکر باہر چلا جاتا ہوں، جہاں ہمیں ہزاروں چہرے نظر آتے ہیں، لیکن ان کے بیچ بھی اکیلا پن کی کیفیت دور نہیں ہوتی، کیوں کہ ان ہزاروں چہروں میں ایک بھی چہرہ شناسائی کا چہرہ نہیں ہوتا ہے۔
آئینہ کے سو ٹکڑے کرکے ہم نے دیکھے ہیں
ایک میں بھی تنہا تھے، سو میں بھی اکیلے ہیں
اس دن کا چھوٹا لمحہ بھی صدیاں بتانے جیسا لگتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ جائز و ناجائز کے تصور سے محروم افراد تنہائی میں تفریح طبع کے لیے گانوں ، فلموں، لیونگ ان ریلیشن شپ، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ،کلچرل پروگرام وغیرہ کو ضروریات زندگی میں شمار کرتے ہیں اور غریب الوطنی میں وقت گذارنے کا بہترین ذریعہ حیات سمجھتے ہیں۔
حصول تعلیم کے تحت اپنے گھر معاشرے سے دور رہناایک ایسی وجہ ہے، جو سنہرے مستقبل کی ضامن ہے، لیکن معاشی اور ملازمت کی مجبوری کے تحت زندگی کو تنہائی کی سزا دینا انسان کے خمیر انسیت اور سماجی فطرت کے خلاف ہے ، اس لیے یہاں چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں، جن کو عملہ جامہ پہناکر فطری سماجی زندگی گذار سکتے ہیں:
(۱) تعلیم کے بعد ملازمت کے بجائے تجارت کو ذریعہ معاش بنانے کی کوشش کریں۔
(۲) سرمایہ یا تجربہ ، یا اور کسی مجبوری کی وجہ سے تجارت کرنا ممکن نہ ہو، تو صلاحیت کے مطابق قرب و جوار میں جوب تلاش کریں۔
(۳) آپ کی صلاحیت کے اعتبار سے گاوں معاشرے کے قریب ملازمت نہ ملے، تو دوردراز بھی ملازمت کرنے سے گریزاں نہیں ہونا چاہیے، البتہ ایسی صورت میں درج ذیل مقاصد کو فراموش نہ کریں:
(الف) اگر مستحکم ملازمت ہے، تو وطن ملازمت کو ہی وطن اصلی بنالیں۔
(ب) بصورت دیگروطن ملازمت کو فیملی کے لیے بھی وطن اقامت بنائیں۔
(۴) اگر درج بالا دونوں صورتیں ممکن نہ ہوں، جس کی بنیادی وجہ ’’کم تنخواہ‘‘ ہوسکتی ہے، تو وطن اصلی آمد و رفت کرنے کی تعداد بڑھادیں، جو شرعی اعتبار سے ایک سال میں کم از کم تین مرتبہ ہے، یعنی ہر چار ماہ کے اندر ایک مرتبہ والدین کی زیارت اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ضرور سفر کریں۔
(۵) اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو، جس کے تین بنیادی اسباب ہوسکتے ہیں، یعنی کم تنخواہ، کم رخصت، یا پھر موقع بہ موقع کام کا اضافی بوجھ، تو ایسی صورت میں ناچیز کا مشورہ یہ ہے کہ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے ملازمت، چھوٹنے، تنخواہ کٹنے اور اس جیسے اندیشے سے باہر آکر دل اور ارادے کو مضبوط رکھیں اور حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے تھوڑی بہت آگے پیچھے کرکے اپنا کام نکالنے کی کوشش کریں۔ یاد رہے کہ حکمت عملی اور آگے پیچھے کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ضمیر فروشی اور خصیہ برداری تک گر جائیں؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آمدو رفت کے دورانیہ میں کم و بیشی سے کام چلائیں۔
(۶) اس موقع پر ، مدارس کے مہتمم، مساجد کے ذمہ داران، اداروں کے نگراں اور کمپنیوں کے مالکان سے بھی یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ اپنے ملازمین کے ساتھ اسلامی تعلیمات و ہدایات کے مطابق معاملہ کریں، انھیں سیلری نہیں؛ بلکہ اپنی ضروریات کی طرح تن خواہ دیں، ان کی گھریلو ضروریات ، فیملی کی خواہشات اور عید و تہوار جیسے مواقع پر چھٹی، تحفہ وغیرہ کا خصوصی خیال رکھیں۔ اور یہ بھی خیال رکھیں کہ آپ کی زندگی کو کامیاب و شاندار بنانے میں آپ کے ملازم کا خون پسینہ بھی شامل ہے، اس لیے اس کے خونی رشتوں کے ساتھ کچھ لمحات گذارنے اور فیملی کے لیے پسینہ بہانے کے لیے مواقع فراہم کرنا آپ کا دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلنا آسان فرمائے، اور اپنے ملازمین کے حقوق و ضروریا ت کا خاص خیال رکھنے کی توفیق ارزانی کرے، آمین۔