22 Mar 2019

رمضان میں ووٹنگ۔۔۔ کیا یہ سازش ہے؟ ایک ووٹ ستر ووٹوں کا کرشمہ بھی توکرسکتا ہے

حمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
بہانہ جواور ذمہ داری کی جواب دہی سے بے شعور فرد، اسی طرح فکری مفلوک قوموں کی ہر بے عملی اور ناکامی کے پیچھے غیروں کی سازش نظر آتی ہے۔ راقم نے جب سے ادراک سنبھالا ہے، تب سے یہی سنتا آیا ہے ؛ حتیٰ کہ مثبت اور تعمیری ایجادات میں بھی یہود و نصاریٰ کی سازش کا ہی عقیدہ رکھتے ہیں۔حقیقی واقعہ ہے کہ ایک مسجد کے صحن میں بیٹھا تھا، قریب میں دو عمر رسیدہ افراد محو گفتگو تھے ۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ وضو کے لیے بنائی گئی یہ ٹوٹیاں بھی یہودی سازش کی تخلیق ہیں، کیوں کہ اس سے لوٹے کی بنسبت پانی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ ادنی عقل و شعور کا حامل شخص بھی ایسی فکری دو رنگیوں کے مناظر سے اچنبھے میں پڑ جاتے ہیں کہ اگر سازش ہے، تو اس کا حصہ کیوں بنتے ہیں۔۔۔ ؟ کیا کسی یہودی نے آپ کو مجبور کیا تھا کہ اپنی مسجد میں آپ ٹوٹی لگائیں۔۔۔ ؟
آ ج کل مسلمانوں کا ایک طبقہ جوفیس بک یونی ور سیٹی اور واٹس ایپ کالجز سے بے سند یافتہ فضیلت کیے ہوئے ہیں، کا ماننا ہے کہ رمضان میں ووٹنگ در اصل بی جے پی ، آر ایس ایس اور ہندو راشٹر واد کے لیے کوشاں افراد کی تخریبی ذہنیت ہے۔ اس میں کتنی سچائی ہے، یہ کہنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ پارلیمنٹری الیکشن کے سسٹم اور تاریخی دورانیہ سے جو لوگ واقفیت رکھتے ہیں، وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ یہ سازش نہیں؛ بلکہ سسٹم کا میعادی دورانیہ ہے، جسے عام حالات میں آگے پیچھے نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے باوجود ، عام لوگ تو عام لوگ ہیں، خود کو موقر کہلانے والے کچھ اخبارات اس عنوان سے مستقل کالم اور مراسلہ لکھواکر مسلمانوں کے جذبات کی خدمت کے نام پر جو صفحات سیاہ کررہے ہیں، آپ اسے کیا کہیں گے۔۔۔ ؟ ۔
حالاں کہ اس موقع پر دیگر کئی اہم مسائل تھے، جنھیں اگرموضوع بحث بناکر خصوصی اشاعتیں کی جاتیں،تو بالیقین امت کو بڑا فائدہ ہوتا۔ مثلا ، رمضان میں مدارس میں چھٹیاں ہوتی ہیں اور اکثر اساتذہ سفارت کے سفر پر نکل جاتے ہیں۔ حفاظ کی بڑی تعداد تراویح کے لیے دوسری جگہوں پر رمضان گذارتے ہیں۔ حلقہ تصوف سے وابستہ افراد اپنے شیوخ کی خدمت میں اعتکاف کے لیے محو سفر ہوتے ہیں۔ ملازمت پیشہ افراد ، گھریلو، معاشی ، چھٹی اور دیگر ضروریات کی وجہ سے اپنے ووٹنگ بوتھ سے دور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور اس قسم کے کئی دیگر مسائل پر بحث و گفتگو کرکے اس کا مناسب حل نکالنے اور ووٹ ڈالنے کی مہم چلاتے، تو یہ زیادہ کارگر بحث ہوتی۔ ۔۔۔ لیکن کیا کریں، ہمارے کچھ وہ مسائل جن کا حل خود ہمارے پاس ہے، ان کے حل کرنے کی باتیں کریں گے، تو سماج کا مفکر طبقہ یہی کہے گا کہ ۔۔۔ارے یہ تو سازش ہے۔۔۔!!۔
راقم کا ماننا ہے کہ رمضان برکتوں کا پربہار موسم لاتا ہے۔ اس میں نوافل فرائض کے درجات حاصل کرلیتے ہیں ۔ اور ہر ایک فرض ستر فرضوں کا عوض بن جاتا ہے۔ تو بھلا کیا پتہ ۔۔۔رمضان میں ایک مسلمان کا ایک ووٹ ۔۔۔ سترووٹوں کا کرشمہ کرجائے ۔ اور اس طرح سے ظالم و جابر حکمراں سے آزاد ہونے کا خوب صورت موقع میسر آجائے۔ اس لیے ناچیز درخواست گذار ہے کہ کسی بھی مسئلے کو لے کر جذباتی ہونے سے پہلے غوروفکر کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ صحیح مسئلہ اور فیصلے پر ہمیں اکساکر ہماری غلط شبیہہ بنانے کی منظم سازش ہورہی ہے ۔ اور اس طرح سے ہم سازش سے پاک کام میں ہمیں غلط طور پر شامل کرکے ہمارے خلاف تو سازش نہیں کی جارہی ہے ۔ ۔۔۔ یہ سوچنا ضروری ہے کہ ۔۔۔کیوں کہ قرآن بارہا ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ۔۔۔افلا تدبرون۔۔۔ افلا تعقلون۔۔۔۔