Showing posts with label مقالات جہازی ۲. Show all posts
Showing posts with label مقالات جہازی ۲. Show all posts

25 May 2019

etakaf

اعتکاف

محمد یاسین جہازی جمعیت علمائے ہند

عربی کا لفظ ہے۔ اس کا معنی ہے: ٹھہرنا۔ یہ اسلام کی ایک عبادت کا نام ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی ایسی مسجد میں جہاں پنج وقتہ نماز ہوتی ہے، وہاں ٹھہرنے کی نیت سے قیام کرے۔ اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: (۱) واجب: اس کی شکل یہ ہے کہ کوئی شخص اعتکاف کرنے کا نذر کرلے، تو اسے پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ (۲) سنت موکدہ: یہ رمضان کے آخر عشرے کا اعتکاف ہے۔اس کے لیے بیسویں رمضان کی افطاری مسجد میں کرنا ضروری ہے۔ اور عید کا چاند نظر آتے ہی یہ پورا ہوجاتا ہے۔عید کی رات اعتکاف میں شامل نہیں ہے، خواہ انتیس ہی کا مہینہ کیوں نہ ہو۔ (۳) مستحب: یہ اعتکاف کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے کسی چیز کی شرط نہیں ہے، جب کہ اول الذکر دونوں اعتکافوں میں روزہ شرط ہے۔ اسی طرح پہلے دونوں اعتکافوں میں وقت کی تحدید ہے، جب کہ اس اعتکاف میں وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے، ایک لمحے کا بھی اعتکاف ہوسکتا ہے، البتہ تینوں اعتکاف نماز ہورہی مسجد میں ہونا ضروری ہے، کیوں کہ اعتکاف دراصل نماز کے لیے انتظار کرنے کی عبادت ہے، لہذا جہاں نماز ہوگی، وہیں پر انتظار ہوگا۔
ان تینوں قسموں میں سے دوسری قسم کا اعتکاف رمضان میں ہوتا ہے۔ 
اگرچہ اعتکاف کا تذکرہ کلام پاک میں بھی ہے، ارشاد خدا وندی ہے: 
ولا تباشروھن و انتم عاکفون فی المساجد(البقرۃ، ۷۸۱)
(مسجد میں رہتے ہوئے عورتوں سے مت ملو)۔ لیکن اس کی اصل فضیلت اور مشروعیت احادیث سے ثابت ہے۔ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے کی پابندی کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ حضرت ابی سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پہلے پہلے دونوں عشروں کا اعتکاف فرمایا: اعتکاف کا مقصد شب قدر کی تلاش تھا، لیکن فرشتے نے خبر دی کہ اس کا وقت آخر عشرے میں ہے، لہذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہتے ہیں، وہ آخر عشرے کا اعتکاف کریں اور اسے طاق راتوں میں تلاش کریں۔ ایک دوسری حدیث میں حضرت ابن عباس ؓ اعتکاف کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں ہیں کہ
ھو یعکف الذبوب و یجری لہ الحسنات کعامل الحسنات کلھا(سنن ابن ماجہ، باب فی ثواب الاعتکاف)۔

 یعنی اعتکاف سے ایک طرف جہاں انسان کی گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے، وہیں دوسرے بہت سے اعمال کا ثواب کیے بغیر مل جاتا ہے، جیسے جنازہ میں شرکت، مریض کی عیادت وغیرہ۔ ابن عباس ؓ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ
من اعتکف یوما ابتغاء وجہ اللہ، جعل اللہ بینہ و بین النار ثلاث خنادق، کل خندق ابعد مما بین الخافقین(المعجم الاوسط للطبرانی، باب المیم من اسمہ محمد)۔
یعنی محض رضائے الٰہی کے لیے اعتکاف کرنے والوں کے اور دوزخ کے بیچ زمین و آسمان کے فاصلے کے برابر فاصلہ کردیتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں اعتکاف کرنے کی توفیق ارزانی کرے، آمین۔

5 May 2019

Chaina ka Cahnd

چائنا کا چاند
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


کیا یہ چاند برت رکھنے والی مہیلاؤں کی پریشانیوں، رمضان، عید، بقرعید اور ایام حج کے اختلافات کو ختم کرنے میں کام آئے گا 
ٹکنالوگی کی نت نئی ایجادات کے جذبے ایسی خبریں بھی سنانے لگتے ہیں، جن کے بارے میں عام انسان کا حاشیہ خیال بھی گذرنا مشکل ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں چینی میڈیا پیپلز ڈیلی آن لائن کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 2020 تک چین کے پاس اپنا ایک مصنوعی چاند ہوگا۔ یہ چاند سچوان صوبے کے چینگدو میں لگایا جائے گا، جو زمین سے 500 کلومیٹر کی اونچائی پر، 360 ڈگری کے اوربٹ پر نصب کیا جائے گا، جو دس سے اسی کلو میٹر کے دائرے تک روشنی بکھیرے گا۔ اس میں چاند سے آٹھ گنا زیادہ روشنی ہوگی، جس سے دس ارب اٹھاون کروڑ اسی لاکھ روپیے کے برابر بجلی کی بچت ہوگی۔ یہ چاند در اصل ایک شیشہ کا ہوگا، جو دن میں سورج کی روشنی کو قید کرے گا اور پھر اسے رات میں خرچ کرے گا۔ 
اس سے قبل روس بھی مصنوعی چاند بنانے کی کوشش کرچکا ہے۔1993 میں، روس نے ایک پلاسٹک آئینہ تیار کیا تھا۔نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق تقریبا دو ڈھائی میل کے فاصلے تک زمین پر اس کی روشنی پھیلی تھی۔ 
تقریبا ہر ایک مذہب میں چاند کئی تہواروں اور خوشیوں کا پیغام لاتا ہے۔ اسلامک کلینڈر چاند کی ہی گردش پر قائم ہے۔ مسلمانوں کی عید، روزہ اور دیگر کئی شرعی احکام چاند ہی کے مرہون منت ہیں۔لیکن نظر نہ آنے پر کبھی کبھار اتنے گہرے اختلافات سامنے آجاتے ہیں کہ چاند نکل آنے کے باوجود دل سے بس یہی دعا نکلتی ہے کہ 
چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی
ائے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے
عبد الحمید عدمؔ
چاند (The Moon)
قرآنِ مجید میں چاند کا ذِکر دیگر اَجرامِ سماوِی سے کہیں زیادہ ہے۔ اللہ ربّ العزت نے چاند کی بہت سی خصوصیات کی بناپر قرآنِ مجید میں قسم کھا کر اُس کا ذِکر فرمایا:
کلَّا وَالْقَمَرِ(القمر، 74: 32)
سچ کہتا ہوں قسم ہے چاند کی۔
جس طرح زمین اور نظامِ شمسی کے دِیگر ستارے سورج کے گرد محوِ گردِش ہیں اور جس طرح سورج کہکشاؤں کے لاکھوں ستاروں سمیت کہکشاں کے وسط میں واقع عظیم بلیک ہول کے گرد محوِ گردِش ہے، بالکل اُسی طرح چاند ہماری زمین کے گرد گردِش میں ہے۔ نظام شمسی میں واقع اکثر سیاروں کے گرد اُن کے اپنے چاند موجود ہیں، اور اکثر کے چاند متعدّد ہیں۔ زمین کا صرف ایک ہی چاند ہے جو زمین سے اَوسطاً 4,00,000 کلومیٹر کی دُوری پر زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہ اپنی گردِش کا ایک چکر 27.321661 زمینی دِنوں میں طے کرتا ہے۔ چاند کا قطر 3,475 کلومیٹر ہے اور یہ نظامِ شمسی کے آخری سیارے پلوٹو سے بڑا ہے۔ 
قمری تقوِیم (Lunar calendar)
قمری تقوِیم میں چاند کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ سورج سے وقت کی پیمائش کے لیے اِنسان کو اپنے علمی سفر کی اِبتدا میں سخت دُشواریوں سے گزرنا پڑا اور ابھی تک یہ سلسلہ تھم نہیں سکا۔ کبھی مہینے کم و بیش ہوتے آئے اور کبھی اُن کے دن، یہی حالت سال کے دِنوں کی بھی ہے۔ شمسی تقوِیم میں جا بجا ترمیمات ہوتی آئی ہیں؛مگر اُس کے باوجود ماہرین اُس کی موجودہ صورت سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ موجودہ عیسوی کیلنڈر بار بار کی اُکھاڑ پچھاڑ کے بعد 1582ء میں موجودہ حالت میں تشکیل پایا، جب 4 /اکتوبر سے اگلا دِن 15/ اکتوبر شمار کرتے ہوئے دس دن غائب کر دیے گئے۔ پوپ گریگوری کے حکم پر ہونے والی اِس تشکیلِ نو کے بعد اُسے ’گریگورین کیلنڈر‘ کہا جانے لگا۔
دُوسری طرف قمری تقوِیم میں خودساختہ لیپ کا تصوّر ہی موجود نہیں۔ سارا کیلنڈر فطری طریقوں پر منحصر ہے۔ قدرتی طور پر کبھی چاند 29 دِن بعد اور کبھی 30دِن بعد نظر آتا ہے، جس سے خودبخود مہینہ 29 اور 30 دِن کا بن جاتا ہے۔ اِسی طرح سال میں بھی کبھی دِنوں کو بڑھانے یا کم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
چاند زمین کے گرد مدار میں اپنا 360 درجے کا ایک چکر 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی مدّت میں مکمل کرتا ہے اور واپس اُسی جگہ پر آ جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بڑی اہم بات قابلِ توجہ ہے کہ زمین بھی چوں کہ اُسی سمت میں سورج کے گرد محوِ گردِش ہے اور وہ مذکورہ وقت میں سورج کے گرد اپنے مدار کا 27 درجے فاصلہ طے کر جاتی ہے، لہٰذا اَب چاند کو ہر ماہ 27 درجے کا اِضافی فاصلہ بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ گویا ستاروں کی پوزیشن کے حوالے سے تو چاند کا ایک چکر 360 درجے ہی کا ہوتا ہے، مگر زمین کے سورج کے گرد گردش کرنے کی وجہ سے اُس میں 27 درجے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اُسے زمین کے گرد اپنے ایک چکر کو پورا کرنے کے لیے 387 درجے کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ 27 درجے کی اِضافی مسافت طے کرنے میں اُسے مزید وقت درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری ماہ کی مدّت 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی بجائے 29 دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ قرار پاتی ہے۔ 29 دن اور 12 گھنٹے کی وجہ سے چاند 29 یا 30 دنوں میں ایک مہینہ بناتا ہے اور باقی 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ کی وجہ سے سالوں میں کبھی دو ماہ مسلسل 30 دنوں کے بن جاتے ہیں اور یہ فرق بھی خود بخود فطری طریقے سے پورا ہو جاتا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے اُس میں کوئی ردّوبدل نہیں کرنا پڑتا۔(اسلام اور جدید سائنس، ص/ ۳۰۳، تا/ ۵۰۳)
چاند نظر آنے اور نہ آنے کا فلسفہ
ماہر فلکیات مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب گڈاوی، چئیرمین ہلال کمیٹی لندن کی تشریحات کے مطابق زمین سے اسی وقت چاند نظر آسکتا ہے، جب کہ افق پر کم از کم دس ڈگری اوپر ہو اور مطلع پر پینتالیس منٹ تک باقی رہے۔ اور چاند کی عمر اس وقت تقریبااٹھارہ گھنٹے ہوچکی ہو۔ اگر چاند دس سے بارہ ڈگری اوپر ہوتا ہے، تو انتیسویں کا چاند ہوتا ہے،لیکن اگرانتیسویں تاریخ کوبوقت غروب دس ڈگری سے کم اونچائی پر ہو تو، اس دن چاند نظرنہیں آتا اور مہینہ تیس دن کا مکمل ہوجاتا ہے۔ 
ان تمام علمی موشگافیوں اور سائنسی انکشافات کے باوجود، رمضان اور عید و بقرعید کا چاندسخت اختلاف کا شکار ہوجاتا ہے، جس سے چاند بھی شکستگی محسوس کرتے ہوئے تمنا کرتا ہوگا کہ نہ نکلتے تو ہی اچھا ہوتا۔ بہر کیف اسلام نے چاند کے ہونے نہ ہونے کا سادہ اور آسان طریقہ یہ بتلادیا ہے کہ مہینے کی انتیس تاریخ کو چاند دیکھنے کی کوشش کرو، اگر نظر آتا ہے، تو ٹھیک ہے۔ اور اگر نظر نہیں آتا ہے اور ایسی مصدقہ خبربھی کسی جگہ سے نہیں آتی، جہاں کہ چاند دیکھا گیا ہے، تو پھر تیس دن کا مہینہ تسلیم کرلو۔
اس واضح اسلامی تعلیمات کے باوجود اگر ہم آپس میں اختلاف کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کو غلط ٹھہرانے کی کوشش کرتیہوئے ملت فروشی کا الزام عائد کرنے سے بھی نہیں چوکتے، تو اس سے بہتر ہے کہ ہم چائنا کے مصنوعی چاند کو دیکھ کر برت کھولیں اور عید بقرعید کی خوشیاں اسی کی مصنوعی کرنوں میں تلاش کرلیں؛ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ …… کیا کسی کا بھی مذہب اس کی اجازت دے گا……؟ اور اگر بالفرض و المحال مان بھی لیں کہ اجازت مل جائے گی، تو چائنا کے تین چاند وں میں سے کس چاند کا اعتبار ہوگا……؟ اور اگر دوسرے ملک والوں نے بھی اپنے اپنے چاند بنا لیے، تو پھر کس ملک کاچاند زیادہ اہم ہوگا……؟ اور پھرا س کے نتیجے میں تاریخ کا جو ایک لامتناہی اختلاف شروع ہوگا، اس کے حل کے لیے کس سورج کی پناہ ڈھونڈھنی ہوگی……؟

3 May 2019

Larki hi to gala kaat den kia

لڑکی ہے تو گلا کاٹ دیں کیا

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


عمرہ ادا فرماکر سرور کائنات ﷺ واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ وہیں پاس حضرت علی ؓ بھی کھڑے ہیں۔ ان کے پاس جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ بتول ؓ بھی موجود ہیں۔ اچانک ایک بچی کی سریلی آواز کانوں میں گونجتی ہے۔
چچا…… چچا۔ حضرت علی پیچھے مڑ تے ہیں، تو کیا دیکھتے ہیں کہ سید الشہدا حضرت حمزہ ؓ کی بچی امامہ پکار رہی ہے۔ حضرت علی بچی کی طرف لپکے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر گود میں لے لیا۔ پھر اپنی بیوی کو سونپتے ہوئے کہا کہ یہ لو تمھارے چچا کی بیٹی ہے۔ وہیں قریب میں بچی کے خالو حضرت جعفر طیار ؓ بھی ہیں، وہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ یہ بچی مجھے ملنی چاہیے، کیوں کہ اس کی خالہ میرے گھر میں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت زید ؓ خود کو روک نہیں پاتے ہیں اور وہ بھی بچی کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ یہ بچی مجھے ملنی چاہیے، کیوں کہ حضرت حمزہ میرے مذہبی بھائی تھے۔ حضرت علی ؓ بچی سے محرومی کا احساس کرتیہوئے گویا ہوتے ہیں کہ یا رسول اللہ اس بچی پر صرف میرا حق ہے، کیوں کہ وہ سب سے پہلے میری گود میں آئی ہے۔ سرور کائنات ﷺ یہ خوش کن منظر دیکھ کر مسکراتے ہیں اور پھر سب کے دعوے میں یکسانیت دیکھ کر امامہ کو اس کی خالہ کی گود میں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”خالہ ماں کے برابر ہوتی ہے“۔ 
اپنی تو دور؛ دوسروں کی بچیوں کی پرورش و پرداخت کا یہ جذبہ اور دل کش منظر ایک ایسے سماج کا ہے، جہاں لوگ لڑکیوں کو بلا اور مصیبت سمجھ کر زندہ گاڑ دیا کرتے تھے۔ لیکن نبوی تعلیم و تربیت نے ایسا انقلاب برپا کیا کہ اس وجود بلا و مصیبت کو عین وجود رحمت اور جنت میں جانے کا ذریعہ بنا دیا۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، ان کے لیے دکھ تکلیف پرصبر کیا اور انھیں اپنے مال میں سے کپڑے پہنائے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی۔
آپ نے درج بالا سطور میں اسلامی تربیت یافتہ سماج کا ایک خوش نما منظر دیکھا۔ آئیے آپ کو تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھاتا چلوں جو اسی سماج کے لوگ تھے؛ لیکن وہ اسلام کے دامن رحمت سے محرومی کے دور میں زندگی گذار رہے تھے۔ 
اسلام سے پہلے عورت کا مقام
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام سے پہلے عورت کے وجود ہی کو شرم و عار سمجھا جاتا ہے۔ کلام پاک گواہی دے رہا ہے کہ 
وَإِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْأُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ ٭ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ایُمْسِکُہُ عَلٰی ہُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہُ فِیْ التُّرَابِ اَلاَ سَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ النحل: 58،59 
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے، جو بری خبر اسے دی گئی ہے اس کی وجہ سے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت ورسوائی کے باوجود اپنے پاس رکھے، یا اسے زندہ در گورکردے، آہ! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں۔
امام بغویؒ فرماتے ہیں کہ عرب میں یہ رواج عام تھا کہ جب کسی کے گھر میں بیٹی پیدا ہوتی اور وہ اسے زندہ باقی رکھنا چاہتا تو اسے اونی جبہ پہنا کر اونٹوں اور بکریوں کو چرانے کے لیے دور دراز بھیج دیتا۔اور اگر اسے مارنا چاہتا تو وہ جب 6 سال کی ہو جاتی تو کسی جنگل میں ایک گڑھا کھودتا، پھر گھر آ کر اپنی بیوی سے کہتا کہ اسے خوب اچھا لباس پہنا دو تاکہ وہ اسے اس کے ننھیال (یا اس کے دادا دادی) سے ملا لائے۔ پھر جب اس گڑھے تک پہنچتا تو اسے کہتا: اس گڑھے کے اندر دیکھو، چنانچہ وہ اسے دیکھنے کے لیے جھکتی تو یہ اسے پیچھے سے دھکا دے دیتا وہ اس میں گر جاتی اور یہ اس کے اوپر مٹی ڈال دیتا۔(معالم التنزیل: ج 5 ص 25)
ایک شخص کاشانہ نبوی پر حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ! ﷺ ہم لوگ جاہلیت والے تھے۔ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور اولاد کو مارڈالتے تھے۔ میری ایک لڑکی تھی۔ وہ کچھ بڑی ہوئی، تو جب میں آواز دیتا تھا، تو وہ میری بات سن کر دوڑی چلی آتی تھی۔ میرے ساتھ ہنستی کھیلتی تھی۔ وہ بچی مجھ سے بہت زیادہ مانوس ہوگئی تھی اور مجھے بھی اس سے کچھ محبت ہوگئی تھی۔ لیکن جاہلی عقیدے کی بنیاد پر میں اسے باعث عار سمجھنے لگا۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں نے اسے بلایا وہ میری آواز پر خوشی خوشی دوڑی چلی آئی۔ میں آگے بڑھا، وہ میرے پیچھے پیچھے آنے لگی۔ میرے گھر کے قریب ایک کنواں تھا، میں وہاں پہنچا، میری بچی بھی میرے پیچھے پیچھے وہاں پہنچی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اٹھا کر کنویں میں پھینک دیا۔ وہ چیختی رہی، چلاتی رہی، مجھے ابو ابو کہہ کر پکارتی رہی اور یہی اس کی زندگی کی آخری آواز تھی، لیکن میں نے ایک بھی نہ سنی اور اسے چیختے چلاتے ڈوب کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور بالآخر تھوڑی دیر کے بعد یہ ننھی سے معصوم آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔
رحمت کونین اس پر درد افسانہ کو سن کر آنسو ضبط نہ کرسکیاور روتے روتے یہ حالت ہوگئی کہ ریش مبارک آنسووں سے تر ہوگئی۔ اس کے باوجود نبی اکرم ﷺ نے ان سے دوبارہ کہا کہ میاں! اپنا قصہ پھر سے سناؤ۔سرور کائنات بار بار اس قصے کو سنتے رہے اور روتے رہے۔ (سنن دارمی، المقدمہ، باب ماکان علیہ الناس قبل مبعث النبی ﷺ من الجھل والضلالۃ۔)
قبیلہ بنو تمیم کا سردار حضرت قیس بن عاصم التیمی رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ ﷺ!میں نے زمانہ جاہلیت میں آٹھ لڑکیاں زندہ دفن کی ہیں۔ 
اسلا م سے پہلے، دوسرے تمام مذاہب و سماج میں والدین کو اپنی اولاد پر لا محدود اختیارات و حقوق حاصل تھے، لیکن اولاد کا والدین پر کوئی حق نہیں تھا، کیوں کہ یہ باپ کی عظمت کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ عرب کے سفاکانہ مراسم میں بے رحمی سے بچیوں کو زندہ دفن کردینے کے پیچھے جہاں یہ عقیدہ تھا، وہیں درج ذیل وجوہات بھی تھیں: 
(۱) اپنی دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے بچوں کی قربانی دے دیا کرتے تھے۔ (موطا امام مالک، کتاب النذور،باب مالایجوز من النذور فی معصیۃ اللہ،)یہ رسم اہل عرب کے علاوہ رومۃ الکبریٰ کے متمدن قوموں اور ہندستان میں راجبوپتوں میں بکثرت پایا جاتا تھا۔ جو شادی وغیرہ کی عار کی وجہ سے عام حالات میں، بیوہ ہونے کی صورت میں ستی کی شکل میں اور جنگ وغیرہ کے حالات میں جوہر کی صورت میں لڑکیوں کو مار ڈالتے تھے۔ 
(۲) فقرو فاقہ کا ڈر۔ وہ سمجھتے تھے کہ اولاد ہوگی، تو اس کے کھانے پینے کا خرچ اٹھانا پڑے گا، اس لیے ان کے خون سے اپنا ہاتھ رنگ کر اس سے چھٹکارا پا لیتے تھے۔ 
(۳) لڑکیوں کو زندہ دفن کردینا۔ اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ لڑکیاں شرم و عار کی باعث ہیں، اس لیے جب لڑکی پیدا ہوتی تھی، تو باپ کو سخت رنج ہوتا تھا اور لوگ لڑکیوں کے وجود کو بلا اور مصیبت سمجھتے تھے،لیکن اسلام نے ان تمام نظریات کے خلاف اولاد کے بھی حقوق متعین کیے اور دنیائے انسانیت کو تعلیم دیتے ہوئے بتایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس کو اس بچے کی زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، تو اس کے نقش زندگی کو مٹانے کی کوشش کرنا جرم عظیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں عزل اور اسقاط حمل کو حرام قرار دیا گیا ہے اور لڑکی کے وجود کو مصیبت و عار کے بجائے رحمت ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ جو کوئی ان لڑکیوں میں سے کسی لڑکی کی مصیبت میں مبتلا ہواور پھر اس کے ساتھ مہرو محبت کا معاملہ کرے، تو وہ لڑکی اسے دوزخ کے عذاب سے بچا لے گی۔ اور وہ اس کے اور دوزخ کے درمیان پردہ بن جائے گی۔ (بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الولد)
اور یہ کس قدر حیرت انگیز تھا کہ عورتیں خود اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے کے لیے خوشی خوشی مردوں کے حوالے کردیا کرتی تھیں، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے صلح حدیبیہ، فتح مکہ، عید کے اجتماع میں اور انفرادی ملاقاتوں کی جب بھی عورتوں سے بیعت لیا کہ تو ان سے اقرار کرایا کہ وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔ 
”ان تمام تدبیروں کے علاوہ قرآن پاک کی ایک مختصر سی آیت نے عرب کی ان تمام قساوتوں، ان تمام سنگ دلیوں اور ان تمام سفاکیوں کو مٹانے میں وہ کام کیا، جو دنیا کی بڑی بڑی تصنیفات نہیں کرسکتی تھیں۔ قیامت کی عدالت گاہ قائم ہے، مجرم اپنی اپنی جگہ کھڑے ہیں، غضب الٰہی کا آفتاب اپنی پوری تمازت پر ہے، دانائے غیب قاضی اپنی معدلت کی کرسی پر ہے، اعمال نامے شہادت میں پیش ہیں کہ ایک طرف سے ننھی ننھی معصوم بے زبان ہستیاں خون سے رنگین کپڑوں میں آکر کھڑی ہوجاتی ہیں، شہنشاہ قہار کی طرف سے سوال ہوتا ہے، ائے ننھی معصوم جانو! تم کس جرم میں ماری گئیں؟
وَاِذَا الْمَوْؤُودَۃُ سُءِلَتْ۔ بِاَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ۔(سورۃ، آیات 8، 9)
”یاد کرو جب (قیامت میں) زندہ دفن ہونے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تم کس جرم میں ماری گئی۔“(سیرۃ النبی جلد ۶، ۴۵۳)
آج اپنے سماج کے رویے پر غور کیجیے، تو آپ بے ساختہ یہی کہیں گے کہ ہمارا معاشرہ پھر دور جاہلیت کے نقش قدم کا اسیر ہوچکا ہے۔ بیٹیوں کے بارے میں جہالت و جاہلیت کے عقیدے دوبارہ جاگ اٹھے ہیں، نئے نئے طریقوں سے لڑکیوں کو زندگی سے محروم کیا جارہا ہے۔ پہلے صرف والدین ہی اپنی بچیوں کو مارتے تھے، آج والدین کے ساتھ ساتھ پورا معاشرہ لڑکیوں کے وجود کا متنفر ہوچکا ہے۔ایک طرف جہاں والدین نقش زندگی ہی مٹادینے کے درپے ہیں، تو وہیں دوسری طرف سماج، جہیز اور دوسری کمر توڑ رسم و رواج کے ذریعہ انھیں یہ احساس کرایا جارہا ہے کہ تمھارا وجود ایک بوجھ ہے، تم ایک بزنس پوائنٹ ہواور بنام محبت تجارت کا سب سے خوب صورت ذریعہ ہو۔ سماج کی ایسی ذہنیت کو دیکھ کر لڑکیاں بھی احساس مظلومیت کی شکار ہوچکی ہیں، وہ خود کو والدین کے لیے مصیبت اور بوجھ سمجھ کر زندہ لاش بنتی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ خود کو تجارت کا مرکز بناکر اپنی چادر نسوانیت کو تار تار کرنے پر مجبور ہورہی ہیں۔ یہاں پر سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ان سب کا ذمہ دار کون ہے۔۔۔ لڑکی ہونا۔۔۔۔ معاشرہ کا جاہلانہ و انسانیت سوز طرز عمل، یا پھر دین فطرت سے بغاوت۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وجود رحمت کی قدر و پرورش کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔

پروف ریڈینگ کے بغیر


محمد یاسین جہازی

ناچیز نے اپنی ایک تالیف کا بے پروف ریڈ مسودہ ایک مکتبہ والے کو یہ جاننے کے لیے دیا کہ کیا یہ کتاب مارکیٹنگ کرسکتی ہے؛ کیوں کہ اس کے بغیر کوئی بھی اشاعتی ادارے کتاب شائع کرنے کے لیے جلدی تیار نہیں ہوتا۔ تجارتی تجربہ کی بنیاد پر اس نے صاحب کتاب کو اطلاع دیے بغیرآنا فانا اسی مسودہ کو چھاپ دیا۔ جب مقبولیت کے ہاتھوں میں گردش کرنے لگی، تو متعدد قارئین کا فیڈ بیک آیا کہ ”کتاب کمپوزنگ کی غلطیوں سے پاک نہیں ہے“۔ بہرحال کچھ ہی مہینوں میں جب اس کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت عمل میں آئی، تو ”آسان انگریزی قواعد“  کے نیچے ٹائٹل پر ”اضافہ شدہ ایڈیشن“ کا ٹیگ دے دیا گیا، تاکہ قارئین کی شکایت دور ہوجائے۔ 
 اپنی بات کے بعد آئیے کچھ اکابر کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ میرے سامنے ”حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کی سیاسی ڈائری“ جلد دوم ہے۔ اس کے صفحہ نمبر۸۹/ پرمجلس منتظمہ جمعیت علمائے ہند کی فہرست درج ہے، جو ”مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند“ کا اقتباس ہے۔ اصل کتاب میں تو تئیس افراد کے نام درج ہیں، جب کہ اس میں مولوی محمد فاخر الٰہ آبادی کا نام غائب ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ پروف ریڈنگ کی غلطی ہی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اسی جلد کے صفحہ نمبر ۶۴۳/ پر ۰۲، ۱۲/ ستمبر ۳۲۹۱ء کے بجائے ۰۳، ۱۳ اکتوبر ۳۲۹۱ء لکھ دیا گیا ہے، جو تاریخی حقیقت کے خلاف ہے۔ 
بعینہ یہی غلطی ”جمعیت علما کیا ہے“ کے جلد دوم کے صفحہ نمبر ۷۱/ پر ہوئی ہے، جہاں ایک کے بجائے دو دو نام کمپوزنگ میں رہ گئے ہیں۔اس کتاب میں درجنوں مقامات ایسے ہیں، جہاں صراحتا کمپوزنگ کی غلطی ہے، کہیں پر تاریخ میں الٹ پھیر کردی گئی ہے، تو کہیں پر علما کو علم بنادیا گیا ہے۔ کہیں پر ایک ہی میٹنگ کی الگ الگ نشستوں کی کارروائی کے درمیان دوسرے مضامین اور رپورٹ شامل کردی گئی ہیں، جو تاریخی تسلسل کے خلاف ہے۔ 
بالکل نئی مطبوعہ کتاب کی بات کریں، تو ناچیز کے سامنے ”تذکرہ ابوالمحاسن“ موجود ہے، جس کے صفحہ نمبر ۶ / پر جمعیت علمائے ہند کے ناظم عمومی مولانا محمود اسعد مدنی صاحب کا اظہار تشکر ہے۔ مضمون کے آخر میں محمود کو محمد کردیا گیا ہے۔ اسی مضمون کے دوسرے پروگرام میں ایک وضاحت کے ضمن میں دو کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے، لیکن صفحہ نمبر کے لیے:’ص……‘ لکھ دیا گیا ہے۔ کتاب کے دیگر مضامین کے بات کریں، تو کمپوزنگ اور تاریخ و سن؛ بالخصوص ہجری و عیسوی کے التباس کے ساتھ اس قدر رد و بدل کردی گئی ہے کہ کسی بھی تاریخ پر بھروسہ کرنا حقیقت سے مایوسی کا دوسرا حوالہ ہوگا۔ اس میں بالخصوص مولانا مفتی محبوب فروغ صاحب کے مقالہ کا شاید ہی کوئی پیراگراف ہوگا، جو کمپوزنگ کی غلطی سے پاک ہو۔ 
تقابلی مطالعہ میں پایا گیا کہ اکابرین کی تحریروں میں عیسوی و ہجری میں سے کسی ایک کا التزام نہیں کیا گیا ہے، ایک ہی پیراگراف میں ایک جگہ ہجری ہے، تو اگلی ہی سطر میں اسی سلسلے کے لیے عیسوی تاریخ رقم کردی گئی ہے، جس تاریخ سے الجھن کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ 
دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ مولانا محمد منیر الدین عثمانی صاحب گڈاوی طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے بارہا کہا کرتے ہیں کہ ”حضرت قاضی مجاہد الاسلام صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آج کل لوگ روز اول ہی سے چھپنا چاہتے ہیں۔“ جس کا نتیجہ اس شکل میں ظاہر ہوتا ہے کہ رطب و یابس پرنٹ ہوجاتی ہے اور اہل تحقیق کے لیے الجھن کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے قاعدہ یہی ہے کہ جو چیز آگے چل کر تاریخی شہادت کا درجہ حاصل کرنے والی ہے، اسے بہت ہی احتیاط کے ساتھ لکھا اور پرنٹ کیا جانا چاہیے۔

26 Apr 2019

kia aap Allah se Razi hin?

کیا آپ اللہ سے راضی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


انسان کو پیدا کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خالق کائنات کی عبادت کرے۔ اور عبادت کا ایک ہی مقصد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ مقررین و واعظین بار باراس مقصد کی یاد دہانی کراتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ بھائی اللہ کو راضی کرلو۔ بھائی اللہ کو راضی کرلو۔ 
جس طرح شریعت میں بتائے ہوئے طریقے کو اختیارکرتے ہوئے اللہ کو منانا ضروری ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ آپ بھی اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں۔ کیوں کہ آپ کے اللہ سے راضی ہوئے بغیر اللہ آپ سے راضی نہیں ہوسکتا۔حدیث قدسی ہے 
عن ابي ھریرۃ، قال:قال رسول اللہ ﷺ:یقول اللہ عز وجل:”انا عند ظن عبدي بي۔“ (سنن الترمذی، کتاب الدعوات، باب فی حسن الظن باللہ عز و جل)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کہتا ہے: میں اپنے بندے کے میرے ساتھ گمان کے مطابق ہوتا ہوں۔
اگر آپ اللہ کو راضی کرنے میں شب و روز عبادت کرتے ہیں، لیکن آپ خود اللہ سے نا راض ہیں، تو آپ کا اللہ کے ساتھ معاملہ کے مطابق اللہ کبھی بھی راضی نہیں ہوگا۔ 
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا مشہور مقولہ ہے کہ ”تم اللہ سے راضی ہوجاؤ تو اللہ بھی تم سے راضی ہوجائے گااور جو حقو ق اللہ ہیں، انھیں ادا کرو۔ کیا تم نے اللہ کا قول نہیں سنا ہے کہ ”اللہ ان سے راضی ہوگئے اور لوگ بھی اللہ سے راضی ہوگئے (التوبہ، ۰۰۱)۔ حضرت محمد ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ ایک عالم سے سوال کیا گیا کہ اہل رضا کا مقام کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ تو عالم نے جواب دیا کہ معرفت الٰہی سے۔ اور رضامعرفت کی ایک شاخ ہے۔ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ ”رضا اللہ کا بڑا دروازہ، دنیا کی جنت، عبادت گذاروں کے لیے باعث تسکین اوراہل عشق کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ جس شخص کا دل مقدر کی رضا سے بھرا ہوا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو بے نیازی اور سکون سے لبریز کردیتے ہیں، اس کے دل کو اپنی محبت، رجوع اور توکل کے لیے خالص کردیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے راضی نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو پلٹ دیتا ہے اور سعادت و فلاح سے محرومی مقدر کردیتا ہے۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ”جو کوئی مقدرات الٰہی سے راضی ہوتا ہے،اسے اجر ملتا ہے، اور جو راضی نہیں ہوتا، اس کے اعمال صالحہ بھی ضائع ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ایمان کی تکمیل کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ہم خیرو شر کی تقدیر پر رضا کا اقرار کریں۔
درج بالا تمام حوالے سند ہیں کہ اگر آپ اللہ کو راضی کرنا چاہتے ہیں، تو اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ پہلے آپ خود اللہ سے راضی ہوجائیں۔ فرمان نبوی ضامن ہے کہ اگر آپ اللہ سے راضی ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ آپ سے ضرور راضی ہوجائے گا۔

12 Apr 2019

Meri Aankhen Faqa Kash hin

اک چھوٹا سا وہ لمحہ، جو کاٹے نہیں کٹتا
میری آنکھیں فاقہ کش ہیں 

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

سماجیات کے ماہرین انسان اور جانور میں ایک فرق یہ بھی بتاتے ہیں کہ جانور صرف جھنڈ بناتا ہے، خاندان اور معاشرہ نہیں، جب کہ یہ دونوں خصوصیات انسان کے ساتھ مخصوص ہیں اور اسی وجہ سے اسے ’’سماجی حیوان‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔ 
سماج و معاشرہ میں زندگی گذارنے کے رجحانات کے لیے ایک اور دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ انسان کے خمیر میں انسیت کا عنصر شامل ہے اور انسیت سوشل لائف گذارنے کی محرک ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جرم کرنے والوں کو سماجی بائکاٹ اور قید تنہائی کی سزا دی جاتی ہے۔ 
تعلیمی و معاشی ؛ یہ دو ضرورتیں ایسی ہیں، جن کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان سماج و معاشرہ میں رہنے کے باوجود بائکاٹ اور تنہائی کی مجرمانہ قید میں زندگی گذار رہا ہے۔ناچیز جب علم و معرفت کے لیے محو سفر ہوا، تو لاشعوری عہد تھا ۔ تحصیل علم کے مکمل دس برس کے بعد خیال آیا کہ والدین اور اپنے سماج سے اتنے طویل عرصے الگ تھلگ رہنے کے بعد اب اپنے سماج میں اور والدین کے زیر سایہ عاطفت زندگی گذارنی چاہیے؛ لیکن تعلیمی مجبوری کی طرح معاشی مجبوری نے اتنا موقع ہی نہیں دیاکہ اس تجویز پر عمل درآمد کرسکوں۔ اور اس طرح سے تقریباچھ سال کا عرصہ بھی غریب الوطنی کی نذر ہوگیا۔ 
اس کے بعد زندگی میں ایک نجی معاشرتی ذمہ داری کا اضافہ ہوا اور جدائی کے غم میں شریک غم یعنی بیگم بھی شریک ہوگئی۔ پہلے صرف والدین اور معاشرے سے جدائی کا غم تھا ، اب یہ تیسرا غم بھی پابہ رکاب ہوگیا۔ کافی کوشش کی کہ معاشرہ اور والدین نہ سہی، تودنیاوی دستور اور تقاضہ فطرت کے تحت کم از کم شریک زندگی کو ہی ساتھ رکھ لیں؛ لیکن یہ کوشش تا ہنوز بار آور نہیں ہوپائی؛ حتیٰ کہ تا حال دو اورایسے وجود کا اضافہ ہوگیا، جن کی آنکھیں میری دید کے لیے اور میری آنکھیں ان کے دیدار کے لیے مضطرب رہتی ہیں؛ لیکن نوشتہ تقدیر شاید یہی ہے کہ ناچیز سے منسوب ہر آنکھوں کے لیے فاقہ کشی مقدر ہوچکی ہے۔
زمانہ طالب علمی میں چھٹی کا تصور مژدہ جاں فزا ہوا کرتا تھا۔ جمعرات آنے سے ایک دو روز قبل ہی رخصت کی فرحت کا احساس شروع ہوجایا کرتا تھا۔ شب و روز درس و تدریس کے دورانیہ کے تسلسل سے جب آزادی ملتی تھی، تو ایسا لگتا تھا کہ خوشی کا کوئی خزانہ ہاتھ آگیا ہے؛ لیکن جب سے جمعرات اتوار میں تبدیل ہوگئی ہے اور اقتصادی زندگی کا آغاز ہوا ہے، تب سے یہ احساس بالکل برعکس کیفیت پیدا کرتا ہے۔ اس زندگی میں چھٹی کا دن آتے ہی خوفناک تنہائی ستانے لگتی ہے۔ روز مرہ کے معمولات کا تسلسل ٹھہرتا ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے نبض حیات ٹھہر گئی ہو۔ آفس اور کمرے کے درودیوار بھی سناٹے کے مجسمے نظر آتے ہیں۔ حالاں کہ ہر روز وہی آفس اور وہی کرسی ہوتی ہے، لیکن چھٹے کے دن آفس آنے سے ایسا لگتا ہے کہ کرسی اور آفس دونوں ہمارے نوشتہ تقدیر پر ہنس رہے ہوں، جس کی برداشت کی تاب نہ لاکر باہر چلا جاتا ہوں، جہاں ہمیں ہزاروں چہرے نظر آتے ہیں، لیکن ان کے بیچ بھی اکیلا پن کی کیفیت دور نہیں ہوتی، کیوں کہ ان ہزاروں چہروں میں ایک بھی چہرہ شناسائی کا چہرہ نہیں ہوتا ہے۔ ؂ 
آئینہ کے سو ٹکڑے کرکے ہم نے دیکھے ہیں
ایک میں بھی تنہا تھے، سو میں بھی اکیلے ہیں 
اس دن کا چھوٹا لمحہ بھی صدیاں بتانے جیسا لگتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ جائز و ناجائز کے تصور سے محروم افراد تنہائی میں تفریح طبع کے لیے گانوں ، فلموں، لیونگ ان ریلیشن شپ، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ،کلچرل پروگرام وغیرہ کو ضروریات زندگی میں شمار کرتے ہیں اور غریب الوطنی میں وقت گذارنے کا بہترین ذریعہ حیات سمجھتے ہیں۔ 
حصول تعلیم کے تحت اپنے گھر معاشرے سے دور رہناایک ایسی وجہ ہے، جو سنہرے مستقبل کی ضامن ہے، لیکن معاشی اور ملازمت کی مجبوری کے تحت زندگی کو تنہائی کی سزا دینا انسان کے خمیر انسیت اور سماجی فطرت کے خلاف ہے ، اس لیے یہاں چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں، جن کو عملہ جامہ پہناکر فطری سماجی زندگی گذار سکتے ہیں: 
(۱) تعلیم کے بعد ملازمت کے بجائے تجارت کو ذریعہ معاش بنانے کی کوشش کریں۔
(۲) سرمایہ یا تجربہ ، یا اور کسی مجبوری کی وجہ سے تجارت کرنا ممکن نہ ہو، تو صلاحیت کے مطابق قرب و جوار میں جوب تلاش کریں۔
(۳) آپ کی صلاحیت کے اعتبار سے گاوں معاشرے کے قریب ملازمت نہ ملے، تو دوردراز بھی ملازمت کرنے سے گریزاں نہیں ہونا چاہیے، البتہ ایسی صورت میں درج ذیل مقاصد کو فراموش نہ کریں: 
(الف) اگر مستحکم ملازمت ہے، تو وطن ملازمت کو ہی وطن اصلی بنالیں۔ 
(ب) بصورت دیگروطن ملازمت کو فیملی کے لیے بھی وطن اقامت بنائیں۔
(۴) اگر درج بالا دونوں صورتیں ممکن نہ ہوں، جس کی بنیادی وجہ ’’کم تنخواہ‘‘ ہوسکتی ہے، تو وطن اصلی آمد و رفت کرنے کی تعداد بڑھادیں، جو شرعی اعتبار سے ایک سال میں کم از کم تین مرتبہ ہے، یعنی ہر چار ماہ کے اندر ایک مرتبہ والدین کی زیارت اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ضرور سفر کریں۔ 
(۵) اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو، جس کے تین بنیادی اسباب ہوسکتے ہیں، یعنی کم تنخواہ، کم رخصت، یا پھر موقع بہ موقع کام کا اضافی بوجھ، تو ایسی صورت میں ناچیز کا مشورہ یہ ہے کہ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے ملازمت، چھوٹنے، تنخواہ کٹنے اور اس جیسے اندیشے سے باہر آکر دل اور ارادے کو مضبوط رکھیں اور حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے تھوڑی بہت آگے پیچھے کرکے اپنا کام نکالنے کی کوشش کریں۔ یاد رہے کہ حکمت عملی اور آگے پیچھے کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ضمیر فروشی اور خصیہ برداری تک گر جائیں؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آمدو رفت کے دورانیہ میں کم و بیشی سے کام چلائیں۔ 
(۶) اس موقع پر ، مدارس کے مہتمم، مساجد کے ذمہ داران، اداروں کے نگراں اور کمپنیوں کے مالکان سے بھی یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ اپنے ملازمین کے ساتھ اسلامی تعلیمات و ہدایات کے مطابق معاملہ کریں، انھیں سیلری نہیں؛ بلکہ اپنی ضروریات کی طرح تن خواہ دیں، ان کی گھریلو ضروریات ، فیملی کی خواہشات اور عید و تہوار جیسے مواقع پر چھٹی، تحفہ وغیرہ کا خصوصی خیال رکھیں۔ اور یہ بھی خیال رکھیں کہ آپ کی زندگی کو کامیاب و شاندار بنانے میں آپ کے ملازم کا خون پسینہ بھی شامل ہے، اس لیے اس کے خونی رشتوں کے ساتھ کچھ لمحات گذارنے اور فیملی کے لیے پسینہ بہانے کے لیے مواقع فراہم کرنا آپ کا دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلنا آسان فرمائے، اور اپنے ملازمین کے حقوق و ضروریا ت کا خاص خیال رکھنے کی توفیق ارزانی کرے، آمین۔ 

5 Apr 2019

Dustbin of knowledge

معلومات کا ڈسٹبن

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

سوشل میڈیا کے ایزی ایکسس کی وجہ سے آج ہر شخص واٹس ایپ کالج اور فیس بک یونی ورسٹی میں داخل ہوکراپنے مبلغ فکر کے اعتبار سے گیان بانٹنے اور بٹورنے کوپیدائشی حق سمجھ رہا ہے۔چوں کہ یہاں معلومات کو فلٹر کرنے، یا صحیح یا غلط بتانے والا کوئی استاذ نہیں ہوتا، اس لیے ضروری، غیر ضروری، یا درست اور غلط میں تفریق کیے بغیر ہر قسم کی معلومات ہمارے دماغ میں بھر جاتی ہیں۔ اور ہمارا حافظہ خانہ معلومات کا ڈسٹبن بن جاتا ہے۔ 
ایک مسیج آتا ہے کہ جو شخص رمضان کی آمد کی سب سے پہلے اطلاع دے گا، وہ ایک سال پہلے جنت میں جائے گا۔ اس مسیج میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ایسا حدیث میں کہا گیا ہے۔ 
ایک ایسا ویڈیو آتا ہے،جس میں خزاں سے متاثر ایک درخت سے بڑا ناگ لپٹا ہوا ہے، اور ساتھ میں آواز آتی ہے کہ جو شخص اس ویڈیو کو دس گروپ میں نہیں بھیجے گا تو اسے سخت نقصان پہنچے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایک صاحب نے اسے جھوٹ سمجھ کر ڈیلیٹ کردیا اور آگے فارورڈ نہیں کیا تو اس کا بیٹا مرگیا ۔ 
ایک آڈیو آتا ہے کہ مدینہ کے شیخ نے ایک خواب دیکھا کہ اس آڈیوکو دس گروپ میں بھیجنے والے کو رسول اللہ ﷺ کی زیارت نصیب ہوگی۔ اور جو نہیں بھیجے گا وہ ایمان سے محروم ہوجائے گا۔ 
مکہ کے شیخ کا فرمان لکھا ہوا ٹیکسٹ آتا ہے کہ رسول اللہ نے انھیں پابند کیا ہے کہ بیس گروپ میں اس بات کو پھیلادو ، نہیں تو روز قیامت میری شفاعت سے محروم رہو گے۔ 
ایک شخص یہ پوسٹ وائرل کرتا ہے کہ جو کوئی شب براتمیں روزہ رکھے گا، تو ایک سال تک روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا ۔ اور جو کوئی اس مسیج کو آگے بھیجے گا، تواس کو دو سال تک روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ 
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو تین سال پہلے ایک بچہ لاپتہ ہوگیا تھا، جس کو تلاش کرنے کی خبر پر مشتمل کوئی امیج بنائی گئی تھی۔ دو تین سال بعد کسی نے ایک شخص کو کسی گروپ میں شامل کردیا ، تو اب وہ شخص قدیم و جدید خبر کی تصدیق کیے بغیر لگاتار اسے فارورڈ کرتا رہتا ہے اور اپیل بھی کرتا ہے کہ اسے سارے گروپ میں شئیر کریں، تاکہ کسی کو اپنا گم کردہ لعل مل سکے۔ 
ایک مقرر نے کسی خاص پس منظر میں کوئی تقریر کی تھی۔ کئی سالوں بعد ایک شخص واٹس ایپ کالج میں نیا نیا داخلہ لیتا ہے، تو وہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ تقریر حال کی ہے اور اسے آگے بھیجنا ہمارے اوپر فرض ہے۔ 
کہیں گستاخانہ حرکت کی جاتی ہے، تو اس سے باز رہنے یا اس پر لعنت بھیجنے کے لیے ایسے مسیج کواتنا فارورڈ کیا جاتا ہے کہ جتنا تخلیقی سورس سے گستاخی نہیں پھیلتی، اس سے کہیں زیادہ لعنت بھیجنے کی اپیل سے گستاخی پھیل جاتی ہے۔
سالوں پہلے کہیں ٹرین حادثہ ہوا تھا، جس کی تصویریں وائرل ہوئی تھیں۔ ایک نیا شخص یا فارورڈ کے شوقین ان کو سالوں بعد شئیر کرنے کو نیک کام سمجھتا ہے ، جس سے یہ گمراہی پھیلتی ہے کہ شاید یہ کوئی نیا حادثہ پیش آگیا ہے ۔ یا کوئی نیا حادثہ پیش آتا ہے، تو لوگ اول مرحلہ میں یہ سمجھنے پر آمادہ ہوتے ہیں کہ شاید یہ کوئی پرانہ حادثہ ہو۔ 
ایک شخص دنگا فساد برپا کرنے کے مقصد سے جان بوجھ کر تاریخی حقائق سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے اور اسے فرقہ وارانہ ذہنیت کے ساتھ پیش کرتا ہے، جس سے قاری یا تو متعصب بن جائے یا نفرت کے پجاری۔ تاریخ سے نا انجان فیس بکیہ اور واٹس ایپیہ ایسے پیغامات سے بہت جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور اپنے دماغ میں غلط معلومات بھر لیتے ہیں۔
کچھ پیغامات کی تمہید میں لکھا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان ہو تو شئیر کرو۔ ۔۔۔ اگر نبی کے سچے عاشق ہو، تو اسے آگے بھیجو۔ کوئی کافر ہی ہوگا، جس اس تصویر کو لائک یا شئیر نہیں کرے گا۔ ۔۔۔ تجھے قسم ہے رب کعبہ کی ، اس مسیج کو ضرور آگے بھیجنا ، وغیرہ وغیرہ۔
یہ جو کچھ بھی پیش کیا گیا ہے، ’’مشتے نمونے از خروارے‘‘ ہے۔ اس قسم کے لاتعداد مسیج اور معلومات اسکرین کے توسط سے ہم تک پہنچتی ہیں ۔ اور ہمارا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی طرح کی تحقیق کیے بغیر ہم سبھی معلومات کو اپنے دماغ میں جگہ دے رہے ہیں، جس سے ہمارا دماغ حافظہ خانہ نہیں، بلکہ معلومات کے کچرے کا ڈبہ بن جاتا ہے۔ جس سے برین واش ضروری ہے۔
اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ احادیث کی کتابوں میں متن احادیث کے ساتھ ساتھ سندیں بھی ہوتی ہیں۔ سند کا سلسلہ نبی اکرم ﷺ تک ملنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر متن حدیث کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ سند کی ضرورت و اہمیت بتاتے ہوئے حضرت عبد اللہ ابن المبارک فرماتے ہیں کہ ’’ سند بھی دین کا حصہ ہے، کیوں کہ اگر سند نہ ہوتی، تو جس کے جی میں جو آتا، وہ کہہ دیتا کہ یہ رسول اللہ کا فرمان ہے۔ اور پھر ہر شخص اپنے مفاد کی بات کو آگے رکھنے کے لیے رسول اللہ کا فرمان گھڑ لیتا اور ذخیرہ احادیث شکو ک و شبہات اور تحریفات کا پلندہ بن کر رہ جاتے۔ 
الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّینِ، وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ۔( مقدمۃ الإمام مسلم رحمہ اللہ، بَابُ في أَنَّ الْإِسْنَادَ مِنَ الدِّینِ)
اس سے بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی بلا سند بات مان لینا اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہے۔ 
آج سوشل میڈیاجھوٹ ، جعلی خبروں اور افواہوں کو پھیلانے کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن چکا ہے ، اس لیے کوئی بھی بات خواہ وہ قرآن و احادیث کے حوالے سے ہی کیوں نہ کہی گئی ہو ، بلا تحقیق اس کو اپنے دماغ میں محفوظ رکھنا اور اس کو پھیلانا ، خود اپنی نگاہ میں جھوٹا اور بے اعتبار ہونے کے لیے کافی ہے ۔ ایسے ہی مواقع کے لیے نبی اکرم ﷺ کی ہدایت موجود ہے کہ 
کَفی بِالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔(مقدمۃالإمام مسلم رحمہ اللہ بَابُ النّھْيِ عَنِ الْحَدیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ)
انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی باتوں کو دوسروں کے سامنے بیان کردے۔ 
یاد رکھیے کہ ہماری ایک جعلی اور جھوٹی معلومات بانٹنے یا بٹورنے سے ہماری جان بھی جاسکتی ہے۔ جان کیا چیز ہے، ہم ایمان سے بھی محروم ہوسکتے ہیں یا کرسکتے ہیں، جس کے باعث دنیوی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت بھی تباہ و برباد کرنے کے مجرم ٹھہریں گے۔ اس سے یہ سبق لینا ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے دماغ کو معلومات کا کچڑا دان نہ بنائیں اور صرف حقیقی ، مستند اور سچی معلومات کو ہی اپنے حافظہ کے نہاخانہ میں محفوظ رکھیں۔

29 Mar 2019

Gali dena ka Saheeh Tareeqa Daryaft

گالی دینے کا صحیح طریقہ دریافت
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
انسان تو انسان ؛ اور جانور بھی بہت دور کی بات ہے؛ چھوٹے موٹے موذی کیڑے؛ آپ کو کاٹ بھی لیں، تو بھی اسلامی تعلیمات اسے برا بھلا کہنے اور گالی دینے کی اجازت نہیں دیتیں۔ ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی محفل میں ایک شخص کو مچھر نے کاٹ لیا تو وہ اس پر لعنت بھیجنے لگا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مچھر کو گالی مت دو،کیوں کہ اس نے ایک نبی کو نماز فجر کے لیے جگایا تھا۔ 
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالکٍ، أَنَّ رَجُلًا لَعَنَ بُرْغُوثًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:لَا تَلْعَنْہُ، فَإِنّہُ أَیْقَظَ نَبِیًّا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ لِلصَّلَاۃِ۔ (الادب المفرد، باب لاتسبوا البرغوث، قال الشیخ الالبانی: ضعیف)
ایک دوسری حدیث میں مرغے کو گالی دینے پر تنبیہہ کی گئی ہے ارشاد نبوی ہے کہ مرغے کو گالی مت دو، کیوں کہ وہ نماز کی دعوت دیتا ہے۔ 
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’لَا تَسُبُّوا الدِّیکَ فَإِنَّہُ یَدْعُو إِلَیٰ الصَّلَاۃِ۔ (مسند ابی داؤد الطیالسی، باب اسند عن زید بن خالد)
مچھر، مرغ تو ذی روح مخلوق ہیں؛ نبوی تعلیمات غیر ذی روح کو بھی گالی دینے سے منع کرتی ہیں۔ چنانچہ حدیث قدسی ہے کہ زمانہ کو برا بھلا مت کہو ، کیوں کہ زمانہ تو میں ہی ہوں۔ ہوا کو گالی مت دو ، کیوں کہ وہ اللہ کے حکم سے چلتی ہے۔ 
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ: یُؤْذِینِي ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدّھْرَ وَأَنَا الدَّھْرُ، بِیَدِي الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنّھَارَ۔(بخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب: وما یھلکنا الا الدھر الجاثیۃ، ۲۴)
لا تَسُبُّوا الرِّیحَ ۔ (الترمذی، ابواب الفتن،باب ما جاء فی النھی عب سب الریح)
ان تعلیمات سے یہ واضح ہوگیا کہ زبان سے گندے الفاظ نکالنا، اور غیر ذی روح کو بھی گالی دینا اسلامی اخلاق و تعلیم کے منافی ہے۔ اور جب ان چیزوں کے ساتھ معاملہ ایسا ہے، تو پھر انسان ، جس کی توقیر و تعظیم ضروری ہے، اسے گالی دینا شرافت و نجابت سے گری ہوئی بے شعور ذہنیت کی ہی اپج ہوسکتی ہے۔ 
ان تعلیمات کے باوجود ہم کبھی کبھار اس بے شعور ذہنیت کے عملی مجسمہ بن جاتے ہیں ، اور اپنی زبان سے ان تمام گندگیوں کو گذار دیتے ہیں، جن کا تصور بھی تعفن خیز ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر گالی دینا ہماری فطرت بن جائے، تو ہم آپ کے لیے ایک نایاب فارمولہ لائے ہیں۔ ہمارا عندیہ ہے کہ اگر اس فارمولہ پر عمل کریں گے، تو بالیقین گالی دینا ، آپ کے لیے عذاب جان بن جائے گا اور آپ ایسی توبہ کرلیں گے کہ اس تو بہ کی تقلید کرنے والے کی بھی گالی دینے کی فطری عادت بدل جائے گی ۔
ڈاکٹر کلیم عاجز نے ہمیں سکھایا ہے کہ 
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کرنے کا سلیقہ چاہیے
تواس کا فارمولہ یہ ہے کہ گالی کے کسی بھی لفظ سے پہلے، ’’تیری‘‘ کے بجائے ’’ میری ‘‘ لگاکر گالی دیا کریں۔ 
ہمیں امید ہی نہیں؛ یقین ہے کہ گالی دینے کا یہ نایاب طریقہ آپ کی فطرت بدل کر رکھ دے گا۔ اگر ہمیں گالی دینے کی عادت ہے، تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس فارمولہ پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے، اللہم آمین یا رب۔

15 Mar 2019

مجھے ایک ٹرانسلیٹر چاہیے:خفتہ بزرگ کی کرب آمیز اپیل


مزاروں پہ آویزاں مختلف زبانوں کے خطوط کو سمجھنے کے لیے بزرگ کی فریادمحمد یاسین جہازی
جب کوئی قوم فکری دیوالیہ پن کی شکار ہوجاتی ہے، تو چاہے فکرو دانش میں کتنی ہی لچرو پوچ حرکت کیوں نہ ہو، اسے جذباتیت کی تسکین اور ایمان کی تکمیل کا حصہ سمجھنے لگتی ہے۔ یہ حرکت اور اس کے پیچھے چھپے عقیدے ؛ اسلام کے نقطہ نظر سے دونوں غلط ہیں۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر ۷۳ میں ہے کہ و الذین اذا ذکروا بآیات ربھم لم یخروا علیھا صما و عمیانا۔ اور جب انھیں اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے، تو وہ ان پر بہرے اور اندھے بن کر نہیں گرتے۔ اس کی تفسیر میں صاحب تفسیر بغوی اور علامہ طنطاوی تفسیر وسیط میں لکھتے ہیں کہ مومنین کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ محض دین کی بات سن کر اندھے بہرے ہوکر تقلید نہیں کرتے، جب تک کہ وہ یہ نہ دیکھ لیں کہ ایا وہ عقلی طور پر بھی صحیح ہوسکتی ہے یا نہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں ہر کسی سے سنی ہوئی باتوں کو دین سمجھ کر اسے ایمان و تسلیم کا حصہ نہیں بنانا چاہیے ۔ اس میں خود بھی غور کرکے دیکھنا چاہیے کہ ایسی بات صحیح ہوسکتی ہے یا نہیں۔ ایک حدیث میں پیروکاران اسلام کے لیے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ۔ غیر ضروری چیزوں سے پرہیز مسلمان کے کردار کو خوب صورت بناتا ہے۔ اسلام کی ان تعلیمات کے جاننے کے بعدہمارے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ یوں تو زندگی میں ہم کئی لایعنی کام کرتے ہیں، جسے دیکھ کر ادنیٰ شعور و آگہی رکھنے والا فرد یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ’’ کیا یہی اسلام ہے!‘‘ ۔ ’’ کیا اسلام میں اس کی گنجائش ہوسکتی ہے!‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ ان میں سے ہمارا ایک کام یہ بھی ہے کہ ہم اپنی حاجت روائی کے لیے اللہ کے علاوہ بزرگ کے مزار پر بھی جاتے ہیں۔ اگر معاملہ صرف جانے تک رہتا تو بھی غنیمت تھی؛ لیکن ہم اس سے آگے کیا کرتے ہیں کہ اللہ سے مانگنے کے بجائے بابا بزرگ سے ہی مانگنے لگتے ہیں۔ چلو کسی حد تک مان لیتے ہیں کہ یہ بھی درست ہوسکتا ہے، لیکن غضب تو تب ڈھاتے ہیں، جب ہم اپنی فریادیں ایک کاغذ پر لکھ کر مزار کی دیوار پر لٹکا آتے ہیں۔ چلو اسے بھی مان لیتے ہیں کہ بابا کو جب فرصت ملے گی تو پڑھ کر ہماری حاجت روائی کردیں گے۔ لیکن بزرگ بابا آج تک حیران و پریشان ہے کہ ان چٹھیوں کو پڑھیں کیسے۔۔۔ ؟ کیوں کہ بھارت کی بات کریں، تو اکثر بابا بزرگ کے بارے میں یہی بتاتے ہیں کہ وہ عرب ایران توران سے آئے تھے، تو ان کی زبان تو عربی فارسی وغیرہ تھی، تو یہ بابا تو وہی خطوط پڑھ پائیں گے، جو عربی فارسی میں لکھے ہوئے ہوں۔ یا پھر ان زبانوں میں ہوں، جو زبان ان کے یہاں بھارت میں آبسنے کے وقت رائج تھی اور جو زبان انھوں نے سیکھی تھی۔ اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ اس وقت نہ تو آج کی اردو تھی، نہ ہندی تھی اور انگریزی تو تھی ہی نہیں۔ اور آج ہم جو خطوط بابا کو بھیج رہے ہیں، وہ زیادہ تر ہندی، اس سے کم انگریزی اور اس سے بھی کم اردو میں لکھ کر بھیج رہے ہیں۔ اور بابا ہیں کہ خطوط سمجھنے کے لیے ہی بہت پریشان ہیں ، انھیں کوئی ٹرانسلیٹر ہی نہیں مل رہا ہے ۔ تو جب بابا ہمارے خطوط ہی نہیں سمجھ پار ہے ہیں اور انھیں کوئی ٹرانسلیٹر بھی نہیں مل رہا ہے، تو بھلا بتائیے سہی ۔۔۔ بابا ہماری حاجت روائی کیسے کرے اور ہماری درخواستوں پر کیسے غور کرے۔۔۔۔ جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ بابا مزاری سے کی گئی ہماری کوئی بھی درخواست قبول ہی نہیں ہورہی ہے اور ہم آج بھی اتنے ہی پریشان ہیں، جتنے کہ درخواست بھیجنے سے پہلے تھے۔ اسلامی ہدایت کے مطابق حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس کے لیے علاوہ کسی اور کو ایسا سمجھنا کفرو شرک کے مترادف ہے، بھلا بتائیے جو انسان زندہ ہونے کی صورت میں ہر ایک کی ضرورت پوری نہیں کرسکتا اور نہ ہی ہر زبان پڑھ سکتا ہے، بھلا وہ مرنے کے بعد ، جب کہ خود کی حرکت کے لیے وہ دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔۔۔ ہماری حاجت روائی کیسے کرسکتا ہے۔۔۔ افلا تعقلون !!!!۔ x

8 Mar 2019

آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔

آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔
محمد یاسین جہازی، خادم جمعیۃ علماء ہند


ایک دوسرے کی دعوت کرتے رہنا ، اسلامی تعلیمات کا ایک اہم باب ہے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ سے جب دریافت کیا گیا کہ کونسا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے یہی جواب دیا کہ کھانا کھلانا بہترین اسلام ہے۔عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الإِسْلاَمِ خَیْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ۔ (صحیح البخاری،کتاب الایمان، باب اطعام الطعام من الاسلام)ایک مومن کی شان کرم و سخا یہی ہے کہ اپنی ضرورت و خواہش کے باوجود ضرورت مندوں کو کھانا کھلاتا ہے ۔ اور اس کے بدلے اس کا معاوضہ تو بہت دور کی بات ہے، شکریہ ادا کرنے کی بھی تمنا دل میں نہیں رکھتا ۔وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا ویَتِیمًا وَأَسِیرًا (8) إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لَا نُرِیدُ مِنکُمْ جَزَاءً وَلَا شُکُورًا (9)( سورۃ الانسان)کائنات عالم میں سب سے زیادہ سخی خود نبی اکرم ﷺ تھے، بعد ازاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا۔ اسی طرح ان حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت میں بھی ایک دوسرے کی دعوت کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ یوں تو دعوت کرنے کا کوئی وقت معتین نہیں ہے، آپ کا جب جی چاہے، کسی کی دعوت کرسکتے ہیں، اس کے باوجود زندگی کے کچھ اہم موڑ ایسے ہیں، جہاں اسلام یہ رہنمائی کرتا ہے کہ اپنی خوشی کے اظہار یا بھوکے پیاسوں کو کھلانے کے لیے اپنے دوستوں، رشتوں اور ضرورت مندوں کی دعوت کرنا چاہیے۔ فقہی اصطلاحات کے اعتبار سے دعوت کی تین قسمیں ہیں: مستحب، سنت اور واجب۔ (۱) مستحب دعوت(۱) عقیقہ کی دعوت: بچے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار فطرت کا تقاضا ہے ، اس لیے شریعت کہتی ہے کہ اس خوشی میں اپنے احباب کو بھی شامل کرنا چاہیے اور ساتویں دن ان کی دعوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ عقیقہ عام دعوت کی طرح ہی ایک دعوت ہے، لیکن ہم نے اپنے بے جا رسوم و رواج کی زنجیروں میں قید کرکے اسے مشکل بنادیا ہے۔ہر علاقے میں الگ الگ رسمیں ہیں، بعض علاقے میں دیکھا گیا ہے کہ عقیقہ اسی وقت درست مانا جاتا ہے،جب تک کہ دعوت میں شریک سبھی افراد کو کپڑے اور قیمتی تحفے نہ دے دیے جائیں۔ یہ سب غلط چیزیں ہیں۔ وسعت کے مطابق محض دعوت کردینا کافی ہے۔(۲) افطاری کی دعوت: رمضان المبارک میں افطاری کی دعوت کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اس لیے ہر شخص کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ روزہ داروں ؛ بالخصوص مسافر روزے داروں کو افطاری کرائیں، اور اس طرح سے روزہ رکھنے کا ڈبل ثواب حاصل کریں۔(۲)سنت دعوتدعوت ولیمہ: ولیمہ کی دعوت کے پیچھے اسلام کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مرد کو عورت پر دو وجہ سے حاکمیت بخشی ہے: (۱) کائنات کے نظام کو چلانے کے لیے حاکم و محکوم کا رشتہ ضروری ہے، اس لیے ایک کو حاکم اور دوسرے کو محکوم بنادیا گیا ہے۔ (۲) چوں کہ مرد مال خرچ کرتا ہے، اس لیے خرچ کرنے والا خرچ کیے جانے والے سے اونچا مقام رکھتا ہے۔ اخراجات چوں کہ مرد کے ذمہ ہے ، اس لیے ولیمہ کے اخراجات بھی مرد ہی کے ذمہ ہوں گے۔ علاوہ ازیں فرمان نبوی کے بموجب لڑکی رحمت ہے ۔ اور شادی کے بعد جب رحمت لڑکے کے گھر آئی ہے، تو اس کی خوشی کے اظہار کے لیے ولیمہ کرنا مسنون قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے ہمیں ولیمہ کی دعوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ لیکن آج کل ولیمہ کی دعوت ، دعوت کم اور بزنس زیادہ بن چکی ہے، لفافہ کا رواج اور اس میں مقابلہ آرائی کی ذہنیت ، اسی طرح کم لفافہ پیش کرنے والے کو حقیر اور ثانوی حیثیت دینے کے رجحانات سے سنت کے بجائے لعنت کا سبب بنتا جارہا ہے۔ اسی طرح جب ولیمہ کا کھانا بچ جاتا ہے یا خراب ہونے لگتا ہے، توتب ہم مدرسے کے بچوں کو کھلانا ثواب کا کام سمجھتے ہیں؛ ایسارویہ عذاب الٰہی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس سے پرہیز ضروری ہے۔ (۳) واجب دعوتدرج بالا تمام دعوتیں اختیاری دعوتیں ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ دعوت کریں گے، تو اس کا ثواب ملے گا ۔ اور اگر نہیں کریں گے، تو کوئی بات نہیں؛ لیکن اسلام نے کچھ لازمی دعوتیں بھی رکھی ہیں،جنھیں انسان کو کرنا ضروری ہے، تاکہ آپسی ہمدردی اور غم خواری کا جذبہ فروغ پاسکے ، اس کی تفصیلات پیش ہیں: (۱) مہمان کی دعوتفرمان نبوی علیہ السلام کے مطابق ایک دن اور ایک رات مہمان کا اعزازو اکرام اور دعوت کرنا واجب ہے۔ اس کے بعد تین دن تک سنت ہے۔ بعد ازاں مستحب ہے۔ ( بخاری، کتاب الادب،باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ) (۲) روزہ کے کفارہ کی دعوتاگر کوئی اتنا بوڑھا ہوگیا ہے کہ رمضان میں روزہ رکھنے کی قدرت باقی نہیں رہی اور نہ ہی یہ امید ہے کہ آگے قدرت لوٹ پائے گی ، تو ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ ہر روزہ کے بدلہ غریبوں کی دعوت کرے۔ (البقرہ، آیت ۱۸۴) (۳) قسم کے کفارہ کی دعوتکسی نے صحیح قسم کھائی اور اس کو پورا نہیں کرپایا، قسم حانث ہوگیا، تو اس کے کفارہ کے لیے ضروری ہے کہ دس غریبوں کی دعوت کرے۔ (المائدہ، آیت ۸۹) (۳) حالت احرام میں شکار کے کفارہ کی دعوتاگر کوئی شخص حالت احرام میں تھا اور اس نے کوئی جانور شکار کرلیا، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسی جیسا جانور کی قربانی حرم میں کرکے فقیروں کی دعوت کرے۔(المائدہ، آیت ۹۵) (۴) ظہار کے کفارہ کی دعوتکسی نے اپنی بیوی کو کسی محرمات کی عورت سے تشبیہ دے دی، مثلا یہ کہہ دیا کہ تو میری ماں کی طرح ہے، تو شریعت میں اسے ظہار کہا جاتا ہے۔ اس سے بیوی ماں کی طرح حرام ہوجاتی ہے۔ زوجیت کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے اس سے رجوع کرنا ضروری ہے؛ لیکن جب رجوع کریں گے، تو ظہار کا کفارہ دینا پڑے گا ۔ اور وہ کفارہ یہ ہے کہ غلام آزاد کرے۔ آج کل چوں کہ غلام نہیں ہے، اس لیے دوسرا حکم یہ ہے کہ دو مہینے مسلسل روزے رکھے۔ لیکن اگر بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے، تو دو وقت پیٹ بھر کر ، ساٹھ غریبوں کی دعوت کرنا ضروری ہے۔ (المجادلہ، آیت : ۴) خلاصہ کلام یہ ہے کہ سماجی نفسیات کے تناظر میں اسلام دعوت کرنے کرانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور انسان کے حسب ضرورت مستحب، سنت اور واجب قرار دیتا ہے۔ ان تمام دعوتوں کے پیچھے داعی کا دل اس جذبہ سے لبریز ہونا ضروری ہے کہ وہ محض رضائے الٰہی اور حکم خداوندی کی تعمیل میں دعوت کر رہا ہے۔ اگر دل میں ذرا سا بھی مفاد خوری تو دور ؛شکر طلبی کی تمنا بھی آگئی، تو آپ کی دعوت ، رحمت اور ثواب کے بجائے لعنت اور عذاب کا ذریعہ بن جائے گی۔ اس لیے آئیے ہم سب اپنے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خالص دل سے ایک دوسرے کے ساتھ یہ کہنے اور کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ: ’’ آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔‘‘۔ 

28 Feb 2019

Islam Ghalib Aayga

اسلام غالب آئے گا؟
محمد یاسین جہازی، جمعیۃ علماء ہند

جس وقت آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا ہوئی، اس وقت دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں، ایک ایران کی حکومت جو مشرق کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی، اور اس کے ہر بادشاہ کو کسری کہا جاتا تھا، یہ لوگ آتش پرست تھے، یعنی آگ کو پوجتے تھے۔ دوسری بڑی طاقت روم کی تھی، جو مکہ مکرمہ کے شمال اور مغرب میں پھیلی ہوئی تھی، شام، مصر، ایشیائے کو چک اور یورپ کے علاقے اسی سلطنت کے ماتحت تھے، اور اس کے ہر بادشاہ کو قیصر کہا جاتا تھا، اور ان کی اکثریت عیسائی مذہب پر تھی، جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے، اس وقت ان دونوں طاقتوں کے درمیان شدید جنگ ہورہی تھی، اور اس جنگ میں ایران کا پلہ ہر لحاظ سے بھاری تھا، اور اس کی فوجوں نے ہر محاذ پر روم کی فوجوں کو شکست دے کر ان کے بڑے بڑے شہر فتح کرلیے تھے، یہاں تک کہ وہ بیت المقدس میں عیسائیوں کا مقدس ترین کلیسا تباہ کرکے رومیوں کو مسلسل پیچھے دھکیلتی جارہی تھی، اور روم کے بادشاہ ہرقل کو جائے پناہ تلاش کرنا مشکل ہورہا تھا، ایران کی حکومت چوں کہ آتش پرست تھی، اس لیے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں، اور جب کبھی اریان کی کسی فتح کی خبر آتی، تو مکہ مکرمہ کے بت پرست اس پر نہ صرف خوشی مناتے؛ بلکہ مسلمانوں کو چڑاتے کہ عیسائی لوگ جو آسمانی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں، مسلسل شکست کھاتے جارہے ہیں، اور ایران کے لوگ جو ہماری طرح پیغمبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے، انھیں برابر فتح نصیب ہورہی ہے، اس موقع پر یہ سورت (الروم) نازل ہوئی، اور اس کے بالکل شروع میں یہ پیشین گوئی کی گئی کہ روم کے لوگ اگرچہ اس وقت شکست کھاگئے ہیں، لیکن چند سالوں میں وہ فتح حاصل کرکے ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اور اس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے، اس طرح اس سورت کے شروع میں بیک و قت دو پیشن گوئیاں کی گئیں: ایک یہ کہ روم کے جو لوگ شکست کھاگئے ہیں وہ چند سالوں میں ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اور دوسرے یہ کہ مسلمان جو اس وقت مکہ مکرمہ کے مشرکین کے ہاتھوں ظلم وستم کا شکار ہیں اس دن وہ بھی مشرکین پر فتح منائیں گے، یہ دونوں پیشین گوئیاں اس وقت کے ماحول میں اتنی بعید از قیاس تھیں کہ کوئی شخص جو اس وقت کے حالات سے واقف ہو ایسی پیشین گوئی نہیں کرسکتا تھا، مسلمان اس وقت جس طرح کافروں کے ظلم وستم میں دبے اور پسے ہوئے تھے، اس کے پیش نظر بظاہر کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ اپنی فتح کی خوشی منائیں، دوسری طرف سلطنت روما کا حال بھی یہ تھا کہ اس کے ایرانیوں کے مقابلے میں ابھرنے کا دور دور کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا تھا، چنانچہ سلطنت روما کا مشہور مؤرخ ایڈروڈ گبن اس پیشین گوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: جس وقت مبینہ طور پر یہ پیشین گوئی کی گئی ،اس وقت کسی بھی پیشین گوئی کا پورا ہونا اس سے زیادہ بعید نہیں ہوسکتا تھا، اس لیے کہ قیصر ہرقل (Hercules)کی حکومت کے پہلے بارہ سالوں میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ رومی سلطنت کا خاتمہ بالکل قریب آچکا ہے:
Gibbon: The Decline and Fall of the Roman Epaire, chapter 46, Volume 2, P.125, Great Books, V.38, University of Chicago, 1990 
چنانچہ مکہ مکرمہ کے مشرکین نے اس پیشین گوئی کا بہت مذاق اڑایا، یہاں تک کہ ان کے ایک مشہور سردار ابی بن خلف نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے یہ شرط لگالی کہ اگر آئندہ نوسال کے درمیان روم کے لوگ ایرانیوں پر غالب آگئے، تو وہ حضرت ابوبکرؓ کو سواونٹ دے گا، اور اگر اس عرصے میں وہ غالب نہ آئے، تو حضرت ابوبکر صدیقؓ اس کو سو اونٹ دیں گے (اس وقت تک اس قسم کی دو طرفہ شرط لگانا حرام نہیں کیا گیا تھا)، چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ایرانیوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک وہ قیصر کے پایہ تخت قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچ گئے اور انھوں نے قیصر ہرقل کی طرف سے صلح کی ہر پیشکش کو ٹھکرا کر یہ جواب دیا کہ انھیں ہرقل کے سر کے سوا کوئی اور پیشکش منظور نہیں ہے، جس کے نتیجے میں ہرقل تیونس کی طرف بھاگنے کا منصوبہ بنانے لگا، لیکن اس کے فوراً بعد حالات نے عجیب و غریب پلٹا کھایا، ہرقل نے مجبور ہو کر ایرانیوں پر عقب سے حملہ کیا، جس میں اسے ایسی کامیابی حاصل ہوئی، جس نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا، اس پیشین گوئی کو ابھی سات سال گزرے تھے کہ رومیوں کی فتح کی خبر عرب تک پہنچ گئی، جس وقت یہ خبر پہنچی یہ ٹھیک وہ وقت تھا جب بدر کے میدان میں سردار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ کے لشکر کو عبرتناک شکست دی تھی، اور مسلمانوں کو اس فتح پر غیر معمولی خوشی حاصل ہوئی تھی، اس طرح قرآن کریم کی دونوں پیشین گوئیاں کھلی آنکھوں اس طرح پوری ہوئی، جس کا بظاہر حالات کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا، اور اس سے آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی سچائی روز روشن کی طرح واضح ہوگئی۔ 
( آسان ترجمہ قرآن :مفتی محمد تقی عثمانی)
اس واقعہ کے منظر اور پس منظرپر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے حالات کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوجائیں، پھر بھی سربلندی اور کامرانی مسلمانوں کے لیے ہی مقدر ہے؛ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ وہی کردار پیش کریں، جو کردار اسلام کے مظلومانہ زندگی میں مسلمانان مکہ نے پیش کیا تھا۔
آج ہمارے حالات عہد نبوت کی مکی زندگی سے زیادہ مختلف نہیں ہیں؛ اس کے باوجود ہمارے اعمال و کردارمیں اسلام کے جو عملی مظاہر جھلکنے چاہیے، ہم اس سے کوسوں دور ہیں، تو ایسی صورت میں کیا یہ توقع رکھنا ایک لایعنی تصور نہیں ہوگا کہ ’’ اسلام پھر سے غالب آئے گا۔۔۔؟۔ 
آئیے مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان و عمل کی وہی توانائی عطا فرمائے، جن سے متصف ہونے کے بعد نہ اسلام کا پرچم جھک سکتا ہے اور نہ ہی مسلمان زوال پذیر قوم بن سکتی ہے۔ اللہم آمین۔ 

11 Jan 2019

west or invest

ویسٹ یا انویسٹ
محمد یاسین جہازی
واٹس ایپ: 9871552408
وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں نیند مراد نہیں ہے، کیوں کہ سونا خریدا جاسکتا ہیجب کہ وقت بکاؤ نہیں ہوتا؛ زندگی کا جولمحہ نکل گیا،آپ اس کو کبھی واپس نہیں لاسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کی قدرو قیمت پر جب بھی ہم لیکچر دیتے ہیں یا سنتے ہیں، تو اس قول زریں کا اعادہ ضرور کرتے یا سنتے ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وقت انمول ہے۔ 
اپنی زندگی کو وقت پر تقسیم کریں، تو اس کے تین اہم حصے ہوتے ہیں:
(۱) بچپن: اس کے لمحات میں ہم خود نہیں؛ بلکہ ہمارے بڑے ہمارے لیے ایکٹیو کردار ادا کرتے ہیں، اور اس توقع سے کرتے ہیں کہ یہ بچے ہی ہمارے پیسیو لائف ، یعنی بڑھاپے کے سہارے ہیں۔ بذات خود ہمارے لیے نہ تو ایکٹیو لائف ہوتی ہے اور نہ ہی پیسیو لائف۔
(۲) جوانی: اس میں ہم اپنے لیے بھی، اپنے متعلقین کے لیے بھی اور مستقبل کے لیے بھی زندگی بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دراصل ہماری زندگی کا یہی حصہ سب سے محبوب ترین حصہ ہوتا ہے اورحسین مستقبل کے لیے پیش خیمہ بھی یہی موقع ہوتا ہے۔کیوں کہ اسی میں حال و مستقبل کی زندگی کے لیے ایکٹیو اور پیسیو دونوں کردار ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 
ہر ایک شخص کے لیے زندگی اور اس کی لوازمات کے لیے دو کردار ہوتے ہیں: ایک کو ایکٹیو کہا جاتا ہے اور دوسرے کو پے سیو۔ ایکٹیو کا مطلب ہوتا ہے کہ جو وہ خود کر رہا ہے ، یا جس سے خود گزر رہا ہے۔ جب کہ پے سیو کا مفہوم یہ ہے کہ بذات خود آپ نہ کر رہے ہوں، البتہ اس کا فائدہ آپ کو ملتا رہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی جگہ ملازمت کر رہے ہیں، تو یہ آپ کا ایکٹیو ورک ہے۔ اس کی تنخواہ آپ کو اسی وقت تک ملتی رہے گی، جب تک آپ ملازمت کرتے رہیں گے۔ ملازمت ختم ہوتے ہی آپ کی تنخواہ بھی بند ہوجائے گی۔ لیکن آپ بزنس شروع کرتے ہیں، اور آپ کے ماتحت بہت سارے اسٹاف کام کرتے ہیں، تو آپ بذات خود کام کریں یا نہ کریں، اس کا فائدہ آپ کو ملتا رہے گا ، اسے پے سیو ارننگ (جاری کمائی) کہا جاتا ہے۔ 
یہ جو جوانی کا وقت ہے ، یہ ایکٹیو اور پے سیو دونوں کردار کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے؛ اگرآپ جوانی کو ان دونوں کردار کے لیے انویسٹ (سرمایہ کاری) کرتے ہیں، تو بالیقین ہمارے سنہری مستقبل کی ضمانت کا اشاریہ ہوگا، لیکن اس کے بجائے ہم جوانی کو ویسٹ( ضائع) کردیں گے، تو زندگی کے تیسرے اور آخری مرحلہ (بوڑھاپے) میں پریشان رہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ 
(۳) بوڑھاپا: زندگی کا یہ حصہ دراصل اپنے کرموں کا پھل پانے،یا بھگتنے کا دور ہوتا ہے۔ اس دور میں طاقت کم اور ضروریات بڑھ جاتی ہیں، اس لیے ہمارے لیے درس عبرت یہی ہے کہ ہم اپنی سابقہ زندگی میں ایکٹیو اور پے سیو دونوں معاشی نظام سے جڑ کر انویسٹ کا کردار ادا کریں۔ بصورت ویسٹ جرم ضعیفی کی سزامحرومی، مجبوری اورمرگ مفاجات ہی ہوگی۔ 
ایک دوسری حیثیت سے غور کیجیے، تو ہماری تخلیق سے آخری منزل تک بھی تین مراحل ہیں: عالم دنیا، عالم برزخ اور عالم آخرت۔ پہلی منزل میں اگر ہم اپنی زندگی کے لمحات کو نیک کاموں میں انویسٹ کریں گے اور خلاق عالم کی مرضیات کو پانے کے لیے ایکٹیو و پے سیو دونوں کردار ادا کریں گے،تو بالیقین دوسری زندگی میں سکون و راحت ملے گی اور آخرت میں جنت ہمارا مقدر ہوگا۔ لیکن اگر ہم اس کے برخلاف زندگی گذاریں گے، تو ہم دوسرے اور تیسرے مرحلے میں بڑے خسارے میں رہیں گے؛ کیوں کہ یہی فلسفہ حیات کی آفاقی سچائی ہے۔ بقول شاعر 
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت سے نہ نوری ہے نہ ناری ہے
درج بالا حقیقتوں کی روشنی میں خود کا جائزہ لیتے ہوئے بتائیے کہ آپ کو خود انویسٹ کر رہے ہیں ؟ ۔۔۔ یاویسٹ۔۔۔؟۔ 

3 Jan 2019

teen talaq se pahle atharah mosalahati farmole

تین طلاق سے پہلے اٹھارہ مصالحتی فارمولے
محمد یاسین جہازی
9871552408


(۱) میاں بیوی کی آپسی مصالحت۔ پہلے دونوں خود اپنا مسئلہ حل کریں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۲)بیوی کو نصیحت۔ شوہر بیوی کو سمجھائے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۳) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۴)بیوی کی ہلکی سرزنش کرے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۵)سرپرست حضرات صلح کرائیں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۶) میاں بیوی دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم صلح کرائیں۔
اگر کارگر نہ ہوتو ایک طلاق دے
اگر یہ چھے طریقے بھی کارگر نہ ہوں تو :
بیوی کی اصلاح کے لیے اس پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق دے، جس میں ہمبستری نہیں کی ہے۔ اور تین مہینے تک سدھرنے کا انتظار کرے۔ اگر تین مہینے کے اندر اندر سدھر جائے، تو رجوع کرلے اور محبت بھری زندگی گذارے۔ 
پھر کبھی دس پانچ سال بعد زندگی میں اختلاف ہوجائے، تو اسی طرح کرے، یعنی: 
(۷) پہلے دونوں خود اپنا مسئلہ حل کریں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۸) شوہر بیوی کو سمجھائے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۹) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۰)بیوی کی ہلکی سرزنش کرے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۱)سرپرست حضرات صلح کرائیں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۲) میاں بیوی دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم صلح کرائیں۔
اگر کارگر نہ ہوتو دوسری طلاق دے۔
اگر یہ چھے طریقے دوسری بار بھی کارگر نہ ہوں توبیوی کی اصلاح کے لیے اس پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق (نمبر دو) دے، جس میں ہمبستری نہیں کی ہے۔ اور تین مہینے تک سدھرنے کا انتظار کرے۔ اگر تین مہینے کے اندر اندر سدھر جائے، تو رجوع کرلے اور محبت بھری زندگی گذارے۔ 
اگر دس پانچ سال بعد پھر اختلاف ہوجائے، تو اسی طرح کرے، یعنی: 
(۱۳) پہلے دونوں خود اپنا مسئلہ حل کریں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۴)۔ شوہر بیوی کو سمجھائے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۵) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۶)بیوی کی ہلکی سرزنش کرے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۷)سرپرست حضرات صلح کرائیں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۸) میاں بیوی دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم صلح کرائیں۔
اگر کارگر نہ ہوتو
چوں کہ اٹھارہ مرتبہ مصالحتی کوشش کے باوجود اختلاف تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، اس لیے 
پاکی کی حالت میں تیسری طلاق دیدے۔
تین طلاق پورے ہونے کے بعد نہ اب لڑکے کو اختیار رہے گا کہ عدت کے اندر پھر رجوع کرکے عورت کو زندگی کو جہنم بنائے ۔ اور نہ لڑکی کے لیے گنجائش ہے کہ جس مرد نے اس کو دو دو مرتبہ اسے زندگی سے نکالنے کی کوشش کی، پھر تہ بارہ اسی کی زندگی کی زینت بنے ۔ اب لڑکا بھی کسی دوسری عورت سے شادی کرکے اپنی زندگی کی دوسری شروعات کرے اور لڑکی بھی کسی دوسرے شریک سفر کو اپنا ہم سفر بناکر خوشگوار زندگی گذارے۔ 
حلالہ کی حقیقت
تیسری طلاق دینے کے بعد مرد کو تو بالکل اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی سابقہ بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لائے، کیوں کہ اگر وہ کسی اور کی بیوی بن چکی ہے، پھرتو مردبالکل نکاح نہیں کرسکتا۔ اور اگرطلاق کے بعد کسی کی زوجیت میں نہیں گئی ہے، تو بھی مرد نکاح نہیں کرسکتا، کیوں جس مرد کو قانون فطرت نے طلاق کے مرحلے سے پہلے پہلے اٹھارہ مرتبہ موقع دیا اور اس کے باوجود بھی اس عورت کی قدر نہیں کی، تو اب تین طلاق دینے کے بعد یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مرد ہی اس عورت کے قابل نہیں ہے۔ 
لیکن اگر عورت ہی کی یہ خواہش ہے کہ چلو جیسا بھی تھا، ہم نے زندگی کی شروعات اس کے ساتھ کی تھی ، تو اختتام بھی اسی کے ساتھ کریں گے، تو صرف عورت کے لیے شریعت نے یہ گنجائش رکھی ہے کہ تم پہلے کسی دوسرے شخص سے شادی کرو، پھر اس کے ساتھ بھی زندگی اتنی دوبھر ہوجائے کہ مذکورہ بالااٹھارہ مصالحتی کوششیں ناکام ہوجائیں اور تیسری طلاق تک نوبت آجائے اور تیسری طلاق دیدے، تو اب عدت گذارنے کے بعد پہلے شوہر سے شادی کرسکتی ہو۔ اسی کو شریعت میں حلالہ کہاجاتا ہے۔ تو گویا حلالہ کوئی نکاح نہیں، بلکہ معاملہ کو سلجھانے کے ایک پروسیس کا نام ہے، جو صرف اور صرف عورت کا حق و اختیار ہے۔ 
اگر معاملہ الٹا ہے
درج بالا تمام طریقوں میں مرد کو مخاطب بنایا گیا ہے جو بیوی سے پریشان ہے، لیکن اگر معاملہ الٹا ہو، یعنی شوہر بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن بیوی ہی شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، تو ایسا نہیں ہے کہ عورت مرد کی زندگی سے بالکل بھی آزاد نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خلع کی پیشکش کرے، یعنی شوہر سے کچھ مال کے عوض میں طلاق طلب کرے۔ اگر شوہر منظور کرلے گا، تو بذریعہ خلع طلاق واقع ہوجائے گی۔ 
اب بتائیے اتنے مبنی بر فطرت قانون کے بعد بھی طلا ق پر قانون بنانے کی ضرورت ہے!!!

1 Jan 2019

Meri Namze Juma Howa kia?

میری نماز جمعہ ہوئی کیا۔۔۔؟

محمد یاسین جہازی
قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: لَیَأْتِیَنَّ عَلَی أُمَّتِي مَا أَتَی عَلَی بني إسرائیل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّی إِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَنْ أَتَی أُمّہُ عَلاَنِیَۃً لَکَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ، وَإِنَّ بني إسرائیل تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً، کُلُّھُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّۃً وَاحِدَۃً، قَالُوا: وَمَنْ ھِيَ یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَیہِ وَأَصْحَابِي۔(سنن الترمذی،ابواب الایمان، باب ماجاء فیمن یموت، وھو یشھد ان لا الٰہ الا اللہ)

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری امت بنی اسرائیل کے نقش قدم پر چلے گی، یہاں تک کہ اگر بنی اسرائیل کے کسی شخص نے اپنی ماں کے ساتھ کچھ غلط کیا ہوگا، تو میری امت میں بھی ایسا ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئی تھی، جب کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ سب جہنمی ہوں گے، سوائے ایک فرقہ کے ، اور یہ وہ فرقہ ہوگا، جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلیں گے۔ 
امت مسلمہ کی حالیہ فکری و عملی صورت حال کا تجزیہ بتلاتا ہے کہ سرکار دوجہاں ﷺ کی یہ پیش قیاسی پورے طور پر عملی صورت اختیار کرچکی ہے۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، ہم ہر شعبہ میں یہودی ذہنیت سے متاثر اور اسرائیلی طرز عمل کو اختیار کرچکے ہیں۔
اس حدیث کے شارحین نے ایک عجیب نکتے کی بات لکھی ہے کہ اس روئے زمین پر جب سے انسان آباد ہوا ہے، اس وقت سے نبوت کے اختتام تک بہتر فی صد امتی ہیں اور ایک فیصد انبیاء و رسل بھیجے گئے ہیں۔ ہر نبی کی امتی میں سے بہتر فیصد نے ایمان کی دعوت قبول نہیں کی، صرف ایک فی صد ہی مسلمان ہوئی ہے۔ختم نبوت کے تاجدار حضرت محمد ﷺ کی دعوت کو بھی صرف تہترویں فیصد افراد نے قبول کیا ہے، بقیہ بہتر فیصد نے اسلام قبول نہیں کیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے، ان میں سے بہتر فی صد عوام ہیں، جب کہ خواص اور علماء کی تعداد محض ایک فی صد ہے۔ اس تجزیہ کو اسی طرح آگے بڑھاتے رہے ، تمام شعبہ ہائے حیات میں یہی تناسب ملے گا۔ فکرو عقیدے کے اعتبار سے تجزیہ کیجیے تو یہاں بھی یہی نظر آئے گا کہ بہتر حصے بد اعتقادی کے شکار ہیں، جب کہ ایک حصہ ہی صحیح الاعتقاد ہے۔ عملی رپورٹ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ عنوان کی مناسبت سے نماز کو ہی لے لیجیے، آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ بہتر فی صد پنج وقتہ نمازوں سے کٹے ہوئے ہیں جب کہ ایک ہی فی صد سے مسجد کی رونق باقی ہے۔ اسی طرح ہفت واری نماز جمعہ کو لے لیجیے کہ اس میں بھی امت مسلمہ کا صرف ایک طبقہ شامل نماز ہوتا ہے، جب کہ بہتر فی صد جمعہ کی نماز کا بھی اہتمام نہیں کرتے۔ 
اس تجزیہ کو ایک دوسرے اینگل سے دیکھیے تو تہتر میں جو ایک طبقہ جمعہ کی نماز میں شامل ہوتاہے، اس میں سے بہتر کی نماز ہی صحیح نہیں ہوتی، صرف ایک فی صد کی نماز درست ہوتی ہے۔ اس بات کی تصدیق کئی باتوں سے ہوتی ہے: 
(۱) ہمارا نماز سے تعلق چوں کہ ہفت واری ہوتا ہے، اس لیے یہ نماز ہم دل سے نہیں، صرف اس لیے پڑھتے ہیں کہ کہیں تین جمعہ مسلسل چھوٹنے کے بعد ہم ایمان سے خارج نہ ہوجائے، تو نماز جمعہ کو اس کے حقیقی مقصد و نیت سے نہیں ادا کی جاتی ہے، علاوہ ازیں اگر ہم جمعہ کو واقعۃ ضروری سمجھ کر پڑھتے، تو اس سے زیادہ ضروری پنج وقتہ نمازیں ہیں، کیوں کہ وہ فرض ہیں اور جمعہ واجب ہے۔ جب فرض کا اہتمام نہیں کررہے ہیں، تو ہم کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ واجب کو صحیح نیت سے پڑھ رہے ہیں۔ 
(۲) فرائض کی تکمیل کے بغیر وہ چیز ادا ہی نہیں ہوگی۔ اور ہماری شریعت و احکام کی جانکاری کا عالم یہ ہے کہ ہمیں سنن و آداب تو دور ، فرائض کا صحیح علم نہیں ہے، تو بھلا بتائیے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وضو اور نماز میں جو کوتاہی ہوئی ہے، اس میں فرض نہیں چھوٹا ہے۔ اور اگر فرض چھوٹ گیا ہے ، تو بالیقین ہماری نماز نہیں ہوئی۔ 
(۳) عام حالات میں بھی اوربالخصوص نماز میں ستر عورت فرض ہے۔ عورت کے لیے دونوں ہتھیلی، چہرہ اور دونوں ٹخنوں کے علاوہ پورا بدن اور مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک ؛ یہ حصے ڈھانکے رکھنا بہرحال فرض ہے۔ اگر نماز میں مقدار فرض کا کوئی حصہ کھلا رہ گیا تو نماز بالکل نہیں ہوگی۔ ہماری بہنیں، بالخصوص وہ بہنیں، جو اسکول کالج یا آفس کی مجبوریوں کی وجہ سے باہر رہتی ہیں اور نما زکا بھی اہتمام کرتی ہیں، ان کو دیکھا گیا ہے کہ ایک تو عورت و مرد کی نماز میں جو فرق ہے، اس فرق کا لحاظ نہیں کرتیں وہ بھی بالعموم مردوں کی طرح ہی نماز پڑھتی ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ عام حالات میں سر کھلا رکھتی ہیں، لیکن نماز میں دوپٹے سے سرتو ڈھانک لیتی ہیں، لیکن ہاتھ کا فرض والا حصہ کھلا ہی رہ جاتا ہے، جس سے بالکل بھی نماز نہیں ہوتی۔ 
اسی طرح مرد کی بات کریں،تو آج کل کے نواجون لوور پہن کر آتے ہیں، اس میں ہوتا یہ ہے کہ جوں ہی رکوع یا سجدہ میں جاتے ہیں ، تو ان کا فرض والا حصہ کھل جاتا ہے اور پیچھے والے کو ان کی پوری ٹی وی دکھنے لگتی ہے، جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ 
(۴) سجدے میں دونوں پیروں کی انگلیاں زمین سے ٹچ رہنا ضروری ہے۔ اگر بیک وقت دونوں زمین سے اٹھ گئیں،اور پورے سجدہ میں اٹھی ہی رہیں تونماز نہیں ہوگی۔اور یہ ایسی غلطی ہے، جو بالکل عام ہے۔ 
ایسی صورت حال میں ہمیں تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ ہم جو ہفتہ میں ایک ہی بار صحیح، صرف جمعہ کی نماز ہی پڑھتے ہیں ، تو کیا یہ ایک نماز بھی ہم مکمل فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر آپ فرائض پر مکمل دھیان دیتے ہیں ، تو آپ کواللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہونا چاہیے، اور اگر لوور پہن کر پڑھتے ہیں یا فرائض کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کرتے ہیں، تو پھر یہ محاسبہ کرنا ضروری ہے کہ ۔۔۔ میری نماز جمعہ ہوئی کیا۔۔۔ ؟!!!!۔

28 Dec 2018

Think Tank or Fish Tank

تھنک ٹینک۔۔۔یا۔۔۔ فش ٹینک 
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408


میڈی ڈیوڈ (Mady David)کو جب استقرار حمل ہوا، تبھی سے وہ اپنی ذہنی تربیت اور جسمانی صحت کا خیال رکھنے لگی، اس کے لیے وہ روز صبح تین گھنٹے ریاض کرتی اور بادام، دودھ اور دیگر مغزیات استعمال کرتی تھی۔ ذہنی سکون کے لیے میوزک سنتی اور پریشاں کن خیالات سے بچتی تھی۔ اس کے شوہر کا رویہ بھی بالکل مثبت رہتا اور کوئی ایسی بات نہیں کہتا، جس سے ڈپریشن یا معمولی جھگڑے کی نوبت آئے۔ بالآخر ۱۷؍ جنوری ۱۹۹۰ء کو ۸؍ پونڈ وزنی ایک بچہ پیدا ہوا، جس کانام جوسف (Joseph) رکھا گیا۔ روز اول سے ہی بہترین غذا اور اعلیٰ درجہ کی نگہداشت میں اس کی پرورش و پرداخت کی گئی۔ جب اس نے عمر کے تیسرے سال میں قدم رکھا تو نشانہ بازی، تیراندازی اور دوڑ کی جسمانی ٹریننگ دی جانے لگی۔ ذہنی تربیت کا بھی خاص خیال رکھا گیا، حتیٰ کہ اس کے سامنے کوئی اونچی آواز سے بات تک نہیں کرتا تھا۔ حفظان صحت کا بھی پورا خیال رکھاجاتا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک دن بھارتی مہمان اس کے گھر میں آیااور سگریٹ پینے لگا، تو اس کے میزبان باپ نے معذرت کرتے ہوئے سگریٹ پینے سے منع کردیا۔ جوسیف کو چاکلیٹ، چپس اور کول ڈرنک کے بجائے کھجور، پستہ اور بادام دیا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ زندگی میں پہلی اور وہی آخری بار اس نے بارہ سال کی عمر میں جنک فوڈ چکھا تھا، حالاں کہ ان چیزوں کی مصنوعات میں اسرائیل کی اسی پرسینٹ کی شراکت ہے۔ 

جوسیف جب چھٹی کلاس میں پہنچا تو اسکول کی طرف سے ۳؍ ہزار ڈالر تجارت کے لیے دے کر دس ہزار ڈالر کمانے کا ٹارگیٹ دیا، لیکن وہ سات ہزار ہی کماپایا۔ اس ناکامی کو دیکھتے ہوئے اسے کاروباری ریاضی کی خارجی کلاسیں دی گئیں اور پھر ۵؍ ہزار ڈالر دے کر بزنس کرنے کے لیے کہاگیا، چنانچہ اس نے اس سے ۱۶؍ ہزار ڈالر کمائے۔ آگے چل کر اس نے فزکس سے تعلیم مکمل کی اور پھر یہودیوں کی نیویارک میں واقع بلاسود قرض فراہم کرنے والی تنظیم سے قرضہ لے کر ہتھیار بنانے کا کام شروع کیا۔ اور آج کی رپورٹ یہ ہے کہ پوری دنیا ہتھیار کی مارکیٹنگ میں اسرائیل سے لین دین کرنے پر مجبور ہے۔ 
۱۸۹۶ء ؁ میں سوئزر لینڈ کے شہر باسیل (Basel) میں ایک صہیونی رہنما تھیوڈور ہزژل کی صدارت میں ایک خفیہ کانفرنس منعقد ہوئی ، جس میں مخلتف شعبہ ہائے زندگی کے ۳۰۰ صہیونی رہنماؤں اور ۳۰ خفیہ اور عوامی یہودی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں پوری دنیا پر اپنی بالادستی مسلط کرنے کے لائحہ عمل پر غور کیا، جس کے لیے Zionist sages protocols کے نام سے ۲۴؍ نکاتی تجاویز منظور کیں۔ اور پھر لونگ ٹرم پالیسی کے تحت نسل در نسل اسے عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ شروع کیا، جو تاہنوز جاری ہے۔ یہودی بچوں کی بنیادی تربیت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنی پیش رو نسل کے منصوبہ کو لے کر آگے بڑھتی ہے اور آبا و اجداد کی حکمت عملی سے کبھی اختلاف نہیں کرتے۔
اسرائیل سے جڑے ان دو واقعوں کو تحریر کرنے کا مقصد اس راز سے پردہ اٹھانا ہے کہ بالآخر یہودی جو عالمی آبادی کے تناظر میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، اس کے باوجود آج پوری دنیا کے ہر بڑے پلیٹ فارم پر اسی کا قبضہ کیوں ہے؟ آپ بہ خوبی واقف ہیں کہ کسی بھی ملک ، تنظیم یا تحریک کو چلانے کے لیے جتنی منظم حکمت عملی ہوگی، وہ اتنی ہی ترقی کے منازل طے کرتا ہے۔اور حکمت عملی و پالیسی ساز جماعت کو تھنک ٹینک کہاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ترقی یافتہ ممالک کے پاس سب سے زیادہ تھنک ٹینک ہیں، جو تمام شعبہ ہائے حیات کے ماہرین پر مشتمل ہوتے ہیں اور اپنے ملک کی تعمیرو ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ عالمی شماریات پر نظر ڈالی جائے ،تو آج سب سے زیادہ تھنک ٹینک یونائٹیڈ اسٹیٹ کے پاس ہے جس کی تعداد ایک ہزار آٹھ سو بہتر ہے۔ اس کے بعد علیٰ الترتیب چین اوریوکے کے پاس ہے۔ انڈیا کے پاس سردست دو سو تیرانوے تھنک ٹینک ہیں۔ جو گلوبل کی شماریات کے تناظر میں محض پانچ تھنک ٹینک ہی موثر کردار ادا کر پارہے ہیں۔ 
آج اسلامیان ہند کے مفکرین، دانشوران، روشن خیال اور علما؛ بلکہ عام مسلمان بھی اس بات کا رونا رہے ہیں کہ ہمارے ادارے ۔ خواہ وہ تحریک کی شکل میں ہو یا اداروں کی شکل میں۔یا پھر قیادتیں؛اپنے مقصد میں ناکام ہوچکی ہیں، ان کے پاس نہ تو حال کے لیے کوئی ایکشن پلان ہے اور نہ ہی مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل، جس کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ ہر کوشش بے سمت ہوچکی ہے ۔ مکاتب سے یہ شکوہ ہے کہ معیار کی تعلیم نہیں ہوتی، مدارس سے گلہ یہ ہے کہ اس کے نصاب عصریات سے اٹیچ نہیں ہیں، اسکول اور کالج ایمان سے ہاتھ دھونے کی فکٹریاں بنتی جارہی ہیں، تحریکوں اور تنظیموں سے بد ظنی یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی گول سیٹ اپ نہیں ہے۔ قیادتوں کے بارے میں تبصرہ کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ ہر ایک شخص ایک دوسرے گروہ سے نالاں اور کردار سے غیر مطمئن ہے۔ 
حالات کا یہ منظر نامہ ہمیں غورو فکر کی دعوت دیتا ہے ، ہمیں سوچنا ہی ہوگا کہ بالآخر ہر چیز میں ناکامی ہی ہماری مقدر کیوں بن چکی ہے اور کیا ہم اس تقدیر کونہیں بدل سکتے ہیں۔۔۔؟ 
راقم کا خیال ہے کہ ہماری ناکامیوں کے کئی اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس کوئی تھنک ٹینک نہیں ہے۔ مثال کے طور زید ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالتا ہے، جس کا مقصد دینی تعلیم کی اشاعت ہوتا ہے، اس کے لیے وہ ایک شوریٰ بناتا ہے، جو مدرسہ کے ہر فیصلے کے لیے کلی اختیار کا مالک ہے ، لیکن شوریٰ کے ممبران میں ایک ممبر بھی ایسا نہیں ہوتا، جو ماہر تعلیم ہو۔ اس کا ممبر وہی بن سکتا ہے، جو رشتہ دار ہو اور جن سے یہ خطرہ نہ ہو کہ کل کہیں مدرسہ پر قبضہ نہ کرلے اور جو زیادہ سے زیادہ مالی تعاون پیش کرسکے۔ جب ایسے افراد پر مشتمل شوریٰ (جو مدرسہ کا تھنک ٹینک ہے) ہو، تو بھلا وہ مدرسہ اپنے مقصد میں کتنا کامیاب ہوگا، آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں۔ آج ہمارے اکثر اداروں کا یہی حال ہے، ان کے شوریٰ کی فہرست دیکھ لیجیے، اس میں اقربا پروری یا تحفظات فراہم کرنے والے ناموں کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ اسی طرح مسجد کمیٹی کے ممبران کو دیکھ لیجیے ایک بھی ایسا ممبر نہیں ہوگا، جو امام و موذن کی فضیلت و عظمت سے واقف ہو، حتیٰ کہ متولی بھی ایسے شخص کو بنایا جاتا ہے، جو اپنی بیوی کی لڑائی کا غصہ موذن و امام پر نکالنے یا پھر ان میں کیڑے تلاش کرنے کی زیادہ مہارت رکھتا ہے، جب معاملہ ایسا ہے تو امت کی تعمیر وترقی کا کیا حال ہوگا، وہ جگ ظاہر ہے۔ 
اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ امت کے اچھے دن لوٹ کر آئیں، تو اپنی مجلس شوریٰ کو تھنک ٹینک بنائیے۔ آج ہم نے جو بنا رکھا ہے، وہ تھنک ٹینک نہیں؛ بلکہ فش ٹینک ہے ، جس میں چند رنگ برنگی مچھلیاں اس لیے قید کردی جاتی ہیں، تاکہ لوگوں کا دل بہل جائے۔ یاد رکھیے جب تک ہمارا تھنک ٹینک فش ٹینک بنارہے گا، اس سے ہماری تفریح طبع تو ہوسکتی ہے، لیکن۔۔۔لیکن ملت مسلمہ میں نہ تو تعلیمی انقلاب آسکتا ہے، نہ اقتصادی حالات سدھر سکتے ہیں اور نہ ہی قیادتیں ابھر سکتی ہیں!!!!۔