2 Apr 2018

سپاس نامہ کیسے تیار کریں


سپاس نامہ کیسے تیار کریں
کسی اہم شخصیات کے باوقار استقبال کے لیے سپاس نامہ تیار کیا جاتا ہے، سپاس نامے میں درج ذیل چند امور کا خیال رکھا جاتاہے
(الف) سب سے پہلے حصے میں مہمان کے لیے استقبالیہ کلمات ادا کیے جاتے ہیں اور ان کے تئیں اپنے دیرینہ جذبات اور عقیدت و محبت کا اظہار کیا جاتاہے۔
(ب) بعد ازاں ان کی آمد پران کا شکریہ اداکیا جاتاہے اور سامعین کے لیے مہمان کا مختصر؛ مگر جامع انداز میں ایک تعارفی خاکہ پیش کیا جاتاہے، ساتھ ہی ان کی سماجی و سیاسی، علمی و عملی ( جس میدان حیات کے وہ ہیں) اعتبار سے ان کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کی جاتی ہے۔
(ج) اسی ضمن میں ان کی خدمات اور قربانیوں کا ایک مرقع بھی پیش کیا جاتاہے،مثلا اگر وہ علمی آدمی ہیں اور صاحب تصنیف بھی ہیں تو ان پہلووں کا تذکرہ ضرور ہونا چاہیے۔
(د) پھر مہمان کے لیے اپنے ادارے یاانجمن کا ایک تعارفی رپورٹ شامل کیا جاتا ہے، جس سے مہمان مکرم کے سامنے اس ادارے یا انجمن کی پوزیشن واضح ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ اپنے عزائم و منصوبے اور ضروریات کی باتیں ہوتی ہیں۔ 
(ہ) پھر ان کی حیثیت و مرتبے کے مطابق اپنی انجمن یا ادارے کے لیے ضروریات کے تحت مطالبے ہوتے ہیں۔ اور پھر دوبارہ شکریے کی ادائیگی کے ساتھ مضمون مکمل کردیا جاتاہے۔
(و) پورے سپاس نامے میں مضمون میں ندرت اور طرز ادا میں حد درجے کی شائستگی کا ہونا ناگزیر ہوتاہے، جملے میں خشکی کو راہ نہیں ملنی چاہیے ،جابجا اشعار استعمال کرکے اس کے اندر حلاوت و چاشنی پیدا کرنا ایک عمدہ سپاس نامہ کی امتیازی خصوصیت ہوتی ہے اوررنگین بیانی کے ساتھ ساتھ تصنع و مبالغہ آمیزی کے شبہ سے بھی بچنا ضروری ہوتاہے۔
یہاں مثال کے لیے ایک سپاس نامہ دیا جارہا ہے ، جسے بغور مطالعہ کرکے اس کے لازمی عناصر کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔


سپاس نامہ
بہ خدمت عالی جناب حضرت مولانا ثمیرالدین صاحب قاسمی ماہر فلکیات و چیرمین ہلال کمیٹی انگلینڈ۔
حامدا و مصلیا امابعد
مہمان ذی وقار ! سب سے پہلے ہم تمام اراکینِ ۔۔۔ اپنے مہمان معظم ، رفیع المرتبت، عالی منزلت، جناب مولانا ۔۔۔ کا نہا خانۂ دل سے پرتپاک استقبال کرتے ہیں اور آں حضور کی خدمت عالیہ میں کمال خلوص و محبت و نیاز مندانہ احترام و عقیدت کے ساتھ ہدیۂ امتنان وتشکر پیش کرتے ہیں کہ آں جناب نے بے پناہ مصروفیتوں اور غیر معمولی مشغولیتوں کے باوجود ، سفر کی دشواریاں برداشت کرکے، اور ان سب سے بڑھ کر وقت کی قربانی دے کر ہماری حقیر سی دعوت کو شرفِ قبولیت سے نوازااور قدم رنجہ فرماکر ہماری امنگوں میں توانائی، ہمتوں میں بلندی اور ہماری حوصلہ افزائی کی ۔ عزت مآب کی اس ذرہ نوازی اور تشریف آوری سے ہمارے دلوں کے ظلمت کدوں میں اتنے چراغ روشن ہوگئے اور تمناؤں کے ویرانوں میں اتنے رنگین پھول کھل اٹھے جو نظر کی تنگ دامانی کا گلہ کر رہے ہیں ؂
دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار
اس پر مسرت موقعے پر ہم آں حضور کا بے حد ممنون و مشکور اور نشۂ مسرت میں مخمور ہیں اور ہمارے قلوب جن عقیدت و محبت کے جذبات سے معمور ہیں ان کے اظہار کے لیے غالب کے اس شعر میں تشنگی محسوس کر رہے ہیں کہ ؂
وہ آئیں ہمارے گھر میں خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
جس کی تلافی کے لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ؂
نادم ہوں واقعی میں کرمِ بے حساب سے 
خوش آمدید! آپ کہاں میرا گھر کہاں
یہ درست ہے کہ ہمارے شکرو شکیب کے یہ چند الفاظ آپ کے بے کراں احسانات کا بدل نہیں بن سکتے اور نہ ہی ہمارے بے انتہا جذبات کی ترجمانی کرسکتے ہیں ؛ کیوں کہ ع
جذبات اک عالم اکبر ہے ، الفاظ کی دنیا چھوٹی سی
مگر ہاں ! یہ عرض کردینا شاید بے محل نہ ہوگا کہ ہمارا یہ اعتراف عام رسم ورواج سے قطعی مختلف اور ہر قسم کی تکلفات و تصنع سے یکسر ورا ہے ، جس کا اندازہ ہماری بزم کی سادگی سے بہ خوبی لگایاجاسکتا ہے۔
عالی جاہ! ہمارے قلوب قدرتی طور پر فخرو مسرت سے لبریز ہے کہ آپ ہند و بیرون ہند کی ایک ممتاز شخصیت ، علم عمل کا مجمع البحرین، فضل و کمال کاحامل، علم و فن کا ماہر، ملک و ملت کا مقبول خادم، عوام وخواص کا رہ نما، غریبوں کا ماویٰ، بے کسوں و بے بسوں کا سہارا ہمارے درمیان رونق افروز ہیں۔ اس لیے ایسی عظیم ہستی کی موجودگی میں ہماری یہ توقع بالکل بجا ہے کہ آج ہمیں وہ روشنی عطا ہوگی، جس سے ہم اپنی زندگی کا جائزہ لینے پر مجبور ہوں گے۔
مہمان عالی مقام! آپ کی ذات گرامی فکرو نظر ، علم وعمل اور فضل و کمال کا ایک حسین سنگم ہے، سادہ مزاجی، تصنع وتکلف سے بیزاری اور اخلاق و عادات میں اسلاف کے سچے جانشین ہیں۔تبحر علمی ، فکر کی گہرائی، تحریر کی شگفتگی اور طرز نگارش کے قابل ذکر کمالات سے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں ،آپ کے گہربار قلم سے یاد وطن اور اثمارالہدایہ جیسی جامع کتابیں اہل علم کے لیے قیمتی سرمایہ ہیں، آپ کی ہمہ جہت ذات گرامی اور گوناگوں صفات و کمالات کی حامل ہستی ہم اخلاف کے لیے قابل تقلید نمونہ ہیں۔
عزت مآب! ہماری یہ انجمن ۔۔۔ کی ایک علمی ، فکری وادبی مجلس اور صوبہ جھارکھنڈکے ظلمت کدہ میں مینارۂ نور جناب حضرت مولانا منیرالدینؒ کی زندہ و پایندہ یادگار ہے، جن کا وجود شمع ہدایت کی فیروزمندی اور ظلمت وضلالت کی آخری شکست تھی۔ الحمد للہ یہ انجمن گذشتہ ۔۔۔ بر س سے طلبۂ ضلع ۔۔۔ میں خطابت وصحافت کا ذوق، شعرو شاعری کا ملکہ، معلومات میں وسعت، مطالعہ میں گہرائی وگیرائی اور اخلاق و کردار کی شائستگی پیدا کرنے میں مصروف عمل ہے اور بفضلہ تعالیٰ اس کے اچھے ثمرات ظاہر ہورہے ہیں، اب تک اس سے سینکڑوں شعلہ نوا مقرر پیدا ہوئے ہیں اور بے شمار شاعر و صحافی تیار ہوکر ملک و قوم کی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اسلام کا نام روشن کر رہے ہیں۔
فی الحال انجمن کے پاس ۔۔۔ اور دیگر اشیا موجود ہیں، لیکن موجودہ ۔۔۔ طلبہ کے ذوق وشوق، ان کی وسعت طلب، اشتیاق مطالعہ اور روز افزوں شوقِ جستجو ئے کتب کے پیش نظر بالکل ناکافی ہیں اور وہ پریشانی سے دوچار اور حیران کن مخمصے کا شکار ہیں، ایسی حیران و سراسیمگی کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے آں حضور کو غیبی امداد کی صورت میں جلوہ افروز فرمایا ہے ، اس لیے اس غیبی نصرت و اعانت کو غنیمت جانتے ہوئے حضور والا سے درخواست ہے کہ ۔۔۔چیزیں انجمن کی بروقت ضرورت ہیں۔ امید ہے کہ مطلوبہ چیزیں عنایت فرمائی جائیں گی، ہم خدام اس عنایت بے غایت پر بے حد ممنون و مشکور ہوں گے۔
گرامی قدر! آخر میں سمع خراشی، ہنگامہ آرائی اور گستاخانہ جرأت و جسارت پر معافی چاہتے ہوئے ایک بار پھر آں حضور فیض گنجور کے ورود مسعود اور قدوم میمنت پر اپنے دل کی ان گہرائیوں سے پرتپاک خیر مقدم کرتے ہوئے شکر و سپاس کا حسین سوغات پیش کرتے ہیں، جہاں آپ کے لیے عزت و عظمت، رفعت و محبت ، احترام و عقیدت اور نیاز مندی کے بے شمار جذبات موجزن ہیں اور اس شعر کے ساتھ اپنی خوشی و مسرت کے جذبات کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ؂
شکرانہ پیش ہے حضوری میں آپ کے 
اے کاش! روز آئے یہ موسم بہار کے
اور ساتھ ہی حضرت اقدس کے لیے دعا گو ہیں کہ ؂
تم سلامت رہو ہزار برس 
ہر برس کے دن ہو پچاس برس
والسلام ۔