مزاروں پہ آویزاں مختلف زبانوں کے خطوط کو سمجھنے کے لیے بزرگ کی فریادمحمد یاسین جہازی
جب کوئی قوم فکری دیوالیہ پن کی شکار ہوجاتی ہے، تو چاہے فکرو دانش میں کتنی ہی لچرو پوچ حرکت کیوں نہ ہو، اسے جذباتیت کی تسکین اور ایمان کی تکمیل کا حصہ سمجھنے لگتی ہے۔ یہ حرکت اور اس کے پیچھے چھپے عقیدے ؛ اسلام کے نقطہ نظر سے دونوں غلط ہیں۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر ۷۳ میں ہے کہ و الذین اذا ذکروا بآیات ربھم لم یخروا علیھا صما و عمیانا۔ اور جب انھیں اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے، تو وہ ان پر بہرے اور اندھے بن کر نہیں گرتے۔ اس کی تفسیر میں صاحب تفسیر بغوی اور علامہ طنطاوی تفسیر وسیط میں لکھتے ہیں کہ مومنین کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ محض دین کی بات سن کر اندھے بہرے ہوکر تقلید نہیں کرتے، جب تک کہ وہ یہ نہ دیکھ لیں کہ ایا وہ عقلی طور پر بھی صحیح ہوسکتی ہے یا نہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں ہر کسی سے سنی ہوئی باتوں کو دین سمجھ کر اسے ایمان و تسلیم کا حصہ نہیں بنانا چاہیے ۔ اس میں خود بھی غور کرکے دیکھنا چاہیے کہ ایسی بات صحیح ہوسکتی ہے یا نہیں۔ ایک حدیث میں پیروکاران اسلام کے لیے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ۔ غیر ضروری چیزوں سے پرہیز مسلمان کے کردار کو خوب صورت بناتا ہے۔ اسلام کی ان تعلیمات کے جاننے کے بعدہمارے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ یوں تو زندگی میں ہم کئی لایعنی کام کرتے ہیں، جسے دیکھ کر ادنیٰ شعور و آگہی رکھنے والا فرد یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ’’ کیا یہی اسلام ہے!‘‘ ۔ ’’ کیا اسلام میں اس کی گنجائش ہوسکتی ہے!‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ ان میں سے ہمارا ایک کام یہ بھی ہے کہ ہم اپنی حاجت روائی کے لیے اللہ کے علاوہ بزرگ کے مزار پر بھی جاتے ہیں۔ اگر معاملہ صرف جانے تک رہتا تو بھی غنیمت تھی؛ لیکن ہم اس سے آگے کیا کرتے ہیں کہ اللہ سے مانگنے کے بجائے بابا بزرگ سے ہی مانگنے لگتے ہیں۔ چلو کسی حد تک مان لیتے ہیں کہ یہ بھی درست ہوسکتا ہے، لیکن غضب تو تب ڈھاتے ہیں، جب ہم اپنی فریادیں ایک کاغذ پر لکھ کر مزار کی دیوار پر لٹکا آتے ہیں۔ چلو اسے بھی مان لیتے ہیں کہ بابا کو جب فرصت ملے گی تو پڑھ کر ہماری حاجت روائی کردیں گے۔ لیکن بزرگ بابا آج تک حیران و پریشان ہے کہ ان چٹھیوں کو پڑھیں کیسے۔۔۔ ؟ کیوں کہ بھارت کی بات کریں، تو اکثر بابا بزرگ کے بارے میں یہی بتاتے ہیں کہ وہ عرب ایران توران سے آئے تھے، تو ان کی زبان تو عربی فارسی وغیرہ تھی، تو یہ بابا تو وہی خطوط پڑھ پائیں گے، جو عربی فارسی میں لکھے ہوئے ہوں۔ یا پھر ان زبانوں میں ہوں، جو زبان ان کے یہاں بھارت میں آبسنے کے وقت رائج تھی اور جو زبان انھوں نے سیکھی تھی۔ اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ اس وقت نہ تو آج کی اردو تھی، نہ ہندی تھی اور انگریزی تو تھی ہی نہیں۔ اور آج ہم جو خطوط بابا کو بھیج رہے ہیں، وہ زیادہ تر ہندی، اس سے کم انگریزی اور اس سے بھی کم اردو میں لکھ کر بھیج رہے ہیں۔ اور بابا ہیں کہ خطوط سمجھنے کے لیے ہی بہت پریشان ہیں ، انھیں کوئی ٹرانسلیٹر ہی نہیں مل رہا ہے ۔ تو جب بابا ہمارے خطوط ہی نہیں سمجھ پار ہے ہیں اور انھیں کوئی ٹرانسلیٹر بھی نہیں مل رہا ہے، تو بھلا بتائیے سہی ۔۔۔ بابا ہماری حاجت روائی کیسے کرے اور ہماری درخواستوں پر کیسے غور کرے۔۔۔۔ جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ بابا مزاری سے کی گئی ہماری کوئی بھی درخواست قبول ہی نہیں ہورہی ہے اور ہم آج بھی اتنے ہی پریشان ہیں، جتنے کہ درخواست بھیجنے سے پہلے تھے۔ اسلامی ہدایت کے مطابق حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس کے لیے علاوہ کسی اور کو ایسا سمجھنا کفرو شرک کے مترادف ہے، بھلا بتائیے جو انسان زندہ ہونے کی صورت میں ہر ایک کی ضرورت پوری نہیں کرسکتا اور نہ ہی ہر زبان پڑھ سکتا ہے، بھلا وہ مرنے کے بعد ، جب کہ خود کی حرکت کے لیے وہ دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔۔۔ ہماری حاجت روائی کیسے کرسکتا ہے۔۔۔ افلا تعقلون !!!!۔ x