5 May 2019

Chaina ka Cahnd

چائنا کا چاند
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


کیا یہ چاند برت رکھنے والی مہیلاؤں کی پریشانیوں، رمضان، عید، بقرعید اور ایام حج کے اختلافات کو ختم کرنے میں کام آئے گا 
ٹکنالوگی کی نت نئی ایجادات کے جذبے ایسی خبریں بھی سنانے لگتے ہیں، جن کے بارے میں عام انسان کا حاشیہ خیال بھی گذرنا مشکل ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں چینی میڈیا پیپلز ڈیلی آن لائن کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 2020 تک چین کے پاس اپنا ایک مصنوعی چاند ہوگا۔ یہ چاند سچوان صوبے کے چینگدو میں لگایا جائے گا، جو زمین سے 500 کلومیٹر کی اونچائی پر، 360 ڈگری کے اوربٹ پر نصب کیا جائے گا، جو دس سے اسی کلو میٹر کے دائرے تک روشنی بکھیرے گا۔ اس میں چاند سے آٹھ گنا زیادہ روشنی ہوگی، جس سے دس ارب اٹھاون کروڑ اسی لاکھ روپیے کے برابر بجلی کی بچت ہوگی۔ یہ چاند در اصل ایک شیشہ کا ہوگا، جو دن میں سورج کی روشنی کو قید کرے گا اور پھر اسے رات میں خرچ کرے گا۔ 
اس سے قبل روس بھی مصنوعی چاند بنانے کی کوشش کرچکا ہے۔1993 میں، روس نے ایک پلاسٹک آئینہ تیار کیا تھا۔نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق تقریبا دو ڈھائی میل کے فاصلے تک زمین پر اس کی روشنی پھیلی تھی۔ 
تقریبا ہر ایک مذہب میں چاند کئی تہواروں اور خوشیوں کا پیغام لاتا ہے۔ اسلامک کلینڈر چاند کی ہی گردش پر قائم ہے۔ مسلمانوں کی عید، روزہ اور دیگر کئی شرعی احکام چاند ہی کے مرہون منت ہیں۔لیکن نظر نہ آنے پر کبھی کبھار اتنے گہرے اختلافات سامنے آجاتے ہیں کہ چاند نکل آنے کے باوجود دل سے بس یہی دعا نکلتی ہے کہ 
چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی
ائے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے
عبد الحمید عدمؔ
چاند (The Moon)
قرآنِ مجید میں چاند کا ذِکر دیگر اَجرامِ سماوِی سے کہیں زیادہ ہے۔ اللہ ربّ العزت نے چاند کی بہت سی خصوصیات کی بناپر قرآنِ مجید میں قسم کھا کر اُس کا ذِکر فرمایا:
کلَّا وَالْقَمَرِ(القمر، 74: 32)
سچ کہتا ہوں قسم ہے چاند کی۔
جس طرح زمین اور نظامِ شمسی کے دِیگر ستارے سورج کے گرد محوِ گردِش ہیں اور جس طرح سورج کہکشاؤں کے لاکھوں ستاروں سمیت کہکشاں کے وسط میں واقع عظیم بلیک ہول کے گرد محوِ گردِش ہے، بالکل اُسی طرح چاند ہماری زمین کے گرد گردِش میں ہے۔ نظام شمسی میں واقع اکثر سیاروں کے گرد اُن کے اپنے چاند موجود ہیں، اور اکثر کے چاند متعدّد ہیں۔ زمین کا صرف ایک ہی چاند ہے جو زمین سے اَوسطاً 4,00,000 کلومیٹر کی دُوری پر زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہ اپنی گردِش کا ایک چکر 27.321661 زمینی دِنوں میں طے کرتا ہے۔ چاند کا قطر 3,475 کلومیٹر ہے اور یہ نظامِ شمسی کے آخری سیارے پلوٹو سے بڑا ہے۔ 
قمری تقوِیم (Lunar calendar)
قمری تقوِیم میں چاند کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ سورج سے وقت کی پیمائش کے لیے اِنسان کو اپنے علمی سفر کی اِبتدا میں سخت دُشواریوں سے گزرنا پڑا اور ابھی تک یہ سلسلہ تھم نہیں سکا۔ کبھی مہینے کم و بیش ہوتے آئے اور کبھی اُن کے دن، یہی حالت سال کے دِنوں کی بھی ہے۔ شمسی تقوِیم میں جا بجا ترمیمات ہوتی آئی ہیں؛مگر اُس کے باوجود ماہرین اُس کی موجودہ صورت سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ موجودہ عیسوی کیلنڈر بار بار کی اُکھاڑ پچھاڑ کے بعد 1582ء میں موجودہ حالت میں تشکیل پایا، جب 4 /اکتوبر سے اگلا دِن 15/ اکتوبر شمار کرتے ہوئے دس دن غائب کر دیے گئے۔ پوپ گریگوری کے حکم پر ہونے والی اِس تشکیلِ نو کے بعد اُسے ’گریگورین کیلنڈر‘ کہا جانے لگا۔
دُوسری طرف قمری تقوِیم میں خودساختہ لیپ کا تصوّر ہی موجود نہیں۔ سارا کیلنڈر فطری طریقوں پر منحصر ہے۔ قدرتی طور پر کبھی چاند 29 دِن بعد اور کبھی 30دِن بعد نظر آتا ہے، جس سے خودبخود مہینہ 29 اور 30 دِن کا بن جاتا ہے۔ اِسی طرح سال میں بھی کبھی دِنوں کو بڑھانے یا کم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
چاند زمین کے گرد مدار میں اپنا 360 درجے کا ایک چکر 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی مدّت میں مکمل کرتا ہے اور واپس اُسی جگہ پر آ جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بڑی اہم بات قابلِ توجہ ہے کہ زمین بھی چوں کہ اُسی سمت میں سورج کے گرد محوِ گردِش ہے اور وہ مذکورہ وقت میں سورج کے گرد اپنے مدار کا 27 درجے فاصلہ طے کر جاتی ہے، لہٰذا اَب چاند کو ہر ماہ 27 درجے کا اِضافی فاصلہ بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ گویا ستاروں کی پوزیشن کے حوالے سے تو چاند کا ایک چکر 360 درجے ہی کا ہوتا ہے، مگر زمین کے سورج کے گرد گردش کرنے کی وجہ سے اُس میں 27 درجے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اُسے زمین کے گرد اپنے ایک چکر کو پورا کرنے کے لیے 387 درجے کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ 27 درجے کی اِضافی مسافت طے کرنے میں اُسے مزید وقت درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری ماہ کی مدّت 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی بجائے 29 دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ قرار پاتی ہے۔ 29 دن اور 12 گھنٹے کی وجہ سے چاند 29 یا 30 دنوں میں ایک مہینہ بناتا ہے اور باقی 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ کی وجہ سے سالوں میں کبھی دو ماہ مسلسل 30 دنوں کے بن جاتے ہیں اور یہ فرق بھی خود بخود فطری طریقے سے پورا ہو جاتا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے اُس میں کوئی ردّوبدل نہیں کرنا پڑتا۔(اسلام اور جدید سائنس، ص/ ۳۰۳، تا/ ۵۰۳)
چاند نظر آنے اور نہ آنے کا فلسفہ
ماہر فلکیات مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب گڈاوی، چئیرمین ہلال کمیٹی لندن کی تشریحات کے مطابق زمین سے اسی وقت چاند نظر آسکتا ہے، جب کہ افق پر کم از کم دس ڈگری اوپر ہو اور مطلع پر پینتالیس منٹ تک باقی رہے۔ اور چاند کی عمر اس وقت تقریبااٹھارہ گھنٹے ہوچکی ہو۔ اگر چاند دس سے بارہ ڈگری اوپر ہوتا ہے، تو انتیسویں کا چاند ہوتا ہے،لیکن اگرانتیسویں تاریخ کوبوقت غروب دس ڈگری سے کم اونچائی پر ہو تو، اس دن چاند نظرنہیں آتا اور مہینہ تیس دن کا مکمل ہوجاتا ہے۔ 
ان تمام علمی موشگافیوں اور سائنسی انکشافات کے باوجود، رمضان اور عید و بقرعید کا چاندسخت اختلاف کا شکار ہوجاتا ہے، جس سے چاند بھی شکستگی محسوس کرتے ہوئے تمنا کرتا ہوگا کہ نہ نکلتے تو ہی اچھا ہوتا۔ بہر کیف اسلام نے چاند کے ہونے نہ ہونے کا سادہ اور آسان طریقہ یہ بتلادیا ہے کہ مہینے کی انتیس تاریخ کو چاند دیکھنے کی کوشش کرو، اگر نظر آتا ہے، تو ٹھیک ہے۔ اور اگر نظر نہیں آتا ہے اور ایسی مصدقہ خبربھی کسی جگہ سے نہیں آتی، جہاں کہ چاند دیکھا گیا ہے، تو پھر تیس دن کا مہینہ تسلیم کرلو۔
اس واضح اسلامی تعلیمات کے باوجود اگر ہم آپس میں اختلاف کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کو غلط ٹھہرانے کی کوشش کرتیہوئے ملت فروشی کا الزام عائد کرنے سے بھی نہیں چوکتے، تو اس سے بہتر ہے کہ ہم چائنا کے مصنوعی چاند کو دیکھ کر برت کھولیں اور عید بقرعید کی خوشیاں اسی کی مصنوعی کرنوں میں تلاش کرلیں؛ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ …… کیا کسی کا بھی مذہب اس کی اجازت دے گا……؟ اور اگر بالفرض و المحال مان بھی لیں کہ اجازت مل جائے گی، تو چائنا کے تین چاند وں میں سے کس چاند کا اعتبار ہوگا……؟ اور اگر دوسرے ملک والوں نے بھی اپنے اپنے چاند بنا لیے، تو پھر کس ملک کاچاند زیادہ اہم ہوگا……؟ اور پھرا س کے نتیجے میں تاریخ کا جو ایک لامتناہی اختلاف شروع ہوگا، اس کے حل کے لیے کس سورج کی پناہ ڈھونڈھنی ہوگی……؟