Showing posts with label مسائل منیری. Show all posts
Showing posts with label مسائل منیری. Show all posts

3 Nov 2018

Najasate Haqeeqia se paki hasil karne ka bayan

نجاست حقیقیہ سے پاکی حاصل کرنے کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط  ( 32) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
نجاست حکمیہ تو صرف پانی سے پاک ہوتی ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی نہ ملنے پر تیمم کا حکم دیا ہے ؛ لیکن نجاست حقیقیہ پانی سے بھی پاک ہوتی ہے اور ان چیزوں سے بھی پاک ہوتی ہے جو بہنے والی نجاست کو دور کرنے والی ہوں، جیسے کہ سرکہ، عرق گلاب، درخت اور پھل پانی وغیرہ۔ تیل، گھی، دودھ سے پاک نہیں ہوتی ہے ، اس لیے کہ وہ بہنے والی تو ہے، مگر نجاست دور کرنے والی نہیں ہے۔ 
عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت: ماکانت لاحدانا الا ثوب واحد تحیض فیہ فاذا اصابہ شئی من دم قالت: (ای فعلت) بریقھا فمصعتعہ بظفرھا و یرویٰ فقصعتہ۔ (رواہ البخاری فی باب ھل تصلی المرأۃ فی ثوب حاضت فیہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہم میں سے بعض عورتیں ایسی ہوتیں ، جس کے پاس صرف ایک ہی کپڑا ہوتا ، جس میں اس کو حیض آتا، پس جب اس کپڑے میں خون لگ جاتا تو اس میں تھوک ڈالتی اور اس کو ناخن سے ملتی اور صاف کرتی ۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نجاست تھوک سے بھی پاک ہوتی ہے ، حالاں کہ تھوک پانی نہیں ہے ، اسی لیے فقہا نے فرمایا: ہر بہنے اور نجاست دور کرنے والی چیز سے نجاست حقیقیہ دور ہوسکتی ہے۔ 
اگر نجاست حقیقیہ مرئیہ ہو، یعنی دیکھنے میں آتی ہو، تو اس کو اتنا دھوئے کہ نجاست دور ہوجائے ، خواہ ایک ہی مرتبہ میں دور ہو یا دوچار مرتبہ میں ۔ جب نجاست دور ہوگئی تو وہ چیز پاک ہوگئی ۔ 
اگر نجاست کا داغ لگ جائے تو داغ کا دور کرنا ضروری نہیں ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت خولہ نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! اگر خون کا اثر نہ جائے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم کو پانی سے دھو دینا کافی ہے ، اس کا اثر رہ جائے تو اس سے تجھ کو کوئی نقصان نہیں ہے ۔ (ترمذی) 
اگر نجاست غیر مرئیہ ہو یعنی دیکھنے میں نہیں آتی ہو جیسے کہ پیشاب تو اس کے پاک کرنے کی صورت یہ ہے کہ اس کو تین مرتبہ دھوئے اور ہر مرتبہ نچوڑے۔ اور اخیر مرتبہ میں پوری طاقت سے نچوڑے۔ اگر ایسی چیز ہو جو نچوڑی نہیں جاسکتی ہے تو دھوکر اس کو چھوڑ دے ، یہاں تک کہ قطرہ ٹپکنا بند ہوجائے ، پھر دھوئے اور چھوڑے اسی طرح تین مرتبہ کرے، وہ چیز پاک ہوجائے گی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
اذا استیقظ احدکم من نومہ فلایغمس یدہ فی الاناء حتّٰی یغسلھا ثلاثا فانہ لایدری این باتت یدہ۔ (رواہ مسلم) 
جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوتو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے یہاں تک کہ اس کو تین مرتبہ دھو ڈالے، اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ رات اس کے ہاتھ نے کہاں گذاری۔ 
عرب لوگ عموما پاخانہ کے بعد ڈھیلے سے صفائی پر اکتفا کرتے تھے اور اسی حالت میں سوتے تھے ، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ممکن ہے کہ بے خبری کی حالت میں رات کو مقعد کھجلایا ہو اور ہاتھ میں نجاست لگ گئی ہو، لہذا پانی میں ہاتھ نہ ڈالے، پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھولے ، تب پانی میں ہاتھ ڈالے، تاکہ پانی نجس نہ ہوجائے۔ معلوم ہوا نجاست کے احتمال کو دور کرنے کے لیے تین مرتبہ کا دھونا کافی ہے ۔ جس برتن میں کتے نے منھ ڈالا، وہ برتن بھی تین مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے ، چنانچہ حضرت عطا کی روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: 
اذا ولغ الکلب فی الاناء فاھرقہ ثم اغسلہ ثلاث مرات۔ (رواہ الدار قطنی موقوفا ، و فی نصب الرایۃ قال الشیخ تقی الدین فی الامام و ھذا سند صحیح) 
یہی ابو ہریرہؓ ہیں جن کی روایت ہے کہ جس برتن میں کتا منھ ڈالے تو اس کو سات مرتبہ دھوئے اور ایک مرتبہ مٹی سے مانجھے اور یہی فرماتے ہیں کہ اس کو تین مرتبہ دھوئے ۔
معلوم ہوتا ہے کہ سات مرتبہ دھونے کا حکم اس وقت تھا جب کہ کتے کے بارے میں آپ ﷺ کا سخت حکم تھا۔ 
اگر موزہ جوتا وغیرہ چمڑے کی کوئی چیز ہو اور اس پر نجاست دلدارلگ جائے تو اس کو زمین پر رگڑنے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
اذا وطی احدکم بنعلہ الاذیٰ فان التراب لہ طھور۔ (رواہ ابوداؤد باسناد صحیح)
جب تم میں سے کوئی اپنے جوتے سے گندی چیز کو روندے تو اس کو مٹی پاک کرنے والی ہے ۔ 
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
فان رأی فی نعلہ اذیٰ او قذرا فلیمسہ و لیصل فیھما۔ (ابو داؤد)
پس اگر دیکھے اپنے جوتے میں نجاست تو اس کو پوچھ ڈالے اور ان دونوں جوتوں میں نماز پڑھے۔ 
لیکن اگر نجاست دلدار نہ ہوجیسے پیشاب ، تو پھر جوتے وغیرہ سے پوچھنے سے پاک نہ ہوں گے؛ بلکہ اس کو دھونا ہوگا، کیوں کہ وہ پوچھنے میں نہیں آئے گا۔
اگر کپڑے وغیرہ میں منی لگ جائے اور وہ اتنی غلیظ ہو کہ سوکھنے پر کھرچنے اور رگڑنے سے دور ہوسکتی ہے تو خشک منی بغیر دھوئے صرف کھرچنے اور رگڑنے سے پاک ہوجائے گی۔ لیکن اگر منی پتلی ہو اور سوکھنے پر کھرچنے سے دور نہیں ہوتی ہو، یا منی تر ہو تو ان دونوں صورتوں میں دھونا پڑے گا۔ بغیر دھوئے کپڑا وغیرہ پاک نہ ہوگا۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ 
کنت افرک المنی من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ اذا کان یابسا واغسلہ اذا کان رطبا۔ (رواہ الدار قطنی و البیھقی والطحاوی و ابو عوانۃ فی صحیحہ، و قال النیموی اسنادہ صحیح ) 
میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی کو رگڑتی تھی جب کہ خشک ہوتی اور میں دھوتی تھی جب کہ تر ہوتی ۔ 
اگر نجاست ایسی چیز کو لگے جو ٹھوس ہو اورنجاست کا اثر اندر نہ پہنچتا ہو جیسے چھری، چاقو وغیرہ اور کھردری اور منقش نہ ہو، پوچھنے سے صاف ہوتی ہو تو زمین پر رگڑنے یا کپڑے وغیرہ سے پوچھنے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ 
اگر کھردری یا منقش ہے پوچھنے پر گہری جگہ سے نجاست نہیں نکل سکتی ہے تو اس صورت میں دھونے ہی سے پاک ہوگا۔ 
نجس زمین اور زمین پر لگے ہوئے پودے اور درخت، بچھی ہوئی اینٹیں بغیر دھوئے ہوئے محض سوکھنے اور نجاست کے اثر دور ہوجانے سے پاک ہوجاتی ہیں۔ 
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مسجد میں رات گذارا کرتا تھا اور میں جوان بے شادی شدہ تھا ، کتے مسجد میں پیشاب کرتے اور آتے جاتے تھے اور اس میں سے کوئی چیز دھوئی نہیں جاتی تھی۔ (ابو داؤد) امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ زمین سوکھنے سے پاک ہوجاتی ہے۔ 
کٹی ہوئی گھاس، یا درخت یا پودے، اکھڑی ہوئی اینٹیں وغیرہ بغیر دھوئے پاک نہ ہوں گی، اس کو زمین کا حکم نہیں دیا جاسکتا ، اس لیے کہ یہ زمین سے الگ ہیں۔ 
سور کے سوا باقی تمام مردار جانوروں کی کھال جو دباغت قبول کرتی ہے ، دباغت دینے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
ایما اھاب دبغ فقد طھر۔ (رواہ الاربعۃ) 
جونسی کچی کھال پکائی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے ۔
یعنی ہر قسم کے جانور کی کچی کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے۔ کھال سے نجاست دور کرنے کو دباغت کہتے ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
استمتعوا بجلود المیتۃ اذا ھی دبغت ترابا کان او رمادا او ملحا او ماکان بعد ان یظھر صلاحہ۔ (رواہ الدار قطنی)
فائدہ اٹھاؤ مردار کی کھال سے جب کہ وہ دباغت دی جائے مٹی سے یا راکھ سے یا نمک سے یا کسی اور چیز سے ، اس کے بعد اس کا ٹھیک ہونا ظاہر ہوجائے۔
یعنی اس کی بدبو دور ہوجائے اور وہ قابل استعمال ہوجائے ، خواہ صرف دھوپ میں سکھانے سے ہو یا مٹی ڈالنے یا راکھ ڈالنے سے ہو یا نمک سے، یا مسالہ کے ذریعہ سے ہو۔ 
مسلم کی روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
اذا دبغ الاھاب فقد طھر۔ 
جب کچی کھال دباغت دی جائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے ۔ 
ابو داؤد میں لکھا ہے کہ نضر بن شمیل نے فرمایا: اھاب اسی وقت تک بولتے ہیں جب تک دباغت نہ دیا گیا ہو۔ جب دباغت دیا جائے تو اس کو اھاب نہیں بولتے ، اس کو شَنَّ اور قِرْبہ بولتے ہیں۔ 
مردار کی کچی کھال اور اس کا پٹھا نجس ہے ، اس سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہے۔ حضرت عبد اللہ بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا خط آیا، جس میں لکھا تھا کہ 
ان لا تنتفعوا من المیتۃ باھاب و لاعصب۔ (رواہ الترمذی وابو داؤد والنسائی وابن ماجۃ والطحاوی) 
یعنی مردار کی کچی کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔ 
امام بیہقی نے فرمایا کہ اس میں دلیل ہے کہ مردار کی کھال سے دباغت سے پہلے فائدہ اٹھانا ممنوع ہے۔ ؛ لیکن دباغت کے بعد فائدہ اٹھانا درست ہے ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی ایک باندی کو صدقہ میں ایک بکری ملی ، پس وہ مرگئی، اس طرف سے رسول اللہ ﷺ کا گذر ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
ھلا اخذتم باھابھا فدبغتموہ فانتفعتم بہ، فقالوا انھا میتۃ فقال انما حرم اکلھا۔ (بخاری و مسلم) 
تم نے اس کی کھال کیوں نہ چھڑالی، پھر تم اس کو دباغت دیتے اور اس سے نفع اٹھاتے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : وہ تو مری ہوئی ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: مرے ہوئے جانور کا صرف کھانا حرام ہے۔ 
یعنی گوشت تو نجس اور حرام ہے ، لیکن اس کی کھال دباغت کے بعد استعمال کرنا درست ہے۔ 
نجاست جل کر راکھ ہونے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح حقیقت بدلنے سے پاک ہوجاتی ہے ، جیسے شراب سرکہ بن جائے ، نمک میں گر کر چوہا وغیرہ نمک بن جائے۔

1 Nov 2018

Najasae Ghaleeza aur Khafeefa ka Bayan

نجاست غلیظہ اور خفیفہ کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (31) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
نجاست حقیقہ کی دو قسمیں ہیں: غلیظہ اور خفیفہ۔ 
جس کی نجاست آیت یا حدیث وغیرہ سے ثابت ہو اور کوئی دوسری آیت یا حدیث اس کے مخالف نہ ہو،تو اس کو نجاست غلیظہ کہتے ہیں ۔ اور جس چیز کو یہ نجاست لگ جائے وہ نجس غلیظہ کہلاتی ہے ۔ اور جس کے نجاست ہونے میں آیت یا حدیث وغیرہ کا ٹکراؤ ہو ۔ اگر ایک آیت یا حدیث سے اس کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہو، تو دوسری آیت یا حدیث سے اس کا نجس ہونا معلوم ہوتا ہو، لیکن نجاست کا ثبوت راجح ہوتو اس کو نجاست خفیفہ کہتے ہیں۔ (زیلعی)
نجاست غلیظہ میں یہ چیزیں داخل ہیں: شراب انگوری۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس ۔ (المائدہ،۹۰)
بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر؛ یہ سب گندی چیزیں ہیں۔ 
مردار جانور کا گوشت۔ چربی پٹھا اور اس کی کچی کھال۔ سور۔ مچھلی، مچھر، پسو اور کھٹمل کے سوا ہر قسم کے جانوروں کا بہتا ہوا خون۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
الا ان تکون میتۃ او دما مسفوحا او لحم خنزیر فانہ رجس۔ (الانعام،۱۴۵) 
مگر یہ کہ مردار جانور یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت ہو، کیوں کہ وہ بالکل ناپاک ہے۔
معلوم ہوا یہ تینوں چیزیں نجس العین ہیں اور نجاست غلیظہ میں داخل ہیں ، لیکن سور کے علاوہ باقی مردار جانوروں کی ہڈی، بال، سینگ اور کھر پاک ہیں، جب کہ اس میں چکنائی کا اثر نہ ہو۔ یعنی جس کے اندر روح اور خون سرایت نہ کرے، وہ پاک ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے ۔ 
عن عبد اللّٰہ بن عباس قال سمعت رسولَ اللّٰہ ﷺ قال: قل لا اجد فیما اوحی الیَّ محرما علیٰ طاعم یطعمہ الا کل شئی من المیتۃ حلال الا ما اکل منھا ، فاما الجلد والقرون والشعر والصوف والسن والعظم فکلہ حلال لانہ یذکی۔ (رواہ الدار قطنی)
آں حضرت ﷺ نے فرمایا: کہہ دیجیے کہ جو کچھ تیری طرف وحی کی گئی ہے ، اس میں نہیں پاتا ہوں کہ کھانے والے پر اس کا کھانا حرام کیا گیا ہو، خبردار ہو! مردے میں سے ہر چیز حلال ہے، مگر سوائے اس چیز کے کہ کھائی جاتی ہے ، پس کھال (دباغت دیا ہوا) اور سینگ اور بال اور اون اور دانت اور ہڈی؛ پس کل کے کل حلال ہیں اس لیے کہ وہ ذبح نہیں کیے جاتے ہیں، یعنی اس میں روح نہیں ہوتی ہے۔ 
اسی طرح جن چوپاؤں کا گوشت کھانا حرام ہے ، ان کا پیشاب اور آدمی کا پیشاب ، خواہ دودھ پیتا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے پیشاب کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
اذا مسکم شئی فاغسلوہ فانی اظن ان منہ عذاب القبر۔ (رواہ البزار و قال فی التلخیص اسنادہ حسن، آثار السنن) 
جب کچھ پیشاب تم کو لگ جائے تو اس کو دھو ڈالو، اس لیے کہ میں سمجھتا ہوں کہ پیشاب (کے لگنے ) سے عذاب قبر ہوتا ہے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
استنزھوا من البول فان عامۃ عذاب القبر منہ۔ (رواہ الحاکم و قال صحیح علیٰ شرطھما) 
پیشاب سے بچو، اس لیے کہ عذاب قبر زیادہ تر اسی سے ہوتا ہے۔
ایک صحابی کو دفن کیا، دفن سے فراغت کے بعد عذاب قبر میں مبتلا ہوا، تو ان کی عورت کے پاس آپﷺ تشریف لائے اور ان کے عمل کے بارے میں پوچھا تو بولی کہ وہ بکریاں چرایا کرتے تھے اور ان کے پیشاب سے نہیں بچتے تھے، اس وقت آپ ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ حلال گوشت والے جانور کا پیشاب بھی نجاست میں داخل ہے۔ 
معلوم ہوا پیشاب نجس ہے اور اس نجاست سے نہ بچنے کی وجہ سے عذاب قبر ہوتا ہے، مگر حلال گوشت چوپائے کا پیشاب نجاست غلیظہ میں اس لیے داخل نہیں ہے کہ اس کے بارے میں آں حضرت ﷺ نے فرمایا ہے : 
لابأس ببول ما یؤکل لحمہ ، (احمد، دار قطنی)
جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ، اس کے پیشاب میں کچھ حرج نہیں ہے ۔
اس دلیل کے ٹکراؤ کی وجہ سے اس کا پیشاب نجاست خفیفہ میں داخل ہے۔ مرغی، بطخ اور مرغابی کی بیٹ اور آدمی کا پاخانہ اور تمام چوپاؤں کا گوبر، لید نجاست غلیظہ میں داخل ہے ۔ آں حضرت ﷺ نے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو استنجے کے لیے پتھر لانے کو کہا تو انھوں نے دو پتھر لائے اور تیسرا پتھر نہ ملنے پر ایک لید کا ٹکڑا اٹھالائے۔ آپ ﷺ نے دونوں پتھر کو لیا اور لیدکو پھینک دیا اور فرمایا: 
ھذا رکس ۔ (بخاری)
یہ نجس ہے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
لاتستنجوا بالروث۔ (نسائی) 
لید سے استنجا نہ کرو۔
معلوم ہوا : گو، گوبر، لید؛ سب نجس ہے اور اس کے خلاف کوئی حدیث بھی نہیں ہے۔ 
جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے، ان چوپاؤں کا گوشت اور لعاب اور پسینہ نجاست غلیظہ میں داخل ہے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
طھور اناء احدکم اذا ولغ فیہ الکلب ان یغسلہ سبع مرات اولھن بالتراب۔ (مسلم)
جب برتن میں کتا منھ ڈالے تو برتن کو اس طرح پاک کرے کہ اس کو سات مربتہ دھوئے اور پہلی مرتبہ اس کو مٹی سے مانجھے۔ 
معلوم ہوا کتا کا لعاب ایسا نجس ہے کہ اس کی نجاست کو دور کرنے کے لیے مٹی سے مانجھنے کی ضرورت ہے ۔ اور کتا حرام ہے، تو باقی حرام گوشت جانور کا یہی حکم ہوگا۔ اور لعاب کی نجاست گوشت کی نجاست اور گوشت کی نجاست پسینہ کی نجاست پر دلالت کرتی ہے، اس لیے ان جانوروں کا پسینہ بھی نجس ہوگا ، مگر گدھے اور خچر کا پسینہ پاک ہے ، چوں کہ وہ سواری کا جانور ہے ، اس لیے دفع حرج کے لیے پاک فرمایا، جس طرح بلی کا جھوٹا دفع حرج کی وجہ سے پاک ہوا۔ 
ہر وہ چیز جو ناقض وضو یا موجب غسل ہو، وہ بھی نجاست غلیظہ میں داخل ہے ، جیسے منھ بھر قے، زخم کا بہتا ہوا خون، پیپ، منی ، مذی وغیرہ۔ مگر ہوا پاک ہے۔
عن عمار بن یاسرقال: اتیٰ علیَّ رسول اللّٰہ ﷺ و انا علیٰ بئر ادلو ماء فی رکوۃ قال: یا عمار! ما تصنع، قلت: یا رسول اللّٰہ ﷺ بابی انت و امی اغسلُ ثوبی من نخامۃ اصابتہ، فقال: یا عمار! انما یغسل الثوب من خمس من الغائط والبول والقئی والدم والمنی، یا عمار ما نخامتک و دموع عینک والماء الذی فی رکوتک الا سواء۔ (رواہ الدار قطنی)
اور یہ چیزیں نجاست خفیفہ میں داخل ہیں: حلال گوشت چوپائے کا پیشاب، گھوڑے کا پیشاب۔ اور حرام گوشت پرندوں کی بیٹ۔ مرغی ، بطخ، مرغابی کے علاوہ باقی حلال گوشت پرندوں کی بیٹ پاک ہے۔ اسی طرح حلال گوشت چوپاؤں کا لعاب اور پسینہ پاک ہے ۔ حضرت عمرو بن خارجہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منی میں خطبہ دیا اور آپ ﷺ اونٹ پر سوار تھے اور اس کا لعاب میرے مونڈھے پر بہتاتھا ۔ (احمد، ترمذی، ترمذی نے اس کی تصحیح کی)
نجاست غلیظہ اگر گاڑھی ہو، تو ساڑھے چار ماشہ وزن تک معاف ہے اور اگر پتلی ہو تو ہتھیلی کی گہرائی کی مقدار معاف ہے ، یعنی اگر اس کے رہتے ہوئے نماز پڑھے گا ، تو نماز ہوجائے گی، لیکن مکروہ تحریمی ہوگی، اس لیے اس کا دھونا واجب ہوگا۔ اور اگر اس سے کم ہے تو نماز مکروہ تنزیہی ہوگی، اس لیے اس کا دھونا مسنون ہوگا۔ اور اگر مقدار عضو سے زائد ہو یعنی ساڑھے چار ماشہ وزن سے زائد یا مقدار ہتھیلی سے زائد ہو تو نماز نہیں ہوگی اور اس کا دھونا فرض ہے ۔ (در مختار)۔
اور نجاست خفیفہ اگر کسی عضو پر ہو تو چوتھائی عضو سے کم اور کپڑے پر ہو تو اس کپڑے کی چوتھائی سے کم اور اگر کسی چیز پر ہو تو اس چیز کی چوتھائی سے کم ہو تو معاف ہے ، یعنی اس کے رہتے ہوئے نماز پڑھ لے تو نماز ہوجائے گی۔ چوتھائی اور اس سے زیادہ معاف نہیں ہے ۔ اس کا دھونا فرض ہے۔ نجاست خفیفہ اگر پانی میں پڑجائے تو پانی نجس ہوجائے گا، اگرچہ قلیل پڑے۔ پیشاب کی چھینٹ سوئی کی نوک کے برابر بدن یا کپڑے میں پڑے تو معاف ہے ، اس لیے کہ ایسی چھینٹوں سے بچنا مشکل ہے۔

31 Oct 2018

Mostahaza aur maazooreen ke ahkam

مستحاضہ اور معذورین کے احکام
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (30) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
مستحاضہ سے صحبت کرنا جائز ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: 
لاباس ان یجامعھا زوجھا۔ (عبد الرزاق) 
کوئی مضائقہ نہیں کہ اس کا شوہر اس سے صحبت کرے۔ 
ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ حمنہ بنت جحشؓ مستحاضہ ہوتی اور ان کا شوہر ان سے صحبت کرتا۔ نوویؒ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔ (زجاجۃ المصابیح، ص۱۵۹)
مستحاضہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔ استحاضہ کی حالت میں نماز روزہ معاف نہیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک عورت کا خون بہتا تھا ،تو حضرت ام سلمہ نے نبی کریم ﷺ سے اس عورت کے بارے میں پوچھا، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا: یہ عارضہ جو انھیں پیش آیا ، اس سے پہلے مہینے میں کتنے رات دن ان کو حیض آتا تھا، اس کو دیکھے ، پھر مہینے میں اتنے دن کی نماز چھوڑ دے۔ جب وہ دن گذرجائے تو غسل کرے اور کسی کپڑے کی گدی لگائے ، پھر نماز پڑھے۔ اس کو ابو داؤد وغیرہ نے کئی سندوں کے ساتھ بیان کیا۔ اور امام نوویؒ نے فرمایا کہ ابو داؤد کی سند بخاری مسلم کی شرطوں کے مطابق صحیح ہے۔ (زجاجۃ المصابیح) اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
تدع الصلاۃ ایام اقواءھا التی کانت تحیض فیھا ثم تغتسل و تتوضأ عند کل صلاۃ و تصوم و تصلی ۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد)
مہینے میں جتنے دن حیض آتا تھا، اتنے دنوں کی نماز چھوڑ دے ، پھر نہائے اور ہر نماز کے وقت وضو کرے اور روزہ رکھے اور نماز پڑھے۔ 
مستحاضہ حیض سے فارغ ہونے کے بعد بس ایک مرتبہ غسل کرے ، پھر ہر نماز کے لیے وقت پر وضو کرے ۔ اور اس وضو سے جس قدر فرض ، واجب، سنت اور نفل چاہے پڑھے۔ جب تک وقت ہے استحاضہ کے خون کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ وضو وقت نکلنے ہی سے ٹوٹے گا، البتہ دوسرے نواقض وضو سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ 
عن عائشۃ قالت: سئل رسول اللّٰہ ﷺ عن المستحاضۃ قال: تدع الصلاۃ ایامھا ثم تغتسل غسلا واحدا ثم تتوضأ عند کل صلاۃ۔ (رواہ ابن حبان فی صحیحہ باسناد صحیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ سے مستحاضہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے ، پھر ایک مرتبہ نہائے ، پھر ہر نماز کے وقت وضو کرے۔ 
بخاری کی روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: 
ثم توضأ لکل صلاۃ حتیٰ یجئی ذالک الوقت۔ 
پھر وضو کر ہر نماز کے لیے ، یہاں تک کہ یہ وقت گذر جائے ۔ 
یعنی وقت میں صرف ایک وضو کافی ہے ، جب تک وقت ہے وضو باقی ہے۔ 
مستحاضہ پر باقی معذورین کو خیال کرنا چاہیے ، خواہ برابر پیشاب کے قطرے آنے، یا زخم سے خون یا پیپ، ریح، بہنے، یا دست جاری رہنے ، یا ہوا خارج ہونے کا مرض ہو ، یا کوئی دوسری بات ہو جس سے وضو نہیں ٹھہرتا ہے ، کیوں کہ عذر ایک طرح کا ہے ، یعنی وضو کے ساتھ نواقض وضو پیش آجاتا ہے، جس سے وضو صحیح نہیں ہوتا ہے ، یا باقی نہیں رہتا ہے ، مگر شریعت نے مجبوری کی وجہ سے اس کے وضو کو صحیح اور باقی مانا اور اس کو وقت کے اندر نماز پڑھنے کی اجازت دی تو سب معذورین کے لیے اجازت سمجھی جائے گی۔ لہذا معذورین اپنے عذر کی وجہ سے نماز نہ چھوڑے؛ بلکہ وضو کرکے نماز پڑھے ۔ ایک وضو سے پورے وقت میں جس قدر چاہے فرض نفل پڑھ سکتا ہے ۔ دوسرے وقت کے لیے دوسرا وضو کرے۔ 
لیکن معذور اس وقت ہوگا جب کہ ایک نماز کا پورا وقت اس طرح گذرے کہ اس میں باوضو فرض ادا کرنے کا موقع نہ ملے ۔ اس کے بعد اس وقت تک معذور رہے گا جب تک نماز کا کوئی وقت عذر سے خالی نہ گذرے ، یعنی ہر نماز کے پورے وقت میں کم از کم ایک مرتبہ وہ عذر پیش آجائے ، جس میں وہ معذور سمجھا گیا ہے ۔ جب ایک نماز کاپورا وقت اس طرح گذر جائے کہ اس میں ایک مرتبہ بھی وہ عذر پیش نہ آئے تو اب معذور نہ رہے گا اور وہ چیز اس کے حق میں ناقض وضو ٹھہرے گی۔

29 Oct 2018

Haiz wa Nifaas aur Janabat ke ahkam ka bayan

حیض و نفاس اور جنابت کے احکام کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (29) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
حیض و نفاس کی وجہ سے آٹھ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں : 
اول: نماز۔ دوسرا: روزہ۔ جب عورتوں نے آں حضرت ﷺ سے اپنے دین کے نقصان کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
الیس اذا حاضت المرأۃ لم تصل ولم تصم۔ (بخاری و مسلم)
کیا یہ بات نہیں ہے کہ جب عورت کو حیض آتا ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے ، تو عورتوں نے کہا : ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمھارے دین کا نقصان ہے۔ 
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ 
کانت النفساء تقعد علیٰ عھد رسول اللّٰہ ﷺ بعد نفاسھا اربعین یوما۔ (رواہ الخمسۃ الا النسائی واللفظ لابی داؤد و فی لفظ لہ : ولم یامرھا النبی ﷺ بقضاء صلوٰۃ النفاس، و صححہ الحاکم، بلوغ المرام، ص؍۲۸) 
بچہ جننے والی عورتیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بچہ جننے کے بعد چالیس دن بیٹھتی تھیں۔ اور ابو داؤد کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو نفاس کی نماز کے قضا کا حکم نہیں کیا ہے ۔ 
یعنی حالت نفاس میں جو نماز چھوڑنی پڑتی ہے ، اس نماز کی پیچھے بھی قضا نہیں ہے ، وہ نماز بالکل معاف ہے ، البتہ روزہ کی قضا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : حائضہ کا کیا حال ہے کہ روزہ کی تو قضا کرتی ہے اور نماز کی قضا نہیں کرتی ؟ حضرت عائشہؓ نے پوچھا: کیا تو حروریہ ہے؟ جواب دیا کہ نہیں، لیکن میں پوچھتی ہوں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: زمانہ نبوت میں یہ بات پیش آتی تھی تو روزہ کی قضا کا حکم ہوتا تھا ، لیکن نماز کی قضا کا حکم نہ ہوتا تھا۔ (بخاری ومسلم)
تیسرا: قرآن پڑھنااگرچہ ایک آیت ہو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ 
لاتقرأ الحائض ولا الجنب شیئا من القرآن ۔ (ترمذی و ابن ماجہ)
حیض والی عورتیں اور جنابت والے قرآن کا کوئی جزو نہ پڑھے۔ 
یعنی تلاوت کی نیت سے قرآن کا پڑھنا درست نہیں ہے۔ اگر نعمت کے شکریہ میں الحمد للہ رب العالمین کہے، یا بری خبر پر انا للہ و انا الیہ راجعون کہے تو درست ہے ۔ اسی طرح بسم اللہ کا پڑھنا درست ہے۔ 
چوتھا: قرآن کا چھونا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
لایمسہ الا المطھرون۔ (الواقعۃ، آیۃ)
نہ چھوئے قرآن کو مگر پوری طہارت والا۔ 
یعنی جس کے لیے نماز پڑھنا درست ہے ، اس کے لیے قرآن چھونا درست ہے ۔ اس سے کم پاکی والوں کے لیے قرآن کا چھونا درست نہیں ، لہذا حائض نہ چھوئے ، نہ جنب اور نہ بے وضو ؛ البتہ رومال وغیرہ کے ذریعہ سے پکڑ کر اٹھا سکتا ہے۔ 
پانچواں : مسجد میں داخل ہونا۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
انی لا احل المسجد لحائض ولا جنب (ابو داؤد)
میں حیض اور جنابت والے کے لیے مسجد کو حلال نہیں کرتا ہوں۔ 
یعنی ناپاک کو مسجد میں گھسنا درست نہیں ، خواہ ناپاکی جنابت کی ہو یا حیض و نفاس کی۔ 
چھٹا: خانہ کعبہ کا طواف کرنا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 
افعلی مایفعل الحاج غیر ان لاتطوفی بالبیت حتّٰی تطھری (بخاری و مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آں حضرت ﷺ نے فرمایا: جو حاجی کرتے ہیں وہ تمام کام کر، مگر یہ کہ بیت اللہ کا طواف تو نہ کرے ،یہاں تک کہ تو پاک ہوجائے ۔
یعنی حیض کی حالت میں کعبہ کا طواف درست نہیں ہے، باقی تمام افعال حج کرسکتی ہے۔ 
ساتواں: جماع کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
فاعتزلوا النساء فی المحیض۔ (البقرۃ،۲۲۲)
حیض کی حالت میں عورتوں سے دور رہو۔ 
یعنی اس سے صحبت درست نہیں ہے۔ 
آٹھواں : ناف کے نیچے سے گھٹنے تک کے عضو سے فائدہ اٹھانا بھی درست نہیں ہے۔ 
ایک شخص نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
لک فوق الازار۔ (ابو داؤد)
تیرے لیے ازار کے اوپر جائز ہے۔
ازار تہہ بند کو کہتے ہیں ۔ ناف گھٹنے تک کا عضو تہہ بند کے نیچے کا حصہ ہے اور اس کے علاوہ مافوق الازار ہے ۔ مطلب ہوا ناف سے گھٹنے تک تیرے لیے حلال نہیں، باقی حلال ہے۔
اور جنابت کی وجہ سے پانچ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں: 
اول: نماز۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
لاتقبل صلاۃ بغیر طھور۔ (مسلم)
پاکی کے بغیر نماز مقبول نہیں۔ 
یعنی ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنا درست نہیں، خواہ ناپاکی حدث اصغر کی ہو یا حدث اکبر کی، یعنی بغیر وضو غسل کے نماز صحیح نہیں ہوتی۔ 
دوسرا: قرآن کا پڑھنا، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ 
تیسرا: قرآن کا چھونا، اگرچہ ایک آیت ہو، جیسا کہ حیض میں بیان ہوا۔ 
چوتھا: مسجد میں داخل ہونا۔
پانچواں : خانہ کعبہ کا طواف کرنا۔اس کا تذکرہ حیض میں ہوچکاہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
الطواف حول البیت مثل الصلاۃ ۔ (ترمذی وغیرہ)
بیت اللہ کا طواف نماز کی طرح ہے ۔
اور نماز کے لیے طہارت شرط ہے ، لہذا طواف کے لیے بھی طہارت شرط ہوگی، اسی لیے جب حضرت عائشہؓ کو حیض آیا تو آپﷺ نے طواف سے منع فرمایا۔ 
اور وضو نہ رہنے کی وجہ سے تین چیزیں حرام ہیں: 
اول: نماز پڑھنا۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
لاتقبل صلاۃ من احدث حتیٰ یتوضأ۔ (بخاری و مسلم)
جس نے ہوا خارج کی اس کی نماز صحیح نہیں ، یہاں تک کہ وضو کرلے۔ 
یعنی ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور وضو ٹوٹنے پر نماز نہیں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
یاایھا الذین اٰمنوا اذا قمتم الیٰ الصلاۃ فاغسلوا، الخ(المائدہ، ۶)
ائے ایمان والو! جب نماز کا ارادہ کرو توو ضو کرو۔ (اپنے منھ، ہاتھ کو دھوؤ، سر کا مسح کرو، پاؤں کو دھوؤ۔
دوسرا: قرآن کا چھونا۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
لاتمس القرآن الا و انت طاھر۔ (رواہ الحاکم فی المستدرک و قال صحیح الاسناد)
قرآن بغیر طہارت مت چھوؤ۔
یعنی وضو ہو تو قرآن چھوئے ، ورنہ نہ چھوئے۔آں حضرت ﷺ نے عمرع بن حزم کو لکھا: 
الَّا یمس القرآن الا طاھر۔ (مالک، ص۷۵)
قرآن کو پاک ہی آدمی چھوئے ۔
یعنی پوری طہارت والا جس کو وضو و غسل ہو وہی چھوئے۔ 
تیسرا: طواف کرنا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 
الطواف حول البیت مثل الصلاۃ۔ (ترمذی) 
کعبہ کا طواف جیسے کہ نماز۔
نماز بغیر وضو درست نہیں، اسی طرح طواف بے وضو درست نہیں۔ طواف کے لیے وضو کرنا واجب ہے ۔ نماز کے لیے وضو کی فرضیت قرآن سے ثابت ہے اور طواف کے لیے وضو کا ثبوت خبر آحاد سے ہے ، اس لیے فرض کے بجائے واجب ہوا۔

27 Oct 2018

Nifas Istihaza

نفاس

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (28) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
بچہ کے پیدا ہونے کے بعد جو خون رحم سے نکلتا ہے، اس کو نفاس کہتے ہیں۔ نفاس کی اکثر مدت چالیس دن ہے اور کم کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بالکل خون نہ آئے ، یا دو ایک منٹ آکر بند ہوجائے۔ 
عن انسؓ ان النبی ﷺ وقت للنفساء اربعین یوما الا ان تریٰ الطھر قبل ذالک۔ (رواہ الدار قطنی و ابن ماجہ)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے نفاس والیوں کے لیے چالیس دن مقرر کیا ہے ، مگر یہ کہ اس سے پہلے پاکی دیکھے۔
یعنی چالیس دن پہلے پاک ہوسکتی ہے ، مگر اکثر مدت چالیس دن ہے ۔ اگر چالیس دن پورے ہونے پر بھی خون بند نہ ہوتو چالیس سے زائد استحاضہ کا خون ہوگا۔ چنانچہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
فان بلغت اربعین یوما ولم تر الطھر فلتغتسل وھی بمنزلۃ المستحاضۃ۔ (رواہ ابن عدی وا بن عساکر)
اگر چالیس روز پورے ہونے پر بھی خون بند نہ ہو تو عورت کو نہالینا چاہیے ، وہ استحاضہ والی سمجھی جائے گی۔ 
استحاضہ
وہ بیماری کا خون ہے جو رگ کے پھٹنے سے نکلتا ہے۔ حیض کے دنوں میں جو خون تین دن سے کم یا دس دن سے زیادہ آئے، یا ایام نفاس میں چالیس روز سے زیادہ آئے ، یا حالت حمل میں خون آئے ، وہ سب استحاضہ کا خون ہوگا۔ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: 
لاحیض دون ثلاثۃ ایام ولا حیض فوق عشرۃ ایام۔ (رواہ ابن عدی)
تین دن سے کم حیض نہیں اور دس دن سے اوپر حیض نہیں۔ 
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: 
ان اللّٰہ رفع الحیض عن الحبلیٰ و جعل الدم بما تغیض الارحام (ابن شاہین) 
اللہ تعالیٰ نے حاملہ عورت سے حیض اٹھالیا اور خون کو ایسا کردیا کہ رحم اس کو چوسنے لگا۔ 
اور حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: 
ان اللّٰہ رفع الدم عن الحبلیٰ و جعلہ رزقا للولد۔ (ابن شاہین)
اللہ نے حاملہ سے خون اٹھالیا اور اس کو پیٹ کے بچے کے خوراک بنادیا ۔ 
اور معتادہ کے لیے عادت سے زیادہ استحاضہ ہے ، جب کہ اکثر مدت سے زائد حیض یا نفاس ہو۔ اگر اکثر مدت پر رکا یا اس سے کم پر تو وہ حیض و نفاس ہے ، یوں سمجھا جائے گا کہ عادت بدل گئی ہے۔

25 Oct 2018

Haiz aur Istehaza ka Bayaan

حیض و نفاس اور استحاضہ کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (27) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
عورت کی شرم گاہ سے تین طرح کا خون نکلتا ہے : اول: حیض۔ دوسرا : نفاس۔ تیسرا: استحاضہ کہلاتا ہے۔ 
حیض
نو سے پچاس سال کی عمر کے اندر تندرستی کی حالت میں جب کہ حمل نہ ہو، رحم سے جو خون تین دن رات یا اس سے زیادہ دس دن دس رات تک آتا ہے ، اس کو حیض کہتے ہیں، بشرطیکہ دونوں خون کے درمیان کم از کم پندرہ دن کا فصل ہو۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
اقل الحیض ثلاث و اکثرہ عشر، و اقل ما بین الحیضتین خمسۃ عشر یوما۔ (رواہ ابن الجوزی) 
حیض کی کم مدت تین دن اور اکثر دس دن ہے اور دو حیض کے درمیان پاکی کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔ 
اگرچہ حیض کی مدت کی تعیین کے بارے میں جتنی حدیثیں مرفوع ہیں، سب ضعیف ہیں، لیکن متعدد طریقوں سے چھ صحابیوں سے منقول ہونے کی وجہ سے حدیث حسن لغیرہ ہوکر قابل احتجاج رہتی ہیں۔ (رد المحتار)۔ اور حضرت عثمان بن العاص رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا: 
الحائض اذا جاوزت عشرۃ ایام فھی بمنزلۃ المستحاضۃ تغتسل و تصلی۔ (رواہ الدار قطنی، قال البیھقی ھذا الاثر لابأس باسنادہ)
ٰؑ یعنی حائضہ کا خون جب دس دن سے تجاوز کرجائے تو وہ مستحاضہ کے حکم میں ہے۔ غسل کرے اور نماز پڑھے۔ 
اور حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: 
ادنیٰ الحیض ثلاثۃ ایام۔ (رواہ الدار قطنی فی سننہ رجالہ رجال مسلم)
یعنی حیض کی اقل مدت تین دن ہے ۔ 
ان آثار اور احادیث کی بنا پر امام صاحب نے فرمایا: حیض کی کم سے کم مدت تین دن تین رات ہے ۔ اگر اس سے کم خون آئے تو وہ حیض نہیں ہے؛ بلکہ استحاضہ ہے ۔ اسی طرح حیض کی اکثر مدت دس دن ہے ۔ اگر اس سے زیادہ آئے تو استحاضہ ہے۔ اور دو حیض کے درمیان پاکی کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔ اگر اس سے پہلے خون آجائے تو وہ حیض نہیں استحاضہ ہوگا۔ 
جس کی ماہواری کی ایک عادت ہو، مثلا ہر مہینہ میں سات روز خون آتا ہے ، اب اتفاق سے خون زیادہ آیا، یہاں تک کہ دس روز سے بھی زیادہ آیا تو عادت کے مطابق سات روز حیض ہوگا۔ اور باقی استحاضہ۔ حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھے حد سے زیادہ خون آتا تھا ، تو میں نبی کریم ﷺ سے دریافت کرنے آئی ، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا: یہ تو شیطان کی ٹھوکر ہے۔ (سو عادت کے مطابق) چھ یا سات روز حیض میں گذارو اور پھر نہاؤ۔ پس جب صاف ہوجاؤ تو چوبیس روز یا تئیس روز نماز پڑھو اور روزہ رکھو ، یہی تجھ کو کافی ہے ، پس جیسے عورتیں کرتی ہیں اسی طرح ہر مہینے میں کرو۔ (رواہ الخمسۃ الا النسائی و صححہ الترمذی و حسنہ البخاری)
اوراگر دس روز پر رکا، یا دس روز سے کم میں رکا، لیکن عادت سے زیادہ آیا، تو وہ کل حیض ہوگااور یوں سمجھا جائے گا کہ عادت بدل گئی۔ 
جس عورت کی کوئی عادت نہ ہواور اس کو دس روز سے زیادہ کسی ماہ میں خون آجائے، تو دس دن تک حیض ہے اور باقی استحاضہ۔ 
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک دن دو دن خون آیااور ایک دو روز کے لیے پھر بند ہوگیا ، پھر خون جاری ہوا، اگر دو خون کے درمیان پندرہ دن سے کم پاکی ہے تو عادت والی کے لیے عادت کے مطابق حیض ہے باقی استحاضہ ہے۔ اور جس کی عادت نہیں ہے تو اگر دس دن کے اندر یہ چھوڑ باڑ ہوا ہے تو کل حیض ہے ۔ اور اگر دس دن سے زیادہ ہوا ہے تو دس دن حیض ہے باقی استحاضہ ہے۔ 
حیض کے دنوں میں جس رنگ کا خون آئے وہ سب حیض ہی کا خون ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ڈبہ میں کرسف بند ہوکر آتا تھا ، جس میں حیض کی زردی ہوتی تھی ، تو حضرت عائشہؓ فرماتی تھیں: 
لاتعجلن حتیٰ ترین القصۃ البیضاء۔ (مالک)
جلدی مت کرو، یہاں تک کہ دیکھ لو سفید چونا۔
یعنی سفید رطوبت کے علاوہ جس رنگ کا خون ہو ، وہ سب حیض میں داخل ہے ۔

23 Oct 2018

Peshab ke Aadab

پیشاب پاخانہ کے آداب


پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (26) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
پیشاب کے لیے جب بیٹھے تو پہلے بسم اللہ پڑھے۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: جب پاخانہ جائے ، تو جن کی آنکھوں سے پردہ انسان کی شرمگاہ کے لیے بسم اللہ ہے۔ 
(ھذا حدیث غریب اسنادہ لیس بقوی قال علی القاری: و مع ھذا بہ فی فضائل الاعمال سیما ، و قد رواہ احمد والنسائی عنہ، و رویٰ الطبرانی عن انس نحوہ)
یعنی بسم اللہ پڑھ کر ستر کھولا جائے تو انسان کی بے ستری جنوں کو نظر نہیں آتی ہے ، اس لیے جب پیشاب پاخانہ کے لیے بیٹھے تو بسم اللہ پڑھ لے۔بلا ضرورت پیشاب کھڑے کھڑے کرنا مکروہ تنزیہی ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جو شخص یہ بیان کرے کہ نبی کریم ﷺ کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے تو تم اس کی بات کو نہ مانو۔ آپ ﷺ ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے۔ 
رواہ احمد و الترمذی والنسائی و اسنادہ حسن جید قال الترمذی: حدیث عائشۃ احسن شئی فی ھذا الباب و اصح)
البتہ ضرورت سے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ 
اتیٰ النبی ﷺ سباطۃ قوم فبال قائما۔ (بخاری و مسلم)
نبی کریم ﷺ قوم کی کوڑی پر آئے اور کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔
اور یہ آپﷺ کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ضرورت ہی کی وجہ سے تھا ، ورنہ آپ ﷺ کا معمول وہی تھا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا۔ علمائے کرام نے مختلف عذر آں حضرت ﷺ کا بیان کیاہے۔ 
پیشاب پاخانہ کے لیے جب بیٹھے تو قبلہ رخ نہ بیٹھے، نہ قبلہ کی طرف پیٹھ کرے ۔ پیشاب پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منھ کرنا یا پیٹھ کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
اذا ذھب احدکم الیٰ الغائط او البول فلایستقبل القبلۃ ولایستدبرھا (رواہ النسائی)
جب تم سے کوئی پاخانے پیشاب کو جائے تو قبلہ کی طرف منھ نہ کرے اور نہ پیٹھ کرے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
اذا اتیتم الغائط فلاتستقبلوا القبلۃ ولا تستدبرواھا۔ (بخاری و مسلم)
جب تم پاخانہ کو آؤ تو تم قبلہ کی طرف منھ نہ کرو اور نہ پیٹھ کرو۔ 
اسی طرح مسجد کی دیوار کے پاس مسجد کے رخ میں پیشاب نہ کرے ، ایسا کرنا مکروہ ہے۔
نھیٰ رسول اللّٰہ ﷺ ان یبال فی قبلۃ المسجد۔ (رواہ ابو داؤد فی مراسلہ مرسلا)
آں حضرت ﷺ نے مسجد کے رخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ 
پیشاب کرتے وقت ذکر کو دائیں ہاتھ سے نہ پکڑے، بلکہ بائیں ہاتھ سے پکڑے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
لایمسکن احدکم ذکرہ بیمینہ وھو یبول۔ (مسلم)
پیشاب کرتے وقت تم میں سے کوئی اپنے ذکر کو دائیں ہاتھ سے ہرگز نہ پکڑے۔
حضرت ابو قتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پیے، تو چاہیے کہ برتن میں سانس نہ لے ۔ اور جب پاخانہ جائے تو اپنی شرم گاہ کو اپنے داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے استنجا کرے۔ (بخاری ، کتاب الوضو، ص؍ ۵۱)
پیشاب نرم زمین میں کرے تاکہ چھینٹیں نہ اڑے۔ 
عن ابی موسیٰ قال: کنتُ مع النبی ﷺ ذات یوم، فاراد ان یبول فاتیٰ دمثا فی اصل جدار فبال ثم قال: اذا اراد احدکم ان یبول فلیرتد لبولہ۔ (رواہ ابو داؤد) 
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا تو آپ ﷺ نے پیشاب کرنے کا ارادہ کیا، تو آپ ﷺ دیوار کی جڑ میں ایک نرم زمین کے پاس آئے اور آپ ﷺ نے پیشاب کیا، پھر فرمایا: جب تم میں سے کوئی پیشاب کا ارادہ کرے تو پیشاب کے لیے ایسی جگہ تلاش کرے۔ 
پیشاب غسل خانہ میں نہ کرے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
لایبولن فی مستحمہ۔ (ابو داؤد)
ہرگز کوئی غسل خانہ میں پیشاب نہ کرے اور اس میں نہائے۔ 
اسی طرح سوراخ میں پیشاب نہ کرے ، ممکن ہے کوئی جانور موذی ہو ، وہ نکل کر ڈس لے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
لایبولن احدکم الیٰ جحر۔ (ابو داؤد)
ہرگز کوئی سوراخ میں پیشاب نہ کرے۔ 
پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد ڈھیلے سے استنجا کرے اور اتنا چہل قدمی کرے کہ پیشاب کے اترنے کا سلسلہ بند ہوجائے ۔ پیشاب کے بعد صرف پانی سے دھولینا یا مٹی ڈھیلے سے پوچھ لینا اگرچہ درست ہے ۔ 
عن مولیٰ عمر یسار بن نمیر قال: کان عمر اذا بال قال ناولنی شئیا استنجی بہ فاناولہ العود او الحجر او یاتی حائطا یمسح بہ او یمسہ الارض ولم یغسلہ۔ (رواہ البیھقی و قال انہ اصح ما فی الباب نقلہ فی رسائل الارکان و کذا نقل الشیخ عبدالحق) 
حضرت عمرؓ کا غلام یسار ابن نمیر کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر پیشاب کرتے تو فرماتے کہ کوئی چیز لاؤ کہ استنجا کروں تو میں آپ ﷺ کو لکڑی یا پتھر دیتا یا دیوار میں آکر پوچھ لیتے، یا زمین سے رگڑ لیتے اور اس کونہیں دھوتے بھی۔ 
لیکن چوں کہ اس زمانہ میں عموما لوگوں کے مثانے کمزور ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے دیر تک پیشاب کے اترنے کا سلسلہ رہتا ہے ، اس لیے ممکن ہے پانی سے دھونے کے بعد یا ڈھیلے سے پونچھنے کے بعد پیشاب کا قطرہ آجائے ، اس صورت میں اگر پہلے وضو کیا ہے تو وضو صحیح نہیں ہوگا، ورنہ کم از کم کپڑا نجس ضرور ہوگا، جس کی وجہ سے نماز صحیح نہ ہوگی ، اسی لیے آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
اکثر عذاب القبر من البول۔ (رواہ ابن ماجہ و آخرون و صححہ الدار قطنی والحاکم)
زیادہ تر عذاب قبر پیشاب ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ 
پاخانے کے لیے ایسی جگہ بیٹھے جہاں پردہ ہو۔ سب سے بہتر بیت الخلا ہے ۔ اگر بیت الخلا نہ ہوتو پھر پردہ کی جگہ تلاش کرے۔ اگر نزدیک میسر نہ ہو تو دور نکل جائے ۔ لوگوں کی نگاہوں کے سامنے نہ بیٹھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب پاخانہ کا ارادہ فرماتے تو آپ ﷺ اتنادور نکل جاتے کہ کوئی آپ ﷺ کو نہ دیکھتا۔ (ابو داؤد) اور آپ ﷺ نے فرمایا:
من اتیٰ الغائط فلیستتر (ابو داؤد) 
جو پاخانہ میں آئے، اس کو چھپنا چاہیے۔ 
اور جب پاخانہ کے لیے بیٹھے تو کپڑا اس وقت اٹھائے جب کہ زمین سے قریب ہوجائے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو کپڑا اس وقت اٹھاتے جب زمین سے قریب ہوجاتے۔ (ترمذی، ابو داؤد، دارمی) ۔ 
پاخانہ پھیرتے ہوئے دوسرے سے باتیں نہ کرے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایاکہ شرم گاہ کھول کر جب پاخانہ کر رہا ہو تو اس حالت میں دو شخص آپس میں باتیں نہ کرے، اس پر اللہ تعالیٰ بڑا ناراض ہوتا ہے۔ (احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ)
پاخانہ میں گھسنے سے پہلے اور میدان میں ستر کھولنے سے پہلے یہ دعا پڑھے: 
اللّٰھم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث۔ (بخاری، کتاب الوضو)
جب پاخانہ سے فارغ ہوجائے تو اس کے بعد ڈھیلے سے استنجا کرے ۔ ڈھیلے سے استنجا کرنا سنت ہے، خواہ جتنے ڈھیلے سے مخرج صاف ہوجائے۔ تین یا پانچ یا سات ڈھیلوں کا استعمال کرنا مستحب ہے۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
من استجمر فلیوتر، من فعل فقد احسن ومن لا، فلا حرج۔ (رواہ ابو داؤد، وابن ماجہ، والدارمی، وابن حبان فی صحیحہ وھو حدیث حسن) 
جو شخص ڈھیلے سے استنجا کرے تو چاہیے کہ بے جوڑ ڈھیلے استعمال کرے، جس نے ایسا کیا بڑا اچھا کیا اور جس نے نہیں کیا تو کچھ حرج نہیں کیا۔ 
استنجا بائیں ہاتھ سے کرے۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
یستنج بشمالہ۔ (ابن ماجہ) 
استنجا بائیں ہاتھ سے کرنا چاہیے۔ 
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
لایتمسح من الخلاء بیمینہ۔ (مسلم) 
پاخانہ سے فارغ ہونے کے بعد دائیں ہاتھ سے نہ پونچھے۔ 
اگر نجاست مخرج سے آگے نہیں بڑھا ہے تو پانی سے استنجا کرنا مستحب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ بیت الخلا میں داخل ہوتے تو میں اور میری طرح ایک لڑکا پانی کا برتن اور چھوٹا نیزہ اٹھاتے اور آپ ﷺ پانی سے استنجا کرتے۔ (بخاری و مسلم) 
اگر نجاست مخرج سے آگے بڑھا ہے ، مگر ایک درم سے مقدار میں کم ہے تو پانی سے استنجا کرنا سنت ہے ۔ اور اگر مقدار درم تک تجاوز کرگیا ہے تو پھر دھونا واجب ہے ۔ اور اگر اس سے بھی زیادہ لگ گیا ہے تو دھونا فرض ہے ۔ (کبیری) 
جب پانی سے دھوکر فارغ ہوجائے تو ہاتھ کو مٹی سے دھوئے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ بیت الخلاتشریف لے جاتے تو میں آپ ﷺ کے لیے لکڑی یا چمڑے کے برتن میں پانی لاتا تو آپ ﷺ استنجا کرتے ۔ پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑتے۔ پھر دوسرے برتن میں پانی لاتا اور آپ ﷺ وضو کرتے ۔ (ابو داؤد، دارمی، نسائی)
گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنا مکروہ ہے ۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے پیچھے پیچھے چلا اور آپ ﷺ اپنی حاجت (رفع کرنے) کے لیے نکلے تھے اور آپ ﷺ (کی عادت تھی) ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے تو میں آپ ﷺ سے قریب ہوگیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے پتھر تلاش کردو، تاکہ میں اس سے پاکی حاصل کروں۔ (پارس کے مثل کوئی لفظ فرمایا) اور ہڈی میرے پاس نہ لانا اور نہ گوبر ۔ (بخاری، کتاب الوضو؍۵۲)۔

22 Oct 2018

Kuwen ka Bayan

کنویں کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (25) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
اگر کنویں کا پانی جاری نہیں ہے اور وہ دس ہاتھ لمبا چوڑا نہیں ہے تو وہ پانی نجاست کے گرنے سے ناپاک ہوجاتا ہے ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، مگر اس کے پاک کرنے کے مختلف احکام ہیں ، اس لیے یہاں اس کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں ۔ 
گوبر، لید، مینگنی کے علاوہ، اگر کنویں میں کوئی نجس چیز گر جائے، خواہ وہ ایک قطرہ خون ہی کیو ں نہ ہو۔ اسی طرح سور کے گرنے سے گرچہ زندہ نکل آئے ، کیوں کہ اس کا بال نجس العین ہے ۔ کتا اور بکری اور آدمی یا اس کے برابر یا اس سے بڑا جانور گر کر مرجانے سے ، اسی طرح چوہا وغیرہ ، یا اس سے بڑا جانور کنویں میں پھول پھٹ جانے سے کنویں کا سارا پانی نکالا جائے گا۔ جیسا کہ حبشی کے مرجانے سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے زمزم کے پانی کو صاف کرایا ۔ اگر تمام پانی صاف کرنے سے عاجز ہو تو تقریبا دو سو تین سو ڈول پانی نکال لیا جائے ، جیساکہ عبداللہ ابن زبیرؓ نے فرمایا: حسبکم، تم کو اتنا ہی کافی ہے ۔ یہ دونوں حدیثیں اوپر بیان ہوچکی ہیں۔ 
اگر کوئی حرام جانور سور کے کے علاوہ کنویں میں گرجائے اور زندہ نکل آئے اور اس کا منھ پانی میں نہ پڑے تو کنواں ناپاک نہ ہوگا۔ اور اگر کنویں میں اس کا منھ جا پڑا تو اس کے لعاب کی نجاست کی وجہ سے سارا کنواں نجس ہوگا اور سب پانی نکالا جائے گا۔ اور اگر آدمی یا حلال گوشت جانور کنواں میں گرے اور زندہ نکل آئے تو پانی ناپاک نہ ہوگا، اگرچہ منھ پانی میں پڑے، کیوں کہ ان کا جھوٹ پاک ہے۔ 
اگر کنویں میں مرغی یا بلی یا اتنا بڑا کوئی دوسرا جانور گر کر مرجائے تو چالیس ڈول پانی نکالا جائے اور ساٹھ ڈول نکالنا مستحب ہوگا۔ 
عن الشعبی فی الطیر والسنور و نحوھما یقع فی البئر قال: ینزح منھا اربعون دلوا۔ (رواہ الطحاوی و قال الامام بن الھمام سندہ صحیح) 
شعبی سے مروی ہے کہ پرندہ اور بلی اور اس جیسا کوئی جانور کنواں میں پڑے تو فرمایا اس کنواں سے چالیس ڈول نکالا جائے۔ 
اور اگر چوہا یا چڑیایا اس کے برابر کوئی دوسرا جانور گر کر مرجائے تو بیس ڈول پانی نکالے۔ تیس ڈول نکالنا مستحب ہوگا۔ 
عن انس رضی اللّٰہ عنہ انہ قال فی الفارۃ اذا ماتت فی البئر و اخرجت من ساعتھا نزح منھا عشرون دلوا او ثلاثون۔ (طحاوی من طرق غیر شرح الاثار)
حضرت انسؓ نے چوہے کے بارے میں جب کہ کنویں میں مرجائے اور فورا نکال لیا جائے فرمایا: بیس ڈول یا تیس ڈول اس سے پانی نکالا جائے۔ 
اور ڈول سے مراد اوسط ڈول ہے جو کنویں پر پڑا رہتا ہے ، اسی لحاظ سے پانی نکالا جائے۔ پانی نکالنے کے بعد کنواں ، رسی ، ڈول کھینچنے والے کا ہاتھ سب خود بخود پاک ہوجاتا ہے، کسی چیز کے دھونے کی حاجت نہیں۔ 
جس جانورمیں بہتا خون نہ ہو وہ کنویں میں گر کر مرجائے یا وہ پانی کا جانور ہو اور کنویں میں مرجائے تو اس سے کنواں ناپاک نہ ہوگا۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
یاسلمان! کل طعام و شراب وقعت فیہ دابۃ لیس لھا دم فماتت فیہ فھو حلال اکلہ و شربہ و وضوۂ۔ (رواہ الدار قطنی، زجاجہ ۱۲۶)
ائے سلمان! جس کھانے پینے میں ایسا جانور پڑجائے جس میں خون نہیں ہے ، اس میں پھر مرجائے تو اس کا کھانا پینا حلال ہے اور اس سے وضو کرنا جائز ہے ۔ 
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
اذا وقع الذباب فی شراب احدکم فلیغمسہ ثم لینزعہ فان فی احد جناحیہ داء و فی الاخریٰ شفاء۔ (بخاری، بلوغ المرام)
جب تم میں سے کسی کے پینے کی چیز میں مکھی پڑ جائے تو اس کو ڈبودینا چاہیے ، پھر نکالنا چاہیے ، اس لیے کہ اس کے دونوں پروں میں سے ایک میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں علاج ہوتا ہے ۔ 
معلوم ہوا کہ پانی میں مکھی پڑجانے سے پانی نجس نہیں ہوتا ہے ۔ اور مکھی میں خون نہیں ہے ، پس بے خون کے جانور کا یہی حکم ہوگا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: دو مردے اور دو خون ہمارے لیے حلال ہیں ، دو مردے مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تلی ہیں۔ (احمد)۔ اس سے مری ہوئی مچھلی اور ٹڈی کا پاک ہونا ثابت ہوا۔ اور پاک چیز پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ 
اگر کنویں میں مرا ہوا جانور ہو اور ابھی پھولا پھٹا نہ ہو اور گرنے کا حال معلوم نہ ہو کہ کب گرا ہے ، تو ایک دن رات قبل سے کنواں نجس سمجھا جائے گا اور چوبیس گھنٹے کی نماز دوہرانی ہوگی ، جب کہ اس پانی سے وضو کیا ہے یا کپڑا دھویا ہے ۔ اور پھولنے پھٹنے کی صورت میں تین دن رات کی نماز لوٹانی ہوگی۔

20 Oct 2018

Jhoot ka Bayaan

جھوٹ کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (24) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
کھانے پینے کے بعد جو تھوڑی چیز بچ جاتی ہے، وہ جھوٹ کہلاتی ہے۔ کثیر پانی سے کوئی جانور پی لے تو اس کو جھوٹ نہیں کہتے۔ بہرحال جھوٹ چار طرح کا ہوتا ہے : 
اول: طاہر مطہر غیر مکروہ، یعنی بلاکراہت پاک کرنے والا۔ اور وہ آدمی کا جھوٹ ہے ، خواہ کسی مذہب اور ذات سے تعلق رکھتا ہو، خواہ وہ پاک ہو یا ناپاک ہو۔ جب اس کے منھ میں نجاست نہیں ہے تو اس کا جھوٹ پاک بلاکراہت پاک کرنے والا ہے ۔ اسی طرح تمام حلال گوشت جانور کا جھوٹ ، جیسے گائے، بھینس، بکری، اونٹ، چڑیا، مینا وغیرہ۔ اسی طرح گھوڑے کا جھوٹ پاک ہے، کیوں کہ گھوڑا حلال ہے، اس کے گوشت میں کراہت کرامت کی وجہ سے ہے نجاست کی وجہ سے نہیں۔ چنانچہ بخاری کی روایت میں ہے کہ 
نھیٰ النبی ﷺ یوم خیبر عن لحوم الحمر و رخص فی لحوم الخیل۔ 
نبی کریم ﷺ نے خیبر کی جنگ میں گدھے کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑے کے گوشت میں اجازت دی۔
لعاب کی نجاست کی وجہ سے جھوٹ نجس ہوتا ہے اور لعاب گوشت کی نجاست کی وجہ سے نجس ہوتا ہے ، کیوں کہ لعاب گوشت سے پیدا ہوتا ہے ۔ جب گوشت نجس نہیں ہے تو لعاب نجس ہوگا نہ جھوٹ نجس ہوگا اور ان تمام چیزوں کا گوشت پاک ہے، اس لیے لعاب اور جھوٹ سب پاک ہوگا۔ 
دوسرا: نجس :اور وہ حرام گوشت چوپایا کا جھوٹ ہے ، جیسے کتا، سور ، شیر، لومڑی، گیدڑ وغیرہ۔ کتے کے بارے میں آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
طھور اناء احدکم اذا ولغ فیہ الکلب ان یغسلہ سبع مرات اولھن بالتراب۔ (مسلم)
جب برتن میں کتا منھ ڈال دے، تو اس کو سات مرتبہ دھوئے، پہلی مرتبہ مٹی سے ہو۔ 
معلوم ہوا کہ کتے کا جھوٹ نجس ہے جب ہی تو سات مرتبہ دھونے کا حکم ہوا۔ اور کتا حرام ہے، اس لیے باقی حرام گوشت جانوروں کے جھوٹ کا حکم وہی ہوگا جو کتے کے جھوٹ کا حکم ہوا۔ کیوں کہ لعاب گوشت سے پیدا ہوتا ہے ، اس لیے لعاب کا وہی حکم ہوگا جو گوشت کا حکم ہوگا، لہذا حرام گوشت جانور کا جھوٹ نجس ہوگا۔ 
تیسرا: طاہر مطہر مکروہ، یعنی کراہت کے ساتھ پاک کرنے والا۔ اوروہ بلی، کھلی ہوئی مرغی ، حرام گوشت پرندہ اور زمین میں رہنے والے جانور یعنی چوہا، نیولا، گھوس، گرگٹ وغیرہ کا جھوٹا ہے ۔ مرغی کے جھوٹ میں کراہت اس وجہ سے ہے کہ وہ نجاست میں منہ ڈالتی ہے ۔ اگر نجاست میں منھ نہ ڈالے تو پھر کوئی کراہت نہیں ہے ۔ اور بلی وغیرہ کے جھوٹ کے مکروہ ہونے کی دلیل اوپر گذر چکی ہے ، اس لیے لوٹائی نہیں جائے گی۔ اگر دوسرا پانی ہو تو اس کو استعمال نہ کرے ، ورنہ پھر اسی پانی سے وضو غسل کرے ۔ آں حضرت ﷺ نے بلی کے جھوٹ سے وضو کیا ہے ۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں ہیں کہ 
انی رأیتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ یتوضأ بفضلھا۔ (رواہ ابو داؤد، و قال النیموی اسنادہ حسن) 
میں نے آں حضرت ﷺ کو بلی کے جھوٹ سے وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ 
چوتھا : مشکوک ہے ۔ اور وہ گدھے اور خچر کا جھوٹ ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔