نظامت برائے اختتامی اجلاس
الحمد للہ کفیٰ وسلام علیٰ عباداللہ الذی اصطفیٰ ،أما بعد
معزز سامعین، لائق صد احترام حاضرین! آج میں کچھ ایسے موڑ پر کھڑا نظر آرہا ہوں ، جہاں فکرو خیالات کے دورنگی شور نے ایک ہنگامہ مچا رکھا ہے ، ایک طرف تو اپنی علمی کم مائیگی اور تنگ دامانی کا بے ہنگم احساس دہن و لب پر بار بار مہر سکوت رکھ رہا ہے اور زبان و منہ پر آرزوئے پرشوق کے اظہار کرنے سے بندش لگارہاہے، وہیں دوسری طرف آپ حضرات کے خلوص وعنایات کی موسلہ دھار بارش اپنے پیہم تقاطر سے میری قوت گویائی کو آزادی دلانے کی کوشش کر رہی ہے اور مجھے مسلسل اس بات پر بر انگیختہ کر رہی ہے کہ میں اپنے دہن و لب کی بندشوں سے مکمل آزاد ہوکر آپ کے روبرو اپنی آرزووں کا جھلملاتا شیش محل پیش کروں اور آپ حضرات کے تئیں دل کے نہاخانوں میں پنہاں رنگین تمناؤں کو مظہر بیان میں لاکر اظہار کا لبادہ پہناؤں
گرم نالوں میں اگر سوزواثر ہوتاہے
سرد آہوں میں بھی پوشیدہ شرر ہوتاہے
کارواں شوق کا جب گرم سفر ہوتاہے
فرش کیا عرش پہ انساں کا گذر ہوتا ہے
مجھے ہر گز یہ امید نہ تھی کہ ہر طرف سے بہاروں میں گھرا اس خطۂ ارض پر دیوان گان دین اسلام کا اتنا بڑا ہجوم ہوگا اوران کی سعی و کوشش سے اس تزک و احتشام کے ساتھ یہ عطر بیز محفل سجے گی ۔ سچ مچ مجھے آپ حضرات کی اس پر رونق بزم کو دیکھ کر اپنی تعبیر کے تگنائے میں وہ الفاظ نہیں مل رہے ہیں، جس سے آپ حضرات کی مثالی جدو جہد اور سعی و کوشش کو دادو تحسین کا خوش نما گل دستہ پیش کروں۔
حضرات ! آپ کی یہ بزم یقیناًان گنت خوبیوں اور گوناگوں خصوصیات کا حامل ہے ، جو صرف آپ حضرات کی توجہ و عنایات سے بڑی مشکل سے وجود میں آئی ہے ۔ آپ اپنی اس عظیم ترین نعمت کو ایک گراں قدرسرمایہ سمجھیں اورکچھ لمحے سرجوڑ کر اس ماحول میں بیٹھنے کو غنیمت جانیں، ان شاء اللہ آپ تھوڑی ہی دیر میں مقررین حضرات کی دل پذیر تقاریر اور جامع خطابات سے اپنے دامنوں کو اس طرح گہربار پائیں گے کہ ملائکۂ فلک بھی آپ کی اس خوش قسمتی پر رشک کررہے ہوں گے۔ باہر سے تشریف لائے ہوئے شیریں بیان مقرر بھی جلد ہی اپنی اپنی مبارک زبانوں سے علم و عرفان کا چشمہ بہانے والے ہیں۔قبل اس کے کہ میں اپنے اس سلسلہ کو آغاز کا روپ دوں ،آپ حضرات سے چند باتیں بطور تمہید عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔
حضرات! آج کی یہ بزم نہایت ہی مبارک اور بے شمار خصوصیات کا آئینہ دار ہے۔ اس بزم کے بار گراں کا یہ دوش ناتواں ہرگز تنہا متحمل نہیں ہوسکتا؛ بلکہ مجھے ہر ہر قدم پر آپ کے تعاون اور امداد کا سہارا چاہیے۔ یہ بزم آپ کی ہے ، چاہیں تو آپ اس کو ناکام بنادیں اور چاہیں تو کامیاب شکل میں دیکھیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ آپ کی یہ بزم کسی ناکامی کا شکار ہوجائے یا اس میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہو، اس کے باوجود آپ حضرات سے میری درخواست ہے کہ آپ دل جمعی اور سکون کے ساتھ از ابتدا تاانتہا میرے ہم رکاب رہیں اورشانہ بہ شانہ میری امدادو تعاون کریں، آپ حضرات کو اس بات کی ہر گز فکر نہیں ہونی چاہیے کہ پتہ نہیں کہ ایک ناتجربہ کار شخص کے ہاتھ میں بزم پروری کی باگ ڈور رکھ دی گئی ہے ، آبروئے بزم کا کیا ہوگا۔
حضرات! آپ کو ایسا کبھی خیال نہیں کرنا چاہیے ؛ کیوں کہ جب آپ نے مجھے بزم کی زلف برہم کو سنوارنے کے لیے منتخب کرہی لیا ہے تو آپ کو میرے اوپر یہ اعتماد بھی کرنا ہوگا کہ یہ ناچیز آپ کی بزم کی رونق کو دوبالا کرنے اور اسے دیدہ زیب بنانے کے لیے اور آپ کی آرزووں کو ساحل طمانینت تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے میں کوشا رہوں گا۔ آپ صرف ماحول کو سنجیدہ بنائے رکھیں اور از ابتدا تا انتہا میرا ساتھ نبھانے کا وعدہ کریں، ان شاء اللہ آپ تھوڑی ہی دیر میں دیکھیں گے کہ تلاوتِ قرآن کریم کی روحانیت اورنعت نبی کی ترنم آمیز گنگناہٹ سے یہ محفل نورانی بن جائے گی اور رحمتِ الٰہی کا سایۂ عاطفت اپنے دامن میں ڈھانپ لے گا۔ستارے ہماری خوش قسمتی پر مسکرائیں گے اور چاند اپنی سنہری سنہری دودھیالی چاندنی سے موسم کو اور حسین کردے گا۔
سامعین کرام ! اب بلا کسی تاخیر کے آئیے پروگرام کاآغاز کرتے ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت باسعادت کے لیے دعوت دیتے ہیں ساحراللسان قاری خوش الحان جناب مولانا ۔۔۔ کو، موصوف سے التماس ہے کہ
قرآن کی تلاوت سے آغاز ہو محفل کا
اس نور سے پاجائیں ہم راستہ منزل کا
جناب موصوف مائک کے روبرو۔
حضرات ! ابھی آپ تلاوت کی سماعت سے اپنے دلوں کے گناہوں کی کثافتوں کو دھو رہے تھے ۔ آئیے اب تلاوت کے بعد اس مدنی آقا ، مولائے کریم ، محبوب رب العالمین، محمد عربی ،فداہ امی وابی ﷺ کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت و محبت پیش کرتے ہیں ، جن کے احسانِ گراں بار سے ہم سب ؛ بلکہ پوری انسانیت کی گردن خم کھائی ہوئی ہے ، جن کے دنیا میں آنے سے دنیا کی تمام غم گینیاں اور دائمی سرگشتگیاں ختم ہوگئیں اور کلمۂ حق کا موسمِ ربیع، موسم بہار شروع ہوا۔ تو لیجیے سماعت فرمائیے شاعر شیریں زبان و خوش الحان جناب ۔۔۔ کو ، میں ان سے بصد احترام گذارش کرتا ہوں کہ وہ آئیں اور اپنی ترنم آسا دل سوز نغمگی آواز سے نعتیہ کلام پیش فرمائیں۔آں جناب آپ کے روبرو۔
سامعین کرام! ابھی آپ نعت نبی سن رہے تھے اوریوں محسوس کررہے تھے کہ گویا ہم تصور میں آقائے مدنی کی گلیوں میں سیر کر رہے ہیں ۔پروگرام کی اس ضروری رسم و راہ کے بعد آئیے اب اصلی منزل کا رخ کرتے ہیں اور تقریری کڑی کا آغاز کرتے ہیں جس کے لیے ہم آواز دیتے ہیں انجمن کے ایک ہونہار فرد ، ماہر وبے باک مقرر جناب مولوی۔۔۔کو کہ وہ آئیں اور اپنی آتش بیانی سے خرمن باطل میں آگ لگادیں۔میں ان سے درخواست کرتا ہوں ان دو شعر کے ساتھ کہ
بزم سخن کا رنگ نکھر آیا اس طرح
جیسے نکھار آیا ہو تازہ گلاب پر
اور آواز دے رہی ہیں تجھے دل کی دھڑکنیں
آجاؤ اب کہ بزم ہے پورے شباب پر
جناب خطیب صاحب آپ سے مخاطب۔
دوستو! ہمارا یہ پروگرام انتہائی مختصر ہے ، جس کی وضاحت یہ ہے کہ اب ایک مکالمہ پیش کیا جائے گا اور اس کے بعد اساتذۂ کرام کی مفید نصیحتوں کادور چلے گا۔
دوستو ! زندگی کے سفر میں جس طرح کسی رنج و غم سے پڑنے والے اثرات سے آنسو بہانا ضروری ہے، دوستو اس سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ لوگ قہقہوں سے اپنے دلوں کے بوجھ کو ہلکا کریں،پھولوں کے سیج پر سونے کا حقیقی لطف وہی اٹھا سکتا ہے، جو کانٹوں کی چبھن کی لذت سے آشنا ہو،تو آئیے ماحول کو اور بھی خوب صورت اورموسم کو حسین سے حسین تر بنانے کے لیے آپ کو قہقہوں کی محفل میں لیے چلتے ہیں اور ایک تہلکہ خیز و تہلکہ ڈاٹ مکالمہ پیش کرتے ہیں جس کے لیے مکالمہ میں کردار ادا کرنے والے حضرات جناب ۔۔۔ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور اپنے اپنے رول اور کردار کے اعتبار سے اپنی اپنی ذمے داری کونبھائیں۔
محترم سامعین ! ابھی آپ مکالمہ سن رہے تھے اور ساتھ ہی اس میں ادا کیے جانے والے ایکٹنگ کو دیکھ کر لطف اندوز ہورہے تھے ۔
دوستو! اب ہم طلبہ کے پروگرام کا دور ختم ہوگیا ۔ آئیے اب اپنے مشفق اورکرم فرماو کرم گستر اساتذۂ کرام کی نصیحتوں سے مستفیض ہوتے ہیں،جو اپنے تجرباتِ حیات کی روشنی میں ہم وابستگانِ دامن اساتذہ کی زندگی کے لیے مفید لائحۂ عمل اور کارگرپروگرام کی طرف رہ نمائی کریں گے اور ہماری زندگی پھر اس ڈگر پر چل کر کامیابی اور کامرانی سے ہم کنارہوگی ۔ تو پروگرام کی اس کڑی کو شروع کرتے ہوئے انتہائی عاجزانہ درخواست کرتے ہیں جناب حضرت مولانا ۔۔۔سے کہ آں جناب تشریف لائیں اور خطاب فرمائیں۔
دوستو!ہم تمام طالبان علوم نبویہ کی یہ فطری تمنا ہوتی ہے کہ ہمارے علمی سفر کی آخری منزل ازہر ہند دارالعلوم دیوبند ہو اوراس گلشن قاسمی میں بلبل بن کر چہکتے رہیں۔اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکرو احسان ہے کہ اس نے ہماری اس فطری تمنا کی تکمیل کی اورہم اس مادرعلمی سے فیض یاب ہوتے رہے؛ لیکن دوستو مادر علمی کے یہ ایام اتنی تیز ی سے گذر گئے جیسا لگتا ہے کہ قدرت کے غیبی ہاتھوں نے گھڑیوں کی رفتار تیز کردی تھی ، سکنڈ منٹ کی طرح، منٹ گھنٹوں کی مانند اور گھنٹے ہفتوں، مہینوں اور سالوں کے اعتبار سے گذر رہے ہیں۔
ساتھیو!یہ اختتامی اجلاس ہماری جدائی کی گھڑی آن پہنچنے کا اعلان کررہا ہے، شاید ہماری اور آپ کی یہ آخری بزم ہے ، اب ہم سے مادر علمی چھوٹ جائے گی ، ہم اپنے اساتذہ کی شفقتوں اور عنایتوں سے محروم ہوجائیں گے، درس و تدریس کے لمحے لمحے کی یاد ہمیں ستائے گی، ہم ان درودیوار کی دیدار کو ترس جائیں گے ، یہ دارالحدیث کا گنبد بیضا، مسجد رشید کی حسین میناریں، مسجد چھتہ کی روحانیت، مسجد قدیم کی نورانیت، ساقی کوثر کا مے خانہ،میکدۂ قاسم کا جام و سبو، گہورۂ طیب،چمن نصیری، قلزم مدنی، مینائے مدراسی، صہبائے سعیدی، بزم قمری، بہار حبیبی، درس نعمتی، بیر زمزم کا پرتو، احاطۂ مولسری میں گذری ہوئی زندگی کی صبح و شام، ان درودیوار سے وابستہ ماضی کی حسین یادیں، شب و روز کے مشاغل، تعلیم تعلم کے معمولات، پندو وعظ کی قیمتی باتیں، تقریرو تکرار میں گزری ہوئی راتیں، صدائے قال قال کی بازگشت، دوست واحباب کے میل ملاپ ، یاران ہم نوا کے اجتماع واختلاف ، باہمی الفت ولگن، آپسی خلش و چپقلش ، ایک دوسرے سے روٹھنا منانا،رفقاکے ساتھ مستیاں و اٹھکھیلیاں، انجمن کی بزم آرئیاں اور احباب کی طرب انگیزیاں ؛ دوستوان سب کی یادیں ہمیں تڑپاتی رہیں گی
جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی ، جہاں نغمے ہی نغمے تھے
وہ گلشن اور وہ یاران غزل خواں یاد آئیں گے
لیکن دوستو! یہ اجتماع و افتراق، یہ اتحادواتفاق، یہ وصال وفراق،یہ جمع و تفریق، یہ جدائی وجفائی، یہ بے کسی وبے بسی، یہ ہماری آمدو رفت؛ سب قدرت کی کرشمہ سازیاں ہیں، یہاں کسی کو بقا و دوام نہیں، خود دنیا کی کیا حقیقت ہے ؟ کلی پھول بنی اور مرجھا گئی، گلاب میں چمک آئی اور ماند پڑگئی، چمیلی مہکی اور ختم ہوگئی، کنول کھلااور کمھلا گیا، نرگس شہلا مسکرائی اور خاموش ہوگئی، چمپا میں تازگی آئی اور پژمردگی چھا گئی، بلبل شاخ گل پر چہکا اور اڑگیا، چاندنی آئی اور غائب ہوگئی، سورج طلوع ہوا اور غروب ہوگیا، دن رخصت ہوا اور رات کی تاریکی چھا گئی ، رات کافور ہوئی اور دن آگیا، صبح ہوئی اور شام ہوگئی
بقا کسی کو نہیں قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کوہے زمانے میں
تو جب دنیا ہی کو بقا و دوام نہیں ، تو ہم کب تک اس گلشن میں رہتے؟ زندگی کا اور کتنا حصہ یہاں بتاتے؟ اور کب تک زندگی کی بہار یوں ہی لوٹتے رہتے؟
چلے گا بزم میں جام و شراب مشک وبو کب تک
رہیں گے زینت محفل بتان سعلہ رو کب تک
کریں گے بزم قاسم میں سکون آرزو کب تک
ہماری کروفر کب تک رہے گی اور ہم کب تک
یقیناًہمیں یہاں سے ایک نہ ایک دن ضرور نکلنا پڑتااور ہمیں یہاں سے رخصت سفر باندھنا ہی پڑتا۔ دوستو آج وہی ہماری رخصت کی گھڑی ہے ، تو پھر یہ کیسا شکوہ اور کس کا شکوہ؟ یہ کیسا گلہ اور کس کا گلہ؟ یہ کیسا غم اور کس کا غم؟ یہ کیسی کسک اور کیسا دردِ جدائی؟ یہ کیسی رنجش اور کیسا رونااور کیوں کر رونا؟ ارے بھائی
غم تو غذائے روح ہے اس سے گریز کیا
جس کو ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے
لہذا چھوڑ دیجیے ان باتوں کو اور فراموش کرجائیے ماضی کی حسین یادوں کو ، جس کو دہراکر ماتم کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں، اگرچہ سچ یہ ہے کہ
یہ سچ کہ سہانے ماضی کے لمحوں کو بھلانا کھیل نہیں
اوراق نظر سے جلووں کی تحریر مٹنا کھیل نہیں
لیکن
لیکن یہ محبت کے نغمے اس وقت نہ گاؤ رہنے دو
جو آگ دبی ہے سینے میں ، ہونٹوں پہ نہ لاؤ رہنے دو
پس جدائی کی اس جاں سوز گھڑی میں نمناک آنکھوں اور غم ناک چہروں سے نہیں ؛ بلکہ ہشاش بشاش چہروں سے ایک دوسرے کو الوداع کہتے ہیں اور یہ وعدہ کرتے ہیں کہ زندگی کے ہر موڑ پر، جہاں بھی موقع ملے گا، ان شاء اللہ ملاقات کرتے رہیں گے ۔
شمع کی لو سے ستاروں کی ضو تک
تمھیں ہم ملیں گے جہاں رات ہوگی
اور اگر زندگی نے وفا نہ کی اور قبل از وصال وفات پاگئے ، تو ان شاء اللہ حشر میں سایۂ عرش کے نیچے ضرور ملاقات ہوگی، جس وقت اگرچہ نفسی نفسی کا عالم ہوگا، لیکن ہماری یہ سچی دوستی ضرور کام آئے گی، الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین
علیکم سلام اللہ انی راحل
وعینای من خوف التفرق تدمع
و ان نحن عشنا فھو یجمع بیننا
و ان نحن متنا فالقیامۃ تجمع
محترم سامعین! جدائی کے جذبات غم کو میں ضبط نہ کرسکااور جنون فراق میں نہ جانے کیا کیا بک دیا۔ ہم اس سمع خراشی کی معافی چاہتے ہوئے آخرمیں درخواست کرتے ہیں عارف باللہ جناب حضرت مولانا۔۔۔سے کہ اپنے مفید کلمات سے نوازیں اور دعا فرما کر مجلس کا اختتام فرمائیں۔
محترم حضرات ! اآ پ حضرات نے ہمارا آخر تک ساتھ دیا اور پروگرام کو کامیاب بنایا، اس پر آپ تمام حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔