روزہ کی مقبولیت کا پتہ لگانے والا فارمولہ مل گیا
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت نافع ابن عبد الحارث کو مکہ اور طائف کا حاکم بنایا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ امیر المومنین کی آمد کی خبر پاکر حضرت نافع استقبال کے شوق میں مکہ سے ایک سو ایک کلو میٹر کی دوری پر واقع وادی عسفان چلے آئے۔ عند الملاقات حضرت عمر نے پوچھا کہ اپنے غائبانہ میں کس کو حاکم کو بناکر آئے ہو؟ تو حضرت نافع ؓ نے جواب دیا کہ (عبد الرحمان) ابن ابزیٰ کو۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو حضرت نافع نے جواب دیا کہ یہ میرا غلام ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے تعجب سے پوچھا کہ تم نے سادات قریش اور ثقیف مولی پر ایک غلام کو حاکم بنادیا!؟۔ تو حضرت نافعؓ نے جواب دیا کہ دراصل وہ قاری بھی ہیں اور فرائض کے عالم بھی۔ یہ جواب سن کر حضرت عمر ؓ نے کہا کہ تمھارے نبی ﷺ نے سچ فرمایا کہ
إِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا، وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ۔ (مسلم، کِتَابُ صَلَاۃِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِہَا، بَابُ فَضْلِ مَنْ یَقُومُ بِالْقُرْآنِ، وَیُعَلِّمُہُ، وَفَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ حِکْمَۃً مِنْ فِقْہٍ، أَوْ غَیْرِہِ فَعَمِلَ بِہَا وَعَلَّمَہَا)
قرآ ن کریم لوگوں کو قدرو منزلت بھی عطا کرتا ہے اور قعرمذلت میں بھی گرا دیتا ہے۔
حضرت عبد الرحمان ابن ابزیٰ ؓ کوفہ کے رہنے والے تھے۔ بعد میں حضرت علیؓ نے خراسان کا حاکم بنادیا تھا، جوصرف اور صرف قرآن کریم کی بدولت تھا۔
قرآن کریم رمضان کے مہینے میں نازل ہوا ہے۔(۱) اورشک و شبہ سے بالاتر اس کتاب سے تقویٰ صفت حضرات ہدایت پاتے ہیں۔ (۲)اور قرآن کریم ہی کی شہادت کے مطابق روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ ہے۔ (۳) تو نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے روزہ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم اس ماہ قرآن میں قرآن سے کتنا جڑے ہوئے ہیں۔ماہ رمضان میں قرآن کریم سے جڑنے کے تین ذرائع ہیں:
(۱) تلاوت کرنا۔ (۲) اس کے اوامر ونواہی پر عمل کرنا۔ (۳) تراویح میں سننا سنانا۔
اگرہم پورے آداب کے ساتھ روزہ رکھتے ہوئے قرآن کی تلاوت بھی کرتے ہیں، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی کرتے ہیں اور تراویح میں بھی سننے سنانے کا اہتمام کرتے ہیں، تو ہمارا یہ طرز عمل اس بات کا اشارہ ہے کہ ہم ماہ رمضان کے مقدس فریضہ: روزہ کے مقصد میں کامیاب ہوکر تقویٰ شعار بنتے جارہے ہیں اور ہمارا روزہ عند اللہ مقبول ہورہا ہے۔ اور جس درجہ ان تینوں چیزوں میں کوتاہی ہوگی، اسی درجہ ہمارا روزہ مقبولیت سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ مثال کے طور پر آپ قرآن کی تلاوت، عمل اور تراویح میں سے صرف تلاوت اور عمل کرتے ہیں، تراویح نہیں پڑھتے، تو تین درجوں میں سے ایک درجہ آپ کے روزہ کی مقبولیت گھٹ جائے گی۔ اسی طرح تلاوت یا تراویح تو پڑھتے ہیں، لیکن عمل نہیں کرتے، یا عمل بھی کرتے ہیں اور تراویح بھی پڑھتے ہیں، لیکن تلاوت نہیں کرتے، یا پھر تینوں کاموں سے صرف ایک ہی کام کرتے ہیں، دو کام نہیں کرتے؛ تو ان تمام صورتوں میں اسی درجہ روزہ کی مقبولیت میں کمی آجائے گی۔خلاصہ کلام یہ نکلا کہ اس ماہ قرآن یعنی رمضان میں آپ کوقرآن سے جتنا شغف اور تعلق ہوگا، آپ کا روزہ اتنا ہی عند اللہ مقبول اور مقصد تقویٰ میں کامیاب ہوگا۔ اور اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ قرآن کریم اپنے قدر دانوں کو بالیقین قدرو منزلت سے نوازتا ہے، تو ایسا ہونا شاید ناممکن ہے کہ آپ روزہ کی وجہ سے متقی توبن جائیں، لیکن قرآن سے نہ جڑسکیں، کیوں کہ قرآن تو متقیوں ہی کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح جو لوگ روزہ رکھ کر بھی قرآن کی تلاوت و عمل اور تراویح پر توجہ نہیں دیتے، تو یہ اس بات کا اشاریہ ہے کہ قرآن کریم کو چھوڑنے کی وجہ سے قرآن نے اس سے یہ توفیق چھین لی ہے۔ اور قرآن سے محرومی کا مطلب تقویٰ سے محرومی ہے اور جب تقویٰ ہی حاصل نہیں ہوسکا، تو بالیقین اس کا روزہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا، یعنی مقبولیت حاصل نہیں کرسکا۔
اس مثال کے علاوہ بھی اس فرمان نبوی ﷺکے بیشمار عملی مظاہر ہیں۔ تمام مہینوں میں رمضان کے تقدس کا رازیہی قرآن ہی ہے۔ تمام راتوں میں شب قدر کو جو تاج افضلیت حاصل ہوا ہے، اس کی وجہ بھی یہی قرآن کریم ہی ہے، کیوں کہ اسی رات کو سمائے دنیا پر قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ عام مجمع میں حافظ و عالم ہی امامت و خطابت کے ستارے قرار پاتے ہیں، کیوں کہ یہ دونوں قرآن کے عملی عاشقین میں سے ہیں۔
اولین عہد اسلام کے مسلمان سب سے زیادہ قرآن کریم سے وابستہ تھے، اس لیے یہ لوگ جہاں جہاں بھی گئے، خوش بختیوں اور نیک کامرانیوں نے ان کے قدم چومے؛ لیکن جوں جوں امت قرآن سے دور ہوتی چلی گئی، توں توں ذلت و رسوائی کے دلدل میں پھنستی چلی گئی؛ تاآں کہ موجودہ حالات کی عکاسی کے لیے علامہ اقبال کو کہنا پڑا کہ ؎
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
کیوں کہ صادق و مصدوق سرور کائنات ﷺکا فرمان کبھی بھی خلاف واقعہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ”یہ قرآن قوموں کو عروج بھی عطا کرتا ہے اور زوال کا مزہ بھی چکھا دیتا ہے۔“
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا روزہ مقبول ہو، ہم متقی بن جائیں، تو اس کے لیے علامہ اقبال ہی کی تعبیر میں کہنے دیجیے کہ ؎
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
یعنی اگر تم مسلمان کی زندگی گزارنا چاہتے ہو تو قرآن کریم کو زندگی کا حصہ بنائے بغیر ایسا ممکن نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کی تلاوت اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔
مآخذو مصادر
(۱) شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ۔ (البقرۃ، ۵۸۱)
(۲) ذَٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ? فِیہِ? ہُدًی لِّلْمُتَّقِینَ (البقرۃ، ۲)
(۳)یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (البقرۃ، ۳۸۱)