7 Oct 2017

ہائے توبہ!۔۔۔ توبہ ابھی تک قبول نہیں ہوئی؟

ہائے توبہ!۔۔۔ توبہ ابھی تک قبول نہیں ہوئی؟
محمد یاسین قاسمی، جہازی
۱۰؍ محرم۶۱ ھ مطابق ۱۰؍ اکتوبر ۶۸۰ ء کو ایک طرف سے عمرو بن سعداپنی فوج لے کر نکلا ،ادھر دوسری طرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے حامیوں کی صفیں قائم کیں۔ ادھر سے چھ ہزار فوج تھی جب کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کل ۷۲؍ آدمی تھے۔جب صفیں تیار ہوگئیں تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فوجوں کے سامنے نہایت پرجوش تقریر کی ، جس میں انھوں نے کہا کہ میرا حسب و نسب یاد کرو، میں کون ہوں؟ کیا میں تمھارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں؟ کیا سید الشھدا حضرت حمزہ میرے چچا نہیں تھے؟ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان میرے بارے میں نہیں سنا کہ الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ؟، سنو ، ذرا غور کرو ! تم اپنے دل سے پوچھو کہ تمھیں میرا قتل کرنا جائز ہے ؟ اس وقت پورے روئے زمین پر میرے علاوہ نبی کا نواسہ کوئی نہیں ہے ، کیا تم نواسہ نبی کے خون کے پاسے ہو؟ کیا تم اس پیشانی کو زخمی کروگے جس کو بارہارسول خدا چوما کرتے تھے، کیا ان آنکھوں کو بینائی سے محروم کروگے ، جنھوں نے رسول اللہ کا دیدار کیا ہے، یہ میرے سر پر پگڑی دیکھوسرور کائنات ﷺ کی ہے ، کیا تم اسے خاک و خون میں غلطاں کروگے، میرے ہاتھ میں یہ تلوار حیدر کرار کی ہے، کیا تم اس سے مقابلہ کروگے۔ 
بہر کیف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کسی بات کا ان پر اثر نہیں ہوا اور عمرو ابن سعد نے پہلا تیر چلاتے ہوئے جنگ کاآغاز کردیا۔ایک ایک کرکے فدائے حسینی شہید ہوگئے ، یہاں تک کہ خاندان نبوت کے ایک ایک چراغ جام شہادت نوش کرتے چلے گئے ، سب سے پہلے علی اکبر شہید ہوئے ۔پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت قاسم نے جام شہادت پیا۔ عین لڑائی کے دوران حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کان میں اذان دینے کے لیے بچہ کو گود میں لیا ہی تھا کہ ایک تیر آیا اور اس نومولود بچے کو زخمی کر شہید کرگیا۔ آپ نے وہ تیر حلق سے کھینچا تو خون کا فورا پھوٹ پڑا،آپ نے خون کو چلومیں لیااوراسے آسمان کی طرف اچھال دیا ۔ پھر رب سے ایک التجا کی کہ ائے اللہ! اگر تو نے ہم سے اپنی نصرت روک لی ہے، تو وہی کر جس میں بہتری ہے۔
اب قافلہ حسینی میں صرف آپ رضی اللہ عنہ کی ذات باقی تھی ۔ آپ میدان میں آئے ۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو شدت کی پیاس محسوس ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ پانی پینے کے لیے فرات کی طرف بڑھے ، لیکن دشمن نے ایک تیر مارا جو حلق میں لگا اور خون کے فوارے نکلنے شروع ہوگئے۔زرعہ بن شریک تمیمی نے بائیں ہاتھ اور شانے پر تلوار ماری جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ گھوڑے سے گر گئے ۔ گرنے کے باجود آپ کے رعب و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ کوئی شخص قریب جانے کی ہمت نہیں جٹا پارہا تھا ۔ یہ منظر دیکھ کر شمر چلایا اور کہا کہ دیکھتے کیا ہو، آگے بڑھو اور کام تمام کردو، اس کی کرخت آواز پر سنان بن انس نخعی آگے بڑھا اور آپ کے سر کو تن سے جدا کردیا ۔اتنا ہی نہیں، ان ظالموں نے گھوڑے دوڑا کر نعش مبارک کو روند ڈالا ۔
تاریخی شہادت کے مطابق قافلہ حسینی کے ۷۲ افراد کو انتہائی بے دردی اور بے چارگی کے عالم میں اہل کوفہ نے قتل کردیا۔ بقیہ جاں نثاروں میں صرف پانچ مرد اور سات عورتیں کل بارہ افرادزندہ بچ گئے ، جن میں اکثر بچے تھے۔ مردوں میں (۱) حضرت زین العابدین جناب حضرت حسین رضی اللہ عنہ۔(بیٹا)۔(۲)حضرت محمد باقر رحمہ اللہ ابن جناب حضرت زین العابدین۔( پوتا)۔(۳)حسن مثنیٰ ابن حضرت حسن رضی اللہ عنہ (بھتیجا)۔ (۴) مرقع ابن ثمامہ اسدی۔(یکے از جاں نثار حسینی)۔(۵) اور عقبہ ابن سمعان۔(غلام زوجہ حضرت حسین محترمہ رباب) ۔ اور خواتین میں امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں:(۱)حضرت زینب بنت فاطمہ و علی رضی اللہ عنہ۔(۲)فاطمہ بنت علی رضی اللہ عنہ۔ (۳)زینب صغریٰ ، کنیت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ، زوجہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔ اور(۴) ام حسن بنت علی رضی اللہ عنہ۔ اورحضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بیٹیاں:(۵)فاطمہ بنت حسین۔ (۶)سکینہ بنت حسین(۷)اورفاطمہ صغری بنت حسین زندہ چھوڑ دیے گئے تھے۔ خاندان نبوی کے چشم و چراغ پر مشتمل اس بارہ نفری قافلہ کو پہلے لوٹا گیا۔ پھر کوفہ لے جایاگیا۔ وہاں پھرسے دمشق۔ اور دمشق کے بعد ،مدینہ منورہ پہنچایا گیا۔
یہ حرکت کسی اور نے نہیں؛ بلکہ اسلام کے نام لیواوں نے نبی کے خاندان والوں کے ساتھ بے حرمتی کی تھی، لہذا اس کا رد عمل اور قہر الٰہی کا نزول ہونا ہی تھا۔ چنانچہ انتقام حسین کے جذبے سے کوفہ میں ہی ایک تحریک اٹھی، جس کا نام توابین تھا۔ اور اس کی سربراہی سلیمان بن صرد کر رہا تھا۔ یہ تحریک اس نظریے کی پیداوار تھی کہ ہم شیعوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی، لیکن جب وہ تشریف لے آئے تو ہم نے ساتھ چھوڑ دیا،لہذا یہ ایسا گناہ ہے کہ اس کا کفارہ ادا کیے بغیر ہم بخشے نہیں جائیں گے۔ چنانچہ وہ یا لثارات الحسین کا نعرہ لگا کر میدان میں آئے اور اس وقت سے لے کر آج تک گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے میدان ماتم میں حیران و ششدر ہیں۔
آپ دیکھیں گے کہ جب محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتا ہے ، تو یہ اپنے آپ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بد عہدی کے گناہ کا اقراری مجرم قرار دے کر اس کی تلافی کے لیے خود کوسزا دیتے ہیں۔
ایک دوسری تاریخ کے مطابق توابین دراصل وہی قاتلان حسین ہیں، جنھوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ بلایا۔ کیوں کہ میدان جنگ کربلامیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان کو ان کے خطوط دکھائے تھے اور کہا تھاکہ میں خود نہیں، بلکہ تمھارے ان خطوط کی دعوت کی وجہ سے آیا ہوں۔ پھر فطرت سے مجبور ہوکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو پہلے بے دردی سے قتل کیا۔ پھر قتل اور فتح کی خوشی میں جشن منایا۔ جشن مناتے ہوئے انھوں نے غرور کے پھیریرے اڑائے۔ تلوار کو لہرایا۔ نیزے کی چمتکاری کی نمائش کی۔ خوشی میں ڈھول بجا بجاکر جھومے۔ اور سر حسین کو بھالے کی نوک پر اچھال اچھال کر اپنی غداری اور شیعیت کا ثبوت دیا۔
بہرحال معاملہ جو بھی ہو۔ شریعت اور اسلام کا مزاج یہ ہے کہ ڈھول، تاشے، اور غرور کی نمائش ناجائز ہے۔ اسی طرح شریعت کی مقدس تعلیم یہ بھی ہے کہ جو شخص گناہ کرتا ہے، صرف وہی شخص، اس گناہ کی سزا کا موجب ہوتا ہے، وہ گناہ نسل در نسل منتقل نہیں ہوتا۔ ایک شخص کے گناہ کی وجہ سے پورا نسب اور خاندان تباہ نہیں ہوتا۔ اس لیے محرم الحرام کے مہینے میں ماتم و توبہ کرنے والوں سے سوال یہ ہے کہ آپ کے آبا و اجداد نے ایسا کونسا اور کس خطرناک قسم کا گناہ کیا تھا کہ صدیاں بیت گئیں، اور گناہ نہیں مٹا۔۔۔؟ اس واقعہ کے افسوس پر روتے روتے اشکوں کے سمندر بہہ گئے۔ خون کی ندیاں رواں ہوگئیں۔ بدن لہو لہو ہوگیا اور اس کے باوجود گناہ ہے کہ دھلتا ہی نہیں۔۔۔؟

2 Oct 2017

ہندستان میں نظام مکاتب کا تصور جمعیۃ علمائے ہند کی دین ہے

محمد یاسین جہازی
ہندستان میں سیکولر نظام حکومت کی بنیاد پر سرکاری تعلیمی اداروں کو مذہبی جانب داری سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، یہ اقدام جہاں خوش آئند ہے ، وہیں ایک چیلنج بھی ہے۔ خوش آئند تو اس لیے ہے کہ حکومت کسی بھی فرقے کے مذہبی معاملے میں دخیل نہیں ہوگی ۔ اورچیلنج کی وجہ یہ ہے کہ ہر مذہب کے تحفظ کی ذمہ داری خود اسی فرقے پر ہوگی ، حکومت پر نہیں۔ اس پس منظر میں حکومت نے سیکولرزم کی بنیاد پراپنا ایک مشترکہ تعلیمی نظام رائج کیا اور اکابرین ملت مسلمہ نے اس سے الگ ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ حکومتی اداروں کو اسکول ، کالج اور یونی ورسٹی کے ناموں سے جانا جاتا ہے اور ملت مسلمہ کی تعلیمی تحریکوں کو مکاتب، مدارس اور جامعات کہاجاتا ہے۔ ان دونوں سلسلوں کے سامنے اپنے اپنے مقاصد تھے : حکومتی اداروں کا مقصد جدید علوم وفنون کی تعلیم دے کر ملک کی تعمیر وترقی میں کردار نبھانے والے افرادتیار کرنااور حصول معاش کا ذریعہ بناناتھا، جب کہ اسلامی تحریکات کے سامنے صرف اور صرف مذہبی تعلیم و ثقافت کی حفاظت پیش نظر تھی۔یہی وجہ تھی کہ دونوں کے الگ الگ مقاصد کے پیش نظر نصاب بھی الگ ہوگیا اور زبان بھی دونوں کی مختلف ہوگئی۔ اول الذکر کے سلیبس میں اس کے مقاصد کے پیش نظر سائنس، جغرافیہ، ریاضی، سیاست انفارمیشن ٹکنالوجی وغیرہ شامل ہوئے۔ گلوبل زبان: انگریزی اس کا میڈیم قرار پایا۔ اور آخر الذکر اداروں کا نصاب اسلامیات پر مشتمل تھا ، اسی بنا پر ان کا مآخذی زبان عربی اور تشریحی زبان فارسی واردوذریعۂ تعلیم ٹھہری۔
ہر اداروں نے اپنے فکری نہج سے طالب علموں کو متاثر کیا ۔ حکومتی اداروں کے تعلیم یافتہ حضرات کے لیے حصول معاش اور دنیا طلبی، تعلیم کا مقصد ٹھہری، اس لیے وہ اخروی زندگی سے لا تعلق ہوتے چلے گئے۔ اسلامی تحریکوں سے وابستہ افراد کے سامنے فکر عقبیٰ پیش نظر تھی، اس لیے معاشی جدوجہد میں ان کا دائرہ تنگ ہوتا گیا،جن کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ اول الذکر دین سے نابلد ہوتے جارہے ہیں اور آخر الذکر حصول دنیاکے لیے پریشان۔ نیز دونوں اداروں کی تعلیمی زبان الگ ہونے کی بنیاد پر دونوں طبقوں کے مابین ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی کہ وہ ان کو سمجھنے سے قاصر اور یہ ان کو سمجھانے سے عاجز ۔ پھر دونوں کے درمیان فکری، معاشرتی اور تہذیبی اعتبارسے ایسی دوری ہوتی جارہی ہے کہ ایک جگہ اور ایک سماج میں رہنے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی لگنے لگے ہیں۔
اس طرح دو الگ الگ نہج کی وجہ سے تعلیم بھی دو حصوں میں بٹ کر رہ گئی : ایک دنیاوی تعلیم اور دوسری دینی تعلیم۔پھر تعلیم کا سسٹم کچھ ایسا بنا کہ اگر دینی تعلیم کے سلسلے میں جڑتے ہیں تو دنیاوی تعلیم کے لیے عمر نکال پانا ناممکن ہوجاتا ہے اور اگر دنیاوی تعلیمی سلسلے کو اختیار کرتے ہیں تو پھر دینی تعلیم کے حصول کے لیے وقت نہیں بچتا۔ سرٹیفکٹ کے ردو قبول کے معیار نے اس پریشانی کو اور بھی بڑھادیاہے۔ مدارس کی سندیں حکومتی اداروں میں ناقابل قبول ہونے کی وجہ سے عصری تعلیم کے کسی بڑے کورس میں داخلہ نہیں مل پاتا ۔ اب یا تو اس کے لیے پرائمری سے ہی تعلیمی سلسلہ شروع کرنا پڑے گا اور اس کے لیے نہ عمر اجازت دیتی ہے اور نہ ہی وقت، یا پھر اس سے محرومی ؛ نتیجۃََ دونوں تعلیم حاصل کرنا جوئے شیر لانے کا مرادف ہوگیا ہے۔اور دونوں تعلیم کا سنگم نہ ہونے کی وجہ سے فکری ٹکراو، تہذیبی تصادم، سماجی کشمکش، معاشی پریشانی اوردین سے بے زاری عام ہوتی جارہی ہے۔ دنیا طلبی کی ہوس اور مادیات کے حصول میں زبردست مقابلہ آرائی نے ایک دوسرے کو نفرت کی حد تک جدا کردیا ہے۔ایک حصول دنیا کے لیے حلال و حرام کی تمیز کرنے کے لیے تیار نہیں، تو دوسرا دینی باتوں کو سننااور سمجھنا گوارا نہیں کرتا۔اور یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں۔ اور اس کی وجہ تعلیم کا دو الگ الگ خانوں میں بٹنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ 
المختصر تعلیم کی عمر میں دینی و عصری دونوں تعلیم کے لیے کوئی ایسامنظم و مستحکم سسٹم بناناوقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، جس سے ہمارے بچے جہاں تعلیم کی اعلیٰ ڈگریاں پاکر تعمیر وترقی کی دوڑمیں شامل ہوکر دوسروں کے ہمدوش رہیں، وہیں اسلامی وضع قطع کا وہ کامل نمونہ بھی نظر آئے۔چنانچہ اکابرین جمعیۃ نے ان تمام حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے آزادی کے بعد ہی سے اس طرح کے سسٹم بنانے کی جدو جہد کی۔ ۲۲، ۲۳ ؍ ستمبر ۱۹۴۸ء کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں درج ذیل چار نکاتی پروگرام بنائے: (۱)مسلمان اپنے طور پر مدارس قائم کریں، جن میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ان مضامین کی تعلیم بھی دی جائے ، جو سرکاری اداروں کے نصاب میں ضروری ہیں اور حکومت ان مدارس کی تعلیم کو مستند قرار دے اور امداد کرے۔ (۲)حکومت ابتدائی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم لازمی قراردے۔ (۳) پرائمری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو خارجی اوقات میں مذہبی تعلیم دینے کے لیے پرائیوٹ مکاتب قائم کیے جائیں۔ (۴)حکومت لڑکوں کے لیے لازمی تعلیم کی ابتدائی عمر آٹھ سال قراردے تاکہ اس عمر کے بچوں کو مذہبی تعلیم دی جاسکے۔اور ۱۹۵۵ء میں ۸،۹؍ جنوری کوممبئی کے قیصر ہال میں منعقد ’’کل ہند دینی تعلیمی کنونشن ‘‘ کے ذریعے ’’مرکزی دینی تعلیمی بورڈ‘‘ کی تشکیل کرکے پورے ہندستان میں اس نظام کو پھیلانے کے لیے ایک تحریک چھیڑ دی۔ جس کا سلسلہ تا ہنوز جاری و ساری ہے۔

1 Oct 2017

اب کیا کریں۔۔۔ ایک سیڑھی ۔۔۔۔۔۔اوپر جائیں؟ ۔۔۔ یا نیچے اتریں۔۔۔۔۔۔؟

اب کیا کریں۔۔۔ ایک سیڑھی ۔۔۔۔۔۔اوپر جائیں؟ ۔۔۔ یا نیچے اتریں۔۔۔۔۔۔؟

محمد یاسین قاسمی جہازی

۱۔ عشرۂ محرم الحرام میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقدس نام پر ہم نے شراب پی۔ ۔۔۔۔۔۔(ایک واقعہ)

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور 146146 شرابی145145 کہیں؟۔۔۔یا پھر نیچے اتریں اور 146146جاں نثار حسینی145145 کا خطاب دیں۔۔۔؟۔

۲۔ ماتم حسینی کے نام پر مسجد میں خوب ڈی جے بجائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ایک حقیقت)۔

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور146146کنجری و بجنتری145145 کہیں؟۔۔۔ یا پھر نیچے اتریں اور محافظ اسلام کا تمغہ دیں۔۔۔؟۔

۳۔ قتل حسین کی خوشی میں ڈھول کی تھاپ پر جی بھر کر ناچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ایک سچی کہانی)۔

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور 146146ذاکر اہل بیت145145 کہیں؟۔۔۔ یا پھر نیچے اتریں اور 146146جانشین حسین 145145 پکاریں۔۔۔؟۔

۴۔ امام کو پیدا کرنے کے لیے ماؤں بہنوں تک سے 146146متعہ145145 کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ایک عقیدہ)۔

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور 146146حرامی 145145 کہیں؟ ۔۔۔ یا پھر نیچے اتریں اور 146146امام منتظر145145 کے منتظر رہیں۔۔۔؟۔

۵۔ حضرت حسین کی شبیہ بناکر سینکڑوں مرتبہ دفن کیا؛ لیکن اپنے باپ کی قبر پر فاتحہ کی توفیق کبھی نہیں ہوئی۔ ۔۔۔(محبت کا ایک کردار)۔

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور 146146ڈھونگی ملنگ145145 کہیں؟ ۔۔۔ یا پھر نیچے اتریں اور 146146پیکر حسین145145 کا نام دیں۔۔۔؟۔

۶۔ غیر مسلموں نے بھی ایک دن پہلے 146146درگا ماں145145 کو آب برد کیا اور ان لوگوں نے 146146تعزیہ145145 کو سپرد خاک کیا۔ ۔۔۔(ایک مذہبی فریضہ)

اب کریں کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور146146من تشبہہ بقوم فھو منھم145145 کہیں؟۔۔۔ یا پھر نیچے اتریں اور 146146سیکولر مزاج145145 بتائیں؟

۷۔ مظلومیت کا پیکر احساس بننے کے لیے خود کو 146146بلیڈ، چاقو145145 سے زخمی زخمی اور لہو لہو کرلیا۔۔۔۔(منظر کی ہوبہو عکاسی)۔

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور احساس کے بجائے عین بننے کے لیے 146146رائفل، بندوق 145145 کی سفارش کریں؟ یا پھر نیچے اتریں اور146146دعوت فکر145145 دیں؟۔

۸۔ کسی شخصیت کے لیے حقیقی تعزیت یہ ہے کہ ان کی تعلیمات کو اپنے مشن اور زندگی کا حصہ بنالیں۔ ۔۔۔(اقوال زریں)۔

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور حقیقت کا علان کرتے ہوئے 146146قاتل نواسہ رسول145145 کہیں؟ یا پھر نیچے اتریں اوران کے ایمان و فکر کے سلب ہوجانے پر خود 146146سراپا ماتم 145145 بن جائیں۔۔۔؟۔

۹۔ ماتم کے لیے شراب، گانجہ، چرس، ڈھول، تاشہ، کیسیو، بنجو باجا، ناچ،زنا،بے پردگی، شعار اسلام کی بے حرمتی وغیرہ وغیرہ سب کیے۔ ۔۔۔ (آج کے سماج کا انوکھا کردار)

اب کیا کریں ؟ ایک سیڑھی اوپر جائیں اور اس ماتم پر146146ماتم 145145 کریں ؟ یا پھر نیچے اتریں اور ایسے اوباشوں کو 146146حقیقی خلف یزید145145 کہیں؟۔

۱۰۔ یہ سارے حالات۔۔۔ اور ۔۔۔ ہم۔۔۔آپ۔۔۔ ہم سب۔ ۔۔۔کیا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

اب کیا کریں۔۔۔؟ کوئی سیڑھی چڑھیں۔۔۔؟ یا نہ چڑھیں۔۔۔؟۔ اگر چڑھیں۔۔۔، تو ایک سیڑھی۔۔۔ اوپر جائیں۔۔۔؟ یا پھر نیچے اتریں۔۔۔؟۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نتیجہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کنفیوژن۔

اور یہ قوم اب تک کنفیوژ ہے کہ ہم جشن منا رہے ہیں ، یا ماتم کے اسیر ہیں۔۔۔۔۔۔؟ 

بس یہی دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ انھیں عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین۔

30 Sept 2017

کیلا کٹی۔ میاں مٹی۔۔۔؟

کیلا کٹی۔ میاں مٹی۔۔۔؟
تلاش حقیقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی
سر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مدفن کے بارے شیعہ اور سنی کتب میں بہت اختلاف ہے:
(۱) شیعہ کے سب سے مشہور قول کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ کا سر مبارک کچھ مد ت کے بعد آپ کے بدن مبارک کے ساتھ ملحق ہو گیا اور کربلا میں لا کر دفن کیا گیا ہے۔(اقبا ل الا عما ل، ص ۸۸۵)
(۲) بعض قائل ہیں کہ سر مبا رک کو تین دن دروازہ دمشق پر آویزاں رکھنے کے بعد اتار کر حکومتی خزانے میں رکھ دیا گیا اور سلیمان عبدالملک کے دور تک یہ سر وہیں تھا اس نے سر مبارک کو وہاں سے نکالا اور کفن دے کر دمشق میں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دیا، اس کے بعد اس کے جانشین عمر بن عبدالعزیز (۹۹ تا ۱۰۱ہجری حکومت) نے سر کو قبر سے نکالا، لیکن پھر انھوں نے کیا کیا یہ معلو م نہیں ہوسکا۔(بحار الا نوار،ج ۵۴، ص ۸۷۱)
(۳) علامہ مجلسیؒ کی عبارت اور روایات میں تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ سر مقدس سید الشہداء، نجف اشرف میں حضر ت علی رضی اللہ عنہ کی قبر کے پاس دفن کیا گیا۔( تذکرہ الخواص، ص۹۵۲،منقول از مع الرکب الحسینی، ص۹۲۳) ۔
(۴) سبط ابن جوزی نے یہ نظریہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ عمرو بن حریث مخزومی نے سر کو ابن زیاد سے لیا اورپھر اسے غسل و کفن دیا اور خوشبو لگانے کے بعد اپنے گھر میں دفن کردیا۔یہ شخص کوفہ کا باشندہ تھا۔
(۵) ابن سعد (طبقا ت کے مصنف) نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ یزید نے سر حاکم مدینہ عمرو بن سعید کو بھیجا اور اس نے اسے کفن پہناکر جنت البقیع میں حضرت کی والدہ ماجدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کی قبر کے پاس دفن کر دیا۔ بعض دوسرے اہل سنت علماء جیسے خوارزمی نے مقتل الحسینؑ میں اورابن عماد جنبلی نے شذرات الذھب میں بھی یہی نظریہ قبول کیا ہے۔ ( البدا یۃ والنہا یۃ،ج۸ ص ۵۰۲)
(۶) نہر فرات کے کنارے ایک شہر ہے، جس کا نا م رِقّہ ہے، اس دور میں آل عثمان میں سے آل ابی محیط کے نام سے مشہورایک قبیلہ وہاں آباد تھا، یزید نے سرمقد س ان کے پاس بھیجا اور انہوں نے اسے اپنے گھر کے اندر دفن کر دیا،بعد میں وہ گھر مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ (واقعۃ الطف، ص ۷۹۱،طبقات ابن سعد، ج۵،ص۹۹، تاریخ طبری، ج۵،ص۸۱۴،شیخ مفید، الارشاد،ص۲۴۴) 
(۷) فاطمی حکمران جن کی حکومت مصر پر چوتھی صدی ہجری کے دوسرے نصف سے شرو ع ہوئی اور سا تویں صدی ہجری کے دوسرے نصف تک باقی رہی، یہ اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے سر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شام کے باب الفرادیس سے عسقلان منتقل کیا اور پھر عسقلان سے قا ہرہ منتقل کیا اور وہاں دفن کر کے ۰۰۵ سا ل بعد اس پر تا ج الحسینؑ کے نام سے مقبرہ تعمیر کیا۔ (البدایۃ والنہا یۃ،ج۸ ص ۵۰۲) ۔
اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔ لیکن اختصار کے پیش نظر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ہمارے کچھ بھائی پانچویں محرم کی رات سے نویں محرم کی صبح تک ایک رسم ادا کرتے ہیں، جسے ’’کیلا کٹی ‘‘ کہاجاتا ہے۔ 
اس میں کرتے یہ ہیں کہ پانچویں تاریخ کو کسی دوسرے کے درخت سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقدس نام کو لے کر کیلا کاٹ کر لاتے ہیں اور درگاہ پر لاکر گاڑ دیتے ہیں، وہیں ایک جھنڈا بھی لگایا جاتا ہے، جسے ہماری زبان میں ’’لسان اٹھانا‘‘ کہتے ہیں۔ پھریہ لسان لے کر دروازہ دروازہ جاتے ہیں ساتھ میں تیر، تلوار اور لاٹھے ڈنڈے کی ایک جماعت بھی ہوتی ہے جو پوری رات کھیل تماشہ ،ناچتے گاتے ، شراب ،گانجہ اور چرس پیتے ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں؛ بلکہ جس کے دروازے پر یہ حرکتیں کرتے ہیں، اس سے موٹی چندہ بھی وصول کرتے ہیں۔جو لوگ شریف ہوتے ہیں اور وہ دینے سے کتراتے ہیں، تو یہ لوگ بد تمیزی پر اتر آتے ہیں۔ ان لوگوں کی یہ حرکت نویں کی شام تک جاری رہتی ہے۔
دسویں کی صبح سے ’’میاں مٹی‘‘ کی رسم شروع ہوتی ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جو لسان اٹھانے والا ہوتا ہے، وہ پورے دو دن کا سوگ مناتا ہے، جس میں اس کے گھر میں کھانا نہیں بنتا، پڑوسی سے مانگتے ہیں یا پڑوسی لاکر دیتے ہیں۔ دسویں تاریخ کی شام کو ایک جگہ جاتے ہیں، جسے یہ لوگ ’’کربلا‘‘ کہتے ہیں۔ وہاں لسان کو زمین میں دفن کرتے ہیں، جسے ’’لسان بھسان ‘‘ کہتے ہیں۔اور اس پورے عمل کو ’’میاں مٹی ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس عمل کے پیچھے یہ نظریہ کام کررہا ہوتا ہے کہ ہم نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مٹی دے دی۔
تاریخ اور حالات دونوں آپ نے ملاحظہ فرمالیا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ 
(۱) کیا کسی کی شہادت پر کھیل تماشہ کرنا، شراب گانجہ پی کر ڈھول تاشا بجانا اور ناچنا ۔۔۔ حضرت حسین کی تعلیم ہے یا اسلام کی تعلیم ہے۔۔۔؟
(۲) کھیل تماشہ اور ناچ کرکے مانگنا اور جبرا پیسہ وصول کرنا۔۔۔ کیا شہید کربلا کا فرمان ہے؟
(۳)نعش مبارک حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو تو پامال کردیا گیا تھا، لیکن سر مبارک کی تدفین عمل میں آئی تھی۔ درج بالا تاریخی شہادتوں کے پیش نظر یہ معلوم نہیں ہے کہ سر مبارک کہاں دفن ہے؟ تو پھر اس کی شبیہہ بناکر کربلا میں مٹی دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت حسین کی تعلیم ہے یا پھر اسلام کا کوئی حکم۔۔۔؟
(۴) ان کرتوتوں کو انجام دینے کے لیے بے پردہ خواتین سے ڈانس کرانا، برقع والیوں کو نچوانا، انھیں کربلا کے میدان میں لے جاکر شمع انجمن بنانا۔۔۔ یہ کس تعلیم کا نتیجہ ہوسکتا ہے؟
ان سب سوالوں کا جواب یہی ہے کہ کسی اہل ایمان اور اہل بیت رسول سے محبت کرنے والوں کا یہ کام نہیں ہوسکتا۔ یہ کام انھیں لوگوں کا ہوسکتا ہے، جنھوں نے نواسہ رسول کو بے دردی سے شہید کرکے اپنی عاقبت کو خراب کرلیا تھا۔ اور پھر اللہ تعالی نے ان سے ایمان کی دولت سلب کر لی تھی، کیوں کہ یہ صرف ایک رسم کی ادائیگی نہیں ہے ، بلکہ جگر گوشہ رسول کے قتل پر جشن منانے کا معاملہ ہے۔ اور پھر یہی جشن نسل در نسل ان کی روایت کا امین بنتا رہا ہے۔ 
افسوس صد افسوس
ہمیں افسوس ہے کہ ان رسموں میں وہ لوگ بھی بری طرح سے ملوث ہیں، جو لوگ اپنے آپ کو سنی اور اہل سنت والجماعت کا فرزند کہتے ہیں۔ اگر یہ معاملہ مخصوص فرقہ تک محدود رہتا تو اتنے افسوس کی بات نہیں تھی، لیکن جب خود کوسنی کہہ کر ایسی سنت پر عمل کرتا ہے، تو دل سے سوائے لعنت رسانی کے اور کچھ نہیں نکلتا۔ 
میرے سنی بھائیو!۔۔۔ ذرا سوچ تو لو، کہ تم کس کے قتل پر جشن منا رہے ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آقائے کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق جس سے محبت جزوی ایمان ہے، آج اسی کے قتل پر جشن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ 
ایں چہ بوالعجبی است؟؟؟؟۔

29 Sept 2017

ڈھول کس نے بجایا؟

ڈھول کس نے بجایا؟
سوال: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی 
تاریخی شہادت کے مطابق قافلہ حسینی کے ۷۲ افراد کو انتہائی بے دردی اور بے چارگی کے عالم میں شیعان یزید نے قتل کردیا۔ بقیہ جاں نثاروں میں صرف درج ذیل مرد و خواتین کے نام ملتے ہیں:
مرد
قمقام اور جلاء العیون کے بیان مطابق قافلہ حسینی کے جاں نثار میں صرف پانچ مرد زندہ چھوڑ دیے گئے تھے:
(۱) حضرت زین العابدین جناب حضرت حسین رضی اللہ عنہ۔ بیٹا۔
(۲)حضرت محمد باقر رحمہ اللہ ابن جناب حضرت زین العابدین۔ پوتا۔
(۳)حسن مثنیٰ ابن حضرت حسن رضی اللہ عنہ بھتیجا۔
(۴) موقع ابن ثمامہ اسدی۔ یکے از جاں نثار حسینی۔
(۵) عقبہ ابن سمعان۔ غلام زوجہ حضرت حسین محترمہ رباب
خواتین
اور خواتین میں ابن سعد ،قاضی نعمان مغربی اور ابو الفرج اصفہانی کے مطابق درج ذیل خواتین یزید کے لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئیں؛ جن کے نام درج ذیل ہیں:
امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں:
(۱) حضرت زینب بنت فاطمہ و علی رضی اللہ عنہ
(۲) فاطمہ بنت علی رضی اللہ عنہ
(۳) زینب صغریٰ ، کنیت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ، زوجہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔
(۴) ام حسن بنت علی رضی اللہ عنہ
حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بیٹیاں:
(۵) فاطمہ بنت حسین
(۶) سکینہ بنت حسین
(۷) فاطمہ صغری بنت حسین
تاریخی شہادت کے مطابق ان میں سے کوئی بھی شخص نہ ڈھول بجانا جانتا تھا اور نہ ہی بینجو ، کیسیواور طبلہ وغیرہ کوساتھ لے کر میدان جنگ میں گئے تھے۔ اب یہ طے ہوجاتا ہے کہ یہ سب تماشا کرنے والے قاتلان حسین اہل کوفہ کے شیعان علی کہلانے والے ہی لوگ تھے۔ انھوں نے ہی نواسہ رسول اکرم کے قتل پر خوشی منائی تھی، یہی لوگ قتل حسین پر اپنی عورتوں کو طبلہ کی تھاپ پر نچانے والے تھے۔ ۔۔۔ یقین نہیں آتا۔۔۔؟ تو آئے دن سوشل میڈیا میں آنے والے ویڈیوں اور خبروں میں ، ڈھول کی تھاپ پراور کیسیو کے ساز پر ، اپنی بہو بیٹیوں کو نچانے اور تتبڑیہ کی راگ پر تماشہ گیری کی نسل در نسل وراثت کو منتقل کرنے والے لوگوں کو دیکھ لینا۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو بھی یقین آجائے گا کہ یہ نواسہ رسول کے قتل کا جشن منانے والا ہی ڈھول بجانے والا ہے۔
اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین یا رب۔

مختصر واقعہ شہادت حضرت حسین رضی اللہ عنہ

مختصر واقعہ شہادت حضرت حسین رضی اللہ عنہ
محمد یاسین قاسمی دعوت اسلام جمعیۃ علما ہند
رابطہ: 9871552408
E-mail: yaseenjahazi@gmail.com 
حضرت علیؓ نے کوفہ کو اپنا دارالخلافہ قرار دیا تھا ۔ اس لیے وہاں ان کے حامی بہت زیادہ تھے۔حضرت علی کی شہادت کے بعد لوگوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلیا۔ آپ کے اعلان خلافت سے اہل شام نے کوفہ پر حملہ کا ارادہ کیا اور دونوں فوجوں کا مدائن میں سامنا ہوا، لیکن قبل از جنگ حضرت حسن نے خلافت سے دستبرداری پر صلح کرلی ۔اور حضرت امیر معاویہ کو بادشاہ تسلیم کرلیا گیا۔حضرت امیر معاویہؓ کے انتقال کے بعد کوفیوں نے یزید کو اپنا خلیفہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور حضرت حسین کو لکھا کہ آپ تشریف لائیے ۔ ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ ادھر یزید نے حاکم مدینہ ولید بن عتبہ کو لکھا کہ وہ یزید کے لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت لیں ، جب قاصد کے ذریعے یہ خبر ان تک پہنچائی ، تو انھوں نے کہا کہ مجھ جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کرسکتا ، جب بیعت عام ہوگی تو میں بھی آجاوں گا۔ اور یہ کہہ کر مدینہ سے مکہ چلے آئے اور کوفیوں کے خطوط کے پیش نظر پہلے اپنے چچا حضرت مسلم بن عقیل کو بیعت کے لیے بھیجا ۔ جب حضرت مسلم وہاں پہنچے تو حالات کو سازگار پایا اور اٹھارہ ہزار کوفیوں نے حضرت حسین کے نام پر آپ کے ہاتھ پر بیعت کیا، جس کی وجہ سے انھوں نے حضرت حسین کو لکھ دیا کہ آپ تشریف لائیں ، یہاں کے حالات سازگار ہیں۔ خط پاکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ سفر کی تیاری کرنے لگے حالاں کہ روانگی کی خبر سن کر حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ ،حضرت عبداللہ ابن جعفرؓ اور دیگر حضرات نے یہی مشورہ دیا کہ عراق والے دغاباز ہیں۔ آپ وہاں جانے کا ارادہ ترک کردیجیے؛ لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ پھر بھی نکل پڑے۔مکہ سے روانگی کے راستے میں مقام صفاح پر مشہور شاعر فرزدق سے ملاقات ہوئی تو ان سے وہاں کے حالات پوچھے جانے پر ان کاجواب تھا کہ ان کے دل آپ کے ساتھ ہیں؛ مگر تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔
نواسہ رسول کی آمد کی خبر سن کر اہل عراق بہت زیادہ پرجوش ہوگئے۔ یہ جوش دیکھ کر حاکم عراق عبیداللہ ابن زیاد کی سخت گیری شروع کردی ، جس سے اہل کوفہ ڈر گئے اور حضرت مسلم ابن عقیل کا ساتھ چھوڑرتے چلے گئے، یہاں تک کہ آپ جب کوفہ کی مسجد میں پہنچے ، تو اٹھارہ رہزار میں سے صرف تین آدمی آپ کے ساتھ رہ گئے تھے۔ پھر بالآخر آپ کو شہید کردیا گیا۔
زرود یا ثعلبیہ نامی مقام پر مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی، تو آپ نے واپسی کا ارادہ فرمالیا ، مگر ان کے رشتہ داروں کی ضد کی وجہ سے پھر عا زم سفر ہوگئے۔قادسیہ سے تھوڑا آگے بڑھے تو والی عراق عبید اللہ بن زیاد کے عامل حصین بن نمیرتیمی کی طرف سے حر بن یزید حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا راستہ روکنے کے لیے ایک ہزار فوج لے کر آگئے ، دونوں میں گفت و شنید ہونے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس راستہ کو اختیار کریں گے جو نہ کوفہ جاتا ہو اور نہ مدینہ۔اور حر اپنی فوج کے ساتھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ رہا اور کہیں جانے دینے سے راستہ روکے رکھا، بالآخر ۲؍ محرم الحرام ۶۱ ہجری مطابق ۲؍ اکتوبر ۶۸۰ ء کو عبیداللہ بن زیاد کی طرف ایک خط آیا جس میں یہ لکھا تھا کہ حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں کو کہیں جانے مت دو اور ایک ایسی جگہ اترنے پر مجبور کرو جو چٹیل میدان ہو ، پانی کا انتظام نہ ہو ، غرض وہاں کوئی بھی وسائل حیات میسر نہ ہو۔ چنانچہ حر نے اس خط پرعمل کرتے ہوئے مقام کربلا پر اترنے پر مجبور کردیا۔
۳ ؍ محرم کو عمرو ابن سعد ،ابن زیاد کے حکم سے چار ہزار اور بروایت دیگر چھ ہزار فوج لے کر یہاں پہنچ گیا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے آنے کا سبب معلوم کیا ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیتے ہوئے کوفہ والوں کی طرف سے بھیجے گئے دعوتی خطوط دکھائے اور کہا کہ میں کوفہ والوں کے بلانے پر آیا ہوں۔لیکن اگر میرا آنا گوارا نہیں ہے ، تو میں لوٹ جانے کے لیے تیار ہوں۔یہ بات عمرو بن سعد نے عبیداللہ بن زیاد کو بتائی ، تو اس نے لکھا کہ پنجہ میں پھنسنے کے بعد نجات پانا چاہتا ہے، اس لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر سختیاں بڑھا دو۔ معاملہ کے سلجھانے کے لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عمرو بن سعد کے ساتھ کئی خفیہ ملاقاتیں کیں ،جن میں آپ رضی اللہ عنہ نے تین صورتیں پیش کیں کہ 
(۱) جہاں سے میں آیا ہوں مجھے وہیں لوٹ جانے دو۔
(۲) مجھے خود یزید سے اپنا معاملہ طے کرنے دو۔
(۳) مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر نکل جانے دو۔
اس مضمون پر مشتمل ایک خط عمرو بن سعد نے عبیداللہ بن زیاد کو لکھا ۔ اس خط کی اس کے مشیر شمر ذی الجوشن نے مخالفت کی اور کہا کہ قبضہ میں آئے شخص کو جانے دیں گے تو وہ عزت و قوت حاصل کرلیں گے اور آپ کمزور ہوجائیں گے۔ چنانچہ عبیداللہ بن زیاد نے شمر کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے شمر کو ہی ایک خط دے کر کربلا بھیجا جس کا مضمون یہ تھا کہ اگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہمارے حوالے ہوجائیں، تو لڑائی نہ کی جائے ، ورنہ وہ جنگ کے لیے تیار رہیں۔
۱۰؍ محرم۶۱ ھ مطابق ۱۰؍ اکتوبر ۶۸۰ ء کو ایک طرف سے عمرو بن سعد فوج لے کر نکلا ،ادھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے حامیوں کی صفیں قائم کیں۔ ادھر سے پانچ ہزار فوج تھی جب کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کل ۷۲؍ آدمی تھے۔جب صفیں تیار ہوگئیں تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فوجوں کے سامنے نہایت پرجوش تقریر کی ، جس میں انھوں نے کہا کہ میرا حسب و نسب یاد کرو، میں کوں ہوں؟ کیا میں تمھارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں؟ کیا سید الشھدا حضرت حمزہ میرے چچا نہیں تھے؟ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان میرے بارے میں نہیں سنا کہ الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ؟، سنو ، ذرا غور کرو کہ کیا تم اس پیشانی کو زخمی کروگے جس کو بارہارسول خدا چوما کرتے تھے، کیا ان آنکھوں کو بینائی سے محروم کروگے ، جنھوں نے رسول اللہ کا دیدار کیا ہے، یہ میرے سر پر پگڑی دیکھوسرور کائنات کی ہے ، کیا تم اسے خاک و خون میں غلطاں کروگے، میرے ہاتھ میں یہ تلوار حیدر کرار کی ہے، کیا تم اس سے مقابلہ کروگے۔ 
بہر کیف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کسی بات کا ان پر اثر نہیں ہوا اور عمرو ابن سعد نے پہلا تیر چلاتے ہوئے جنگ کاآغاز کردیا۔ایک ایک کرکے فدائے حسینی شہید ہوگئے ، یہاں تک کہ خاندان نبوت کے ایک ایک چراغ جام شہادت نوش کرتے چلے گئے ، سب سے پہلے علی اکبر شہید ہوئے پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت قاسم نے جام شہادت پیا۔ عین لڑائی کے دوران حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کان میں اذان دینے کے لیے آگے بڑھے ہی تھے کہ ایک تیر آیا اور اس نومولود بچے کو زخمی کر شہید کرگیا۔ آپ نے وہ تیر حلق سے نکالا تو خون کا فورا پھوٹ پڑا، خون کو چلو لے کر آپ نے آسمان کی طرف اچھالتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ائے اللہ! اگر تو نے ہم سے اپنی نصرت روک لی ہے، تو وہی کر جس میں بہتری ہے۔ اب قافلہ حسینی میں صرف آپ رضی اللہ عنہ کی ذات باقی تھی ۔ آپ میدان میں آئے ۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو شدت کی پیاس محسوس ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ پانی پینے کے لیے فرات کی طرف بڑھے ، لیکن دشمن نے ایک تیر مارا جو حلق میں لگا اور خون کے فوارے نکلنے شروع ہوگئے۔زرعہ بن شریک تمیمی نے بائیں ہاتھ اور شانے پر تلوار ماری جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ گھوڑے سے گر گئے اور سنان بن انس نخعی یا شمر ذی الجوشن آگے بڑھا اور آپ کے سر کو تن سے جدا کردیا ۔پھر گھوڑے دوڑا کر نعش مبارک کو روند ڈالا گیا ۔ حضرت رضی اللہ عنہ کا سر کوفہ لے جاکر عبیداللہ ابن زیاد کو دیا گیا ، اس نے سر مبارک کے لب پر چھڑی ماری تو زید ابن ارقم صحابی رضی اللہ عنہ نے منع کیا ۔ پھر یہ سر یزید کے پاس بھیجا گیا جو اس وقت دمشق میں تھا ۔ انھوں نے یہ دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ قتل کے بغیر بھی یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا تھا ۔ اور پھر کہا کہ یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اجتہادی غلطی تھی جس کا نتیجہ شہادت کی شکل میں سامنے آیا۔ سر کے بعد قافلہ حسینی کے بقیہ افراد کو بھی دمشق بھیج دیا گیا ، جس میں حضرت زینب، حضرت فاطمہ ، حضرت سکینہ اور حضرت زین العابدین کے نام ملتے ہیں۔ یزید نے ان کے ساتھ بہت اچھا برتاو کیا اور انھیں عزت و احترام کے ساتھ مدینہ واپس بھیج دیا۔
ماتم حسین 
ایک مشہور مغربی شاعر گوئٹے نے کہا ہے کہ انسانی عظمت کی انتہا یہ ہے کہ وہ افسانہ بن جائے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ اس کی زندہ مثال ہے ۔ اس تعلق سے اگر صرف واقعی اور تاریخی چیزیں تلاش کریں گے، تو محض رطب و یابس اوریاوہ گوئی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ بہر کیف واقعہ شہید کربلا اسلامی تاریخ میں سب سے دردناک اور وکوہ کن حادثہ ہے، جس میں اپنے نبی کے نام لینے والے منافقین نے نواسہ رسول اکرم ﷺ کو انتہائی بے دردی اور بے چارگی کے عالم میں شہید کردیا تھا۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن اس واقعہ پر جشن ماتم منانے والوں کو دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ حقیقت میں کون ہیں؟ قسم کھاکر کہہ سکتا ہوں کہ یہ محبان حسینی ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ ہمیں یقین ہے کہ واقعہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ پر کوئی بھی حسینی ڈھول تاشے نہیں بجاسکتا اور نہ ہی اسے تماشا بنا سکتا ہے۔ یہ ڈھول یقینی طور پر قاتلان حسین نے بجائے تھے اور اس کی تال پر خوشی میں جھومے تھے، اور یہی قاتلان حسین اب تک اپنے باب دادا کی وراثت کو سنبھالے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔ اور اپنی مرضیات پر چلنا آسان کرے۔ آمین

27 Sept 2017

گھر کے نوادرات سے۔ محمد یاسین قاسمی جہازی


باسمہ تعالیٰ
تاریخ: ۱۹؍ ۷؍ ۱۹۸۸
شاعر دوراں ، مجسم دوجہاں جناب صادق صاحب زیدت حسناتکم
وعلیکم السلام ائے دل بری گر چشم دوری بدل حاضری
محب دل نواز، دوست دلدار، فریق غم خوار، تحفہ عقیدت ،تابندہ یادگار، شگفتہ نوبہار ؂
کون کہتا ہے کہ ہم تم میں جدائی ہوگی یہ ہوا کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
رفیق قلبی، شفیق جگری، حضرت گرامی کا مرسلۂ محبت نامہ زمین و آسماں کی خلاؤں کو معطر کرتے ہوا، چرند و پرند کو کیف و فرحت کا پیغام دیتا ہوا، جملہ حیوانات کو سلام کا پیغام پہنچاتا ہوا، آج بتاریخ ۱۷؍ جولائی کو بعد صلاۃ ظہر موصول ہوا، جس کو باسمہ تعالیٰ کھول کر مطالعہ کے میدان میں غرق ہوا۔جوں جوں میدان مطالعہ میں مصروف ہوتا گیا، نئی نئی باتیں و جدید اصطلاحات سے آشنا ہوتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا، بالآخر بعد مطالعہ قلب کو خوشی و مسرت حاصل ہوئی، جیسا کہ جب کشتی بھنور سے نکل کر ساحل کا قرب حاصل کرتی ہے، غرض اینکہ دل باغ باغ ہوگیا۔اور برسوں کے مرجھائے پھول کھل کر یہ ترانہ گانے و سنانے لگا ؂
آپ کو گل لکھوں یا آپ کو گلزار لکھوں یا لکھوں دل کہ دل و جان کا دلدار لکھوں
جام الفت جو ملا ہے تیرے ہاتھوں سے مجھے یا اسی جام کا دوبارہ طلب گار لکھوں
دل ہے سینے میں اور سینے میں تصویر تیری دیکھتا ہوں تجھے ہر روز کئی بار لکھوں
آپ کا نور ۔۔۔ میں ڈوبا ہوا سرفراز نامہ اک پرچۂ قرطاس کی شکل میں نظر نواز ہوا اور جب جواب کے واسطے قلم کو اپنے دست سے گرفت کیا تو خیالات کے دریچوں کو پھاڑتے ہوئے یہ صدا گونجی ؂
خط لکھاجاتا ہے اس کو جو کسی منزل پہ ہو تمھیں خط کی کیا ضرورت تم تو میرے دل میں ہو
گلستاں میں جب گیا مبہوت ہوکر رہ گیا کون سے پھولوں کو توڑوں تم بسے ہر گل میں ہو
آپ کی تصویر بے نظیر نے دل کے ایک گوشہ سے اپنے زخم تاباں کی نقاب کشائی کی، تو قلم ہاتھوں سے چھوٹ کر سرزمین راجستھان میں منہ کے بل گرپڑا اور زبان پر بے ساختہ یہ کلمات نثر کی شکل و صورت اختیار کرکے جاری و ساری ہوگیا۔
تجھے قدرت نے اپنے دست رنگیں سے بنایا ہے بہشت رنگ و بو کا تو سراپا اک نظارہ ہے
شبستان جوانی کا تو اک زندہ ستارہ ہے تو اس دنیا میں بحر حسن فطرت کا کنارہ ہے
بہر کیف اپنے دل کو قابو میں کرکے پھر دوبارہ قلم اٹھایا، تو میری مجبوری دیکھ کر قدرت کو بھی رحم آگیا اور اس نے میرے اندر صبر کے گنجینے و خزینے سے ایک مٹھی صبر وشکر عطا کی اور میرا قلم اس ذات کی تسبیح میں یہ گنگنا اٹھا ؂
لاریب خدائی کا ہر کام نرالے ہیں ہر شام اندھیرے ہیں، ہر صبح اجالے ہیں
بلبل کو چہک بخشی اور گل کو مہک بخشی تسبیح میں قدرت کی یہ چاند ستارے ہیں
اور جب صانع عالم کی طرف سے قلم میں ادائی ہوئی اور زبان و لسان میں گویائی ہوئی تو یہ الفاظ و کلمات اشعار کی شکل و صورت میں آراستہ و پیراستہ ہوکر کے روبرو ہوگئے ؂
پیشکش: گھر کے نوادرات سے۔ محمد یاسین قاسمی جہازی۔ ۲۷؍ ستمبر ۲۰۱۷۔ 
گھر میں موجود نوادرات میں دو صفحے کا یہ ناقص مضمون ملا۔ چوں کہ اس کے ساتھ کچھ تفصیل نہیں مل سکی، اس لیے نہ مرسل کا پتہ لگ سکا اور نہ ہی مرسل الیہ کے بارے میں کچھ جان کاری مل سکی۔ بہر کیف یہ نادر تحریر پیش خدمت ہے۔

26 Sept 2017

پاکی

پاکی
# محمد یاسین جہازی
اسلام کے فطری دین ہونے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے زندگی میں قدم قدم پر پیش آنے والے تمام حالات و واقعات کے بارے میں انسانوں کی رہ نمائی فرمائی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت اس کے عملی نمونے کے طور پر ہمارے سامنے احادیث کی شکل میں موجود ہے۔ انھیں ہدایات حیات کی ایک کڑی ہے : پاکی اور صفائی۔ پاکی اور صفائی کی دوسرے مذاہب میں جو بھی اہمیت ہو، لیکن اسے پوجا اور عبادت کا مقام حاصل نہیں ہے، لیکن اسلام میں یہ عبادت ؛ بلکہ مدارِ اسلام: ایمان کا نصف حصہ یہی پاکی ہی ہے۔پاک صاف اور صاف ستھرا رہنے والوں کی قرآن نے تعریف و توصیف کی ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے کہ فِیْہِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ انْ یَّتَطَھَّرُوا واللّٰہُ یُحِبُّ المُتَطَھِّرِینَ۔ (التوبہ، آیت: ۱۰۸)اس (قبا بستی) میں ایسے لوگ ہیں ، جو (ڈھیلے کے ساتھ پانی سے بھی ) پاکی حاصل کرتے ہیں ۔ پاک صاف بندے اللہ کو پسند ہیں۔ بدن تو انسانی وجود کا جوہر ہے؛ بدن کے ساتھ جو عرض ہے ، یعنی کپڑے کی پاکی صفائی پر بھی توجہ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرْ، (سورہ المدثر، آیت: ۴، پارہ ۲۹)اور اپنے کپڑے کو پاک رکھو۔احادیث میں بھی پاکی و صفائی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ الطَّھُورُنِصْفُ الِایْمَانِ۔ پاکی آدھا ایمان ہے، (ترمذی، باب منہ ، کتاب الدعوات)ایک دوسری حدیث میں ہے کہ مِفتَاحُ الصَّلاۃِ الطَّھُورُ ،نماز کی چابی پاکی ہے۔(ابو داود، کتاب الطھارۃ، باب فرض الوضو) ۔المختصر قرآن واحادیث میں پاکی و صفائی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ، اسی وجہ سے یہ صرف زندگی کا مہذب عمل ہی نہیں؛ بلکہ اس کے ساتھ عبادت بھی ہے۔ اس لیے آئیے ہم غور کریں کہ پاکی کی کیا اہمیت اور حقیقت ہے اور اس کے ساتھ اس میں کیا کیا اسرارو حکم پوشیدہ ہیں۔
پاکی کی اہمیت و حقیقت
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے دین اسلام کی بنیادوں کا خلاصہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ شریعت کے اگرچہ بہت سے ابواب ہیں، اور ہر اباب کے تحت سیکڑوں احکام ہیں، لیکن اپنی بے پناہ کثرت کے باوجود چار اصولی عنوان کے تحت آجاتے ہیں: طہارت، اخبات، سماحت اور عدالت۔ (حجۃ اللہ البالغۃ، جلد اول، القسم الاول، المبحث الرابع، باب ۴، الاصول التی یرجع الیھاتحصیل الطریقۃ الثانیۃ)۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طہارت شریعت کا ایک چوتھائی حصہ ہے اور یہ دین کا ایک اہم شعبہ اور بذات خود مطلوب عبادت ہے۔ 
ابو حامد غزالی ؒ طہارت و پاکیزگی سے متعلق قرآن کی آیتیں اور احادیث لکھنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ ان ارشادات پر غور کرنے والے بہ خوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ان ارشادات سے صرف ظاہری ہی پاکی مراد نہیں ہے ؛ بلکہ باطنی پاکیزگی بھی مطلوب ہے۔(احیاء علوم الدین، جلد اول،کتاب اسرار الطہارۃ)۔شاہ صاحب نے مذکورہ بالا حوالے کے مقام پر طہارت کی حقیقت بھی بیان فرمائی ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکی اور ناپاکی انسانی روح اور طبیعت کی دو الگ الگ حالتوں کا نام ہے ۔ طہارت کی حالت فرشتوں کی حالت سے بہت زیادہ مناسبت رکھتی ہے ، اس لیے ہر وقت پاک و صاف رہنے سے ملکوتی کمالات و صفات انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ اور ناپاکی کی حالت شیاطین کی حالت ہوتی ہے ، اس لیے جو شخص ہر وقت ناپاکی میں ڈوبا میں رہتا ہے، شیاطینی وساوس اور روح کی ظلمت اس کو گھیر لیتی ہے۔ 
پاکی کی صورتیں
قرآن و احادیث کے اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکی و ناپاکی کی چار صورتیں ہیں:
(۱) باطنی پاکی و ناپاکی۔ (۲) معنوی پاکی و ناپاکی۔ (۳)ظاہری پاکی و ناپاکی۔ (۴) دلوں کی پاکی و ناپاکی۔
باطنی پاکی و ناپاکی سے مراد یہ ہے کہ انسان خود کو کفرو شرک کی ناپاکی اور گندگی سے پاک و صاف کرلے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرائے جانے والے بت ناپاکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ فاجتنبوا الرجس من الاوثان (سورہ الحج، آیت : ۳۰، پارہ : ۱۷)بتوں کی گندگی سے بچو۔ بتوں کی پوجا کرنا پلیدی اور گندگی سے کھیلنا ہے اور جوکوئی پلیدی میں لت پت ہوجائے ، اس سے پاکی و صفائی حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے ، یعنی کفر و بت کی گندگی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اور اسلام کی پاک دامن میں پناہ لینا چاہتا ہے ، تو سب سے پہلے اسے حکم دیا جاتا ہے کہ پاک کلمہ زبان پرلانے کے لیے غسل کرنا پڑے گا۔ اور انسان کے لیے کفر کی گندگی سے بڑی کوئی اور ناپاکی نہیں ہے اور اسلام کی پاکیزگی سے بہتر کوئی اور پاکیزگی نہیں، انسان خوب نہائے ، خوب سوچھتا کے بڑے بڑے ابھیان چلائے ،لیکن اگر اس باطنی ناپاکی سے خود کو پاکیزہ نہیں بناتا ، وہ کبھی بھی پاک اور صاف نہیں ہوسکتا۔
دوسری پاکی و ناپاکی معنوی پاکی وہ ناپاکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان حدث سے طہارت ، یعنی جن حالتوں میں غسل یا وضو واجب اور مستحب ہے ، ان حالتوں میں غسل یا وضو کرکے شرعی پاکی حاصل کرے۔ اگرچہ بدن پر ظاہری ناپاکی کی کوئی چیز لگی ہوئی نہ ہو۔ مثال کے طور پر نماز پڑھنے کے لیے ، وضو کرنا ضروری ہے ۔اب اگر کسی کے بدن پر ظاہری نجاست لگی ہوئی ہو یا نہ ، وضو نہیں ہے، تو اس کے لیے وضو کرنا ضروری ہوگا۔ خلاصہ کلام یہ کہ ایک مسلمان کے لیے باطنی پاکی حاصل کرنے کی طرح عبادات کو انجام دینے کے لیے معنوی طور پر بھی پاک و صاف رہنا ضروری ہے۔
تیسری پاکی و ناپاکی ہے : ظاہری پاکی و ناپاکی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری نجاست و گندگی سے اپنے جسم ، کپڑے اور جگہ کو پاک و صاف رکھنا۔آپ نے چھوٹا استنجا کیا یا بڑا استنجا کیا ، اس وقت ظاہری بدن پر لگی ناپاکی اور گندگی کو آپ نے دھویا، تو آپ نے یہ ظاہری پاکی حاصل کی۔ اسی طرح جسم کے مختلف حصوں میں خود بخود گندگیاں اور میل و کچیل پیدا ہوتی رہتی ہیں، جیسے دانت ، منھ ، ناک، ناخن وغیرہ میں خود بخود گندگی پیدا ہوتی رہتی ہے، ان چیزوں سے پاکی و صفائی حاصل کرنا بھی انسان کے لیے ضروری ہے۔ اس تیسری قسم کے بارے میں نبی کریم ﷺ کی ہدایت ہے کہ عشر من الفطرۃ: (۱)قص الشارب،(۲)و اعفاء اللحیۃ، (۳) والسواک، (۴)و استنشاق الماء ، (۵) و قص الاظفار، (۶) و غسل البراجم، (۷) و نتف الابط، (۸) و حلق العانۃ، (۹) و انتقاص الماء ، (۱۰) والمضمضۃ۔ (المسلم، کتاب الطہارۃ، باب خصال الفطرۃ) 
دس چیزیں فطرت میں سے ہیں : مونچھ تراشنا۔ داڑھی بڑھانا۔ مسواک کرنا۔ ناک صاف کرنا۔ ناخن تراشنا۔ انگلیوں کے پوروں میں پھنسی گندگیوں کو صاف کرنا۔ بغل کی صفائی کرنا۔ زیر موئے ناف کی صفائی۔ استنجا۔ کلی کرنا۔ایک دوسری حدیث میں ایک اور چیز کااضافہ ہے ختنہ کرانا۔ 
اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ صفائی انسان کے لیے ایک فطری عمل ہے ۔ ایک صاحب عقل، نستعلیق اورسلیم الطبع آدمی کبھی ان صفائیوں سے گریز نہیں کرسکتا۔آئیے اب یہ غور کریں۔ شریعت نے کسی چیز کو تراشنا صفائی کیو ں قرار دیا ہے اور کسی کو بڑھانا پاکیزگی کا ذریعہ کیوں ٹھہرایا ہے۔
(۱)جہاں تک مونچھ تراشنے کی بات ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مونچھ بعینہ ناک کے نیچے اور ہونٹ کے اوپر ہوتی ہے۔ ناک سانس لینے کا ذریعہ ہے اور سانس سے ہی زندگی برقرار رہتی ہے۔ اور نیچے منھ ہے، جو بقائے زندگی یعنی کھانے پینے کی جگہ ہے۔ اب اگر مونچھ میں لمبے لمبے بال رکھے جائیں، تو ظاہر سی بات ہے ، بالوں میں پھنسی گندگی یا تو سانس کے ذریعے اندر پہنچے گی یا پھر منھ کے ذریعے۔ اور اگر اندر گندگی پہنچ جائے ، تو انسان بیماری وغیرہ میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس کا حکم دیا کہ مونچھ کو تو صاف ہی کردو۔
(۲)داڑھی بڑھانا، یہ دوسری فطری بات ہے۔داڑھی مردوں کی شان ہے اور مرد ہونے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے داڑھی مردوں کو اسی لیے عطا کی ہے تاکہ مذکرو مونث میں واضح فرق ہوسکے۔ اس کی فطری چیز ہونے کی ایک وجہ تو یہ تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ داڑھی کے بال چوں کہ نیچے کی طرف لٹکتے ہیں، جہاں نہ تو سانس لینے کی مشین ہے اور نہ کھانا کھانے کی جگہ، لہذا اس کے بالوں کی وجہ سے صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ علاوہ ازیں جب دن رات میں وضو کے لیے پانچ پانچ مرتبہ داڑھی کے بالوں کو دھویا جائے گا ، تو اس میں گندگی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس لیے داڑھی بڑھانا ایک فطری امر ہے۔ 
(۳) تیسری چیز مسواک کرنا ہے۔انسان اگر دانت کی صفائی کا خاص خیال نہیں رکھتا ہے، تو کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں: دانت میں کیڑے لگنے لگتے ہیں، اس میں پانی بھی لگتا ہے، گندگی کی وجہ سے مسوڑے کمزور ہوجاتے ہیں اور شدید درد شروع ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے کھانا پینا دشوار ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں منھ کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے اس میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ بدبو ایسی پیدا ہوجاتی ہے کہ محفل میں بات کرو تو بدبو ، کسی کے سامنے منھ کھولو، تو بدبو، اپنوں سے سے قریب ہو تو بدبو کی وجہ سے پریشانی۔بہر کیف ان تمام پریشانیوں کا واحد علاج ہے کہ انسان منھ کی صفائی کرے اور اس کے لیے مسواک سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔آج کل مارکیٹ میں ایک سے ایک ٹوٹھ پیسٹ بھی دستیاب ہیں، جس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسواک سے زیادہ منھ کی صفائی کرتا ہے۔ چلو ہم مان لیتے ہیں کہ کیمکل اور دوائی کے اثرات کی بنیاد پر وہ زیادہ صفائی کرتے ہیں، لیکن دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ ٹوٹھ پیسٹ کرنے والے کبھی ان کیمکل کے اثرات سے متاثر ہوجاتے ہیں اور دانت میں کئی طرح کی بیماریاں بھی پیدا ہونے لگتی ہے۔ اگر فوری طور پر وہ صفائی زیادہ کرتے ہیں، تو کبھی کبھی اس کا سائڈ ایفکٹ بھی ہوجاتا ہے۔ اس کے مقابل نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے بتائے طریقوں میں کبھی بھی سائڈ ایفیکٹ نہیں ہوتا۔
(۴) ناک کی صفائی بھی ایک فطری امر ہے۔ کیوں کہ گردو غبار جب اڑتے ہیں ، تو کہیں پہنچے یا نہ پہنچے ناک کے خیشوم میں ضرور پہنچ جاتی ہے۔ آپ اگر کمرے کی صفائی کر رہے ہیں، تو کہیں دھول کے اثرات دکھے یا نہ دکھے ، ناک میں ضرور پہنچ جاتی ہے، اور چوں کہ یہ سانس لینے کی جگہ ہے، اس لیے اس کی صفائی انتہائی ضروری ہے۔
(۵) ناخن تراشنا بھی صفائی کی چیز ہے۔ کیوں کہ اس میں گندگی بھی پھنستی ہے اور انسان کو کریہہ المنظر بھی بناتا ہے۔ 
(۶) انگلیوں کے جوڑوں میں بھی گندگی پھنستی ہے ۔ اگر اس کی کنٹی نیو صفائی نہیں کی جاتی ہے ، تو جلدی امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔چمڑے میں خشکی، موٹا پن، کھردرا پن اور کانٹے دار پھنسیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ اس لیے ان کی صفائی ضروری ہے۔
(۷) بغل کے بالوں کو اکھاڑنا بھی صفائی کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ گندگی جمع ہونے کی وجہ سے بدبو پیدا ہونے لگتی ہے اور بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں۔
(۸) زیر موئے ناف بھی تراشنا ضروری ہے، کیوں کہ وہاں بھی گندگی جمع ہوتی ہے ، قوت باہ کو کمزور کردیتی ہے۔ اس لیے صفائی ضروری ہے۔
(۹)استنجا کرنا بھی 
(۱۰) کلی کرنا
(۱۱) ختنہ کرانا
ان ہدایات سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اسلام نے ظاہری و باطنی ہر طرح کی گندگی سے پاکی و صفائی کا کس قدر اہتمام کیا ہے۔

25 Sept 2017

اہ! میری دادی ماں

اہ! میری دادی ماں
محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
لاشعوری آنکھوں سے دیکھے گئے کچھ مناظر، زندگی بھر شعور و آگہی کی روح پھونکتے رہتے ہیں۔زندگی کے معصوم لمحات کی لاشعوری یادیں ، یادوں کے تحت الشعور میں کچھ اس طرح بیٹھ جاتی ہیں کہ زندگی کے بڑے سے بڑے حادثات انھیں نہیں مٹاپاتے۔ پھر یہیں یادیں سرمایہ حیات بن کر تسلی حیات بن جایا کرتی ہیں۔ آج ہم کچھ ایسی ہی یادوں کے آنسو قلمبند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
جب ننھا معصوم اپنی تتلی زبان میں بولنے کا سلیقہ سیکھنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے، تو ماں باپ اسے اللہ ،محمد اور ابا امی کے ساتھ ساتھ دادا دادی بولنا بھی سکھاتے ہیں۔ اول الذکر دونوں نام چوں کہ عہد الست کی صدائے لبیک ہوتے ہیں، اس لیے بچہ کسی تجسیم کے بغیر ہی سیکھ لیتا ہے، لیکن بقیہ ناموں کی تعلیم کے لیے بچوں کے سامنے ان کی موجودگی ضروری ہوتی ہے؛ لیکن ناچیز کی اس تعلیم کے وقت دادا کا وجود کبھی بھی مجسم نہ ہوسکا، البتہ دادی کا وجود شفقت ہمیشہ سایہ فگن رہا، اس لیے فطری طور پر دادی ہماری تربیت اور لاشعوری یادوں کی بنیادی وجود کا حصہ رہی ہیں۔ 
میری دادی
ہم پانچ بھائی اور ایک ہمشیرہ ہیں۔ جن کی پرورش و تربیت کی ذمہ داری والدین کے علاوہ دادی کے کاندھے پر بھی تھی۔ہم نے دیکھا کہ انھوں نے اپنی ذمہ داری کو ذمہ داری سے زیادہ فرض سمجھ کر ہماری تربیت و پرورش کے فرائض انجام دیے۔ 
امتیازی خصوصیات
لاشعوری آنکھوں سے لے کر شعوری نگاہوں تک نے دادی صاحبہ کے اندر جو امتیازی خصوصیات دیکھیں ، وہ درج ذیل ہیں:
(۱) بچوں کی تربیت میں بے حد حساس
وہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے بہت زیادہ حساس طبیعت کی حامل تھیں۔ معاشرے کی گندی صحبتوں اور غلط سنگتوں پر خاص دھیان رکھتی تھیں۔ اگر بچہ کہیں باہر سے آرہا ہے، تو دادی صاحبہ پوچھ تاچھ کیا کرتی تھیں اور اگر اصلاح کی کوئی ضرورت محسوس کرتیں ، تو فورا ٹوکتیں۔
(۲)ہاڑی ٹھیک کرنے کی سماجی خدمت
دیہاتوں میں چھوٹے بچوں کو لاڈ پیار کرنے اور انھیں کھلانے کا معاشرتی رجحان پایا جاتا ہے، اور معاشرے کا ہر فرد کسی کے بھی اور کسی بھی بچے کو گود میں لینے اور انھیں بہلانے کا سماجی حق سمجھتا ہے۔ اس میں کبھی کبھار یہ حادثہ ہوجاتا ہے کہ کم سن بچوں کے گلے کی ہڈی چڑھ آتی ہے ،جسے ہماری زبان میں ’’ہاڑی لگنا‘‘ کہتے ہیں، جس کے بعد بچہ تکلیف کی وجہ سے مسلسل روتا رہتا ہے۔ معاشرے میں خال خال ہی بوڑھی عورتیں ہوتی ہیں، جو اس ہڈی کو بٹھانا جانتی ہیں ۔ میری دادی صاحبہ ان میں سے ایک تھیں، جنھیں اس کا کافی تجربہ تھا جس کی وجہ سے کبھی کبھارشام کو کافی بچے ہمارے یہاں جمع ہوجاتے تھے۔ اور دادی صاحبہ ان کی ہڈیاں بیٹھایا کرتی تھیں۔یہ کوئی پیشہ وارانہ کام نہیں تھا، بلکہ سماجی خدمت کا ایک پہلو تھا، جسے وہ بصد شوق انجام دیا کرتی تھیں۔البتہ کبھی کبھار بچوں کی ماوں کو غفلت برتنے کی تنبیہ کا سامنا کرنا پڑ جاتا تھا۔
(۳)پاکی صفائی کی انفرادی شناخت
دادی مرحومہ حد سے زیادہ پاکی کا اہتمام کیا کرتی تھیں۔ ان کا معمول تھا کہ کسی پاک کپڑے کو بھی جب تک تین پانی سے پاک نہ کرلیا جائے، اسے قبول نہیں کرتی تھیں۔ اس عمل سے وہ نئی نویلیوں اور چھوٹی بچیوں کو تعلیم بھی دیا کرتی تھیں اور انھیں پاکی صفائی کے ضروری مسائل پر بھی متوجہ کیا کرتی تھیں۔عمر رسیدہ افراد میں کپڑے کی عمدگی و صفائی کا اہتمام بہت حد تک کم ہوجاتا ہے اور دیہاتی معاشرے میں یہ تقریبا معدوم ہی ہے، لیکن ہماری دادی صاحبہ ان سے بالکل الگ تھیں۔ صاف ستھرے کپڑے اور عمدہ لباس کا ہمیشہ اہتمام کیا کرتی تھیں اور اس معاملے میں اپنے معاشرے میں ایک انفرادی شناخت رکھتی تھیں۔
(۴)نماز و اذکار کی بے حد پابند
نمازکی پابندی اور ذکرِ اوراد، دادی صاحبہ کی گویا فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ وہ کوئی پڑھی لکھی عورت نہیں تھیں، تاہم وہ جو کچھ بھی جانتی تھیں، اس پر پابندی سے عمل کرتی تھیں۔ ایام طالب علمی میں چھٹی کی مناسبت سے جب گھر آتے تھے، تو دادی صاحبہ عموما یہ کہتیں کہ کچھ دین کی باتیں بتاو۔ کچھ دعائیں سکھلاو۔ پھر جو کچھ انھیں بتادیا جاتا، وہ اسے معمولات میں شامل کرلیتی تھیں۔
(۵)دعاوں کی کثرت
ان کی امتیازی خصوصیت یہ بھی تھی کہ دعاوں کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتی تھیں۔ خود بھی دوسروں کے لیے دعائیں کرتی تھیں اور دوسروں سے بھی دعاوں کی گذارش گویا ان کا تکیہ کلام تھا۔ حتیٰ کہ اپنے پوتے پوتیوں سے بھی دعائیں لینے دینے کا ان کا عام معمول تھا۔ اور ناچیز کا یہ عندیہ ہے کہ ہمارے حق میں ان کی دعائیں ہمیشہ قبولیت سے مشرف ہوئی ہیں اور شاہراہ حیات کی پرخطر موڑ پر ان کی دعاوں نے ہی سہارا دیا ہے۔ 
(۶)روح کی تربیت
ہماری دادی گرچہ دیہات میں پیدا ہونے والی ، اسی ماحول میں نشو ونما اور تربیت پانے والی اور اسی سماج میں پوری زندگی کاٹ دینے والی ایک گھریلو عورت تھیں۔ دنیا اور اس کے متعلق اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ ہم کس ملک میں رہتے ہیں اور ٹرین کس طرح کی سواری ہوتی ہے، تاہم کلام پاک کی تلاوت جانتی تھیں اور اوراد و وظائف کے کلمات بحسن و خوبی ادا کر لیتی تھیں۔ اور یہ شاید ان کے بڑے ابانمونہ اسلاف حضرت مولانا منیرالدین صاحب نور اللہ مرقدہ بانی مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کی تعلیم و تربیت کا اثر تھا۔عقیدے کی پختگی ، بدعت سے نفرت اور گناہوں سے پرہیز انھیں وراثت میں ملا تھا۔ لڑائی جھگڑا اور فضول گوئیوں سے وہ ہمیشہ دور رہتی تھیں۔عورتیں عموما کثیر گو ہوتی ہیں، لیکن یہ ذاتی مشاہدہ ہے کہ انھیں ہمیشہ تنہائی پسند اور تنہائیوں میں ہمیشہ ہاتھ میں تسبیح دیکھی۔اور ان سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ نماز کی بے حد پابند تھیں۔ ان کا معمول تھا کہ ادھر مسجد سے صدائے اللہ اکبر لگائی جاتی تھی اور ادھر لوٹا ہاتھ میں لیے وضو کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی تھیں۔ میں نے جہاں تک ان کی زندگی دیکھی، اس میں کبھی نہیں دیکھا کہ نماز کو قضا ہونے دیا ہو۔ اسی طرح فرض روزوں کے ساتھ ساتھ نفلی روزوں کا بہت زیادہ اہتمام کرتی تھیں، حتیٰ کہ آخری عمر کی بے پناہ کمزوریوں کے باوجود شوال کے روزے کو ترک نہیں کیا۔
(۷) حضرت فدائے ملت نور اللہ مرقدہ سے بیعت
ایمان و عمل کی یہ پختگی اور پابندی دیکھ کر راقم نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ ضعیفی کے باوجود آپ اتنی پابندی سے سارے اعمال کیسے انجام دے لیتی ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ گاوں میں مولانا مدنی صاحب آئے تھے۔ ان کا قیام مدرسے میں تھا ، بعد میں وہ مولانا مظہر الحق صاحب شاگرد شیخ الاسلام ؒ کے مکان میں تشریف لائے ، جس میں گھر کے ایک طرف مولانا بیٹھے اور دوسری طرف گاوں کی عورتیں تھیں۔ پھر ایک لہنگا منگوایا گیا۔ جس کا ایک کنارہ مولانا نے پکڑا اور دوسرا کنارہ ہم عورتوں کی طرف بڑھایا گیا۔ محفل میں موجود سبھی عورتوں نے لہنگے کو پکڑا اور مولانا سے بیعت ہوئیں۔ بیعت کے بعد مولانا کی تقریر ہوئی، جس میں انھوں نے کہا کہ جو عورتیں بیعت ہوئی ہیں، ان کے لیے خصوصی ہدایت یہ ہے کہ کبھی بھی اور کسی بھی حال میں نماز نہ چھوڑنا، اگر نماز چھوڑو گی تو بیعت ختم ہوجائے گی۔ اسی طرح کبھی جھوٹ مت بولنا اور غیبت سے بالکلیہ پرہیز کرنا۔ بعد ازاں کچھ وظیفے پڑھنے کے لیے بتائے ۔ پھر دعا ہوئی ۔ اور مولانا نے ہی دعا کرائی۔
شاید یہ مولانا مدنی نور اللہ مرقدہ کی تعلیم و ارشاد کا کیمیائی اثر تھا جو زندگی بھر انھیں نماز روزے کی پابندی کی توفیق ارزانی ہوئی۔میں نے دادی سے مولانا مدنی کا نام معلوم کیا، تو وہ نام بتانے سے قاصر تھیں، البتہ راقم نے بعد میں تحقیق کیا، تو معلوم ہوا کہ مولانا مدنی سے مراد فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ تھے، جومولانا مظہر الحق صاحب سابق جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ضلع گڈا جھارکھنڈ کی دعوت پر مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے جلسہ میں ۱۹۶۹ ء میں تشریف لائے تھے ۔ اور ان سے گاوں کے سینکڑوں مرد و عورتیں بیعت سے مشرف ہوئی تھیں، جن میں ابھی بھی کچھ حضرات باحیات ہیں۔
احوال زندگی
دادی کا نام بی بی خاتون ہے۔ والد محترم کا نام عبدالرحمان برادر حضرت مولانا منیر الدین نور اللہ مرقدہ، ابن نصیر الدین عرف نسو ابن پھیکو ابن بھولی ابن دروگی شیخ تھا۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب محفوظ نہیں ہے اور بسیار تلاش کے باوجود ہمیں کچھ نہیں مل سکا۔ دادی صاحبہ بہن میں اکیلی تھیں اور بھائی بھی صرف ایک ہی تھا، جن کا نام مولانا محمد اسلام ساجد مظاہری ہے دادی کا آبائی مکان جہاز قطعہ کے اتری حصے میں تھا، جس میں ابھی دادی کے بھتیجے جناب اطہر صاحب کی رہائش ہے۔آپ کی ابتدائی تاآخری تعلیم گاوں کے ہی مدرسے میں ہوئی، جس کے سکریٹری آپ کے دادا جان تھے۔اور والد محترم استاذ تھے۔ تعلیم و تربیت کے بعد آپ کی شادی گاوں میں ہی جناب نصیر الدین صاحب مرحوم سے ہوئی۔ ان کا مکان گاوں کے دکھنی حصے میں جامع مسجد کے مغربی سمت میں واقع ہے اور جہاں فی الحال راقم کی رہائش گاہ ہے۔ ان کا سلسلہ نسب اس طرح ہے : نصیر الدین ابن تاج علی ابن شیخ پھیکو ابن شیخ لوری۔ ہمارے دادا جناب نصیر الدین صاحب نیک طینت اور صوم و صلاۃ کے پابند شخص تھے، جماعت میں جانا ان کا محبوب عمل تھا۔ کھیتی کرتے ہوئے سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے ۱۹۷۵ میں ان کا انتقال ہوا۔ 
اولاد و احفاد
دادا دادی صاحبان کی چار اولادیں تھیں ، جن میں علی الترتیب جناب محمد مظفر حسین، جناب محمد منور، بی بی محمودہ اور جناب محمد فیروز صاحبان ہیں۔ ان میں محمد منور صاحب بچپن میں ہی انتقال کرگئے تھے۔جناب مظفر حسین صاحب کے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی ہے، جن کے نام علیٰ الترتیب درج ذیل ہیں: محمد فاروق تاریخ پیدائش:12/جولائی بروز بدھ1978،مطابق 5/شعبان 1398۔محمد محسن تاریخ پیدائش:11/جنوری بروز سوموار 1982،سوا نو بجے دن۔محمد یاسین تاریخ پیدائش:3/جنوری بروز سنیچر آخری رات بقرب صبح اتوار 1984۔محمد عارف تاریخ پیدائش: 22/اکتوبر بروز اتوار 1986 ۔ محمد تحسین ۔ اور ایک لڑکی بی بی عشرت۔ بی بی محمودہ کی شادی ۱۸،۱۹ ؍ مئی ۱۹۸۲ میں جھپنیاں میں ہوئی۔ ان کو تین اولادیں ہیں اور سب لڑکیاں ہیں، جن کے نام ہیں: بی بی غفرانہ، بی بی خوشتری، بی بی احسانہ۔ متوسط الذکر راقم سے منسوب ہیں۔اور جناب فیروز صاحب کی تین اولادیں ہیں، جن میں دو لڑکے شاہنواز اور فیاض ہیں اور ایک لڑکی ہے ، جس کا نام بی بی سفینہ خاتون ہے۔اس طرح سے دادی صاحبہ کے سات پوتے، دو پوتیاں اور تین نواسیاں ہیں۔اور الحمد اللہ سبھی باحیات ہیں ۔
بیوگی
دادی مرحومہ کی زندگی کا بیشتر عرصہ بیوگی میں گذرا ہے۔ والد محترم کے بیان کے مطابق ان کی عمر کل چودہ سال تھی اور دادا کا انتقال ہوگیا تھا۔ چچا فیروز صاحب جو اولاد میں سب سے چھوٹے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے والدکا چہرہ یاد نہیں ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تقریبا نصف صدی کی زندگی بیوگی میں گذری ہے۔ بیوگی کے زخم کا احساس وہی کرسکتا ہے، جسے اس کا عملی تجربہ ہو، اس کو بیان کرنے کے لیے نہ ہمارے پاس الفاظ ہیں اور نہ ہی چند لکھے الفاظ اس احساس سے لذت آشنائی پیدا کرسکتے ہیں۔ لاشعوری یادوں میں بیوگی کے درجنوں کہانیاں موجود ہیں، جو ان شاء اللہ کبھی کسی دوسرے موقع پر سینے سے کاغذ پر منتقل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
حادثہ فاجعہ
تقریبا آخری عمر تک دادی صحت مند رہیں، چلنا پھرنا اور زندگی کے سبھی معمولات خود سے ہی انجام دے لیا کرتی تھیں۔ ۱۷؍ اگست ۲۰۱۷ بروز جمعرات کو بخار آیا، جس کی وجہ سے کافی کمزور ہوگئیں، لیکن بفضل الٰہی صحت یاب ہوگئیں۔ پھر ۲۵؍ اگست بروز جمعہ بوقت تہجد وضو کے لیے بیدار ہوئیں۔ بجلی غائب تھی اور اندھیرا چھایا ہوا تھا، جس کی وجہ سے وہ خود کو سنبھال نہ سکیں اور زینے سے گر گئیں۔ اس حادثہ سے ان کا دایاں پیر کا کولہا ٹوٹ گیا اور چلنے پھرنے سے بالکل معذور ہوگئیں۔اٹھارہ دن مسلسل اسی حالت میں رہیں، بالآخر ۱۱؍ ستمبر بروز پیر دوپہر بعد سے سانسیں اکھڑنے لگیں، پہلے سننا بند کیا، پھر بولنے کی طاقت بھی چلی گئی۔ مغرب کا وقت ہوتے ہوتے آنکھیں بھی بند کرلیں۔ اور پھر جوں جوں وقت آگے بڑھتا گیا، سانس کا وقفہ بڑھتا گیا۔ بالآخر عشا کا وقت آتے آتے ، وقت اجل بھی آ پہنچا اور ۹؍ بج کر ۱۷ منٹ پر آخری سانس لے کر ہمیشہ کے لیے آغوش رحمت میں چلی گئیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
صدمہ 
راقم عشا کی نماز کے لیے گھر سے دو سوقدم پر واقع جامع مسجد گیا ہوا تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے جماعت ہوئی۔ نماز سے فراغت کے بعد گھر پہنچا، حسب معمول زیارت کنندگان کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ گھر پہنچنے سے پانچ منٹ بھی نہیں گذرے تھے کہ حادثہ فاجعہ پیش آیا۔ موت و حیات کی خبریں سننا تو زندگی کا تسلسلی واقعہ ہے ، لیکن پہلی بار خبر سن کر جس صدمہ کا احساس ہوا، اس کے بیان کرنے کے لیے میرے پاس کوئی زبان نہیں ہے۔ زندگی کا یہ پہلا حادثہ تھا جو اپنے کسی عزیز کے انتقال کا منظر دیکھا تھا۔ المختصر خود کو سنبھالتے ہوئے گھر کے دیگر ممبران کو بھی حوصلہ رکھنے کی تلقین کی اور متعلقین کو اطلاع دینے کے لیے کچھ لوگوں کو واٹس ایپ کیا اور کچھ لوگوں کو فون کیے۔ 
تجہیز و تکفین
تقریبا آدھ ایک گھنٹے کے بعد حسب روایت دراوزے پر گوتیہ کی میٹنگ ہوئی، جس میں تما م رشتہ داروں کو اطلاع دینا، آنے والے مہمانوں کے قیام و طعام کا انتظام اور تجہیز و تکفین کے امور طے کیے گئے اور یہ طے پایا کہ بعد نماز ظہر جنازے کی نماز ادا کی جائے گی۔حسب فیصلہ اگلے دن یعنی ۱۲؍ ستمبر ۲۰۱۷ ، بروز منگل بعد نماز ظہر ۲؍ بج کر ۴۲ ؍ منٹ پر نماز جنازہ ادا کی گئی۔ امامت حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند و سرپرست مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ نے فرمائی۔ بعد ازاں آبائی قبرستان کے مغربی حصے کے وسط میں سپرد خاک کردی گئیں۔
ایصال ثواب
جوں جوں متعلقین و احباب کو اطلاع ملتی رہی، توں توں ان کے فون ، میسج اور واٹس ایپ آنے شروع ہوگئے۔ ہر ایک نے تعزیت پیش کرتے ہوئے ایصال ثواب کرنے کا وعدہ کیا۔ درجنوں مقامات پر قرآن خوانی اور دعائے مغفرت کا اہتمام کیا گیا۔ جن لوگوں نے خصوصیت کے ساتھ اہتما م کیا اور اطلاعات بھی دیں، ان میں مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی، سکریٹری جمعیۃ علماء ہند، مولانا اسجد صاحب مہتمم جامعہ کاشف العلوم احمد آباد گجرات، مولانا غیاث الدین جامعہ حسینیہ مدنی نگر ،، مولانا سالم صاحب کانپور،قاری عبد الباقی صاحب جامعہ انوار شرافت غازی آباد یوپی، مولانا ہارون رشید صاحب دہلی، مولانا محسن اعظم صاحب مصباح العلوم بانکا بہار، قاری کلیم الدین صاحب مدراس، جناب عمر بن سالم العیدروس المحضار سعودی عرب،مفتی نظام الدین صاحب جلال آباد، مفتی عبد الرحمان صاحب جامعہ محمود العلوم گڈا، مولانا طلحہ و مولانا عبداللہ صاحبان جہاز قطعہ، مولانا تحسین دارالعلوم دیوبند ، ہفت روزہ الجمعیۃ جمعیۃ علماء ہنداور درجنوں مدارس و مساجد کے نام شامل ہیں۔ 
کلمات شکر و شکیب
ہمارے بہت سے محبین و مخلصین نے خصوصی طور پر ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کا اہتمام کیا تھا۔ ان میں سے بعض وہ تھے، جنھوں نے تعزیت پیش کرتے ہوئے اس کا اظہار بھی کیااور بہت سوں نے غائبانہ طور پر اس فریضے کو انجام دیا۔ ناچیز نے ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کیا، جس کے الفاظ درج ذیل تھے کہ دادی صاحبہ کے انتقال کی خبر کے بعد ہمارے بہت سے متعلقین، محبین، اکابرین، ذمہ داران مدارس، ائمہ مساجد اور نیک خصال افراد نے فون، واٹس ایپ اور میسج کے ذریعے اظہار تعزیت کیا اور ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کا اہتمام کیا۔ ناچیز ان تمام حضرات کا مشکور و ممنون ہے اور مزید دعاوں کی درخواست کرتا ہے۔
رسمی ایصال ثواب کا خاتمہ
ہمارے علاقہ میں ایک قدیم رسم یہ چلا آرہا ہے کہ انتقال کے دوسرے دن میت والے کو تدفین میں شرکت کے لیے آئے تمام مہمانوں کی دعوت کرنی پڑتی ہے اور ایک فنکشن کے طور پر اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہمارے گھر پر بھی اس رسم کی بات اٹھائی گئی، لیکن الحمد اللہ انھیں صحیح طریقہ بتانے کے بعد لیت و لعل نہ کرسکے ۔ اور اس طرح سے ایک غلط رسم کے خاتمہ کی طرف پہلا قدم اٹھایا گیا۔ دعا فرمائیں کہ اس اقدام سے علاقے میں رائج اس رسم کا بالکلیہ خاتمہ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ اپنی مرضیات پر چلنا آسان فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
بعد از مرگ فریضہ من و تو
زندگی اور موت کا فلسفہ کیا ہے، اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا میں ہر ذی روح کے آغازکا نام زندگی ہے اور آخری انجام کو موت کہا جاتا ہے۔ یہ آخری انجام دراصل حقیقی و دائمی زندگی کا نقطہ آغاز ہے۔اور اس سے پہلے جوبھی زندگی تھی، وہ محض بعد کی زندگی کے لیے ایک فرصت اور موقع۔ انسان کی خوبی یہ ہے کہ وہ غلطی کرتا ہے، لیکن اس کا کمال یہ ہے کہ اس غلطی کی اصلاح کی کوشش کواپنا نصب العین بنالے۔اور چوں کہ اس کی ترکیب میں غلطی و کوتاہی بھی شامل ہے، اس لیے کمال کی تکمیل میں کمی رہ جانا اس کا فطری خاصہ ہے، اسی لیے حدیث میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ فرصت و موقع کی زندگی کے دور سے گزر رہے افراد اپنے پس مرگ حضرات کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کرتا رہے، تاکہ مردگان کے کمال کی تکمیل ہوتی رہے۔ 
ایک باحیات انسان دوسرے خفتگان خاک کے لیے اگر کچھ کرسکتا ہے ، تو وہ یہی کرسکتا ہے کہ ان کے لیے دعا کرے۔ اور اس سے بڑا ان کے لیے کوئی احسان نہیں ہوسکتا؛ البتہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جو دوسرے کے لیے مغفرت کا اہتمام کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ان کے مرنے کے بعد دوسرے افراد کوان کی مغفرت کا اہتمام کرنے والا بنا دیتا ہے اور اس طرح سے اپنے سے پہلے مردے پر کیے احسان کا صلہ پاتا ہے، تو آئیے ہم بھی اس سلسلے کا حصہ بنتے ہوئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دادی مرحومہ کی قبر کو نور سے بھردے۔ ان کی بال بال مغفرت فرمائے۔ اورانھیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اللھم آمین یا رب۔ 

22 Sept 2017

ہجری کی تاریخ Hijri date



ہجری کی تاریخ
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
سن ۱۷ ہجری شروع ہوچکی ہے۔سرور کائنات فخر موجودات نبی اکرم ﷺ کی وفات کو چھ سال گذر چکے ہیں۔مسند خلافت پرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ متمکن ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن میں گورنری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ خلیفۃ المسلمین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے فرامین بھیجے جاتے ہیں۔ ان فرامین میں دن اور مہینہ کا ذکر تو ہوتا ہے، لیکن سن درج نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ یہ پتہ لگانے میں دشواری محسوس کرتے ہیں کہ کونسا فرمان پہلے کا ہے اور بعد میں خلیفۃ المسلمین کا کیا حکم ہے۔ یہ بات حضرت گورنر ،خلیفہ کے روبرو پیش کرتے ہیں۔ حضرت خلیفہ صحابہ کی میٹنگ بلاتے ہیں۔ اس میٹنگ کے دو ایجنڈے ہوتے ہیں:
(۱) ابتدائے سن کا تعین۔ (۲) ابتدائے سال کا تعین۔
پہلے ایجنڈے پربحث شروع ہوتی ہے اورمجموعی طور پر چار رائیں آتی ہیں:
(۱) اسلامی تاریخ کی ابتداولادت باسعادت سے ہونی چاہیے۔ مگریہ رائے اس لیے قبولیت عامہ حاصل نہیں کرپاتی ہے کہ اس میں نصاریٰ کی تاریخ کا چربہ نظر آتا ہے، کیوں کہ عیسوی تاریخ کی بنیاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ ولادت پر رکھی گئی ہے اور شمسی گردش کے حساب کا اعتبار کیا جاتا ہے۔
(۲) دوسری رائے میں یہ کہا گیا کہ تاریخ کی ابتدا وفات نبوی کو قرار دیا جائے۔ لیکن یہ رائے بھی نامنظور ہوئی اور اس کی وجہ یہ رہی کہ نبی اکرم ﷺ کی رحلت دنیائے انسانیت کے لیے سب سے بڑا حادثہ ہے اور تاریخ ایک یادگار شئی ہے اور بار بار حادثہ کی یاد دہانی مناسب نہیں ہے۔
(۳) بعض صحابہ نے یہ رائے دی کہ نبی ﷺ کی حیات و ممات کے بجائے اسلامی کلینڈر کے لیے بعثت اسلام کو نقطہ آغاز قرار دیا جائے۔ لیکن اس رائے پر بھی اتفاق رائے نہیں ہوپایا، جس کی وجہ غالبا یہ رہی کہ اسلام کا شروعاتی دور مصائب و مشکلات کا دور رہا ہے، جس کی وجہ سے اسلام کی کمزوری کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔
(۴) مجلس میں ایک چوتھی رائے بھی پیش کی گئی ، جسے خود خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے پیش کیا کہ تاریخ کی ابتدا ہجرت نبوی علیہ السلام سے ہونی چاہیے اور دلیل یہ دی کہ ہجرت سے ہی حق و باطل کا فرق واضح ہوا ہے اور اسلام مظلومیت سے خود اعتمادی کی طرف بڑھا ہے، لہذا ہجرت سے ابتدا اسلام کی شوکت و عظمت کی طرف اشارہ ہوگی۔ حاضرین مجلس نے اس رائے سے اتفاق کیا اور اسلامی کلینڈر کا آغاز سنہ ہجری سے کیا گیا۔
پہلے ایجنڈے کے بعد دوسرے ایجنڈے پر بحث شروع ہوتی ہے ۔ اور تین رائیں پیش کی جاتی ہیں:
(۱) کچھ حضرات نے ابتدائے سن پر قیاس کرتے ہوئے یہ تجویز رکھی کہ ہجرت نبوی ﷺ چوں کہ ماہ ربیع الاول میں ہوئی ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سال کی ابتدا بھی اسی ماہ سے کیا جائے، لیکن اس رائے پر اتفاق نہیں ہوپایا۔ 
(۲) دوسری رائے یہ آئی کہ سال کی ابتدا رمضان المبارک سے کی جائے۔ اور دلیل یہ پیش کی گئی کہ اسلام میں یہ مہینہ سب سے مقدس اور فضیلت کا حامل ہے، لیکن یہ رائے بھی اکثریت حاصل نہ کرسکی۔
(۳) ایک تیسری رائے یہ آئی کہ محرم الحرام کو پہلا مہینہ قرار دیا جائے ۔ دلیل یہ تھی کہ حضرات انصار نے حج کے موقع پر عشرہ ذی الحجہ میں آپ کے دست اقدس پر بیعت کی۔ اخیر ذی الحجہ میں حج کرکے واپس ہوئے۔ ان کی واپسی کے بعد ہی آپ ﷺ نے ہجرت کا ارادہ فرمایا ، اس لیے صحابہ کو ہجرت کی اجازت دے دیتی اور خوو حکم خدا کے منتظر رہے، لہذا ارادہ پاک پر ابتدا کی بنیاد رکھتے ہوئے محرم الحرام کو پہلا مہینہ قرار دیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت کی تاریخ میں بھی پہلا مہینہ محرم الحرام ہی تھا، اس لیے اس کو باقی رکھا گیا۔
تاریخ کی بنیاد شناخت پر قائم ہوتی ہے، اسلامی تاریخ کی بنیاد بھی ایک شناخت پر قائم ہے ، جس کا تذکرہ درج بالا سطور میں آچکا ہے، اس لیے مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے کہ وہ جس طرح دیگر تاریخوں کو یاد رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح اسلامی تاریخ کو بھی یاد رکھیں اور اسے اپنے ادارے میں فروغ دینے اور اپنی زندگی میں برنتے کا اہتمام کریں۔

14 Aug 2017

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سلام ، آپ کے نام کیا آپ اس سلام کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں؟ : محمد یاسین قاسمی

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سلام ، آپ کے نام

کیا آپ اس سلام کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں؟
تحریر: محمد یاسین قاسمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمعیۃ علماء ہند
۲۷؍ رجب کو ہم شب معراج مناتے ہوئے جلسہ جلوس کرتے ہیں، نبی اکرم ﷺ کی سیرت کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، روزوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کونڈے بھی بانٹے جاتے ہیں، لیکن اس سفر مبارک میں دین حنیفی کے پیشوا سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرورکائنات ﷺ کے توسط سے ہمارے لیے جو پیغام بھجوایا ہے، کیا کبھی ہم نے پیغام پر عمل کرنے کی کوشش کی؟ 
اب تک ہمارا طرز عمل تو یہی ثابت کرتا ہے کہ ہم نے ایسا بالکل نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس رسوم و گناہ کے جتنے کام ہوسکتے تھے، وہ سب ہم نے معراج کے مقدس نام سے کیا، آئیے دیکھتے ہیں کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمیں کیا پیغام دیا ہے ، اور ہمیں اس موقع پر کیا کرنا چاہیے، تاکہ اس کی روشنی میں ہم رسوم و رواج سے باز آجائیں اور واقعہ معراج کے صحیح پیغام پر عمل پیرا رہیں۔ 

سیرت طیبہ کی مدنی زندگی کا واقعہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کومکہ سے فلسطین میں واقع مسجد اقصیٰ،پھر یہاں سے ساتوں آسمانوں، بعد ازاں سدرۃ المنتہیٰ اور جنت و جہنم کی سیر کرائی گئی۔ تاریخ سیرت میں اس واقعہ کو معراج کہاجاتا ہے۔ الگ الگ آسمانوں پر مختلف انبیائے کرام علیہم السلام سے آپ ﷺکی ملاقات ہوئی، اور ہر ایک کے ساتھ الگ الگ گفتگو ہوئی ۔ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کو لے کر ساتویں آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھولنے کے لیے دستک دی، توہر ایک آسمان کے دربان کی طرح اس آسمان کے دربان نے بھی یہی سوال کیا کہ آپ کون ہیں؟ حسب سابق حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اپنا نام بتایا۔ دربان نے دوسرا سوال کیا کہ آپ کے ساتھ یہ کون ہے؟ حضرت جبرئیل نے جواب دیا کہ میرے ساتھ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا کہ کیا انھیں بلایا گیا ہے؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ہاں میں جواب دیا۔ آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا۔ آپﷺ آگے بڑھے ، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سفید ریش والے شخص بیت المعمور سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں، جن کے سر کے بال بھی سفید ہوچکے ہیں۔ آپ ﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ان کے متعلق دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہیں؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، آپ ان کو سلام کہیے ،تو آپ ﷺنے ان کو سلام کہا: انہوں نے آپ ﷺکے سلام کا جواب دیا اور خوش آمدید کہتے ہوئے کہاکہ: صالح بیٹے اور صالح نبی کا آنا مبارک ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ائے محمد! یہ آپ کا اور آپ کی امت کا عالی مرتبت مقام ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس پر یہ آیت تلاوت کی کہ ’’ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں، جنھوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی (آخر الزماں( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم ) اور وہ لوگ ہیں جو (ان پر) ایمان لائے ہیں، اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے‘‘۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ائے محمد ! اپنی امت کو میرا سلام کہنا ۔ اور یہ بھی کہناکہ جنت عمدہ مٹی والی، میٹھے پانی والی ہے اور نرم زمین والی ہے اور جنت چٹیل میدان ہے جس کی شجرکاری (یہ کلمات ہیں(سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أکْبَرُ (وَلا حَوْلَ وَلا قُوّۃَ إِلا بِاللہِ) ہیں۔ پھر آپ ﷺ بیت معمور کے اندر داخل ہوئے اور اس میں نماز پڑھی۔ 
سلام کا جواب دینا واجب ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک جلیل القدر پیغمبر ہیں ۔ انھوں نے امت محمدیہ کو یعنی ہم سب کو سید کائنات فخر موجودات نبی آخر الزماں ﷺ کی زبانی سلام بھجوایا ہے۔ ہم لوگ جب آپس میں سلام کرتے ہیں تو سنت سلام کا جواب دینا واجب ہوجاتا ہے۔ سنت کا جواب واجب کیوں ہوجاتا ہے یہ ایک حکمت پر مبنی بحث ہے جس کا اشارہ ایک دوسرے مضمون میں کیا جاچکا ہے۔ لیکن جب اس طرح کا سلام ہم تک پہنچتا ہے ، گرچہ اس کا جواب دینا واجب نہیں ہوتا، لیکن اگر کوئی جواب دے دے تو یہ ایک مستحسن عمل ہے، لیکن سلام کے پیغام کا جو مقصد ہے، اس کے تقاضے پر عمل کرنا ہم سب کی ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ 

امت محمدیہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ممنون ہے

انسانی تقاضے کا فطری جذبہ ہے کہ جب کوئی اس پر احسان کرتا ہے، تو وہ شخص اس کا ممدوح اور یہ شخص اس کا ممنون ہوجاتا ہے۔اگر کسی انسان کو سفر درپیش ہوتا ہے ، تو وہ عارضی ٹھکانے کا بندوبست کرتا ہے ۔ اس عارضی منزل کے متعلق کوئی جان کار شخص یہ بتلادیتا ہے کہ یہ چیز وہاں نہیں ہوگی، اس کی تیاری آپ کو یہیں سے کرنی ہوگی، تو ہم اس کا انتظام کرکے چلتے ہیں اور اس شخص کا یہ کہتے ہوئے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ فلاں صاحب نے یہ چیز ہم کو بتلائی تھی ، اس لیے ہم نے انتظام کرلیا تھا، اور اس وجہ سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہورہی ہے۔جب عارضی ٹھکانے کے متعلق ہمارا جذبہ ایسا ہوتا ہے تو اگر کوئی شخص ہمیں ہمارے دائمی زندگی کے ٹھکانے کے متعلق پہلے سے آگاہ کرے، توغور کیجیے کہ ہمیں ان کا کتنا بڑا احسان مند ہونا چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمیں ہمارے دائمی مکان کے متعلق آگاہ کردیا ہے کہ پوری جنت ایک چٹیل میدان ہے اور اس میں ہمیں خود ہی شجر کاری کرنی ہوگی، تب جاکے وہ ہری بھری ہوگی اور اس کی شجر کاری کا طریقہ بھی بتلا دیا کہ جنت میں شجر کاری کا طریقہ یہ ہے کہ ہم درج بالا کلمات کا ورد کریں۔اور یہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیغامِ سلام پر عمل کرنے کا طریقہ ہے۔ 
ورد سے شجر کاری ممکن ہے؟
دور جدید کی ٹکنالوجی کی ترقیات نے اس خارق عادت سسٹم کو سمجھنا اور سمجھانا بالکل آسان کردیا ہے۔ آج ہم دور سے بیٹھے ایک بٹن دباتے ہیں اور دور دراز مقام پر بہت بڑی مشین حرکت میں آجاتی ہے۔ دبانا بھی قدیم سسٹم ہوچکا ہے، اب تو صرف بولنا کافی ہوجاتا ہے۔ کچھ معلومات ایسی بھی ہیں کہ اب بولنے کی زحمت کی بھی ضروررت نہیں ، صرف آنکھوں سے اشارہ کافی ہے۔ ہم آنکھ سے اشارہ کریں گے اور ہمارے سامنے ہمارا کام تیار ملے گا۔ جب انسانی تخلیق سے یہ سب کچھ ممکن ہورہا ہے، تو یہ بالکل بھی خلاف واقعہ نہیں ہوسکتا کہ اخروی زندگی کی شجر کاری کا اشاراتی کوڈ کلمات کا ورد کیوں کر ممکن ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس پیغامِ سلام پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ، اللھم آمین، یا رب۔ 
مآخذ و مصادر
(۱) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ مَرفُوعاً: لَقِیتُ إِبْرَاھیمَ لَیلَۃَ أُسْرِيَ بِي فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! أَقْرِءْ أُمَّتَکَ مِنِّي السَّلَامَ وَأَخْبِرْھُمْ أَنَّ الْجَنَّۃَ طَیبَۃ التُّرْبَۃِ عَذْبَۃُ الْمَاءِ وَأَنّھَا قِیعَانٌ وَأَنَّ غِرَاسَھَا: سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أکْبَرُ (وَلا حَوْلَ وَلا قُوّۃَ إِلا بِاللہِ).(سنن الترمذی، ابواب الدعوات، بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّسْبِیحِ وَالتّکْبِیرِ وَالتَّھْلِیلِ وَالتَّحْمِیدِ)
عبداللہ بن مسعود سے مرفوعا مروی ہے کہ: معراج کی رات میں ابراہیم سے ملا تو انہوں نے کہا: اے محمد ﷺ! اپنی امت کو میری طرف سے سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ جنت عمدہ مٹی والی، میٹھے پانی والی ہے اور نرم زمین والی ہے اور جنت چٹیل میدان ہے جس کی شجرکاری (یہ کلمات ہیں)سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أکْبَرُ (وَلا حَوْلَ وَلا قُوّۃَ إِلا بِاللہِ) ہیں۔
(۲) ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَاءِ السَّابِعَۃِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیلُ، فَقِیلَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِیلُ، قِیلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَیہِ؟ قَالَ: قَدْ أُرْسِلَ إِلَیہِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِشَیخٍ أَبْیضَ الرَّأْسِ وَاللِّحْیۃِ، وَإِذَا ھوَ مُسْتَنِدٌ إِلَی الْبَیتِ الْمَعْمُورِ، وَإِذَا ھُوَ یدْخُلُہُ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ لَا یَعُودُونَ إِلَیْہِ، فَقُلْتُ: مَنْ ھَذَا یا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: ھَذَا أَبُوکَ إِبْرَاھِیمُ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَیرٍ، وَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ ھَذِہِ مَنْزِلَتُکَ وَمَنْزِلۃُ أُمَّتِکَ ثُمَّ تَلیٰ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ أَوْلیٰ النَّاسِ بِإِبْرَاھِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَھَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاللَّہُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِینَ} آل عمران: 68) . فَدَخَلْتُ إِلَی الْبَیتِ الْمَعْمُورِ فَصَلّیتُ فِیہِ، (مسند الحارث،بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث،کتاب الایمان، باب ماجاء فی الاسراء)
بیت المعمور فرشتوں کا قبلہ ہے جس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے (عبادت اور طواف کے لیے)داخل ہوتے ہیں، وہ نماز پڑھتے ہیں اور پھر باہر نکل جاتے ہیں اور پھر ان کے علاوہ فرشتوں کا دوسرا گروہ عبادت و طواف کے لیے آتا ہے۔ اور ایک مرتبہ جو فرشتہ داخل ہوتاہے، اس کو پھر دوبارہ کبھی موقع نہیں ملتا۔ ان کی تعداد اتنی ہے کہ اللہ عزوجل کے سوا اور کوئی شمار نہیں کرسکتا۔
(۳) گوگل لون سسٹم میں سارے کام کے لیے صرف آنکھ کا ایک اشارہ کافی ہوگا۔ مزید معلومات کے لیے اس سسٹم کا مطالعہ کریں۔