27 Sept 2017

گھر کے نوادرات سے۔ محمد یاسین قاسمی جہازی


باسمہ تعالیٰ
تاریخ: ۱۹؍ ۷؍ ۱۹۸۸
شاعر دوراں ، مجسم دوجہاں جناب صادق صاحب زیدت حسناتکم
وعلیکم السلام ائے دل بری گر چشم دوری بدل حاضری
محب دل نواز، دوست دلدار، فریق غم خوار، تحفہ عقیدت ،تابندہ یادگار، شگفتہ نوبہار ؂
کون کہتا ہے کہ ہم تم میں جدائی ہوگی یہ ہوا کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
رفیق قلبی، شفیق جگری، حضرت گرامی کا مرسلۂ محبت نامہ زمین و آسماں کی خلاؤں کو معطر کرتے ہوا، چرند و پرند کو کیف و فرحت کا پیغام دیتا ہوا، جملہ حیوانات کو سلام کا پیغام پہنچاتا ہوا، آج بتاریخ ۱۷؍ جولائی کو بعد صلاۃ ظہر موصول ہوا، جس کو باسمہ تعالیٰ کھول کر مطالعہ کے میدان میں غرق ہوا۔جوں جوں میدان مطالعہ میں مصروف ہوتا گیا، نئی نئی باتیں و جدید اصطلاحات سے آشنا ہوتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا، بالآخر بعد مطالعہ قلب کو خوشی و مسرت حاصل ہوئی، جیسا کہ جب کشتی بھنور سے نکل کر ساحل کا قرب حاصل کرتی ہے، غرض اینکہ دل باغ باغ ہوگیا۔اور برسوں کے مرجھائے پھول کھل کر یہ ترانہ گانے و سنانے لگا ؂
آپ کو گل لکھوں یا آپ کو گلزار لکھوں یا لکھوں دل کہ دل و جان کا دلدار لکھوں
جام الفت جو ملا ہے تیرے ہاتھوں سے مجھے یا اسی جام کا دوبارہ طلب گار لکھوں
دل ہے سینے میں اور سینے میں تصویر تیری دیکھتا ہوں تجھے ہر روز کئی بار لکھوں
آپ کا نور ۔۔۔ میں ڈوبا ہوا سرفراز نامہ اک پرچۂ قرطاس کی شکل میں نظر نواز ہوا اور جب جواب کے واسطے قلم کو اپنے دست سے گرفت کیا تو خیالات کے دریچوں کو پھاڑتے ہوئے یہ صدا گونجی ؂
خط لکھاجاتا ہے اس کو جو کسی منزل پہ ہو تمھیں خط کی کیا ضرورت تم تو میرے دل میں ہو
گلستاں میں جب گیا مبہوت ہوکر رہ گیا کون سے پھولوں کو توڑوں تم بسے ہر گل میں ہو
آپ کی تصویر بے نظیر نے دل کے ایک گوشہ سے اپنے زخم تاباں کی نقاب کشائی کی، تو قلم ہاتھوں سے چھوٹ کر سرزمین راجستھان میں منہ کے بل گرپڑا اور زبان پر بے ساختہ یہ کلمات نثر کی شکل و صورت اختیار کرکے جاری و ساری ہوگیا۔
تجھے قدرت نے اپنے دست رنگیں سے بنایا ہے بہشت رنگ و بو کا تو سراپا اک نظارہ ہے
شبستان جوانی کا تو اک زندہ ستارہ ہے تو اس دنیا میں بحر حسن فطرت کا کنارہ ہے
بہر کیف اپنے دل کو قابو میں کرکے پھر دوبارہ قلم اٹھایا، تو میری مجبوری دیکھ کر قدرت کو بھی رحم آگیا اور اس نے میرے اندر صبر کے گنجینے و خزینے سے ایک مٹھی صبر وشکر عطا کی اور میرا قلم اس ذات کی تسبیح میں یہ گنگنا اٹھا ؂
لاریب خدائی کا ہر کام نرالے ہیں ہر شام اندھیرے ہیں، ہر صبح اجالے ہیں
بلبل کو چہک بخشی اور گل کو مہک بخشی تسبیح میں قدرت کی یہ چاند ستارے ہیں
اور جب صانع عالم کی طرف سے قلم میں ادائی ہوئی اور زبان و لسان میں گویائی ہوئی تو یہ الفاظ و کلمات اشعار کی شکل و صورت میں آراستہ و پیراستہ ہوکر کے روبرو ہوگئے ؂
پیشکش: گھر کے نوادرات سے۔ محمد یاسین قاسمی جہازی۔ ۲۷؍ ستمبر ۲۰۱۷۔ 
گھر میں موجود نوادرات میں دو صفحے کا یہ ناقص مضمون ملا۔ چوں کہ اس کے ساتھ کچھ تفصیل نہیں مل سکی، اس لیے نہ مرسل کا پتہ لگ سکا اور نہ ہی مرسل الیہ کے بارے میں کچھ جان کاری مل سکی۔ بہر کیف یہ نادر تحریر پیش خدمت ہے۔