25 Sept 2017

اہ! میری دادی ماں

اہ! میری دادی ماں
محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
لاشعوری آنکھوں سے دیکھے گئے کچھ مناظر، زندگی بھر شعور و آگہی کی روح پھونکتے رہتے ہیں۔زندگی کے معصوم لمحات کی لاشعوری یادیں ، یادوں کے تحت الشعور میں کچھ اس طرح بیٹھ جاتی ہیں کہ زندگی کے بڑے سے بڑے حادثات انھیں نہیں مٹاپاتے۔ پھر یہیں یادیں سرمایہ حیات بن کر تسلی حیات بن جایا کرتی ہیں۔ آج ہم کچھ ایسی ہی یادوں کے آنسو قلمبند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
جب ننھا معصوم اپنی تتلی زبان میں بولنے کا سلیقہ سیکھنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے، تو ماں باپ اسے اللہ ،محمد اور ابا امی کے ساتھ ساتھ دادا دادی بولنا بھی سکھاتے ہیں۔ اول الذکر دونوں نام چوں کہ عہد الست کی صدائے لبیک ہوتے ہیں، اس لیے بچہ کسی تجسیم کے بغیر ہی سیکھ لیتا ہے، لیکن بقیہ ناموں کی تعلیم کے لیے بچوں کے سامنے ان کی موجودگی ضروری ہوتی ہے؛ لیکن ناچیز کی اس تعلیم کے وقت دادا کا وجود کبھی بھی مجسم نہ ہوسکا، البتہ دادی کا وجود شفقت ہمیشہ سایہ فگن رہا، اس لیے فطری طور پر دادی ہماری تربیت اور لاشعوری یادوں کی بنیادی وجود کا حصہ رہی ہیں۔ 
میری دادی
ہم پانچ بھائی اور ایک ہمشیرہ ہیں۔ جن کی پرورش و تربیت کی ذمہ داری والدین کے علاوہ دادی کے کاندھے پر بھی تھی۔ہم نے دیکھا کہ انھوں نے اپنی ذمہ داری کو ذمہ داری سے زیادہ فرض سمجھ کر ہماری تربیت و پرورش کے فرائض انجام دیے۔ 
امتیازی خصوصیات
لاشعوری آنکھوں سے لے کر شعوری نگاہوں تک نے دادی صاحبہ کے اندر جو امتیازی خصوصیات دیکھیں ، وہ درج ذیل ہیں:
(۱) بچوں کی تربیت میں بے حد حساس
وہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے بہت زیادہ حساس طبیعت کی حامل تھیں۔ معاشرے کی گندی صحبتوں اور غلط سنگتوں پر خاص دھیان رکھتی تھیں۔ اگر بچہ کہیں باہر سے آرہا ہے، تو دادی صاحبہ پوچھ تاچھ کیا کرتی تھیں اور اگر اصلاح کی کوئی ضرورت محسوس کرتیں ، تو فورا ٹوکتیں۔
(۲)ہاڑی ٹھیک کرنے کی سماجی خدمت
دیہاتوں میں چھوٹے بچوں کو لاڈ پیار کرنے اور انھیں کھلانے کا معاشرتی رجحان پایا جاتا ہے، اور معاشرے کا ہر فرد کسی کے بھی اور کسی بھی بچے کو گود میں لینے اور انھیں بہلانے کا سماجی حق سمجھتا ہے۔ اس میں کبھی کبھار یہ حادثہ ہوجاتا ہے کہ کم سن بچوں کے گلے کی ہڈی چڑھ آتی ہے ،جسے ہماری زبان میں ’’ہاڑی لگنا‘‘ کہتے ہیں، جس کے بعد بچہ تکلیف کی وجہ سے مسلسل روتا رہتا ہے۔ معاشرے میں خال خال ہی بوڑھی عورتیں ہوتی ہیں، جو اس ہڈی کو بٹھانا جانتی ہیں ۔ میری دادی صاحبہ ان میں سے ایک تھیں، جنھیں اس کا کافی تجربہ تھا جس کی وجہ سے کبھی کبھارشام کو کافی بچے ہمارے یہاں جمع ہوجاتے تھے۔ اور دادی صاحبہ ان کی ہڈیاں بیٹھایا کرتی تھیں۔یہ کوئی پیشہ وارانہ کام نہیں تھا، بلکہ سماجی خدمت کا ایک پہلو تھا، جسے وہ بصد شوق انجام دیا کرتی تھیں۔البتہ کبھی کبھار بچوں کی ماوں کو غفلت برتنے کی تنبیہ کا سامنا کرنا پڑ جاتا تھا۔
(۳)پاکی صفائی کی انفرادی شناخت
دادی مرحومہ حد سے زیادہ پاکی کا اہتمام کیا کرتی تھیں۔ ان کا معمول تھا کہ کسی پاک کپڑے کو بھی جب تک تین پانی سے پاک نہ کرلیا جائے، اسے قبول نہیں کرتی تھیں۔ اس عمل سے وہ نئی نویلیوں اور چھوٹی بچیوں کو تعلیم بھی دیا کرتی تھیں اور انھیں پاکی صفائی کے ضروری مسائل پر بھی متوجہ کیا کرتی تھیں۔عمر رسیدہ افراد میں کپڑے کی عمدگی و صفائی کا اہتمام بہت حد تک کم ہوجاتا ہے اور دیہاتی معاشرے میں یہ تقریبا معدوم ہی ہے، لیکن ہماری دادی صاحبہ ان سے بالکل الگ تھیں۔ صاف ستھرے کپڑے اور عمدہ لباس کا ہمیشہ اہتمام کیا کرتی تھیں اور اس معاملے میں اپنے معاشرے میں ایک انفرادی شناخت رکھتی تھیں۔
(۴)نماز و اذکار کی بے حد پابند
نمازکی پابندی اور ذکرِ اوراد، دادی صاحبہ کی گویا فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ وہ کوئی پڑھی لکھی عورت نہیں تھیں، تاہم وہ جو کچھ بھی جانتی تھیں، اس پر پابندی سے عمل کرتی تھیں۔ ایام طالب علمی میں چھٹی کی مناسبت سے جب گھر آتے تھے، تو دادی صاحبہ عموما یہ کہتیں کہ کچھ دین کی باتیں بتاو۔ کچھ دعائیں سکھلاو۔ پھر جو کچھ انھیں بتادیا جاتا، وہ اسے معمولات میں شامل کرلیتی تھیں۔
(۵)دعاوں کی کثرت
ان کی امتیازی خصوصیت یہ بھی تھی کہ دعاوں کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتی تھیں۔ خود بھی دوسروں کے لیے دعائیں کرتی تھیں اور دوسروں سے بھی دعاوں کی گذارش گویا ان کا تکیہ کلام تھا۔ حتیٰ کہ اپنے پوتے پوتیوں سے بھی دعائیں لینے دینے کا ان کا عام معمول تھا۔ اور ناچیز کا یہ عندیہ ہے کہ ہمارے حق میں ان کی دعائیں ہمیشہ قبولیت سے مشرف ہوئی ہیں اور شاہراہ حیات کی پرخطر موڑ پر ان کی دعاوں نے ہی سہارا دیا ہے۔ 
(۶)روح کی تربیت
ہماری دادی گرچہ دیہات میں پیدا ہونے والی ، اسی ماحول میں نشو ونما اور تربیت پانے والی اور اسی سماج میں پوری زندگی کاٹ دینے والی ایک گھریلو عورت تھیں۔ دنیا اور اس کے متعلق اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ ہم کس ملک میں رہتے ہیں اور ٹرین کس طرح کی سواری ہوتی ہے، تاہم کلام پاک کی تلاوت جانتی تھیں اور اوراد و وظائف کے کلمات بحسن و خوبی ادا کر لیتی تھیں۔ اور یہ شاید ان کے بڑے ابانمونہ اسلاف حضرت مولانا منیرالدین صاحب نور اللہ مرقدہ بانی مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کی تعلیم و تربیت کا اثر تھا۔عقیدے کی پختگی ، بدعت سے نفرت اور گناہوں سے پرہیز انھیں وراثت میں ملا تھا۔ لڑائی جھگڑا اور فضول گوئیوں سے وہ ہمیشہ دور رہتی تھیں۔عورتیں عموما کثیر گو ہوتی ہیں، لیکن یہ ذاتی مشاہدہ ہے کہ انھیں ہمیشہ تنہائی پسند اور تنہائیوں میں ہمیشہ ہاتھ میں تسبیح دیکھی۔اور ان سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ نماز کی بے حد پابند تھیں۔ ان کا معمول تھا کہ ادھر مسجد سے صدائے اللہ اکبر لگائی جاتی تھی اور ادھر لوٹا ہاتھ میں لیے وضو کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی تھیں۔ میں نے جہاں تک ان کی زندگی دیکھی، اس میں کبھی نہیں دیکھا کہ نماز کو قضا ہونے دیا ہو۔ اسی طرح فرض روزوں کے ساتھ ساتھ نفلی روزوں کا بہت زیادہ اہتمام کرتی تھیں، حتیٰ کہ آخری عمر کی بے پناہ کمزوریوں کے باوجود شوال کے روزے کو ترک نہیں کیا۔
(۷) حضرت فدائے ملت نور اللہ مرقدہ سے بیعت
ایمان و عمل کی یہ پختگی اور پابندی دیکھ کر راقم نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ ضعیفی کے باوجود آپ اتنی پابندی سے سارے اعمال کیسے انجام دے لیتی ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ گاوں میں مولانا مدنی صاحب آئے تھے۔ ان کا قیام مدرسے میں تھا ، بعد میں وہ مولانا مظہر الحق صاحب شاگرد شیخ الاسلام ؒ کے مکان میں تشریف لائے ، جس میں گھر کے ایک طرف مولانا بیٹھے اور دوسری طرف گاوں کی عورتیں تھیں۔ پھر ایک لہنگا منگوایا گیا۔ جس کا ایک کنارہ مولانا نے پکڑا اور دوسرا کنارہ ہم عورتوں کی طرف بڑھایا گیا۔ محفل میں موجود سبھی عورتوں نے لہنگے کو پکڑا اور مولانا سے بیعت ہوئیں۔ بیعت کے بعد مولانا کی تقریر ہوئی، جس میں انھوں نے کہا کہ جو عورتیں بیعت ہوئی ہیں، ان کے لیے خصوصی ہدایت یہ ہے کہ کبھی بھی اور کسی بھی حال میں نماز نہ چھوڑنا، اگر نماز چھوڑو گی تو بیعت ختم ہوجائے گی۔ اسی طرح کبھی جھوٹ مت بولنا اور غیبت سے بالکلیہ پرہیز کرنا۔ بعد ازاں کچھ وظیفے پڑھنے کے لیے بتائے ۔ پھر دعا ہوئی ۔ اور مولانا نے ہی دعا کرائی۔
شاید یہ مولانا مدنی نور اللہ مرقدہ کی تعلیم و ارشاد کا کیمیائی اثر تھا جو زندگی بھر انھیں نماز روزے کی پابندی کی توفیق ارزانی ہوئی۔میں نے دادی سے مولانا مدنی کا نام معلوم کیا، تو وہ نام بتانے سے قاصر تھیں، البتہ راقم نے بعد میں تحقیق کیا، تو معلوم ہوا کہ مولانا مدنی سے مراد فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ تھے، جومولانا مظہر الحق صاحب سابق جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ضلع گڈا جھارکھنڈ کی دعوت پر مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے جلسہ میں ۱۹۶۹ ء میں تشریف لائے تھے ۔ اور ان سے گاوں کے سینکڑوں مرد و عورتیں بیعت سے مشرف ہوئی تھیں، جن میں ابھی بھی کچھ حضرات باحیات ہیں۔
احوال زندگی
دادی کا نام بی بی خاتون ہے۔ والد محترم کا نام عبدالرحمان برادر حضرت مولانا منیر الدین نور اللہ مرقدہ، ابن نصیر الدین عرف نسو ابن پھیکو ابن بھولی ابن دروگی شیخ تھا۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب محفوظ نہیں ہے اور بسیار تلاش کے باوجود ہمیں کچھ نہیں مل سکا۔ دادی صاحبہ بہن میں اکیلی تھیں اور بھائی بھی صرف ایک ہی تھا، جن کا نام مولانا محمد اسلام ساجد مظاہری ہے دادی کا آبائی مکان جہاز قطعہ کے اتری حصے میں تھا، جس میں ابھی دادی کے بھتیجے جناب اطہر صاحب کی رہائش ہے۔آپ کی ابتدائی تاآخری تعلیم گاوں کے ہی مدرسے میں ہوئی، جس کے سکریٹری آپ کے دادا جان تھے۔اور والد محترم استاذ تھے۔ تعلیم و تربیت کے بعد آپ کی شادی گاوں میں ہی جناب نصیر الدین صاحب مرحوم سے ہوئی۔ ان کا مکان گاوں کے دکھنی حصے میں جامع مسجد کے مغربی سمت میں واقع ہے اور جہاں فی الحال راقم کی رہائش گاہ ہے۔ ان کا سلسلہ نسب اس طرح ہے : نصیر الدین ابن تاج علی ابن شیخ پھیکو ابن شیخ لوری۔ ہمارے دادا جناب نصیر الدین صاحب نیک طینت اور صوم و صلاۃ کے پابند شخص تھے، جماعت میں جانا ان کا محبوب عمل تھا۔ کھیتی کرتے ہوئے سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے ۱۹۷۵ میں ان کا انتقال ہوا۔ 
اولاد و احفاد
دادا دادی صاحبان کی چار اولادیں تھیں ، جن میں علی الترتیب جناب محمد مظفر حسین، جناب محمد منور، بی بی محمودہ اور جناب محمد فیروز صاحبان ہیں۔ ان میں محمد منور صاحب بچپن میں ہی انتقال کرگئے تھے۔جناب مظفر حسین صاحب کے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی ہے، جن کے نام علیٰ الترتیب درج ذیل ہیں: محمد فاروق تاریخ پیدائش:12/جولائی بروز بدھ1978،مطابق 5/شعبان 1398۔محمد محسن تاریخ پیدائش:11/جنوری بروز سوموار 1982،سوا نو بجے دن۔محمد یاسین تاریخ پیدائش:3/جنوری بروز سنیچر آخری رات بقرب صبح اتوار 1984۔محمد عارف تاریخ پیدائش: 22/اکتوبر بروز اتوار 1986 ۔ محمد تحسین ۔ اور ایک لڑکی بی بی عشرت۔ بی بی محمودہ کی شادی ۱۸،۱۹ ؍ مئی ۱۹۸۲ میں جھپنیاں میں ہوئی۔ ان کو تین اولادیں ہیں اور سب لڑکیاں ہیں، جن کے نام ہیں: بی بی غفرانہ، بی بی خوشتری، بی بی احسانہ۔ متوسط الذکر راقم سے منسوب ہیں۔اور جناب فیروز صاحب کی تین اولادیں ہیں، جن میں دو لڑکے شاہنواز اور فیاض ہیں اور ایک لڑکی ہے ، جس کا نام بی بی سفینہ خاتون ہے۔اس طرح سے دادی صاحبہ کے سات پوتے، دو پوتیاں اور تین نواسیاں ہیں۔اور الحمد اللہ سبھی باحیات ہیں ۔
بیوگی
دادی مرحومہ کی زندگی کا بیشتر عرصہ بیوگی میں گذرا ہے۔ والد محترم کے بیان کے مطابق ان کی عمر کل چودہ سال تھی اور دادا کا انتقال ہوگیا تھا۔ چچا فیروز صاحب جو اولاد میں سب سے چھوٹے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے والدکا چہرہ یاد نہیں ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تقریبا نصف صدی کی زندگی بیوگی میں گذری ہے۔ بیوگی کے زخم کا احساس وہی کرسکتا ہے، جسے اس کا عملی تجربہ ہو، اس کو بیان کرنے کے لیے نہ ہمارے پاس الفاظ ہیں اور نہ ہی چند لکھے الفاظ اس احساس سے لذت آشنائی پیدا کرسکتے ہیں۔ لاشعوری یادوں میں بیوگی کے درجنوں کہانیاں موجود ہیں، جو ان شاء اللہ کبھی کسی دوسرے موقع پر سینے سے کاغذ پر منتقل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
حادثہ فاجعہ
تقریبا آخری عمر تک دادی صحت مند رہیں، چلنا پھرنا اور زندگی کے سبھی معمولات خود سے ہی انجام دے لیا کرتی تھیں۔ ۱۷؍ اگست ۲۰۱۷ بروز جمعرات کو بخار آیا، جس کی وجہ سے کافی کمزور ہوگئیں، لیکن بفضل الٰہی صحت یاب ہوگئیں۔ پھر ۲۵؍ اگست بروز جمعہ بوقت تہجد وضو کے لیے بیدار ہوئیں۔ بجلی غائب تھی اور اندھیرا چھایا ہوا تھا، جس کی وجہ سے وہ خود کو سنبھال نہ سکیں اور زینے سے گر گئیں۔ اس حادثہ سے ان کا دایاں پیر کا کولہا ٹوٹ گیا اور چلنے پھرنے سے بالکل معذور ہوگئیں۔اٹھارہ دن مسلسل اسی حالت میں رہیں، بالآخر ۱۱؍ ستمبر بروز پیر دوپہر بعد سے سانسیں اکھڑنے لگیں، پہلے سننا بند کیا، پھر بولنے کی طاقت بھی چلی گئی۔ مغرب کا وقت ہوتے ہوتے آنکھیں بھی بند کرلیں۔ اور پھر جوں جوں وقت آگے بڑھتا گیا، سانس کا وقفہ بڑھتا گیا۔ بالآخر عشا کا وقت آتے آتے ، وقت اجل بھی آ پہنچا اور ۹؍ بج کر ۱۷ منٹ پر آخری سانس لے کر ہمیشہ کے لیے آغوش رحمت میں چلی گئیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
صدمہ 
راقم عشا کی نماز کے لیے گھر سے دو سوقدم پر واقع جامع مسجد گیا ہوا تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے جماعت ہوئی۔ نماز سے فراغت کے بعد گھر پہنچا، حسب معمول زیارت کنندگان کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ گھر پہنچنے سے پانچ منٹ بھی نہیں گذرے تھے کہ حادثہ فاجعہ پیش آیا۔ موت و حیات کی خبریں سننا تو زندگی کا تسلسلی واقعہ ہے ، لیکن پہلی بار خبر سن کر جس صدمہ کا احساس ہوا، اس کے بیان کرنے کے لیے میرے پاس کوئی زبان نہیں ہے۔ زندگی کا یہ پہلا حادثہ تھا جو اپنے کسی عزیز کے انتقال کا منظر دیکھا تھا۔ المختصر خود کو سنبھالتے ہوئے گھر کے دیگر ممبران کو بھی حوصلہ رکھنے کی تلقین کی اور متعلقین کو اطلاع دینے کے لیے کچھ لوگوں کو واٹس ایپ کیا اور کچھ لوگوں کو فون کیے۔ 
تجہیز و تکفین
تقریبا آدھ ایک گھنٹے کے بعد حسب روایت دراوزے پر گوتیہ کی میٹنگ ہوئی، جس میں تما م رشتہ داروں کو اطلاع دینا، آنے والے مہمانوں کے قیام و طعام کا انتظام اور تجہیز و تکفین کے امور طے کیے گئے اور یہ طے پایا کہ بعد نماز ظہر جنازے کی نماز ادا کی جائے گی۔حسب فیصلہ اگلے دن یعنی ۱۲؍ ستمبر ۲۰۱۷ ، بروز منگل بعد نماز ظہر ۲؍ بج کر ۴۲ ؍ منٹ پر نماز جنازہ ادا کی گئی۔ امامت حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند و سرپرست مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ نے فرمائی۔ بعد ازاں آبائی قبرستان کے مغربی حصے کے وسط میں سپرد خاک کردی گئیں۔
ایصال ثواب
جوں جوں متعلقین و احباب کو اطلاع ملتی رہی، توں توں ان کے فون ، میسج اور واٹس ایپ آنے شروع ہوگئے۔ ہر ایک نے تعزیت پیش کرتے ہوئے ایصال ثواب کرنے کا وعدہ کیا۔ درجنوں مقامات پر قرآن خوانی اور دعائے مغفرت کا اہتمام کیا گیا۔ جن لوگوں نے خصوصیت کے ساتھ اہتما م کیا اور اطلاعات بھی دیں، ان میں مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی، سکریٹری جمعیۃ علماء ہند، مولانا اسجد صاحب مہتمم جامعہ کاشف العلوم احمد آباد گجرات، مولانا غیاث الدین جامعہ حسینیہ مدنی نگر ،، مولانا سالم صاحب کانپور،قاری عبد الباقی صاحب جامعہ انوار شرافت غازی آباد یوپی، مولانا ہارون رشید صاحب دہلی، مولانا محسن اعظم صاحب مصباح العلوم بانکا بہار، قاری کلیم الدین صاحب مدراس، جناب عمر بن سالم العیدروس المحضار سعودی عرب،مفتی نظام الدین صاحب جلال آباد، مفتی عبد الرحمان صاحب جامعہ محمود العلوم گڈا، مولانا طلحہ و مولانا عبداللہ صاحبان جہاز قطعہ، مولانا تحسین دارالعلوم دیوبند ، ہفت روزہ الجمعیۃ جمعیۃ علماء ہنداور درجنوں مدارس و مساجد کے نام شامل ہیں۔ 
کلمات شکر و شکیب
ہمارے بہت سے محبین و مخلصین نے خصوصی طور پر ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کا اہتمام کیا تھا۔ ان میں سے بعض وہ تھے، جنھوں نے تعزیت پیش کرتے ہوئے اس کا اظہار بھی کیااور بہت سوں نے غائبانہ طور پر اس فریضے کو انجام دیا۔ ناچیز نے ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کیا، جس کے الفاظ درج ذیل تھے کہ دادی صاحبہ کے انتقال کی خبر کے بعد ہمارے بہت سے متعلقین، محبین، اکابرین، ذمہ داران مدارس، ائمہ مساجد اور نیک خصال افراد نے فون، واٹس ایپ اور میسج کے ذریعے اظہار تعزیت کیا اور ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کا اہتمام کیا۔ ناچیز ان تمام حضرات کا مشکور و ممنون ہے اور مزید دعاوں کی درخواست کرتا ہے۔
رسمی ایصال ثواب کا خاتمہ
ہمارے علاقہ میں ایک قدیم رسم یہ چلا آرہا ہے کہ انتقال کے دوسرے دن میت والے کو تدفین میں شرکت کے لیے آئے تمام مہمانوں کی دعوت کرنی پڑتی ہے اور ایک فنکشن کے طور پر اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہمارے گھر پر بھی اس رسم کی بات اٹھائی گئی، لیکن الحمد اللہ انھیں صحیح طریقہ بتانے کے بعد لیت و لعل نہ کرسکے ۔ اور اس طرح سے ایک غلط رسم کے خاتمہ کی طرف پہلا قدم اٹھایا گیا۔ دعا فرمائیں کہ اس اقدام سے علاقے میں رائج اس رسم کا بالکلیہ خاتمہ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ اپنی مرضیات پر چلنا آسان فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
بعد از مرگ فریضہ من و تو
زندگی اور موت کا فلسفہ کیا ہے، اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا میں ہر ذی روح کے آغازکا نام زندگی ہے اور آخری انجام کو موت کہا جاتا ہے۔ یہ آخری انجام دراصل حقیقی و دائمی زندگی کا نقطہ آغاز ہے۔اور اس سے پہلے جوبھی زندگی تھی، وہ محض بعد کی زندگی کے لیے ایک فرصت اور موقع۔ انسان کی خوبی یہ ہے کہ وہ غلطی کرتا ہے، لیکن اس کا کمال یہ ہے کہ اس غلطی کی اصلاح کی کوشش کواپنا نصب العین بنالے۔اور چوں کہ اس کی ترکیب میں غلطی و کوتاہی بھی شامل ہے، اس لیے کمال کی تکمیل میں کمی رہ جانا اس کا فطری خاصہ ہے، اسی لیے حدیث میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ فرصت و موقع کی زندگی کے دور سے گزر رہے افراد اپنے پس مرگ حضرات کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کرتا رہے، تاکہ مردگان کے کمال کی تکمیل ہوتی رہے۔ 
ایک باحیات انسان دوسرے خفتگان خاک کے لیے اگر کچھ کرسکتا ہے ، تو وہ یہی کرسکتا ہے کہ ان کے لیے دعا کرے۔ اور اس سے بڑا ان کے لیے کوئی احسان نہیں ہوسکتا؛ البتہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جو دوسرے کے لیے مغفرت کا اہتمام کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ان کے مرنے کے بعد دوسرے افراد کوان کی مغفرت کا اہتمام کرنے والا بنا دیتا ہے اور اس طرح سے اپنے سے پہلے مردے پر کیے احسان کا صلہ پاتا ہے، تو آئیے ہم بھی اس سلسلے کا حصہ بنتے ہوئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دادی مرحومہ کی قبر کو نور سے بھردے۔ ان کی بال بال مغفرت فرمائے۔ اورانھیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اللھم آمین یا رب۔