ہائے توبہ!۔۔۔ توبہ ابھی تک قبول نہیں ہوئی؟
محمد یاسین قاسمی، جہازی
۱۰؍ محرم۶۱ ھ مطابق ۱۰؍ اکتوبر ۶۸۰ ء کو ایک طرف سے عمرو بن سعداپنی فوج لے کر نکلا ،ادھر دوسری طرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے حامیوں کی صفیں قائم کیں۔ ادھر سے چھ ہزار فوج تھی جب کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کل ۷۲؍ آدمی تھے۔جب صفیں تیار ہوگئیں تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فوجوں کے سامنے نہایت پرجوش تقریر کی ، جس میں انھوں نے کہا کہ میرا حسب و نسب یاد کرو، میں کون ہوں؟ کیا میں تمھارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں؟ کیا سید الشھدا حضرت حمزہ میرے چچا نہیں تھے؟ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان میرے بارے میں نہیں سنا کہ الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ؟، سنو ، ذرا غور کرو ! تم اپنے دل سے پوچھو کہ تمھیں میرا قتل کرنا جائز ہے ؟ اس وقت پورے روئے زمین پر میرے علاوہ نبی کا نواسہ کوئی نہیں ہے ، کیا تم نواسہ نبی کے خون کے پاسے ہو؟ کیا تم اس پیشانی کو زخمی کروگے جس کو بارہارسول خدا چوما کرتے تھے، کیا ان آنکھوں کو بینائی سے محروم کروگے ، جنھوں نے رسول اللہ کا دیدار کیا ہے، یہ میرے سر پر پگڑی دیکھوسرور کائنات ﷺ کی ہے ، کیا تم اسے خاک و خون میں غلطاں کروگے، میرے ہاتھ میں یہ تلوار حیدر کرار کی ہے، کیا تم اس سے مقابلہ کروگے۔
بہر کیف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کسی بات کا ان پر اثر نہیں ہوا اور عمرو ابن سعد نے پہلا تیر چلاتے ہوئے جنگ کاآغاز کردیا۔ایک ایک کرکے فدائے حسینی شہید ہوگئے ، یہاں تک کہ خاندان نبوت کے ایک ایک چراغ جام شہادت نوش کرتے چلے گئے ، سب سے پہلے علی اکبر شہید ہوئے ۔پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت قاسم نے جام شہادت پیا۔ عین لڑائی کے دوران حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کان میں اذان دینے کے لیے بچہ کو گود میں لیا ہی تھا کہ ایک تیر آیا اور اس نومولود بچے کو زخمی کر شہید کرگیا۔ آپ نے وہ تیر حلق سے کھینچا تو خون کا فورا پھوٹ پڑا،آپ نے خون کو چلومیں لیااوراسے آسمان کی طرف اچھال دیا ۔ پھر رب سے ایک التجا کی کہ ائے اللہ! اگر تو نے ہم سے اپنی نصرت روک لی ہے، تو وہی کر جس میں بہتری ہے۔
اب قافلہ حسینی میں صرف آپ رضی اللہ عنہ کی ذات باقی تھی ۔ آپ میدان میں آئے ۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو شدت کی پیاس محسوس ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ پانی پینے کے لیے فرات کی طرف بڑھے ، لیکن دشمن نے ایک تیر مارا جو حلق میں لگا اور خون کے فوارے نکلنے شروع ہوگئے۔زرعہ بن شریک تمیمی نے بائیں ہاتھ اور شانے پر تلوار ماری جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ گھوڑے سے گر گئے ۔ گرنے کے باجود آپ کے رعب و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ کوئی شخص قریب جانے کی ہمت نہیں جٹا پارہا تھا ۔ یہ منظر دیکھ کر شمر چلایا اور کہا کہ دیکھتے کیا ہو، آگے بڑھو اور کام تمام کردو، اس کی کرخت آواز پر سنان بن انس نخعی آگے بڑھا اور آپ کے سر کو تن سے جدا کردیا ۔اتنا ہی نہیں، ان ظالموں نے گھوڑے دوڑا کر نعش مبارک کو روند ڈالا ۔
تاریخی شہادت کے مطابق قافلہ حسینی کے ۷۲ افراد کو انتہائی بے دردی اور بے چارگی کے عالم میں اہل کوفہ نے قتل کردیا۔ بقیہ جاں نثاروں میں صرف پانچ مرد اور سات عورتیں کل بارہ افرادزندہ بچ گئے ، جن میں اکثر بچے تھے۔ مردوں میں (۱) حضرت زین العابدین جناب حضرت حسین رضی اللہ عنہ۔(بیٹا)۔(۲)حضرت محمد باقر رحمہ اللہ ابن جناب حضرت زین العابدین۔( پوتا)۔(۳)حسن مثنیٰ ابن حضرت حسن رضی اللہ عنہ (بھتیجا)۔ (۴) مرقع ابن ثمامہ اسدی۔(یکے از جاں نثار حسینی)۔(۵) اور عقبہ ابن سمعان۔(غلام زوجہ حضرت حسین محترمہ رباب) ۔ اور خواتین میں امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں:(۱)حضرت زینب بنت فاطمہ و علی رضی اللہ عنہ۔(۲)فاطمہ بنت علی رضی اللہ عنہ۔ (۳)زینب صغریٰ ، کنیت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ، زوجہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔ اور(۴) ام حسن بنت علی رضی اللہ عنہ۔ اورحضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بیٹیاں:(۵)فاطمہ بنت حسین۔ (۶)سکینہ بنت حسین(۷)اورفاطمہ صغری بنت حسین زندہ چھوڑ دیے گئے تھے۔ خاندان نبوی کے چشم و چراغ پر مشتمل اس بارہ نفری قافلہ کو پہلے لوٹا گیا۔ پھر کوفہ لے جایاگیا۔ وہاں پھرسے دمشق۔ اور دمشق کے بعد ،مدینہ منورہ پہنچایا گیا۔
یہ حرکت کسی اور نے نہیں؛ بلکہ اسلام کے نام لیواوں نے نبی کے خاندان والوں کے ساتھ بے حرمتی کی تھی، لہذا اس کا رد عمل اور قہر الٰہی کا نزول ہونا ہی تھا۔ چنانچہ انتقام حسین کے جذبے سے کوفہ میں ہی ایک تحریک اٹھی، جس کا نام توابین تھا۔ اور اس کی سربراہی سلیمان بن صرد کر رہا تھا۔ یہ تحریک اس نظریے کی پیداوار تھی کہ ہم شیعوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی، لیکن جب وہ تشریف لے آئے تو ہم نے ساتھ چھوڑ دیا،لہذا یہ ایسا گناہ ہے کہ اس کا کفارہ ادا کیے بغیر ہم بخشے نہیں جائیں گے۔ چنانچہ وہ یا لثارات الحسین کا نعرہ لگا کر میدان میں آئے اور اس وقت سے لے کر آج تک گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے میدان ماتم میں حیران و ششدر ہیں۔
آپ دیکھیں گے کہ جب محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتا ہے ، تو یہ اپنے آپ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بد عہدی کے گناہ کا اقراری مجرم قرار دے کر اس کی تلافی کے لیے خود کوسزا دیتے ہیں۔
ایک دوسری تاریخ کے مطابق توابین دراصل وہی قاتلان حسین ہیں، جنھوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ بلایا۔ کیوں کہ میدان جنگ کربلامیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان کو ان کے خطوط دکھائے تھے اور کہا تھاکہ میں خود نہیں، بلکہ تمھارے ان خطوط کی دعوت کی وجہ سے آیا ہوں۔ پھر فطرت سے مجبور ہوکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو پہلے بے دردی سے قتل کیا۔ پھر قتل اور فتح کی خوشی میں جشن منایا۔ جشن مناتے ہوئے انھوں نے غرور کے پھیریرے اڑائے۔ تلوار کو لہرایا۔ نیزے کی چمتکاری کی نمائش کی۔ خوشی میں ڈھول بجا بجاکر جھومے۔ اور سر حسین کو بھالے کی نوک پر اچھال اچھال کر اپنی غداری اور شیعیت کا ثبوت دیا۔
بہرحال معاملہ جو بھی ہو۔ شریعت اور اسلام کا مزاج یہ ہے کہ ڈھول، تاشے، اور غرور کی نمائش ناجائز ہے۔ اسی طرح شریعت کی مقدس تعلیم یہ بھی ہے کہ جو شخص گناہ کرتا ہے، صرف وہی شخص، اس گناہ کی سزا کا موجب ہوتا ہے، وہ گناہ نسل در نسل منتقل نہیں ہوتا۔ ایک شخص کے گناہ کی وجہ سے پورا نسب اور خاندان تباہ نہیں ہوتا۔ اس لیے محرم الحرام کے مہینے میں ماتم و توبہ کرنے والوں سے سوال یہ ہے کہ آپ کے آبا و اجداد نے ایسا کونسا اور کس خطرناک قسم کا گناہ کیا تھا کہ صدیاں بیت گئیں، اور گناہ نہیں مٹا۔۔۔؟ اس واقعہ کے افسوس پر روتے روتے اشکوں کے سمندر بہہ گئے۔ خون کی ندیاں رواں ہوگئیں۔ بدن لہو لہو ہوگیا اور اس کے باوجود گناہ ہے کہ دھلتا ہی نہیں۔۔۔؟