29 Sept 2017

مختصر واقعہ شہادت حضرت حسین رضی اللہ عنہ

مختصر واقعہ شہادت حضرت حسین رضی اللہ عنہ
محمد یاسین قاسمی دعوت اسلام جمعیۃ علما ہند
رابطہ: 9871552408
E-mail: yaseenjahazi@gmail.com 
حضرت علیؓ نے کوفہ کو اپنا دارالخلافہ قرار دیا تھا ۔ اس لیے وہاں ان کے حامی بہت زیادہ تھے۔حضرت علی کی شہادت کے بعد لوگوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلیا۔ آپ کے اعلان خلافت سے اہل شام نے کوفہ پر حملہ کا ارادہ کیا اور دونوں فوجوں کا مدائن میں سامنا ہوا، لیکن قبل از جنگ حضرت حسن نے خلافت سے دستبرداری پر صلح کرلی ۔اور حضرت امیر معاویہ کو بادشاہ تسلیم کرلیا گیا۔حضرت امیر معاویہؓ کے انتقال کے بعد کوفیوں نے یزید کو اپنا خلیفہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور حضرت حسین کو لکھا کہ آپ تشریف لائیے ۔ ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ ادھر یزید نے حاکم مدینہ ولید بن عتبہ کو لکھا کہ وہ یزید کے لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت لیں ، جب قاصد کے ذریعے یہ خبر ان تک پہنچائی ، تو انھوں نے کہا کہ مجھ جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کرسکتا ، جب بیعت عام ہوگی تو میں بھی آجاوں گا۔ اور یہ کہہ کر مدینہ سے مکہ چلے آئے اور کوفیوں کے خطوط کے پیش نظر پہلے اپنے چچا حضرت مسلم بن عقیل کو بیعت کے لیے بھیجا ۔ جب حضرت مسلم وہاں پہنچے تو حالات کو سازگار پایا اور اٹھارہ ہزار کوفیوں نے حضرت حسین کے نام پر آپ کے ہاتھ پر بیعت کیا، جس کی وجہ سے انھوں نے حضرت حسین کو لکھ دیا کہ آپ تشریف لائیں ، یہاں کے حالات سازگار ہیں۔ خط پاکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ سفر کی تیاری کرنے لگے حالاں کہ روانگی کی خبر سن کر حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ ،حضرت عبداللہ ابن جعفرؓ اور دیگر حضرات نے یہی مشورہ دیا کہ عراق والے دغاباز ہیں۔ آپ وہاں جانے کا ارادہ ترک کردیجیے؛ لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ پھر بھی نکل پڑے۔مکہ سے روانگی کے راستے میں مقام صفاح پر مشہور شاعر فرزدق سے ملاقات ہوئی تو ان سے وہاں کے حالات پوچھے جانے پر ان کاجواب تھا کہ ان کے دل آپ کے ساتھ ہیں؛ مگر تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔
نواسہ رسول کی آمد کی خبر سن کر اہل عراق بہت زیادہ پرجوش ہوگئے۔ یہ جوش دیکھ کر حاکم عراق عبیداللہ ابن زیاد کی سخت گیری شروع کردی ، جس سے اہل کوفہ ڈر گئے اور حضرت مسلم ابن عقیل کا ساتھ چھوڑرتے چلے گئے، یہاں تک کہ آپ جب کوفہ کی مسجد میں پہنچے ، تو اٹھارہ رہزار میں سے صرف تین آدمی آپ کے ساتھ رہ گئے تھے۔ پھر بالآخر آپ کو شہید کردیا گیا۔
زرود یا ثعلبیہ نامی مقام پر مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی، تو آپ نے واپسی کا ارادہ فرمالیا ، مگر ان کے رشتہ داروں کی ضد کی وجہ سے پھر عا زم سفر ہوگئے۔قادسیہ سے تھوڑا آگے بڑھے تو والی عراق عبید اللہ بن زیاد کے عامل حصین بن نمیرتیمی کی طرف سے حر بن یزید حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا راستہ روکنے کے لیے ایک ہزار فوج لے کر آگئے ، دونوں میں گفت و شنید ہونے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس راستہ کو اختیار کریں گے جو نہ کوفہ جاتا ہو اور نہ مدینہ۔اور حر اپنی فوج کے ساتھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ رہا اور کہیں جانے دینے سے راستہ روکے رکھا، بالآخر ۲؍ محرم الحرام ۶۱ ہجری مطابق ۲؍ اکتوبر ۶۸۰ ء کو عبیداللہ بن زیاد کی طرف ایک خط آیا جس میں یہ لکھا تھا کہ حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں کو کہیں جانے مت دو اور ایک ایسی جگہ اترنے پر مجبور کرو جو چٹیل میدان ہو ، پانی کا انتظام نہ ہو ، غرض وہاں کوئی بھی وسائل حیات میسر نہ ہو۔ چنانچہ حر نے اس خط پرعمل کرتے ہوئے مقام کربلا پر اترنے پر مجبور کردیا۔
۳ ؍ محرم کو عمرو ابن سعد ،ابن زیاد کے حکم سے چار ہزار اور بروایت دیگر چھ ہزار فوج لے کر یہاں پہنچ گیا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے آنے کا سبب معلوم کیا ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیتے ہوئے کوفہ والوں کی طرف سے بھیجے گئے دعوتی خطوط دکھائے اور کہا کہ میں کوفہ والوں کے بلانے پر آیا ہوں۔لیکن اگر میرا آنا گوارا نہیں ہے ، تو میں لوٹ جانے کے لیے تیار ہوں۔یہ بات عمرو بن سعد نے عبیداللہ بن زیاد کو بتائی ، تو اس نے لکھا کہ پنجہ میں پھنسنے کے بعد نجات پانا چاہتا ہے، اس لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر سختیاں بڑھا دو۔ معاملہ کے سلجھانے کے لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عمرو بن سعد کے ساتھ کئی خفیہ ملاقاتیں کیں ،جن میں آپ رضی اللہ عنہ نے تین صورتیں پیش کیں کہ 
(۱) جہاں سے میں آیا ہوں مجھے وہیں لوٹ جانے دو۔
(۲) مجھے خود یزید سے اپنا معاملہ طے کرنے دو۔
(۳) مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر نکل جانے دو۔
اس مضمون پر مشتمل ایک خط عمرو بن سعد نے عبیداللہ بن زیاد کو لکھا ۔ اس خط کی اس کے مشیر شمر ذی الجوشن نے مخالفت کی اور کہا کہ قبضہ میں آئے شخص کو جانے دیں گے تو وہ عزت و قوت حاصل کرلیں گے اور آپ کمزور ہوجائیں گے۔ چنانچہ عبیداللہ بن زیاد نے شمر کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے شمر کو ہی ایک خط دے کر کربلا بھیجا جس کا مضمون یہ تھا کہ اگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہمارے حوالے ہوجائیں، تو لڑائی نہ کی جائے ، ورنہ وہ جنگ کے لیے تیار رہیں۔
۱۰؍ محرم۶۱ ھ مطابق ۱۰؍ اکتوبر ۶۸۰ ء کو ایک طرف سے عمرو بن سعد فوج لے کر نکلا ،ادھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے حامیوں کی صفیں قائم کیں۔ ادھر سے پانچ ہزار فوج تھی جب کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کل ۷۲؍ آدمی تھے۔جب صفیں تیار ہوگئیں تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فوجوں کے سامنے نہایت پرجوش تقریر کی ، جس میں انھوں نے کہا کہ میرا حسب و نسب یاد کرو، میں کوں ہوں؟ کیا میں تمھارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں؟ کیا سید الشھدا حضرت حمزہ میرے چچا نہیں تھے؟ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان میرے بارے میں نہیں سنا کہ الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ؟، سنو ، ذرا غور کرو کہ کیا تم اس پیشانی کو زخمی کروگے جس کو بارہارسول خدا چوما کرتے تھے، کیا ان آنکھوں کو بینائی سے محروم کروگے ، جنھوں نے رسول اللہ کا دیدار کیا ہے، یہ میرے سر پر پگڑی دیکھوسرور کائنات کی ہے ، کیا تم اسے خاک و خون میں غلطاں کروگے، میرے ہاتھ میں یہ تلوار حیدر کرار کی ہے، کیا تم اس سے مقابلہ کروگے۔ 
بہر کیف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کسی بات کا ان پر اثر نہیں ہوا اور عمرو ابن سعد نے پہلا تیر چلاتے ہوئے جنگ کاآغاز کردیا۔ایک ایک کرکے فدائے حسینی شہید ہوگئے ، یہاں تک کہ خاندان نبوت کے ایک ایک چراغ جام شہادت نوش کرتے چلے گئے ، سب سے پہلے علی اکبر شہید ہوئے پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت قاسم نے جام شہادت پیا۔ عین لڑائی کے دوران حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کان میں اذان دینے کے لیے آگے بڑھے ہی تھے کہ ایک تیر آیا اور اس نومولود بچے کو زخمی کر شہید کرگیا۔ آپ نے وہ تیر حلق سے نکالا تو خون کا فورا پھوٹ پڑا، خون کو چلو لے کر آپ نے آسمان کی طرف اچھالتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ائے اللہ! اگر تو نے ہم سے اپنی نصرت روک لی ہے، تو وہی کر جس میں بہتری ہے۔ اب قافلہ حسینی میں صرف آپ رضی اللہ عنہ کی ذات باقی تھی ۔ آپ میدان میں آئے ۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو شدت کی پیاس محسوس ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ پانی پینے کے لیے فرات کی طرف بڑھے ، لیکن دشمن نے ایک تیر مارا جو حلق میں لگا اور خون کے فوارے نکلنے شروع ہوگئے۔زرعہ بن شریک تمیمی نے بائیں ہاتھ اور شانے پر تلوار ماری جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ گھوڑے سے گر گئے اور سنان بن انس نخعی یا شمر ذی الجوشن آگے بڑھا اور آپ کے سر کو تن سے جدا کردیا ۔پھر گھوڑے دوڑا کر نعش مبارک کو روند ڈالا گیا ۔ حضرت رضی اللہ عنہ کا سر کوفہ لے جاکر عبیداللہ ابن زیاد کو دیا گیا ، اس نے سر مبارک کے لب پر چھڑی ماری تو زید ابن ارقم صحابی رضی اللہ عنہ نے منع کیا ۔ پھر یہ سر یزید کے پاس بھیجا گیا جو اس وقت دمشق میں تھا ۔ انھوں نے یہ دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ قتل کے بغیر بھی یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا تھا ۔ اور پھر کہا کہ یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اجتہادی غلطی تھی جس کا نتیجہ شہادت کی شکل میں سامنے آیا۔ سر کے بعد قافلہ حسینی کے بقیہ افراد کو بھی دمشق بھیج دیا گیا ، جس میں حضرت زینب، حضرت فاطمہ ، حضرت سکینہ اور حضرت زین العابدین کے نام ملتے ہیں۔ یزید نے ان کے ساتھ بہت اچھا برتاو کیا اور انھیں عزت و احترام کے ساتھ مدینہ واپس بھیج دیا۔
ماتم حسین 
ایک مشہور مغربی شاعر گوئٹے نے کہا ہے کہ انسانی عظمت کی انتہا یہ ہے کہ وہ افسانہ بن جائے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ اس کی زندہ مثال ہے ۔ اس تعلق سے اگر صرف واقعی اور تاریخی چیزیں تلاش کریں گے، تو محض رطب و یابس اوریاوہ گوئی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ بہر کیف واقعہ شہید کربلا اسلامی تاریخ میں سب سے دردناک اور وکوہ کن حادثہ ہے، جس میں اپنے نبی کے نام لینے والے منافقین نے نواسہ رسول اکرم ﷺ کو انتہائی بے دردی اور بے چارگی کے عالم میں شہید کردیا تھا۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن اس واقعہ پر جشن ماتم منانے والوں کو دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ حقیقت میں کون ہیں؟ قسم کھاکر کہہ سکتا ہوں کہ یہ محبان حسینی ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ ہمیں یقین ہے کہ واقعہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ پر کوئی بھی حسینی ڈھول تاشے نہیں بجاسکتا اور نہ ہی اسے تماشا بنا سکتا ہے۔ یہ ڈھول یقینی طور پر قاتلان حسین نے بجائے تھے اور اس کی تال پر خوشی میں جھومے تھے، اور یہی قاتلان حسین اب تک اپنے باب دادا کی وراثت کو سنبھالے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔ اور اپنی مرضیات پر چلنا آسان کرے۔ آمین