ہجری کی تاریخ
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
سن ۱۷ ہجری شروع ہوچکی ہے۔سرور کائنات فخر موجودات نبی اکرم ﷺ کی وفات کو چھ سال گذر چکے ہیں۔مسند خلافت پرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ متمکن ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن میں گورنری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ خلیفۃ المسلمین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے فرامین بھیجے جاتے ہیں۔ ان فرامین میں دن اور مہینہ کا ذکر تو ہوتا ہے، لیکن سن درج نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ یہ پتہ لگانے میں دشواری محسوس کرتے ہیں کہ کونسا فرمان پہلے کا ہے اور بعد میں خلیفۃ المسلمین کا کیا حکم ہے۔ یہ بات حضرت گورنر ،خلیفہ کے روبرو پیش کرتے ہیں۔ حضرت خلیفہ صحابہ کی میٹنگ بلاتے ہیں۔ اس میٹنگ کے دو ایجنڈے ہوتے ہیں:
(۱) ابتدائے سن کا تعین۔ (۲) ابتدائے سال کا تعین۔
پہلے ایجنڈے پربحث شروع ہوتی ہے اورمجموعی طور پر چار رائیں آتی ہیں:
(۱) اسلامی تاریخ کی ابتداولادت باسعادت سے ہونی چاہیے۔ مگریہ رائے اس لیے قبولیت عامہ حاصل نہیں کرپاتی ہے کہ اس میں نصاریٰ کی تاریخ کا چربہ نظر آتا ہے، کیوں کہ عیسوی تاریخ کی بنیاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ ولادت پر رکھی گئی ہے اور شمسی گردش کے حساب کا اعتبار کیا جاتا ہے۔
(۲) دوسری رائے میں یہ کہا گیا کہ تاریخ کی ابتدا وفات نبوی کو قرار دیا جائے۔ لیکن یہ رائے بھی نامنظور ہوئی اور اس کی وجہ یہ رہی کہ نبی اکرم ﷺ کی رحلت دنیائے انسانیت کے لیے سب سے بڑا حادثہ ہے اور تاریخ ایک یادگار شئی ہے اور بار بار حادثہ کی یاد دہانی مناسب نہیں ہے۔
(۳) بعض صحابہ نے یہ رائے دی کہ نبی ﷺ کی حیات و ممات کے بجائے اسلامی کلینڈر کے لیے بعثت اسلام کو نقطہ آغاز قرار دیا جائے۔ لیکن اس رائے پر بھی اتفاق رائے نہیں ہوپایا، جس کی وجہ غالبا یہ رہی کہ اسلام کا شروعاتی دور مصائب و مشکلات کا دور رہا ہے، جس کی وجہ سے اسلام کی کمزوری کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔
(۴) مجلس میں ایک چوتھی رائے بھی پیش کی گئی ، جسے خود خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے پیش کیا کہ تاریخ کی ابتدا ہجرت نبوی علیہ السلام سے ہونی چاہیے اور دلیل یہ دی کہ ہجرت سے ہی حق و باطل کا فرق واضح ہوا ہے اور اسلام مظلومیت سے خود اعتمادی کی طرف بڑھا ہے، لہذا ہجرت سے ابتدا اسلام کی شوکت و عظمت کی طرف اشارہ ہوگی۔ حاضرین مجلس نے اس رائے سے اتفاق کیا اور اسلامی کلینڈر کا آغاز سنہ ہجری سے کیا گیا۔
پہلے ایجنڈے کے بعد دوسرے ایجنڈے پر بحث شروع ہوتی ہے ۔ اور تین رائیں پیش کی جاتی ہیں:
(۱) کچھ حضرات نے ابتدائے سن پر قیاس کرتے ہوئے یہ تجویز رکھی کہ ہجرت نبوی ﷺ چوں کہ ماہ ربیع الاول میں ہوئی ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سال کی ابتدا بھی اسی ماہ سے کیا جائے، لیکن اس رائے پر اتفاق نہیں ہوپایا۔
(۲) دوسری رائے یہ آئی کہ سال کی ابتدا رمضان المبارک سے کی جائے۔ اور دلیل یہ پیش کی گئی کہ اسلام میں یہ مہینہ سب سے مقدس اور فضیلت کا حامل ہے، لیکن یہ رائے بھی اکثریت حاصل نہ کرسکی۔
(۳) ایک تیسری رائے یہ آئی کہ محرم الحرام کو پہلا مہینہ قرار دیا جائے ۔ دلیل یہ تھی کہ حضرات انصار نے حج کے موقع پر عشرہ ذی الحجہ میں آپ کے دست اقدس پر بیعت کی۔ اخیر ذی الحجہ میں حج کرکے واپس ہوئے۔ ان کی واپسی کے بعد ہی آپ ﷺ نے ہجرت کا ارادہ فرمایا ، اس لیے صحابہ کو ہجرت کی اجازت دے دیتی اور خوو حکم خدا کے منتظر رہے، لہذا ارادہ پاک پر ابتدا کی بنیاد رکھتے ہوئے محرم الحرام کو پہلا مہینہ قرار دیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت کی تاریخ میں بھی پہلا مہینہ محرم الحرام ہی تھا، اس لیے اس کو باقی رکھا گیا۔
تاریخ کی بنیاد شناخت پر قائم ہوتی ہے، اسلامی تاریخ کی بنیاد بھی ایک شناخت پر قائم ہے ، جس کا تذکرہ درج بالا سطور میں آچکا ہے، اس لیے مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے کہ وہ جس طرح دیگر تاریخوں کو یاد رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح اسلامی تاریخ کو بھی یاد رکھیں اور اسے اپنے ادارے میں فروغ دینے اور اپنی زندگی میں برنتے کا اہتمام کریں۔