محمد یاسین جہازی
ہندستان میں سیکولر نظام حکومت کی بنیاد پر سرکاری تعلیمی اداروں کو مذہبی جانب داری سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، یہ اقدام جہاں خوش آئند ہے ، وہیں ایک چیلنج بھی ہے۔ خوش آئند تو اس لیے ہے کہ حکومت کسی بھی فرقے کے مذہبی معاملے میں دخیل نہیں ہوگی ۔ اورچیلنج کی وجہ یہ ہے کہ ہر مذہب کے تحفظ کی ذمہ داری خود اسی فرقے پر ہوگی ، حکومت پر نہیں۔ اس پس منظر میں حکومت نے سیکولرزم کی بنیاد پراپنا ایک مشترکہ تعلیمی نظام رائج کیا اور اکابرین ملت مسلمہ نے اس سے الگ ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ حکومتی اداروں کو اسکول ، کالج اور یونی ورسٹی کے ناموں سے جانا جاتا ہے اور ملت مسلمہ کی تعلیمی تحریکوں کو مکاتب، مدارس اور جامعات کہاجاتا ہے۔ ان دونوں سلسلوں کے سامنے اپنے اپنے مقاصد تھے : حکومتی اداروں کا مقصد جدید علوم وفنون کی تعلیم دے کر ملک کی تعمیر وترقی میں کردار نبھانے والے افرادتیار کرنااور حصول معاش کا ذریعہ بناناتھا، جب کہ اسلامی تحریکات کے سامنے صرف اور صرف مذہبی تعلیم و ثقافت کی حفاظت پیش نظر تھی۔یہی وجہ تھی کہ دونوں کے الگ الگ مقاصد کے پیش نظر نصاب بھی الگ ہوگیا اور زبان بھی دونوں کی مختلف ہوگئی۔ اول الذکر کے سلیبس میں اس کے مقاصد کے پیش نظر سائنس، جغرافیہ، ریاضی، سیاست انفارمیشن ٹکنالوجی وغیرہ شامل ہوئے۔ گلوبل زبان: انگریزی اس کا میڈیم قرار پایا۔ اور آخر الذکر اداروں کا نصاب اسلامیات پر مشتمل تھا ، اسی بنا پر ان کا مآخذی زبان عربی اور تشریحی زبان فارسی واردوذریعۂ تعلیم ٹھہری۔
ہر اداروں نے اپنے فکری نہج سے طالب علموں کو متاثر کیا ۔ حکومتی اداروں کے تعلیم یافتہ حضرات کے لیے حصول معاش اور دنیا طلبی، تعلیم کا مقصد ٹھہری، اس لیے وہ اخروی زندگی سے لا تعلق ہوتے چلے گئے۔ اسلامی تحریکوں سے وابستہ افراد کے سامنے فکر عقبیٰ پیش نظر تھی، اس لیے معاشی جدوجہد میں ان کا دائرہ تنگ ہوتا گیا،جن کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ اول الذکر دین سے نابلد ہوتے جارہے ہیں اور آخر الذکر حصول دنیاکے لیے پریشان۔ نیز دونوں اداروں کی تعلیمی زبان الگ ہونے کی بنیاد پر دونوں طبقوں کے مابین ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی کہ وہ ان کو سمجھنے سے قاصر اور یہ ان کو سمجھانے سے عاجز ۔ پھر دونوں کے درمیان فکری، معاشرتی اور تہذیبی اعتبارسے ایسی دوری ہوتی جارہی ہے کہ ایک جگہ اور ایک سماج میں رہنے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی لگنے لگے ہیں۔
اس طرح دو الگ الگ نہج کی وجہ سے تعلیم بھی دو حصوں میں بٹ کر رہ گئی : ایک دنیاوی تعلیم اور دوسری دینی تعلیم۔پھر تعلیم کا سسٹم کچھ ایسا بنا کہ اگر دینی تعلیم کے سلسلے میں جڑتے ہیں تو دنیاوی تعلیم کے لیے عمر نکال پانا ناممکن ہوجاتا ہے اور اگر دنیاوی تعلیمی سلسلے کو اختیار کرتے ہیں تو پھر دینی تعلیم کے حصول کے لیے وقت نہیں بچتا۔ سرٹیفکٹ کے ردو قبول کے معیار نے اس پریشانی کو اور بھی بڑھادیاہے۔ مدارس کی سندیں حکومتی اداروں میں ناقابل قبول ہونے کی وجہ سے عصری تعلیم کے کسی بڑے کورس میں داخلہ نہیں مل پاتا ۔ اب یا تو اس کے لیے پرائمری سے ہی تعلیمی سلسلہ شروع کرنا پڑے گا اور اس کے لیے نہ عمر اجازت دیتی ہے اور نہ ہی وقت، یا پھر اس سے محرومی ؛ نتیجۃََ دونوں تعلیم حاصل کرنا جوئے شیر لانے کا مرادف ہوگیا ہے۔اور دونوں تعلیم کا سنگم نہ ہونے کی وجہ سے فکری ٹکراو، تہذیبی تصادم، سماجی کشمکش، معاشی پریشانی اوردین سے بے زاری عام ہوتی جارہی ہے۔ دنیا طلبی کی ہوس اور مادیات کے حصول میں زبردست مقابلہ آرائی نے ایک دوسرے کو نفرت کی حد تک جدا کردیا ہے۔ایک حصول دنیا کے لیے حلال و حرام کی تمیز کرنے کے لیے تیار نہیں، تو دوسرا دینی باتوں کو سننااور سمجھنا گوارا نہیں کرتا۔اور یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں۔ اور اس کی وجہ تعلیم کا دو الگ الگ خانوں میں بٹنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔
المختصر تعلیم کی عمر میں دینی و عصری دونوں تعلیم کے لیے کوئی ایسامنظم و مستحکم سسٹم بناناوقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، جس سے ہمارے بچے جہاں تعلیم کی اعلیٰ ڈگریاں پاکر تعمیر وترقی کی دوڑمیں شامل ہوکر دوسروں کے ہمدوش رہیں، وہیں اسلامی وضع قطع کا وہ کامل نمونہ بھی نظر آئے۔چنانچہ اکابرین جمعیۃ نے ان تمام حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے آزادی کے بعد ہی سے اس طرح کے سسٹم بنانے کی جدو جہد کی۔ ۲۲، ۲۳ ؍ ستمبر ۱۹۴۸ء کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں درج ذیل چار نکاتی پروگرام بنائے: (۱)مسلمان اپنے طور پر مدارس قائم کریں، جن میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ان مضامین کی تعلیم بھی دی جائے ، جو سرکاری اداروں کے نصاب میں ضروری ہیں اور حکومت ان مدارس کی تعلیم کو مستند قرار دے اور امداد کرے۔ (۲)حکومت ابتدائی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم لازمی قراردے۔ (۳) پرائمری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو خارجی اوقات میں مذہبی تعلیم دینے کے لیے پرائیوٹ مکاتب قائم کیے جائیں۔ (۴)حکومت لڑکوں کے لیے لازمی تعلیم کی ابتدائی عمر آٹھ سال قراردے تاکہ اس عمر کے بچوں کو مذہبی تعلیم دی جاسکے۔اور ۱۹۵۵ء میں ۸،۹؍ جنوری کوممبئی کے قیصر ہال میں منعقد ’’کل ہند دینی تعلیمی کنونشن ‘‘ کے ذریعے ’’مرکزی دینی تعلیمی بورڈ‘‘ کی تشکیل کرکے پورے ہندستان میں اس نظام کو پھیلانے کے لیے ایک تحریک چھیڑ دی۔ جس کا سلسلہ تا ہنوز جاری و ساری ہے۔
ہندستان میں سیکولر نظام حکومت کی بنیاد پر سرکاری تعلیمی اداروں کو مذہبی جانب داری سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، یہ اقدام جہاں خوش آئند ہے ، وہیں ایک چیلنج بھی ہے۔ خوش آئند تو اس لیے ہے کہ حکومت کسی بھی فرقے کے مذہبی معاملے میں دخیل نہیں ہوگی ۔ اورچیلنج کی وجہ یہ ہے کہ ہر مذہب کے تحفظ کی ذمہ داری خود اسی فرقے پر ہوگی ، حکومت پر نہیں۔ اس پس منظر میں حکومت نے سیکولرزم کی بنیاد پراپنا ایک مشترکہ تعلیمی نظام رائج کیا اور اکابرین ملت مسلمہ نے اس سے الگ ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ حکومتی اداروں کو اسکول ، کالج اور یونی ورسٹی کے ناموں سے جانا جاتا ہے اور ملت مسلمہ کی تعلیمی تحریکوں کو مکاتب، مدارس اور جامعات کہاجاتا ہے۔ ان دونوں سلسلوں کے سامنے اپنے اپنے مقاصد تھے : حکومتی اداروں کا مقصد جدید علوم وفنون کی تعلیم دے کر ملک کی تعمیر وترقی میں کردار نبھانے والے افرادتیار کرنااور حصول معاش کا ذریعہ بناناتھا، جب کہ اسلامی تحریکات کے سامنے صرف اور صرف مذہبی تعلیم و ثقافت کی حفاظت پیش نظر تھی۔یہی وجہ تھی کہ دونوں کے الگ الگ مقاصد کے پیش نظر نصاب بھی الگ ہوگیا اور زبان بھی دونوں کی مختلف ہوگئی۔ اول الذکر کے سلیبس میں اس کے مقاصد کے پیش نظر سائنس، جغرافیہ، ریاضی، سیاست انفارمیشن ٹکنالوجی وغیرہ شامل ہوئے۔ گلوبل زبان: انگریزی اس کا میڈیم قرار پایا۔ اور آخر الذکر اداروں کا نصاب اسلامیات پر مشتمل تھا ، اسی بنا پر ان کا مآخذی زبان عربی اور تشریحی زبان فارسی واردوذریعۂ تعلیم ٹھہری۔
ہر اداروں نے اپنے فکری نہج سے طالب علموں کو متاثر کیا ۔ حکومتی اداروں کے تعلیم یافتہ حضرات کے لیے حصول معاش اور دنیا طلبی، تعلیم کا مقصد ٹھہری، اس لیے وہ اخروی زندگی سے لا تعلق ہوتے چلے گئے۔ اسلامی تحریکوں سے وابستہ افراد کے سامنے فکر عقبیٰ پیش نظر تھی، اس لیے معاشی جدوجہد میں ان کا دائرہ تنگ ہوتا گیا،جن کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ اول الذکر دین سے نابلد ہوتے جارہے ہیں اور آخر الذکر حصول دنیاکے لیے پریشان۔ نیز دونوں اداروں کی تعلیمی زبان الگ ہونے کی بنیاد پر دونوں طبقوں کے مابین ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی کہ وہ ان کو سمجھنے سے قاصر اور یہ ان کو سمجھانے سے عاجز ۔ پھر دونوں کے درمیان فکری، معاشرتی اور تہذیبی اعتبارسے ایسی دوری ہوتی جارہی ہے کہ ایک جگہ اور ایک سماج میں رہنے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی لگنے لگے ہیں۔
اس طرح دو الگ الگ نہج کی وجہ سے تعلیم بھی دو حصوں میں بٹ کر رہ گئی : ایک دنیاوی تعلیم اور دوسری دینی تعلیم۔پھر تعلیم کا سسٹم کچھ ایسا بنا کہ اگر دینی تعلیم کے سلسلے میں جڑتے ہیں تو دنیاوی تعلیم کے لیے عمر نکال پانا ناممکن ہوجاتا ہے اور اگر دنیاوی تعلیمی سلسلے کو اختیار کرتے ہیں تو پھر دینی تعلیم کے حصول کے لیے وقت نہیں بچتا۔ سرٹیفکٹ کے ردو قبول کے معیار نے اس پریشانی کو اور بھی بڑھادیاہے۔ مدارس کی سندیں حکومتی اداروں میں ناقابل قبول ہونے کی وجہ سے عصری تعلیم کے کسی بڑے کورس میں داخلہ نہیں مل پاتا ۔ اب یا تو اس کے لیے پرائمری سے ہی تعلیمی سلسلہ شروع کرنا پڑے گا اور اس کے لیے نہ عمر اجازت دیتی ہے اور نہ ہی وقت، یا پھر اس سے محرومی ؛ نتیجۃََ دونوں تعلیم حاصل کرنا جوئے شیر لانے کا مرادف ہوگیا ہے۔اور دونوں تعلیم کا سنگم نہ ہونے کی وجہ سے فکری ٹکراو، تہذیبی تصادم، سماجی کشمکش، معاشی پریشانی اوردین سے بے زاری عام ہوتی جارہی ہے۔ دنیا طلبی کی ہوس اور مادیات کے حصول میں زبردست مقابلہ آرائی نے ایک دوسرے کو نفرت کی حد تک جدا کردیا ہے۔ایک حصول دنیا کے لیے حلال و حرام کی تمیز کرنے کے لیے تیار نہیں، تو دوسرا دینی باتوں کو سننااور سمجھنا گوارا نہیں کرتا۔اور یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں۔ اور اس کی وجہ تعلیم کا دو الگ الگ خانوں میں بٹنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔
المختصر تعلیم کی عمر میں دینی و عصری دونوں تعلیم کے لیے کوئی ایسامنظم و مستحکم سسٹم بناناوقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، جس سے ہمارے بچے جہاں تعلیم کی اعلیٰ ڈگریاں پاکر تعمیر وترقی کی دوڑمیں شامل ہوکر دوسروں کے ہمدوش رہیں، وہیں اسلامی وضع قطع کا وہ کامل نمونہ بھی نظر آئے۔چنانچہ اکابرین جمعیۃ نے ان تمام حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے آزادی کے بعد ہی سے اس طرح کے سسٹم بنانے کی جدو جہد کی۔ ۲۲، ۲۳ ؍ ستمبر ۱۹۴۸ء کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں درج ذیل چار نکاتی پروگرام بنائے: (۱)مسلمان اپنے طور پر مدارس قائم کریں، جن میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ان مضامین کی تعلیم بھی دی جائے ، جو سرکاری اداروں کے نصاب میں ضروری ہیں اور حکومت ان مدارس کی تعلیم کو مستند قرار دے اور امداد کرے۔ (۲)حکومت ابتدائی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم لازمی قراردے۔ (۳) پرائمری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو خارجی اوقات میں مذہبی تعلیم دینے کے لیے پرائیوٹ مکاتب قائم کیے جائیں۔ (۴)حکومت لڑکوں کے لیے لازمی تعلیم کی ابتدائی عمر آٹھ سال قراردے تاکہ اس عمر کے بچوں کو مذہبی تعلیم دی جاسکے۔اور ۱۹۵۵ء میں ۸،۹؍ جنوری کوممبئی کے قیصر ہال میں منعقد ’’کل ہند دینی تعلیمی کنونشن ‘‘ کے ذریعے ’’مرکزی دینی تعلیمی بورڈ‘‘ کی تشکیل کرکے پورے ہندستان میں اس نظام کو پھیلانے کے لیے ایک تحریک چھیڑ دی۔ جس کا سلسلہ تا ہنوز جاری و ساری ہے۔