28 Apr 2018

قسط نمبر (7) تمہید پنجم: روح کیا ہے؟

تمہید پنجم: روح کیا ہے؟
قسط نمبر (7) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 


ارشاد خداوندی ہے کہ 
الرُّوحُ مِن أمرِ رَبّی (سورۃ: الاسراء،آیۃ:۸۵، پ:۱۵)
جب آپ سے روح کی حقیقت کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو زبان قدسی سے اس کی حقیقت یہ بتلائی گئی کہ وہ ایک چیز ہے، جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بدن میں پیدا ہوتی ہے، جس سے حیوان جی اٹھتا ہے۔ اور جب یہ چیز بدن سے نکل جاتی ہے، تو اس پر موت طاری ہوجاتی ہے۔ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ 
ألا لہ الخلق والأمر (سورۃ : الاعراف، آیۃ:پ: ۸)
سنو! پیدا کرنا اور حکم دینا دونوں اللہ کے لیے ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ پہلے خلق یعنی ڈھانچہ بناتے ہیں، پھر اس میں کُنْ کاامر ہوتا ہے، پس وہ چیز وجود میں آجاتی ہے،اور اسی امر ربی کا نام روح ہے، لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ روح ایک غیر مادی چیز ہے، جس سے زندگی وجود میں آتی ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے روح کی حقیقت کی مزید تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ روح لطیف بھاپ سے پیدا ہوتی ہے ، جس کا نام نسمہ ہے۔ یہ نسمہ اخلاط اربعہ : خون، بلغم، سودا اور صفرا کے خلاصے سے وجود میں آتا ہے۔ اس کے اندر قالب کی صلاحیت کے لحاظ سے زندگی پیدا کرنے کی قوت پائی جاتی ہے۔ اس کی پیدائش کا مرکز دل ہے اور یہی سے پورے بدن کے ہر ہر عضوکے لیے سپلائی ہوتی ہے۔ نسمہ قالب کی صلاحیت کے مطابق کام کرتا ہے، مثال کے طور پر آنکھ میں دیکھنے کی صلاحیت ہے، تو یہ نسمہ آنکھ میں پہنچ کر قوت بینائی کا کام کرے گا۔ہاتھ میں پکڑنے اور کان میں سننے کی صلاحیت ہے، تو نسمہ ان اعضا میں پہنچ کر انھیں کا کام کرے گا۔
جسم کے اندر یہ نسمہ غذا سے پیدا ہوتا ہے، اس لیے غذا کی خاصیات سے نسمہ متأثر ہوتا ہے، عمدہ اور غذائیت سے بھرپور غذا ہوگی، تو نسمہ بھی قوی ہوگا۔اور اگر غذائیت میں کمی ہوگی ، تو اس کا اثر اس سے بننے والے نسمہ پر بھی دکھے گا۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حلال کھانے پر بڑا زور دیا ہے ، تاکہ اس سے پیدا ہونے والانسمہ بھی گناہ اور اس کے مضر اثرات سے پاک رہے۔
اس نسمہ میں زندگی کی قوت اسی وقت پیدا ہوتی ہے ، جب اس میں روح ربانی آکر ٹھہرتی ہے ، جس کو نفس ناطقہ کاکہاجاتا ہے۔ نفس ناطقہ کا مستقر نسمہ ہے اور نسمہ کا مقام بدن ہے، نسمہ اور بدن میں تغیرات ہوتے رہتے ہیں ، لیکن نفس ناطقہ میں کبھی تغیر نہیں ہوتا۔
اس کی ہم ایک مثال لیتے ہیں کہ ایک آدمی کا نام زید ہے، تو یہ زید اس کے خاص بدن کا نام نہیں ،کیوں کہ بدن میں تغیرات سے اس کے نام پر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ زید جب بچہ تھا اور اس کے ہاتھ پیر اور جسم کے سارے اعضا چھوٹے چھوٹے تھے، تب بھی وہ زید تھا اور جب بڑا ہوگیا اور بوڑھا ہوگیا ، تب بھی وہ زید ہی ہے۔ یہاں اس کا بدن تبدیل ہورہا ہے، لیکن زید میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے۔ اسی طرح زید کا ایک ہاتھ کٹ جاتا ہے، ہاتھ کا نسمہ یعنی اس کی قوت ختم ہوجاتی ہے، تو بھی زید باقی رہتا ہے، یا اس کی بینائی چلی جاتی ہے اور آنکھ کے قالب میں گردش کرنے والی روح یعنی نسمہ فنا ہوجاتا ہے ، تو بھی زید برقرار رہتا ہے۔اس مثال میں ہم نے دیکھاکہ بدن اور نسمہ دونوں تبدیل ہورہے ہیں؛لیکن زید اپنی جگہ برقرار ہے، اور بدلنے والی چیز معین انسان نہیں ہوسکتی؛ لہذا زید ہی نفس ناطقہ ہے، جو مرنے کے بعد بھی نہیں بدلتا۔ خلاصہ یہ کہ زیدمیں تبدیلیوں کے جو اثرات نظر آتے ہیں، وہ صرف اس کے بدن اور نسمہ میں نظر آتے ہیں، کیوں کہ یہ دونوں مٹی سے بنے ہوئے ہیں، خود زید میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہورہا ہوتاہے، کیوں کہ وہ ایک روح ہے، روح ربانی، جس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ امر ربی ہے اور امر ربی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
چوں کہ روح (نفس ناطقہ)ایک معنوی امر ہے، جس کی شناخت ہم کسی جسم کے ذریعے ہی کرسکتے ہیں،اس لیے ظاہری امر میں ہم کو یہی نظر آتا ہے کہ زید کا بدن اور اس کا نسمہ ہی زید ہے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف روح ربانی کے مستقر کی شناخت کا ایک لبادہ ہے ۔
موت کی حقیقت
لیکن جب یہ نسمہ بدن سے نکل جاتا ہے، تو آدمی کی موت ہوجاتی ہے،بدن بھی سڑنے گلنے لگتا ہے، لیکن روح ربانی کبھی بھی نسمہ کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ 
بدن میں جوتغیرات ہوتے ہیں، وہ نسمہ یعنی اخلاط اربعہ سے بننے والے بھاپ میں تغیر پیدا ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب کسی عضو میں دل کے مرکز سے بھاپ کی سپلائی متأثر ہوتی ہے، تو وہ عضو بھی متأثر ہوجاتا ہے، جسے ہم بیماری کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر بینائی اسی وقت ختم ہوتی ہے، جب مرکز سے نسمہ کی سپلائی رک جاتی ہے، جب آنکھ میں نسمہ نہیں پہنچتا ، تو اس کے دیکھنے کی صلاحیت یاتو متأثر ہوجاتی ہے ، یا پھر ختم ہوجاتی ہے۔ نسمہ کی سپلائی بند ہونے کی بھی وجوہات ہوتی ہیں، یا تو عضو کسی چوٹ وغیرہ سے اپنے نسمہ کے حاصل کرنے کی صلاحیت کھوبیٹھتا ہے، یا نسمہ کے مقام افزائش میں ہی کچھ گڑبڑی پیدا ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے سپلائی نظام یا نسمہ بننے کا سسٹم متأثر ہوجاتا ہے ، بہر کیف جس طرح اگرنسمہ عضو میں نہیں پہنچتا، تو وہ عضو بے کار ہوجاتا ہے، اسی طرح مرکز میں نسمہ (بھاپ)ہی بننا بند ہوجاتا ہے، تو نسمہ کا تعلق بدن سے ٹوٹ جاتا ہے اور پورا بدن بے کار ہوجاتا ہے، جسے ہم موت کہتے ہیں۔لیکن اس سے نسمہ اور روح ربانی (نفس ناطقہ) کا تعلق ختم نہیں ہوتا، روح ربانی نسمہ کے قالب میں ہی رہتا ہے اور ساتھ ہی بدن سے پرواز کرتا ہے اور عالم مثال میں پہنچ جاتا ہے۔ پھر عالم مثال میں ۔جیسا کہ پہلی کی تمہید میں عرض کیا گیا تھا کہ وہاں معنویات بھی جسم کی شکل میں ہوتے ہیں۔اسے ایک جسم عطاکردیا جاتا ہے۔ یہ جسم اسے اس کے اعمال کے پیش نظر عطاہوتا ہے۔ اچھے اعمال ہوتے ہیں، تو نورانی جسم عطا ہوتا ہے اور اگر اعمال برے ہوتے ہیں، تو ظلمانی جسم دیا جاتا ہے،پھر اسی جسم (جس میں اس کی روح (نفس ناطقہ) ہے) پرعذاب و ثواب کا سامان شروع ہوتا ہے، جسے احوال برزخ کہاجاتا ہے۔
بحث کا خلاصہ
روح سرچشمۂ زندگی کا نام ہے، یہ ایک لطیف بھاپ ہے ، جو اخلاط اربعہ : سودا، صفرا، بلغم اور خون کے اختلاط سے دل میں پیدا ہوتا ہے، اس کا نام نسمہ ہے، اسی نسمہ میں حقیقی روح آکر ٹھہرتی ہے، جسے روح ربانی اور نفس ناطقہ کہاجاتا ہے، تو نفس ناطقہ کا مقام نسمہ ہے، نسمہ کا مقام دل ہے اور دل کا مقام بدن ہے۔ نسمہ اور بدن میں تغیرات ہوتے رہتے ہیں، جب کہ نفس ناطقہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔روح ربانی اور بدن کے اندر درج ذیل تکوینی نظام کارفرما ہوتا ہے:
(۱) کائنات کے ذرے ذرے کی تخلیق میں دو چیزیں شامل ہیں: ایک اس کی ظاہری شکل و صورت یعنی بدن۔ دوسری اس کی باطنی حقیقت یعنی روح۔
(۲) روح کی بقا بدن پر اور بدن کی بقا روح پر موقوف ہوتی ہے۔ اگر روح نکل جائے، تو بدن بے کار ہوجاتا ہے اور اگر بدن بے کار ہوجائے، تو روح اس میں نہیں ٹھہرتی۔
(۳) نسمہ یعنی بھاپ بدن کے ہر ہر عضو میں پہنچ کر ، بدن کے اعضا کی صلاحیت کے مطابق زندگی پیدا کرتا ہے، مثال کے طور پر کان میں سننے کی صلاحیت ہے، تو یہ نسمہ کان میں پہنچ کر سننے کی قوت پیدا کرتا ہے۔آنکھ میں دیکھنے کی صفت ہے، تو یہ نسمہ وہاں پہنچ کر قوت بینائی پیدا کرتا ہے۔
(۴)بدن کی نوعیت روح کی نوعیت کا پتہ دیتی ہے۔ جیسے مرکز سے جو نسمہ یعنی روح آنکھ میں پہنچتی ہے اور قوت بینائی پیدا کرتی ہے، تو قوت بینائی پیدا کرنے والی روح کی شناخت آنکھ سے ہی ہوگی ۔ اسی طرح کان کی روح میں سننے کی خصوصیت ہے، تو سننے والی روح کی شناخت کا ذریعہ صرف کان ہی ہوگا۔کیوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ مثلا آنکھ پھوٹ جائے تو اس کی قوت بینائی ناک میں آجاتی ہے، یا کسی اور عضو میں منتقل ہوجاتی ہے۔
(۵) نسمہ اس وقت تک زندگی پیدا نہیں کرتا جب تک کہ اس میں امر ربی یعنی نفس ناطقہ نہ آجائے۔ یہ نفس ناطقہ یعنی روح ربانی نسمہ میں آکر ٹھہرتی ہے، نسمہ کا مستقر دل ہے اور دل بدن میں پایایاجاتا ہے۔
(۶) نسمہ کا تعلق بدن سے ٹوٹ جاتا ہے ، تو اسے موت کہتے ہیں، لیکن نسمہ اور روح ربانی کا تعلق کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ جسم حیوانی سے نکل کر عالم مثال پہنچ جاتا ہے اور وہاں اس کو اعمال کے مناسب نورانی یا ظلمانی جسم عطا کیا جاتا ہے، جس پر جزا و سزا کے احکام جاری ہوتے ہیں۔

قسط (8) پڑھنے کے لیے کلک کریں

27 Apr 2018

قسط نمبر (6) نظام فطرت کے اسباب کا سسٹم

نظام فطرت کے اسباب کا سسٹم

قسط نمبر (6) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

خالق کائنات نے اپنے فعل کو اسباب میں صلاحیت و تاثیر پیدا کرکے انجام دینے کا جو سسٹم اور قانون بنایا ہے، اس کے کئی طریق کار ہیں، جن میں چنددرج ذیل ہیں:

(۱) چاروں عناصر میں الگ الگ تاثیرات و خصوصیات ہیں، لہذا جو چیز جتنے عناصر سے مل کر بنیں گے، اس میں عناصر کی اتنی ہی خصوصیات پائی جائیں گی۔ مثال کے طور پر معجون کو مختلف مفرد داوں سے تیار کیا جاتا ہے، تو مرکب معجون میں مفرد دواوں کی تمام خصوصیات و تاثیر پائی جائیں گی۔
(۲) کائنات کی جتنی چیزیں ہیں ، جن کی الگ الگ شناخت اور شکل و صورت جدا جدا ہیں، ان کی صلاحتیں اور خواص و فوائد ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جیسے ایک چیز شکر یا گڑ کی شکل میں ہے ، تو اس کی صلاحیت مٹھاس ہے اور اگر نمک کی شکل میں ہے تو اس کا ذائقہ اس سے برعکس ہے۔ اسی طرح انسان کی صلاحتیں ، خصوصیتیں اور احکام، جانوروں اور دیگر مخلوقوں سے الگ الگ ہوں گے، کیوں کہ ہر نوعی صورت میں خالق کائنات نے الگ الگ صفات و تاثیرات رکھی ہیں۔
(۳) پہلے چیزوں کو وجود عالم مثال میں ہوتا ہے، پھر زمین میں پیدا کیا جاتا ہے، اس لیے وہاں کے احوال و خواص بھی ان میں پائے جاتے ہیں اور ان کے مطابق کاموں کی صلاحیت و تاثیرات پائی جاتی ہیں، جیسے ایک شخص کی پیدائش اور نشو نما کسی اور علاقے میں ہوئی ہے اور بڑے ہونے کے بعد وہ اپنی پوری زندگی دوسرے ملک یا خطے میں گذار دے، تو اس کی پشتینی عادات اور مخصوص احوال کبھی ختم نہیں ہوتے، بلکہ کچھ نہ کچھ خصوصیت ہمیشہ اس کی اصلیت کا پتہ دیتی رہتی ہے۔
(۴) عالم بالا کے فرشتوں کی دعائیں بھی نظام کائنات کا ایک حصہ ہیں، جو بطور اسباب کارگر ہوتی ہیں۔ یہ فرشتے قدسی نفوس اور نیک لوگوں کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے لیے بھلائی ،اچھائی اور ترقی کی راہیں ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں اور رکاوٹیں خود بخود ختم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہ حضرات کبھی کبھی ایسے کام انجام دیتے ہیں جو بالکل خارق عادات اور عام انسانی قدرت سے باہر ہوتے ہیں ، لیکن وہ پھر بھی کرگزرتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جب خاندان کا کوئی بچہ کامیابی کے مراحل یکے بعد دیگرے طے کرتا چلا جاتا ہے ، تو لوگ کہتے ہیں کہ ماں باپ یا استاذ کی دعاوں کا اثر ہے۔ بزرگان دین کے کرامات بھی اس کی واضح مثالیں ہیں۔
(۵) زمانے اور حالات کے بدلنے سے چیزوں کی صلاحیتوں اور اثرات میں بھی تبدیلی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ شرعی مثال لیں ، تو سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں اپنی بہن سے نکاح جائز تھا، لیکن اب نہیں ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی شریعت میں سجدۂ تحیہ مباح تھا، جس پر کوئی مواخذہ نہیں تھا، لیکن دین محمدی میں اس کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے اور باعث عقاب ہے۔اور اپنے گردو پیش میں مثالیں تلاش کریں ، تو قدم قدم پر اس کی گواہی مل جائے گی۔ پہلے انسانوں کے سوچنے کا انداز کچھ اور تھا اور اب کچھ اور ہے۔ پہلے خلوص، وفا ، ہمدردی ، غمگساری جیسے اچھے اچھے اخلاق سے سماج معطر رہتا تھا ، لیکن اب صرف ان کا شکوہ باقی رہ گیا ہے۔پہلے کے دودھ، دہی اور ماکولات و مشروبات غذائیت سے بھرپور اور صحت بخش ہواکرتے تھے، لیکن اب جسے دیکھو ان کے ضرر رساں ہونے کا ہی فسانہ سنا رہا ہے۔
(۶) فطرت کا ایک نظام یہ بھی ہے کہ دو چیزوں میں تلازم پیدا کردیا ہے : اگر ایک چیز کا وجود ہوگا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا لازم بھی وجود میں آئے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کسی کام کو سیکھنے کی کوشش کررہا ہے، تو اس کا تسلسل کے ساتھ عمل کا ایک نہ ایک دن یہ نتیجہ ضرور نکلے گا کہ وہ اس چیز کا ماہر ہوجائے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی کی موت کے لیے کوئی جگہ مقرر فرما دیتا ہے ، توخواہ وہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہو ، کوئی نہ کوئی بہانہ اسے وہاں ضرور لے جائے گا اور وہ وہی جاکر مرے گا ۔حدیث کے الفاظ ہیں کہ 
اذا قضی اللہُ لِعبد أن یموتَ بأرض جعلَ لہ الیھا حاجۃََ۔ (سنن الترمذی، ابواب القدر عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء أن النفس تموت حیث ماکتب لھا)
اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں پہنچنے اور وہاں مرنے کے درمیان تلازم ہے، اس لیے اس کے وقوع پذیر ہونے کے لیے کوئی نہ کوئی صورت ضرور پیدا ہوگی اور وہ وہیں مقررہ جگہ پر وفات پائے گا۔
اسباب میں تعارض اور ترجیح کے اسباب
اسباب میں تعارض کی نوعیت واضح کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا کہ کہ اس کلیہ کی تشریح کردی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے، وہ سب کے سب کسی نہ کسی حکمت اور دنیا کی مصلحتوں کے پیش نظر ہی پیدا کیا ہے۔ حقیر سے حقیر مخلوق بھی بے مقصد اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا گیا ہے، اس لیے وجود کے اعتبار سے کوئی بھی چیز بری نہیں ہے، کائنات عالم کے ذرہ ذرہ میں ذاتی حسن موجود ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ 
الّذی أحسنَ کلَّ شئی خلْقَہُ(سورۃ : السجدۃ، آیۃ: ۷، پ:۲۱)
اللہ نے جو چیز بنائی ، خوب بنائی۔اس ارشاد گرامی میں تمام جواہر (نظر آنے والی چیزیں جیسے انسان، جانوروغیرہ )اور اعراض (معنوی چیزیں، جو نظر نہ آئیں، جیسے غصہ، بخالت وغیرہ) شامل ہیں۔ کوئی بھی چیز فی نفسہ بری نہیں ہوتی؛ بلکہ اس کا استعمال اچھا یا برا بناتا ہے۔ مثال کے طور پر آگ ہے، فی نفسہ اس کے اندر نہ برائی اور نہ اچھائی ؛ البتہ اگر ہم یہ آگ کسی کی گھر میں لگادیں ، تو بری آگ ہوجائے گی اور سردی میں الاؤ کے لیے جلادیں،تو یہی آگ کار ثواب بن جائے گی۔
اب اسباب میں تعارض کی تشریح ملاحظہ کیجیے کہ جب کسی ایسے واقعہ کے رونما ہونے کے تمام اسباب پائے جاتے ہیں ، جس میں سراسر شر ہوتا ہے اور وہ واقعہ نظام کلی اور مفاد عامہ کے خلاف ہوتا ہے، تو خالق کائنات کی صفت تدبیر اپنا کام کرتی ہے اور اس واقعے کو ہونے سے روک دیتی ہے۔ اور ایسا فیصلہ کرتی ہے جو مفاد عامہ سے زیادہ آہنگ ہوتا ہے اور نظام عالم متاثر نہیں ہوتا۔ اس کی چار صورتیں ہوتی ہیں:
(۱) اسباب میں جو تاثیر اور صلاحیت ودیعت کی ہے،اس کو یاتو ختم کردیا جاتا ہے یا اس کا دائرہ محدود کردیا جاتا ہے۔بے شمار مثالیں اس کی شہادت دیتی ہیں کہ ایک آدمی سخت ایکسیڈینٹ کا شکار ہوگیا، جس کی وجہ سے اسے مرجانا چاہیے تھا، لیکن پھر بھی زندہ رہا، تو یہاں ہم یہی کہتے ہیں کہ جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے۔حدیث شریف آتا ہے کہ دجال ایک مومن کو قتل کرکے اسے سب لوگوں کے سامنے زندہ کرے گا اور اس سے اپنی الوہیت کا اقرار کروائے گا، لیکن وہ اقرار نہیں کرے گا، دجال دوبارہ قتل کرنے کی کوشش کرے گا، لیکن اب وہ قتل نہیں کرپائے گا؛ حالاں کہ اس کا قتل کا ارادہ بھی ہوگا اور ہتھیار بھی ہوں گے۔ اس کی وجہ یہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ دجال کی صلاحیت کو ختم کردیں گے ، تاکہ ایمان کا تقاضہ پورا ہو اور مومن ہونے کا مفاد برقرار رہے۔
(۲) اسباب کی تاثیر اور صلاحیتوں کو ضرورت اور تقاضے کے مطابق بڑھا دیا جاتا ہے۔سیرت صحابہ میں واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تن تنہا خیبر کے قلعہ کا دروازہ اکھاڑ پھینکا تھا۔ جو کام کئی افراد بھی مل کر انجام نہ دے سکے اگر کوئی اکیلا ہی کرڈالے ، تو یہی حکمت الٰہی وہاں پر متوجہ ہوتی ہے کہ قوت بازو کو ضرورت کے مطابق اللہ نے بڑھادیا ، تاکہ مصلحت الٰہی اپنا کام کرے اور نظام عالم متاثر ہونے سے بچ جائے۔
(۳) اسباب کی تاثیر و صلاحیت کو تبدیل کردی جاتی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جس آگ میں پھینکا گیا تھا، اس کی تاثیر ایسی بدلی کہ وہ بجائے گرم کرنے اور جلانے کے ٹھنڈک پہنچانے لگی ۔ وہاں پر اللہ کا یہی سسٹم کارفرما تھا۔
(۴) الہام سے ایسی رہ نمائی کردی جاتی ہے، جس سے صاحب معاملہ اس سے پیدا ہونے والے نقصانات سے محفوظ رہتا ہے۔ہم خود اپنی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ کسی کام کو کرلینے کا حتمی فیصلہ کرلیتے ہیں، لیکن اچانک عین وقت پر کوئی ایسی بات ذہن میں آجاتی ہے، جس سے فیصلہ کو بدل دیتے ہیں اور اس کا م کو چھوڑ دیتے ہیں۔ بعد میں جب کسی دوسرے کے اسی کام کا نتیجہ نقصان کی صورت میں نکلتا ہے ، تو ہم کہتے ہیں کہ اچھا ہوا اللہ نے ہمیں بچالیا، ورنہ ہم بھی اس کا شکار ہوجاتے ۔ تو یہ الہام ہوتا ہے، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت کام کرتی ہے۔
اسباب کے تعارض کے وقت ترجیح کے اور بھی اسباب ہوتے ہیں، مگر ہمارا ناقص ان کا احاطہ نہیں کرسکتا ؛ البتہ اتنی بات ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کائنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے ، اس کا ہونا ہی مفاد عامہ سے زیادہ ہم آہنگ ہوتا ہے ، اور جو نہیں ہوتا ، اس کا نہ ہونا ہی قرین مصلحت ہوتا ہے۔ باقی واللہ اعلم بالصواب۔

26 Apr 2018

قسط نمبر (5) تمہید چہارم: کائنات عالم کا فطری نظام

تمہید چہارم: کائنات عالم کا فطری نظام 

قسط نمبر (5) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

یہ امر مسلم ہے کہ دنیا و جہان میں بڑا سے بڑا اور چھوٹا سے چھوٹا جو بھی کام ہوتا ہے، اس کا کرنے والا درحقیقت خالق کائنات کی ذات ہوتی ہے؛ یہ الگ بات ہے کہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور اس کا بیشتر کام اسباب کے پردے سے ہی ظاہر ہوتا ہے، لیکن چوں کہ ان اسباب کا خالق بھی خالق کائنات ہی ہے، اس لیے ان امور کا حقیقی خالق بھی اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہوگی۔مثال کے طور پر کھانا کھانے میں بھوک مٹانے کی تاثیر ہے، توبھوک کو ختم کرنے کا سبب گرچہ کھانا کھانا ہے، لیکن کھانے میں یہ تاثیر اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے، لہذا یہاں یہی فیصلہ کیا جائے گا کہ درحقیقت یہ بھوک اللہ تعالیٰ نے ختم کی ہے، گرچہ اس کا ظاہری سبب اس کا کھانا کھالینا ہے۔یہ باتیں گرچہ انتہائی واضح اور بدیہی ہیں، تاہم ان پر دلائل عقلیہ و نقلیہ دونوں موجود ہیں۔
دلائل عقلیہ
دلائل عقلیہ تو بے شمار ہیں: آگ میں جلانے کی تاثیر، زمین میں بیج ڈالنے سے غلہ پیدا ہونے کا عمل ، پودوں کی جڑوں میں پانی ڈالنے سے پھلوں میں مٹھاس، پھولوں میں رنگت اور پتوں میں ہریالی ؛ یہ سب قدرت کی اشیا میں تاثیر رکھنے کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ اللہ پاک نے جن چیزوں میں جس طرح کی صلاحیتیں رکھیں ہیں، ان سے اسی طرح کے نتائج پیدا ہوں گے، تاہم یہ ان کی اپنی ذاتی صلاحیت نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر معاملہ ایسا ہوتا ، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جس آگ میں پھینکے گئے تھے، اس میں جل کر بھسم ہوجاتے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ بہت سارے مواقع میں دیکھنے میں آیا ہے کہ درخت سے گرگیا،کارکا زبردست ایکسیڈینٹ ہوگیا، اس کو مرجانا چاہیے تھا، لیکن پھر بھی نہیں مرا، اس کو ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا ؛یہ سب کیا ہے؟ ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کا جواب اس کے لیے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا کہ مشیت ایزدی میں ایسا ہونا نہیں تھا، اس لیے نہیں ہوا؛ اگر اسباب ہی فاعل محض ہوتا تو نتیجہ اس کی تاثیر کے خلاف کبھی نہیں آتا، لیکن ان اسباب کے پیچھے ایک غیبی نظام کارفرما ہوتا ہے، اس لیے اس تسلیم کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے کہ اللہ ہی ہر فعل کا فاعل حقیقی اور مؤثر محض ہے، لیکن اس نے چوں کہ اس کائنات کے نظام کا دارومدار اسباب پر رکھا ہے، اس لیے یہاں کے کام اسباب کی تاثیرات اور صلاحیتوں کے مطابق وقوع پذیر ہوں گے۔
دلائل نقلیہ
حضرت عبداللہ ابن سلام رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ بچہ کبھی باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور کبھی ماں کے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تو سرکار دو عالم ﷺ نے بتایاکہ :
فا8ذا سبَقَ ماءُ الرجلِ ماءَ المرأۃِ نزعَ الولدَ، وا8ذا سبق ماءُ المرأۃِ ماءَ الرجلِ سبقت الولدَ (البخاری، کتاب:المناقب، باب: کیف اٰخیٰ النبی ﷺ بین أصحابہ)
جب مرد کا پانی عورت کی پانی پر سبقت حاصل کرلیتا ہے، تو بچہ مرد کے مشابہ ہوتا ہے، اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر سبقت پالیتا ہے، تو عورت مشابہت کھینچ لیتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں میں خاندانی مشابہت مادہ میں رکھی ہوئی مشابہت کی صلاحیت کی بنیاد پر پائی جاتی ہے۔ایک دوسری حدیث میں ہے کہ 
ا8نَّ اللہَ خلق اٰدمَ مِن قبضۃِِ قبضھا مِن جمعِ الأرضِ ، فجاءَ بنو آدم علیٰ قدرِ الأرضِ، فجاء منھم الأحمرُ والأبیض،والأسودُ، و بینَ ذٰلک،السھل والحزن والخبیث والطیب۔ (سنن الترمذی، تفسیر القرآن عن رسول اللہ ﷺ ، و من سورۃ البقرۃ)
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی کی ایسی مٹھی سے پیدا کیا، جس میں پوری روئے زمین کی مٹی شامل کی گئی ہے، لہذا آدم کی اولاد مٹی کی مختلف قسموں کی طرح وجود میں آئی ہے، کوئی مٹی لال ہوتی ہے، کوئی سفید اور کوئی دیگر ، اسی اعتبار سے اولاد آدم کی رنگت اور شکل و صورت بھی مختلف ہے۔ کوئی کالا ہے،کوئی گورا ہے۔ کوئی سرخ ہے اور کوئی درمیان درمیان۔ کوئی ان میں سے نرم خو ہے اور کوئی سخت مزاج۔ کسی کی سرشت میں خباثت پائی جاتی ہے اور کوئی نیک اور صالح ۔تو انسانوں میں رنگ کا ظاہری تفاوت اور اخلاق کا باطنی اختلاف کا سبب یہی ہے کہ ان کی خمیر میں جس صلاحیت و تاثیر کی مٹی شامل ہے، وہ ویسا ہی ہے۔المختصر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے مختلف چیزوں میں مختلف صلاحیتیں رکھ دی ہیں اور انھیں صلاحیتوں کے مطابق وہ کام انجام پاتے ہیں اور چوں کہ ان تاثیرات کا خالق خود خدائے پاک ہے، لہذا اسباب کے پردے سے جو کام ہوں گے، اس کا خالق حقیقی بھی خالق کائنات ہی ہوگا۔
قسط نمبر (6) کا مطالعہ کرنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں

25 Apr 2018

قسط نمبر (4) تمہید سوم: فرشتے اور شیاطین

تمہید سوم: فرشتے اور شیاطین
قسط نمبر (4) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 



تمہید سوم: فرشتے اور شیاطین

فرشتے اور انسان کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ یہ فرشتے اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلتف فرشتوں کو الگ الگ کاموں پر لگا رکھا ہے ، تاکہ نظام کائنات پوری طرح اپنے محور پر چلتا رہے۔ان فرشتوں کا وجود انسانوں کے لیے ایسا ہی ہے جیسا کہ جب کوئی معزز مہمان آتا ہے، تو اس کی شایان شان آرائش و زیبائش اور استقبال کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جب اشرف المخلوقات کو اس دنیا میں خلیفہ بناکر بھیجنا تھا ،تو اس کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے اس کائنات کے نظام کو منظم کیا ، تاکہ جب وہ آجائے ، تو فرشتوں کے ذریعے اس کی مصلحتوں کی تکمیل ہو۔
فرشتے کی دو قسمیں ہیں : (۱)عالم بالا کے فرشتے ۔ (۲) عالم زیریں کے فرشتے۔
عالم بالا کے فرشتے
عالم بالا کے فرشتے تین طرح کے ہوتے ہیں: (۱) نورانی فرشتے۔ (۲) اعلیٰ درجے کے عنصری فرشتے۔ (۳) اعلیٰ درجے کے انسانی نفوس۔


نورانی فرشتے

یہ وہ فرشتے ہوتے ہیں، جن کے جسموں کو نور سے بنایا جاتا ہے اور ان میں اعلیٰ قسم کی روح پھونکی جاتی ہے۔یہ عموما عالم بالا اور عرش پر رہتے ہیں، تاہم گاہے بگاہے زمین پر بھی اترتے ہیں۔ ان فرشتوں کے تعلق سے گناہ اور بہیمی حرکتوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ،کیوں کہ نوری مادے میں گناہ کی طاقت و صلاحیت ہی نہیں ہوتی ہے۔

اعلیٰ درجے کے عنصری فرشتے
یہ ایسے فرشتے ہوتے ہیں، جن کے اجسام نور کے نہیں ؛ بلکہ عناصر اربعہ (آگ، مٹی پانی ، ہوا) کے بھاپ سے بنائے جاتے ہیں، پھر ان میں بہترین ارواح ڈالی جاتی ہیں۔ یہ فرشتے بھی پہلے قسم کے فرشتے کی طرح بہیمی گندگیوں سے پاک و صاف ہوتے ہیں۔
اعلیٰ درجے کے انسانی نفوس
اس سے مراد اونچے درجے کے انسانوں کی روحیں ہیں، جیسے انبیا اور بڑے بڑے اولیاء اللہ کی روحیں، جو اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے ملأ اعلیٰ کے قریب قریب ہوتے ہیں۔ جب ان کی وفات ہوجاتی ہیں، تو ان کی روحوں کو عالم بالا کے فرشتوں میں شامل کرلیا جاتا ہے۔جیسے آں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کو فرشتوں کے ساتھ اڑتے دیکھا تھا ۔ یہ عالم بالا کے فرشتوں کے ساتھ پرواز تھی۔
عالم بالاکے فرشتوں کے کارنامے
عالم بالا کے فرشتوں کے تین کام ہوتے ہیں: 
پہلا کام
یہ فرشتے ہمہ وقت صرف اور صرف خدائے بزرگ و برتر کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف ان کی توجہ اتنی گہری ہوتی ہے کہ وہ کسی چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ یہ ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے۔
دوسرا کام 
زمین میں چل رہے جو نظام اللہ تعالیٰ کو پسند ہوتا ہے، اس کے حق میں یہ دعائے خیر کرتے رہتے ہیں اور جو نظام خدا تعالیٰ کو ناپسند ہوتا ہے ،ا س کے لیے بد دعائیں کرتے ہیں اور ان پر لعنتیں بھیجتے ہیں۔ جیسے اعمال صالحہ کا نظام اللہ تعالٰی کو پسند ہے ، تو اس کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں اور کفر کا نظام خدا تعالیٰ کو پسند نہیں، تو اس سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں اور اس پر لعنت بھیجتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مصائب و آلام میں گرفتار ہوتا ہے۔
تیسرا کام
اونچے درجے کے فرشتوں کے انوار روح اعظم کے پاس جمع ہوتے ہیں، جس کے بے شمار منھ ہیں اور بہت سے زبانوں میں بات کرتے ہیں ۔ فرشتوں کی روحیں وہاں جمع ہوکر شئی واحد بن جاتی ہیں، جس کا نام حظیرۃ القدس (بارگاہ مقدس )ہے۔یہ بارگاہ مقدس خدا تعالیٰ کے امر و حکم سے یہ طے کرتی ہے کہ انسانوں کو دینی و دنیوی نقصانات سے بچانے کے لیے کیا تدبیر اختیار کیا جائے، چنانچہ اس کے لیے تین طرح کے فیصلے کیے جاتے ہیں:
(۱) لوگوں کی صلاحیت کے مطابق ان کے دلوں میں الہام کرکے طریقۂ کار بتایا جاتا ہے۔
(۲) لوگوں کو ایسی ذہنی قابلیت یا علم لدنی عطا کردی جاتی ہے، جس کے ذریعے قوم کے لیے صلاح و فلاح اور بھلائی و ترقی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں ۔
(۳) کوئی ایسی شخصیت پیدا کی جاتی ہے، جو لوگوں کے لیے قابل تقلید بن جاتی ہے ۔ پھر اس کے اور اس کے ساتھ دینے والوں کے لیے حالات سازگار کردیے جاتے ہیں۔ اور ان کی مخالفت کرنے والوں کی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوپاتی۔
عالم زیریں کے فرشتے
یہ فرشتے عالم بالاکے فرشتوں سے کم درجے اور رتبے والے ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیق عناصر اربعہ کے لطیف بخارات سے کی جاتی ہے۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہر وقت عالم بالا سے ملنے والے احکامات کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور جوں ہی انھیں کوئی حکم ملتا ہے، اس کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ تعمیل حکم ان کا فطری تقاضہ اور جذبہ ہوتا ہے۔ 
یہ فرشتے انسانوں اور جانوروں کے دلوں میں اثر ڈالتے ہیں، جس سے وہ ارادۂ خداوندی کے مطابق ہروہ کام کرنے پر امادہ اور مجبور ہوتے ہیں، جو ان کی تقدیر وں کا حصہ ہتے ہیں۔


شیاطین
اس کائنات میں انسان اور فرشتوں کے علاوہ ایک اور جماعت ہے، یہ شیطانوں کی جماعت ہے۔ جب عناصر اربعہ کی ظلمانی بخارات میں سڑن اور بدبو پیدا ہوجاتی ہے، تو وہ نفوس کا تقاضا کرتے ہیں، چنانچہ قالب کے مطابق ان میں روحیں ڈال دی جاتی ہیں،جیسے کہ گندی نالی کی مٹی میں سڑن اور تعفن پیدا ہوجاتا ہے تو خود بخود مچھر اور کیڑے مکوڑے پیدا ہونے لگتے ہیں۔شیطان برے خیالات کا سرچشمہ ہوتا ہے، یہ نیکی اور خیر سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ اس کی کوشش ہمیشہ فرشتوں کی کوششوں کے برخلاف ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کے دلوں میں گناہوں اور برے اخلاق کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور اور دنیاو آخرت میں تباہی کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔
خلاصۂ کلام
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہاں تین بنیادی مخلوق ہیں: فرشتے، شیطان اور انسان۔فرشتے کی سرشت میں سراسر خیر ہے، شر کا کوئی بھی عنصر نہیں ہے، اس لیے یہ گناہ کی قدرت نہیں رکھتے۔شیطان کی فطرت شر محض ہے، اس لیے خیر کا کوئی جذبہ اس میں نہیں پایا جاتا ۔ اگر ظاہری طور پر شیطان کا کوئی کام خیر پر مبنی نظر آئے ، تو یقیناًوہاں پر اس سے بڑا شر پوشیدہ ہوگا، جیسے کہ شیطان نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک دن تہجد کی نماز چھوٹنے پر دوسرے دن خود ہی جگانے کے لیے آگیا تھا، تاکہ ان کے تضرع و توبہ سے جو رتبہ بڑھ گیا تھا ، وہ بلند رتبہ دوبارہ نہ مل سکے۔ اور انسان دونوں صفتوں کا سنگم ہے۔ اس کے اندر خیر کا بھی مادہ ہے اور شر کی بھی صلاحیت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان کی عقل و فکر پر شر کی قوت غالب اور خیر کی قوت مغلوب ہوجاتی ہے، تو یہ شیطان سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، لیکن جب شر کی قوت پر فتح پالیتا ہے اور خیر کی قوت و صلاحیت آگے بڑھ جاتی ہے ، تو اس کا درجہ فرشتوں سے بھی بالا ہوجاتا ہے۔
انھیں تینوں مخلوقات: انسان، فرشتے اور شیاطین اور انھیں تینوں صفات: خیر، شر اور ان دونوں کے مجموعے کی بنیاد پر مقام و مسکن بھی تین ہی بنائے گئے ہیں؛ پہلا جنت ، جو خیر محض ہے، دوسرا جہنم، جو سراسر مقام
شر ہے اور تیسرا دنیا ، جو خیروشر دونوں کا سنگم ہے۔

قسط نمبر (5) پڑھنے کے لیے کلک کریں

24 Apr 2018

قسط نمبر (3) تمہید دوم: عالم مثال کی حقیقت و تشریح

تمہید دوم: عالم مثال کی حقیقت و تشریح
قسط نمبر (3) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

لفظ عالَم عربی ہے۔ اردومیں اس کو دنیا کہاجاتا ہے۔ مختلف اعتبار سے عالم کی الگ الگ تقسیم کی گئی ہے۔کوئی عالم روحانی اور عالم جسمانی سے تقسیم کرتا ہے اور کوئی عالم شہادت اور عالم غیب کا نام دیتا ہے، کبھی دنیا و آخرت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو کبھی اسے عالم ظاہری اور عالم باطنی سے پکارتے ہیں۔ لیکن ان دو عالموں کی بیچ میں ایک تیسرا عالم ہے، اور اسی کا نام عالم مثال ہے: اس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ سراسر غیر مادی ہے ، اس کی تخلیق میں عناصر اربعہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔اس عالم میں معانی بھی کے لیے بھی جسم ہوتے ہیں۔ ہر معنی کو اس کے معنی کی مناسبت سے جسم کا لباس پہنایا جاتا ہے، مثال کے طور پر بزدلی وہاں خرگوش کی شکل میں اور دنیا پراگندہ بوڑھی عورت کی صورت میں نظر آتی ہے۔اس دنیا میں جتنی چیزیں ہیں، وہ تمام چیزیں عالم مثال میں پائی جاتی ہیں اور دونوں الگ الگ نہیں ہوتیں، بلکہ ایک ہی ہوتی ہیں۔ اور چوں کہ یہ عالم جس طرح مادی نہیں ہے ، اسی طرح زمانی و مکانی بھی نہیں ہے، اس کی جگہ کی تعیین نہیں کی جاسکتی۔اس عالم کے وجود کے لیے احادیث میں بے شمار اشارے ملتے ہیں۔ یہاں طوالت کے خوف سے صرف دو مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
پہلی مثال
نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
یُجاء بالموت یومَ القیامۃِ کأنہُ کبشٌ أملحُ ، ۔۔۔ فَیؤمرُ بہِ فیُذبِحُ (المسلم، کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا أھلھا، باب : النار یدخلھا الجبارون والجنۃ یدخلھا الضعفاء)
قیامت کے دن موت کو لایا جائے گا اس کی صورت چتکبرے مینڈھے جیسی ہوگی اور حکم خداوندی سے اس کو ذبح کردیا جائے گا۔ موت ایک امر ربی ہے ، جو معنوی چیز ہے، لیکن عالم مثال میں اس کو مینڈھے کی صورت دے کر ذبح کیا جائے گا۔
دوسری مثال
قَالَ النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم : مارأیتُ فی الخیرِ والشر کالیوم قط،ا8نہ صورت لی الجنۃُ والنار، حتیٰ رأتُھما وارء الحائط۔ (البخاری، کتاب الدعوات، باب التعوذ من الفتن)
جب سورج گہن ہوا تھا اور آپ نماز پڑھارہے تھے ، تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامنے والی دیوار میں جنت و جہنم کی تصویر دیکھی۔اب ظاہر ہے کہ جنت و جہنم کا جو طول و عرض ہے ، وہ ایک دیوار میں نہیں سماسکتا، تو یہی کہنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ منظر آپ ﷺ کو عالم مثال سے دکھائی ہے۔
سائنس کی شہادت
جدید ٹکنالوجی نے اس مئلے کو سمجھنا اور آسان کردیا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں کلو میٹر دور کہیں ایک بہت بڑے میدان میں پروگرام ہورہا ہوتا ہے، بذریعہ ٹی وی اس کو لائیو دکھایا جاتا ہے۔ ٹی وی کی اسکرین کچھ انچوں کی ہوتی ہے ، اس کے باوجود اس میں بڑے بڑے میدان اور بڑی بڑی سائز کی چیزوں کا ہوبہو عکس سماجاتا ہے، تو جو ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں، وہ اصل نہیں ہوتا اور نہ ہم سے قریب ہوتا ہے ، اس کے باوجود اسے ہم جھوٹ یا غیر واقعی نہیں کہہ سکتے، تو اب اس کو کیا کہاجائے گا؟ یقیناًاس کے علاوہ کوئی اور جواب نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی تمثیل ہے اور یہی عالم مثال ہے۔

قسط نمبر (4) پڑھنے کے لیے کلک کریں

23 Apr 2018

قسط نمبر (2) تکلیف شرعی اور جزا و سزا کے اسباب

بسم اللہ الرحمان الرحیم 
تکلیف شرعی اور جزا و سزا کے اسباب 


قسط نمبر (2) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

ایک انسان کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب پوری کائنات اور کائنات کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ کی ہی مخلوق ہے، تو پھر کیوں صرف انسان ہی کواللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کا پابند ہونا پڑتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے اچھا یا برا ، اس کا بدلہ اس کو دیا جائے گا؟ یہ قانون خدا تعالیٰ کی دیگر مخلوق پر لاگو کیوں نہیں ہے؟ مختصر الفاظ میں اس طرح کہ سکتے ہیں کہ شریعت کا مکلف صرف انسان کو کیوں بنایاگیا ہے؟۔
اس باب میں ہم اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش رہے ہیں۔
اس کے جواب کو سمجھنے کے لیے پہلے چند تمہیدی باتیں سمجھنی ہوں گی:
تمہید اول
(۱) اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفتیں اور بے شمار اسمائے حسنٰی ہیں اور ہر صفت کا دائرۂ کار الگ الگ ہے، مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کی ایک صفت غفور ہے ، اس کا تعلق صرف مومن بندوں کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ شرک کی مغفرت نہیں کرے گا۔ اسی طرح ایک صفت منتقم کی ہے، اس کا تعلق مشرک کے ساتھ ہے ، ایمان والوں کے ساتھ نہیں ہے۔اسی طرح اس دنیا و جہان کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی تین صفات کی کرشمہ سازی ہے اور یہ تینوں صفتیں علیٰ الترتیب کام کرتی ہیں۔ ان کو ابداع، خلق اور تدبیر کہاجاتا ہے۔
ابداع کی تعریف و تشریح
ابداع کے معنی بغیر نمونے کے کوئی چیز بنانے کے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سے کوئی نمونہ موجود نہیں تھا اور نہ اس کا کوئی مادہ و میٹریل موجود تھا، مادہ اور مثال کے بغیر ایک انوکھی چیز پیدا کردی، تو یہ ابداع کہلائے گا۔ ارشاد خداوندی ہے کہ بَدِیعُ السَّمَوَاتِ وَالأرْضِ ( سورہ: البقرۃ، آیت نمبر: ۱۱۷، پ۱: اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے موجد ہیں، انوکھے طریقے پر پیدا کرنے والے ہیں۔
خلق کی تعریف و تشریح
خلق کے لغوی معنی پیدا کرنے اور کسی چیز کے بنانے کے ہیں، لیکن اس میں وہی تخلیق شامل ہوتی ہے، جسے کوئی مادہ لے کر بنایا جاتا ہے یا پھر کسی نمونے کو سامنے رکھ کر کوئی چیزایجاد کی جاتی ہے، جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش میں مٹی کا مادہ اور جنات کے جد امجد کی تخلیق میں آگ کی آمیزش شامل ہے۔کائنات عالم کی جملہ مخلوق کو کٹیگری میں تقسیم کریں گے، تو یہ تین طرح کی نظر آئیں گی:(۱) جمادات۔ (۲) نباتات۔ (۳) حیوانات۔
جماداتبے جان چیزوں اور زندگی سے عاری اشیا کا نام جمادات ہے، اس میں نہ ادراک کی صفت ہوتی ہے ، نہ احساس کی ۔ اس میں نشو ونما کی بھی صلاحیت نہیں ہوتی اور نہ ہی ارادہ و قوت کی صفت پائی جاتی ہے۔ اینٹ ،پتھر، سونا،چاندی ، کوئلہ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
نباتات
نباتات میں نشو ونما کی صفت ہوتی ہے، لیکن احساس و ارادہ اور ادارک کی قوت نہیں ہوتی۔ اس میں زندگی پائی جاتی ہے، موت کا بھی حملہ ہوتا ہے، لیکن ارادہ و احساس نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی دوسری خصوصیات نہیں پائی جاتیں، جیسے پیڑ، پودے، سبزیاں وغیرہ نباتات ہیں۔
حیواناتیہ ایسی مخلوق ہے، جس میں احساس، ادراک اور ارادہ ؛تینوں صفتیں پائی جاتی ہیں۔ اس میں سردی، گرمی، زندگی اور موت وغیرہ کا احساس بھی ہوتا ہے اور اپنے ارادہ سے کہیں چل پھر بھی سکتی ہے۔ یہ عقل و ادارک کی خصوصیات بھی اپنے اندر رکھتی ہیں۔چوں کہ حیوانات کی مختلف قسمیں ہیں: کچھ عامل العقل ہیں ، تو کچھ ناقص العقل ، اس لیے پھر اس کی کئی تقسیمیں ہیں۔ انسان اور جانور اس کی سب سے بڑی تقسیم ہے۔پھر انسانوں میں بھی ادراک و تعقل کے درجات کی بنیاد پر مختلف تقسیمیں ہوتی ہیں۔ اور ہر ایک تقسیم کا حکم الگ الگ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ ہے یا پاگل ہے، تو اس کا حکم اس سے مختلف ہوتا ہے، جو کامل العقل اورمکمل بصیرت کا حامل ہوتا ہے ۔ان تینوں کو مخلوقات کو موالید ثلاثہ کہاجاتا ہے۔
تدبیر کی تعریف و تشریح
تدبیر کے لفظی معنی انتظام کرنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو خود پیدا کیا، پھر اس کا نظم و انتظام بھی خود ہی فرمارہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اسباب میں تاثیر رکھی ہے، اس لیے جو کچھ بھی اسباب کے پردے سے وقوع پذیر ہوتا ہے، وہ درحقیقت اللہ ہی کا کارنامہ ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ کائنات اللہ پاک کی تین صفات کی کرشمہ سازیاں ہیں: صفت ابداع سے اس عالم کا مادہ بنایا۔ پھر صفت خلق کے تقاضے سے مادہ لے کر موالید ثلاثہ کو وجود بخشا۔ پھر صفت تدبیر کے ذریعے پورے عالم کا نظم و نسق کو مرتب کیا۔ 
قسط نمبر (3) پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

22 Apr 2018

قسط نمبر (1) شریعت کے اسرار و حکم

شریعت کے اسرار و حکم
قسط نمبر (1) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

حکمت شرعیہ کی تعریف


جس اصول و فن کے ذریعے قوانین اسلام اور اصول دین کی وضع کی علت و حکمت معلوم ہوتی ہے، اسے حکمت شرعیہ کہاجاتا ہے۔احکام اسلام میں کچھ فرائض ہیں اور کچھ وجوب، استحباب ، کراہت وغیرہ ۔ اور ان کے الگ الگ مراتب و درجات ہیں ، اس فن میں ان تمام چیزوں کے اصول و فروع کو بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے۔
حکمت شرعیہ کا موضوع
احکام شرعیہ کی حکمتیں اور علتیں اور اسلامی اعمال و احکام کی خصوصیات اور ان کے رموز و نکات اس فن کے موضوعات میں شامل ہیں۔
غرض و غایت
اس فن کی دو غرض و غایت ہے : ایک عام اور دوسری خاص۔
عام غرض و غایت
تمام اسلامی علوم و فنون کی طرح اس کا بھی عام مقصد یہی ہے کہ اس کے مطالعہ سے سعادت دارین حاصل ہوجائے ۔اور دونوں جہان کی نیک بختی اور کامیابی کا ذریعہ بنے۔
خاص غرض و غایتاحکام اسلام میں بصیرت کی کیفیت پیدا کرنا اس کا خاص مقصد ہے؛ کیوں کہ جو کوئی اعمال اسلامی کی علت و اسرار اور اس کی عقلی توجیہات سے واقف ہوتا ہے ، تو وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے میں کوئی تنگی محسوس نہیں کرتا؛ بلکہ وہ اس یقین کے ساتھ عمل کرتا ہے کہ یہی فطرت کا تقاضا ہے۔ اس کے خلاف کرنا گویا فطرت سے بغاوت کا اعلان ہوگا۔
حکمت شرعیہ کے فائدے
اس علم کے سر دست تین فائدے ہیں:
(۱) شریعت کے اسرار و رموز سے واقف شخص پورے دین کو علیٰ وجہ البصیرت سمجھ سکتا ہے اور دوسروں کو اس دین کا قائل کرسکتا ہے۔
(۲) اس علم سے واقف شخص غلط عقائد اور کج قیاس آرائیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ وہ ہرعقیدے کو پہلے فطرتی اصولوں پر پرکھتا ہے۔ پھر عقلی تقاضے کے مطابق اس کے صحیح ہونے اور غلط ٹھہرانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ محض اس بنیاد پر کہ وہ دینی معاملہ ہے ، اس کے آگے سر خم تسلیم نہیں کرتا؛ بلکہ پہلے اس کو خوب ٹٹولتا ہے، پرکھتا ہے ، پھر کوئی فیصلہ کرتا ہے۔
(۳) حکمت شرعیہ جان لینے سے ایمان میں پختگی پیدا ہوجاتی ہے اور مومن کا یقین بالائے یقین ہوجاتا ہے۔
شریعت کا کوئی بھی حکم مصلحت سے خالی نہیں
قرآنی احکامات اور تعلیمات نبوی علیہ السلام پر غور کیا جائے ، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خدائے برتر و حکیم کا کوئی بھی حکم مصلحت سے خالی نہیں ہے۔ شریعت جہاں انسان کی رہ نمائی کے لیے کوئی مسئلہ بیان کرتی ہے، وہیں اسی مسئلے میں اس کے لیے دنیوی فوائد بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں ہر مسئلے کی مصلحت معلوم ہو یا نہ ہو؛ کیوں کہ شریعت اسلامیہ کے تمام اوامر و نواہی کا آمر و حاکم حکیم و علیم ہے اور حکیم کا کوئی بھی کام حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ دین وشریعت کے کسی حکم میں کوئی دنیاوی ضرر ہو ۔ 
اسی طرح یہ امر بھی مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن اعمال پر جو بھی جزا یا سزا مقرر فرمایا ہے ، ان کے درمیان گہری مناسبت ہوتی ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہوسکتا کہ انسان عمل کچھ کرے اور اس کی جزا کچھ اور دیا جائے؛بلکہ جزاو سزا عمل کے مطابق ہی دیا جاتا ہے۔ بے شمار قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ میں اس کے شواہد ملتے ہیں، جس کا تفصیلی بیان آگے کی صفحات میں آرہا ہے۔
مسائل کے ساتھ مصالح کا تذکرہ
احادیث میں جابجا مسائل کے ساتھ مصالح کا تذکرہ ملتا ہے۔ بعض موقعوں پر خود زبان نبوت مصلحتوں کا ذکر کرتی نظر آتی ہے، جب کہ بعض دیگر مواقع پر صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین بھی احکام کی علتیں بیان کرتے تھے۔ تابعین اور تبع تبعین نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا اور ان کے بعد علمائے مجتہدین بھی برابر احکام کی مصلحتیں بیان کرتے رہے ہیں۔ہر دور کے علما بھی اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے احکام کے وجوہ و معانی سمجھاتے رہے ہیں اور اپنے دور کے مقتضیات کے مطابق قرآن و احادیث سے مسائل کے ساتھ ان کی مصلحتیں اخذ کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الگ الگ دور کے علمائے کرام کی تحریروں میں ان کے زمانے کے رنگ سے ہم آہنگ مسائل کے ساتھ مصالح کا تذکرہ ملے گا۔اگر فلسفہ کا دور رہا ہے ، تو اس زمانے کے علمائے کرام کی تحریروں میں یہی رنگ نمایاں نظر آئے گا۔ اور اگر مادیاتی اور عقلیاتی دور کی باتیں کریں، تو یہاں بھی یہی عکس نمایاں دکھائی دیگا۔
اعمال پر عمل کرنے کے لیے مصلحتوں کا جاننا ضروری نہیں
اگرچہ یہ امر مسلم ہے کہ احکام میں مصلحتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، لیکن ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی علتیں اور مصلحتیں بھی معلوم ہوں۔ یہ تو محض بصیرت پیدا کرنے اور ایمان میں تازگی بخشنے کا ایک وسیلہ ہے۔ اس لیے کسی حکم سے پہلو تہی کرنے کے لیے یہ عذر قابل قبول نہیں ہوسکتا کہ ہمیں اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے، اس لیے اس پر عمل بے جا ہے۔ عمل آوری کے لیے بس یہی دلیل کافی ہے کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فرمایا ہے؛ البتہ اس کی تحقیق ضروری ہے کہ وہ حکم قرآن و یاحدیث سے صراحۃ یا استنباطا صحیح ہے نہیں۔ارشاد خداوندی ہے کہ وَالَّذیْ اذا ذُکِّرُوا بِاٰیَاتِ رَبِّھَمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْھَا صُمّا وَّ عُمْیَانا (سورۃ: الفرقان، آیۃ: ۷۳، پ۱۹:)اللہ کے مخصوص بندوں کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ جب ان کو ان کے رب کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں، تو وہ ان پر بہرے اندھے ہوکر نہیں گرتے، اس لیے احکام دین کا صرف سرسری مطالعہ یا غیر معتبر لوگوں سے سن لینا کافی نہیں ہے ، اس کی پوری تحقیق ضروری ہے ؛ لیکن جب تحقیق ہوجائے تو اب اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے دیر بھی نہیں لگانی چاہیے۔

قسط نمبر (2) کا مطالعہ کرنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں

20 Apr 2018

شعبان


محمد یاسین جہازی قاسمی مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علمائے ہند
واٹس ایپ 9871552408


ماہ اسلامی کے تسلسل میں آٹھواں نمبر شعبان کا ہے۔ اس کی صفت معظم ہے یعنی ایسا مہینہ، جو عظمت و تقدس کا حامل ہے۔ اس کی عظمت و بزرگی کی کئی وجوہات ہیں۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ مہینہ سرورکونین ﷺ کا مہینہ ہے۔ اس کا دوسرا عنوان شہر رسول بھی ہے ۔ اور یہ بات آپ بخوبی جانتے ہیں، جس چیز کی نسبت سرورکائنات ﷺ سے ہوجائے تو اس کی عظمت و تقدس کی کیا شان ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے بعد سب سے زیادہ اسی مہینہ میں روزہ کا اہتمام فرمایا کرتے تھے ۔ اس مہینہ کی فضیلت کی یہ دوسری وجہ تھی اور تیسری وجہ یہ ہے کہ اسی مہینہ میں بارگاہ خدا وندی میں بندوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ۔ اسی لیے نبی اکرم ﷺ اپنے روزہ کی وجہ بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال کی پیشی کے وقت میں روزہ کی حالت میں رہوں۔ چوتھا سبب یہ ہے کہ یہی وہ مہینہ ہے، جس میں انسان کی تقدیریں مرتب ہوتی ہیں۔ پورے سال معرض وجود میں آنے والوں اور اسی طرح دنیا سے جانے والوں کی فہرست بنائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ان کے مقدرات کا بھی فیصلہ ہوتا ہے۔ علامہ ابن رجب حنبلی ؒ نے لطائف المعارف میں لکھا ہے کہ حسن ابن سہیلؒ نے کہا کہ شعبان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک مکالمہ ہوا۔ شعبان نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ درخواست پیش کی کہ ائے اللہ ! تو نے مجھے دو عظیم مہینوں کے بیچ میں رکھ دیا ہے، لہذا میرے لیے بھی تو کچھ فرمائیے۔ تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہم نے تجھے تلاوت قرآن کے مہینہ کا اعزاز بخشا ہے ۔ لوگ تیرے دنوں میں تلاوت کا خوب اہتمام کریں گے ۔ ابن الصیف ایمنی فرماتے ہیں کہ ان اللہ و ملائکتہ یصلون والی آیت اسی مہینے میں نازل ہوئی ہے ، لہذا یہ درود و صلاۃ کا مہینہ ہے ۔ بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف قبلہ کی تحویل بھی اسی ماہ میں ہوا ہے، لہذا یہ مہینہ تحویل قبلہ کا مہینہ بھی ہے۔ 
ماہ شعبان کو رمضان کا پیش خیمہ بھی کہاجاتا ہے۔ اس مہینہ میں رمضان کی تیاری کا پورا اہتمام کرنا چاہیے ۔ تیاری کے حوالے سے نبی اکرم ﷺ کے اقوال و اعمال اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کردار سے جو چیزیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
(۱) دعا کا اہتمام: اس مہینہ میں نبی اکرم ﷺ سے دو دعائیں منقول ہیں:
(الف) اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان (۱) 
(ب) اللھم سلمنا لرمضان، وسلم رمضان لنا۔ (۲) 
(۲) معمولات میں تبدیلی: رمضان اور عیدکی ساری خریداری اسی مہینہ میں کرلیا جائے۔ بعض صحابہ کرام کے متعلق آتا ہے کہ وہ رمضان میں اپنی تجارت بند کردیا کرتے تھے ، حتیٰ کہ زکوٰۃ ، صدقات کی ادائیگی سے بھی فارغ رہتے تھے ، تاکہ ان کی وصولیابی کرنے والوں کا رمضان در در گردش میں نہ گذر جائے اور وہ بھی یکسوئی کے ساتھ رمضان المبارک کا اہتمام کرسکیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ شعبان میں صحابہ کے معمولات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شعبان آتے ہی تلاوت کا اہتمام بڑھ جاتا تھا۔ غریبوں اور مسکینوں کی حاجت روائی کے لیے زکوٰۃ بھی ادا کردیا کرتے تھے۔ عمرو بن قیس اعلائی کا معمول تھا کہ جوں ہی شعبان کا مہینہ شروع ہوتا تھا، تونہی دوکان بند کردیتے تھے اور دوکان پر لگنے والا سارا وقت تلاوت میں لگاتے تھے۔
(۳) جتنے بھی واجب حقوق ہیں، ان سے فارغ ہوجائیں۔ مثال کے طور پر کسی کی کفالت آپ کے ذمہ واجب ہے، تو اس فریضہ کو رمضان سے پہلے ہی ادا کردیں۔ آپ کسی کمپنی کے مالک ہیں اور آپ ہی کے توسط سے آپ کے ملازمین کے چولہے جلتے ہیں، تو کوشش یہ کریں کہ قبل از رمضان اسی مہینہ میں ان کو حق المحنت ادا کردیں، اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم عام مہینوں کے مقابلہ میں اس مہینہ میں قبل از وقت ادائیگی کی فکر کریں۔ 
(۴) حقوق العباد کا تصفیہ کرلیں۔ اگر کسی کا بقیہ ہے ، یا کسی سے بد کلامی ہوئی ہے، تو ان سب کا تصفیہ کرلیں، تاکہ اگلے مہینے میں مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنے وقت کو رمضان کے احترام کے لیے فارغ کرسکیں۔
(۵) خواتین پردہ کا اہتمام کریں۔ عورتوں کے لیے پردہ فرض ہے ۔ اور فرض کی ادائیگی بہر حال ضروری ہے۔ اس لیے کوشش یہ کریں کہ اس کا اہتمام اس مہینہ میں بڑھا دیں، تاکہ رمضان میں کسی قسم کی اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی سرزد نہ ہوسکے۔
(۶) مر د حضرات داڑھی منڈھوانا بند کردیں۔ گرچہ عام مہینوں میں بھی داڑھی رکھنا واجب ہے۔ یہ سرور کائنات ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔ آپ ﷺ کا چہرہ داڑھی سے مزین تھا، اس لیے نبی ﷺ کی سیرت کو اپناتے ہوئے واجب کی بے حرمتی کرنے سے باز آئیں اور رمضان کی عظمت کے پیش نظر داڑھی رکھنے کا مکمل اہتمام کریں۔ 
(۷) اسی طرح ایک دوسرا حرام کام ہے، جس میں لوگ عام طور پر مبتلا ہیں، وہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننا۔ یہ عمل بھی ہمیشہ کے لیے حرام ہے، لیکن رمضان کی حرمت کا تقاضا یہ ہے کہ کم از کم اس مہینہ میں اس حرام سے بچیں اور ٹخنوں سے اوپر تک ہی لباس پہنیں۔ 
(۸) اسلامی تاریخ کا یاد رکھنا بھی ایک مستحسن عمل ہے، لیکن شعبان کے متعلق خصوصی ہدایت یہ ہے کہ رمضان کی خاطر شعبان کی تاریخوں کو یاد رکھنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔
(۹) رمضان کا استقبال: حضور اکرم ﷺ شعبان کے دنوں میں صحابہ سے فرمایا کہ کون تمھارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟ اس پر حضرت عمرؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ کیا کوئی وحی نازل ہوئی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ پھر پوچھا کیا دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ تو آپ ﷺ نے پھر جواب دیا کہ بالکل نہیں۔ حضرت عمر نے پھر پوچھا کہ پھر کیا بات ہے؟ اس پر ارشاد گرامی ہوا کہ آگے ایک ایسا مہینہ آرہا ہے، جس کی پہلی رات میں ہی سبھی اہل قبلہ کی مغفرت ہوجاتی ہے ۔
پندرہ شعبان
پندرہ شعبان کی رات کے حوالے سے نبی اکرم ﷺ کا یہ واقعہ منقول ہے کہ اس رات کو حضرت عائشہ صدیقہؓ کی باری کا دن تھا۔ اور انھیں کے گھر میں محو خواب تھے۔ جب کافی رات ہوئی ، تو آپ ﷺ بیدار ہوئے اور بقیع غرقد تشریف لائے، یہ اہل مدینہ کی قبرستان ہے، جو آج بھی موجود ہے اور مردوں کے لیے دعائے مغفرت کرنے لگے۔ اسی بیچ حضرت عائشہؓ کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ آپ ﷺ موجود نہیں ہیں، چنانچہ آپﷺ کی تلاش کے لیے نکلیں۔اور دیکھا کہ آپ یہاں قبرستان میں ہیں۔ آپ ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو دیکھا تو فرمایا کہ کیا تمھیں یہ اندیشہ ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول تمھارے ساتھ نا انصافی کریں گے؟ اس پر حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ میں میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ شاید آپ کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمھیں معلوم ہے کہ یہ کونسی رات ہے؟ تو حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلومات ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے اس رات کو اللہ تعالیٰ سمائے دنیا پر نازل ہوتے ہیں اور مغفرت طلب کرنے والوں کی مغفرت کرتے ہیں۔ طالب رحمت کو رحمت سے نوازتے ہیں اور کینہ پرور کو ڈھیل دیتے ہیں۔
اس مہینے کی پندرھویں شب کو جب کہ سب کے لیے مغفرت کا اعلان عام ہوتا ہے، ایسے موقع پر بھی سات لوگوں کی مغفرت نہیں ہوتی۔ وہ سات لوگ یہ ہیں:
(۱) مشرک۔ (۲) رشتہ توڑنے والا۔ (۳) کینہ رکھنے والا۔ (۴) ٹخنے سے نیچے کپڑا پہننے والا۔ (۵) والدین کا نافرمان۔ (۶) شراب پینے والا۔ (۷) ناحق مسلمان کو قتل کرنے والا۔ 
اس لیے کوشش یہ کریں کہ آپ کا شمار ان لوگوں میں سے نہ ہوسکے ، تاکہ آپ کی مغفرت ہوجائے اور آپ کی تقدیر کا بہتر فیصلہ ہو تاکہ پورا سال آپ کی زندگی چین و سکون اور خیرو عافیت کے ساتھ گذر سکے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ ماہ شعبان کی عظمت کا احترام کرتے ہوئے رمضان کی تیاری میں لگ جائیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس شہر رسول کے احترام کی توفیق ارزانی کرے اور رمضان کی ساری برکتوں اور نوازشوں کا حق دار بنائیں آمین، یا رب۔
مآخذ و مصادر
(۱) مسند البزار، البحر الذخار، مسند ابی حمزۃ انس بن مالک۔
(۲)مختصر قیام اللیل وقیام رمضان و کتاب الوتر، باب التعوذ عند القرأۃ فی قیام رمضان۔
(۳) إِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لیلَھا وَصُومُوا نَھارَھا، فَإِنَّ اللَّہَ ینْزِلُ فِیھَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَیٰ سَمَاءِ الدُّنْیَا، فیقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَہُ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَہُ أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِیہُ أَلَا کذا أَلَا کَذَا، حَتَّیٰ یَطْلُعَ الْفَجْرُ (سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)
(۴)شعبان شھری و رمضان شھر اللہ۔ (الجامع الصغیر،حرف الشین، حدیث نمبر ۴۸۸۹) 
(۵) احصوا ھلال شعبان لرمضان۔ (ترمذی باب ماجاء فی احصاء ھلال شعبان) 
(۶)ماذا یستقبلکم و تستقبلون الخ (صحیح ابن خزیمہ، فضائل شہر رمضان)
(۷) کان المسلمون اذا دخل شعبان انکبوا علیٰ المصاحف آہ (لطائف المعارف، ص۲۵۸)
(۸) ان اللہ عز و جل ینزل لیلۃ النصف من شعبان الیٰ سماء الدنیا ، فیغفر لامتی من عدد شعر غنم کلب (ترمذی ، کتاب الصوم، باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان۔

19 Apr 2018

خودی کی شناخت


محمد یاسین جہازی قاسمی، شعبہ مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علمائے ہند

خودی کی شناخت
انسان کے اندر دو چیزیں ہیں: ایک ذات، دوسری صفات۔ اور ان دنوں کے اعتبار سے اس کی دو کٹیگری ہیں۔ ذات کے اعتبار سے اولو الالباب اور غیر اولوالالباب میں تقسیم ہے۔ اور صفات کے اعتبارسے وہ عالم اور جاہل کہلاتا ہے۔ 
ذات سے مراد یہ ہے کہ وہ چیز انسان اپنے اندر خود سے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ مرد و عورت کی صنف اس کی واضح مثال ہے، کیوں کہ انسان اپنی خواہش یا مرضی سے لڑکا یا لڑکی کی ذات بن کر جنم نہیں لے سکتا ۔ ہندووں کے یہاں تو بھگوان تک پیدا ہوتے ہیں، جس سے ان کا سراسر خلاف فطرت ہونا واضح ہوجاتا ہے ، کیوں کہ جو بھگوان دوسروں کو پیدا کرنے کا مالک و مختار ہوتا ہے، خود اس کو کسی انسان سے جنم لے کر بچپن اور انسانوں کی تمام کمزوریاں مول لینے کی کیا ضرورت ہے۔ صفات کا مطلب یہ ہے کہ انسان بعد از پیدائش اپنے اندر کچھ صلاحتیں پیدا کرنے میں مالک و مختار ہے۔ اگر کسب و کوشش کرے گا تو وہ چیز اسے حاصل ہوجائے گی، نہیں کرے گا، تو محروم رہے گا۔ عالم ، جاہل، بے ہنر، باکمال ؛ یہ سب اس صفت کے مظاہر ہیں۔ 
شریعت اسلامی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان ذاتیات کی حیثیت کے مطابق فرائض کا مکلف ہوتا ہے ۔ اگر وہ صاحب عقل و دانش ہے، تو اس کے ساتھ سبھی فرائض وابستہ ہیں؛ لیکن اگر وہ سفیہ العقل ہے تو وہ کسی بھی فرائض کا ذمہ دار نہیں۔ اور اگر کوئی درمیانی درجہ کا سمجھ بوجھ رکھتا ہے تو وہ اسی اعتبار سے مکلف ہوتا ہے ۔ اور صفات کا کام یہ ہوتا ہے کہ اسے مقام و منزلت بخشتی ہیں۔ چنانچہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ عالم کا مقام و مرتبہ اس سے جدا ہوتا ہے جو جاہل اور گنوار کا ہوتا ہے ۔
اس قاعدہ کلیہ کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے خود کی ذات و صفات پر غور کرے اورپھر یہ طے کرے کہ ہمارے فرائض و واجبات کیا ہیں اور کتنے ہیں۔ اور پھر اسی اعتبار سے اپنے دائرہ کار کا تعین کرے۔ تدبر و تفکر کے بعد اپنا مقام و مرتبہ اور فرائض سمجھ میں آجائے ،تو ان کی انجام پذیری میں لگ جائے، اس حوالے سے نہ تو اپنے فرض منصبی سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی اپنے دائرہ کار کو لانگھنے کی کوشش کرے۔ اگر ہر شخص اپنے فرائض کو پہچان کر اپنے اپنے دائرہ عمل میں محدود رہے، تو یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ اس کائنات کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکے گا، لیکن اگر جہاں وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے حد پار کرتا ہے، تو وہ خودبھی گرفتار بلا ہوتا ہے اور دوسروں کے بھی چین و سکون کو غارت کرتا ہے۔ 
قیادت کے مسئلے میں نااہل کے مشورے، نا اہل فرد سے قیادت کی توقع، اپنی اوقات سے باہر کی لاف زنی اور لاف زنی میں بے وجہ الجھنا ، عملی زندگی میں زیرو اور سوشل میڈیا پر ہیرو بننے کی کوشش، کرکٹ میں مہارت پیدا کرلینے پر ادب پر نقد کا حق جتانا اور ڈانس کی تعلیم حاصل کرلینے پر ماہر اسلامیات کہلانا اور اس قسم کے سیکڑوں حادثات کے پیچھے یہی اصول کار فرما ہوتا ہے کہ انسان اپنی ذات کے مطابق فرائض و حدود کا تعین کیے بغیر دوسرے کے عملی میدان میں ٹانگے اڑانے لگتا ہے ۔ پھر اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے ، اسے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
راقم کا عندیہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند، مسلم پر سنل لاء بورڈ، جماعت اسلامی ہند، ملی کونسل، مسلم پاپولر فرنٹ آف انڈیا، امارت شرعیہ ، مجلس علماء ہند اور اس طرح درجنوں ملی تنظیموں کی طرف سے کیے گئے کاموں پر بیجا تنقید و تبصرے؛ یہ سب اس کے عملی مظاہر ہیں۔ دین بچاؤ، دیش بچاؤ کانفرنس کی تازہ مثال آپ حضرات کے سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل فہیم اور فہم رشید عطا فرمائیں، تاکہ ہم اپنی ذات و صفات میں غوروفکر کرکے اپنے فرائض کو سمجھ سکیں اور اپنے ہی دائرہ میں رہ کر صرف اپنے فرائض کو ادا کریں اور دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑاکر چین و سکوت غارت کرنے کا سبب نہ بنیں۔ اللہم آمین یا رب۔

مآخذ و مصادر
۱۔ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوْ الْاَلْبَابِ (الزمر آیۃ ۹)
۲۔ رفع القلمُ عن ثلاثۃ: عن النائم حتیٰ یستیقظ، وعن المبتلیٰ حتیٰ یبرأ و عن الصبی حتیٰ یکبر (سنن ابی داود، کتاب الحدود،باب فی المجنون یسرق او یصیب حدا)


13 Apr 2018

خیر وشراور سنگم۔۔۔جنت جہنم اور دنیا۔۔۔ فرشتے، شیطان اور انسان۔۔۔ اورانجام؟

خیر وشراور سنگم۔۔۔جنت جہنم اور دنیا۔۔۔ فرشتے، شیطان اور انسان۔۔۔ اورانجام؟ 
محمد یاسین جہازی قاسمی
اس کائنات خداوندی میں اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس دنیا اور اخروی دنیا میں تین الگ الگ کیفتیں ہیں ۔ اور انھیں تین کیفیتوں کے لحاظ سے مخلوقات کی بھی تین قسمیں ہیں۔ اور نتیجہ کے اعتبارسے ان کے ٹھکانے بھی تین ہی ہیں۔ 
پہلی کیفیت کا نام خیر ہے۔ اس کی خاصیت بھلائی، امن و سکون اور چین و اطمئنان ہے۔ دوسری کیفیت شر ہے۔ یہ خیر کی ضد ہے، لہذا اس کی خصوصیات میں وہ تمام چیزیں پائی جائیں گی، جو خیر کے برعکس ہیں، یعنی جہاں بھی شر ہوگا، وہاں فتنہ و فساد اور امن و سکون کا فقدان ہوگا۔ تیسری کیفیت خیر و شر کا سنگم ہے۔ اور یہ کیفیت اپنے وجود میں اپنے دو نوں پہلووں کی خصوصیات پر مشتمل ہوگی ۔
ان کیفیات ثلاثہ کی مناسبت سے مقامات بھی تین ہیں: (۱) جنت : یہ کیفیت خیر کا مظہر جمیل ہے۔جس کے اندر خیر ہوگا، وہ جنت کا مستحق ہوگا۔ اور جو جنت کا مستحق ہوگا، وہ خیر کی تمام خصوصیات سے لطف اندوز ہوگا۔ (۲) جہنم: یہ شر کی صفات سے متصف ہے ، لہذا یہ مقام شر اور شریروں کے لیے موزوں و مناسب ٹھکانہ ہے۔ (۳) خیرو شر کا سنگم: اس مقام کا دوسرا نام دنیا ہے۔ دنیا میں خیر کا وجود بھی ہے اور شر کا بھی۔اسی وجہ سے دنیا کو سراسر جنت بھی نہیں کہہ سکتے اور اسے جہنم کا بھی نام نہیں دے سکتے۔ 
پھر ان کیفیات و مقامات کی مناسبت سے مخلوقات بھی تین ہیں: 
(۱) فرشتے: تمام فرشتوں کی خمیر میں خیر محض ہے، ان کے اندر شر کی ذرا بھی صلاحیت نہیں ہے، لہذا یہ مقام خیر اور کیفیت خیر سے وابستہ مخلوق ہے۔ اگر کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ فرشتہ کی طرف سے یہ شر کا کام ہورہا ہے، تو دراصل وہ شر نہیں ہوتا، بلکہ اس کے پیچھے بہت بڑا خیر چھپا ہوا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ملک الموت روح قبض کرتے ہیں، جس سے ظاہر میں ایسا لگتا ہے کہ موت ایک مصیبت اور شر ہے، لیکن درحقیقت یہ خیر کے دروازے کھولنے کا سبب ہوتا ہے ۔ کیوں کہ اگر کسی انسان کو کبھی موت نہیں آئے گی، تو انسان حصول جنت اور رضائے الٰہی کے لیے جو عبادات و ریاضات انجام دیتے ہیں ، وہ سب لاحاصل اور فضول ہوجائیں گی۔ اسلام کے تمام اوامر و نواہی بھی لایعنی اور بیکار قرار پائیں گے۔ لہذا موت دراصل اللہ تعالیٰ سے ملاقات، اپنے اعمال کا پھل اور انعام پانے کا واحد ذریعہ ہے ، جو سراسر خیر ہے۔ اور یہی کار خیر ملک الموت انجام دیتے ہیں۔ المختصر فرشتے سے کبھی کسی شر کا سرزد ہونا محال ہے، لہذا تمام فرشتے جنتی ہیں۔ 
(۲) شیطان: اس کی سرشت میں شر شامل ہے، اس لیے اس کے اندر خیر کا کوئی بھی مادہ نہیں پایا جاتا۔ اگر کہیں شیطان کی کی طرف سے کوئی خیر نظر بھی آئے تو دراصل اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی اس سے بڑا شر اور ضرر پوشیدہ ضرور ہوگا، جیسا کہ حضرت امیر معاویہؓ کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ نماز کے سخت پابند تھے، حتیٰ کہ تہجد کی نماز بھی کبھی فوت نہیں ہوئی۔ ایک رات کا واقعہ ہے کہ وہ سوئے تو آنکھ نہیں کھلی اور تہجد کا وقت نکل گیا۔ جب بیدار ہوئے ، تو بہت نادم ہوئے اور فوت شدہ تہجد کے بدلے اس سے کئی گنا عبادت کی اور خوب توبہ تلہ کیا۔ اور ساتھ ہی عزم بھی کیا کہ اب آئندہ کبھی فوت نہیں ہونے دیں گے۔ اس کی اگلی رات اپنے محل میں سو رہے تھے ، تہجد کا وقت ہوا چاہتا تھا کہ ایک شخص آیا اور حضرت کے پیر ہلاکر کہنے لگے کہ اٹھیے اٹھیے، تہجد کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ حضرت امیر معاویہؓ بیدار ہوئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں میرے محل میں کیا کر رہے ہو، تو اس نے جواب دیا کہ میں آپ کا شبھ چنتک ہوں، تہجد کے لیے بیدار کرنے آیا ہوں کہ کہیں کل کی طرح آج پھر آپ کی تہجد نہ چھوٹ جائے۔ حضرت امیرؓ نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ سچ بتاؤ تم کون ہو؟ اگر تم میرے خیر خواہ ہوتے، تو کل بھی جگاتے ، آج ہی جگانے کیوں آئے ہو؟ تب اس نے بتایا کہ میں شیطان ہوں۔ آپ کی فرض نماز تو ہم چھڑوانے سے رہے، تہجد کی نماز چھڑوانے میں کل کامیاب ہوگئے تھے، لیکن اس کے بدلے آپ نے اتنی عبادات اوراس قدر توبہ تلہ کیا کہ تہجد کے ثواب سے کئی گنا مقام اور ثواب آپ کا بڑھ گیا، تو مجھے بہت افسوس ہوا۔ اس لیے میں نے سوچا کہ آج خود ہی آکر آپ کو جگادوں ۔ مبادا کہیں ایسا نہ ہو کہ آج بھی تہجد چھوٹ جائے اور اس کے بدلے اس سے کہیں زیادہ عبادات اور توبہ کرکے مزید ثواب کمالیں۔تب حضرت امیر معاویہؓ نے فرمایا کہ میں تبھی سمجھ گیا تھا کہ ایک شیطان کی طرف سے خیر کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر لعنت و ملامت کرکے اسے دھتکار دیا۔ بہر کیف ایک شیطان مجسم شر ہے اور مقام شر جہنم ہے، اس لیے تمام شیطان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (۳) انسان: اس کے اندر خیر و شر دونوں مادے موجود ہیں ۔ انسان کار خیر بھی انجام دیتا ہے اور کبھی کبھار شر کے کام بھی اس سے سرزد ہوجاتے ہیں۔
یہ قاعدہ کلیہ اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیتا ہے کہ انسانوں کا وجود ڈائریکٹ جنت یا جہنم میں کیوں نہیں ہوتا، اسے پہلے دنیا میں کیوں بھیجا جاتا ہے ۔ اسی طرح یہ مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے کہ دنیا میں ہمیں فرشتے یا شیطان ہماری مرضی کے مطابق ہمیں کیوں نظر نہیں آتے۔
بہر کیف کیفیت و مقام کی مناسبت سے انسان کو پہلے دنیا میں بھیجا جاتا ہے ، کیوں کہ یہی مقام اس کے خیر وشر کی صلاحیت کے اعتبار سے موزوں جگہ ہے۔ گویا دنیا کو اس کے لیے امتحان گاہ بنایا گیا ہے ۔ یہاں انسان ہر گھڑی امتحان میں ہے ۔ اس امتحان میں آزمائش اور پاس ہونے کے لیے اسے تین چیزیں دی گئی ہیں: عقل، دل اور نفس۔ نفس خواہشات پیدا کرکے دل کوعمل کے لیے برانگیختہ کرتا ہے۔ دل عموما جذباتی ہوتا ہے اور نفس کی پیدا کردہ خواہشات پر عمل درآمد کی کوشش کرتا ہے ؛ لیکن اس پر عمل کرنے سے پہلے عقل تدبر و تفکر کی دعوت دیتی ہے ۔ اگر دل عقل کی باتوں پر عمل کرتا ہے، تو دل نفس کی انھیں خواہشات پر عمل آوری کرتا ہے، جوملکیت اور خیر کے تحت ہوتا ہے اور اس طرح قوت شر و بہیمیت مغلوب ہوکر کار خیر انجام پاتے ہیں۔اور انسان اس امتحان میں کامیاب ہوتا چلا جاتا ہے۔اور کیفیت خیر کی مناسبت سے جنت ا س کا استقبال کرتی ہے۔ لیکن اگر نفس کے ابھارنے پر دل عقل سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام انجام دیتا ہے ، تو دل پر قوت بہیمیت غالب آجاتی ہے اور قوت خیر مغلوب ہوجاتی ہے، جس سے محض برے کام سرزد ہوتے ہیں اور اس طرح انسان برائیوں اور گناہوں کے دلدل میں پھنس جاتا ہے اور اس دنیاوی امتحان میں ناکام و نامراد ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں شر کی مناسبت سے اس کا ٹھکانہ جہنم قرار پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے عقل و شعور سے کام لینے کی توفیق ارزانی کرے اور قوت خیر کو غالب کرتے ہوئے مقام خیر کا مستحق بنائے آمین۔ 
مصادر مضمون
۱۔ قرآن کریم 
وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً، وَإِلَیْنَا تُرْجَعُونَ۔ (الانبیاء، آیۃ ۳۵)
۲۔ حدیث پاک
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّیٰ اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّہُ الْعَقْلَ قَالَ لَہُ: أَقْبِلْ، فَأَقْبَلَ، ثُمَّ قَالَ لَہُ: أَدْبِرْ، فَأَدْبَرَ، فَقَالَ: وَعِزَّتِي مَا خَلَقْتُ خَلْقًا ھُوَ أَعْجَبَ إِلَيَّ مِنْکَ، بِکَ أُعْطِي، بِکَ الثَّوَابُ وَعَلَیْکَ الْعِقَابُ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،رقم الحدیث۸۰۱۲) 
۳۔ حجۃ اللہ البالغہ۔

مختصر حالات حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ

محمد یاسین جہازی
حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی مرحوم کی زندگی کے حالات سے متعلق کوئی تحریری دستاویز موجود ہے۔ معاصرین سے ملی زبانی روایات پر مبنی معلومات کے مطابق آپ اپنے گھر کی بھینس چرانے گئے تھے کہ اسی دوران بھینس کو ساتھیوں کو حوالے کرکے وہاں سے نکل گئے اور پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ آپ علاقے کے ایک قدیم ادارہ مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ بھاگل پور پہنچ گئے ہیں۔ یہاں آپ نے درجہ دوم تک تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دارالعلوم دیوبند آئے۔ دارالعلوم دیوبند میں موجود ریکارڈ کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۴؍ مئی ۱۹۱۹ ؁ء، مطابق ۳؍ شعبان ۱۳۳۷ھ ؁ بروز اتوار ہے۔ دارالعلوم میں آپ نے ۳۰؍ نومبر ۱۹۳۸ عیسوی مطابق ۷؍ شوال ۱۳۵۷ھ ؁ بروز بدھ درجہ سوم میں داخلہ لیااور مکمل چھہ سال کی تعلیم کے بعد اگست ۱۹۴۳ ؁ء، مطابق شعبان۱۳۶۲ ؁ھ میں سند فضیلت حاصل کی۔ آپؒ دیوبند میں حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب نور اللہ مرقدہ کے زیر تربیت تھے۔ فراغت کے بعد انھیں کے حکم و ارشاد پر مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑھ میرٹھ تشریف لے گئے اور صدر مدرسی کے عہدے پر فائز ہوکر تعلیمی و انتظامی خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر یہاں سے مستعفی ہوکر دوبارہ اپنے شیخ کی خدمت میں دیوبند لوٹ گئے۔ حضرت شیخ کی محنت سے قریب تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے کسی شعبہ میں آپ کا تقرر عمل میں آتا کہ گاؤں والوں کی طرف سے ایک دعوتی خط موصول ہوا۔ یہ خط آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں پیش کی اور مشورہ طلب کیا۔ حضرت ؒ نے علاقے کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضرت کے حکم و ارشاد پر آپ اپنے آبائی وطن جہاز قطعہ گڈا، جھارکھنڈ لوٹ آئے۔ اور یکم ربیع الاول ۱۳۶۹ ؁ھ، مطابق ۲۲؍ دسمبر ۱۹۴۹ ؁ء ، بروز جمعرات مدرسہ اسلامیہ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ 
از روز قیام تا ۱۹۵۴ ؁ء، آپ کی نظامت میں مدرسہ بحسن و خوبی چلتا رہا ۔ لیکن اسی سال کچھ لوگوں کی گھٹیا قسم کی مخالفت سے دلبراشتہ ہوکر آپ نے اسعفیٰ دیدیا اور مکمل طور پر یکسوئی اختیار کرلی۔ لیکن غیور اہل جہازی کے اصرار و حوصلہ پر گاؤں کے اتری حصے میں جناب عبدالرحمان صاحب کے دروازے پر ایک دوسرے مدرسہ کی بنیاد ڈالی، جس کا نام مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ رکھا گیا۔ مولانا کے خلوص و للہیت اوراشاعت دین کے لیے خود کو وقف کردینے کے بے لوث جذبہ کی وجہ سے یہ مدرسہ بہت ترقی کرگیا اور دور دور تک اس کی شہرت ہوگئی۔ ادھر دوسری طرف قدیم مدرسہ روز بروز زوال پذیر ہوتا رہا، حتیٰ کہ دستیاب دستاویز کے مطابق ۳؍ ستمبر ۱۹۵۷ء ؁ کو بعد نماز جمعہ ایک آخری میٹنگ ہوئی، جس میں مدرسہ کے مکمل حساب و کتاب کرنے کے بعد بقیہ سامانوں کو گاؤں کے ایک نہایت شریف و امین اور بزرگ شخصیت حضرت مولانا شرافت حسین صاحب نور اللہ مرقدہ کے حوالے کرکے مدرسہ بند کردیا گیا ۔
اس اختلاف کو علاقے کے ارباب دانش و بینش نے ایک قضیہ نامرضیہ قرار دیا اور ۲۶؍ دسمبر ۱۹۵۷ء ؁ میں ۱۳؍ افراد مشتمل ایک مفاہمت کمیٹی تشکیل دی  ۔ چنانچہ یہ کمیٹی مسلسل جدوجہد کے بعد اپنی کوشش میں کامیاب ہوئی اور فروری ۱۹۶۹ء ؁ میں دونوں مدرسوں کو ضم کرتے ہوئے دوبارہ مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ کے حوالے کردیا گیا ۔ انظمام کے بعد مدرسہ کا وقار مزید بلند ہوا۔ طالب نبویہ کے رجوع میں اضافہ ہوگیا اور حضرت کی وفات تک مشکوٰۃ شریف تک تعلیم ہونے لگی۔ اور پورے علاقے کے لیے ایک عظیم علمی آماجگاہ بن گیا۔
مولانا مرحوم مدرسے کے اہتمام کے ساتھ ساتھ تدریسی خدمات بھی انجام دیتے تھے اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ چنانچہ دستیاب معلومات کے مطابق ’رہنمائے مسلم‘،’ رہنمائے حج‘، نمازوں کے مسائل و فضائل، اور زجاج المصابیح جیسی علمی کتابیں تصنیف کیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ۲۷؍ ستمبر ۱۹۹۵ء ؁ کو بھیانک سیلاب اور پھر دوبارہ ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء ؁ کو آئے قیامت خیز سیلاب نے پورے گاؤں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ، جس سے جہاں امیر ترین غریب ترین فرد بن گیا، وہیں جہازی اکابرین کی ذاتی لائبریریاں، تواریخ اور تصنیفات بھی فنا کی شکار ہوگئیں۔ ان میں سے حضرت مصنف ؒ کی صرف اول الذکر دو کتابیں ہی، حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی حفظہ اللہ صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی جدوجہد سے محفوظ رکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس کا اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین۔
مولانا کی بیماری اور انتقال پرملال
آپ کو آخری عمر میں تین مرتبہ فالج کا حملہ ہوا۔ پہلی مرتبہ جسم کے مکمل آدھے حصہ پر حملہ کیا، جس میں آپ صحت یاب ہوگئے، پھر دوبارہ اسی طرح کا حملہ ہوا، اس میں بھی صحت یاب ہوگئے، لیکن تیسری مرتبہ دماغ پر حملہ ہوا، اس حملہ میں آپ جاں بر نہ ہوسکے اور اور داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔وفات کے اگل دن اپنے آبائی قبرستان جہاز قطعہ میں تدفین عمل میں آئی۔حلقہ ارادت مندوں کا جم غفیر نماز جنازہ میں شریک تھا ، جو مولانا کی مقبولیت پر خلق خدا کی گواہی تھی ۔ تاریخ وفات ماہ جون ۱۹۷۶ ؁ تھی۔
مولانا کی ذات نابغہ روزگار ہستی تھی
مولانا کی ذات گرامی ایک نابغہ روزگار ہستی تھی۔ علمی مرتبت بہت بلند تھا۔ دیہات میں جہاں کتابوں کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں تھا، ایک نہیں؛ بلکہ کئی کئی مستند کتابیں لکھنا کسی کرامت سے کم نہیں ہوسکتا۔ وہ مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے دامن سلوک سے وابستہ تھے، اس لیے تقویٰ و طہارت پر شبہ کرنا ناممکن ہے۔ معاملہ کی صفائی، خوش اخلاقی اور نرم گوئی ان کی خاص شان تھی جن کی گواہی آج بھی کو دیکھنے اور جاننے والے دے رہے ہیں۔ باطلانہ و جاہلانہ رسوم و رواج کی اصلاح کے لیے وہ ہمیشہ پابہ جولاں رہتے تھے اور بڑی حکمت عملی سے کام لیتے تھے کہ لوگوں کو برا بھی نہیں لگتا تھا اور مقصد بھی حاصل ہوجاتاتھا۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود ، اہل ہنر اور اہل قدر لوگوں کے تعلق سے لوگوں کا جو بے قدری والا رویہ ہوتا ہے، وہ مولانا کے ساتھ بھی رہا، اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔ یہ انسانی فطرت کا تسلسل ہے۔ ایسا بڑے بڑوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے؛ لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ جہاں دنیا اہل قدر کے مرنے کے بعد ان کی اہلیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتی ہے، وہاں مولانا کے مرحوم ہونے کے بعد بھی ناقدری کی گئی اور ان کے سارے کارناموں کو فراموش کردیا گیا۔اس لیے قبل ازمرگ اور بعد از مرگ دونوں کے مرثیہ کے لیے مولانا مرحوم ہی کے شعر پر مضمون مکمل کیا جاتا ہے کہ ؂
تیرے ہنر کا کوئی نہیں قدر داں منیرؔ 
شرمندہ ہوں میں اپنے کمالوں کے سامنے 
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی تمام خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین ۔ ثم آمین۔