23 Apr 2018

قسط نمبر (2) تکلیف شرعی اور جزا و سزا کے اسباب

بسم اللہ الرحمان الرحیم 
تکلیف شرعی اور جزا و سزا کے اسباب 


قسط نمبر (2) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

ایک انسان کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب پوری کائنات اور کائنات کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ کی ہی مخلوق ہے، تو پھر کیوں صرف انسان ہی کواللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کا پابند ہونا پڑتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے اچھا یا برا ، اس کا بدلہ اس کو دیا جائے گا؟ یہ قانون خدا تعالیٰ کی دیگر مخلوق پر لاگو کیوں نہیں ہے؟ مختصر الفاظ میں اس طرح کہ سکتے ہیں کہ شریعت کا مکلف صرف انسان کو کیوں بنایاگیا ہے؟۔
اس باب میں ہم اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش رہے ہیں۔
اس کے جواب کو سمجھنے کے لیے پہلے چند تمہیدی باتیں سمجھنی ہوں گی:
تمہید اول
(۱) اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفتیں اور بے شمار اسمائے حسنٰی ہیں اور ہر صفت کا دائرۂ کار الگ الگ ہے، مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کی ایک صفت غفور ہے ، اس کا تعلق صرف مومن بندوں کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ شرک کی مغفرت نہیں کرے گا۔ اسی طرح ایک صفت منتقم کی ہے، اس کا تعلق مشرک کے ساتھ ہے ، ایمان والوں کے ساتھ نہیں ہے۔اسی طرح اس دنیا و جہان کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی تین صفات کی کرشمہ سازی ہے اور یہ تینوں صفتیں علیٰ الترتیب کام کرتی ہیں۔ ان کو ابداع، خلق اور تدبیر کہاجاتا ہے۔
ابداع کی تعریف و تشریح
ابداع کے معنی بغیر نمونے کے کوئی چیز بنانے کے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سے کوئی نمونہ موجود نہیں تھا اور نہ اس کا کوئی مادہ و میٹریل موجود تھا، مادہ اور مثال کے بغیر ایک انوکھی چیز پیدا کردی، تو یہ ابداع کہلائے گا۔ ارشاد خداوندی ہے کہ بَدِیعُ السَّمَوَاتِ وَالأرْضِ ( سورہ: البقرۃ، آیت نمبر: ۱۱۷، پ۱: اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے موجد ہیں، انوکھے طریقے پر پیدا کرنے والے ہیں۔
خلق کی تعریف و تشریح
خلق کے لغوی معنی پیدا کرنے اور کسی چیز کے بنانے کے ہیں، لیکن اس میں وہی تخلیق شامل ہوتی ہے، جسے کوئی مادہ لے کر بنایا جاتا ہے یا پھر کسی نمونے کو سامنے رکھ کر کوئی چیزایجاد کی جاتی ہے، جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش میں مٹی کا مادہ اور جنات کے جد امجد کی تخلیق میں آگ کی آمیزش شامل ہے۔کائنات عالم کی جملہ مخلوق کو کٹیگری میں تقسیم کریں گے، تو یہ تین طرح کی نظر آئیں گی:(۱) جمادات۔ (۲) نباتات۔ (۳) حیوانات۔
جماداتبے جان چیزوں اور زندگی سے عاری اشیا کا نام جمادات ہے، اس میں نہ ادراک کی صفت ہوتی ہے ، نہ احساس کی ۔ اس میں نشو ونما کی بھی صلاحیت نہیں ہوتی اور نہ ہی ارادہ و قوت کی صفت پائی جاتی ہے۔ اینٹ ،پتھر، سونا،چاندی ، کوئلہ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
نباتات
نباتات میں نشو ونما کی صفت ہوتی ہے، لیکن احساس و ارادہ اور ادارک کی قوت نہیں ہوتی۔ اس میں زندگی پائی جاتی ہے، موت کا بھی حملہ ہوتا ہے، لیکن ارادہ و احساس نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی دوسری خصوصیات نہیں پائی جاتیں، جیسے پیڑ، پودے، سبزیاں وغیرہ نباتات ہیں۔
حیواناتیہ ایسی مخلوق ہے، جس میں احساس، ادراک اور ارادہ ؛تینوں صفتیں پائی جاتی ہیں۔ اس میں سردی، گرمی، زندگی اور موت وغیرہ کا احساس بھی ہوتا ہے اور اپنے ارادہ سے کہیں چل پھر بھی سکتی ہے۔ یہ عقل و ادارک کی خصوصیات بھی اپنے اندر رکھتی ہیں۔چوں کہ حیوانات کی مختلف قسمیں ہیں: کچھ عامل العقل ہیں ، تو کچھ ناقص العقل ، اس لیے پھر اس کی کئی تقسیمیں ہیں۔ انسان اور جانور اس کی سب سے بڑی تقسیم ہے۔پھر انسانوں میں بھی ادراک و تعقل کے درجات کی بنیاد پر مختلف تقسیمیں ہوتی ہیں۔ اور ہر ایک تقسیم کا حکم الگ الگ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ ہے یا پاگل ہے، تو اس کا حکم اس سے مختلف ہوتا ہے، جو کامل العقل اورمکمل بصیرت کا حامل ہوتا ہے ۔ان تینوں کو مخلوقات کو موالید ثلاثہ کہاجاتا ہے۔
تدبیر کی تعریف و تشریح
تدبیر کے لفظی معنی انتظام کرنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو خود پیدا کیا، پھر اس کا نظم و انتظام بھی خود ہی فرمارہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اسباب میں تاثیر رکھی ہے، اس لیے جو کچھ بھی اسباب کے پردے سے وقوع پذیر ہوتا ہے، وہ درحقیقت اللہ ہی کا کارنامہ ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ کائنات اللہ پاک کی تین صفات کی کرشمہ سازیاں ہیں: صفت ابداع سے اس عالم کا مادہ بنایا۔ پھر صفت خلق کے تقاضے سے مادہ لے کر موالید ثلاثہ کو وجود بخشا۔ پھر صفت تدبیر کے ذریعے پورے عالم کا نظم و نسق کو مرتب کیا۔ 
قسط نمبر (3) پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں