تمہید چہارم: کائنات عالم کا فطری نظام
قسط نمبر (5)
یہ امر مسلم ہے کہ دنیا و جہان میں بڑا سے بڑا اور چھوٹا سے چھوٹا جو بھی کام ہوتا ہے، اس کا کرنے والا درحقیقت خالق کائنات کی ذات ہوتی ہے؛ یہ الگ بات ہے کہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور اس کا بیشتر کام اسباب کے پردے سے ہی ظاہر ہوتا ہے، لیکن چوں کہ ان اسباب کا خالق بھی خالق کائنات ہی ہے، اس لیے ان امور کا حقیقی خالق بھی اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہوگی۔مثال کے طور پر کھانا کھانے میں بھوک مٹانے کی تاثیر ہے، توبھوک کو ختم کرنے کا سبب گرچہ کھانا کھانا ہے، لیکن کھانے میں یہ تاثیر اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے، لہذا یہاں یہی فیصلہ کیا جائے گا کہ درحقیقت یہ بھوک اللہ تعالیٰ نے ختم کی ہے، گرچہ اس کا ظاہری سبب اس کا کھانا کھالینا ہے۔یہ باتیں گرچہ انتہائی واضح اور بدیہی ہیں، تاہم ان پر دلائل عقلیہ و نقلیہ دونوں موجود ہیں۔
دلائل عقلیہ
دلائل عقلیہ تو بے شمار ہیں: آگ میں جلانے کی تاثیر، زمین میں بیج ڈالنے سے غلہ پیدا ہونے کا عمل ، پودوں کی جڑوں میں پانی ڈالنے سے پھلوں میں مٹھاس، پھولوں میں رنگت اور پتوں میں ہریالی ؛ یہ سب قدرت کی اشیا میں تاثیر رکھنے کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ اللہ پاک نے جن چیزوں میں جس طرح کی صلاحیتیں رکھیں ہیں، ان سے اسی طرح کے نتائج پیدا ہوں گے، تاہم یہ ان کی اپنی ذاتی صلاحیت نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر معاملہ ایسا ہوتا ، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جس آگ میں پھینکے گئے تھے، اس میں جل کر بھسم ہوجاتے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ بہت سارے مواقع میں دیکھنے میں آیا ہے کہ درخت سے گرگیا،کارکا زبردست ایکسیڈینٹ ہوگیا، اس کو مرجانا چاہیے تھا، لیکن پھر بھی نہیں مرا، اس کو ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا ؛یہ سب کیا ہے؟ ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کا جواب اس کے لیے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا کہ مشیت ایزدی میں ایسا ہونا نہیں تھا، اس لیے نہیں ہوا؛ اگر اسباب ہی فاعل محض ہوتا تو نتیجہ اس کی تاثیر کے خلاف کبھی نہیں آتا، لیکن ان اسباب کے پیچھے ایک غیبی نظام کارفرما ہوتا ہے، اس لیے اس تسلیم کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے کہ اللہ ہی ہر فعل کا فاعل حقیقی اور مؤثر محض ہے، لیکن اس نے چوں کہ اس کائنات کے نظام کا دارومدار اسباب پر رکھا ہے، اس لیے یہاں کے کام اسباب کی تاثیرات اور صلاحیتوں کے مطابق وقوع پذیر ہوں گے۔
دلائل نقلیہ
حضرت عبداللہ ابن سلام رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ بچہ کبھی باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور کبھی ماں کے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تو سرکار دو عالم ﷺ نے بتایاکہ :
فا8ذا سبَقَ ماءُ الرجلِ ماءَ المرأۃِ نزعَ الولدَ، وا8ذا سبق ماءُ المرأۃِ ماءَ الرجلِ سبقت الولدَ (البخاری، کتاب:المناقب، باب: کیف اٰخیٰ النبی ﷺ بین أصحابہ)
جب مرد کا پانی عورت کی پانی پر سبقت حاصل کرلیتا ہے، تو بچہ مرد کے مشابہ ہوتا ہے، اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر سبقت پالیتا ہے، تو عورت مشابہت کھینچ لیتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں میں خاندانی مشابہت مادہ میں رکھی ہوئی مشابہت کی صلاحیت کی بنیاد پر پائی جاتی ہے۔ایک دوسری حدیث میں ہے کہ
ا8نَّ اللہَ خلق اٰدمَ مِن قبضۃِِ قبضھا مِن جمعِ الأرضِ ، فجاءَ بنو آدم علیٰ قدرِ الأرضِ، فجاء منھم الأحمرُ والأبیض،والأسودُ، و بینَ ذٰلک،السھل والحزن والخبیث والطیب۔ (سنن الترمذی، تفسیر القرآن عن رسول اللہ ﷺ ، و من سورۃ البقرۃ)
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی کی ایسی مٹھی سے پیدا کیا، جس میں پوری روئے زمین کی مٹی شامل کی گئی ہے، لہذا آدم کی اولاد مٹی کی مختلف قسموں کی طرح وجود میں آئی ہے، کوئی مٹی لال ہوتی ہے، کوئی سفید اور کوئی دیگر ، اسی اعتبار سے اولاد آدم کی رنگت اور شکل و صورت بھی مختلف ہے۔ کوئی کالا ہے،کوئی گورا ہے۔ کوئی سرخ ہے اور کوئی درمیان درمیان۔ کوئی ان میں سے نرم خو ہے اور کوئی سخت مزاج۔ کسی کی سرشت میں خباثت پائی جاتی ہے اور کوئی نیک اور صالح ۔تو انسانوں میں رنگ کا ظاہری تفاوت اور اخلاق کا باطنی اختلاف کا سبب یہی ہے کہ ان کی خمیر میں جس صلاحیت و تاثیر کی مٹی شامل ہے، وہ ویسا ہی ہے۔المختصر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے مختلف چیزوں میں مختلف صلاحیتیں رکھ دی ہیں اور انھیں صلاحیتوں کے مطابق وہ کام انجام پاتے ہیں اور چوں کہ ان تاثیرات کا خالق خود خدائے پاک ہے، لہذا اسباب کے پردے سے جو کام ہوں گے، اس کا خالق حقیقی بھی خالق کائنات ہی ہوگا۔
قسط نمبر (6) کا مطالعہ کرنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں
دلائل عقلیہ
دلائل عقلیہ تو بے شمار ہیں: آگ میں جلانے کی تاثیر، زمین میں بیج ڈالنے سے غلہ پیدا ہونے کا عمل ، پودوں کی جڑوں میں پانی ڈالنے سے پھلوں میں مٹھاس، پھولوں میں رنگت اور پتوں میں ہریالی ؛ یہ سب قدرت کی اشیا میں تاثیر رکھنے کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ اللہ پاک نے جن چیزوں میں جس طرح کی صلاحیتیں رکھیں ہیں، ان سے اسی طرح کے نتائج پیدا ہوں گے، تاہم یہ ان کی اپنی ذاتی صلاحیت نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر معاملہ ایسا ہوتا ، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جس آگ میں پھینکے گئے تھے، اس میں جل کر بھسم ہوجاتے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ بہت سارے مواقع میں دیکھنے میں آیا ہے کہ درخت سے گرگیا،کارکا زبردست ایکسیڈینٹ ہوگیا، اس کو مرجانا چاہیے تھا، لیکن پھر بھی نہیں مرا، اس کو ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا ؛یہ سب کیا ہے؟ ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کا جواب اس کے لیے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا کہ مشیت ایزدی میں ایسا ہونا نہیں تھا، اس لیے نہیں ہوا؛ اگر اسباب ہی فاعل محض ہوتا تو نتیجہ اس کی تاثیر کے خلاف کبھی نہیں آتا، لیکن ان اسباب کے پیچھے ایک غیبی نظام کارفرما ہوتا ہے، اس لیے اس تسلیم کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے کہ اللہ ہی ہر فعل کا فاعل حقیقی اور مؤثر محض ہے، لیکن اس نے چوں کہ اس کائنات کے نظام کا دارومدار اسباب پر رکھا ہے، اس لیے یہاں کے کام اسباب کی تاثیرات اور صلاحیتوں کے مطابق وقوع پذیر ہوں گے۔
دلائل نقلیہ
حضرت عبداللہ ابن سلام رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ بچہ کبھی باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور کبھی ماں کے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تو سرکار دو عالم ﷺ نے بتایاکہ :
فا8ذا سبَقَ ماءُ الرجلِ ماءَ المرأۃِ نزعَ الولدَ، وا8ذا سبق ماءُ المرأۃِ ماءَ الرجلِ سبقت الولدَ (البخاری، کتاب:المناقب، باب: کیف اٰخیٰ النبی ﷺ بین أصحابہ)
جب مرد کا پانی عورت کی پانی پر سبقت حاصل کرلیتا ہے، تو بچہ مرد کے مشابہ ہوتا ہے، اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر سبقت پالیتا ہے، تو عورت مشابہت کھینچ لیتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں میں خاندانی مشابہت مادہ میں رکھی ہوئی مشابہت کی صلاحیت کی بنیاد پر پائی جاتی ہے۔ایک دوسری حدیث میں ہے کہ
ا8نَّ اللہَ خلق اٰدمَ مِن قبضۃِِ قبضھا مِن جمعِ الأرضِ ، فجاءَ بنو آدم علیٰ قدرِ الأرضِ، فجاء منھم الأحمرُ والأبیض،والأسودُ، و بینَ ذٰلک،السھل والحزن والخبیث والطیب۔ (سنن الترمذی، تفسیر القرآن عن رسول اللہ ﷺ ، و من سورۃ البقرۃ)
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی کی ایسی مٹھی سے پیدا کیا، جس میں پوری روئے زمین کی مٹی شامل کی گئی ہے، لہذا آدم کی اولاد مٹی کی مختلف قسموں کی طرح وجود میں آئی ہے، کوئی مٹی لال ہوتی ہے، کوئی سفید اور کوئی دیگر ، اسی اعتبار سے اولاد آدم کی رنگت اور شکل و صورت بھی مختلف ہے۔ کوئی کالا ہے،کوئی گورا ہے۔ کوئی سرخ ہے اور کوئی درمیان درمیان۔ کوئی ان میں سے نرم خو ہے اور کوئی سخت مزاج۔ کسی کی سرشت میں خباثت پائی جاتی ہے اور کوئی نیک اور صالح ۔تو انسانوں میں رنگ کا ظاہری تفاوت اور اخلاق کا باطنی اختلاف کا سبب یہی ہے کہ ان کی خمیر میں جس صلاحیت و تاثیر کی مٹی شامل ہے، وہ ویسا ہی ہے۔المختصر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے مختلف چیزوں میں مختلف صلاحیتیں رکھ دی ہیں اور انھیں صلاحیتوں کے مطابق وہ کام انجام پاتے ہیں اور چوں کہ ان تاثیرات کا خالق خود خدائے پاک ہے، لہذا اسباب کے پردے سے جو کام ہوں گے، اس کا خالق حقیقی بھی خالق کائنات ہی ہوگا۔
قسط نمبر (6) کا مطالعہ کرنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں