نظام فطرت کے اسباب کا سسٹم
قسط نمبر (6)
خالق کائنات نے اپنے فعل کو اسباب میں صلاحیت و تاثیر پیدا کرکے انجام دینے کا جو سسٹم اور قانون بنایا ہے، اس کے کئی طریق کار ہیں، جن میں چنددرج ذیل ہیں:
(۱) چاروں عناصر میں الگ الگ تاثیرات و خصوصیات ہیں، لہذا جو چیز جتنے عناصر سے مل کر بنیں گے، اس میں عناصر کی اتنی ہی خصوصیات پائی جائیں گی۔ مثال کے طور پر معجون کو مختلف مفرد داوں سے تیار کیا جاتا ہے، تو مرکب معجون میں مفرد دواوں کی تمام خصوصیات و تاثیر پائی جائیں گی۔
(۲) کائنات کی جتنی چیزیں ہیں ، جن کی الگ الگ شناخت اور شکل و صورت جدا جدا ہیں، ان کی صلاحتیں اور خواص و فوائد ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جیسے ایک چیز شکر یا گڑ کی شکل میں ہے ، تو اس کی صلاحیت مٹھاس ہے اور اگر نمک کی شکل میں ہے تو اس کا ذائقہ اس سے برعکس ہے۔ اسی طرح انسان کی صلاحتیں ، خصوصیتیں اور احکام، جانوروں اور دیگر مخلوقوں سے الگ الگ ہوں گے، کیوں کہ ہر نوعی صورت میں خالق کائنات نے الگ الگ صفات و تاثیرات رکھی ہیں۔
(۳) پہلے چیزوں کو وجود عالم مثال میں ہوتا ہے، پھر زمین میں پیدا کیا جاتا ہے، اس لیے وہاں کے احوال و خواص بھی ان میں پائے جاتے ہیں اور ان کے مطابق کاموں کی صلاحیت و تاثیرات پائی جاتی ہیں، جیسے ایک شخص کی پیدائش اور نشو نما کسی اور علاقے میں ہوئی ہے اور بڑے ہونے کے بعد وہ اپنی پوری زندگی دوسرے ملک یا خطے میں گذار دے، تو اس کی پشتینی عادات اور مخصوص احوال کبھی ختم نہیں ہوتے، بلکہ کچھ نہ کچھ خصوصیت ہمیشہ اس کی اصلیت کا پتہ دیتی رہتی ہے۔
(۴) عالم بالا کے فرشتوں کی دعائیں بھی نظام کائنات کا ایک حصہ ہیں، جو بطور اسباب کارگر ہوتی ہیں۔ یہ فرشتے قدسی نفوس اور نیک لوگوں کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے لیے بھلائی ،اچھائی اور ترقی کی راہیں ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں اور رکاوٹیں خود بخود ختم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہ حضرات کبھی کبھی ایسے کام انجام دیتے ہیں جو بالکل خارق عادات اور عام انسانی قدرت سے باہر ہوتے ہیں ، لیکن وہ پھر بھی کرگزرتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جب خاندان کا کوئی بچہ کامیابی کے مراحل یکے بعد دیگرے طے کرتا چلا جاتا ہے ، تو لوگ کہتے ہیں کہ ماں باپ یا استاذ کی دعاوں کا اثر ہے۔ بزرگان دین کے کرامات بھی اس کی واضح مثالیں ہیں۔
(۵) زمانے اور حالات کے بدلنے سے چیزوں کی صلاحیتوں اور اثرات میں بھی تبدیلی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ شرعی مثال لیں ، تو سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں اپنی بہن سے نکاح جائز تھا، لیکن اب نہیں ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی شریعت میں سجدۂ تحیہ مباح تھا، جس پر کوئی مواخذہ نہیں تھا، لیکن دین محمدی میں اس کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے اور باعث عقاب ہے۔اور اپنے گردو پیش میں مثالیں تلاش کریں ، تو قدم قدم پر اس کی گواہی مل جائے گی۔ پہلے انسانوں کے سوچنے کا انداز کچھ اور تھا اور اب کچھ اور ہے۔ پہلے خلوص، وفا ، ہمدردی ، غمگساری جیسے اچھے اچھے اخلاق سے سماج معطر رہتا تھا ، لیکن اب صرف ان کا شکوہ باقی رہ گیا ہے۔پہلے کے دودھ، دہی اور ماکولات و مشروبات غذائیت سے بھرپور اور صحت بخش ہواکرتے تھے، لیکن اب جسے دیکھو ان کے ضرر رساں ہونے کا ہی فسانہ سنا رہا ہے۔
(۶) فطرت کا ایک نظام یہ بھی ہے کہ دو چیزوں میں تلازم پیدا کردیا ہے : اگر ایک چیز کا وجود ہوگا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا لازم بھی وجود میں آئے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کسی کام کو سیکھنے کی کوشش کررہا ہے، تو اس کا تسلسل کے ساتھ عمل کا ایک نہ ایک دن یہ نتیجہ ضرور نکلے گا کہ وہ اس چیز کا ماہر ہوجائے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی کی موت کے لیے کوئی جگہ مقرر فرما دیتا ہے ، توخواہ وہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہو ، کوئی نہ کوئی بہانہ اسے وہاں ضرور لے جائے گا اور وہ وہی جاکر مرے گا ۔حدیث کے الفاظ ہیں کہ
اذا قضی اللہُ لِعبد أن یموتَ بأرض جعلَ لہ الیھا حاجۃََ۔ (سنن الترمذی، ابواب القدر عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء أن النفس تموت حیث ماکتب لھا)
اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں پہنچنے اور وہاں مرنے کے درمیان تلازم ہے، اس لیے اس کے وقوع پذیر ہونے کے لیے کوئی نہ کوئی صورت ضرور پیدا ہوگی اور وہ وہیں مقررہ جگہ پر وفات پائے گا۔
اسباب میں تعارض اور ترجیح کے اسباب
اسباب میں تعارض کی نوعیت واضح کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا کہ کہ اس کلیہ کی تشریح کردی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے، وہ سب کے سب کسی نہ کسی حکمت اور دنیا کی مصلحتوں کے پیش نظر ہی پیدا کیا ہے۔ حقیر سے حقیر مخلوق بھی بے مقصد اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا گیا ہے، اس لیے وجود کے اعتبار سے کوئی بھی چیز بری نہیں ہے، کائنات عالم کے ذرہ ذرہ میں ذاتی حسن موجود ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ
الّذی أحسنَ کلَّ شئی خلْقَہُ(سورۃ : السجدۃ، آیۃ: ۷، پ:۲۱)
اللہ نے جو چیز بنائی ، خوب بنائی۔اس ارشاد گرامی میں تمام جواہر (نظر آنے والی چیزیں جیسے انسان، جانوروغیرہ )اور اعراض (معنوی چیزیں، جو نظر نہ آئیں، جیسے غصہ، بخالت وغیرہ) شامل ہیں۔ کوئی بھی چیز فی نفسہ بری نہیں ہوتی؛ بلکہ اس کا استعمال اچھا یا برا بناتا ہے۔ مثال کے طور پر آگ ہے، فی نفسہ اس کے اندر نہ برائی اور نہ اچھائی ؛ البتہ اگر ہم یہ آگ کسی کی گھر میں لگادیں ، تو بری آگ ہوجائے گی اور سردی میں الاؤ کے لیے جلادیں،تو یہی آگ کار ثواب بن جائے گی۔
اب اسباب میں تعارض کی تشریح ملاحظہ کیجیے کہ جب کسی ایسے واقعہ کے رونما ہونے کے تمام اسباب پائے جاتے ہیں ، جس میں سراسر شر ہوتا ہے اور وہ واقعہ نظام کلی اور مفاد عامہ کے خلاف ہوتا ہے، تو خالق کائنات کی صفت تدبیر اپنا کام کرتی ہے اور اس واقعے کو ہونے سے روک دیتی ہے۔ اور ایسا فیصلہ کرتی ہے جو مفاد عامہ سے زیادہ آہنگ ہوتا ہے اور نظام عالم متاثر نہیں ہوتا۔ اس کی چار صورتیں ہوتی ہیں:
(۱) اسباب میں جو تاثیر اور صلاحیت ودیعت کی ہے،اس کو یاتو ختم کردیا جاتا ہے یا اس کا دائرہ محدود کردیا جاتا ہے۔بے شمار مثالیں اس کی شہادت دیتی ہیں کہ ایک آدمی سخت ایکسیڈینٹ کا شکار ہوگیا، جس کی وجہ سے اسے مرجانا چاہیے تھا، لیکن پھر بھی زندہ رہا، تو یہاں ہم یہی کہتے ہیں کہ جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے۔حدیث شریف آتا ہے کہ دجال ایک مومن کو قتل کرکے اسے سب لوگوں کے سامنے زندہ کرے گا اور اس سے اپنی الوہیت کا اقرار کروائے گا، لیکن وہ اقرار نہیں کرے گا، دجال دوبارہ قتل کرنے کی کوشش کرے گا، لیکن اب وہ قتل نہیں کرپائے گا؛ حالاں کہ اس کا قتل کا ارادہ بھی ہوگا اور ہتھیار بھی ہوں گے۔ اس کی وجہ یہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ دجال کی صلاحیت کو ختم کردیں گے ، تاکہ ایمان کا تقاضہ پورا ہو اور مومن ہونے کا مفاد برقرار رہے۔
(۲) اسباب کی تاثیر اور صلاحیتوں کو ضرورت اور تقاضے کے مطابق بڑھا دیا جاتا ہے۔سیرت صحابہ میں واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تن تنہا خیبر کے قلعہ کا دروازہ اکھاڑ پھینکا تھا۔ جو کام کئی افراد بھی مل کر انجام نہ دے سکے اگر کوئی اکیلا ہی کرڈالے ، تو یہی حکمت الٰہی وہاں پر متوجہ ہوتی ہے کہ قوت بازو کو ضرورت کے مطابق اللہ نے بڑھادیا ، تاکہ مصلحت الٰہی اپنا کام کرے اور نظام عالم متاثر ہونے سے بچ جائے۔
(۳) اسباب کی تاثیر و صلاحیت کو تبدیل کردی جاتی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جس آگ میں پھینکا گیا تھا، اس کی تاثیر ایسی بدلی کہ وہ بجائے گرم کرنے اور جلانے کے ٹھنڈک پہنچانے لگی ۔ وہاں پر اللہ کا یہی سسٹم کارفرما تھا۔
(۴) الہام سے ایسی رہ نمائی کردی جاتی ہے، جس سے صاحب معاملہ اس سے پیدا ہونے والے نقصانات سے محفوظ رہتا ہے۔ہم خود اپنی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ کسی کام کو کرلینے کا حتمی فیصلہ کرلیتے ہیں، لیکن اچانک عین وقت پر کوئی ایسی بات ذہن میں آجاتی ہے، جس سے فیصلہ کو بدل دیتے ہیں اور اس کا م کو چھوڑ دیتے ہیں۔ بعد میں جب کسی دوسرے کے اسی کام کا نتیجہ نقصان کی صورت میں نکلتا ہے ، تو ہم کہتے ہیں کہ اچھا ہوا اللہ نے ہمیں بچالیا، ورنہ ہم بھی اس کا شکار ہوجاتے ۔ تو یہ الہام ہوتا ہے، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت کام کرتی ہے۔
اسباب کے تعارض کے وقت ترجیح کے اور بھی اسباب ہوتے ہیں، مگر ہمارا ناقص ان کا احاطہ نہیں کرسکتا ؛ البتہ اتنی بات ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کائنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے ، اس کا ہونا ہی مفاد عامہ سے زیادہ ہم آہنگ ہوتا ہے ، اور جو نہیں ہوتا ، اس کا نہ ہونا ہی قرین مصلحت ہوتا ہے۔ باقی واللہ اعلم بالصواب۔