22 Apr 2018

قسط نمبر (1) شریعت کے اسرار و حکم

شریعت کے اسرار و حکم
قسط نمبر (1) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

حکمت شرعیہ کی تعریف


جس اصول و فن کے ذریعے قوانین اسلام اور اصول دین کی وضع کی علت و حکمت معلوم ہوتی ہے، اسے حکمت شرعیہ کہاجاتا ہے۔احکام اسلام میں کچھ فرائض ہیں اور کچھ وجوب، استحباب ، کراہت وغیرہ ۔ اور ان کے الگ الگ مراتب و درجات ہیں ، اس فن میں ان تمام چیزوں کے اصول و فروع کو بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے۔
حکمت شرعیہ کا موضوع
احکام شرعیہ کی حکمتیں اور علتیں اور اسلامی اعمال و احکام کی خصوصیات اور ان کے رموز و نکات اس فن کے موضوعات میں شامل ہیں۔
غرض و غایت
اس فن کی دو غرض و غایت ہے : ایک عام اور دوسری خاص۔
عام غرض و غایت
تمام اسلامی علوم و فنون کی طرح اس کا بھی عام مقصد یہی ہے کہ اس کے مطالعہ سے سعادت دارین حاصل ہوجائے ۔اور دونوں جہان کی نیک بختی اور کامیابی کا ذریعہ بنے۔
خاص غرض و غایتاحکام اسلام میں بصیرت کی کیفیت پیدا کرنا اس کا خاص مقصد ہے؛ کیوں کہ جو کوئی اعمال اسلامی کی علت و اسرار اور اس کی عقلی توجیہات سے واقف ہوتا ہے ، تو وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے میں کوئی تنگی محسوس نہیں کرتا؛ بلکہ وہ اس یقین کے ساتھ عمل کرتا ہے کہ یہی فطرت کا تقاضا ہے۔ اس کے خلاف کرنا گویا فطرت سے بغاوت کا اعلان ہوگا۔
حکمت شرعیہ کے فائدے
اس علم کے سر دست تین فائدے ہیں:
(۱) شریعت کے اسرار و رموز سے واقف شخص پورے دین کو علیٰ وجہ البصیرت سمجھ سکتا ہے اور دوسروں کو اس دین کا قائل کرسکتا ہے۔
(۲) اس علم سے واقف شخص غلط عقائد اور کج قیاس آرائیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ وہ ہرعقیدے کو پہلے فطرتی اصولوں پر پرکھتا ہے۔ پھر عقلی تقاضے کے مطابق اس کے صحیح ہونے اور غلط ٹھہرانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ محض اس بنیاد پر کہ وہ دینی معاملہ ہے ، اس کے آگے سر خم تسلیم نہیں کرتا؛ بلکہ پہلے اس کو خوب ٹٹولتا ہے، پرکھتا ہے ، پھر کوئی فیصلہ کرتا ہے۔
(۳) حکمت شرعیہ جان لینے سے ایمان میں پختگی پیدا ہوجاتی ہے اور مومن کا یقین بالائے یقین ہوجاتا ہے۔
شریعت کا کوئی بھی حکم مصلحت سے خالی نہیں
قرآنی احکامات اور تعلیمات نبوی علیہ السلام پر غور کیا جائے ، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خدائے برتر و حکیم کا کوئی بھی حکم مصلحت سے خالی نہیں ہے۔ شریعت جہاں انسان کی رہ نمائی کے لیے کوئی مسئلہ بیان کرتی ہے، وہیں اسی مسئلے میں اس کے لیے دنیوی فوائد بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں ہر مسئلے کی مصلحت معلوم ہو یا نہ ہو؛ کیوں کہ شریعت اسلامیہ کے تمام اوامر و نواہی کا آمر و حاکم حکیم و علیم ہے اور حکیم کا کوئی بھی کام حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ دین وشریعت کے کسی حکم میں کوئی دنیاوی ضرر ہو ۔ 
اسی طرح یہ امر بھی مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن اعمال پر جو بھی جزا یا سزا مقرر فرمایا ہے ، ان کے درمیان گہری مناسبت ہوتی ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہوسکتا کہ انسان عمل کچھ کرے اور اس کی جزا کچھ اور دیا جائے؛بلکہ جزاو سزا عمل کے مطابق ہی دیا جاتا ہے۔ بے شمار قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ میں اس کے شواہد ملتے ہیں، جس کا تفصیلی بیان آگے کی صفحات میں آرہا ہے۔
مسائل کے ساتھ مصالح کا تذکرہ
احادیث میں جابجا مسائل کے ساتھ مصالح کا تذکرہ ملتا ہے۔ بعض موقعوں پر خود زبان نبوت مصلحتوں کا ذکر کرتی نظر آتی ہے، جب کہ بعض دیگر مواقع پر صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین بھی احکام کی علتیں بیان کرتے تھے۔ تابعین اور تبع تبعین نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا اور ان کے بعد علمائے مجتہدین بھی برابر احکام کی مصلحتیں بیان کرتے رہے ہیں۔ہر دور کے علما بھی اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے احکام کے وجوہ و معانی سمجھاتے رہے ہیں اور اپنے دور کے مقتضیات کے مطابق قرآن و احادیث سے مسائل کے ساتھ ان کی مصلحتیں اخذ کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الگ الگ دور کے علمائے کرام کی تحریروں میں ان کے زمانے کے رنگ سے ہم آہنگ مسائل کے ساتھ مصالح کا تذکرہ ملے گا۔اگر فلسفہ کا دور رہا ہے ، تو اس زمانے کے علمائے کرام کی تحریروں میں یہی رنگ نمایاں نظر آئے گا۔ اور اگر مادیاتی اور عقلیاتی دور کی باتیں کریں، تو یہاں بھی یہی عکس نمایاں دکھائی دیگا۔
اعمال پر عمل کرنے کے لیے مصلحتوں کا جاننا ضروری نہیں
اگرچہ یہ امر مسلم ہے کہ احکام میں مصلحتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، لیکن ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی علتیں اور مصلحتیں بھی معلوم ہوں۔ یہ تو محض بصیرت پیدا کرنے اور ایمان میں تازگی بخشنے کا ایک وسیلہ ہے۔ اس لیے کسی حکم سے پہلو تہی کرنے کے لیے یہ عذر قابل قبول نہیں ہوسکتا کہ ہمیں اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے، اس لیے اس پر عمل بے جا ہے۔ عمل آوری کے لیے بس یہی دلیل کافی ہے کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فرمایا ہے؛ البتہ اس کی تحقیق ضروری ہے کہ وہ حکم قرآن و یاحدیث سے صراحۃ یا استنباطا صحیح ہے نہیں۔ارشاد خداوندی ہے کہ وَالَّذیْ اذا ذُکِّرُوا بِاٰیَاتِ رَبِّھَمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْھَا صُمّا وَّ عُمْیَانا (سورۃ: الفرقان، آیۃ: ۷۳، پ۱۹:)اللہ کے مخصوص بندوں کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ جب ان کو ان کے رب کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں، تو وہ ان پر بہرے اندھے ہوکر نہیں گرتے، اس لیے احکام دین کا صرف سرسری مطالعہ یا غیر معتبر لوگوں سے سن لینا کافی نہیں ہے ، اس کی پوری تحقیق ضروری ہے ؛ لیکن جب تحقیق ہوجائے تو اب اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے دیر بھی نہیں لگانی چاہیے۔

قسط نمبر (2) کا مطالعہ کرنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں