28 Apr 2018

قسط نمبر (7) تمہید پنجم: روح کیا ہے؟

تمہید پنجم: روح کیا ہے؟
قسط نمبر (7) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 


ارشاد خداوندی ہے کہ 
الرُّوحُ مِن أمرِ رَبّی (سورۃ: الاسراء،آیۃ:۸۵، پ:۱۵)
جب آپ سے روح کی حقیقت کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو زبان قدسی سے اس کی حقیقت یہ بتلائی گئی کہ وہ ایک چیز ہے، جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بدن میں پیدا ہوتی ہے، جس سے حیوان جی اٹھتا ہے۔ اور جب یہ چیز بدن سے نکل جاتی ہے، تو اس پر موت طاری ہوجاتی ہے۔ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ 
ألا لہ الخلق والأمر (سورۃ : الاعراف، آیۃ:پ: ۸)
سنو! پیدا کرنا اور حکم دینا دونوں اللہ کے لیے ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ پہلے خلق یعنی ڈھانچہ بناتے ہیں، پھر اس میں کُنْ کاامر ہوتا ہے، پس وہ چیز وجود میں آجاتی ہے،اور اسی امر ربی کا نام روح ہے، لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ روح ایک غیر مادی چیز ہے، جس سے زندگی وجود میں آتی ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے روح کی حقیقت کی مزید تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ روح لطیف بھاپ سے پیدا ہوتی ہے ، جس کا نام نسمہ ہے۔ یہ نسمہ اخلاط اربعہ : خون، بلغم، سودا اور صفرا کے خلاصے سے وجود میں آتا ہے۔ اس کے اندر قالب کی صلاحیت کے لحاظ سے زندگی پیدا کرنے کی قوت پائی جاتی ہے۔ اس کی پیدائش کا مرکز دل ہے اور یہی سے پورے بدن کے ہر ہر عضوکے لیے سپلائی ہوتی ہے۔ نسمہ قالب کی صلاحیت کے مطابق کام کرتا ہے، مثال کے طور پر آنکھ میں دیکھنے کی صلاحیت ہے، تو یہ نسمہ آنکھ میں پہنچ کر قوت بینائی کا کام کرے گا۔ہاتھ میں پکڑنے اور کان میں سننے کی صلاحیت ہے، تو نسمہ ان اعضا میں پہنچ کر انھیں کا کام کرے گا۔
جسم کے اندر یہ نسمہ غذا سے پیدا ہوتا ہے، اس لیے غذا کی خاصیات سے نسمہ متأثر ہوتا ہے، عمدہ اور غذائیت سے بھرپور غذا ہوگی، تو نسمہ بھی قوی ہوگا۔اور اگر غذائیت میں کمی ہوگی ، تو اس کا اثر اس سے بننے والے نسمہ پر بھی دکھے گا۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حلال کھانے پر بڑا زور دیا ہے ، تاکہ اس سے پیدا ہونے والانسمہ بھی گناہ اور اس کے مضر اثرات سے پاک رہے۔
اس نسمہ میں زندگی کی قوت اسی وقت پیدا ہوتی ہے ، جب اس میں روح ربانی آکر ٹھہرتی ہے ، جس کو نفس ناطقہ کاکہاجاتا ہے۔ نفس ناطقہ کا مستقر نسمہ ہے اور نسمہ کا مقام بدن ہے، نسمہ اور بدن میں تغیرات ہوتے رہتے ہیں ، لیکن نفس ناطقہ میں کبھی تغیر نہیں ہوتا۔
اس کی ہم ایک مثال لیتے ہیں کہ ایک آدمی کا نام زید ہے، تو یہ زید اس کے خاص بدن کا نام نہیں ،کیوں کہ بدن میں تغیرات سے اس کے نام پر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ زید جب بچہ تھا اور اس کے ہاتھ پیر اور جسم کے سارے اعضا چھوٹے چھوٹے تھے، تب بھی وہ زید تھا اور جب بڑا ہوگیا اور بوڑھا ہوگیا ، تب بھی وہ زید ہی ہے۔ یہاں اس کا بدن تبدیل ہورہا ہے، لیکن زید میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے۔ اسی طرح زید کا ایک ہاتھ کٹ جاتا ہے، ہاتھ کا نسمہ یعنی اس کی قوت ختم ہوجاتی ہے، تو بھی زید باقی رہتا ہے، یا اس کی بینائی چلی جاتی ہے اور آنکھ کے قالب میں گردش کرنے والی روح یعنی نسمہ فنا ہوجاتا ہے ، تو بھی زید برقرار رہتا ہے۔اس مثال میں ہم نے دیکھاکہ بدن اور نسمہ دونوں تبدیل ہورہے ہیں؛لیکن زید اپنی جگہ برقرار ہے، اور بدلنے والی چیز معین انسان نہیں ہوسکتی؛ لہذا زید ہی نفس ناطقہ ہے، جو مرنے کے بعد بھی نہیں بدلتا۔ خلاصہ یہ کہ زیدمیں تبدیلیوں کے جو اثرات نظر آتے ہیں، وہ صرف اس کے بدن اور نسمہ میں نظر آتے ہیں، کیوں کہ یہ دونوں مٹی سے بنے ہوئے ہیں، خود زید میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہورہا ہوتاہے، کیوں کہ وہ ایک روح ہے، روح ربانی، جس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ امر ربی ہے اور امر ربی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
چوں کہ روح (نفس ناطقہ)ایک معنوی امر ہے، جس کی شناخت ہم کسی جسم کے ذریعے ہی کرسکتے ہیں،اس لیے ظاہری امر میں ہم کو یہی نظر آتا ہے کہ زید کا بدن اور اس کا نسمہ ہی زید ہے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف روح ربانی کے مستقر کی شناخت کا ایک لبادہ ہے ۔
موت کی حقیقت
لیکن جب یہ نسمہ بدن سے نکل جاتا ہے، تو آدمی کی موت ہوجاتی ہے،بدن بھی سڑنے گلنے لگتا ہے، لیکن روح ربانی کبھی بھی نسمہ کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ 
بدن میں جوتغیرات ہوتے ہیں، وہ نسمہ یعنی اخلاط اربعہ سے بننے والے بھاپ میں تغیر پیدا ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب کسی عضو میں دل کے مرکز سے بھاپ کی سپلائی متأثر ہوتی ہے، تو وہ عضو بھی متأثر ہوجاتا ہے، جسے ہم بیماری کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر بینائی اسی وقت ختم ہوتی ہے، جب مرکز سے نسمہ کی سپلائی رک جاتی ہے، جب آنکھ میں نسمہ نہیں پہنچتا ، تو اس کے دیکھنے کی صلاحیت یاتو متأثر ہوجاتی ہے ، یا پھر ختم ہوجاتی ہے۔ نسمہ کی سپلائی بند ہونے کی بھی وجوہات ہوتی ہیں، یا تو عضو کسی چوٹ وغیرہ سے اپنے نسمہ کے حاصل کرنے کی صلاحیت کھوبیٹھتا ہے، یا نسمہ کے مقام افزائش میں ہی کچھ گڑبڑی پیدا ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے سپلائی نظام یا نسمہ بننے کا سسٹم متأثر ہوجاتا ہے ، بہر کیف جس طرح اگرنسمہ عضو میں نہیں پہنچتا، تو وہ عضو بے کار ہوجاتا ہے، اسی طرح مرکز میں نسمہ (بھاپ)ہی بننا بند ہوجاتا ہے، تو نسمہ کا تعلق بدن سے ٹوٹ جاتا ہے اور پورا بدن بے کار ہوجاتا ہے، جسے ہم موت کہتے ہیں۔لیکن اس سے نسمہ اور روح ربانی (نفس ناطقہ) کا تعلق ختم نہیں ہوتا، روح ربانی نسمہ کے قالب میں ہی رہتا ہے اور ساتھ ہی بدن سے پرواز کرتا ہے اور عالم مثال میں پہنچ جاتا ہے۔ پھر عالم مثال میں ۔جیسا کہ پہلی کی تمہید میں عرض کیا گیا تھا کہ وہاں معنویات بھی جسم کی شکل میں ہوتے ہیں۔اسے ایک جسم عطاکردیا جاتا ہے۔ یہ جسم اسے اس کے اعمال کے پیش نظر عطاہوتا ہے۔ اچھے اعمال ہوتے ہیں، تو نورانی جسم عطا ہوتا ہے اور اگر اعمال برے ہوتے ہیں، تو ظلمانی جسم دیا جاتا ہے،پھر اسی جسم (جس میں اس کی روح (نفس ناطقہ) ہے) پرعذاب و ثواب کا سامان شروع ہوتا ہے، جسے احوال برزخ کہاجاتا ہے۔
بحث کا خلاصہ
روح سرچشمۂ زندگی کا نام ہے، یہ ایک لطیف بھاپ ہے ، جو اخلاط اربعہ : سودا، صفرا، بلغم اور خون کے اختلاط سے دل میں پیدا ہوتا ہے، اس کا نام نسمہ ہے، اسی نسمہ میں حقیقی روح آکر ٹھہرتی ہے، جسے روح ربانی اور نفس ناطقہ کہاجاتا ہے، تو نفس ناطقہ کا مقام نسمہ ہے، نسمہ کا مقام دل ہے اور دل کا مقام بدن ہے۔ نسمہ اور بدن میں تغیرات ہوتے رہتے ہیں، جب کہ نفس ناطقہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔روح ربانی اور بدن کے اندر درج ذیل تکوینی نظام کارفرما ہوتا ہے:
(۱) کائنات کے ذرے ذرے کی تخلیق میں دو چیزیں شامل ہیں: ایک اس کی ظاہری شکل و صورت یعنی بدن۔ دوسری اس کی باطنی حقیقت یعنی روح۔
(۲) روح کی بقا بدن پر اور بدن کی بقا روح پر موقوف ہوتی ہے۔ اگر روح نکل جائے، تو بدن بے کار ہوجاتا ہے اور اگر بدن بے کار ہوجائے، تو روح اس میں نہیں ٹھہرتی۔
(۳) نسمہ یعنی بھاپ بدن کے ہر ہر عضو میں پہنچ کر ، بدن کے اعضا کی صلاحیت کے مطابق زندگی پیدا کرتا ہے، مثال کے طور پر کان میں سننے کی صلاحیت ہے، تو یہ نسمہ کان میں پہنچ کر سننے کی قوت پیدا کرتا ہے۔آنکھ میں دیکھنے کی صفت ہے، تو یہ نسمہ وہاں پہنچ کر قوت بینائی پیدا کرتا ہے۔
(۴)بدن کی نوعیت روح کی نوعیت کا پتہ دیتی ہے۔ جیسے مرکز سے جو نسمہ یعنی روح آنکھ میں پہنچتی ہے اور قوت بینائی پیدا کرتی ہے، تو قوت بینائی پیدا کرنے والی روح کی شناخت آنکھ سے ہی ہوگی ۔ اسی طرح کان کی روح میں سننے کی خصوصیت ہے، تو سننے والی روح کی شناخت کا ذریعہ صرف کان ہی ہوگا۔کیوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ مثلا آنکھ پھوٹ جائے تو اس کی قوت بینائی ناک میں آجاتی ہے، یا کسی اور عضو میں منتقل ہوجاتی ہے۔
(۵) نسمہ اس وقت تک زندگی پیدا نہیں کرتا جب تک کہ اس میں امر ربی یعنی نفس ناطقہ نہ آجائے۔ یہ نفس ناطقہ یعنی روح ربانی نسمہ میں آکر ٹھہرتی ہے، نسمہ کا مستقر دل ہے اور دل بدن میں پایایاجاتا ہے۔
(۶) نسمہ کا تعلق بدن سے ٹوٹ جاتا ہے ، تو اسے موت کہتے ہیں، لیکن نسمہ اور روح ربانی کا تعلق کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ جسم حیوانی سے نکل کر عالم مثال پہنچ جاتا ہے اور وہاں اس کو اعمال کے مناسب نورانی یا ظلمانی جسم عطا کیا جاتا ہے، جس پر جزا و سزا کے احکام جاری ہوتے ہیں۔

قسط (8) پڑھنے کے لیے کلک کریں