تمہید دوم: عالم مثال کی حقیقت و تشریح
قسط نمبر (3)
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ)
لفظ عالَم عربی ہے۔ اردومیں اس کو دنیا کہاجاتا ہے۔ مختلف اعتبار سے عالم کی الگ الگ تقسیم کی گئی ہے۔کوئی عالم روحانی اور عالم جسمانی سے تقسیم کرتا ہے اور کوئی عالم شہادت اور عالم غیب کا نام دیتا ہے، کبھی دنیا و آخرت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو کبھی اسے عالم ظاہری اور عالم باطنی سے پکارتے ہیں۔ لیکن ان دو عالموں کی بیچ میں ایک تیسرا عالم ہے، اور اسی کا نام عالم مثال ہے: اس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ سراسر غیر مادی ہے ، اس کی تخلیق میں عناصر اربعہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔اس عالم میں معانی بھی کے لیے بھی جسم ہوتے ہیں۔ ہر معنی کو اس کے معنی کی مناسبت سے جسم کا لباس پہنایا جاتا ہے، مثال کے طور پر بزدلی وہاں خرگوش کی شکل میں اور دنیا پراگندہ بوڑھی عورت کی صورت میں نظر آتی ہے۔اس دنیا میں جتنی چیزیں ہیں، وہ تمام چیزیں عالم مثال میں پائی جاتی ہیں اور دونوں الگ الگ نہیں ہوتیں، بلکہ ایک ہی ہوتی ہیں۔ اور چوں کہ یہ عالم جس طرح مادی نہیں ہے ، اسی طرح زمانی و مکانی بھی نہیں ہے، اس کی جگہ کی تعیین نہیں کی جاسکتی۔اس عالم کے وجود کے لیے احادیث میں بے شمار اشارے ملتے ہیں۔ یہاں طوالت کے خوف سے صرف دو مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
پہلی مثال
نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
یُجاء بالموت یومَ القیامۃِ کأنہُ کبشٌ أملحُ ، ۔۔۔ فَیؤمرُ بہِ فیُذبِحُ (المسلم، کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا أھلھا، باب : النار یدخلھا الجبارون والجنۃ یدخلھا الضعفاء)
قیامت کے دن موت کو لایا جائے گا اس کی صورت چتکبرے مینڈھے جیسی ہوگی اور حکم خداوندی سے اس کو ذبح کردیا جائے گا۔ موت ایک امر ربی ہے ، جو معنوی چیز ہے، لیکن عالم مثال میں اس کو مینڈھے کی صورت دے کر ذبح کیا جائے گا۔
دوسری مثال
قَالَ النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم : مارأیتُ فی الخیرِ والشر کالیوم قط،ا8نہ صورت لی الجنۃُ والنار، حتیٰ رأتُھما وارء الحائط۔ (البخاری، کتاب الدعوات، باب التعوذ من الفتن)
جب سورج گہن ہوا تھا اور آپ نماز پڑھارہے تھے ، تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامنے والی دیوار میں جنت و جہنم کی تصویر دیکھی۔اب ظاہر ہے کہ جنت و جہنم کا جو طول و عرض ہے ، وہ ایک دیوار میں نہیں سماسکتا، تو یہی کہنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ منظر آپ ﷺ کو عالم مثال سے دکھائی ہے۔
سائنس کی شہادت
جدید ٹکنالوجی نے اس مئلے کو سمجھنا اور آسان کردیا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں کلو میٹر دور کہیں ایک بہت بڑے میدان میں پروگرام ہورہا ہوتا ہے، بذریعہ ٹی وی اس کو لائیو دکھایا جاتا ہے۔ ٹی وی کی اسکرین کچھ انچوں کی ہوتی ہے ، اس کے باوجود اس میں بڑے بڑے میدان اور بڑی بڑی سائز کی چیزوں کا ہوبہو عکس سماجاتا ہے، تو جو ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں، وہ اصل نہیں ہوتا اور نہ ہم سے قریب ہوتا ہے ، اس کے باوجود اسے ہم جھوٹ یا غیر واقعی نہیں کہہ سکتے، تو اب اس کو کیا کہاجائے گا؟ یقیناًاس کے علاوہ کوئی اور جواب نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی تمثیل ہے اور یہی عالم مثال ہے۔
قسط نمبر (4) پڑھنے کے لیے کلک کریں