تمہید سوم: فرشتے اور شیاطین
قسط نمبر (4)
تمہید سوم: فرشتے اور شیاطین
فرشتے اور انسان کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ یہ فرشتے اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلتف فرشتوں کو الگ الگ کاموں پر لگا رکھا ہے ، تاکہ نظام کائنات پوری طرح اپنے محور پر چلتا رہے۔ان فرشتوں کا وجود انسانوں کے لیے ایسا ہی ہے جیسا کہ جب کوئی معزز مہمان آتا ہے، تو اس کی شایان شان آرائش و زیبائش اور استقبال کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جب اشرف المخلوقات کو اس دنیا میں خلیفہ بناکر بھیجنا تھا ،تو اس کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے اس کائنات کے نظام کو منظم کیا ، تاکہ جب وہ آجائے ، تو فرشتوں کے ذریعے اس کی مصلحتوں کی تکمیل ہو۔
فرشتے کی دو قسمیں ہیں : (۱)عالم بالا کے فرشتے ۔ (۲) عالم زیریں کے فرشتے۔
عالم بالا کے فرشتے
عالم بالا کے فرشتے تین طرح کے ہوتے ہیں: (۱) نورانی فرشتے۔ (۲) اعلیٰ درجے کے عنصری فرشتے۔ (۳) اعلیٰ درجے کے انسانی نفوس۔
نورانی فرشتے
یہ وہ فرشتے ہوتے ہیں، جن کے جسموں کو نور سے بنایا جاتا ہے اور ان میں اعلیٰ قسم کی روح پھونکی جاتی ہے۔یہ عموما عالم بالا اور عرش پر رہتے ہیں، تاہم گاہے بگاہے زمین پر بھی اترتے ہیں۔ ان فرشتوں کے تعلق سے گناہ اور بہیمی حرکتوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ،کیوں کہ نوری مادے میں گناہ کی طاقت و صلاحیت ہی نہیں ہوتی ہے۔
اعلیٰ درجے کے عنصری فرشتے
یہ ایسے فرشتے ہوتے ہیں، جن کے اجسام نور کے نہیں ؛ بلکہ عناصر اربعہ (آگ، مٹی پانی ، ہوا) کے بھاپ سے بنائے جاتے ہیں، پھر ان میں بہترین ارواح ڈالی جاتی ہیں۔ یہ فرشتے بھی پہلے قسم کے فرشتے کی طرح بہیمی گندگیوں سے پاک و صاف ہوتے ہیں۔
اعلیٰ درجے کے انسانی نفوس
اس سے مراد اونچے درجے کے انسانوں کی روحیں ہیں، جیسے انبیا اور بڑے بڑے اولیاء اللہ کی روحیں، جو اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے ملأ اعلیٰ کے قریب قریب ہوتے ہیں۔ جب ان کی وفات ہوجاتی ہیں، تو ان کی روحوں کو عالم بالا کے فرشتوں میں شامل کرلیا جاتا ہے۔جیسے آں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کو فرشتوں کے ساتھ اڑتے دیکھا تھا ۔ یہ عالم بالا کے فرشتوں کے ساتھ پرواز تھی۔
عالم بالاکے فرشتوں کے کارنامے
عالم بالا کے فرشتوں کے تین کام ہوتے ہیں:
پہلا کام
یہ فرشتے ہمہ وقت صرف اور صرف خدائے بزرگ و برتر کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف ان کی توجہ اتنی گہری ہوتی ہے کہ وہ کسی چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ یہ ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے۔
دوسرا کام
زمین میں چل رہے جو نظام اللہ تعالیٰ کو پسند ہوتا ہے، اس کے حق میں یہ دعائے خیر کرتے رہتے ہیں اور جو نظام خدا تعالیٰ کو ناپسند ہوتا ہے ،ا س کے لیے بد دعائیں کرتے ہیں اور ان پر لعنتیں بھیجتے ہیں۔ جیسے اعمال صالحہ کا نظام اللہ تعالٰی کو پسند ہے ، تو اس کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں اور کفر کا نظام خدا تعالیٰ کو پسند نہیں، تو اس سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں اور اس پر لعنت بھیجتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مصائب و آلام میں گرفتار ہوتا ہے۔
تیسرا کام
اونچے درجے کے فرشتوں کے انوار روح اعظم کے پاس جمع ہوتے ہیں، جس کے بے شمار منھ ہیں اور بہت سے زبانوں میں بات کرتے ہیں ۔ فرشتوں کی روحیں وہاں جمع ہوکر شئی واحد بن جاتی ہیں، جس کا نام حظیرۃ القدس (بارگاہ مقدس )ہے۔یہ بارگاہ مقدس خدا تعالیٰ کے امر و حکم سے یہ طے کرتی ہے کہ انسانوں کو دینی و دنیوی نقصانات سے بچانے کے لیے کیا تدبیر اختیار کیا جائے، چنانچہ اس کے لیے تین طرح کے فیصلے کیے جاتے ہیں:
(۱) لوگوں کی صلاحیت کے مطابق ان کے دلوں میں الہام کرکے طریقۂ کار بتایا جاتا ہے۔
(۲) لوگوں کو ایسی ذہنی قابلیت یا علم لدنی عطا کردی جاتی ہے، جس کے ذریعے قوم کے لیے صلاح و فلاح اور بھلائی و ترقی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں ۔
(۳) کوئی ایسی شخصیت پیدا کی جاتی ہے، جو لوگوں کے لیے قابل تقلید بن جاتی ہے ۔ پھر اس کے اور اس کے ساتھ دینے والوں کے لیے حالات سازگار کردیے جاتے ہیں۔ اور ان کی مخالفت کرنے والوں کی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوپاتی۔
عالم زیریں کے فرشتے
یہ فرشتے عالم بالاکے فرشتوں سے کم درجے اور رتبے والے ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیق عناصر اربعہ کے لطیف بخارات سے کی جاتی ہے۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہر وقت عالم بالا سے ملنے والے احکامات کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور جوں ہی انھیں کوئی حکم ملتا ہے، اس کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ تعمیل حکم ان کا فطری تقاضہ اور جذبہ ہوتا ہے۔
یہ فرشتے انسانوں اور جانوروں کے دلوں میں اثر ڈالتے ہیں، جس سے وہ ارادۂ خداوندی کے مطابق ہروہ کام کرنے پر امادہ اور مجبور ہوتے ہیں، جو ان کی تقدیر وں کا حصہ ہتے ہیں۔
شیاطین
اس کائنات میں انسان اور فرشتوں کے علاوہ ایک اور جماعت ہے، یہ شیطانوں کی جماعت ہے۔ جب عناصر اربعہ کی ظلمانی بخارات میں سڑن اور بدبو پیدا ہوجاتی ہے، تو وہ نفوس کا تقاضا کرتے ہیں، چنانچہ قالب کے مطابق ان میں روحیں ڈال دی جاتی ہیں،جیسے کہ گندی نالی کی مٹی میں سڑن اور تعفن پیدا ہوجاتا ہے تو خود بخود مچھر اور کیڑے مکوڑے پیدا ہونے لگتے ہیں۔شیطان برے خیالات کا سرچشمہ ہوتا ہے، یہ نیکی اور خیر سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ اس کی کوشش ہمیشہ فرشتوں کی کوششوں کے برخلاف ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کے دلوں میں گناہوں اور برے اخلاق کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور اور دنیاو آخرت میں تباہی کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔
خلاصۂ کلام
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہاں تین بنیادی مخلوق ہیں: فرشتے، شیطان اور انسان۔فرشتے کی سرشت میں سراسر خیر ہے، شر کا کوئی بھی عنصر نہیں ہے، اس لیے یہ گناہ کی قدرت نہیں رکھتے۔شیطان کی فطرت شر محض ہے، اس لیے خیر کا کوئی جذبہ اس میں نہیں پایا جاتا ۔ اگر ظاہری طور پر شیطان کا کوئی کام خیر پر مبنی نظر آئے ، تو یقیناًوہاں پر اس سے بڑا شر پوشیدہ ہوگا، جیسے کہ شیطان نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک دن تہجد کی نماز چھوٹنے پر دوسرے دن خود ہی جگانے کے لیے آگیا تھا، تاکہ ان کے تضرع و توبہ سے جو رتبہ بڑھ گیا تھا ، وہ بلند رتبہ دوبارہ نہ مل سکے۔ اور انسان دونوں صفتوں کا سنگم ہے۔ اس کے اندر خیر کا بھی مادہ ہے اور شر کی بھی صلاحیت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان کی عقل و فکر پر شر کی قوت غالب اور خیر کی قوت مغلوب ہوجاتی ہے، تو یہ شیطان سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، لیکن جب شر کی قوت پر فتح پالیتا ہے اور خیر کی قوت و صلاحیت آگے بڑھ جاتی ہے ، تو اس کا درجہ فرشتوں سے بھی بالا ہوجاتا ہے۔
انھیں تینوں مخلوقات: انسان، فرشتے اور شیاطین اور انھیں تینوں صفات: خیر، شر اور ان دونوں کے مجموعے کی بنیاد پر مقام و مسکن بھی تین ہی بنائے گئے ہیں؛ پہلا جنت ، جو خیر محض ہے، دوسرا جہنم، جو سراسر مقام