محمد یاسین جہازی
حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی مرحوم کی زندگی کے حالات سے متعلق کوئی تحریری دستاویز موجود ہے۔ معاصرین سے ملی زبانی روایات پر مبنی معلومات کے مطابق آپ اپنے گھر کی بھینس چرانے گئے تھے کہ اسی دوران بھینس کو ساتھیوں کو حوالے کرکے وہاں سے نکل گئے اور پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ آپ علاقے کے ایک قدیم ادارہ مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ بھاگل پور پہنچ گئے ہیں۔ یہاں آپ نے درجہ دوم تک تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دارالعلوم دیوبند آئے۔ دارالعلوم دیوبند میں موجود ریکارڈ کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۴؍ مئی ۱۹۱۹ ء، مطابق ۳؍ شعبان ۱۳۳۷ھ بروز اتوار ہے۔ دارالعلوم میں آپ نے ۳۰؍ نومبر ۱۹۳۸ عیسوی مطابق ۷؍ شوال ۱۳۵۷ھ بروز بدھ درجہ سوم میں داخلہ لیااور مکمل چھہ سال کی تعلیم کے بعد اگست ۱۹۴۳ ء، مطابق شعبان۱۳۶۲ ھ میں سند فضیلت حاصل کی۔ آپؒ دیوبند میں حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب نور اللہ مرقدہ کے زیر تربیت تھے۔ فراغت کے بعد انھیں کے حکم و ارشاد پر مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑھ میرٹھ تشریف لے گئے اور صدر مدرسی کے عہدے پر فائز ہوکر تعلیمی و انتظامی خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر یہاں سے مستعفی ہوکر دوبارہ اپنے شیخ کی خدمت میں دیوبند لوٹ گئے۔ حضرت شیخ کی محنت سے قریب تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے کسی شعبہ میں آپ کا تقرر عمل میں آتا کہ گاؤں والوں کی طرف سے ایک دعوتی خط موصول ہوا۔ یہ خط آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں پیش کی اور مشورہ طلب کیا۔ حضرت ؒ نے علاقے کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضرت کے حکم و ارشاد پر آپ اپنے آبائی وطن جہاز قطعہ گڈا، جھارکھنڈ لوٹ آئے۔ اور یکم ربیع الاول ۱۳۶۹ ھ، مطابق ۲۲؍ دسمبر ۱۹۴۹ ء ، بروز جمعرات مدرسہ اسلامیہ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔
از روز قیام تا ۱۹۵۴ ء، آپ کی نظامت میں مدرسہ بحسن و خوبی چلتا رہا ۔ لیکن اسی سال کچھ لوگوں کی گھٹیا قسم کی مخالفت سے دلبراشتہ ہوکر آپ نے اسعفیٰ دیدیا اور مکمل طور پر یکسوئی اختیار کرلی۔ لیکن غیور اہل جہازی کے اصرار و حوصلہ پر گاؤں کے اتری حصے میں جناب عبدالرحمان صاحب کے دروازے پر ایک دوسرے مدرسہ کی بنیاد ڈالی، جس کا نام مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ رکھا گیا۔ مولانا کے خلوص و للہیت اوراشاعت دین کے لیے خود کو وقف کردینے کے بے لوث جذبہ کی وجہ سے یہ مدرسہ بہت ترقی کرگیا اور دور دور تک اس کی شہرت ہوگئی۔ ادھر دوسری طرف قدیم مدرسہ روز بروز زوال پذیر ہوتا رہا، حتیٰ کہ دستیاب دستاویز کے مطابق ۳؍ ستمبر ۱۹۵۷ء کو بعد نماز جمعہ ایک آخری میٹنگ ہوئی، جس میں مدرسہ کے مکمل حساب و کتاب کرنے کے بعد بقیہ سامانوں کو گاؤں کے ایک نہایت شریف و امین اور بزرگ شخصیت حضرت مولانا شرافت حسین صاحب نور اللہ مرقدہ کے حوالے کرکے مدرسہ بند کردیا گیا ۔
اس اختلاف کو علاقے کے ارباب دانش و بینش نے ایک قضیہ نامرضیہ قرار دیا اور ۲۶؍ دسمبر ۱۹۵۷ء میں ۱۳؍ افراد مشتمل ایک مفاہمت کمیٹی تشکیل دی ۔ چنانچہ یہ کمیٹی مسلسل جدوجہد کے بعد اپنی کوشش میں کامیاب ہوئی اور فروری ۱۹۶۹ء میں دونوں مدرسوں کو ضم کرتے ہوئے دوبارہ مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ کے حوالے کردیا گیا ۔ انظمام کے بعد مدرسہ کا وقار مزید بلند ہوا۔ طالب نبویہ کے رجوع میں اضافہ ہوگیا اور حضرت کی وفات تک مشکوٰۃ شریف تک تعلیم ہونے لگی۔ اور پورے علاقے کے لیے ایک عظیم علمی آماجگاہ بن گیا۔
مولانا مرحوم مدرسے کے اہتمام کے ساتھ ساتھ تدریسی خدمات بھی انجام دیتے تھے اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ چنانچہ دستیاب معلومات کے مطابق ’رہنمائے مسلم‘،’ رہنمائے حج‘، نمازوں کے مسائل و فضائل، اور زجاج المصابیح جیسی علمی کتابیں تصنیف کیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ۲۷؍ ستمبر ۱۹۹۵ء کو بھیانک سیلاب اور پھر دوبارہ ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو آئے قیامت خیز سیلاب نے پورے گاؤں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ، جس سے جہاں امیر ترین غریب ترین فرد بن گیا، وہیں جہازی اکابرین کی ذاتی لائبریریاں، تواریخ اور تصنیفات بھی فنا کی شکار ہوگئیں۔ ان میں سے حضرت مصنف ؒ کی صرف اول الذکر دو کتابیں ہی، حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی حفظہ اللہ صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی جدوجہد سے محفوظ رکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس کا اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین۔
مولانا کی بیماری اور انتقال پرملال
آپ کو آخری عمر میں تین مرتبہ فالج کا حملہ ہوا۔ پہلی مرتبہ جسم کے مکمل آدھے حصہ پر حملہ کیا، جس میں آپ صحت یاب ہوگئے، پھر دوبارہ اسی طرح کا حملہ ہوا، اس میں بھی صحت یاب ہوگئے، لیکن تیسری مرتبہ دماغ پر حملہ ہوا، اس حملہ میں آپ جاں بر نہ ہوسکے اور اور داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔وفات کے اگل دن اپنے آبائی قبرستان جہاز قطعہ میں تدفین عمل میں آئی۔حلقہ ارادت مندوں کا جم غفیر نماز جنازہ میں شریک تھا ، جو مولانا کی مقبولیت پر خلق خدا کی گواہی تھی ۔ تاریخ وفات ماہ جون ۱۹۷۶ تھی۔
مولانا کی ذات نابغہ روزگار ہستی تھی
مولانا کی ذات گرامی ایک نابغہ روزگار ہستی تھی۔ علمی مرتبت بہت بلند تھا۔ دیہات میں جہاں کتابوں کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں تھا، ایک نہیں؛ بلکہ کئی کئی مستند کتابیں لکھنا کسی کرامت سے کم نہیں ہوسکتا۔ وہ مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے دامن سلوک سے وابستہ تھے، اس لیے تقویٰ و طہارت پر شبہ کرنا ناممکن ہے۔ معاملہ کی صفائی، خوش اخلاقی اور نرم گوئی ان کی خاص شان تھی جن کی گواہی آج بھی کو دیکھنے اور جاننے والے دے رہے ہیں۔ باطلانہ و جاہلانہ رسوم و رواج کی اصلاح کے لیے وہ ہمیشہ پابہ جولاں رہتے تھے اور بڑی حکمت عملی سے کام لیتے تھے کہ لوگوں کو برا بھی نہیں لگتا تھا اور مقصد بھی حاصل ہوجاتاتھا۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود ، اہل ہنر اور اہل قدر لوگوں کے تعلق سے لوگوں کا جو بے قدری والا رویہ ہوتا ہے، وہ مولانا کے ساتھ بھی رہا، اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔ یہ انسانی فطرت کا تسلسل ہے۔ ایسا بڑے بڑوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے؛ لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ جہاں دنیا اہل قدر کے مرنے کے بعد ان کی اہلیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتی ہے، وہاں مولانا کے مرحوم ہونے کے بعد بھی ناقدری کی گئی اور ان کے سارے کارناموں کو فراموش کردیا گیا۔اس لیے قبل ازمرگ اور بعد از مرگ دونوں کے مرثیہ کے لیے مولانا مرحوم ہی کے شعر پر مضمون مکمل کیا جاتا ہے کہ
تیرے ہنر کا کوئی نہیں قدر داں منیرؔ
شرمندہ ہوں میں اپنے کمالوں کے سامنے
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی تمام خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین ۔ ثم آمین۔