گالی دینا بڑے ثواب کا کام ہے۔۔۔؟
محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
سن ۹ ہجری کا واقعہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے آخری حج سے پہلے حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کچھ صحابہ کرام کو یمن فتح کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ جب یمن فتح ہوگیا، تو حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺ کو ایک مکتوب ارسال کیا، جس میں فتح کی خوشخبری کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ مال غنیمت کی تقسیم اور اللہ اور اس کے رسول کا حصہ لینے کے لیے کسی کو بھیج دیں، تو نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کاقاضی بناکربھیجا۔ روانگی کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ آپ مجھے قاضی بناکر بھیج رہے ہیں اور مجھے قضا کا کوئی علم نہیں ہے ، تو نبی اکرم ﷺ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور قریب بلاکر اپنا دست مبارک سینہ پر مارااور دعا دی کہ ائے اللہ ! اس کی زبان کو راست گو اور دل کو ثبات و استقلال عطا فرما!۔یہ نبی اکرم ﷺ کی دعا کی برکت تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ صحابہ میں سب سے بڑے قاضی تھے۔
اس جنگ میں مسلمانوں کو کافی مال غنیمت ملاتھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ انصاف کے سبھی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سب مالوں کو تقسیم کردیا اور نبی اکرم ﷺ کا جو حصہ بنتا تھا، وہ لے کر اپنے پاس رکھ لیا۔ قیدیوں میں کئی لونڈیاں بھی تھیں، جن میں سے بطور خمس ایک لونڈی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے رکھ لی۔ اور ان سے اگلے ہی دن صحبت فرمائی ۔ فراغت کے بعد جب غسل کرکے نکل رہے تھے کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا۔ حضرت خالد نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا کہ اس شخص نے کیا کیا؟ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب حضرت علی نے خمس لیا، تو خمس تو نبی اکرم ﷺ کے لیے ہوتا ہے، تو یہ باندی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کی جانی چاہیے تھی، اس کو حضرت علی نے خود کیوں استعمال کیا؟ حضرت بریدہ نے جواب دیا کہ مجھے علی سے نفرت ہے ۔ پھر حضرت بریدہ نے حضرت علی سے سوال کیا کہ ائے حسن کے ابا! یہ سب کیا ہے؟ تو حضرت علی نے جواب دیا کہ یہ لونڈی خمس کا حصہ ہے اور خمس نبی اور آل نبی کے لیے ہوتا ہے اور میں آل نبی میں سے ہوں، اس لیے میں نے اسے استعمال کیا۔لیکن اس جواب سے حضرت بریدہ مطمئن نہیں ہوئے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے،حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی ناپسندیدگی کی ایک وجہ تو یہ تھی اور دوسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے باندی کو نبی اکرم ﷺ کے حصہ میں لیا اور پھر آل نبی میں ہونے کی وجہ سے استعمال کیا ، تو یہ ان کا حق تھا، اس میں عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے، لیکن چوں کہ نئی ملکیت کے بعد باندی کا استبراء رحم ضروری ہوتا ہے؛ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے استبراء کے بغیر ہی صحبت کرلی۔ اور چوں کہ یہ ایک شرعی مسئلہ کے خلاف کام کیا، اس لیے حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ ان سے ناراض ہوئے۔ تاریخ کی شہادت پیش کردوں کہ واقعہ یہ ہوا تھا کہ جس دن وہ باندی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ملکیت میں آئی تھی، اسی دن شام کو وہ پاک ہوگئی تھی، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے صحبت فرمائی۔ کیوں کہ سب سے بڑے قاضی کی ذات سے یہ تصور بھی ناممکن ہے کہ انھوں نے خلاف مسئلہ کوئی کام کیا ہوگا۔
تاریخ میں ایک تیسرا واقعہ بھی مذکور ہے کہ جب حجۃ الوداع کے لیے بلاوا آیا، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ شوق دیدار بیت اللہ سے بے چین ہو اٹھے اور اپنے قافلہ کی قیادت کسی اور کے حوالے کرکے ، تیزی سے مکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ جب قافلہ آپ کے بعد مکہ پہنچا تو دیکھا کہ سبھی لشکری غنیمت میں ملے زیورات زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سالار قافلہ سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے؟ ۔ تو آپ کے نائب نے جواب دیا کہ میں نے یہ سب اس لیے پہنا دیا تاکہ یہ اچھے نظر آئیں اور ہماری شان و شوکت ظاہر ہو۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس حال میں دیکھں گے ، تو بہت ناراض ہوں گے، اس لیے یہ سب زینت اتار دو۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اس حکم کی وجہ سے لوگوں میں ناراضگی پھیل گئی ۔ اور رسول اللہ ﷺ سے آپ کے خلاف شکایت کرنے کا فیصلہ کیا۔
بہر کیف ان میں سے جو بھی ایک واقعہ پیش آیا ہو، سبھی واقعات پیش آئے ہوں۔ جب حجۃ الوداع کی دعوت نبوی ﷺ پر یمنی قافلہ مکہ پہنچا تو، حج میں صرف تین چار دن رہ گئے تھے، اس لیے یہ حضرات آتے ہی عمرہ اور حج میں مشغول ہوگئے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ محض حج سے محض چار دن قبل مکہ پہنچے اورسب سے پہلے اپنی بیوی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ حضرت فاطمہ حالت احرام میں نہیں ہیں، تو وہ بہت غصہ ہوئے۔ جس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ایسا انھوں نے اس لیے کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ پھر حضرت علی نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے، اس وقت سرور کائنات ﷺ ابطح میں تھے۔ ملاقات کے بعد ان سے پوچھا کہ بما اھللت یا علی؟ ائے علی کس چیز کا احرام باندھے ہو، تو انھوں نے جواب دیا کہ جس چیز کا احرام نبی اکرم ﷺ نے باندھا ہے، تو آپ نے حکم دیا کہ پھر حالت احرام میں ہی رہو، کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے قربانی کے جانورلے کر آئے تھے۔
نبی اکرم ﷺ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین افعال حج سے فارغ ہوگئے تو ۱۴؍ ذی الحجہ کو روانگی کا حکم دیا گیا ۔ اور چلتے چلتے ۱۸؍ ذی الحجہ کو غدیر خم مقام پر پہنچے۔ اور ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا۔ اسی مقام پر جب یمن سے آئے ہوئے صحابہ کو موقع ملا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مذکورہ بالا واقعہ کی شکایت کی ۔اور حضرت بریدہ نے معاملہ کو اوربڑھا چڑھاکر پیش کیا، جسے سن کر نبی اکرم ﷺ کا چہرہ غصے سے متغیر ہوگیا۔ نماز ظہر کا وقت ہورہا تھا ۔ آپ نے نماز کے لیے منادی کرائی ۔ تمام صحابہ آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے ۔ نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں پہلے حضرت علی کے فضائل اور ان کے انصاف پسند ی کی تعریف کی ۔ بعدہ ارشاد فرمایا کہ
الستم تعلمون انی اولیٰ بالمسلمین من انفسھم، قالوا: بلیٰ یا رسول اللہ!، قال: من کنت مولاہ، فعلی مولاہ، اللھم وال من والاہ، و عاد من عاداہ، وانصر من نصرہ ، واخذل من خذلہ (شرح مشکل الآثار)
کیا میں مسلمانوں کی جانوں سے زیادہ افضل نہیں ہوں، تو سب صحابہ نے بیک زبان ہوکر ہاں میں جواب دیا۔ پھر ارشاد فرمایا کہ میں جس کا محبوب ہوں، علی بھی اس کے محبوب ہیں۔ ائے اللہ ! جو علی سے دوستی رکھے، تو اسے دوست رکھ اور جو علی سے دشمنی رکھے، تو تو اس کا دشمن بن جا۔ اللہ تعالیٰ علی کے مددگار کی مدد فرما اور علی کو رسوا کرنے والے کو ذلیل و خوار کردے۔حضرت بریدہ کا ہی بیان ہے کہ
عَنْ بُرَیْدۃَ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْیَمَنَ فَرَأَیْتُ مِنْہُ جَفْوَۃً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلی رَسُولِ اللہِ صَلی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذکَرْتُ عَلِیًّا فَتَنَقَّصْتہُ، فَرَأَیْتُ وَجہَ رَسُولِ اللہِ صَلی اللہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَتَغَیَّرُ فَقَالَ: یَا بُرَیْدَۃُ أَلَسْتُ أَوْلی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِھِمْ؟ قُلْتُ: بَلَی یَا رَسُولَ اللہِ. قَالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاہُ (مسند احمد ، حدیث بریدۃ الاسلمی)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نے نبی اکرم ﷺ کا یہ جلال دیکھا تو سب لوگ سہم گئے ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جن غلط فہمیوں کے شکار تھے، وہ سب کافور ہوگئے۔ اور سب لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دوست بن گئے۔
تاریخ کے اس واقعہ کو لے کر ہمارے کچھ لوگوں کو پہلے نظریاتی اختلاف ہوا۔ پھر یہ اختلاف ایک مسلک میں تبدیل ہوگیا۔ پھر اس مسلک نے فرقہ کا روپ دھار لیا ۔ بڑھتے بڑھتے معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ اس فرقہ میں فرقہ واریت اور تفرقہ نے جگہ لے لی ہے ۔
اس فرقہ کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ فعلی مولاہ کے ارشاد نبوی میں مولا کا مطلب اولیٰ بالامامۃ یعنی خلیفہ کے سب سے زیادہ حق دار ہے ا ور اس سے نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امیر المومنین بنانے کا اشارہ کیا ہے ، لہذا جن لوگوں نے وفات نبوی ﷺ کے بعد آپ کو خلیفہ نہیں بنایا، وہ سب کے سب راہ ہدایت سے منحرف اور غاصب دین و خلافت ہیں۔ اور پھر یہیں سے طوفانی بدتمیزی شروع کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کو گالی دینا اس فرقہ کا سب سے بڑا کار ثواب ہے۔
اس فرقہ کا یہ معنی نکالنا کئی وجوہات سے درست نہیں ہے ، جن میں سے کچھ درج ذیل ہے:
(۱) مولیٰ کے معنی دوست کے ہیں، جس کا مشتق ولی ہے۔ اور قرآن و احادیث کے بے شمار حوالے موجود ہیں۔
(۲) اگر مان بھی لیں کہ اس سے مراد اولیٰ بالامامۃ ہے، تو نبی اکرم ﷺ کی موجودگی میں امام ہونا لازم آئے گا جو کہ غلط ہے۔
(۳) اگر مان لیں کہ اس سے مراد اولیٰ بالامامۃ ہی ہے تو پھر حضرات خلفاء ثلاثۃ سے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیوں بیعت کیا؟۔
پھر اسی کے ساتھ تاریخ میں ایک دوسرا واقعہ پیش آیا ، جس میں ۱۰؍ محرام الحرام کو کربلا میں حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنھما کو بلاکر شہید کردیا گیا۔ پہلے یہ فرقہ صرف صحابہ کو گالی دیتا تھا، لیکن اس واقعہ کے بعد زمانے کو بھی برا بھلا کہنے لگے ۔ اور محرم کا پورا مہینہ گالی گلوچ ، تبرا کاری اور مقدس ہستیوں کی ذاتوں پر کیچڑ اچھالنے کا تہوار بنالیا ۔اور اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ اس پورے مہینے کو غم اور ماتم کا مہینہ قرار دے کر اسے کوسنا اور اس مہینے میں کوئی بھی خوشی کا کام نہ کرنا اپنا شعار بنالیا۔حالاں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان مجھے تکلیف پہنچاتا ہے ، وہ زمانے کو گالی دیتا ہے اور زمانہ تو میں ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سارا معاملہ ہے۔ رات دن کی گردش میں ہی کرتا ہوں۔
عن ابی ھریرۃ ،قال، قال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم: قال عز وجل: یوذینی ابن آدم، یسب الدھر، و انا الدھر، بیدی الامر، اقلب اللیل والنھار(صحیح البخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب وما یھلکنا الا الدھر (الجاثیۃ)
بہر کیف ، گالی خواہ صحابہ و صحابیات کو دی جائے ، یا پھر اس سے بڑھ کر کسی زمانے کو برا بھلا مان کر یا کہہ کر اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی جائے، دونوں ناجائز اور حرام ہیں۔ یہ دین و شریعت کا بالکل بھی حصہ نہیں ہوسکتا ہے، لیکن کچھ لوگ جو ایسی حرکتیں کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں، ان کے بارے میں بس یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو عقل سلیم اور فہم رشید عطا فرمائے۔ آمین۔