20 Sept 2019

عملی اسلام کہاں ہے……؟

 عملی اسلام کہاں ہے……؟
محمد یاسین جہازی، خادم جمعیت علمائے ہند
اسلام میں جہاں  نظریات کی بنیادی اہمیت ہے، وہیں عملیات بھی اس سے کم اہمیت نہیں رکھتے؛ البتہ یہ تفریق ضرور ہے کہ حقوق اللہ میں نظریات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ حقوق العباد میں عمل کی اہمیت زیادہ ہے۔ آئیے ان دونوں پہلووں پر ایک زمینی تجزیہ کرتے ہیں کہ دونوں حقوق میں دونوں پہلوں پر کھرے اترنے والے مسلمانکتنے  ہیں۔
نظریاتی مسلمان
اعتقادو نظریات کے اعتبار سے تجزیہ کیا جائے تو اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ 
(۱) مدارس کے تعلیم یافتہ افراد: بنیادی اعتقاد کے بالکل پختہ ہوتے ہیں۔ 
(۲) عصری تعلیم یافتہ طبقہ: اس کی دو کٹیگری ہیں: 
(الف) جن کو گھریلو ماحول میں اسلامی نظریات کی تربیت ملی ہے۔ 
(ب) جن کا گھریلو ماحول اسلامیات سے ناآشنا ہے۔
اول الذکر افراد نظریاتی اعتبار سے بسا غنیمت ہیں، جب کہ آخر الذکر افراد محض نام کے مسلمان ہوتے ہیں، تاہم یہ نام بھی ان کی دائمی بخشش کے لیے سہارا بن سکتا ہے۔ 
ایک دوسری حیثیت سے غور کیا جائے تو یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ جو عصری تعلیم یافتہ  حضرات علما کی رہنمائی و استفسار کے بغیر صرف اپنے مطالعہ سے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو چوں کہ ان کی زبان بالعموم انگریزی ہوتی ہے، عربی یا اردو نہیں ہوتی۔ اور انگریزی زبان میں اسلامیات یا تو ندارد ہیں۔ اور اگر کچھ ہیں بھی، تو بالعموم راہ حق و اعتدال سے بھٹکے ہوئے قلم کاروں کی کاوش ہے، جنھوں نے اسلام علما سے نہیں؛ بلکہ انھوں نے بھی محض اپنے انگریزی مطالعہ سے سیکھا ہوا ہوتا ہے، جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ ایسی تحریروں میں اسلامیات کم اور گمراہیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ جب گمراہی سے لت پت لٹریچر پڑھ کر نئی نسل اسلام کو سمجھنا چاہتی ہے، تو اس کا ریزلٹ یہ سامنے آرہا ہے کہ ایسا طبقہ از خود گمراہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ 
(۲) ناخواندہ افراد: ان کی دو قسمیں ہیں: 
(الف) مسلمانوں کے محلہ و معاشرے میں رہتے ہیں، جس کی وجہ سے مسجد کی اذان سنتے ہیں، جلسے جلوس میں شرکت کا موقع مل جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں کسی نہ کسی حد تک اسلامی ماحول مل جاتا ہے۔ ایسے افراد تفصیلی عقائد سے تو انجان ہوتے ہیں؛ البتہ یہ ضرور مانتے ہیں کہ خدا  ایک ہے۔ آخری نبی محمد ﷺ ہیں۔ اس قسم کے جو ضروری عقائد ہیں، انھیں نہ جاننے کے باوجودانھیں تسلیم کرتے ہیں۔ 
(ب) جو غیر مسلم آبادیوں میں رہتے ہیں، جہاں نہ مسجد ہے اور نہ ہی کوئی دوسرے اسلامی ادارے۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ ہمارا نام مسلمان ہے؛ لیکن اسلام کیا ہے؟ اسے نہ تو جانتے ہیں اور نہ جاننے سے کوئی سروکار رکھتے ہیں۔ ایسے افراد کے پاس جس مذہب کا بھی رہنما پہنچ جاتا ہے، وہ اس کے پیغام کو قبول کرلیتے ہیں۔اب ان کی قسمت کی بات ہوتی ہے پیغامبر حق و صداقت پہنچ گیا، تو اپنا ایمان بچانے میں کامیاب رہتے ہیں، بصورت دیگر ارتداد ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ 
 عملیاتی مسلمان
عملیات کے دو میدان ہیں: حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ 
نماز، روزہ، حج اور زکوۃ؛ یہ اہم حقوق اللہ ہیں۔ ان کے زمینی عملیات کی رپورٹ کچھ اس طرح ہے: 
(۱) علما و تبلیغی طبقہ: بالعموم حقوق اللہ ادا کرتے ہیں۔لیکن معاشرے میں ان کی تعداد دو سے چار پرسینٹ ہے۔ 
(۲) عصری تعلیم یافتہ طبقہ: بالعموم حقوق اللہ ادا نہیں کرتے؛ البتہ کچھ حضرات جنھیں گھریلو دینی ماحول مل جاتا ہے، یا پھر علما کی صحبت میسر آجاتی ہے، تو پھر یہ بھی حقوق اللہ کی ادائیگی پر مکمل توجہ دیتے ہیں، لیکن ان کی تعداد ایک پرسینٹ ہے
 (۳) ناخواندہ طبقہ: یہ طبقہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں بالکل صفر ہے۔ ہزاروں میں  کچھ افراد اگر نماز روزہ کرلیتے ہوں، تو کرلیتے ہوں گے، بالعموم انھیں حقوق اللہ اور شعائر اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ یہ طبقہ صرف اپنے اسلامی نام ہی مسلمان ہونے کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ایک ایسی مسلم بستی آبادی میں چلے جائیے، جہاں ایک ہزار کی آبادی ہے، تو اس میں سے بمشکل تمام دس سے بیس افراد ہی نمازی ملیں گے۔ 
اب ائیے ایک نظر حقوق العباد پر ڈالتے ہیں: 
جتنے بھی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی معاملات ہیں، ان سب کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ جیسے شادی بیاہ، سماجی مسئلہ ہے، تجارت اور نوکری اقتصادی پہلو ہے۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور حسن کلام کے ساتھ معاملہ کرنا اخلاقیات سے تعلق رکھتا ہے۔حقوق اللہ کے ان سارے پہلووں پر عمل کے اعتبار سے زمینی رپورٹ اسی نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ یہاں مسلمان مکمل طور پر بے عملی؛ بلکہ بد عملی کے شکار ہیں۔ چنانچہ غیر مسلم سماج اور مسلم سماج کا تجزیہ کرلیجیے،تو مسلمانوں کا سماج ہر اعتبار سے غیر مسلم سماج سے کم تر نظر آئے گا۔اور اس حوالے سے کیا علما اور کیا خواص؛ سب ایک ہی رنگ میں نظر آتے ہیں۔ طوالت سے بچنے کے لیے صرف ایک ہی مثال لے لیجیے کہ مسلم شادی اور غیر مسلم شادی کی رسوم و رواج، محفل نکاح کے علاوہ کوئی اور فرق نظر نہیں آئے گا۔ بھارت میں مسلمانوں کی سیاسی حصہ داری کیا ہے اور جو لوگ سیاست میں براہ راست شریک ہیں، ان کا مسلمانوں کے تعلق سے کیا کارنامے ہیں، سب جگ ظاہر ہے۔ اسی طرح اخلاقی اعتبار سے جج کرلیجیے،تو معلم اخلاق کی امت ہونے کے باوجود بد اخلاقی میں مسلمان اول نمبر پر ہیں۔قصہ مختصر یہ ہے کہ حقوق العباد میں مسلمان عملی اعتبار سے بالکل صفر ہیں؛ زیادہ سے زیادہ مبالغے کے ساتھ ایک فی صد کو مستثنیٰ کیا جاسکتا ہے۔
اس رپورٹ کے تناظر میں فطری طور پر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ہر طقبے اور نظریاتی و عملی اعتبار سے حقو ق اللہ اور حقو ق العباد میں بھی اس درجہ بے عملی اور بد عملی کے شکار ہوچکے ہیں، تو آخر عملی اسلام ہے کہاں ……؟ 
یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب ملت مسلمہ کے ہر مبلغ اور دین اسلام کے ہر داعی کو ڈھونڈھنا ضروری ہے؛ خواہ وہ تبلیغی سلسلے سے وابستہ ہوں، یا مدارس و مکاتب کے ذمہ دار ہوں، یا پھر کسی اور ذرائع سے دعوت اسلام کے فرائض انجام دے رہے ہوں؛ اس کے بغیر یہ پیش قیاسی شاید خلاف واقعہ نہ ہو کہ وہ دن زیادہ دور نہیں رہے گا، جب بھارت بھی مسلمانوں کے لیے اسپین بن جائے گا۔ 

19 Jul 2019

وعدے تو وفا کرنے کے لیے ہی ہوتے ہیں محترم




محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

عبداﷲ بن ابی الحمساء ؓنے بعثت سے پہلے سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم سے خریدوفروخت کا کوئی معاملہ کیا ،جس میں کچھ ادائیگی باقی رہ گئی تو انھوں نے کہ آپ یہیں رہیں، میں لے کر آتا ہوں۔ لیکن جب یہ گھر گئے تو تین دن کے بعد یاد آیا ۔ چنانچہ یہ مقام عہد پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم اسی جگہ ابھی  تک محو انتظار ہیں۔ اتنی بڑی وعدہ خلافی پر آپ ﷺ نے صرف اتنا فرمایا کہ تم نے مجھے مشکل میں ڈالا اور زحمت دی ، تین دن سے میں اسی مقام پر موجود ہوں‘‘۔(ابوداؤد)
یہ  توعہد مجسم فخر دو عالم ﷺ کا ذاتی معاملہ تھا ، یہاں تو بے وفائی کا شائبہ تک نہیں گذر سکتا۔ کمال تو یہ ہے کہ ایک طرف موت ہو اور دوسری طرف زندگی کا سنہرا دور۔ اورپھر صرف وعدہ وفا کی خاطر موت کی طرف قدم بڑھانا پڑے تو تصور کیجیے کہ یہ کتنا دشوار گذار لمحہ ہوگا، لیکن قربان جائیے سرور کائنات ﷺ کے اس جذبہ پر  کہ آپ نے وعدے کی تکمیل میں اپنے جاں نثار کو موت کی طرف بڑھنے سے نہیں روکا ۔ شاید آپ اشارہ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم عہد حدیبیہ کی بات کر رہے ہیں ۔ واقعہ یہ ہوا کہ سرور کائنات ﷺصلح حدیبیہ کی شرائط و ضوابط تقریبا مکمل فرما چکے تھے؛ لیکن  نافذ العمل ہونے کے لیے فریقین کے دسخط ضروری ہیں ، جو ابھی باقی تھے کہ عین اسی وقت  حضرت ابوجندلؓ خون میں غلطاں و پیچاں  اور پاؤں میں بیڑیاں لگی ہوئی بھاگتے ہوئے  آکر مسلمانوں سے عرض  کرتے ہیں  کہ مجھے ان کافروں سے بچالو، مجھے مدینہ لے چلو ۔ حضرت موصوف کی حالت زار کو دیکھ کر  آپﷺنے اہل مکہ سے بات کی اور کہا کہ ابھی تو دستخط نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن کافر نہ  مانے ، تو آپ ﷺ نے  عہد  کی پابندی کرتے ہوئے حضرت ابوجندلؓ کو واپس بھیج دیا ۔
وعدے کی تکمیل کے سرفروشانہ جذبہ کی یہ مثال ایفائے عہد کی سرشت والے افراد کے لیے شاید کچھ کمتر ہو؛ لیکن گھبرائیے نہیں، سرور کائنات ﷺ کی سیرت طیبہ و طاہرہ میں وعدہ وفا کرنے کی ایسی بھی مثال موجود ہے، جس سے اعلیٰ و ارفع کردار نہ تو آج تک کسی نے پیش کیا ہے اور نہ شاید یہ ممکن ہے۔
آپ تاریخ سے واقف ہیں کہ  تیرو تفنگ اور شمشیرو سنان سے لیس کفار کے ایک ہزار لشکر جرار کے بالمقابل  ہتھیارو تلوار سے محروم بے خانما نو مسلموں  کے تین سو تیرہ افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا قافلہ میدان کارزار میں خیمہ زن ہے۔ یہ ایسا وقت ہے جہاں ایک آدمی کی معیت بھی ڈوبتے کو تنکے کے سہارے سے کم نہیں ۔ حق وباطل کے فیصلہ کن اس معرکے میں ایک ایک شخص کی شدید ضرورت ہے۔ ایسے میں حضرت حذیفہ اور ان کے والد محترم حضرت یمان رضی اللہ عنہما میدان بدر میں آتے ہیں ، مسلمانوں کے حوصلوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ ہوئے واقعہ کو بیان کرتے ہیں کہ   یا رسول اللہ ﷺ ! راستے میں ہمیں ابو جہل کے لشکر نے گرفتار کرلیا تھا اور اسی شرط پر رہا کیا ہے کہ ہم کافروں کے اس لڑائی میں آپ کا ساتھ نہ دیں۔  اتنے سنگین حالات کے باوجود سرور کائنات  صلی اﷲ علیہ وسلم نے معاہدے کی خلاف ورزی کو برداشت نہ کیا اور ارشاد فرمایاکہ ’’ہم اُ ن کے عہد کو پورا کریں گے اور کفار کے خلاف اﷲ عزوجل سے مد د مانگیں گے ‘‘(صحیح مسلم )
آپ تصور کیجیے کہ جنگ بدر کوئی معمولی لڑائی نہیں ہے، یہ ایسی لڑائی ہے کہ خود زبان رسالت مآب ﷺ کے الفاظ میں ، اس میں شکست تاقیامت اسلام کی شکست کا عندیہ ہے، اور ہمیشہ ہمیش کے لیے اسلام کے دفن ہوجانے کا معرکہ ہے۔ اتنے سخت جان دشوار ترین حالات کے باوجود سرور کائنات ﷺ نے ایفائے عہد کو مقدم رکھا۔ آخر کیوں--- کیوں کہ اسلام کے حقیقت پسندانہ کردار اور منافقت کے ڈرامائی  روپ میں یہی فرق ہے۔ اسلام میں ریا اور ڈرامے کی کوئی گنجائش نہیں ، جب کہ دوسرے مذاہب میں بھگوان بھی روپ بدل کر مختلف لیلا کرتے نظر آتے ہیں۔ ---- یہاں پر ذرا رکیے اور خود کا جائزہ لیجیے کہ کیا واقعی ہمارے اندر سچے اسلام کا خون گردش کر رہا ہے، یا پھر بھگوان جیسا ڈراما کے ہیرو بن گئے ہیں ۔ --- ہمارا کردار تو آخر الذکر پہلو کا مجسمہ  بن چکا ہے--- کیوں کہ
ہم نے وحدانیت کو ماننے کا عہد لیا، تو کیا ہمارے عقیدے شرک کی آلائش سے پاک ہیں۔۔۔؟
ہم نے فرمان رسول ﷺ پر دل و جان سے عمل کرنے کا عندیہ دیا، لیکن ہم نے ایسا کیا۔۔؟
ہم نے اسلامی معاملات کے تمام ابواب ازبر کرلیے، لیکن کبھی ایک  بھی معاشرتی معاملہ کو سنت کے مطابق کرنے کرانے کا عملی منظر پیش کیا۔
ہم نے عہد لیا کہ گفتگو، معاشرت، لین دین اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے، لیکن کیا ہم نے مکمل طور پر ایسا کیا، جھوٹ ہم بولتے ہیں، معاشرہ میں ہمارا غلط کردار ضرب المثل ( مثلا مولوی جو کہے وہ کرو، جو وہ کرے وہ نہ کرو)بن گیا ہے ۔ ہر شعبہ ہائے حیات میں ہمارے  رویے کو پس خوردگی سے تعبیر کی جارہی ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہوا۔۔۔ کیوں کہ ہم نے جن تعلیمات پر چلنے کا زمانہ الست میں وعدہ دیا  تھا اور پھر اس زندگی میں اس وعدے کے پابند ہونے کا اعلان کیا تھا اس وعدے کو ہم پورا نہیں کر رہے ہیں ، جب کہ وعدہ وفا کرنے کے لیے ہی کیا جاتا ہے!۔



6 Jul 2019

اگر آپ ماب لنچنگ میں پھنس جائیں تو کیا کریں


حضرت خبیب ابن عدی کا ماب لنچینگ

تاریخ اسلام کا پہلا لنچگ موجودہ حالات کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے
محمد یاسین جہازی

سلیم الفطرت انسانوں کا نظریہ ہے کہ جب ان کا معاشرہ، یا ملک دشمنوں سے محفوظ ہوجائے، تو امن و امان کی فضا قائم کرلیتے ہیں؛ لیکن بد فطرت انسان نما مخلوق کی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنے حریف کی خاموشی کو اپنی بے چینی اور چیرہ دستی کا سبب بنالیتے ہیں؛ یہی کچھ آج کل ہمارے بھارت میں ہورہا ہے۔ مسلمان دستور و آئین اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جمہوری طریق عمل اور عدم تشدد کی راہ پر گامزن ہے، تو ملک کی اکثریت اپنے اقتدار و کثرت کے زعم میں اقلیت پر ظلم و تشددکا بازار گرم کرتی جارہی ہے۔ اب تک بھیڑیے نما بھیڑ نے جن اللہ کی وحدانیت کی گواہی دینے والوں کو تنہا پاکر شہید کیا ہے، یہ دراصل اسی بد فطرتی کا مظاہرہ اور بزدلی کی بد ترین مثال ہے۔ ایسی صورت حال میں بھی مسلمانوں کا ازلی تعلیم اسے یہ سکھاتی ہے کہ جان کی امان مانگنے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ جاں بازی سے مقابلہ کرکے جان جاں آفریں کے سپرد کردینا ہی نجات ابدی کا ذریعہ ہے۔ آئیے ایسی ہی ایک مثال کے لیے اسلامی تاریخ کے پننے کو پلٹتے ہیں۔ 
قبیلہ عضل و قارہ نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عریضہ پیش کیا کہ اسلام کی تعلیم و تبلیغ کے لیے کچھ افراد کو ہمارے پاس بھیج دیں۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے سات معلم صحابہ کو اس کے ساتھ بھیج دیا۔ جب یہ تبلیغی وفد ایک گھاٹی سے گذر رہا تھا، تو پہلے سے منصوبہ بند طریقے سے چھپے دو سو مسلح نوجوانوں نے اچانک حملہ کردیا۔ پانچ صحابہ ؓنے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جان جاں آفریں کے سپردکردیں، جب کہ تین صحابہ کرام: حضرات خبیب، زیدو عبداللہ کو گرفتار کرلیا اور قریش مکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ 
حضرت خبیب ابن عدی کو حارث ابن عامر کے گھر میں قید رکھا گیا اور کھانی پانی بند کردیا اور فاقہ کشی سے مرنے کا انتظار کرنے لگے، لیکن جب اس طرح سے آپ کی موت نہیں ہوئی، تو  مآب لنچنگ کی تاریخ کا اعلان کردیا۔ چنانچہ جب مقررہ تاریخ پر بے شمار لوگ تیر و تلوار اور آلہ قتل لے کر لنچنگ کرنے کے لیے تنعیم میں اکٹھا ہوگئے، تو حضرت خبیب ؓ کو پابہ زنجیر لایا گیا اور صلیب کے نیچے کھڑا کرکے ہاتھ پاوں باندھ دیے۔ مجمع سے ایک شخص نکل کر آیا اور کہنے لگا کہ ائے خبیب تمھارے دکھ سے ہم درد مند ہیں، تمھاری جان اب بھی بخشی جاسکتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ تم اسلام چھوڑ دو۔ حضر ت خبیب نے ڈرنے گھبرانے کے بجائے جواب دیا کہ جب اسلام ہی باقی نہیں رہے گا، تو جان بچاکر کیا کریں گے……؟۔یہ جواب سن کر مجمع دم بخود رہ گیا۔ اتنے میں ایک دوسرے آدمی نے پوچھا کہ کوئی آخری خواہش……؟ حضرت خبیب نے کہا کہ بس دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ مجمع نے اجازت دے دی تو آپ نے نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ دوگانہ ادا کیا۔ سلام پھیرنے کے بعد مجمع نے پھر آپ کو ستون سے جکڑ دیا اور تیر و تلوار کو ایمانی حرارت کا امتحان لینے کے لیے دعوت دی گئی۔ ایک شخص آگے آیا اور نیزے کی انی سے جسم پر کئی چرکے لگائے، جس سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے۔ ایک اور شخص آیا اورحضرت خبیب کے جگر پر نیزہ رکھ کر اس زور سے دبایا کہ کمر سے پار ہوگیا۔ اس جاں کنی کے عالم میں حملہ آور نے حضرت خبیب سے کہا کہ کیا اب بھی تم پسند کروگے کہ تمھاری اس مصیبت کی جگہ پر محمد ﷺ کو کھڑا کردیا جائے، گویا محبت نبوی کو پرکھنے کی کوشش کی گئی۔ پیکر صبر حضرت خبیب جو تیر و سنان کے زخموں کو حوصلہ مندی سے برداشت کر رہے تھے، لیکن عشق نبوی پر قدغن لگانے والے اس جملہ کو برداشت نہ کرسکے اور گرج کر جواب دیا کہ ائے ظالم! خدا جانتا ہے کہ مجھے جان دینا پسند ہے، لیکن یہ بالکل پسند نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پیر میں ایک کانٹا بھی چبھے۔ مجمع یہ جواب سن کر تمازت کفر سے ابلنے لگا اور چاروں طرف سے تیرو تلوار کی بارش کردی۔
”پیکر صبر خبیب رضی اللہ عنہ کے دردناک مصائب کا تصور کیجیے: آپ ستون کے ساتھ جکڑے ہوئے ہیں، کبھی ایک تیر آتا ہے اور دل کے پار ہوجاتا ہے، کبھی نیزہ لگتا ہے اور سینے کو چیر دیتا ہے۔ ان کی آنکھیں آتے ہوئے تیروں کو دیکھ رہی ہیں۔ ان کے عضو عضو سے خون بہہ رہا ہے۔ درد و تکلیف کی اس قیامت میں بھی ان کا دل اسلام سے نہیں ٹلتا۔“ (انسانیت موت کے دروز پر، ص/145)
     میڈیا کے توسط سے آئے دن کہیں نہ کہیں اس طرح کے مناظر کا مکروہ منظر دیکھنا پڑرہا ہے کہ ایک خوں خوار بھیڑ کے بیچ عقیدہ وحدانیت کی شناخت رکھنے والا بے قصور کے ہاتھ پیر جکڑ ہوئے ہیں۔ ایک مخصوص مذہبی شناخت رکھنے والا مجمع ”جے شری رام“ کا نعرہ پلید لگانے کے لیے مجبور کر رہا ہے۔ گرچہ جان کی اماں کی خاطر وہ مغلظات بک بھی دیتا ہے، اس کے باوجود گرگ جاں گسل بھیڑ انتہائی بے دردی سے اس کے پیر کے ٹکڑے کردیتا ہے، پھر ہاتھ کو بھی جسم سے الگ کردیتا ہے۔وہ تڑپ تڑپ کر زندگی کی بھیک مانگتا ہے، لیکن بھیڑ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اتنا کچھ کرنے کے باوجود درندوں کی ہوس نہیں بجھتی ہے تو بدن پر چھری سے چرکے لگاتا ہے اور بوٹی بوٹی کرڈالتا ہے۔ پھر تیز دھار دار ہتھیار سے سر کو تن سے جدا کردیتا ہے۔ 
چوں کہ یہ زیادہ تر مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے، اس لیے اگر آپ کہیں ایسے حالات میں گھر جاتے ہیں، تو گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی جان بچانے کے لیے مغلظات کفر بکنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ ایسے موقع پر حضرت خبیب ؓ کی سیرت کو یاد رکھ کر جواں حوصلگی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جمہوری دستور میں دفاع نفس کا حق استعمال کرتے ہوئے نعرہ کفر پر مجبور کرنے کی جگہ نعرہ تکبیر لگائیں۔ امان مانگنے کے بجائے عشق خبیب کا مظاہرہ کریں اور مرتے مرتے مارنے والوں کو شوق شہادت کا جذبہ سکھا کر جائیں، کیوں کہ ایک مسلمان سب کچھ کرسکتا ہے، لیکن وہ ایمان کا سودا نہیں کرسکتا۔ ایک مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے، لیکن بزدل اور ڈرپوک نہیں ہوسکتا۔ اور جب بزدل نہیں ہوسکتا تو جب یہ ثابت کرنے کا موقع آئے تو خوں خوار درندے کو بتا دیجیے کہ مسلمان سر تو کٹا تو سکتا ہے، لیکن وہ جھک نہیں سکتا ہے۔ 
تو کیاضرورت پڑنے پر آپ سیرت خبیب پر عمل کرنے کے لیے تیارہیں ……؟  

21 Jun 2019

شیطان کے گھر کا ایڈریس یہ ہے

شیطان کے گھر کا ایڈریس یہ ہے
محمد یاسین جہازی، جمعیت علماء ے ہند
واٹس ایپ 9871552408


خیبر مدینہ سے تقریباً سو میل کے فاصلے پر ہے، بنو نضیر کے یہودی جب مدینہ سے جلا وطن کیے گئے، تو خیبر جا بسے اور پھر خیبر یہودیوں کی سازشوں کا مرکز بن گیا؛ لہٰذا اسلام کی حفاظت کے لیے ضروری ہو گیا کہ ان کے اس شر انگیز اڈے کو توڑ دیا جائے؛چنانچہ سات ہجری میں تقریباً سولہ سو مسلمان مجاہدین کا لشکر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں خیبر روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا گیا۔ یہ محاصرہ تقریباً دس روز تک جاری رہا؛ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور خیبر کے تمام قلعوں پر قبضہ ہو گیا۔
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر سفر کرتے رہے یہاں تک کہ (جب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غنودگی طاری ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام کرنے کے لیے آخر رات میں ایک جگہ اتر گئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارا خیال رکھنا (یعنی صبح ہو جائے تو ہمیں جگا دینا) یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو سو گئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تہجد کی نماز میں لگ گئے۔ جب صبح صادق ہونے کو ہوئی، تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے کجاوے سے تکیہ لگا کر مشرق کی جانب منہ کر کے بیٹھ گئے۔ لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ انھیں بھی نیند آگئی۔ جب صبح صادق ہو گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کی بھی آنکھ نہ کھلی، یہاں تک کہ جب ان کے اوپر دھوپ آگئی اور اس کی گرمی پہنچی، تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبرا کر فرمایا کہ بلال یہ کیا ہوا؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے بھی نیند آگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس جگہ سے چلے چلو۔ چنانچہ سب لوگ تھوڑی دور تک اپنی اپنی سواریاں لے کر چلے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ چنانچہ انھوں نے نماز کے لیے تکبیر کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا: جو آدمی (نیند وغیرہ کی بنا پر) نماز پڑھنی بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً اسے پڑھ لے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ 
 وَاَ قِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (20۔طہ: 14)۔
یعنی میرے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لو۔ 
شوافعی علما کے نزدیک چوں کہ طلوع آفتاب کے وقت قضا نماز پڑھنا جائز ہے، اس لیے وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے قضا نماز پڑھے بغیر فوراً اس لیے روانہ ہوگئے، کیوں کہ وہاں شیطان آگیا تھا،جیسا کہ دوسری روایتوں میں اس کی تصریح موجود ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم کی ایک روایت کے  الفاظ ہیں کہ”اس لیے کہ اس جگہ ہمارے پاس شیطان آگیا ہے۔“(۲)
اس حدیث سے صاف صاف شیطان کے گھر کا ایڈریس معلوم ہوگیا کہ جس جگہ رہتے ہوئے نماز قضا ہوجائے، تودراصل وہاں شیطان ہوتا ہے، جس کی نحوست سے نماز تک قضا ہوجاتی ہے۔ اور اگر کبھی کسی جگہ رہتے ہوئے نماز قضا ہوجائے، تو اس جگہ کو تبدیل کردینا چاہیے۔ آج اپنے گھر اور جائے رہائش پر رہتے ہوئے ہماری نمازیں قضا ہوتی رہتی ہیں، یا پھر اس سے بھی بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ ہمیں نماز پڑھنے کی ہی توفیق نہیں ہوتی، تو دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے گھر کو شیطان کا گھر بنا رکھا ہے۔ ہم اپنے گھروں کو کیڑوں مکوڑوں سے صاف رکھنے کے لیے دوائی تو استعمال کرتے ہیں، لیکن شیطان کو بھگانے کے لیے اور شیطان کا بسیرا نہ بننے دینے کے لیے کچھ نہیں کرتے، حتیٰ کہ بسم اللہ تک پڑھ کر گھر میں داخل نہیں ہوتے اور نہ ہی داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کرتے ہیں، جس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارا گھر شیطان کا اڈا بن جاتا ہے، جس سے گھر کا سکون، برکت اور اہل خانہ کے درمیان الفت و محبت؛ سب ختم ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ شیطان ہمارے گھر اے سی، کولر اور پنکھا میں بیٹھنے نہیں آتا؛ بلکہ اپنی ڈیوٹی کرنے آتا ہے اور اس کی ڈیوٹی یہی ہے کہ گھر کا سکون برباد کردو، وہاں بے برکتی پھیلادو، افراد خانہ کے درمیان دشمنی اور لڑائی کرادواور گھر کو جہنم کدہ بنادو۔ 
اگر آپ کے گھر میں ایسا ہی ہوتا ہے،بھائی بھائی، میاں بیوی، اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ لڑائی ہوتی رہتی ہے، تو سمجھ لیجیے کہ یہاں شیطان موجود ہے۔ اس لیے گھر کو نعمت کدہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ گھر کا ہر فرد نماز کا اہتمام کرے اور جب بھی گھر آئے تو اہل خانہ کو سلام کرے اور بسم اللہ پڑھ کر دروازہ بند کرے۔ اگر آپ ایسا کریں گے، تو پھر شیطان آپ کے گھر کو اپنا اڈا نہیں بناسکے گا اور پھر آپ کا گھر جہنم کدہ سے نعمت کدہ بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مردود شیطان سے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔ 
مآخذ و مصادر
(۱) عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم حِےْنَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَۃِ خَےْبَرَ سَارَ لَےْلَۃً حَتّٰی اِذَا اَدْرَکَہُ الْکَرٰی عَرَّسَ وَقَالَ لِبِلَالٍ اِکْلَأ لَنَا اللَّےْلَ فَصَلّٰی بِلَالٌ مَّا قُدِّرَ لَہُ وَنَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَصْحَابُہُ فَلَمَّا تَقَارَبَ الْفَجْرُ اسْتَنَدَ بِلَالٌ اِلٰی رَاحِلَتِہٖ مُوَجِّہَ الْفَجْرِ فَغَلَبَتْ بِلَالًا عَےْنَاہُ وَھُوَ مُسْتَنِدٌ اِلٰی رَاحِلَتِہٖ فَلَمْ ےَسْتَےْقِظْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَلَا بِلاَل ٌوَلَا اَحَدٌ مِّنْ اَصْحَابِہٖ حَتّٰی ضَرَبَتْھُمُ الشَّمْسُ فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَوَّلَھُمُ اسْتَےْقَاظًا فَفَزِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اَیْ بِلَالُ فَقَالَ بِلَالٌ اَخَذَ بِنَفْسِی الَّذِیْ اَخَذَ بِنَفْسِکَ قَالَ اقْتَادُوْا فَاَقْتَادَوْا رَوَاحِلَھُمْ شَےْءًا ثُمَّ تَوَضَّأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَمَرَ بِلَالًا فَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ فَصَلّٰی بِہِمُ الصُّبْحَ فَلَمَّا قَضَی الصَّلٰوَۃَ قَالَ مَنْ نَسِیَ الصَّلٰوۃَ فَلْےُصَلِّھَا اِذَا ذَکَرَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ۔(طہ، آیت ۴۱) (صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ،باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ)
(۲) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: عَرَّسْنَا مَعَ نَبِیِّ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ نَسْتَیْقِظْ حَتَّی طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: «لِیَأْخُذْ کُلُّ رَجُلٍ بِرَأْسِ رَاحِلَتِہِ، فَإِنَّ ہَذَا مَنْزِلٌ حَضَرَنَا فِیہِ الشَّیْطَانُ»، قَالَ: فَفَعَلْنَا، ثُمَّ دَعَا بِالْمَاءِ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ، وَقَالَ یَعْقُوبُ: ثُمَّ صَلَّی سَجْدَتَیْنِ، ثُمَّ أُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ فَصَلَّی الْغَدَاۃَ۔  (صحیح مسلم، کِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاۃَ، بَابُ قَضَاءِ الصَّلَاۃِ الْفَاءِتَۃِ، وَاسْتِحْبَابِ تَعْجِیلِ قَضَاءِہَا)

4 Jun 2019

عید کی رات کچھ خاص کرنے کی رات


عید کی رات کچھ خاص کرنے کی رات
محمد یاسین جہازی،جمعیت علمائے ہند


عید کا چاند مسرت کا دوسرا نام ہے۔ چاند نظر آتے ہی رمضان کے شیڈول لائف سے آزادی کا احساس، بسا اوقات ہمیں غفلت میں مبتلا کردیتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فرائض و نوافل اور ذکرو تلاوت کے اہتمام کی جگہ عید کی مصروفیات ہمیں گھیر لیتی ہیں اور اس طرح سے ہم عید کی رات میں عبادات الٰہی سے غفلت کے شکار ہوجاتے ہیں۔ عید کی خوشی اپنی جگہ مسلم ہے؛ لیکن چاند نظر آنے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ عید کی رات قدرو فضیلت سے بالکل محروم ہوجاتی ہے؛ بلکہ اس رات میں بھی عنایات الٰہی کی بارش ہوتی ہے۔ چنانچہ سرور کائنات ﷺ کا گرامی قدر ارشاد ہے کہ جو شخص عید کی رات کو ذکر خداوندی میں گذارے گا، اس کا دل قیامت کے ہولناک مناظر کے سامنے بھی زندہ رہے گا، جہاں ہر ایک کے دل پر موت کی حکمرانی قائم ہوجائے گی۔مَنْ قَامَ لَیْلَتَیِ الْعِیدَیْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّہِ لَمْ یَمُتْ قَلْبُہُ یَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ (سنن ابن ماجہ، کتاب الصیام،بَابٌ فِیمَنْ قَامَ فِی لَیْلَتَیِ الْعِیدَیْنِ)حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عید کی رات، دعا کی قبولیت کی رات ہے۔وقال الإمام الشافعی رضی اللہ عنہ: ”بلغنا أنہ کان یقال: إن الدعاء یُستجاب فی خمس لیال: فی لیلۃ الجمعۃ، ولیلۃ الأضحی، ولیلۃ الفطر، وأول لیلۃ من رجب، ولیلۃ النصف من شعبان… وأنا أستحب کل ما حکیت فی ہذہ اللیالی من غیر أن یکون فرضاً” ”الأم” (1/ 264)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ عید الفطر کی رات درحقیقت ’انعام و اکرام کی رات‘ ہوتی ہے۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب نوازتا ہے اور کسی سائل کو بھی محروم نہیں کرتا۔فَإِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ الْفِطْرِ سُمِّیَتْ تِلْکَ اللَّیْلَۃُ لَیْلَۃَ الْجَاءِزَۃِ، شعب الایمان للبیھقی، الصیام، باب جزاء الاجیر، التماس لیلۃ القدر آہ)لہذا ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس رات کو صرف عید کی تیاری میں نہیں؛ بلکہ نماز اور ذکرو دعا میں گذاریں۔ نبی اکرم ﷺ جہاں عید کی رات کو جاگنے کا اہتمام فرماتے تھے، وہیں آپ ﷺ اس رات کو غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو بھی عید کی خوشی میں شامل کرنے کے لیے سامان بہم پہنچایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ عید کا چاند نظر آنے کے بعد گھر آکر ازواج مطہرات کے حال احوال پوچھتے، پھر عشا کے بعد ضرورت مندوں میں فطرہ تقسیم فرمایا کرتے تھے۔ روزہ داری، بندگی، فطرہ، زکاۃاصل میں ہیں یہ حقیقت عید کیمفلسوں کو وقت پر دے دو زکاۃوہ کریں پوری ضرورت عید کی ان ارشادات گرامی اور خود اسوہ نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہوئے آئیے عہد کرتے ہیں کہ اس عید کی رات کو ایک خاص رات بنائیں گے: قیام رات کرکے، اللہ کے حضور گڑگڑا کے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے اور اس عید کی رات کا خصوصی اہتمام کرنے کی توفیق ارزانی کرے، آمین۔

2 Jun 2019

آئیے عید مناتے ہیں، تہوار نہیں

آئیے عید مناتے ہیں، تہوار نہیں 
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


خوشی کا دوسرا نام عید ہے۔ عید عربی کا لفظ ہے، اس کے معنی لوٹنے کے ہیں، چوں کہ یہ ہرسال لوٹ کر آتی رہتی ہے، اس لیے خوشی کو عید کہا جاتا ہے۔ اس کے ایک معنی فائدہ کے بھی ہیں، چوں کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نوازشیں بندوں پر ہوتی ہیں، اس لیے بھی اسے عید کہاجاتا ہے۔ 
انسانی سماج میں عید کا تصور بہت قدیم ہے۔ کہاجاتا ہے کہ نسل انسانی کی اولیں شخصیت حضرت آدم علیہ السلام کی جب توبہ قبول ہوئی، تو عید منائی گئی۔ بعض روایتوں کے مطابق حضرت آدم کے بیٹے ہابیل و قابیل کی لڑائی میں جب صلح ہوئی، تو روئے زمین پر پہلی عید منائی گئی۔ کچھ مورخین کا ماننا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس دن بت پرستی سے دور رہنے کی تلقین کی، وہی دن عید کی ابتدا کا دن ہے۔ اسلامی ملتوں کے علاوہ دیگر قوموں میں بھی خوشی اور تہوار منانے کا رواج پایا جاتا ہے، جن میں ان کی تہذیب و ثقافت اور عقیدوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ایرانی مجوسی دو تہوار مناتے ہیں:ایک نو روز، جس کے معنی نیا دن کے ہیں۔ نوروز شمالی نصف کرہ میں بہار کے آغاز کی علامت ہے۔ یہ ایرانی تقویم کے پہلے مہینے فروردین کا پہلا دن ہوتا ہے۔ یہ عموماً 21 مارچ یا اس سے پچھلے یا اگلے دن اس وقت منایا جاتا ہے، جب سورج کے خط استوا سماوی کو عبور کرتے وقت دن اور رات برابر ہوجاتے ہیں۔ اور دوسرا مہرجان، جسے ۲۲/ ستمبر سے ۲۲/ اکتوبر تک منایا جاتا ہے۔ قدیم یونانیوں میں عید منانے کا طریقہ یہ تھا کہ مرد و عورت مکمل طور پر ننگے ہوکر بتوں کے سامنے جنسی عمل کیا کرتے تھے۔ اور جو شریف النفس ایسا کرنے سے انکار کرتے، مذہب کے ٹھیکدار انھیں دو ردراز غاروں میں زندہ دفن کردیتے تھے۔  ۵۲/ دسمبرکو عیسائی حضرات ولادت مسیح کے نام سے تہوار مناتے ہیں۔ بھارت میں ہندوں کے یہاں تقریبا ہر ایک مہینے میں کوئی نہ کوئی تہوار ضرور ہوتا ہے، جس میں ہولی، دیوالی، دشہرہ، بسنت پنچمی وغیرہ بڑے تہوار مانے جاتے ہیں۔ 
 سن ۲/ ہجری، مطابق ۵۲۶ ء میں نبی کریم ﷺ نے انصاری صحابیوں کو جاہلیت کے طرز پرخوشی مناتے دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم جاہلیت سے مناتے آرہے ہیں، اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر تمھیں دو دن عطا کیے ہیں: ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحی۔ 
عَنْ أنَسٍ قَالَ: قَدِمَ النَّبِیُّ ﷺ الْمَدِیْنَۃَ وَلَھُمْ یَوْمَانِ یَلْعَبُوْنَ فِیْھِمَا فَقَالَ: مَا ھٰذانِ الْیَوْمَانِ؟ قَالُوْا: کُنَّا نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بھِمَا خَیْراً مِنْھُمَا یَوْمَ الأضْحیٰ وَیَوْمَ الْفِطْرِ۔(أبو داود: کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ العیدین)
عید اور تہوار کا فرق
ہر مذاہب کے نام ان کی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہیں ہندو مت سے وطنیت (ہندستان) کا مفہوم نکلتا ہے۔ عیسائیت سے ہادی اعظم (حضرت عیسیٰؑ) کی شخصیت سامنے آتی ہے۔ یہودیت سے ایک قوم کا تصور ابھرتا ہے۔ پارسیت سے ایک ملک کا دھیان دلوں میں جمتا ہے؛ لیکن اسلام کے لفظ سے نہ ملک، نہ قوم اور نہ شخصیت جھلکتی ہے؛ بلکہ صرف اطاعت حق میں فنائیت اور مالک الملک میں محویت کے جذبات کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جب عیدگاہ کے لیے چلتے ہیں، تو نہ رنگ پھینکتے ہیں، نہ گردو غبار اڑاتے ہیں اور نہ ہی شخصیت یا قومیت کے نعرہ لگاتے ہوئے چلتے ہیں؛ بلکہ مسلمانوں کا کا یہ ترانہ زبان زد ہوتا ہے کہ اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اور یہی چیز عید کو تہوار سے الگ کرتی ہے۔ علاوہ ازیں اسلام نے ماضی کی کسی تاریخ پر عید مقرر نہیں کی، کیوں کہ وہ واقعہ ایک مرتبہ ہوکر فنا ہوگیا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ کارنامے خود اس تہوار منانے والوں کے نہیں ہوتے۔ اسلام نے ایسا واقعہ عید کی اصل قرار دیا، جو ہر سال نیا ہوتا ہے اور انسان خود اسے اپنے عمل سے تیار کرتا ہے۔ اور یہ سب چیزیں تہوار میں نہیں ہوتیں۔
عید اور تہوار کے یہ سب فرق بتاتے ہیں کہ عید کی خوشی دراصل اسی کو میسر ہوتی ہے، جو خود روزہ رکھ کر یا قربانی کرکے عید کی فضا بناتے ہیں،اور اس کی کامیاب تکمیل پر بارگاہ ایزدی میں دوگانہ سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو کسی شرعی معذوری کے بغیر بھی روزہ نہ رکھے، یا وجوب کے باوجود قربانی نہ کرے، تو اس کے لیے عید کی خوشی ہو ہی نہیں سکتی، وہ جس چیز پر خوش ہوتے ہیں، وہ محض تہوار ہے۔ اور تہوار سے دل خوش تو ہوسکتا ہے، لیکن اس میں عید کی مسرت حاصل نہیں ہوسکتی۔ تو آئیے، اس یکم شوال کو ہم تہوار کی خوشی نہیں، بلکہ خوشی کی عید منائیں۔

31 May 2019

صدقۃ الفطر اہل مدارس کو لینا جائز نہیں ہے؟

صدقۃ الفطر اہل مدارس کو لینا جائز نہیں ہے؟
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
اسلام نے اہل ثروت کو عید الفطر سے قبل صدقۃ الفطر ادا کرنے کی تاکید کی ہے۔ اور اس کی وجہ خود حدیث شریف میں بیان کردی گئی ہے کہ رمضان میں لایعنی بات چیت اور فحش گفتگو سے روزہ کو پاک کرنے لیے فطرہ دینا ناگزیر ہے۔ اسی طرح خوشی کے اس موقع پر غریبوں کو کھانا میسرآجائے اور وہ بھی اس خوشی میں برابر کے شریک ہوسکیں، اس لیے فطرہ دینا ضروری ہے۔ 
 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُہْرَۃً لِلصَّاءِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِینِ، مَنْ أَدَّاہَا قَبْلَ الصَّلَاۃِ، فَہِیَ زَکَاۃٌ مَقْبُولَۃٌ، وَمَنْ أَدَّاہَا بَعْدَ الصَّلَاۃِ، فَہِیَ صَدَقَۃٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ۔ (سنن ابی داود،کِتَاب الزَّکَاۃِ،بَابُ زَکَاۃِ الْفِطْرِ)
فقہا کی تصریحات کے مطابق صدقۃ الفطر ادا کرنے کی چار درجے ہیں: 
(۱) رمضان میں ہی کسی دن ادا کردیا جائے۔ یہ جائز؛ بلکہ سب سے زیادہ مستحسن ہے۔ 
(۲) عید کے دن؛ لیکن عیدگاہ نکلنے سے پہلے۔ یہ طریقہ مستحب ہے۔ 
(۳) عید کے دن؛ نماز عید کے بعد۔ یہ جائز ہے، اس کی گنجائش ہے۔ 
(۴) عید کے دن، عید کے بعد۔ یہ صحیح تو ہے؛ لیکن اتنی تاخیر کرنے کا گناہ گار ہوگا۔ 
صدقۃ الفطر ادا کرنے کی حدیث میں بیان کردہ دونوں وجوہات، اور اد اکرنے کے مستحسن و مستحب وقت کے پیش نظر یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے ادارے کو صدقۃ افطر دینا، لینا مناسب ہے، جو صدقۃ الفطر کو عید سے پہلے یا عید کے دن تک غریبوں کو نہیں پہنچاتے؟ اس کا صحیح جواب تو اہل علم و فتاویٰ ہی دیں گے؛ اس کے باوجود حدیث کے مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے راقم کا نظریہ یہ ہے کہ یہ صحیح غیر مناسب ہے؛ کیوں کہ نبی اکرم ﷺ نے فطرہ کو جس مقصد سے لازم وا جب ٹھہرایا ہے، اس کو وقت پرپورا کرنے میں ادارے ناکام رہتے ہیں؛ اس لیے فطرہ کی ادائیگی کے وقت اہل خیر کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہمارا فطرہ وقت پر غریبوں میں خوشیاں فراہم کرنے کا سبب بن رہا ہے یا نہیں۔ اگر آپ نے براہ راست مستحقین کو دے دیا ہے، تو بھی لائق ستائش ہیں۔ اور اگر ایسے ادارے کو دیا ہے، جو مستحسن وقت پر غریبوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، تو بھی لائق تعریف ہیں؛ لیکن اگر آپ ایسے وقت میں دیتے ہیں جب کہ عید کا موسم گذرجاتا ہے، یا ایسے ادارے کو دیتے ہیں، جو گرچہ عید کے بعد مستحقین میں خرچ کرتے ہیں؛ لیکن عید سے پہلے اپنے اکاؤنٹ میں مقید کردیتے ہیں، توانھیں دینے سے گریز کرنا چاہیے۔علاوہ ازیں مکمل اور صحیح جان کاری کے لیے اپنے آس پاس کے مستند عالم دین سے یہ مسئلہ ضرور معلوم کرلیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے، آمین۔   

28 May 2019

مہتمم صاحب! استاذ + سفیر پر رحم کیجیے

مہتمم صاحب! استاذ + سفیر پر رحم کیجیے

محمد یاسین جہازی
۵/ رمضان یعنی ۱۱/ مئی ۹۱۰۲ء، سخت ترین گرمی کا دن تھا۔ عصر سے تقریبا تقریبا ایک گھنٹہ پہلے راقم رہائش گاہ سے آفس کے لیے نکلا ہی تھا کہ ایک ولی صفت بزرگ شخصیت پر نظر پڑی۔ جن کے چہرے کا جغرافیہ بتا رہا تھا کہ ایک طویل سفر سے ابھی ابھی آئے ہیں۔ ناچیز قریب پہنچا اور سلیک علیک کے بعد خیریت دریافت کی۔ عمر کا بوجھ، سفر کی تکان، روزہ کی کیفیت، موسم کی شدت اور بدن کی خستگی زباں سے کچھ بتائے بغیر گویا تھی کہ کیسی خیریت تھی؛ اس کے باوجود پھولتی سانس کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہوں۔ راقم نے قابل رحم حالت پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس عمر اور رمضان میں سفر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سوال پر گویا بھڑکتے ہوئے انھوں نے جواب دیا کہ یہ بات تو مہتمموں کو بتلاؤ، جو اس عمر میں بھی کہتے ہیں کہ اپنی تن خواہ رمضان کے چندہ سے ہی نکالو۔ اور چندہ نہیں کروگے، تو ادارہ آپ کی خدمت کا نقصان برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ اس شخص کا تاثر تھا، جنھوں نے فراغت کے بعد اپنی نوجوانی، جوانی اور بڑھاپا، سب اس مدرسہ کی تعلیمی و تعمیری ترقی کے لیے وقف کردیا تھا۔ ان کی زندگی میں کئی مہتمم بوڑھاپے سے موت اور پیدا ہوکر جوان ہوگئے۔ ان مہتمموں اور ان کی اولاد کی زندگی ٹاٹ سے فرش مخمل پر پہنچ گئی؛ لیکن تعمیر و ترقی میں برابر کے شریک اس استاذ کی زندگی جس ٹاٹ سے شروع ہوئی تھی، آج بھی اسی ٹاٹ پر بسر ہورہی ہے۔ بس صرف ایک تبدیلی آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے ٹاٹ نئی تھی، اب ان کی عمر کی طرح وہ بھی بوڑھی ہوگئی ہے۔ 
یہ تو اس شخص کی وکوہ کن داستان تھی، جس کی زندگی کا ایک بڑا حصہ چندہ وصولی کے تجربات میں گذر چکا ہے؛ لیکن نئی نسل اور نئے خون کے نظریے اور حوصلہ کی بات کریں، تو یہاں بھی تجزیاتی رپورٹ اس کے برعکسنہیں ہوگی۔ چنانچہ راقم نے ایک دن ایک جگہ پر مقیم تقریبا سو سے زائد سفرائے کرام سے سوال کیا کہ رمضان میں چندہ کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے، تو بیک زبان جو صدائے احتجاج بلند ہوئی، وہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں تھی کہ یہ کام غیر رمضان میں ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ سب کی دلیل یہی تھی کہ رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے ہم لوگ محروم رہ جاتے ہیں، وصولی کی بھاگ دوڑ کی وجہ سے تراویح پڑھنے کی ہمت نہیں جٹاپاتے، تلاوت قرآن کی سعادت سے بھی محروم رہتے ہیں۔ مسافر ہونے کی وجہ سے سحری و افطاری میں بڑی دشوری پیش آتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ البتہ اس مجمع میں چند ایک آواز یہ بھی اٹھی کہ نہیں، ہم اس نظریے کو اس وقت تک قبول نہیں کرسکتے، جب تک کہ دارالعلوم دیوبند اور اس جیسے بڑے ادارے کچھ اقدامات نہ کریں۔ تحقیق حال پر معلوم ہوا کہ یہ مہتمم حضرات تھے، جو ہر قیمت پر صرف اور صرف چندہ ہی پیش نظر رکھتے ہیں۔
ان دونوں طبقوں کے نظریات پر نفسیاتی تجزیہ کریں، تو اس کے علاوہ کچھ اور کہنا خلاف واقعہ ہوگا کہ مہتمم حضرات کو اپنے ایسے اساتذہ کی عمر کا خیال رکھتے ہوئے معاملہ کرنا چاہیے، جنھوں نے آپ کے مدرسہ کی تعمیر و ترقی کے لیے جوانی کی ساری طاقت خرچ کرڈالی۔ اسی طرح جو نوجوان اساتذہ ہیں، اور چندہ کے تجربات سے نا آشنا ہیں، انھیں ان کی قوت وصولی کے بقدر کام کرنے کا مکلف بنانا چاہیے۔ اتنا زیادہ ٹارگیٹ نہ دے دیا جائے کہ انھیں اس ٹارگیٹ تک پہنچنے کے لیے جواز اور عدم جواز کی حدوں کو بھی لانگھنا پڑجائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ماتحتوں کے ساتھ اسلامی رویہ اختیار کرنے کی توفیق بخشے۔

25 May 2019

etakaf

اعتکاف

محمد یاسین جہازی جمعیت علمائے ہند

عربی کا لفظ ہے۔ اس کا معنی ہے: ٹھہرنا۔ یہ اسلام کی ایک عبادت کا نام ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی ایسی مسجد میں جہاں پنج وقتہ نماز ہوتی ہے، وہاں ٹھہرنے کی نیت سے قیام کرے۔ اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: (۱) واجب: اس کی شکل یہ ہے کہ کوئی شخص اعتکاف کرنے کا نذر کرلے، تو اسے پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ (۲) سنت موکدہ: یہ رمضان کے آخر عشرے کا اعتکاف ہے۔اس کے لیے بیسویں رمضان کی افطاری مسجد میں کرنا ضروری ہے۔ اور عید کا چاند نظر آتے ہی یہ پورا ہوجاتا ہے۔عید کی رات اعتکاف میں شامل نہیں ہے، خواہ انتیس ہی کا مہینہ کیوں نہ ہو۔ (۳) مستحب: یہ اعتکاف کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے کسی چیز کی شرط نہیں ہے، جب کہ اول الذکر دونوں اعتکافوں میں روزہ شرط ہے۔ اسی طرح پہلے دونوں اعتکافوں میں وقت کی تحدید ہے، جب کہ اس اعتکاف میں وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے، ایک لمحے کا بھی اعتکاف ہوسکتا ہے، البتہ تینوں اعتکاف نماز ہورہی مسجد میں ہونا ضروری ہے، کیوں کہ اعتکاف دراصل نماز کے لیے انتظار کرنے کی عبادت ہے، لہذا جہاں نماز ہوگی، وہیں پر انتظار ہوگا۔
ان تینوں قسموں میں سے دوسری قسم کا اعتکاف رمضان میں ہوتا ہے۔ 
اگرچہ اعتکاف کا تذکرہ کلام پاک میں بھی ہے، ارشاد خدا وندی ہے: 
ولا تباشروھن و انتم عاکفون فی المساجد(البقرۃ، ۷۸۱)
(مسجد میں رہتے ہوئے عورتوں سے مت ملو)۔ لیکن اس کی اصل فضیلت اور مشروعیت احادیث سے ثابت ہے۔ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے کی پابندی کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ حضرت ابی سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پہلے پہلے دونوں عشروں کا اعتکاف فرمایا: اعتکاف کا مقصد شب قدر کی تلاش تھا، لیکن فرشتے نے خبر دی کہ اس کا وقت آخر عشرے میں ہے، لہذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہتے ہیں، وہ آخر عشرے کا اعتکاف کریں اور اسے طاق راتوں میں تلاش کریں۔ ایک دوسری حدیث میں حضرت ابن عباس ؓ اعتکاف کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں ہیں کہ
ھو یعکف الذبوب و یجری لہ الحسنات کعامل الحسنات کلھا(سنن ابن ماجہ، باب فی ثواب الاعتکاف)۔

 یعنی اعتکاف سے ایک طرف جہاں انسان کی گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے، وہیں دوسرے بہت سے اعمال کا ثواب کیے بغیر مل جاتا ہے، جیسے جنازہ میں شرکت، مریض کی عیادت وغیرہ۔ ابن عباس ؓ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ
من اعتکف یوما ابتغاء وجہ اللہ، جعل اللہ بینہ و بین النار ثلاث خنادق، کل خندق ابعد مما بین الخافقین(المعجم الاوسط للطبرانی، باب المیم من اسمہ محمد)۔
یعنی محض رضائے الٰہی کے لیے اعتکاف کرنے والوں کے اور دوزخ کے بیچ زمین و آسمان کے فاصلے کے برابر فاصلہ کردیتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں اعتکاف کرنے کی توفیق ارزانی کرے، آمین۔

24 May 2019

رمضان کے آخری عشرے میں نبی اکرم ﷺ کے سات مخصوص اعمال

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

خودنبی اکرم ﷺ نے رمضان کریم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصہ کا نام ’رحمت‘، دوسرے کا نام ’مغفرت‘ اور تیسرے کا نام ’نجات‘  رکھاہے۔ یوں تو نبی کریم ﷺ ہر ایک حصہ کی قدر فرمایا کرتے تھے اور پورے رمضان خصوصیت کے ساتھ دو کام کیا کرتے تھے:
(۱) سخاوت۔(۲)تلاوت۔
 حدیث شریف میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تو تھے ہی؛ لیکن جب رمضان آتا تھا، تو آپ کی سخاوت کی مقدار بہت بڑھ جاتی تھی۔ آپ ﷺ کی سخاوت تیز رفتارہوا  سے بھی زیادہ تیز ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح عام دنوں کے مقابلے رمضان میں تلاوت کلام پاک کا زیادہ اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ رمضان کی ہر رات کو تلاوت اور تلاوت کے ساتھ ساتھ سخاوت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَجْوَدُ مَا یَکُونُ فِی رَمَضَانَ، حِینَ یَلْقَاہُ جِبْرِیلُ، وَکَانَ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ  یَلْقَاہُ فِی کُلِّ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَیُدَارِسُہُ القُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالخَیْرِ مِنَ الرِّیحِ المُرْسَلَۃِ۔ (صحیح بخاری،کِتَابُ المَنَاقِبِ،بَابُ صِفَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)
تلاوت و سخات تونبی اکرم ﷺ کے پورے رمضان کا معمول تھا؛ ان کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ آخری عشرے میں سات ایسے اعمال کیا کرتے تھے، جو پہلے دونوں عشرے میں نہیں کرتے تھے۔ وہ اعمال درج ذیل ہیں:
(۱) شب بیدار ی: آپ ﷺ اخیر عشرے میں شب بیداری کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ جس میں نماز، تلاوت،ذکر اور استغفار کیا کرتے تھے۔
(۲) اہل و عیال کو بیدار کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ حضرات علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کا دروازہ کھٹکھٹا کر کہا کرتے تھے کہ ’دونوں اٹھ جاؤ اور نماز پڑھو‘۔
 أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ أَخْبَرَہُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَرَقَہُ وَفَاطِمَۃَ بِنْتَ النَّبِیِّ عَلَیْہِ السَّلاَمُ لَیْلَۃً، فَقَالَ: أَلاَ تُصَلِّیَانِ؟ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَنْفُسُنَا بِیَدِ اللَّہِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ یَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ حِینَ قُلْنَا ذَلِکَ وَلَمْ یَرْجِعْ إِلَیَّ شَیْءًا، ثُمَّ سَمِعْتُہُ وَہُوَ مُوَلٍّ یَضْرِبُ فَخِذَہُ، وَہُوَ یَقُولُ: وَکَانَ الإِنْسَانُ أَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا۔(الکہف: ۴۵)(صحیح البخاری، کتاب التہجد، باب تحریض النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی صلاۃ اللیل والنوافل من غیر إیجاب)
(۳) نبی اکرم ﷺ اس عشرے میں بیویوں سے جدا رہا کرتے تھے اور مکمل انہماک کے ساتھ ہمہ وقت عبادت میں مصروف ہوتے تھے۔
عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا، قَالَتْ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ العَشْرُ شَدَّ مِءْزَرَہُ، وَأَحْیَا لَیْلَہُ، وَأَیْقَظَ أَہْلَہُ۔ (صحیح بخاری،کتاب فضل لیلۃ القدر،بَابُ العَمَلِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ)
 (۴)  لیلۃ القدر کی تلاش: شب بیداری کا ایک بنیادی مقصد نبی اکرم ﷺ کا یہ تھا کہ شب قدر کو پالیں۔اور آخری عشرے میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے؛ چنانچہ ارشاد گرامی ہے کہ
کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُجَاوِرُ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَیَقُولُ: تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ القَدْرِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ۔ (صحیح بخاری،کتاب فضل لیلۃ القدر، بَابُ تَحَرِّی لَیْلَۃِ القَدْرِ فِی الوِتْرِ مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ)
(۵) اعتکاف: آخری عشرے میں آپﷺ خصوصیت کے ساتھ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْتَکِفُ العَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ۔ (صحیح بخاری، کِتَابُ الِاعْتِکَافِ، بَابُ الِاعْتِکَافِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالِاعْتِکَافِ فِی المَسَاجِدِ کُلِّہَا)
(۶)آخری عشرے میں آپ کا ایک معمول یہ بھی تھا کہ کھانے کا مقدار بہت کم کردیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ صرف افطاری کیا کرتے تھے، افطاری کو سحری کے طور پر کھایا کرتے تھے۔
(۷) مغرب و عشا کے درمیان غسل فرمایا کرتے تھے۔
 حضرت  حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کے ساتھ قیام رمضان کیا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے غسل فرمایا، تو حضرت حذیفہ ؓ نے پردہ کیا اور پھر بقیہ پانی سے خود غسل کیا۔ حضرت انس بن مالک ۴۲/ رمضان کی رات کو غسل کرکے، عمدہ لباس پہنتے تھے اور خوشبو لگانے کا اہتمام کرتے تھے۔ لطائف المعارف میں اوربھی کئی اکابرین کے مختلف معمولات درج کیے گئے ہیں۔
 کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم إذا کان رمضان قام و نام فإذا دخل العشر شد المئزر و اجتنب النساء و اغتسل بین الأذانین و جعل العشاء سحورا۔ أخرجہ ابن أبی عاصم و إسنادہ مقارب(لطائف المعارف، صفحۃ 207)
اللہ تعالیٰ ہمیں اسوہ نبوی پر چلنے اور آپ ﷺ کے ان سبھی اعمال پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین۔

17 May 2019

روزہ کی مقبولیت کا پتہ لگانے والا فارمولہ مل گیا

روزہ کی مقبولیت کا پتہ لگانے والا فارمولہ مل گیا


محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت نافع ابن عبد الحارث کو مکہ اور طائف کا حاکم بنایا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ امیر المومنین کی آمد کی خبر پاکر حضرت نافع استقبال کے شوق میں مکہ سے ایک سو ایک کلو میٹر کی دوری پر واقع وادی عسفان چلے آئے۔ عند الملاقات حضرت عمر نے پوچھا کہ اپنے غائبانہ میں کس کو حاکم کو بناکر آئے ہو؟ تو حضرت نافع ؓ نے جواب دیا کہ (عبد الرحمان) ابن ابزیٰ کو۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو حضرت نافع نے جواب دیا کہ یہ میرا غلام ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے تعجب سے پوچھا کہ تم نے سادات قریش اور ثقیف مولی پر ایک غلام کو حاکم بنادیا!؟۔ تو حضرت نافعؓ نے جواب دیا کہ دراصل وہ قاری بھی ہیں اور فرائض کے عالم بھی۔ یہ جواب سن کر حضرت عمر ؓ نے کہا کہ تمھارے نبی ﷺ نے سچ فرمایا کہ 
إِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا، وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ۔ (مسلم، کِتَابُ صَلَاۃِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِہَا،  بَابُ فَضْلِ مَنْ یَقُومُ بِالْقُرْآنِ، وَیُعَلِّمُہُ، وَفَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ حِکْمَۃً مِنْ فِقْہٍ، أَوْ غَیْرِہِ فَعَمِلَ بِہَا وَعَلَّمَہَا)
قرآ ن کریم لوگوں کو قدرو منزلت بھی عطا کرتا ہے اور قعرمذلت میں بھی گرا دیتا ہے۔ 
حضرت عبد الرحمان ابن ابزیٰ ؓ کوفہ کے رہنے والے تھے۔ بعد میں حضرت علیؓ نے خراسان کا حاکم بنادیا تھا، جوصرف اور صرف قرآن کریم کی بدولت تھا۔
قرآن کریم رمضان کے مہینے میں نازل ہوا ہے۔(۱) اورشک و شبہ سے بالاتر اس کتاب سے تقویٰ صفت حضرات ہدایت پاتے ہیں۔ (۲)اور قرآن کریم ہی کی شہادت کے مطابق روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ ہے۔ (۳) تو نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے روزہ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم اس ماہ قرآن میں قرآن سے کتنا جڑے ہوئے ہیں۔ماہ رمضان میں قرآن کریم سے جڑنے کے تین ذرائع ہیں: 
(۱) تلاوت کرنا۔ (۲) اس کے اوامر ونواہی پر عمل کرنا۔ (۳) تراویح میں سننا سنانا۔
 اگرہم پورے آداب کے ساتھ روزہ رکھتے ہوئے قرآن کی تلاوت بھی کرتے ہیں، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی کرتے ہیں اور تراویح میں بھی سننے سنانے کا اہتمام کرتے ہیں، تو ہمارا یہ طرز عمل اس بات کا اشارہ ہے کہ ہم ماہ رمضان کے مقدس فریضہ: روزہ کے مقصد میں کامیاب ہوکر تقویٰ شعار بنتے جارہے ہیں اور ہمارا روزہ عند اللہ مقبول ہورہا ہے۔ اور جس درجہ ان تینوں چیزوں میں کوتاہی ہوگی، اسی درجہ ہمارا روزہ مقبولیت سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ مثال کے طور پر آپ قرآن کی تلاوت، عمل اور تراویح میں سے صرف تلاوت اور عمل کرتے ہیں، تراویح نہیں پڑھتے، تو تین درجوں میں سے ایک درجہ آپ کے روزہ کی مقبولیت گھٹ جائے گی۔ اسی طرح تلاوت یا تراویح تو پڑھتے ہیں، لیکن عمل نہیں کرتے، یا عمل بھی کرتے ہیں اور تراویح بھی پڑھتے ہیں، لیکن تلاوت نہیں کرتے، یا پھر تینوں کاموں سے صرف ایک ہی کام کرتے ہیں، دو کام نہیں کرتے؛ تو ان تمام صورتوں میں اسی درجہ روزہ کی مقبولیت میں کمی آجائے گی۔خلاصہ کلام یہ نکلا کہ اس ماہ قرآن یعنی رمضان میں آپ کوقرآن سے جتنا شغف اور تعلق ہوگا، آپ کا روزہ اتنا ہی عند اللہ مقبول اور مقصد تقویٰ میں کامیاب ہوگا۔ اور اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ قرآن کریم اپنے قدر دانوں کو بالیقین قدرو منزلت سے نوازتا ہے، تو ایسا ہونا شاید ناممکن ہے کہ آپ روزہ کی وجہ سے متقی توبن جائیں، لیکن قرآن سے نہ جڑسکیں، کیوں کہ قرآن تو متقیوں ہی کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح جو لوگ روزہ رکھ کر بھی قرآن کی تلاوت و عمل اور تراویح پر توجہ نہیں دیتے، تو یہ اس بات کا اشاریہ ہے کہ قرآن کریم کو چھوڑنے کی وجہ سے قرآن نے اس سے یہ توفیق چھین لی ہے۔ اور قرآن سے محرومی کا مطلب تقویٰ سے محرومی ہے اور جب تقویٰ ہی حاصل نہیں ہوسکا، تو بالیقین اس کا روزہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا، یعنی مقبولیت حاصل نہیں کرسکا۔ 
اس مثال کے علاوہ بھی اس فرمان نبوی  ﷺکے بیشمار عملی مظاہر ہیں۔ تمام مہینوں میں رمضان کے تقدس کا رازیہی قرآن ہی ہے۔ تمام راتوں میں شب قدر کو جو تاج افضلیت حاصل ہوا ہے، اس کی وجہ بھی یہی قرآن کریم ہی ہے، کیوں کہ اسی رات کو سمائے دنیا پر قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ عام مجمع میں حافظ و عالم  ہی امامت و خطابت کے ستارے قرار پاتے ہیں، کیوں کہ یہ دونوں قرآن کے عملی عاشقین میں سے ہیں۔
اولین عہد اسلام کے مسلمان سب سے زیادہ قرآن کریم سے وابستہ تھے، اس لیے یہ لوگ جہاں جہاں بھی گئے، خوش بختیوں اور نیک کامرانیوں نے ان کے قدم چومے؛ لیکن جوں جوں امت قرآن سے دور ہوتی چلی گئی، توں توں ذلت و رسوائی کے دلدل میں پھنستی چلی گئی؛ تاآں کہ موجودہ حالات کی عکاسی کے لیے علامہ اقبال کو کہنا پڑا کہ  ؎
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
کیوں کہ صادق و مصدوق سرور کائنات ﷺکا فرمان کبھی بھی خلاف واقعہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ”یہ قرآن قوموں کو عروج بھی عطا کرتا ہے اور زوال کا مزہ بھی چکھا دیتا ہے۔“
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا روزہ مقبول ہو، ہم متقی بن جائیں، تو اس کے لیے علامہ اقبال ہی کی تعبیر میں کہنے دیجیے کہ ؎ 
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
یعنی اگر تم مسلمان کی زندگی گزارنا چاہتے ہو تو قرآن کریم کو زندگی کا حصہ بنائے بغیر ایسا ممکن نہیں۔
 اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کی تلاوت اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔ 
مآخذو مصادر
(۱) شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ۔ (البقرۃ، ۵۸۱)
(۲) ذَٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ? فِیہِ? ہُدًی لِّلْمُتَّقِینَ (البقرۃ، ۲) 
(۳)یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (البقرۃ، ۳۸۱)

10 May 2019

کیا چندہ لینے دینے کے لیے رمضان ہی ضروری ہے؟

کیا چندہ لینے دینے کے لیے رمضان ہی ضروری ہے؟

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ حضرات رمضان کا استقبال کیسیکرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ صحابہ کو جب چاند نظر آجاتا تھا، تو کسی بھی مسلم بھائی کے لیے دل میں کینہ نہیں رکھتے تھے۔ یعنی اپنا دل بالکل صاف کرلیا کرتے تھے۔ 
حضرت عمر ؓ رمضان میں مسجدوں کو چراغوں سے منور کیا کرتے تھے۔ مسجدوں میں قمقمے لگانے اور تراویح کی نماز باجماعت ادا کرنے کا سلسلہ حضرت عمرؓ نے ہی شروع کیا ہے۔ ابن اسحاق الہمدانی فرماتے ہیں کہ رمضان کی ایک رات میں حضرت علی ؓ گھر سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ چراغوں سے مسجد جگمگا رہی ہے اور تراویح میں قرآن کی تلاوت سے فضاوں میں نورانیت چھائی ہوئی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر بے ساختہ حضرت علی کی زبان سے حضرت عمر کے لیے یہ دعا نکلی کہ 
نور اللہ لک یابن الخطاب فی قبرک، کما نورت مساجد اللہ بالقرآن۔
ائے ابن اخطاب! اللہ تیری قبر کو ایسے ہی نور سے بھردے، جس طرح آپ نے مساجد کو قرآن کی تلاوت سے منور کردیا ہے۔ 
صحابہ کرام اپنی زکاۃ شعبان میں نکال دیاکرتے تھے اور رمضان کو عبادت کے لیے فارغ رکھتے تھے۔ ماہ شعبان رمضان کے لیے خود کو تیار کرنے کا مہینہ ہے، اس لیے اس میں بالخصوص رمضان میں کیے جانے والے اعمال یعنی روزہ اور تلاوت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔علامہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ ’لطائف المعارف میں لکھتے ہیں کہ:
”ماہ شعبان میں روزوں اور تلاوتِ قرآن حکیم کی کثرت اِس لیے کی جاتی ہے تاکہ ماہ رمضان کی برکات حاصل کرنے کے لیے مکمل تیاری ہو جائے اور نفس، رحمن کی اِطاعت پر خوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہو جائے۔“(ص: 258)۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول سے اِس حکمت کی تائید بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ شعبان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
کان المسلمون إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ أکبُّوا علی المصاحِفِ فقرؤوہا، وأَخْرَجُوْا زَکَاۃَ أموالہم تقوِیَۃً للضَّعیفِ والمسکینِ علی صیامِ و رمضانَ.(ابن رجب حنبلی، لطائف المعارف: 258)
”شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں۔“
ہندستان میں علمائے کرام نے رمضان میں خود کو رمضان کے لیے فارغ کرنے کے بجائے چندہ اور سفر پر نکلنے کا جو معمول بنایا ہوا ہے،اس میں درج ذیل دس اعتبار سے رمضان کی حرمت کی پامالی ہوتی ہے: 
(۱) بالعموم زمینی مدارس، اور بالخصوص تجارتی مدارس اقامتی و بیرونی طلبہ کی تعداد میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ اور یہ جھوٹ ثواب سمجھ کر بولا جاتا ہے۔ مدارس کے ذمہ داران حقائق سے دور رپورٹ بناکر اپنے ملازمین و اسٹاف کو دیتے ہیں۔ اور یہ حضرات حقیقت کو جاننے کے باوجود اسی غلط رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کرکے چندہ کی اپیل کرتے ہیں۔ بہ الفاظ مختصر رمضان میں دروغ گوئی پر مجبور ہونا پڑتا ہے، جس سے روزہ پھٹ جاتا ہے اوررمضان کے روحانی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
(۲) سفر میں ہونے اور موسم کی شدت کی وجہ سے سفرائے کرام روزہ نہیں رکھ پاتے۔ جب موسم رمضان میں روزہ نہیں رکھ پاتے ہیں، تو بعد رمضان شاید ہی کسی کو توفیق مل پاتی ہے۔ اور سفر میں ہونے کی وجہ سے جس کو جہاں موقع ملتا ہے، وہیں کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ عوام چوں کہ سفرائے عظام کو علما کے بھینس میں دیکھتی ہے، اس لیے عوام میں یہ بدگمانی عام ہوتی جارہی ہے کہ علما روزہ نہیں رکھتے اور کھلے عام کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ پھر یہ مقولہ بولا جاتا ہے کہ ”مولوی جو کہے، وہ سنو، جو وہ کرے، وہ نہ کرو۔“ جس سے علمائے کرام کے متعلق شریعت پر عمل کے حوالے سے دوہرے نظریے فروغ پاتے ہیں اور پھر عوام علما کی باتوں پر عمل کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتی۔ 
(۳) بعض بعض مہتمم اپنے سفرا کو ٹارگیٹ دیے ہوتے ہوتے ہیں، جو اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں کہ اگر اسے پورا نہیں کیا، تو ملازمت سے نکال دیا جائے گا، یا پچھلے کئی مہینے کی بقیہ تنخواہ رمضانی چندہ سے خود حاصل کرنے کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے، جس کے باعث انھیں سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھکاوٹ کی وجہ سے تراویح، تلاوت وغیرہ عبادات کے لیے موقع نہیں نکال پاتے۔ اگر زمینی رپورٹ کی بات کریں، تو بہت سے سفرائے کرام فرض نماز تک کے لیے حاضر نہیں ہوپاتے ہیں۔ان تمام خرابیوں کی وجہ ایک ہی ہے اور وہ ہے رمضان میں چندہ کرانا۔
(۴) مچندین میں جو حافظ قرآن ہوتے ہیں، وہ بالعموم قرآن بھول جاتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ چندہ کی وجہ سے کسی ایک جگہ ٹھہرنانہیں ہوپاتا اور نہ ہی قرآن سنانے کے لیے جو یکسوئی اور محنت درکار ہوتی ہے، وہ میسر ہو پاتی ہے۔ 
(۵) رمضان المبارک تزکیہ و تصفیہ قلب کا بھی مہینہ ہے۔ اسی مہینہ میں اکابرین امت اور اہل سلوک و معرفت اپنا حلقہ تصوف لگاتے ہیں، تاکہ لوگوں کے دلوں کے زنگ دور ہوجائے۔ لیکن چندہ کی وجہ سے خانقاہ کا رخ کرنا دشوار ہوجاتا ہے اور پورا مہینہ شہر در شہر گھومنے میں گذارنا پڑتا ہے۔ 
(۶) سفر کی وجہ سے سحرو افطار کا مستقل نطم نہیں ہوپاتا۔ جس سے جو سفرا عزیمت کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں، وہ امور حفظان صحت کا خیال نہیں رکھ پاتے، نتیجۃ صحت بگڑنے لگتی ہے اور بعد میں وہ روزہ رکھنے کے قابل نہیں رہ پاتا۔ 
(۷) خود نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ وہ رمضان شروع ہوتے ہی چندہ کے لیے نکل پڑتے تھے۔ بلکہ نبی اکرم ﷺ کے بارے میں یہ آتا ہے کہ آپ ﷺ رمضان میں حد سے زیادہ سخی ہوجاتے تھے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کا دور فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح صحابہ کا معمول یہ تھا کہ وہ تجارت، زکات اور دیگر ضروری کاموں سے شعبان میں ہی فارغ ہوجایا کرتے تھے، تاکہ رمضان کو یکسو ہوکر گذار سکیں۔ اسی طرح علما اپنے خطاب میں عوام کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے روزہ مرہ کے شیڈول کو رمضان میں تبدیل کرکے زیادہ سے زیادہ وقت رمضانی اعمال میں لگائیں، لیکن خود علمائے کرام کا ایک بڑا طبقہ چندہ میں لگ کر رمضانی اعمال سے محروم ہوجاتے ہیں۔ 
(۸) آخری عشرہ میں اعتکاف کا مسئلہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن چندہ کی وجہ سے سفرائے کرام اس عمل سے محروم رہ جاتے ہیں۔ 
(۹) بھارت میں وصولیابی کا اجتماعی نظم نہ ہونے کی وجہ سے کروڑوں کا سرمایہ غیر مستحقین کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔ بلکہ شہادات کے مطابق مچندین کے بھیس میں غیر قوموں کے لوگ بھی زکات اور صدقات کے پیسے لے اڑتے ہیں۔ اور یہ بالعموم رمضان جیسے مقدس مہینے میں ہوتا ہے۔ اس لیے بعض اہل فتاویٰ کے مطابق اس طرح مشکوک آدمی کو زکاۃ دینے سے ادا نہیں ہوپاتی، اس لیے بجائے اس کے کہ ہم رمضانی سفیروں کا انتظار کریں، ہمیں خود ہی مستحق افراد و مدارس کو ڈھونڈھ کر پہنچانا چاہیے۔
(۰۱) دن بھر روزہ، رات میں تراویح اور علیٰ الصباح سحری کے نظام کی وجہ سے غیر رمضان کی بنسبت رمضان میں سبھی لوگوں کا لائف شیڈول بہت ٹائٹ ہوجاتا ہے۔ ایسے میں لمحہ بہ لمحہ اہل ثروت کے پاس کوئی نہ کوئی سفیر پہنچتے رہتے ہیں، جس سے وہ بہت زیادہ ڈسٹرب ہوتے ہیں، جب کہ غیر رمضان میں ملنے ملانے کا کافی وقت ملتا ہے۔ 
درج بالا دس وجوہات کے پیش نظرراقم کی رائے یہ ہے کہ چندہ کامہینہ تبدیل کردینا چاہیے۔ بالیقین مدارس اسلامیہ اور دیگر ملی ادارے چلانے کے لیے چندہ ضروری ہے، اس کے بغیر ملت کے کام نہیں ہوسکتے۔ لیکن کیا ضروری ہے کہ یہ کام رمضان میں ہی کیا اور کرایا جائے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ شعبان کے پہلے عشرے میں چھٹی کراکر بقیہ دو عشرے چندے کے لیے مخصوص کردیے جائیں اور رمضان شروع ہوتے ہی اپنی اپنی جگہوں پر لوٹ کر اطمینان سے رمضان گذاریں۔ اور رمضان کی مناسبت سے لگنے والے حلقہ تصوف و سلوک سے بھی فائدہ اٹھاکر اپنے ایمان کو تازہ اور صیقل کریں۔ اور علمائے کرام اپنے خطابات کے ذریعہ لو گوں کا ذہن بنائیں کہ وہ رمضان کے بجائے شعبان میں ہی صدقات وغیرہ مستحقین کو دے کر اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوجائیں۔ 
ہمیں اہل بصیرت اور زمینی سچائیوں سے واقف حضرات سے قوی امید ہے کہ ان کے ہاتھ ضرور اس فکر کی تائید میں اٹھیں گے اور ایک دن ایسا انقلاب ضرور آئے گا کہ لوگ رمضان کے مقدس لمحات کو رمضانی اعمال کے لیے فارغ رکھیں گے اور چندہ اور اس جیسے دیگر کاموں سے شعبان میں ہی فارغ ہوجائیں گے، کیوں کہ یہی ہمارے صحابہ کا طریقہ تھا اور کامیابی ہمیشہ اسی طریقہ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کے طریقہ پر چلنے کی توفیق دے، آمین۔


5 May 2019

Chaina ka Cahnd

چائنا کا چاند
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


کیا یہ چاند برت رکھنے والی مہیلاؤں کی پریشانیوں، رمضان، عید، بقرعید اور ایام حج کے اختلافات کو ختم کرنے میں کام آئے گا 
ٹکنالوگی کی نت نئی ایجادات کے جذبے ایسی خبریں بھی سنانے لگتے ہیں، جن کے بارے میں عام انسان کا حاشیہ خیال بھی گذرنا مشکل ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں چینی میڈیا پیپلز ڈیلی آن لائن کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 2020 تک چین کے پاس اپنا ایک مصنوعی چاند ہوگا۔ یہ چاند سچوان صوبے کے چینگدو میں لگایا جائے گا، جو زمین سے 500 کلومیٹر کی اونچائی پر، 360 ڈگری کے اوربٹ پر نصب کیا جائے گا، جو دس سے اسی کلو میٹر کے دائرے تک روشنی بکھیرے گا۔ اس میں چاند سے آٹھ گنا زیادہ روشنی ہوگی، جس سے دس ارب اٹھاون کروڑ اسی لاکھ روپیے کے برابر بجلی کی بچت ہوگی۔ یہ چاند در اصل ایک شیشہ کا ہوگا، جو دن میں سورج کی روشنی کو قید کرے گا اور پھر اسے رات میں خرچ کرے گا۔ 
اس سے قبل روس بھی مصنوعی چاند بنانے کی کوشش کرچکا ہے۔1993 میں، روس نے ایک پلاسٹک آئینہ تیار کیا تھا۔نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق تقریبا دو ڈھائی میل کے فاصلے تک زمین پر اس کی روشنی پھیلی تھی۔ 
تقریبا ہر ایک مذہب میں چاند کئی تہواروں اور خوشیوں کا پیغام لاتا ہے۔ اسلامک کلینڈر چاند کی ہی گردش پر قائم ہے۔ مسلمانوں کی عید، روزہ اور دیگر کئی شرعی احکام چاند ہی کے مرہون منت ہیں۔لیکن نظر نہ آنے پر کبھی کبھار اتنے گہرے اختلافات سامنے آجاتے ہیں کہ چاند نکل آنے کے باوجود دل سے بس یہی دعا نکلتی ہے کہ 
چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی
ائے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے
عبد الحمید عدمؔ
چاند (The Moon)
قرآنِ مجید میں چاند کا ذِکر دیگر اَجرامِ سماوِی سے کہیں زیادہ ہے۔ اللہ ربّ العزت نے چاند کی بہت سی خصوصیات کی بناپر قرآنِ مجید میں قسم کھا کر اُس کا ذِکر فرمایا:
کلَّا وَالْقَمَرِ(القمر، 74: 32)
سچ کہتا ہوں قسم ہے چاند کی۔
جس طرح زمین اور نظامِ شمسی کے دِیگر ستارے سورج کے گرد محوِ گردِش ہیں اور جس طرح سورج کہکشاؤں کے لاکھوں ستاروں سمیت کہکشاں کے وسط میں واقع عظیم بلیک ہول کے گرد محوِ گردِش ہے، بالکل اُسی طرح چاند ہماری زمین کے گرد گردِش میں ہے۔ نظام شمسی میں واقع اکثر سیاروں کے گرد اُن کے اپنے چاند موجود ہیں، اور اکثر کے چاند متعدّد ہیں۔ زمین کا صرف ایک ہی چاند ہے جو زمین سے اَوسطاً 4,00,000 کلومیٹر کی دُوری پر زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہ اپنی گردِش کا ایک چکر 27.321661 زمینی دِنوں میں طے کرتا ہے۔ چاند کا قطر 3,475 کلومیٹر ہے اور یہ نظامِ شمسی کے آخری سیارے پلوٹو سے بڑا ہے۔ 
قمری تقوِیم (Lunar calendar)
قمری تقوِیم میں چاند کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ سورج سے وقت کی پیمائش کے لیے اِنسان کو اپنے علمی سفر کی اِبتدا میں سخت دُشواریوں سے گزرنا پڑا اور ابھی تک یہ سلسلہ تھم نہیں سکا۔ کبھی مہینے کم و بیش ہوتے آئے اور کبھی اُن کے دن، یہی حالت سال کے دِنوں کی بھی ہے۔ شمسی تقوِیم میں جا بجا ترمیمات ہوتی آئی ہیں؛مگر اُس کے باوجود ماہرین اُس کی موجودہ صورت سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ موجودہ عیسوی کیلنڈر بار بار کی اُکھاڑ پچھاڑ کے بعد 1582ء میں موجودہ حالت میں تشکیل پایا، جب 4 /اکتوبر سے اگلا دِن 15/ اکتوبر شمار کرتے ہوئے دس دن غائب کر دیے گئے۔ پوپ گریگوری کے حکم پر ہونے والی اِس تشکیلِ نو کے بعد اُسے ’گریگورین کیلنڈر‘ کہا جانے لگا۔
دُوسری طرف قمری تقوِیم میں خودساختہ لیپ کا تصوّر ہی موجود نہیں۔ سارا کیلنڈر فطری طریقوں پر منحصر ہے۔ قدرتی طور پر کبھی چاند 29 دِن بعد اور کبھی 30دِن بعد نظر آتا ہے، جس سے خودبخود مہینہ 29 اور 30 دِن کا بن جاتا ہے۔ اِسی طرح سال میں بھی کبھی دِنوں کو بڑھانے یا کم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
چاند زمین کے گرد مدار میں اپنا 360 درجے کا ایک چکر 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی مدّت میں مکمل کرتا ہے اور واپس اُسی جگہ پر آ جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بڑی اہم بات قابلِ توجہ ہے کہ زمین بھی چوں کہ اُسی سمت میں سورج کے گرد محوِ گردِش ہے اور وہ مذکورہ وقت میں سورج کے گرد اپنے مدار کا 27 درجے فاصلہ طے کر جاتی ہے، لہٰذا اَب چاند کو ہر ماہ 27 درجے کا اِضافی فاصلہ بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ گویا ستاروں کی پوزیشن کے حوالے سے تو چاند کا ایک چکر 360 درجے ہی کا ہوتا ہے، مگر زمین کے سورج کے گرد گردش کرنے کی وجہ سے اُس میں 27 درجے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اُسے زمین کے گرد اپنے ایک چکر کو پورا کرنے کے لیے 387 درجے کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ 27 درجے کی اِضافی مسافت طے کرنے میں اُسے مزید وقت درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری ماہ کی مدّت 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی بجائے 29 دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ قرار پاتی ہے۔ 29 دن اور 12 گھنٹے کی وجہ سے چاند 29 یا 30 دنوں میں ایک مہینہ بناتا ہے اور باقی 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ کی وجہ سے سالوں میں کبھی دو ماہ مسلسل 30 دنوں کے بن جاتے ہیں اور یہ فرق بھی خود بخود فطری طریقے سے پورا ہو جاتا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے اُس میں کوئی ردّوبدل نہیں کرنا پڑتا۔(اسلام اور جدید سائنس، ص/ ۳۰۳، تا/ ۵۰۳)
چاند نظر آنے اور نہ آنے کا فلسفہ
ماہر فلکیات مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب گڈاوی، چئیرمین ہلال کمیٹی لندن کی تشریحات کے مطابق زمین سے اسی وقت چاند نظر آسکتا ہے، جب کہ افق پر کم از کم دس ڈگری اوپر ہو اور مطلع پر پینتالیس منٹ تک باقی رہے۔ اور چاند کی عمر اس وقت تقریبااٹھارہ گھنٹے ہوچکی ہو۔ اگر چاند دس سے بارہ ڈگری اوپر ہوتا ہے، تو انتیسویں کا چاند ہوتا ہے،لیکن اگرانتیسویں تاریخ کوبوقت غروب دس ڈگری سے کم اونچائی پر ہو تو، اس دن چاند نظرنہیں آتا اور مہینہ تیس دن کا مکمل ہوجاتا ہے۔ 
ان تمام علمی موشگافیوں اور سائنسی انکشافات کے باوجود، رمضان اور عید و بقرعید کا چاندسخت اختلاف کا شکار ہوجاتا ہے، جس سے چاند بھی شکستگی محسوس کرتے ہوئے تمنا کرتا ہوگا کہ نہ نکلتے تو ہی اچھا ہوتا۔ بہر کیف اسلام نے چاند کے ہونے نہ ہونے کا سادہ اور آسان طریقہ یہ بتلادیا ہے کہ مہینے کی انتیس تاریخ کو چاند دیکھنے کی کوشش کرو، اگر نظر آتا ہے، تو ٹھیک ہے۔ اور اگر نظر نہیں آتا ہے اور ایسی مصدقہ خبربھی کسی جگہ سے نہیں آتی، جہاں کہ چاند دیکھا گیا ہے، تو پھر تیس دن کا مہینہ تسلیم کرلو۔
اس واضح اسلامی تعلیمات کے باوجود اگر ہم آپس میں اختلاف کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کو غلط ٹھہرانے کی کوشش کرتیہوئے ملت فروشی کا الزام عائد کرنے سے بھی نہیں چوکتے، تو اس سے بہتر ہے کہ ہم چائنا کے مصنوعی چاند کو دیکھ کر برت کھولیں اور عید بقرعید کی خوشیاں اسی کی مصنوعی کرنوں میں تلاش کرلیں؛ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ …… کیا کسی کا بھی مذہب اس کی اجازت دے گا……؟ اور اگر بالفرض و المحال مان بھی لیں کہ اجازت مل جائے گی، تو چائنا کے تین چاند وں میں سے کس چاند کا اعتبار ہوگا……؟ اور اگر دوسرے ملک والوں نے بھی اپنے اپنے چاند بنا لیے، تو پھر کس ملک کاچاند زیادہ اہم ہوگا……؟ اور پھرا س کے نتیجے میں تاریخ کا جو ایک لامتناہی اختلاف شروع ہوگا، اس کے حل کے لیے کس سورج کی پناہ ڈھونڈھنی ہوگی……؟

3 May 2019

Larki hi to gala kaat den kia

لڑکی ہے تو گلا کاٹ دیں کیا

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


عمرہ ادا فرماکر سرور کائنات ﷺ واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ وہیں پاس حضرت علی ؓ بھی کھڑے ہیں۔ ان کے پاس جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ بتول ؓ بھی موجود ہیں۔ اچانک ایک بچی کی سریلی آواز کانوں میں گونجتی ہے۔
چچا…… چچا۔ حضرت علی پیچھے مڑ تے ہیں، تو کیا دیکھتے ہیں کہ سید الشہدا حضرت حمزہ ؓ کی بچی امامہ پکار رہی ہے۔ حضرت علی بچی کی طرف لپکے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر گود میں لے لیا۔ پھر اپنی بیوی کو سونپتے ہوئے کہا کہ یہ لو تمھارے چچا کی بیٹی ہے۔ وہیں قریب میں بچی کے خالو حضرت جعفر طیار ؓ بھی ہیں، وہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ یہ بچی مجھے ملنی چاہیے، کیوں کہ اس کی خالہ میرے گھر میں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت زید ؓ خود کو روک نہیں پاتے ہیں اور وہ بھی بچی کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ یہ بچی مجھے ملنی چاہیے، کیوں کہ حضرت حمزہ میرے مذہبی بھائی تھے۔ حضرت علی ؓ بچی سے محرومی کا احساس کرتیہوئے گویا ہوتے ہیں کہ یا رسول اللہ اس بچی پر صرف میرا حق ہے، کیوں کہ وہ سب سے پہلے میری گود میں آئی ہے۔ سرور کائنات ﷺ یہ خوش کن منظر دیکھ کر مسکراتے ہیں اور پھر سب کے دعوے میں یکسانیت دیکھ کر امامہ کو اس کی خالہ کی گود میں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”خالہ ماں کے برابر ہوتی ہے“۔ 
اپنی تو دور؛ دوسروں کی بچیوں کی پرورش و پرداخت کا یہ جذبہ اور دل کش منظر ایک ایسے سماج کا ہے، جہاں لوگ لڑکیوں کو بلا اور مصیبت سمجھ کر زندہ گاڑ دیا کرتے تھے۔ لیکن نبوی تعلیم و تربیت نے ایسا انقلاب برپا کیا کہ اس وجود بلا و مصیبت کو عین وجود رحمت اور جنت میں جانے کا ذریعہ بنا دیا۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، ان کے لیے دکھ تکلیف پرصبر کیا اور انھیں اپنے مال میں سے کپڑے پہنائے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی۔
آپ نے درج بالا سطور میں اسلامی تربیت یافتہ سماج کا ایک خوش نما منظر دیکھا۔ آئیے آپ کو تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھاتا چلوں جو اسی سماج کے لوگ تھے؛ لیکن وہ اسلام کے دامن رحمت سے محرومی کے دور میں زندگی گذار رہے تھے۔ 
اسلام سے پہلے عورت کا مقام
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام سے پہلے عورت کے وجود ہی کو شرم و عار سمجھا جاتا ہے۔ کلام پاک گواہی دے رہا ہے کہ 
وَإِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْأُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ ٭ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ایُمْسِکُہُ عَلٰی ہُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہُ فِیْ التُّرَابِ اَلاَ سَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ النحل: 58،59 
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے، جو بری خبر اسے دی گئی ہے اس کی وجہ سے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت ورسوائی کے باوجود اپنے پاس رکھے، یا اسے زندہ در گورکردے، آہ! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں۔
امام بغویؒ فرماتے ہیں کہ عرب میں یہ رواج عام تھا کہ جب کسی کے گھر میں بیٹی پیدا ہوتی اور وہ اسے زندہ باقی رکھنا چاہتا تو اسے اونی جبہ پہنا کر اونٹوں اور بکریوں کو چرانے کے لیے دور دراز بھیج دیتا۔اور اگر اسے مارنا چاہتا تو وہ جب 6 سال کی ہو جاتی تو کسی جنگل میں ایک گڑھا کھودتا، پھر گھر آ کر اپنی بیوی سے کہتا کہ اسے خوب اچھا لباس پہنا دو تاکہ وہ اسے اس کے ننھیال (یا اس کے دادا دادی) سے ملا لائے۔ پھر جب اس گڑھے تک پہنچتا تو اسے کہتا: اس گڑھے کے اندر دیکھو، چنانچہ وہ اسے دیکھنے کے لیے جھکتی تو یہ اسے پیچھے سے دھکا دے دیتا وہ اس میں گر جاتی اور یہ اس کے اوپر مٹی ڈال دیتا۔(معالم التنزیل: ج 5 ص 25)
ایک شخص کاشانہ نبوی پر حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ! ﷺ ہم لوگ جاہلیت والے تھے۔ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور اولاد کو مارڈالتے تھے۔ میری ایک لڑکی تھی۔ وہ کچھ بڑی ہوئی، تو جب میں آواز دیتا تھا، تو وہ میری بات سن کر دوڑی چلی آتی تھی۔ میرے ساتھ ہنستی کھیلتی تھی۔ وہ بچی مجھ سے بہت زیادہ مانوس ہوگئی تھی اور مجھے بھی اس سے کچھ محبت ہوگئی تھی۔ لیکن جاہلی عقیدے کی بنیاد پر میں اسے باعث عار سمجھنے لگا۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں نے اسے بلایا وہ میری آواز پر خوشی خوشی دوڑی چلی آئی۔ میں آگے بڑھا، وہ میرے پیچھے پیچھے آنے لگی۔ میرے گھر کے قریب ایک کنواں تھا، میں وہاں پہنچا، میری بچی بھی میرے پیچھے پیچھے وہاں پہنچی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اٹھا کر کنویں میں پھینک دیا۔ وہ چیختی رہی، چلاتی رہی، مجھے ابو ابو کہہ کر پکارتی رہی اور یہی اس کی زندگی کی آخری آواز تھی، لیکن میں نے ایک بھی نہ سنی اور اسے چیختے چلاتے ڈوب کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور بالآخر تھوڑی دیر کے بعد یہ ننھی سے معصوم آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔
رحمت کونین اس پر درد افسانہ کو سن کر آنسو ضبط نہ کرسکیاور روتے روتے یہ حالت ہوگئی کہ ریش مبارک آنسووں سے تر ہوگئی۔ اس کے باوجود نبی اکرم ﷺ نے ان سے دوبارہ کہا کہ میاں! اپنا قصہ پھر سے سناؤ۔سرور کائنات بار بار اس قصے کو سنتے رہے اور روتے رہے۔ (سنن دارمی، المقدمہ، باب ماکان علیہ الناس قبل مبعث النبی ﷺ من الجھل والضلالۃ۔)
قبیلہ بنو تمیم کا سردار حضرت قیس بن عاصم التیمی رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ ﷺ!میں نے زمانہ جاہلیت میں آٹھ لڑکیاں زندہ دفن کی ہیں۔ 
اسلا م سے پہلے، دوسرے تمام مذاہب و سماج میں والدین کو اپنی اولاد پر لا محدود اختیارات و حقوق حاصل تھے، لیکن اولاد کا والدین پر کوئی حق نہیں تھا، کیوں کہ یہ باپ کی عظمت کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ عرب کے سفاکانہ مراسم میں بے رحمی سے بچیوں کو زندہ دفن کردینے کے پیچھے جہاں یہ عقیدہ تھا، وہیں درج ذیل وجوہات بھی تھیں: 
(۱) اپنی دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے بچوں کی قربانی دے دیا کرتے تھے۔ (موطا امام مالک، کتاب النذور،باب مالایجوز من النذور فی معصیۃ اللہ،)یہ رسم اہل عرب کے علاوہ رومۃ الکبریٰ کے متمدن قوموں اور ہندستان میں راجبوپتوں میں بکثرت پایا جاتا تھا۔ جو شادی وغیرہ کی عار کی وجہ سے عام حالات میں، بیوہ ہونے کی صورت میں ستی کی شکل میں اور جنگ وغیرہ کے حالات میں جوہر کی صورت میں لڑکیوں کو مار ڈالتے تھے۔ 
(۲) فقرو فاقہ کا ڈر۔ وہ سمجھتے تھے کہ اولاد ہوگی، تو اس کے کھانے پینے کا خرچ اٹھانا پڑے گا، اس لیے ان کے خون سے اپنا ہاتھ رنگ کر اس سے چھٹکارا پا لیتے تھے۔ 
(۳) لڑکیوں کو زندہ دفن کردینا۔ اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ لڑکیاں شرم و عار کی باعث ہیں، اس لیے جب لڑکی پیدا ہوتی تھی، تو باپ کو سخت رنج ہوتا تھا اور لوگ لڑکیوں کے وجود کو بلا اور مصیبت سمجھتے تھے،لیکن اسلام نے ان تمام نظریات کے خلاف اولاد کے بھی حقوق متعین کیے اور دنیائے انسانیت کو تعلیم دیتے ہوئے بتایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس کو اس بچے کی زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، تو اس کے نقش زندگی کو مٹانے کی کوشش کرنا جرم عظیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں عزل اور اسقاط حمل کو حرام قرار دیا گیا ہے اور لڑکی کے وجود کو مصیبت و عار کے بجائے رحمت ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ جو کوئی ان لڑکیوں میں سے کسی لڑکی کی مصیبت میں مبتلا ہواور پھر اس کے ساتھ مہرو محبت کا معاملہ کرے، تو وہ لڑکی اسے دوزخ کے عذاب سے بچا لے گی۔ اور وہ اس کے اور دوزخ کے درمیان پردہ بن جائے گی۔ (بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الولد)
اور یہ کس قدر حیرت انگیز تھا کہ عورتیں خود اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے کے لیے خوشی خوشی مردوں کے حوالے کردیا کرتی تھیں، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے صلح حدیبیہ، فتح مکہ، عید کے اجتماع میں اور انفرادی ملاقاتوں کی جب بھی عورتوں سے بیعت لیا کہ تو ان سے اقرار کرایا کہ وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔ 
”ان تمام تدبیروں کے علاوہ قرآن پاک کی ایک مختصر سی آیت نے عرب کی ان تمام قساوتوں، ان تمام سنگ دلیوں اور ان تمام سفاکیوں کو مٹانے میں وہ کام کیا، جو دنیا کی بڑی بڑی تصنیفات نہیں کرسکتی تھیں۔ قیامت کی عدالت گاہ قائم ہے، مجرم اپنی اپنی جگہ کھڑے ہیں، غضب الٰہی کا آفتاب اپنی پوری تمازت پر ہے، دانائے غیب قاضی اپنی معدلت کی کرسی پر ہے، اعمال نامے شہادت میں پیش ہیں کہ ایک طرف سے ننھی ننھی معصوم بے زبان ہستیاں خون سے رنگین کپڑوں میں آکر کھڑی ہوجاتی ہیں، شہنشاہ قہار کی طرف سے سوال ہوتا ہے، ائے ننھی معصوم جانو! تم کس جرم میں ماری گئیں؟
وَاِذَا الْمَوْؤُودَۃُ سُءِلَتْ۔ بِاَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ۔(سورۃ، آیات 8، 9)
”یاد کرو جب (قیامت میں) زندہ دفن ہونے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تم کس جرم میں ماری گئی۔“(سیرۃ النبی جلد ۶، ۴۵۳)
آج اپنے سماج کے رویے پر غور کیجیے، تو آپ بے ساختہ یہی کہیں گے کہ ہمارا معاشرہ پھر دور جاہلیت کے نقش قدم کا اسیر ہوچکا ہے۔ بیٹیوں کے بارے میں جہالت و جاہلیت کے عقیدے دوبارہ جاگ اٹھے ہیں، نئے نئے طریقوں سے لڑکیوں کو زندگی سے محروم کیا جارہا ہے۔ پہلے صرف والدین ہی اپنی بچیوں کو مارتے تھے، آج والدین کے ساتھ ساتھ پورا معاشرہ لڑکیوں کے وجود کا متنفر ہوچکا ہے۔ایک طرف جہاں والدین نقش زندگی ہی مٹادینے کے درپے ہیں، تو وہیں دوسری طرف سماج، جہیز اور دوسری کمر توڑ رسم و رواج کے ذریعہ انھیں یہ احساس کرایا جارہا ہے کہ تمھارا وجود ایک بوجھ ہے، تم ایک بزنس پوائنٹ ہواور بنام محبت تجارت کا سب سے خوب صورت ذریعہ ہو۔ سماج کی ایسی ذہنیت کو دیکھ کر لڑکیاں بھی احساس مظلومیت کی شکار ہوچکی ہیں، وہ خود کو والدین کے لیے مصیبت اور بوجھ سمجھ کر زندہ لاش بنتی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ خود کو تجارت کا مرکز بناکر اپنی چادر نسوانیت کو تار تار کرنے پر مجبور ہورہی ہیں۔ یہاں پر سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ان سب کا ذمہ دار کون ہے۔۔۔ لڑکی ہونا۔۔۔۔ معاشرہ کا جاہلانہ و انسانیت سوز طرز عمل، یا پھر دین فطرت سے بغاوت۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وجود رحمت کی قدر و پرورش کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔