20 Sept 2019

عملی اسلام کہاں ہے……؟

 عملی اسلام کہاں ہے……؟
محمد یاسین جہازی، خادم جمعیت علمائے ہند
اسلام میں جہاں  نظریات کی بنیادی اہمیت ہے، وہیں عملیات بھی اس سے کم اہمیت نہیں رکھتے؛ البتہ یہ تفریق ضرور ہے کہ حقوق اللہ میں نظریات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ حقوق العباد میں عمل کی اہمیت زیادہ ہے۔ آئیے ان دونوں پہلووں پر ایک زمینی تجزیہ کرتے ہیں کہ دونوں حقوق میں دونوں پہلوں پر کھرے اترنے والے مسلمانکتنے  ہیں۔
نظریاتی مسلمان
اعتقادو نظریات کے اعتبار سے تجزیہ کیا جائے تو اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ 
(۱) مدارس کے تعلیم یافتہ افراد: بنیادی اعتقاد کے بالکل پختہ ہوتے ہیں۔ 
(۲) عصری تعلیم یافتہ طبقہ: اس کی دو کٹیگری ہیں: 
(الف) جن کو گھریلو ماحول میں اسلامی نظریات کی تربیت ملی ہے۔ 
(ب) جن کا گھریلو ماحول اسلامیات سے ناآشنا ہے۔
اول الذکر افراد نظریاتی اعتبار سے بسا غنیمت ہیں، جب کہ آخر الذکر افراد محض نام کے مسلمان ہوتے ہیں، تاہم یہ نام بھی ان کی دائمی بخشش کے لیے سہارا بن سکتا ہے۔ 
ایک دوسری حیثیت سے غور کیا جائے تو یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ جو عصری تعلیم یافتہ  حضرات علما کی رہنمائی و استفسار کے بغیر صرف اپنے مطالعہ سے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو چوں کہ ان کی زبان بالعموم انگریزی ہوتی ہے، عربی یا اردو نہیں ہوتی۔ اور انگریزی زبان میں اسلامیات یا تو ندارد ہیں۔ اور اگر کچھ ہیں بھی، تو بالعموم راہ حق و اعتدال سے بھٹکے ہوئے قلم کاروں کی کاوش ہے، جنھوں نے اسلام علما سے نہیں؛ بلکہ انھوں نے بھی محض اپنے انگریزی مطالعہ سے سیکھا ہوا ہوتا ہے، جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ ایسی تحریروں میں اسلامیات کم اور گمراہیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ جب گمراہی سے لت پت لٹریچر پڑھ کر نئی نسل اسلام کو سمجھنا چاہتی ہے، تو اس کا ریزلٹ یہ سامنے آرہا ہے کہ ایسا طبقہ از خود گمراہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ 
(۲) ناخواندہ افراد: ان کی دو قسمیں ہیں: 
(الف) مسلمانوں کے محلہ و معاشرے میں رہتے ہیں، جس کی وجہ سے مسجد کی اذان سنتے ہیں، جلسے جلوس میں شرکت کا موقع مل جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں کسی نہ کسی حد تک اسلامی ماحول مل جاتا ہے۔ ایسے افراد تفصیلی عقائد سے تو انجان ہوتے ہیں؛ البتہ یہ ضرور مانتے ہیں کہ خدا  ایک ہے۔ آخری نبی محمد ﷺ ہیں۔ اس قسم کے جو ضروری عقائد ہیں، انھیں نہ جاننے کے باوجودانھیں تسلیم کرتے ہیں۔ 
(ب) جو غیر مسلم آبادیوں میں رہتے ہیں، جہاں نہ مسجد ہے اور نہ ہی کوئی دوسرے اسلامی ادارے۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ ہمارا نام مسلمان ہے؛ لیکن اسلام کیا ہے؟ اسے نہ تو جانتے ہیں اور نہ جاننے سے کوئی سروکار رکھتے ہیں۔ ایسے افراد کے پاس جس مذہب کا بھی رہنما پہنچ جاتا ہے، وہ اس کے پیغام کو قبول کرلیتے ہیں۔اب ان کی قسمت کی بات ہوتی ہے پیغامبر حق و صداقت پہنچ گیا، تو اپنا ایمان بچانے میں کامیاب رہتے ہیں، بصورت دیگر ارتداد ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ 
 عملیاتی مسلمان
عملیات کے دو میدان ہیں: حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ 
نماز، روزہ، حج اور زکوۃ؛ یہ اہم حقوق اللہ ہیں۔ ان کے زمینی عملیات کی رپورٹ کچھ اس طرح ہے: 
(۱) علما و تبلیغی طبقہ: بالعموم حقوق اللہ ادا کرتے ہیں۔لیکن معاشرے میں ان کی تعداد دو سے چار پرسینٹ ہے۔ 
(۲) عصری تعلیم یافتہ طبقہ: بالعموم حقوق اللہ ادا نہیں کرتے؛ البتہ کچھ حضرات جنھیں گھریلو دینی ماحول مل جاتا ہے، یا پھر علما کی صحبت میسر آجاتی ہے، تو پھر یہ بھی حقوق اللہ کی ادائیگی پر مکمل توجہ دیتے ہیں، لیکن ان کی تعداد ایک پرسینٹ ہے
 (۳) ناخواندہ طبقہ: یہ طبقہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں بالکل صفر ہے۔ ہزاروں میں  کچھ افراد اگر نماز روزہ کرلیتے ہوں، تو کرلیتے ہوں گے، بالعموم انھیں حقوق اللہ اور شعائر اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ یہ طبقہ صرف اپنے اسلامی نام ہی مسلمان ہونے کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ایک ایسی مسلم بستی آبادی میں چلے جائیے، جہاں ایک ہزار کی آبادی ہے، تو اس میں سے بمشکل تمام دس سے بیس افراد ہی نمازی ملیں گے۔ 
اب ائیے ایک نظر حقوق العباد پر ڈالتے ہیں: 
جتنے بھی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی معاملات ہیں، ان سب کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ جیسے شادی بیاہ، سماجی مسئلہ ہے، تجارت اور نوکری اقتصادی پہلو ہے۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور حسن کلام کے ساتھ معاملہ کرنا اخلاقیات سے تعلق رکھتا ہے۔حقوق اللہ کے ان سارے پہلووں پر عمل کے اعتبار سے زمینی رپورٹ اسی نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ یہاں مسلمان مکمل طور پر بے عملی؛ بلکہ بد عملی کے شکار ہیں۔ چنانچہ غیر مسلم سماج اور مسلم سماج کا تجزیہ کرلیجیے،تو مسلمانوں کا سماج ہر اعتبار سے غیر مسلم سماج سے کم تر نظر آئے گا۔اور اس حوالے سے کیا علما اور کیا خواص؛ سب ایک ہی رنگ میں نظر آتے ہیں۔ طوالت سے بچنے کے لیے صرف ایک ہی مثال لے لیجیے کہ مسلم شادی اور غیر مسلم شادی کی رسوم و رواج، محفل نکاح کے علاوہ کوئی اور فرق نظر نہیں آئے گا۔ بھارت میں مسلمانوں کی سیاسی حصہ داری کیا ہے اور جو لوگ سیاست میں براہ راست شریک ہیں، ان کا مسلمانوں کے تعلق سے کیا کارنامے ہیں، سب جگ ظاہر ہے۔ اسی طرح اخلاقی اعتبار سے جج کرلیجیے،تو معلم اخلاق کی امت ہونے کے باوجود بد اخلاقی میں مسلمان اول نمبر پر ہیں۔قصہ مختصر یہ ہے کہ حقوق العباد میں مسلمان عملی اعتبار سے بالکل صفر ہیں؛ زیادہ سے زیادہ مبالغے کے ساتھ ایک فی صد کو مستثنیٰ کیا جاسکتا ہے۔
اس رپورٹ کے تناظر میں فطری طور پر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ہر طقبے اور نظریاتی و عملی اعتبار سے حقو ق اللہ اور حقو ق العباد میں بھی اس درجہ بے عملی اور بد عملی کے شکار ہوچکے ہیں، تو آخر عملی اسلام ہے کہاں ……؟ 
یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب ملت مسلمہ کے ہر مبلغ اور دین اسلام کے ہر داعی کو ڈھونڈھنا ضروری ہے؛ خواہ وہ تبلیغی سلسلے سے وابستہ ہوں، یا مدارس و مکاتب کے ذمہ دار ہوں، یا پھر کسی اور ذرائع سے دعوت اسلام کے فرائض انجام دے رہے ہوں؛ اس کے بغیر یہ پیش قیاسی شاید خلاف واقعہ نہ ہو کہ وہ دن زیادہ دور نہیں رہے گا، جب بھارت بھی مسلمانوں کے لیے اسپین بن جائے گا۔