19 Jul 2019

وعدے تو وفا کرنے کے لیے ہی ہوتے ہیں محترم




محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

عبداﷲ بن ابی الحمساء ؓنے بعثت سے پہلے سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم سے خریدوفروخت کا کوئی معاملہ کیا ،جس میں کچھ ادائیگی باقی رہ گئی تو انھوں نے کہ آپ یہیں رہیں، میں لے کر آتا ہوں۔ لیکن جب یہ گھر گئے تو تین دن کے بعد یاد آیا ۔ چنانچہ یہ مقام عہد پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم اسی جگہ ابھی  تک محو انتظار ہیں۔ اتنی بڑی وعدہ خلافی پر آپ ﷺ نے صرف اتنا فرمایا کہ تم نے مجھے مشکل میں ڈالا اور زحمت دی ، تین دن سے میں اسی مقام پر موجود ہوں‘‘۔(ابوداؤد)
یہ  توعہد مجسم فخر دو عالم ﷺ کا ذاتی معاملہ تھا ، یہاں تو بے وفائی کا شائبہ تک نہیں گذر سکتا۔ کمال تو یہ ہے کہ ایک طرف موت ہو اور دوسری طرف زندگی کا سنہرا دور۔ اورپھر صرف وعدہ وفا کی خاطر موت کی طرف قدم بڑھانا پڑے تو تصور کیجیے کہ یہ کتنا دشوار گذار لمحہ ہوگا، لیکن قربان جائیے سرور کائنات ﷺ کے اس جذبہ پر  کہ آپ نے وعدے کی تکمیل میں اپنے جاں نثار کو موت کی طرف بڑھنے سے نہیں روکا ۔ شاید آپ اشارہ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم عہد حدیبیہ کی بات کر رہے ہیں ۔ واقعہ یہ ہوا کہ سرور کائنات ﷺصلح حدیبیہ کی شرائط و ضوابط تقریبا مکمل فرما چکے تھے؛ لیکن  نافذ العمل ہونے کے لیے فریقین کے دسخط ضروری ہیں ، جو ابھی باقی تھے کہ عین اسی وقت  حضرت ابوجندلؓ خون میں غلطاں و پیچاں  اور پاؤں میں بیڑیاں لگی ہوئی بھاگتے ہوئے  آکر مسلمانوں سے عرض  کرتے ہیں  کہ مجھے ان کافروں سے بچالو، مجھے مدینہ لے چلو ۔ حضرت موصوف کی حالت زار کو دیکھ کر  آپﷺنے اہل مکہ سے بات کی اور کہا کہ ابھی تو دستخط نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن کافر نہ  مانے ، تو آپ ﷺ نے  عہد  کی پابندی کرتے ہوئے حضرت ابوجندلؓ کو واپس بھیج دیا ۔
وعدے کی تکمیل کے سرفروشانہ جذبہ کی یہ مثال ایفائے عہد کی سرشت والے افراد کے لیے شاید کچھ کمتر ہو؛ لیکن گھبرائیے نہیں، سرور کائنات ﷺ کی سیرت طیبہ و طاہرہ میں وعدہ وفا کرنے کی ایسی بھی مثال موجود ہے، جس سے اعلیٰ و ارفع کردار نہ تو آج تک کسی نے پیش کیا ہے اور نہ شاید یہ ممکن ہے۔
آپ تاریخ سے واقف ہیں کہ  تیرو تفنگ اور شمشیرو سنان سے لیس کفار کے ایک ہزار لشکر جرار کے بالمقابل  ہتھیارو تلوار سے محروم بے خانما نو مسلموں  کے تین سو تیرہ افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا قافلہ میدان کارزار میں خیمہ زن ہے۔ یہ ایسا وقت ہے جہاں ایک آدمی کی معیت بھی ڈوبتے کو تنکے کے سہارے سے کم نہیں ۔ حق وباطل کے فیصلہ کن اس معرکے میں ایک ایک شخص کی شدید ضرورت ہے۔ ایسے میں حضرت حذیفہ اور ان کے والد محترم حضرت یمان رضی اللہ عنہما میدان بدر میں آتے ہیں ، مسلمانوں کے حوصلوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ ہوئے واقعہ کو بیان کرتے ہیں کہ   یا رسول اللہ ﷺ ! راستے میں ہمیں ابو جہل کے لشکر نے گرفتار کرلیا تھا اور اسی شرط پر رہا کیا ہے کہ ہم کافروں کے اس لڑائی میں آپ کا ساتھ نہ دیں۔  اتنے سنگین حالات کے باوجود سرور کائنات  صلی اﷲ علیہ وسلم نے معاہدے کی خلاف ورزی کو برداشت نہ کیا اور ارشاد فرمایاکہ ’’ہم اُ ن کے عہد کو پورا کریں گے اور کفار کے خلاف اﷲ عزوجل سے مد د مانگیں گے ‘‘(صحیح مسلم )
آپ تصور کیجیے کہ جنگ بدر کوئی معمولی لڑائی نہیں ہے، یہ ایسی لڑائی ہے کہ خود زبان رسالت مآب ﷺ کے الفاظ میں ، اس میں شکست تاقیامت اسلام کی شکست کا عندیہ ہے، اور ہمیشہ ہمیش کے لیے اسلام کے دفن ہوجانے کا معرکہ ہے۔ اتنے سخت جان دشوار ترین حالات کے باوجود سرور کائنات ﷺ نے ایفائے عہد کو مقدم رکھا۔ آخر کیوں--- کیوں کہ اسلام کے حقیقت پسندانہ کردار اور منافقت کے ڈرامائی  روپ میں یہی فرق ہے۔ اسلام میں ریا اور ڈرامے کی کوئی گنجائش نہیں ، جب کہ دوسرے مذاہب میں بھگوان بھی روپ بدل کر مختلف لیلا کرتے نظر آتے ہیں۔ ---- یہاں پر ذرا رکیے اور خود کا جائزہ لیجیے کہ کیا واقعی ہمارے اندر سچے اسلام کا خون گردش کر رہا ہے، یا پھر بھگوان جیسا ڈراما کے ہیرو بن گئے ہیں ۔ --- ہمارا کردار تو آخر الذکر پہلو کا مجسمہ  بن چکا ہے--- کیوں کہ
ہم نے وحدانیت کو ماننے کا عہد لیا، تو کیا ہمارے عقیدے شرک کی آلائش سے پاک ہیں۔۔۔؟
ہم نے فرمان رسول ﷺ پر دل و جان سے عمل کرنے کا عندیہ دیا، لیکن ہم نے ایسا کیا۔۔؟
ہم نے اسلامی معاملات کے تمام ابواب ازبر کرلیے، لیکن کبھی ایک  بھی معاشرتی معاملہ کو سنت کے مطابق کرنے کرانے کا عملی منظر پیش کیا۔
ہم نے عہد لیا کہ گفتگو، معاشرت، لین دین اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے، لیکن کیا ہم نے مکمل طور پر ایسا کیا، جھوٹ ہم بولتے ہیں، معاشرہ میں ہمارا غلط کردار ضرب المثل ( مثلا مولوی جو کہے وہ کرو، جو وہ کرے وہ نہ کرو)بن گیا ہے ۔ ہر شعبہ ہائے حیات میں ہمارے  رویے کو پس خوردگی سے تعبیر کی جارہی ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہوا۔۔۔ کیوں کہ ہم نے جن تعلیمات پر چلنے کا زمانہ الست میں وعدہ دیا  تھا اور پھر اس زندگی میں اس وعدے کے پابند ہونے کا اعلان کیا تھا اس وعدے کو ہم پورا نہیں کر رہے ہیں ، جب کہ وعدہ وفا کرنے کے لیے ہی کیا جاتا ہے!۔