2 Apr 2018

مکالمہ نگاری اصول و امثال


مکالمے کی تعریف وتشریح 
یہ لفظ عربی کے بابِ مفاعلت کا مصدر ہے ، اس کے لغو ی معنی ہیں :با ہم دیگر گفتگو کر نا ، آپس میں با ت چیت کر نا ،ایک شخص کا دو سرے شخص کے سا تھ ہم کلا م ہو نا ۔ اردو اد ب کی اصطلا ح میں مکا لمہ ایک ایسی مخصو ص نثر ی صنفِ سخن کو کہا جا تا ہے جس میں چند افر اد و اشخا ص کا تصو ر کر کے ،ان کے اوصاف و احو ال کے منا سب کر دا ر اور اقو ال ان کی زبا ن سے ادا کر ائے جا تے ہیں ۔ ہر مکا لمہ تین اہم عنا صرِ تر کیبی پر مشتمل ہو تا ہے :(۱)مو ضو ع (۲)پلا ٹ (۳)کر دا ر ۔
موضوع
یہ مکالمہ نگا ری کا سب سے پہلا مر حلہ ہو تا ہے ، جب تک کو ئی مو ضو ع پیشِ نظر نہیں ہو گا ، اس وقت تک آگے کی منزل کی طر ف قد م بڑھا نا نا ممکن ہے ،اس لیے مکا لمہ نگا ری شرو ع کر نے سے پہلے ضروری ہے کہ کو ئی مو ضو ع متعین کر لیا جا ئے ،بعد ازاں اسے واقعا تی اور مکا لما تی ر وپ دیا جا ئے ۔
مکا لمے کے لیے کسی مو ضو ع کی قید نہیں ہو تی ، کا ئنا ت کی چھو ٹی سے چھو ٹی اور بڑی سے بڑی چیز پر مکالمہ لکھا جاسکتا ہے بشر طیکہ مکالمہ نگار اسے مکالمے کے رنگ میں رنگنے کی صلاحیت رکھتا ہو ، اس کے لیے یہ بھی کوئی ضروری نہیں ہے کہ اس کا کوئی پسِ منظر پہلے سے موجود ہو تبھی مکالماتی قالب میں ڈھا لا جاسکتا ہے ، بلکہ مکالمہ نگار کے زورِ قلم سے فر ضی خیا لات اور اختراعی افکار بھی مکالمے کا پیکر اختیار کر سکتے ہیں،المختصر مو ضوع کے حوالے سے سب کچھ مکالمہ نگار کی قوتِ نگارش پر منحصرہے ، البتہ حقیقی زندگی سے اٹیچ احوال و واقعات اور انسانی مسائل کو موضوع بنا نے سے اس کی اثرانگیزی میں چار چاند لگ جاتا ہے ، قلم کاغذ ہاتھ میں لینے سے پہلے مو ضوع کے ہر پہلو پر غور و فکر کر نے کے بعد ایک ذہنی خاکہ بنا لینا چاہیے ، بعد از اں اسے کاغذ پر منتقل کر نا چاہیے۔
پلاٹ
مو ضوع کے حوالے سے مکالماتی روپ دیے ہو ئے جملوں اور گفتگو وں کو افرادو اشخاص کے طریقِ اظہار کے ساتھ مخصوص انداز میں تر تیب دینے کا نام ’’پلاٹ ‘‘ہے ۔پلاٹ مکالمہ کا ایسا مر حلہ ہے جہا ں مکالمہ نگار کو لکھتے وقت بہت ساری چیزوں کاخیال رکھنا پڑتاہے ، مثلاًیہ کہ ادیبا نہ اسلوب زیادہ بہتر ہو گا یا عوامی بول چال کی زبا ن ؟ کن اشخاص کے لیے کون سی زبان زیادہ مو زوں ہو گی ؟ کس مقام پر مختصر کلام کیا جائے گا اور کس جگہ تفصیلی کلام مناسب ہوگا ؟ متصور اشخاص کی نفسیات کہاں پر کیسا انداز اور کس اسٹائل کا تقاضا کر تی ہیں ؟ کہا ں پر نر می اور ملا ئمت کااظہار ہو گا اور کہا ں پر غصیلہ لہجہ راس آئے گا ؟ کس جملے کے ساتھ حر کات و اشارات لابدی ہو ں گے اور کن الفاظ پر مہر سکوت و مجسمۂ جمود بننا پڑے گا ؟ کس کردار کے ساتھ رنگ روپ اختیار کر نا زیب دے گا اور کس کے ساتھ زیب نہیں دے گا ؟ پلاٹ کی تر تیب کیسی ہو نی چاہیے کہ کہیں سے بے ربطی نہ جھلکے اور سامعین و ناظر ین کو بے لطفی کا احساس نہ ہونے پائے ؟ وغیر ہ وغیر ہ۔
مکالمے کے حسن وقبح ، پسندیدگی و نا پسندیدگی اور معیار ی و غیر معیار ی کا دار و مدار اسی پلاٹ کی تر تیب پر ہے ، گویا’’پلاٹ ‘‘مکالمے کے لیے ایک آزمائش کن خار دار وادی ہے ، اگروہ اس وادی پرخار سے صحیح وسالم گذر جاتا ہے ، تو گویا وہ اپنے مقصد میں ننا نوے فیصد کا میا ب ہے، اور اگر وہ اس مقام پر لغزش کھا جاتا ہے ، تو وہ تقر یباً نا کام ہے ، اس لیے اس وادی سے صحیح سا لم گذر جانے کے لیے پلاٹ کے ان تمام تقاضوں سے واقف ہو نا ضروری ہے جو اس میں در کار ہو تے ہیں ، جن میں سے ادبی لیا قت اور سائیکالو جی پر اتنی معلومات رکھنا ۔جن سے کر دا ر کا روں کی نفسیا ت پر کھنے کی صلا حیت پید ا ہو جا ئے اور ان کے مطا بق مکا لما تی جملے فٹ کر سکیں ۔سر فہر ست ہیں، علا وہ ازیں بار بار مکا لمو ں کا مشاہدہ و مطا لعہ ، متصو ر اشخا ص سے تبا دلۂ خیا لا ت اور جنر ل مطا لعہ با لخصو ص تا ریخ اور جغرا فیہ کا مطا لعہ نہایت ضروری ہے ۔
کر دا ر 
کر دا ر سے مر اد متصو ر اشخا ص وافر اد کا وہ عمل اور رول ہے ، جس کے لیے انھیں متصو ر کیا گیا ہے ۔یہ کر دا ر ڈرا مے میں بھی ہو تا ہے ۔ ڈر ا مے کا کارندہ اور رو لر کلا می تأ ثر اور صد ا کا ری کے سا تھ ساتھ جسما نی ایکٹنگ بھی کر تا ہے اور کر دا ر کے منا سب رو پ بھی دھا ر تا ہے ، لیکن مکا لمے کا کا ر ند ہ کسی حد تک صد ا کا ری تو کر تا ہے ، لیکن جسما نی ایکٹنگ با لکل نہیں کر تا ، کیو ں کہ یہ جس طر ح ڈرا مے کے لیے ایک کما ل اور فنی مہا رت تصو ر کیا جا تا ہے ،اسی طر ح یہ مکا لمے کی رو ح کے منا فی اور معیو ب سمجھا جاتا ہے ، اس لیے کہ ڈرا مے کا بنیا دی مقصد تفر یحِ طبع ہو تا ہے اور اس کا سا را دا رو مدا ر ایکٹنگ او ر مضحکہ خیز رو پ اختیار کر نے پر ہے ، جب کہ مکا لمے کا اصل مقصد اصلا ح ہو تا ہے ۔ اصلاح انسان کا فر ض ہے اور فر ض کسی تصنع سے ادا نہیں ہو تا، اوریہی چیز ایک مکا لمے کو ڈرا مے سے ممتا ز کر تی ہے ۔ لہذا مکالمے کے کر دا ر کا رو ں او ر کا ر ند و ں کے لیے ضرو ری ہے کہ وہ کو ئی رو پ دھا ر نے یا کسی طر ح کی ایکٹنگ کر نے سے بالکلیہ اجتنا ب کر یں ۔ ورنہ مکا لمہ اپنے بنیا دی مقصد کی اثر انگیزی سے عا ری ہو جائے گا اور وہ ایک تھیڑ بن جائے گا ۔
کو ئی روپ دھارنے اور کسی طرح کی ایکٹنگ سے با لکلیہ اجتناب کر نے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ با لکل ا س کی ضد کی شکل اختیار کر لے یا ایک بے جان لاش بن جائے ، بلکہ اس سے مر اد یہ ہے کہ نہ تو اس میں اِ فراط سے کام لیا جائے اور نہ تفریط سے ، بلکہ معتدل اور میانہ رو ی اختیار کیا جائے ۔ جہاں تک سادگی کے ساتھ نقل ممکن ہو ، وہیں تک نقالی کی جائے ۔ اس حد سے تجاوز کر کے بالکلیہ اصلی روپ میں متمثل ہو نے کے لیے بے جا تکلفات کرنا اور سنجیدگی اور وقار کے دائر ے سے نکل کر سراپا ایکٹربن جانا انتہائی نا زیبا اور نا مناسب ہے ۔
تسلسل
مکالمے میں واقعاتی اور مکالما تی تسلسل کا پایا جانا ضروری ہے ، اس کے بغیر مکالمہ کرکرا ، بے لطف اور بد وضع ہو جاتا ہے ، اگر مکالمہ نگار اپنے خیالات کو درجِ ذیل خانوں میں تقسیم کر کے مکالمہ نگاری کرے ،تو بہ آسانی تسلسل قائم کیا جاسکتاہے:
(۱)ابتدا:اس حصے میں وہ چیز یں بیان کی جاتی ہیں جو یا تو آگے کی کہانی سمجھانے کے لیے ضروری تمہید ہو تی ہیں یا پھر مکالمے کے اصل واقعے کا آغاز ہوتی ہیں۔
(۲)ارتقا: اس مر حلے میں وہ باتیں درج کی جاتی ہیں، جو مکالمے کو آگے بڑ ھاتی ہیں اور موضوع کا اصل مدعا ہوتی ہیں۔
(۳)انتہا: ا س خانے میں مذکورہ با لا دونوں حصوں کی روشنی میں کہانی اپنے انجام تک پہنچ جاتی ہے اور اسی پر مکالمہ مکمل ہوجاتاہے ۔
مکالمہ اور اسٹیج
چوں کہ مکالمہ تماشائیوں کے سامنے اسٹیج کی جانے والی صنف ادب ہے، اس لیے مکالمے کے لیے اسٹیج کا تصور جز وِ لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے ، لہذامکالمہ نگار کے لیے مکالمے پیش کیے جانے والے اسٹیج کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے ، مثلاً مکالمہ ریڈیو کے اسٹیج سے پیش کیا جائے ، تو چو ں کہ اس میں مشاہد ہ نہیں ہو تا ،اس لیے اس اسٹیج کے تقاضے کے پیشِ نظر ہر کردارکی ادائیگی کے لیے صوتی تأ ثر اور صداکاری کا سہارا لیا جائے ، یا مثلاً مکالمہ بہ راہِ راست سامعین و ناظرین کے رو بر و کسی اسٹیج سے پیش کیا جائے، تو وہا ں صدا کاری کے ساتھ ساتھ کچھ تھوڑا بہت عملی کر دار بھی پیش کیا جائے ۔
اب ڈرامے کی طرح مکالمے کے تماشائی بھی سننے اور اصلاح کا درس لینے سے زیادہ دیکھنے میں دل چسپی کا مظاہرہ کر نے لگے ہیں ، اسی وجہ سے مکالمات سے زیادہ عملی پیش کش اہمیت اختیار کر تی جارہی ہے ، اس صورتِ حال میں مکالمے کو کامیاب بنانے کے لیے دو طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں: (الف )مکالمات سے زیادہ عمل اور کردار کااضافہ کر دیا جائے۔ (ب)مکالمات کو مزاحیہ بنادیاجائے۔
جہا ں تک اول الذکر صورت کی بات ہے ، تو اس سلسلے میں پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ زیادہ کر دار مکالمے کی روح کے منا فی اور اس کے لیے سخت معیوب ہے ، اس لیے ا س سے گریز نا گزیر ہے۔البتہ آخرالذکر صورت سب سے عمدہ اور بہتر صورت ہے ، کیوں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اصلاح وارشاد کے لیے طنز و مز اح جس قدر اثر انگیز ہے ، اتنا کو ئی اور شی نہیں ، اس لیے مزاحیہ انداز سے جہاں عملیت کو تر جیح دینے والے حضرات کے لیے بھی دل چسپی کا باعث بنے گا ، وہیں ان کے دلوں میں اصلاح کی فکر بھی انگڑائیا ں لینے لگے گی ۔راقم الحروف نے بار بار تجر بے سے اسی صورت کو سب سے مفید ،سود مند اور کار گر پایا ہے ۔مکالمے کے مکالمات کو مختلف طریقوں سے مزاحیہ بنایا جاسکتا ہے ، ذیل میں چند طریقے در ج ہیں :
(۱) طنز و مزاح نگاری کے اصولوں کو مدِ نظر رکھا جائے اور ان کی روشنی میں مکالمہ نگاری کی جائے ۔
(۲)مکالمات کی پر وڈی(۱) کر دی جائے ۔
(۳)غیر محسوسات کو محسوسات کے پیکر میں ڈھال دیا جائے ۔
(۴)غیر موجود کو موجود فر ض کر لیا جائے ، او راسے بطور رولر پیش کیا جائے ۔
(۵)غیر ذوی العقول اشیا کو ایکٹر بنا دیا جائے ۔
(۶)غیر اہم کر دار کو اہم کر دار کی شکل دے دی جائے ۔
(۷) موضوع کے مر کزی قصے سے چھوٹے موٹے ضمنی قصے بھی جو ڑ دیے جائیں ، لیکن یہ ملحوظِ خاطر رہے کہ ان جز وی قصوں کی کثر ت نہ ہو نے پائے کہ مر کز ی قصہ ان میں فنا ہو جائے ۔
(۸)یہ کوئی حتمی و قطعی طریقے نہیں ہیں ، بلکہ راقم الحروف کے تجر با تی و استقرائی طریقے ہیں ، جن میں شکست و تعطل اور حذف و اضافہ عین ممکن ہے ، کیو ں کہ مکالمہ ایک نفسیاتی فن ہے اور تمام لو گ نفسیات و طبعیات کے اعتبار سے مختلف واقع ہو ئے ہیں ،اس لیے زمان، مکان اور ماحول کے اعتبار سے الگ الگ نفسیات کے حامل حضرات اور کردار ادا کنندگان کی عمر ، عملی قابلیت ، سامعین کی قوتِ فہم اور ان جیسے ضروری پہلووں پر مدِ نظر رکھتے ہو ئے کسی طریقے سے مزاح پیدا کیا جاسکتاہے ، لیکن یہ خیال رہے کہ حد سے زیادہ مزاح بھی پیدا نہ ہو نے پائے ، ورنہ مکالمہ ، مکالمہ نہیں رہے گا ، بلکہ وہ ایک تھیڑاور پھکڑبن جائے گا ۔
رموز
ہر واقعہ چو ں کہ کسی نہ کسی زمان و مکان سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا کوئی نہ کوئی پسِ منظر ہو تا ہے ، اس لیے ان کی وضاحت یا ان کی طر ف اشارے کرنے کے لیے کچھ عملی وغیر عملی رموز کے سہارے لیے جاتے ہیں ، جیسے : کوئی خاص وقت بتانے کے لیے گھڑی استعمال کی جائے ، جگہ مثلاً مسجد کی تعیین کے لیے اذان دی جائے ، میٹنگ کی صورت نمایاں کر نے کے لیے کر سیا ں سجائی جائیں ، المختصر مکالمہ ڈائریکٹر مکالمے کی نوعیت ، کر دار اور پلاٹ کے تقاضے کے مطابق کسی بھی چیز کو رموزِ مکالمہ بنا سکتا ہے ۔ ان رموز کی وضاحت ، لکھتے وقت اندرونِ سطو ر بریکٹ لگا کر بھی کی جاسکتی ہے اور مشق و تمر ین کے دوران عملی ہدایات کے ذریعے بھی ۔
مشق
کسی بھی علم وفن میں مہارت و لیا قت پیدا کر نے اور فنی چابک دستی بڑھانے کے لیے مشق و تمرین ضروری ہے ، اس لیے خواہ مکالمہ نگاری کی جائے یا اسٹیج کرنے کی تیاری ، دونوں صورتوں میں جودت و حسن اور فن کاری پیدا کرنے کے لیے مشق ضروری ہے ، لکھنے کی مشق تو بار بار لکھنے سے ہی ہو سکتی ہے۔علاوہ ازیں باربار مشاہدے سے بھی مشق ہو جاتی ہے اور تیاری کے لیے ہدایت کا ر جو بھی صورت تجویز کرے، وہ مشق کے لیے مفید ہو گی ۔
اقسام 
مکالمے کے لیے چوں کہ نہ توکسی مو ضوع کی قید ہو تی ہے اور نہ کسی زمان و مکان کی، ہر موضوع پرمکالمہ لکھا جاسکتا ہے اور ہر زمان ومکان میں اسٹیج کیا جاسکتا ہے ، اس لیے نئے نئے احوال وواقعات اور موضوعات کے اعتبار سے اس کی درجنوں قسمیں ہو سکتی ہیں ، جیسے :تعلیمی مکالمہ،سیاسی مکالمہ ، سماجی مکالمہ ، تہذیبی وثقافتی مکالمہ ، اصلاحی مکالمہ ، مذہبی مکالمہ ، تاریخی مکالمہ ، مزاحیہ مکالمہ ،علمی مکالمہ، سائنسی مکالمہ ، مناظراتی مکالمہ وغیرہ وغیرہ ۔

مسلمانوں کی پستی کا علاج


مسلمانوں کی پستی کا علاج
حامدا و مصلیا امابعد 
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر 
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
اور ؂
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
محترم سامعین کرام!دنیا پیاسی ہے ۔ 
لیکن کس کے خون کی ؟
مسلمانوں کے خون کی۔
ابتدائے آفرینش سے چمنستان نمو کس کے خون سے سیراب ہے؟ 
مسلمانوں کے خون سے۔
اس کائنات رنگ و بو کی رعنائی و زیبائی کس کے لہو کی دین ہے؟ 
مسلمانوں کے خون کی ۔
طرابلس اور بلقان کے میدان لالہ زار ہیں۔
مگر کس کے خون سے ؟
مسلمانوں کے خون سے۔ 
چیچنیا، بوسنیا اور الجزائر کی زمین کس کے خون سے رنگین ہے ؟
مسلمانوں کے خون سے۔
برما، بلغاریہ اور انڈونیشیا میں خوں چکاں داستانیں کس کی مدون ہوئیں؟
مسلمانوں کی ۔
افغانستان ، عراق اور فلسطین کی سطح نمو کی نیرنگیوں میں کس کا لہو شامل ہے ؟
مسلمانوں کا۔ 
بھاگلپور ، پٹنہ اور بکسر کی خونی واقعات کس کی ہیں؟
مسلمانوں کی۔
گجرات، امرتسراورممبئی کے فسادات میں کون شہید ہوئے ؟
مسلمان۔
خطۂ عالم کی تمام جنگوں میں انسانیت پاش توپوں ، ہلاکت بار ایٹموں اور جاں سوز ہتھیاروں نے کس کا خون چوسا؟
مسلمانوں کا۔
دنیا اپنے بوڑھاپے کی دہلیز پر بہت پہلے قدم رکھ چکی ہے ، پھر بھی وہ اتنی حسین و رنگین کیوں نظر آرہی ہے؟
اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے لہو میں شرابور ہے۔
المختصراس خانۂ خراب میں جب بھی اور جہاں بھی جنگیں ہوئیں اور حروب وقتال کے جتنے بھی معرکہ بپا ہوئے ، ان تمام میں صرف مسلمان ہی تہہ تیغ کیے گئے اور آج بھی اس مہذب دور میں کوئی ایسا مقتل نہیں ، جہاں مسلمانوں کی گردنیں نہ کاٹی گئی ہوں، آخر ایسا کیوں؟
اسلام عین سلامتی ہے اور مسلمان اس کی عملی مثال، اور اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو انسانوں کو انسانیت سکھاتااور دنیا کی تمام غلامیوں و ہر قسم کی محکومیوں سے آزادی کا درس دیتا ہے تاکہ وہ کسی کے ظلم و قہر اور استبدادو جبر کا نشانہ نہ بن پائے، پس اسلام آزاد ہے ، آزادی کا درس دیتاہے اور اسی میں امن و سلامتی کا راز مضمر ہے ، پھر جب حقیقت یہ ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس مجسم امن کو ہی مبداء نفرت و عداوت بتایاجارہاہے ؟ اور پھر ایسا کیوں کر ہے کہ زمین کی وسعت کو صرف امن و سلامتی کے پیکر پر تنگ کی جارہی ہے ؟ نیز دستور الٰہی ہے کہ لَاتَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ اُخْرَیٰ اور وَلِلْاِنْسَانِ مَاسَعَیٰکہ انسان صرف اپنے کیے کا ذمے دار اور صرف اپنی ہی غلطی کا سزایاب ہوگا اور شیاطین متحدہ (اقوام متحدہ ) کی بھی اک دستور یہی ہے کہ کسی جر م کی سزا صرف مجرم ہوگی اور اس کے سوا کسی کو مشق ستم نہیں بنایاجائے گا ، تووہ کون سا جرم ہے جو کسی ایک مسلمان سے صادر ہوا تھا اور تا قیامت آنے والے مسلمان اس کے سزا کے مستحق بنے؟ اور اس سے کیسا گناہ سرزد ہوا تھا ، جس کی تلافی سوائے ہلاکت و بربادی اور خوں ریزی کے کسی اور چیز سے نہیں کی جا سکتی؟
محترم سامعین کرام! دنیا کو جزا و سزا اس بات پردی جاتی ہے کہ وہ جرم کا ارتکاب کرتی ہے لیکن مسلمانوں کا قصور یہ ہے کہ وہ بے قصور ہیں، ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے گناہوں سے دامن چھڑالیا ، ان کی خطا یہ ہے کہ وہ واجب الوجود کے آستانے کے علاوہ کہیں اور اپنے سروں کو خم نہیں کرتا اور اس کے علاوہ کسی اورسے ڈرنانہیں جانتا، وہ اس لیے سزا کے مستحق ہیں کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں اور ان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِلَّا اَنْ یُّؤمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۔
آپ جبل تاریخ کی بلند چوٹیوں پر چڑھ جائیے اور طراف عالم پر سرسری نگاہ دوڑائیے تو آپ کو ہر طرف مسلمانوں ہی کا خون بہتا نظر آئے گا، ہر سمت مسلمانوں ہی کی لاشیں تڑپتی دکھائی دیں گی، ہر جگہ مسلمانوں ہی کے خون کے فوارے جوش ماررہے ہوں گے ، زمین کاذرہ ذرہ مسلمانوں ہی کے خون سے لالہ زار ہوگا، ہر لمحہ صرف انھیں کی چیخ سنائی دے گی، قتل و ہلاکت کے میدان میں صرف انھیں کے کٹے سر ملیں گے اورداستان مظلومیت انھیں سے شروع ہوگی اور انھیں پر ختم ہوجائے گی۔
دوستو! یہ ہمارا کوئی زبانی دعویٰ نہیں ہے ؛ بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو زمین کے ہر ذرے پر ، لہو کے ہر قطرے پر ، تلوار کی ہردھار پر، مظلومیت کی ہر دیوار پر اور تاریخ کے ہر ورق پر رقم ہے کہ
روسیوں نے چیچنیا میں مسلمانوں ہی کا قتل عام کیا ۔
سربی کوسوی قصابوں نے مسلمانوں ہی کے خون سے اپنی سفاکیت و وحشیت کی پیاس بجھائی
عیسائی بھیڑیوں نے نائجیریا کی زمین کو مسلمانوں ہی کے لہو سے لہو لہان کیا
انھیں درندوں نے بوسینیا کو مسلمانوں کا مقتل بنادیا
سربرانیکا میں مسلم دوشیزاوں کی چھاتیوں کو کاٹ ڈالا گیا
الجزائر میں مسلمان پہلے قیدی بناگئے ،پھر ان بے گناہوں پر تیزاب کی بارش کردی گئی
برما میں کتوں کی مہمان نوازی کے لیے مسلمانوں کے جسموں کا قیمہ بنایاگیا
بلغاریہ میں مسلم عورتیں عصمت دری کی شکاری ہوئیں
انڈونیشیا میں مسلمانوں کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کا ہار بنایاگیا
چین میں مسلمانوں کو آروں سے چیر دیاگیا
سری لنکا میں معصوم بچوں، ضعیف و کمزور بوڑھوں اور نازک عورتوں کو زندہ دفن کردیا گیا
فلپائن میں حاملہ عورتوں کے پیٹوں کو چیر کر خنزیر کے بچے رکھ دیے گئے
البانیہ میں مسلمانوں کو بیدردی سے شہید کرکے لاشوں کو آگ لگادی گئی
صومالیہ میں باپ کو اپنے بیٹے اور بیٹے کو اپنے باپ کے عضو تناسل کاٹنے پر مجبور کیاگیا
یوگنڈا میں مسلمانوں کے سر ہتھوڑوں سے پھوڑے گئے 
کمبوڈیا میں کلہاڑی سے مسلمانوں کے تنوں کو پاش پاش کردیاگیا
کموچیا میں مسلمانوں کی آنتوں کو نکال کر دوڑنے پر مجبور کیا گیا
اوگاوین میں مسلمانوں کو ایک منزل میں جمع کرکے توپ سے بھون ڈالا گیا
افغانستان میں مسلم عورتوں کو عریاں کرکے ہیلی کاپٹر سے نیچے پھینک دیاگیا
ہندستان کے صوبہ امرتسر اور گجرات میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہادی گئیں
عراق میں ایندھن کی جگہ مسلمان جلائے گئے 
اور فلسطین میں یہودیوں کی ظلم وبربریت کی کہانی اخبار اور میڈیا کی زبانی آج بھی پوری دنیا دیکھ رہی ہے اورسن رہی ہے ۔
سامعین ! یہ جوکچھ بھی عرض کیا گیا، یہ مشتے نمونے ازخروے تھا، ورنہ مسلمانوں پر کیے گئے ظلم وستم کی داستان ، بے ستون اور لامحدود ہے ۔ان تاریخی حوالوں کو سناکر آپ کے زخموں پر نمک پاشی کرنا مقصود نہیں ہے ؛ بلکہ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اب تک جو کچھ ہونا تھا، وہ ہوچکا اور ابھی اور جتنی تباہی و بربادی اور مقدر ہے ، یہ مسلم قوم اپنی غفلت و نحوست سے ختم نہیں کرسکتی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ
یہ مظلوم ومقہور قوم کب تک ظلم و ستم کی چکی میں پستی رہے گی؟
مسلمان کب تک عیش حیا ت اور نشاط زندگی کو ختم کرنے والے توپوں اور بندوقوں سے لقمۂ اجل بنتے رہیں گے؟
کب تک خوں آشام تلواریں اور آبدار شمشیریں ان کا خون چوستی رہے گی؟
کب تک پیاسی زمین مسلمانوں کے خون سے سیراب ہوگی؟
کب تلک اللہ کی بسائی حسین و جمیل بستی آگ اور دھوئیں کی نذر ہوتی رہے گی؟
کیا امت مسلمہ پر یہ ظلم و ستم کا سلسلہ دائمی ہوگا؟ 
کیا اب عدل و عدالت کی بہار نہیں آئے گی؟
اور مسلمانوں کا وہ خدا جس کی شان لَایُظْلِمُوْنَ فَتِیْلاً ہے ، آخر کب تک اپنے محبوب بندے کو خون میں لتھڑادیکھتا رہے گا؟ اور کب وہ وقت آئے گا کہ اس کا زبردست ہاتھ اٹھے گا تاکہ ظالموں کے پنجووں کو مروڑ دے؟
معزز سامیعن !دنیا حیران ہے ، مسلمان پریشان ہیں اور غیر مسلم خنداں ہیں کہ آخر ان کا خدا انھیں کیوں بھول گیا؟ یا مسلمانوں کا کوئی خدا ہی نہیں ؟ اگر مسلمانوں کا کوئی خدا ہے توپھر ان کی حالت پر رحم کیوں نہیں کھاتا؟ اور ان کی مدد کیوں نہیں کرتا ؟ اور مسلمان بھی پشیمان ہیں اور دربار ایزدی میں فریاد کناں ہیں کہ ائے قوم ثمود و عاد کو ہلاک کرنے والے خدا، قوم لوط اور فرعونیوں کو غرق آب کرنے والے پروردگار ! آج ان کفاروں کو ، ظلم و ستم کے پرستاروں کو اور پتھروں کے پجاریوں کو نیست و نابود کیوں نہیں کرتااور میری فریاد کیوں نہیں سنتا؟
سامعین !ہاں اللہ تعالیٰ تمھاری فریاد کو نہیں سنے گا، وہ تمھاری مدد کو نہیں پہنچے گا، وہ کیوں کر تمھاری نصرت کو ہاتھ بڑھائے گا؟ جب کہ تم نے اس سے اپنا رشتہ توڑ لیا اور تم اسے یکسر بھول گئے ، لیکن اگر تم یہ چاہتے ہوکہ وہ تمھاری مدد کرے اور تمھاری حالت پر رحم کھائے ، تو تم اس کی طرف بڑھواور اس کی پائیگاہ ربانیت پر اپنی پیشانی رگڑواور گڑگڑا کر اس سے معافی مانگواور خوب توبہ کرواور اس وقت تک توبہ کرتے رہو،جب تک تمھیں اپنی معافی کا پروانہ نہ مل جائے ، تم نے ایک اللہ کے آستانے سے منھ موڑ کر اور غیروں سے اپنا رشتہ جوڑ کر دیکھ لیا کہ اس ایک سے سرکشی کرنے سے کس طرح ساری دنیا تم سے سرکش اور تمھارا دشمن بن گئی ، اس لیے آؤ اب صرف ایک سے جڑ جائیں ، تم نے معصیت سے دامن بھر لیے اور صدیوں اس کی کڑواہٹ چکھ لی ، آؤ اب اطاعتوں اور نیکیوں کا بھی مزہ چکھیں تاکہ پہلے کی طرح پھر ہمیں وہ تمام چیزیں لوٹا دے ، جو کبھی اس نے اپنے نیک اورمطیع بندوں کے لیے وقف کی تھی ، آئیے عہد کریں کہ اب ہم صرف اسی کی عبادت کریں گے اور صرف اسی کا کہا مانیں گے ۔ ؂
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

مساوات



الحمد للہ و کفیٰ و سلام علیٰ عبادہ الذی اصطفیٰ اما بعد، 
معزز سامعین، لائق صد احترام حاضرین حضرات اساتذۂ کرام وعزت مآب مہمان عظام ! اسلامی دائرۂ نظام سے ہٹ کر مساوات و برابری کے نام پر مختلف فرقوں، جماعتوں اور انجمنوں نے تحریکیں چلائیں، نعرے لگائے اور تجاویز پاس کیں؛ مگر ان میں خیر خواہی کا عنصر کم اور افساد و اضرار کا پہلو زیادہ غالب رہا؛ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مساوات کے نام پر چلائی جانے والی تحریکوں کا نسل انسانی پر الٹا اثر پڑا، کیوں کہ جب چینی کمیونزم نے مساوات کی تحریک چلائی ، تو پوری انسانیت کو الحاد و لادینیت اور خدا فراموشی و خدا ناشناسی کے قعر مذلت میں لاکھڑا کیا ، جب روسی کمیونزم نے مساوات کی تحریک چلائی تو کسانوں ، مزدوروں اور جفا کش انسانوں کو ظلم و ستم کی تپتی ہوئی بھٹی میں جھونک دیا، جب یوروپ نے مساوات کی تحریک چلائی تو باپ بھائی ، ماں بہن اور بیوی بیٹی کی عظمت و تقدس کو کند چھری سے ذبح کردیا، انسانیت کے سر سے شرم و حیا کی قبا چھین لی ، اسے آدمیت کے دائرے سے نکال کر حیوانیت و بہیمیت کے صف میں لا کھڑا کردیا، بے حیائی و بد کاری کو عام کیا، عریانیت و بے پردگی کو ہوا دیا، نفس پرستی اور ہوا پرستی کو بڑھاوادیا، زناکاری اور بد چلنی کو فروغ دیا، انسانی پاک بازی اور پاک دامنی کا جنازہ نکال دیا ، عالم ناسوت کے اس وسیع و عریض دہلیز پر شیطانیت وسرکشی کا جو کچھ بھی ڈراماہوا ، وہ صرف اس لیے ہوا کہ ان قوموں اور ان جماعتوں نے اسلامی نظریۂ مساوات سے ٹکر لی اور اسلامی تعلیمات کو ٹھکرادیا۔میں مغربی تہذیب کے پرستاروں اور مساوات و برابری کے علم برداروں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا مساوت اسی کا نام ہے کہ پوری نسل انسانی ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہوکر بے حیائی و بد کاری کا ننگا ناچ ناچے؟کیا مساوات اسی کا نام ہے کہ انسانی برادری خالق کائنات کے خلاف بغاوت و سرکشی کا جھنڈا لہرائے؟کیا مساوات اسی کا نام ہے کہ پورا معاشرہ جنسی بے راہ روی اور ہوس پرستی کا شکار ہوجائے ؟نہیں نہیں ، ہرگز نہیں مساوات اس کا نام نہیں
بلکہ
مساوات نام ہے اونچ نیچ کی تفریق کو مٹا دینے کا
مساوات نام ہے رنگ و نسل کی تقسیم ختم کردینے کا 
مساوات نام ہے چھوت چھات کے اثرات کو نیست ونابود کردینے کا
مساوات نام ہے ذات پات کی دیوار گرادینے کا
مساوات نام ہے مال داری و غریبی کے امتیاز کو بھلا دینے کا
مساوات نام ہے آقائیت وغلامیت کی حد فاصل کو ڈھادینے کا ۔
دوستو! اسلام نے مساوات و برابری کے تمام پہلووں کو زندگی کے تمام شعبوں میں جس اکمل و احسن طریقے سے نافذ کیا ہے، دنیا کی تمام کونسلیں، تمام انجمنیں، تمام کمیٹیاں اور تمام پارٹیاں اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز و بے بس ہیں۔
یہ اسلام ہی ہے ، جس نے اونچ نیچ کی تفریق مٹاتے ہوئے ’’کُلُّ بَنِیْ آدَمَ اِخْوَۃٌ‘‘ کا درس دیا۔
یہ اسلام ہی توہے ،جس نے رنگ ونسل کی تقسیم کو ختم کرتے ہوئے ’’ لَافَضْلَ لِعَرْبِیٍّ عَلَیٰ عَجَمِیٍّ‘‘ کا سبق سکھلایا۔
یہ اسلام ہی تو ہے ، جس نے چھوت چھات کے اثرات کو ختم کرکے’’ سُوؤرُ الْاَدْمِیٍّ طَاھِرٌ‘‘ کا فرمان جاری کیا۔
یہ اسلام ہی تو ہے ، جس نے ذات پات کی دیوار گراتے ہوئے ’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ‘‘ کا پیغام سنایا۔
یہ اسلام ہی تو ہے ، جس نے نسوانیت کو حق مساوات دیتے ہوئے ’’اَلنِّسَاءُ شَقَاءِقُ الرِّجَالِ‘‘ کا مژدہ سنایا۔
غرض یہ کہ اسلام نے نوع انسانی کے ہر صنف کو جو حق مساوات عطا کیا ہے ، دیگر قوموں اور مذہبوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی، اس لیے بجا طور پر مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ؂
لگایا تھا مالی نے ایک باغ ایسا
نہ تھا جس میں چھوٹا بڑا کوئی پودا
اور یہ باغ باغ اسلام ہے ، لہذا اگر دنیا مساوات و برابری قائم کرنا چاہتی ہے ، تو اسے یہ قیمتی فارمولہ مذہب اسلام ہی کے دامن میں مل سکتی ہے اور کہیں نہیں۔
وما علینا الا البلاغ

قرآن و حدیث کی بالادستی


قرآن و حدیث کی بالادستی
الحمد للہ و کفیٰ و سلام علیٰ عبادہ الذی اصطفیٰ اما بعد، فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ، بسم اللہ الرحمان الرحیم،ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ، صَدَقَ اللَّہُ الْعَظِیْمُ۔
معزز سامعین ، لائق صد احترام حاضرین!آج انسانی دنیا عجیب کشمکش سے دوچار اور حیران کن مخمصے کا شکار نظر آرہی ہے، جس سمت نگاہ کیجیے، بے چینی،بے اطمینانی، بد عنوانی و بد امنی، قتل و غارت، چیخ و پکار اور آہ و بکاکا دور دورہ ہے، ہر طرف ظلم و ستم ، فتنہ و فساد ، خوف و دھشت اور حق تلفی و ناانصافی کا بازار گرم ہے، امن و سکون اور صلح و صفائی کا ایسا فقدان ہے کہ ہر شخص خوف و ہراس میں ڈوبا ہوا، جوروجفاکا مارا ہوا، بے کسی و بے بسی کی تصویر دکھائی دیتا ہے، یہاں زندگی زندگی سے پناہ مانگتی اور فریاد کرتی دکھائی دیتی ہے ، آدمی آدمیت کا قاتل اور انسان انسانیت کا دشمن نظر آتا ہے ، غرض کہ آج دنیا عالمی بدامنی و بد عنوانی اور بین الاقوامی کرپشن و بگاڑ سے ’’ظھر الفساد فی البر والبحر‘‘ کی صداقت پر عملی ثبوت پیش کر رہی ہے۔
حضرات گرامی!امن وامان کے اس عالمی بحران کو ختم کرنے کے لیے دنیا بھر میں قومی و ملکی ، علاقائی و جغرافیائی اور عالمی و بین الاقوامی ہر طریقے پر کوششیں کی گئیں ، ریزولیشن پاس کیے گئے ، دستاویزات مرتب کیے گئے، عہد نامے جاری کیے گئے، مذاکرات کیے گئے، طاقت آزمائے گئے، بم برسائے گئے، میزائل داغے گئے، آبادیاں ویران کی گئیں اور ملک در ملک تباہ کردیے گئے، مگر کرپشن وبگاڑ کا خاتمہ ایک خیال خام اور امن و امان کا قیام ایک خواب پریشاں ہی رہا، کاش ! مشرقی دانش ور، مغربی مفکرین، جارح حکومتیں اور اقوام متحدہ کے عہدہ نشیں امن و امان کے اس کم یاب لیلیٰ کو قرآنی محمل اور نبوی خیمے میں تلاش کرتے ، چشم تصور سے آج سے چودہ سو سال پہلے کے مکہ و مدینہ کی تاریخ پڑھتے، آقائے مدینہ اور تاج دار حرم ﷺ کے قائم کردہ اصول و ضوابط کا مطالعہ کرتے، اسلام کے دور اول کے بے مثال امن وامان کے زریں باب کی ورق گردانی کرتے اور قیام امن سے متعلق قرآنی احکامات اور نبوی تعلیمات کو تسلیم و رضا کے ہاتھوں سے قبول کرتے ؛ تو آج یہ دنیا امن و امان کا گہورہ اور صلح و آشتی کا سائبان بن جاتی۔
حضرات گرامی!قرآن و حدیث نے قیام امن سے متعلق جو فارمولے پیش کیے ہیں ، ان تمام کو معرض التوا میں رکھ کر اگر صرف ایک فارمولہ ’’احترام انسانیت‘‘ کو زیر عمل لایاجائے ، تو دنیا سے نقض امن اور وجود فتنہ کا یکسر خاتمہ ہوجائے ؛ کیوں کہ اگر دلوں میں احترام انسانیت کا جذبہ پیدا ہوجائے ، تو خود بخود انسانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوجائے ، نہ کوئی کسی کی جان کے درپے ہواور نہ کوئی کسی کے مال کے پیچھے پڑے ، نہ کوئی کسی کی عزت و آبرو پر حملہ آور ہواور نہ کوئی کسی کی آبرو سے کھیلے، بس ہر طرف سکون ، ہر طرف چین، ہر سمت امن اور ہر جہت اطمینان ہی اطمینان ہو۔
قرآن کریم اور حدیث نبوی نے دلوں میں احترام انسانیت بیٹھانے اور امن وامان کی فضا قائم کرنے کے لیے کہیں یوں ہدایت جاری فرمائی کہ
لَاتَقْتُلُوْا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ 
اور کہیں پر یہ فرمان سنایا کہ
اِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللَّہَ وَ رَسُوْلَہُ وَ یَسَعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَاداً اَنْ یُّقْتَلُوْا اَوْ یُصَلَّبُوْااَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیَھُمْ وَ اَرْجُلَھُمْ 
اور کہیں پر یہ وعید سنائی کہ
اِنَّ اللَّہَ لَایُحِبُّ الظَّالِمِیْنَ 
اور کہیں پر یہ اعلان فرمایا کہ
اَلنَّاسُ مِنْ آدَمَ وَ آدَمُ مِنْ تُرابٍ ، لَافَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلَیٰ عَجَمِیٍّ،وَلاَ لِعَجَمِیٍّ عَلَیٰ عَرَبِیٍّ، وَلَا لِأسْوَدَعَلَیٰ أحْمَرَ، وَلَا لِأحْمَرَ عَلَیٰ أسْوَدَ اِلاَّ بِالتَّقْوَیٰ۔
حضرات ! یہ وہ قرآنی احکامات و نبوی ہدایات ہیں کہ اگر ان کی بالا دستی و حاکمیت کو تسلیم کرلی جائے ؛ تو دنیا بھر میں قیام امن و استحکام امن کا بول بالا ہوجائے ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں


کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
الحمد لاھلہ والصلاۃ لاھلہا،اما بعد۔
مجھ سے ہی آنکھ مچولی ہے برق و باراں کی 
رہا ہوں میں تو حوادث میں ناخدا کی طرح
وہیں سے پھوٹے ہیں آب حیات کے چشمے
جہاں لہو میں نہائے ہیں کربلا کی طرح
بزرگان ملت اور عزیز دوستو!فتنے ہر دور میں ابھرے ہیں، تاریکیوں نے ہمیشہ اجالوں کو ڈھانپنے کی کوشش کی ہے ، بربریت کے منحوس پنجوں نے ہمیشہ انسانیت کا پیرہن نوچنے کی سعی کی ہے اور حوادث کے تھپیڑے سفینۂ انسانیت کو ستم کاریوں کا تختۂ مشق بناتے رہے ہیں؛ مگر آج جو فتنے ابھر رہے ہیں ،جو تاریکیاں فضا پر مسلط ہورہی ہیں، جیسی سرکش آندھیاں انسانیت کا خیمہ اکھاڑ رہی ہیں،اتنی بجلیاں خرمن عدل و مساوات کو خاکستر کرنے پر تلی ہوئی ہیں ، جیسے باد سموم کے جھونکے باغ آدم کو جھلسانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں اور جس کے نتیجے میں خدا کی زمین معصوموں کے خون سے لہو لہان ہے اور انسانیت کا مقتل بن گئی ہے، یہاں عصمتوں کی دھجیاں ہیں ، شرافت کا دریدہ پیرہن ہے، مظلوموں کی سسکیاں اور بیواؤں کی آہ و بکا ہے، یتیموں کی چیخیں اور بوڑھوں کے خاموش نالے ہیں، ایسا تاریک دور آنکھوں نے بہت کم دیکھاہے اور چشم فلک نے ایسے روح فرسا حالات کا مشاہدہ بہت کم کیاہے۔ 
آج پوری انسانیت ان فتنوں کی زد میں ہے ؛ مگر سب سے زیادہ حوادث کے شکار اسلام اور اس کے نام لیوا ہیں، آج اسلام اور مسلمان داخلی و خارجی فتنوں کی چکی میں پس رہے ہیں، ایک طرف اہل بدعت کی ناپاک سازشیں ہیں ، تو دوسری طرف نہاد اہل حدیث کی ریشہ دوانیاں ہیں، ایک طرف شیعیت کی فتنہ سرائیاں ہیں ، تو دوسری طرف قادیانیت کی شر انگیزیاں، ایک طرف مرعوبان مغرب سانپ بن کر ڈستے ہیں ، تو دوسری طرف استعماریت کے زَلّہ ربا اس کے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، ایک طرف انھیں رجعت پسند اور دقیانوس کہاجارہا ہے ، تو دوسری طرف اس پر دھشت گردی کا لیبل لگایا جارہاہے، ایک طرف اگر تعلیم کے میدان میں پیچھے دھکیلا جارہا ہے ، تو دوسری طرف ا س کی اقتصادیات کو کمزور کیا جارہا ہے، ایک طرف اسے بے حیائی اور اباحت کا سبق پڑھایا جارہاہے تو دوسری طرف اس کو ایمان فروشی کا درس دیاجارہاہے، ایک طرف ان کی مساجد شہید کی جارہی ہیں، تو دوسری طرف ان کے مدارس کو دھشت گردی کا اڈہ قرار دیا جارہاہے۔
الغرض آج مسلمانوں کے دین و مذہب پر، ان کی تہذیب و ثقافت پر، ان کے شعار پر، ان کے امتیازات و خصوصیات پر ، ان کے علوم وفنون پر ، ان کی انفرادی شان پر، ان کے مال و جان پرہر طرف سے فتنوں کی یلغار ہے، مسلمان جس نے دنیا کو عدل ومساوات کا درس دیا، آج مظلوم و مقہور ہے ، وہ مسلمان، جنھوں نے دنیا کو آئین جہاں بانی و جہاں گیری سکھلایا، وہی آج محکوم و مجبور ہے، وہ مسلمان ، جنھوں نے جہالت کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں علم کی شمع روشن کی ، آج تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے ہے، جس نے قدم قدم پر الفت و محبت کے چراغ جلائے ، آج نفرتوں میں گھرا ہوا ہے ، وہ مسلمان ، جس کی بدولت دنیا سے ظلم و عدوان اور کفرو شرک کی ظلمتیں چھٹ گئیں ، آج تاریکیاں اس کا مقدر بن گئی ہیں۔
اے درد مند انسانو!ذرا سوچو تو سہی، آج مسلمان لوح جہاں پر حرف مکرر کیوں بن گیا ہے؟ کس جرم کی پاداش میں اسے حرف غلط کی طرح مٹایا جارہا ہے ؟ عصمتیں فریاد کررہی ہیں، بیوگی ماتم کررہی ہے، یتیموں کی دل دوز چیخوں سے فضا لرز رہی ہے ؛ مگر آسمان پھٹ کیوں نہیں جاتا؟ زمین کا سینہ چاک کیوں نہیں ہوجاتا، دعائیں رائیگاں کیوں جاتی ہیں؟ یہ بے بسی کیوں دیکھنی پڑ رہی ہے؟ آخر یہ مظلومی ومقہوری کیوں؟ یہ محکومی و مجبوری کس لیے؟
میرے دوستو! معاف کرنا، میں نے غلط کہا کہ مسلمان مظلوم و مقہور ہے؛ مسلمان مظلوم نہیں؛ بلکہ ظالم ہے، مقہور نہیں جابر ہے، محکوم نہیں ؛ ستم گر ہے، مجبور نہیں ؛ مجرم ہے، ستم رسیدہ و الم گزیدہ نہیں ؛ بلکہ پیکر عصیاں اور خوگر طغیاں ہے۔
شیدائیان اسلام! ہماری عزت ،ہمارے رنگ و روپ کی رہینِ منت نہیں ، ہماری سربلندی کا راز قوم ونسل میں نہیں، ایمان و یقین میں ہے، ہماری قوت و اعتصام کسی سیاسی پارٹی کی چاپلوسی میں نہیں ؛ بلکہ اعتصام بحبل اللہ میں پنہاں ہے اور ہماری سر فرازی کی شرط اولیں ان کنتم مؤمنین ہے۔آج اگر ہم پر فتنوں کی یلغار ہے، حوادث کی دست درازیاں ہیں ، ہم دبائے جارہے ہیں، ہم ستائے جارہے ہیں، ہم ملامتوں کے شکار ہیں، دشنام طرازیوں میں گرفتار ہیں ، تو قصور ہماراہے ، مجرم ہم ہیں، غلطی ہم سے ہوئی ہے ؛ کیوں کہ جادۂ حق سے منحرف ہوکر، کتاب و سنت کو چھوڑ کر ، احکام الٰہی سے منھ موڑ کر، شرائط کی تعبیر، نتائج کی تمنا، فرائض کے بغیرحقوق کی خواہش دیوانے کا خواب ہے، سوچ کا فریب ہے اور عقل کا سراب ہے۔
میرے دوستو! ابھرتے فتنوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ، عظمت رفتہ کے حصول کے لیے ہمیں اپنے ماضی کی طرف پلٹنا ہوگا، اللہ و رسول کے فرمان پر عمل پیر اہونا ہوگا، ان کنتم مؤمنین کو پیش نظر رکھنا ہوگا، ماضی کی روشنی سے مستقبل کو روشن کرنے کی کوشش کرنی پڑے گی، فتنوں کو حلم و تدبر اور متانت و سنجیدگی سے دبانا ہوگا۔
لیکن اگر وہ ہمارے اس امن کا مذاق اڑائے، صلح کے پھول کو پاؤں تلے روندے، انسانیت کا گلاگھونٹے، تو پھر تلواروں کی چھاؤں میں بات کرنا ہوگی، نیزوں کی زبان میں گفتگو کی جائے گی، ہنگامۂ داروگیر بپا کرنا ہوگا، بغاوت پر آزادی کا ترانہ گانا ہوگااور بزور شمشیر فتنوں کو شکست دینا ہوگی، کیوں کہ ؂
وہیں سے پھوٹتے ہیں آب حیات کے چشمے
جہاں سے نہائے ہیں کربلا کی طرح
وما علینا الا البلاغ

مدارس کے خلاف زہر افشانی


مدارس کے خلاف زہر افشانی
حامدا و مصلیا اما بعد
یہ مدرسہ ہے تیرا میکدہ نہیں ساقی
یہاں کی خاک سے انساں بنائے جاتے ہیں
اور ؂
اے ہم نشیں چمن کے مرے! داستاں نہ پوچھ 
لوٹا ہے کس نے آہ! مرا آشیاں نہ پوچھ
معزز سامعین اور لائق صد احترام حاضرین! یہ وقت کا عجیب و غریب حادثہ ہے کہ کل غلام ہندستان کو جن مدارس اسلامیہ نے آزادی کا تاج پہنایا تھا، آج آزاد ہندستان میں انھیں مدارس اسلامیہ کو غداری کا طعنہ دیا جارہاہے،ان کے کردار کو مجروح کیا جارہاہے، ان کے تقدس پر حملہ کیا جارہا ہے، ان کی قربانیوں کو فراموش کیاجارہاہے اور انھیں کسی ایک فرد ، ایک جماعت کی طرف نہیں؛بلکہ مختلف جماعتوں اور مختلف تنظیموں کی طرف سے دھشت گردی کے اڈے اور بنیاد پرستی کے مراکز قرار دیے جانے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں، یہ وقت کی بد ترین گالی اور غلیظ ترین طعنہ ہے جو مختلف اوقات میں مختلف شرپسند عناصر کی طرف سے دہرائی جاتی ہے۔ یہ گالی صرف آر ایس ایس ،بجرنگ دل، شیو سینا اور وشو ہندو پریشد جیسی اسلام دشمن دھشت گرد تنظیموں کی طرف سے دی جاتی ، تو بہت زیادہ فکرو تعجب کی بات نہ تھی، ہم اسے ان تنظیموں کا دماغی خلل اور عداوت پسندانہ جنون کہہ کر ٹال دیتے ؛ مگر ہماری حمیت و غیرت ،ہمارا صبرو تحمل اور ہماری قوت برداشت اس وقت بالکل جواب دے جاتی ہے ، جب ہندستانی حکومت اور اس کے اہل کاروں کی طرف سے بھی انھیں گالیوں کا تحفہ دیا جاتاہے۔ ؂
فسانۂ دلِ مضطر تمھیں سنائیں کیا
جفائے گردشِ اختر تمھیں سنائیں کیا
وطن میں رہ کے بھی ثاقب ہے اجنبی جیسا
سلوکِ خویش و برادر تمھیں سنائیں کیا
حضراتِ گرامی! مدارسِ اسلامیہ کی پاکیزہ شبیہ کو بگاڑنے اور انھیں بدنام کرنے کی مذموم کوشش تو برسوں پہلے ہی سے کی جارہی تھی ۔ کبھی کوئی متعصب اور تنگ نظر لیڈرمدارس کے خلاف زہر افشانی کرکے اپنی دلی تسکین کا سامان فراہم کرتا تھا ، تو کبھی کوئی موقعہ پرست و خود غرض اخبار تمام مدارس کو دھشت گردی کا اڈے بتاکر ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتا تھا ، یہ جوکچھ بھی ہورہاتھا، وہ حکومت اور ارباب حکومت کی مرضی سے ہورہاتھا؛ مگر اب حکومت کھل کر میدان میں آگئی ہے ، اس نے چار رکنی وزارتی گروپ کی رپورٹ میں کھلے لفظوں میں مدارس اسلامیہ کو ملکی سالمیت اور یہاں کے امن عامہ کے لیے خطرہ بتایاہے، دھشت گردی اور شدت پسندی کی طرف ان کی نسبت کرکے مدارس اسلامیہ کو ککرمتوں سے تشبیہہ دی ہے اور اس شرانگیزی میں ملکی اور غیر ملکی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور دیگر تمام ذرائع ابلاغ کو اپنے ساتھ لے کر پوری دنیا میں مدارس اسلامیہ کو داغ دار اور بدنام کرنے کی عالمی مہم چھیڑ دی ہے، حد تو یہ ہے کہ کبھی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کرنے کا فرمان سنایاجاتا ہے ، تو ان کی بیرونی اعانت و امداد پر روک لگانے کی بات کہی جاتی ہے ، کبھی خواہی نہ خواہی انھیں رجسٹریشن کرانے کا حکم جاری کیاجاتاہے ،تو کبھی ان پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
محترم حضرات! مدارس اسلامیہ پر لفظ دھشت گردی کے ذریعے حکومت کا یہ ظالمانہ حملہ بالواسطہ اسلام اور مذہب اسلام پر حملہ ہے اور مدارس اسلامیہ کے خلاف حکومت ہند کی یہ زہر افشانی یہاں کے حکمرانوں کی نیتوں اور عزائم کا پتہ دیتی ہے کہ یہاں کی حکومت مدارس اسلامیہ کو مضبوط طریقے سے اپنے شکنجے میں لینا چاہتی ہے اور اس کے لیے ہر ممکن طریقے اپنا رہی ہے ، ایسے سنگین حالات اور نازک ماحول میں ہمیں مدارس اسلامیہ کو حکومت کے شکنجے سے محفوظ رکھنے کے لیے اور مدارس کے دشمن بھیڑیوں کے ناپاک ارادوں سے بچائے رکھنے کے لیے انتہائی سوجھ بوجھ اور بے حد سنجیدگی کے ساتھ مناسب اقدام کرنا ہوگا ، جلد بازی یا اشتعال انگیزی سے بچتے ہوئے متانت و دور رسی کا ثبوت دینا ہوگا اور تمام مسلمانوں کو مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک متحدہ پلیٹ فارم پر آنا ہوگا ، تبھی ہماری آواز مؤثر ہوگی اور ہم دشمن کو شکست دے سکیں گے ، ورنہ یاد رکھو !ان مدارس پر تالے لگ جائیں گے اور ہندستان دوسرا اسپین بن جائے گا۔
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

ہمارا موجودہ ہندستان اور مسلمان

محمد یاسین جہازی
ہمارا موجودہ ہندستان اور مسلمان
الحمد لاھلہ والصلاۃ لاھلہا اما بعد
غبار گردش لیل و نہار ہوں میں
میرا وجود بہر حال رائیگاں تو نہیں
یہ غم نہیں کہ جلا آشیاں اٹھے شعلے
یہ فکر ہے کہ چمن میں کہیں دھواں تو نہیں
معزز سامعین لائق صد احترام حاضرین!ہم ہندستانی ہیں، ہندستان ہمارا ملک ہے، ہم مسلمان ہیں، ہندستان ہمارا ملک ہے ، ہم نے ہمایوں کے روپ میں اس کی سرحدوں کی حفاظت کی تھی، بابر کے بھینس میں اس کے ذروں سے محبت کی تھی، اکبر کی شکل میں اس کے چاروں کونوں کو وسعت دی تھی ، جہاں گیر بن کر اس کی زلفوں کو سنوارا تھا ، شاہ جہاں بن کر اس کے حسن کو نکھارا تھا، عالم گیر بن کر اخلاص کی دولت دی تھی، ٹیپو بن کر اس کے چرنوں پر اپنی جان نچھاور کی تھی اور جان جاں آفریں کے سپرد کرکے اس کو آزادی کے پھولوں کا ہار پہنایا تھا۔
قطب مینار ، تاج محل ، لال قلعہ ہماری عظمت کے نشان ہیں، تو زبان تاریخ ہماری شوکت پر غزل خواں ہیں، جب ملک غلام ہوا تو ہم تڑپ اٹھے، ہم لرز گئے، ہم رو دیے، ہم بلک اٹھے، آزادی کا پرچم ہاتھ میں لیااور ناموسِ وطن پر مر مٹے، ہم آزادی کی خاطر کٹ گئے، ہم آزادی کی خاطر مٹ گئے، ہم آزادی کی خاطر لٹ گئے، ہماری سات سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہم نے برادران وطن سے کس طرح محبت کی ہے، ہم نے حق داروں کا کیسا حق دیا ہے، ہم نے غداروں کو کیسی معافی دی ہے، ہم نے اخوت کا کیسا درس دیا ہے اور محبت کا کیسا پیغام سنایا ہے۔
مگر افسوس کہ آج ہم ہندستانی مسلمان برادران وطن کی نگاہوں میں خار کی طرح کھٹک رہے ہیں، ہمارے ہنر انھیں عیب اور ہماری خوبیاں انھیں برائی نظر آ رہی ہیں، ہمارے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جارہی ہیں، ہمیں شک کی نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے، ہمیں غیر ملکی ایجنٹ قرار دیاجارہا ہے، ہمارے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا جارہاہے، ہماری عزت و آبرو کو پامال کیا جارہاہے، ہماری عبادت گاہوں کو مسمار کیاجارہاہے، ہمارے دین و مذہب پر حملہ کیا جارہاہے، ہماری آزادی و خود مختاری کو برباد کیاجا رہاہے، برادران وطن ہماری وفا شعاریوں اور قربانیوں کو بھول رہے ہیں، اپنی جمعیت و کثرت پر اترارہے ہیں اور ہمارے خلاف ظلم و ستم ، جوروجفا اور حیوانیت و بہیمیت کا سلوک کررہے ہیں، کاش ! ہندستان کے بدلتے ہوئے حالات میں یہاں کے جفا پرور و ظلم پیشہ لوگوں کے کانوں میں کوئی دھیرے سے یہ کہہ دیتا کہ ؂
ہم ہیں غدار تو وفادار تم بھی نہیں
اپنی کثرت پہ نہ اتراؤ خدا تم بھی نہیں
حضرات!آج ہندستان کے حالات بدل گئے ہیں، یہاں کے دن رات بدل گئے ہیں، کل یہ دھرتی ہندستانی مسلمانوں کے لیے ایک جنت ارضی تھی ،آج یہ دھرتی مسلمانوں کے لیے ظلم کی چکی بن چکی ہے، آزادی کے بعد سے لے کر اب تک ظلم و ستم کا وہ کون سا پہاڑہے جو ہم پر نہ توڑا گیا ، جوروجفا کا وہ کون سا ڈراما ہے جو نہ رچایا گیا، بہیمیت وسفاکیت کا وہ کون ساحربہ ہے جو نہ آزمایاگیا،ملک کے قومی ایجنڈے کے بارے میں ہمارے ساتھ غداری کی گئی، ملک کے قانونی ایجنڈے کے سلسلے میں ہمارے ساتھ بے وفائی کی گئی، ملک میں مذہبی معاملے کے تئیں ہمارے ساتھ دھوکہ بازی کی گئی، اب حال یہ ہے کہ یہاں نہ ہم محفوظ ہیں، نہ ہماری جان محفوظ ہے ، نہ ہماری عزت محفوظ ہے نہ ہماری آبرو محفوظ ہے اور نہ ہی ہماراایمان و اسلام محفوظ ہے ؂
درد میں درد ہو تو احساس کسے ہوتاہے 
اک جگہ ہو تو بتاؤں کہ یہاں ہوتاہے
ہندستان کے اس بدلتے ہوئے حالات میں یہاں کے مقہور و مظلوم مسلمان زبان حال سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ؂
کیا بتاؤں حال دل اب قابل بیاں نہیں
درد کدھر کدھر نہیں، زخم کہاں کہاں نہیں
یہ اور بات ہے کہ میں منت کش فغاں نہیں 
پہلے بھی بے زباں نہ تھا، اب بھی بے زباں نہیں
دوستو! موجودہ ہندستان کے حالات اتنے خراب ہیں کہ اگر ہم حقیقی صورت حال کو اجاگر کردیں تو کلیجہ چھلنی چھلنی ہوجائے گا اور پھر تم سے دوسرا کوئی حالات پوچھے تو یہی جواب دوگے کہ ؂
نہ پوچھو دوستو احوال دل کے
تمھارا کلیجہ بھی جائے گا ہل کے 
اس لیے مزید زخموں کو نہ کریدتے ہوئے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہندستان کو پھر ویسا ہی بنادے جیسا کہ غلامی سے قبل تھا اور جن خصوصیات کی وجہ سے اسے سونے کا چڑیا کہاجاتا تھا۔
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

باکمال خطیب بننے کے زریں اصول


باکمال خطیب بننے کے زریں اصول
محمد یاسین جہازی 

کسی بھی میدان کے نوواردوں کے سامنے سب سے بڑی پریشانی یہ در پیش ہوتی ہے کہ اپنے سفر کو کیسے شروع کریں ؟چنانچہ وہ اس مسئلے کو لے
 کراتنا حیران و سراسیمہ ہوجاتے ہیں کہ ہر کس ونا کس کی رائے و مشورے پر عمل کرنا شروع کردیتے ہیں ۔اس مرحلے پر اگر ان کی صحیح رہ نمائی نہیں ہو پاتی ہے اور صلاح کار ان کی نفسیات کے مطابق اچھی صلاح نہیں دے پاتا ہے ،تو انھیں آگے چل کر ناکامی و نامرادی کا منھ تک دیکھنا پڑ جاتاہے اور وہ یہ تصور قائم کرلیتے ہیں کہ اس فن کا حصول میری ہمت و حوصلے سے بالاتر ہے ۔ اس لیے یہ مرحلہ جہاں نوواردوں کے لیے صبر آزما اور مشقت آمیز ہوتا ہے ،وہیں رہ نماؤں کے لیے بھی محنت طلب اور آزمائش کن ہوتا ہے ؛ کیوں کہ اِنھیں کی نفسیات پرکھ کی صلاحیت اور ہر ہر طالب خطابت کے لیے جدا جدا مناسب ہدایات پر نوواردوں کی کامیابی و کامرانی اور ناکامی و نامرادی کا دارومدار ہوتا ہے ۔اس لیے اس مقام پر جہاں نوواردوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی رہ نمائی کے لیے اُنھیں حضرات کو رہ نما بنائیں،جو اس فن میں مکمل مہارت رکھتے ہوں اور ہر ایک کی نفسیات کے مطابق رہ نمائی کرسکتے ہوں ، وہیں رہ نماؤں سے یہ گذارش ہے کہ جو مبتدی آپ کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیے آئیں ،ان کی صحیح اور مکمل رہ نمائی کریں ۔آپ ان کی زندگی سے کھلواڑ نہ کریں ۔اگر ان میں سے کسی کی اصلاح آپ کے بس کی بات نہ ہو،تو ان کے سامنے اپنی عاجز ی کا اظہار کردیں اور دوسروں سے رجوع کرنے کی نیک صلاح دے دیں۔خواہ مخواہ ان کا قیمتی وقت ضائع نہ کریں ۔ذیل میں عمومی ہدایات کے تحت ہم نوواردوں سے چند گذارشات کر رہے ہیں ۔
(۱)کسی بھی علم وفن سیکھنے کے لیے صرف دوہی طریقے ہیں :(الف)مطالعہ اور اس فن کی بنیادی باتوں سے واقفیت ۔(ب)مشق وتمرین۔ہرچند کہ فن سیکھنے کے لیے مطالعہ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ؛لیکن فن خطابت کے لیے سب سے زیادہ اہمیت مشق وتمرین کی ہے۔اس لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ فنی نکتوں اور علمی موشگافیوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ وقت مشق و تمرین میں صرف کریں ۔
(۲)اگر چہ قدیم اساتذۂ فن نے سارا زور اس بات پرصرف کردیاہے کہ رٹ کر تقریر نہیں کرنی چاہیے ؛بلکہ ہمیشہ فی البدیہہ اور برجستگی کے ساتھ بولنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔یہ بات اس شخص کے حق میں تو قابل قبول ہوسکتی ہے ،جو خطبا کی فہرست میں آچکے ہیں ۔لیکن ایک مبتدی کے حق میں نہیں ؛کیوں کہ تجربہ بتلاتا ہے کہ ایک مبتدی کے لیے رٹ کر تقریر کی مشق جس قدر مفید اور سود مند ہے، وہ بغیر رٹے کرنے میں نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مبتدی بحیثیت مبتدی اس درجہ خالی الذہن ہوتا اور اسٹیج کا خوف اس قدرمسلط ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی کہنے سے عاجز و قاصر رہتا ہے ۔ایسی صورت میں کوئی چیز اسے سہارا دے سکتی ہے ،تو وہ رٹی ہوئی بات ہی ہوسکتی ہے ،جو وہ اسٹیج کا خوف محسوس کرتے ہوئے بھی بول سکتا ہے ۔اور جب متعدد بار اس طرح سے رٹ کر تقریر کر لے گا ،تو اسٹیج کا خوف بھی دور ہوتا چلاجائے گا اور مواد ومیٹر کا ایک بڑا ذخیرہ بھی اس کے سینے میں محفوظ ہوجائے گا ۔پھر وہ بلا خوف و تردد اپنے حافظے کے بھروسے پر خودبخود فی البدیہہ تقریر کرنے لگے گا اور رٹنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔اس لیے ایک مبتدی کے لیے رٹ کر تقریر کی مشق زیادہ مفید اور سود مند ہے ۔
(۳)آج کل طباعت کی سہولتوں اور رطب و یابس جمع کردینے والے مؤلفوں کی کثرت کی وجہ سے بری بھلی ہر طرح کی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں ،جس کی وجہ سے کتاب کے انتخاب کا مسئلہ ایک مبتدی کے لیے مشکل مسئلہ بن گیا ہے ۔اس لیے اس سلسلے میں راقم الحروف کا مشورہ یہ ہے کہ آپ انھیں خطیبوں اور ادیبوں کی کتابوں اور تحریروں کا مطالعہ کریں،جو اپنے فن میں سند کا درجہ اور اساتذۂ فن کی حیثیت رکھتے ہیں ،جیسے :مولانا ابوالکلام آزاد ؒ ، مولانا شاہ عطاء اللہ بخاری ،مولانا علی جوہر، مولانا حسین آزاد ،مولانا ڈپٹی نذیر احمد ،مولانا شبلی نعمانی ،ؒ مولانا الطاف حسین حالی ؒ ،علامہ اقبال ؒ ،مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ وغیرہ ۔ان کی رشحات و نگارشات کے مطالعہ کرنے سے جہاں آپ کی تقریری صلاحیت پروان چڑھے گی، وہیں آپ کی زبان وبیان کی بھی اصلاح ہوگی اور طلاقت وسلاست بھی پیدا ہوگی۔
(۴)آپ ہر طرح کے جلسے جلوس میں شرکت کرنے کی کوشش کریں اور نام ور خطیبوں کے لب ولہجے ، اشارات وحرکات ،مدوجزر،زیروبم،اندازواسلوب ؛غرض ہر چیز پر نگاہ رکھیں اور ان سے کچھ حاصل کرنے کوشش کریں ۔
(۵)ٹیپ،سی۔ڈی اور موبائل جیسے جدید آلات و سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان خطیبوں کوبار بار سنیں اور دیکھیں ،جن کو بہ راہ راست اسٹیج پر سن چکے ہیں اور ان کو بھی جن کو بہ راہ راست سننے کا اتفاق نہیں ہواہے۔ 
(۶)چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے،ملنے جلنے والے سبھی بے تکلف یارو احباب کے درمیان بے باکی کا مظاہرہ کریں اور جو کچھ بولیں ،قواعد زبان کی رعایت کرتے ہوئے بلا جھجھک اور انتہائی سلاست کے ساتھ بولیں۔اس میں کسی طرح کا خوف یا شرم کو مانع نہ بننے دیں ۔باقی مزید باتیں ’’مشق خطابت‘‘کے زیر عنوان آرہی ہیں ۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔ھوالموفق والمعین۔
مشقِ خطابت 
ماقبل میں یہ بات آچکی ہے کہ کسی بھی فن کے حصول کا سراسر دارومدارمطالعہ اور مشق پر ہے۔ گرچہ ہر فن میں مطالعہ کو اولیت حاصل ہے ؛لیکن فنِ خطابت میں سب سے زیادہ اہمیت مشق کی ہے اور مطالعہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے ۔ مشق وتمرین کا مسئلہ اگر زیادہ مشکل نہیں ہے ،تو اس قدر آسان بھی نہیں ہے کہ جس کا جس طرح جی چاہے ، اسی طرح مشق کرنا شروع کردے؛بلکہ مشق خطابت کے بھی کچھ اصول اور زریں طریقے ہیں ،جن کو اپنا نااورصحیح طور پر برتنا ضروری ہے ۔ذیل میں وہ طریقے لکھے جارہے ہیں ،جنھیں خود مملکت خطابت کے بے تاج بادشاہوں نے عملی تجربے کے بعد مفید پایا ہے اور انھیں طریقوں پر چل کر وہ منزل مقصود تک پہنچے ہیں ۔
(۱)’’جو شخص خطابت سیکھنا چاہتا ہے ،اس کو چاہیے کہ بولنے سے پہلے لکھنے کی مشق کرے۔ مضمون لکھتے وقت کوئی سامنے نہیں ہوتا ،جس کا خوف ہو اور دماغ میں یکسوئی ہوتی ہے۔مضمون لکھ کر کسی جلسے میں لوگوں کے سامنے پڑھے ۔اس کے عیب وہنر سوچے اور دوسروں سے دریافت کرے ۔پہلے چھوٹے اور سہل مضامین سے ابتدا کرے۔ جس قدر مشق بڑھتی جائے اور لکھنے کا سلیقہ آتا جائے ،اسی قدر بڑے اور مشکل مضامین لیتا رہے۔اسی طرح پہلے چھوٹے جلسوں میں پڑھے پھر بڑے جلسوں میں بیان کرے ۔‘‘(خطابت وتقریر،ص؍۴۴)
(۲)تقریر کی کوئی معیاری کتاب سامنے رکھ لیجیے اور تقریری انداز میں بآواز بلند پڑھیے ۔
(۳)تقریر کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیجیے اور چھوٹے بڑے سبھی جلسوں میں تقریر کرنے کی کوشش کیجیے ۔
(۴)کسی بھی مضمون کا ذہن میں ایک خاکہ تیار کر لیجیے اور تنہائی میں نا قابل خطاب اشیا کو مخاطب بنا کر تقریر کیجیے اور یہ تصور قائم کر لیجیے کہ وہ ہمارے سامعین ہیں اور ہماری گفتگو کو سن رہے ہیں ۔
(۵) تنہائی میں چوں کہ کوئی ناقد نہیں ہوتا ،جو اس کو اس کی خامیوں پر تنبیہہ کرے ،اس لیے جو خامیاں ہوتی ہیں، ان کی اصلاح نہیں ہوپاتیں؛بلکہ وہ اور پروان چڑھ جاتی ہیں ،جو پھر بعد میں کبھی دور نہیں ہوپاتیں۔اس لیے ان کی اصلاح ضروری ہے ۔اور اس کے لیے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ آپ کسی ایسے کمرے کو مشق گاہ بنائیں، جس میں بڑے بڑے سائز کے شیشے فٹ ہوں ۔ان کے سامنے کھڑے ہو کر تقریر کریں اور ساتھ ہی یہ دیکھتے رہیں کہ ہماری کونسی حرکت نازیبا اور کونسا اشارہ نامناسب ہے ،پھر اس کی اصلاح کی کوشش کریں ۔اسی طرح اس پر بھی نگاہ رکھیں کہ ہم کسی مخصوص حرکتوں کا بار بار ارتکاب تو نہیں کر رہے ہیں ۔چہرے مہرے کی ہیئت ٹھیک ٹھاک رہتی ہے کہ نہیں وغیرہ وغیرہ ان تمام چیزوں پر نگاہ رکھیں اور ان کی اصلاح کی فکر کریں ۔اور اپنی آواز ، انداز ،لب ولہجے،تکلم کا زیرو بم ،الفاظ کا مدو جزر اور ان جیسے پہلووں کی خامیوں کو پکڑنے کے لیے ٹیپ وغیرہ کا سہارا لیں ۔
(۶)اگر کسی وجہ کر آپ کے لیے یہ صورت ممکن نہیں ہے ،تو پھر ایسے دوستوں کی ایک تنظیم بنائیں ،جو آپ ہی کی طرح تقریروخطابت سیکھنے کے شیدائی ہوں اور انھیں بھی کسی سہارے کی تلاش ہو اور ہر ایک فرد اس بات کے لیے فکرمند ہو کہ کوئی ایسا دوست ملے ،جو اس کی غلطیوں کی نشاندھی کرے ۔
(۷)اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو،تو پھر آپ کسی قریبی مدرسے ،کالج اور یونی ورسٹیوں کی انجمنوں ۔جن کا بنیادی مقصد طلبہ میں تقریرو خطابت کی روح پھونکنی ہوتی ہے ۔سے جڑ جائیں اور ان کے ہفتہ واری ،پندرہ روزہ یا ماہانہ پروگرام میں پابندی کے ساتھ شرکت کریں ۔
(۸)ملک کے طول عرض میں کہیں بھی مسابقۂ خطابت ہو رہاہو ،تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کریں۔
(۹)اگر مذکورہ بالا تمام صورتیں آپ کے لیے نا پید ہیں ،تو پھر آپ اپنے گھر کے افراد کو اکٹھا کرکے تقریر کی مشق کرسکتے ہیں۔
(۱۰)اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو ،توجنگل و بیابان میں نکل جائیں اور درخت ، پتھر اور ان جیسی بے جان چیزوں کو اپنا مخاطب بنا کر مشق کریں ۔ان شاء اللہ تعالیٰ کامیابی ضرور ملے گی اور بہت جلد ایک باکمال و بے مثال خطیب بن کر ابھریں گے۔

سپاس نامہ کیسے تیار کریں


سپاس نامہ کیسے تیار کریں
کسی اہم شخصیات کے باوقار استقبال کے لیے سپاس نامہ تیار کیا جاتا ہے، سپاس نامے میں درج ذیل چند امور کا خیال رکھا جاتاہے
(الف) سب سے پہلے حصے میں مہمان کے لیے استقبالیہ کلمات ادا کیے جاتے ہیں اور ان کے تئیں اپنے دیرینہ جذبات اور عقیدت و محبت کا اظہار کیا جاتاہے۔
(ب) بعد ازاں ان کی آمد پران کا شکریہ اداکیا جاتاہے اور سامعین کے لیے مہمان کا مختصر؛ مگر جامع انداز میں ایک تعارفی خاکہ پیش کیا جاتاہے، ساتھ ہی ان کی سماجی و سیاسی، علمی و عملی ( جس میدان حیات کے وہ ہیں) اعتبار سے ان کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کی جاتی ہے۔
(ج) اسی ضمن میں ان کی خدمات اور قربانیوں کا ایک مرقع بھی پیش کیا جاتاہے،مثلا اگر وہ علمی آدمی ہیں اور صاحب تصنیف بھی ہیں تو ان پہلووں کا تذکرہ ضرور ہونا چاہیے۔
(د) پھر مہمان کے لیے اپنے ادارے یاانجمن کا ایک تعارفی رپورٹ شامل کیا جاتا ہے، جس سے مہمان مکرم کے سامنے اس ادارے یا انجمن کی پوزیشن واضح ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ اپنے عزائم و منصوبے اور ضروریات کی باتیں ہوتی ہیں۔ 
(ہ) پھر ان کی حیثیت و مرتبے کے مطابق اپنی انجمن یا ادارے کے لیے ضروریات کے تحت مطالبے ہوتے ہیں۔ اور پھر دوبارہ شکریے کی ادائیگی کے ساتھ مضمون مکمل کردیا جاتاہے۔
(و) پورے سپاس نامے میں مضمون میں ندرت اور طرز ادا میں حد درجے کی شائستگی کا ہونا ناگزیر ہوتاہے، جملے میں خشکی کو راہ نہیں ملنی چاہیے ،جابجا اشعار استعمال کرکے اس کے اندر حلاوت و چاشنی پیدا کرنا ایک عمدہ سپاس نامہ کی امتیازی خصوصیت ہوتی ہے اوررنگین بیانی کے ساتھ ساتھ تصنع و مبالغہ آمیزی کے شبہ سے بھی بچنا ضروری ہوتاہے۔
یہاں مثال کے لیے ایک سپاس نامہ دیا جارہا ہے ، جسے بغور مطالعہ کرکے اس کے لازمی عناصر کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔


سپاس نامہ
بہ خدمت عالی جناب حضرت مولانا ثمیرالدین صاحب قاسمی ماہر فلکیات و چیرمین ہلال کمیٹی انگلینڈ۔
حامدا و مصلیا امابعد
مہمان ذی وقار ! سب سے پہلے ہم تمام اراکینِ ۔۔۔ اپنے مہمان معظم ، رفیع المرتبت، عالی منزلت، جناب مولانا ۔۔۔ کا نہا خانۂ دل سے پرتپاک استقبال کرتے ہیں اور آں حضور کی خدمت عالیہ میں کمال خلوص و محبت و نیاز مندانہ احترام و عقیدت کے ساتھ ہدیۂ امتنان وتشکر پیش کرتے ہیں کہ آں جناب نے بے پناہ مصروفیتوں اور غیر معمولی مشغولیتوں کے باوجود ، سفر کی دشواریاں برداشت کرکے، اور ان سب سے بڑھ کر وقت کی قربانی دے کر ہماری حقیر سی دعوت کو شرفِ قبولیت سے نوازااور قدم رنجہ فرماکر ہماری امنگوں میں توانائی، ہمتوں میں بلندی اور ہماری حوصلہ افزائی کی ۔ عزت مآب کی اس ذرہ نوازی اور تشریف آوری سے ہمارے دلوں کے ظلمت کدوں میں اتنے چراغ روشن ہوگئے اور تمناؤں کے ویرانوں میں اتنے رنگین پھول کھل اٹھے جو نظر کی تنگ دامانی کا گلہ کر رہے ہیں ؂
دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار
اس پر مسرت موقعے پر ہم آں حضور کا بے حد ممنون و مشکور اور نشۂ مسرت میں مخمور ہیں اور ہمارے قلوب جن عقیدت و محبت کے جذبات سے معمور ہیں ان کے اظہار کے لیے غالب کے اس شعر میں تشنگی محسوس کر رہے ہیں کہ ؂
وہ آئیں ہمارے گھر میں خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
جس کی تلافی کے لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ؂
نادم ہوں واقعی میں کرمِ بے حساب سے 
خوش آمدید! آپ کہاں میرا گھر کہاں
یہ درست ہے کہ ہمارے شکرو شکیب کے یہ چند الفاظ آپ کے بے کراں احسانات کا بدل نہیں بن سکتے اور نہ ہی ہمارے بے انتہا جذبات کی ترجمانی کرسکتے ہیں ؛ کیوں کہ ع
جذبات اک عالم اکبر ہے ، الفاظ کی دنیا چھوٹی سی
مگر ہاں ! یہ عرض کردینا شاید بے محل نہ ہوگا کہ ہمارا یہ اعتراف عام رسم ورواج سے قطعی مختلف اور ہر قسم کی تکلفات و تصنع سے یکسر ورا ہے ، جس کا اندازہ ہماری بزم کی سادگی سے بہ خوبی لگایاجاسکتا ہے۔
عالی جاہ! ہمارے قلوب قدرتی طور پر فخرو مسرت سے لبریز ہے کہ آپ ہند و بیرون ہند کی ایک ممتاز شخصیت ، علم عمل کا مجمع البحرین، فضل و کمال کاحامل، علم و فن کا ماہر، ملک و ملت کا مقبول خادم، عوام وخواص کا رہ نما، غریبوں کا ماویٰ، بے کسوں و بے بسوں کا سہارا ہمارے درمیان رونق افروز ہیں۔ اس لیے ایسی عظیم ہستی کی موجودگی میں ہماری یہ توقع بالکل بجا ہے کہ آج ہمیں وہ روشنی عطا ہوگی، جس سے ہم اپنی زندگی کا جائزہ لینے پر مجبور ہوں گے۔
مہمان عالی مقام! آپ کی ذات گرامی فکرو نظر ، علم وعمل اور فضل و کمال کا ایک حسین سنگم ہے، سادہ مزاجی، تصنع وتکلف سے بیزاری اور اخلاق و عادات میں اسلاف کے سچے جانشین ہیں۔تبحر علمی ، فکر کی گہرائی، تحریر کی شگفتگی اور طرز نگارش کے قابل ذکر کمالات سے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں ،آپ کے گہربار قلم سے یاد وطن اور اثمارالہدایہ جیسی جامع کتابیں اہل علم کے لیے قیمتی سرمایہ ہیں، آپ کی ہمہ جہت ذات گرامی اور گوناگوں صفات و کمالات کی حامل ہستی ہم اخلاف کے لیے قابل تقلید نمونہ ہیں۔
عزت مآب! ہماری یہ انجمن ۔۔۔ کی ایک علمی ، فکری وادبی مجلس اور صوبہ جھارکھنڈکے ظلمت کدہ میں مینارۂ نور جناب حضرت مولانا منیرالدینؒ کی زندہ و پایندہ یادگار ہے، جن کا وجود شمع ہدایت کی فیروزمندی اور ظلمت وضلالت کی آخری شکست تھی۔ الحمد للہ یہ انجمن گذشتہ ۔۔۔ بر س سے طلبۂ ضلع ۔۔۔ میں خطابت وصحافت کا ذوق، شعرو شاعری کا ملکہ، معلومات میں وسعت، مطالعہ میں گہرائی وگیرائی اور اخلاق و کردار کی شائستگی پیدا کرنے میں مصروف عمل ہے اور بفضلہ تعالیٰ اس کے اچھے ثمرات ظاہر ہورہے ہیں، اب تک اس سے سینکڑوں شعلہ نوا مقرر پیدا ہوئے ہیں اور بے شمار شاعر و صحافی تیار ہوکر ملک و قوم کی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اسلام کا نام روشن کر رہے ہیں۔
فی الحال انجمن کے پاس ۔۔۔ اور دیگر اشیا موجود ہیں، لیکن موجودہ ۔۔۔ طلبہ کے ذوق وشوق، ان کی وسعت طلب، اشتیاق مطالعہ اور روز افزوں شوقِ جستجو ئے کتب کے پیش نظر بالکل ناکافی ہیں اور وہ پریشانی سے دوچار اور حیران کن مخمصے کا شکار ہیں، ایسی حیران و سراسیمگی کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے آں حضور کو غیبی امداد کی صورت میں جلوہ افروز فرمایا ہے ، اس لیے اس غیبی نصرت و اعانت کو غنیمت جانتے ہوئے حضور والا سے درخواست ہے کہ ۔۔۔چیزیں انجمن کی بروقت ضرورت ہیں۔ امید ہے کہ مطلوبہ چیزیں عنایت فرمائی جائیں گی، ہم خدام اس عنایت بے غایت پر بے حد ممنون و مشکور ہوں گے۔
گرامی قدر! آخر میں سمع خراشی، ہنگامہ آرائی اور گستاخانہ جرأت و جسارت پر معافی چاہتے ہوئے ایک بار پھر آں حضور فیض گنجور کے ورود مسعود اور قدوم میمنت پر اپنے دل کی ان گہرائیوں سے پرتپاک خیر مقدم کرتے ہوئے شکر و سپاس کا حسین سوغات پیش کرتے ہیں، جہاں آپ کے لیے عزت و عظمت، رفعت و محبت ، احترام و عقیدت اور نیاز مندی کے بے شمار جذبات موجزن ہیں اور اس شعر کے ساتھ اپنی خوشی و مسرت کے جذبات کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ؂
شکرانہ پیش ہے حضوری میں آپ کے 
اے کاش! روز آئے یہ موسم بہار کے
اور ساتھ ہی حضرت اقدس کے لیے دعا گو ہیں کہ ؂
تم سلامت رہو ہزار برس 
ہر برس کے دن ہو پچاس برس
والسلام ۔

نظامت برائے اختتامی اجلاس

نظامت برائے اختتامی اجلاس
الحمد للہ کفیٰ وسلام علیٰ عباداللہ الذی اصطفیٰ ،أما بعد
معزز سامعین، لائق صد احترام حاضرین! آج میں کچھ ایسے موڑ پر کھڑا نظر آرہا ہوں ، جہاں فکرو خیالات کے دورنگی شور نے ایک ہنگامہ مچا رکھا ہے ، ایک طرف تو اپنی علمی کم مائیگی اور تنگ دامانی کا بے ہنگم احساس دہن و لب پر بار بار مہر سکوت رکھ رہا ہے اور زبان و منہ پر آرزوئے پرشوق کے اظہار کرنے سے بندش لگارہاہے، وہیں دوسری طرف آپ حضرات کے خلوص وعنایات کی موسلہ دھار بارش اپنے پیہم تقاطر سے میری قوت گویائی کو آزادی دلانے کی کوشش کر رہی ہے اور مجھے مسلسل اس بات پر بر انگیختہ کر رہی ہے کہ میں اپنے دہن و لب کی بندشوں سے مکمل آزاد ہوکر آپ کے روبرو اپنی آرزووں کا جھلملاتا شیش محل پیش کروں اور آپ حضرات کے تئیں دل کے نہاخانوں میں پنہاں رنگین تمناؤں کو مظہر بیان میں لاکر اظہار کا لبادہ پہناؤں ؂
گرم نالوں میں اگر سوزواثر ہوتاہے
سرد آہوں میں بھی پوشیدہ شرر ہوتاہے 
کارواں شوق کا جب گرم سفر ہوتاہے 
فرش کیا عرش پہ انساں کا گذر ہوتا ہے
مجھے ہر گز یہ امید نہ تھی کہ ہر طرف سے بہاروں میں گھرا اس خطۂ ارض پر دیوان گان دین اسلام کا اتنا بڑا ہجوم ہوگا اوران کی سعی و کوشش سے اس تزک و احتشام کے ساتھ یہ عطر بیز محفل سجے گی ۔ سچ مچ مجھے آپ حضرات کی اس پر رونق بزم کو دیکھ کر اپنی تعبیر کے تگنائے میں وہ الفاظ نہیں مل رہے ہیں، جس سے آپ حضرات کی مثالی جدو جہد اور سعی و کوشش کو دادو تحسین کا خوش نما گل دستہ پیش کروں۔
حضرات ! آپ کی یہ بزم یقیناًان گنت خوبیوں اور گوناگوں خصوصیات کا حامل ہے ، جو صرف آپ حضرات کی توجہ و عنایات سے بڑی مشکل سے وجود میں آئی ہے ۔ آپ اپنی اس عظیم ترین نعمت کو ایک گراں قدرسرمایہ سمجھیں اورکچھ لمحے سرجوڑ کر اس ماحول میں بیٹھنے کو غنیمت جانیں، ان شاء اللہ آپ تھوڑی ہی دیر میں مقررین حضرات کی دل پذیر تقاریر اور جامع خطابات سے اپنے دامنوں کو اس طرح گہربار پائیں گے کہ ملائکۂ فلک بھی آپ کی اس خوش قسمتی پر رشک کررہے ہوں گے۔ باہر سے تشریف لائے ہوئے شیریں بیان مقرر بھی جلد ہی اپنی اپنی مبارک زبانوں سے علم و عرفان کا چشمہ بہانے والے ہیں۔قبل اس کے کہ میں اپنے اس سلسلہ کو آغاز کا روپ دوں ،آپ حضرات سے چند باتیں بطور تمہید عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔
حضرات! آج کی یہ بزم نہایت ہی مبارک اور بے شمار خصوصیات کا آئینہ دار ہے۔ اس بزم کے بار گراں کا یہ دوش ناتواں ہرگز تنہا متحمل نہیں ہوسکتا؛ بلکہ مجھے ہر ہر قدم پر آپ کے تعاون اور امداد کا سہارا چاہیے۔ یہ بزم آپ کی ہے ، چاہیں تو آپ اس کو ناکام بنادیں اور چاہیں تو کامیاب شکل میں دیکھیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ آپ کی یہ بزم کسی ناکامی کا شکار ہوجائے یا اس میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہو، اس کے باوجود آپ حضرات سے میری درخواست ہے کہ آپ دل جمعی اور سکون کے ساتھ از ابتدا تاانتہا میرے ہم رکاب رہیں اورشانہ بہ شانہ میری امدادو تعاون کریں، آپ حضرات کو اس بات کی ہر گز فکر نہیں ہونی چاہیے کہ پتہ نہیں کہ ایک ناتجربہ کار شخص کے ہاتھ میں بزم پروری کی باگ ڈور رکھ دی گئی ہے ، آبروئے بزم کا کیا ہوگا۔ 
حضرات! آپ کو ایسا کبھی خیال نہیں کرنا چاہیے ؛ کیوں کہ جب آپ نے مجھے بزم کی زلف برہم کو سنوارنے کے لیے منتخب کرہی لیا ہے تو آپ کو میرے اوپر یہ اعتماد بھی کرنا ہوگا کہ یہ ناچیز آپ کی بزم کی رونق کو دوبالا کرنے اور اسے دیدہ زیب بنانے کے لیے اور آپ کی آرزووں کو ساحل طمانینت تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے میں کوشا رہوں گا۔ آپ صرف ماحول کو سنجیدہ بنائے رکھیں اور از ابتدا تا انتہا میرا ساتھ نبھانے کا وعدہ کریں، ان شاء اللہ آپ تھوڑی ہی دیر میں دیکھیں گے کہ تلاوتِ قرآن کریم کی روحانیت اورنعت نبی کی ترنم آمیز گنگناہٹ سے یہ محفل نورانی بن جائے گی اور رحمتِ الٰہی کا سایۂ عاطفت اپنے دامن میں ڈھانپ لے گا۔ستارے ہماری خوش قسمتی پر مسکرائیں گے اور چاند اپنی سنہری سنہری دودھیالی چاندنی سے موسم کو اور حسین کردے گا۔
سامعین کرام ! اب بلا کسی تاخیر کے آئیے پروگرام کاآغاز کرتے ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت باسعادت کے لیے دعوت دیتے ہیں ساحراللسان قاری خوش الحان جناب مولانا ۔۔۔ کو، موصوف سے التماس ہے کہ ؂
قرآن کی تلاوت سے آغاز ہو محفل کا
اس نور سے پاجائیں ہم راستہ منزل کا
جناب موصوف مائک کے روبرو۔
حضرات ! ابھی آپ تلاوت کی سماعت سے اپنے دلوں کے گناہوں کی کثافتوں کو دھو رہے تھے ۔ آئیے اب تلاوت کے بعد اس مدنی آقا ، مولائے کریم ، محبوب رب العالمین، محمد عربی ،فداہ امی وابی ﷺ کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت و محبت پیش کرتے ہیں ، جن کے احسانِ گراں بار سے ہم سب ؛ بلکہ پوری انسانیت کی گردن خم کھائی ہوئی ہے ، جن کے دنیا میں آنے سے دنیا کی تمام غم گینیاں اور دائمی سرگشتگیاں ختم ہوگئیں اور کلمۂ حق کا موسمِ ربیع، موسم بہار شروع ہوا۔ تو لیجیے سماعت فرمائیے شاعر شیریں زبان و خوش الحان جناب ۔۔۔ کو ، میں ان سے بصد احترام گذارش کرتا ہوں کہ وہ آئیں اور اپنی ترنم آسا دل سوز نغمگی آواز سے نعتیہ کلام پیش فرمائیں۔آں جناب آپ کے روبرو۔
سامعین کرام! ابھی آپ نعت نبی سن رہے تھے اوریوں محسوس کررہے تھے کہ گویا ہم تصور میں آقائے مدنی کی گلیوں میں سیر کر رہے ہیں ۔پروگرام کی اس ضروری رسم و راہ کے بعد آئیے اب اصلی منزل کا رخ کرتے ہیں اور تقریری کڑی کا آغاز کرتے ہیں جس کے لیے ہم آواز دیتے ہیں انجمن کے ایک ہونہار فرد ، ماہر وبے باک مقرر جناب مولوی۔۔۔کو کہ وہ آئیں اور اپنی آتش بیانی سے خرمن باطل میں آگ لگادیں۔میں ان سے درخواست کرتا ہوں ان دو شعر کے ساتھ کہ ؂
بزم سخن کا رنگ نکھر آیا اس طرح
جیسے نکھار آیا ہو تازہ گلاب پر 
اور آواز دے رہی ہیں تجھے دل کی دھڑکنیں
آجاؤ اب کہ بزم ہے پورے شباب پر
جناب خطیب صاحب آپ سے مخاطب۔
دوستو! ہمارا یہ پروگرام انتہائی مختصر ہے ، جس کی وضاحت یہ ہے کہ اب ایک مکالمہ پیش کیا جائے گا اور اس کے بعد اساتذۂ کرام کی مفید نصیحتوں کادور چلے گا۔
دوستو ! زندگی کے سفر میں جس طرح کسی رنج و غم سے پڑنے والے اثرات سے آنسو بہانا ضروری ہے، دوستو اس سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ لوگ قہقہوں سے اپنے دلوں کے بوجھ کو ہلکا کریں،پھولوں کے سیج پر سونے کا حقیقی لطف وہی اٹھا سکتا ہے، جو کانٹوں کی چبھن کی لذت سے آشنا ہو،تو آئیے ماحول کو اور بھی خوب صورت اورموسم کو حسین سے حسین تر بنانے کے لیے آپ کو قہقہوں کی محفل میں لیے چلتے ہیں اور ایک تہلکہ خیز و تہلکہ ڈاٹ مکالمہ پیش کرتے ہیں جس کے لیے مکالمہ میں کردار ادا کرنے والے حضرات جناب ۔۔۔ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور اپنے اپنے رول اور کردار کے اعتبار سے اپنی اپنی ذمے داری کونبھائیں۔ 
محترم سامعین ! ابھی آپ مکالمہ سن رہے تھے اور ساتھ ہی اس میں ادا کیے جانے والے ایکٹنگ کو دیکھ کر لطف اندوز ہورہے تھے ۔ 
دوستو! اب ہم طلبہ کے پروگرام کا دور ختم ہوگیا ۔ آئیے اب اپنے مشفق اورکرم فرماو کرم گستر اساتذۂ کرام کی نصیحتوں سے مستفیض ہوتے ہیں،جو اپنے تجرباتِ حیات کی روشنی میں ہم وابستگانِ دامن اساتذہ کی زندگی کے لیے مفید لائحۂ عمل اور کارگرپروگرام کی طرف رہ نمائی کریں گے اور ہماری زندگی پھر اس ڈگر پر چل کر کامیابی اور کامرانی سے ہم کنارہوگی ۔ تو پروگرام کی اس کڑی کو شروع کرتے ہوئے انتہائی عاجزانہ درخواست کرتے ہیں جناب حضرت مولانا ۔۔۔سے کہ آں جناب تشریف لائیں اور خطاب فرمائیں۔
دوستو!ہم تمام طالبان علوم نبویہ کی یہ فطری تمنا ہوتی ہے کہ ہمارے علمی سفر کی آخری منزل ازہر ہند دارالعلوم دیوبند ہو اوراس گلشن قاسمی میں بلبل بن کر چہکتے رہیں۔اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکرو احسان ہے کہ اس نے ہماری اس فطری تمنا کی تکمیل کی اورہم اس مادرعلمی سے فیض یاب ہوتے رہے؛ لیکن دوستو مادر علمی کے یہ ایام اتنی تیز ی سے گذر گئے جیسا لگتا ہے کہ قدرت کے غیبی ہاتھوں نے گھڑیوں کی رفتار تیز کردی تھی ، سکنڈ منٹ کی طرح، منٹ گھنٹوں کی مانند اور گھنٹے ہفتوں، مہینوں اور سالوں کے اعتبار سے گذر رہے ہیں۔
ساتھیو!یہ اختتامی اجلاس ہماری جدائی کی گھڑی آن پہنچنے کا اعلان کررہا ہے، شاید ہماری اور آپ کی یہ آخری بزم ہے ، اب ہم سے مادر علمی چھوٹ جائے گی ، ہم اپنے اساتذہ کی شفقتوں اور عنایتوں سے محروم ہوجائیں گے، درس و تدریس کے لمحے لمحے کی یاد ہمیں ستائے گی، ہم ان درودیوار کی دیدار کو ترس جائیں گے ، یہ دارالحدیث کا گنبد بیضا، مسجد رشید کی حسین میناریں، مسجد چھتہ کی روحانیت، مسجد قدیم کی نورانیت، ساقی کوثر کا مے خانہ،میکدۂ قاسم کا جام و سبو، گہورۂ طیب،چمن نصیری، قلزم مدنی، مینائے مدراسی، صہبائے سعیدی، بزم قمری، بہار حبیبی، درس نعمتی، بیر زمزم کا پرتو، احاطۂ مولسری میں گذری ہوئی زندگی کی صبح و شام، ان درودیوار سے وابستہ ماضی کی حسین یادیں، شب و روز کے مشاغل، تعلیم تعلم کے معمولات، پندو وعظ کی قیمتی باتیں، تقریرو تکرار میں گزری ہوئی راتیں، صدائے قال قال کی بازگشت، دوست واحباب کے میل ملاپ ، یاران ہم نوا کے اجتماع واختلاف ، باہمی الفت ولگن، آپسی خلش و چپقلش ، ایک دوسرے سے روٹھنا منانا،رفقاکے ساتھ مستیاں و اٹھکھیلیاں، انجمن کی بزم آرئیاں اور احباب کی طرب انگیزیاں ؛ دوستوان سب کی یادیں ہمیں تڑپاتی رہیں گی ؂
جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی ، جہاں نغمے ہی نغمے تھے
وہ گلشن اور وہ یاران غزل خواں یاد آئیں گے
لیکن دوستو! یہ اجتماع و افتراق، یہ اتحادواتفاق، یہ وصال وفراق،یہ جمع و تفریق، یہ جدائی وجفائی، یہ بے کسی وبے بسی، یہ ہماری آمدو رفت؛ سب قدرت کی کرشمہ سازیاں ہیں، یہاں کسی کو بقا و دوام نہیں، خود دنیا کی کیا حقیقت ہے ؟ کلی پھول بنی اور مرجھا گئی، گلاب میں چمک آئی اور ماند پڑگئی، چمیلی مہکی اور ختم ہوگئی، کنول کھلااور کمھلا گیا، نرگس شہلا مسکرائی اور خاموش ہوگئی، چمپا میں تازگی آئی اور پژمردگی چھا گئی، بلبل شاخ گل پر چہکا اور اڑگیا، چاندنی آئی اور غائب ہوگئی، سورج طلوع ہوا اور غروب ہوگیا، دن رخصت ہوا اور رات کی تاریکی چھا گئی ، رات کافور ہوئی اور دن آگیا، صبح ہوئی اور شام ہوگئی ؂
بقا کسی کو نہیں قدرت کے کارخانے میں 
ثبات ایک تغیر کوہے زمانے میں 
تو جب دنیا ہی کو بقا و دوام نہیں ، تو ہم کب تک اس گلشن میں رہتے؟ زندگی کا اور کتنا حصہ یہاں بتاتے؟ اور کب تک زندگی کی بہار یوں ہی لوٹتے رہتے؟ ؂
چلے گا بزم میں جام و شراب مشک وبو کب تک
رہیں گے زینت محفل بتان سعلہ رو کب تک
کریں گے بزم قاسم میں سکون آرزو کب تک
ہماری کروفر کب تک رہے گی اور ہم کب تک
یقیناًہمیں یہاں سے ایک نہ ایک دن ضرور نکلنا پڑتااور ہمیں یہاں سے رخصت سفر باندھنا ہی پڑتا۔ دوستو آج وہی ہماری رخصت کی گھڑی ہے ، تو پھر یہ کیسا شکوہ اور کس کا شکوہ؟ یہ کیسا گلہ اور کس کا گلہ؟ یہ کیسا غم اور کس کا غم؟ یہ کیسی کسک اور کیسا دردِ جدائی؟ یہ کیسی رنجش اور کیسا رونااور کیوں کر رونا؟ ارے بھائی ؂
غم تو غذائے روح ہے اس سے گریز کیا
جس کو ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے
لہذا چھوڑ دیجیے ان باتوں کو اور فراموش کرجائیے ماضی کی حسین یادوں کو ، جس کو دہراکر ماتم کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں، اگرچہ سچ یہ ہے کہ ؂
یہ سچ کہ سہانے ماضی کے لمحوں کو بھلانا کھیل نہیں
اوراق نظر سے جلووں کی تحریر مٹنا کھیل نہیں
لیکن ؂
لیکن یہ محبت کے نغمے اس وقت نہ گاؤ رہنے دو
جو آگ دبی ہے سینے میں ، ہونٹوں پہ نہ لاؤ رہنے دو
پس جدائی کی اس جاں سوز گھڑی میں نمناک آنکھوں اور غم ناک چہروں سے نہیں ؛ بلکہ ہشاش بشاش چہروں سے ایک دوسرے کو الوداع کہتے ہیں اور یہ وعدہ کرتے ہیں کہ زندگی کے ہر موڑ پر، جہاں بھی موقع ملے گا، ان شاء اللہ ملاقات کرتے رہیں گے ۔ ؂
شمع کی لو سے ستاروں کی ضو تک 
تمھیں ہم ملیں گے جہاں رات ہوگی
اور اگر زندگی نے وفا نہ کی اور قبل از وصال وفات پاگئے ، تو ان شاء اللہ حشر میں سایۂ عرش کے نیچے ضرور ملاقات ہوگی، جس وقت اگرچہ نفسی نفسی کا عالم ہوگا، لیکن ہماری یہ سچی دوستی ضرور کام آئے گی، الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین ؂
علیکم سلام اللہ انی راحل
وعینای من خوف التفرق تدمع
و ان نحن عشنا فھو یجمع بیننا
و ان نحن متنا فالقیامۃ تجمع 
محترم سامعین! جدائی کے جذبات غم کو میں ضبط نہ کرسکااور جنون فراق میں نہ جانے کیا کیا بک دیا۔ ہم اس سمع خراشی کی معافی چاہتے ہوئے آخرمیں درخواست کرتے ہیں عارف باللہ جناب حضرت مولانا۔۔۔سے کہ اپنے مفید کلمات سے نوازیں اور دعا فرما کر مجلس کا اختتام فرمائیں۔
محترم حضرات ! اآ پ حضرات نے ہمارا آخر تک ساتھ دیا اور پروگرام کو کامیاب بنایا، اس پر آپ تمام حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔