قرآن و حدیث کی بالادستی
الحمد للہ و کفیٰ و سلام علیٰ عبادہ الذی اصطفیٰ اما بعد، فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ، بسم اللہ الرحمان الرحیم،ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ، صَدَقَ اللَّہُ الْعَظِیْمُ۔
معزز سامعین ، لائق صد احترام حاضرین!آج انسانی دنیا عجیب کشمکش سے دوچار اور حیران کن مخمصے کا شکار نظر آرہی ہے، جس سمت نگاہ کیجیے، بے چینی،بے اطمینانی، بد عنوانی و بد امنی، قتل و غارت، چیخ و پکار اور آہ و بکاکا دور دورہ ہے، ہر طرف ظلم و ستم ، فتنہ و فساد ، خوف و دھشت اور حق تلفی و ناانصافی کا بازار گرم ہے، امن و سکون اور صلح و صفائی کا ایسا فقدان ہے کہ ہر شخص خوف و ہراس میں ڈوبا ہوا، جوروجفاکا مارا ہوا، بے کسی و بے بسی کی تصویر دکھائی دیتا ہے، یہاں زندگی زندگی سے پناہ مانگتی اور فریاد کرتی دکھائی دیتی ہے ، آدمی آدمیت کا قاتل اور انسان انسانیت کا دشمن نظر آتا ہے ، غرض کہ آج دنیا عالمی بدامنی و بد عنوانی اور بین الاقوامی کرپشن و بگاڑ سے ’’ظھر الفساد فی البر والبحر‘‘ کی صداقت پر عملی ثبوت پیش کر رہی ہے۔
حضرات گرامی!امن وامان کے اس عالمی بحران کو ختم کرنے کے لیے دنیا بھر میں قومی و ملکی ، علاقائی و جغرافیائی اور عالمی و بین الاقوامی ہر طریقے پر کوششیں کی گئیں ، ریزولیشن پاس کیے گئے ، دستاویزات مرتب کیے گئے، عہد نامے جاری کیے گئے، مذاکرات کیے گئے، طاقت آزمائے گئے، بم برسائے گئے، میزائل داغے گئے، آبادیاں ویران کی گئیں اور ملک در ملک تباہ کردیے گئے، مگر کرپشن وبگاڑ کا خاتمہ ایک خیال خام اور امن و امان کا قیام ایک خواب پریشاں ہی رہا، کاش ! مشرقی دانش ور، مغربی مفکرین، جارح حکومتیں اور اقوام متحدہ کے عہدہ نشیں امن و امان کے اس کم یاب لیلیٰ کو قرآنی محمل اور نبوی خیمے میں تلاش کرتے ، چشم تصور سے آج سے چودہ سو سال پہلے کے مکہ و مدینہ کی تاریخ پڑھتے، آقائے مدینہ اور تاج دار حرم ﷺ کے قائم کردہ اصول و ضوابط کا مطالعہ کرتے، اسلام کے دور اول کے بے مثال امن وامان کے زریں باب کی ورق گردانی کرتے اور قیام امن سے متعلق قرآنی احکامات اور نبوی تعلیمات کو تسلیم و رضا کے ہاتھوں سے قبول کرتے ؛ تو آج یہ دنیا امن و امان کا گہورہ اور صلح و آشتی کا سائبان بن جاتی۔
حضرات گرامی!قرآن و حدیث نے قیام امن سے متعلق جو فارمولے پیش کیے ہیں ، ان تمام کو معرض التوا میں رکھ کر اگر صرف ایک فارمولہ ’’احترام انسانیت‘‘ کو زیر عمل لایاجائے ، تو دنیا سے نقض امن اور وجود فتنہ کا یکسر خاتمہ ہوجائے ؛ کیوں کہ اگر دلوں میں احترام انسانیت کا جذبہ پیدا ہوجائے ، تو خود بخود انسانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوجائے ، نہ کوئی کسی کی جان کے درپے ہواور نہ کوئی کسی کے مال کے پیچھے پڑے ، نہ کوئی کسی کی عزت و آبرو پر حملہ آور ہواور نہ کوئی کسی کی آبرو سے کھیلے، بس ہر طرف سکون ، ہر طرف چین، ہر سمت امن اور ہر جہت اطمینان ہی اطمینان ہو۔
قرآن کریم اور حدیث نبوی نے دلوں میں احترام انسانیت بیٹھانے اور امن وامان کی فضا قائم کرنے کے لیے کہیں یوں ہدایت جاری فرمائی کہ
لَاتَقْتُلُوْا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ
اور کہیں پر یہ فرمان سنایا کہ
اِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللَّہَ وَ رَسُوْلَہُ وَ یَسَعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَاداً اَنْ یُّقْتَلُوْا اَوْ یُصَلَّبُوْااَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیَھُمْ وَ اَرْجُلَھُمْ
اور کہیں پر یہ وعید سنائی کہ
اِنَّ اللَّہَ لَایُحِبُّ الظَّالِمِیْنَ
اور کہیں پر یہ اعلان فرمایا کہ
اَلنَّاسُ مِنْ آدَمَ وَ آدَمُ مِنْ تُرابٍ ، لَافَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلَیٰ عَجَمِیٍّ،وَلاَ لِعَجَمِیٍّ عَلَیٰ عَرَبِیٍّ، وَلَا لِأسْوَدَعَلَیٰ أحْمَرَ، وَلَا لِأحْمَرَ عَلَیٰ أسْوَدَ اِلاَّ بِالتَّقْوَیٰ۔
حضرات ! یہ وہ قرآنی احکامات و نبوی ہدایات ہیں کہ اگر ان کی بالا دستی و حاکمیت کو تسلیم کرلی جائے ؛ تو دنیا بھر میں قیام امن و استحکام امن کا بول بالا ہوجائے ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین