کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
الحمد لاھلہ والصلاۃ لاھلہا،اما بعد۔
مجھ سے ہی آنکھ مچولی ہے برق و باراں کی
رہا ہوں میں تو حوادث میں ناخدا کی طرح
وہیں سے پھوٹے ہیں آب حیات کے چشمے
جہاں لہو میں نہائے ہیں کربلا کی طرح
بزرگان ملت اور عزیز دوستو!فتنے ہر دور میں ابھرے ہیں، تاریکیوں نے ہمیشہ اجالوں کو ڈھانپنے کی کوشش کی ہے ، بربریت کے منحوس پنجوں نے ہمیشہ انسانیت کا پیرہن نوچنے کی سعی کی ہے اور حوادث کے تھپیڑے سفینۂ انسانیت کو ستم کاریوں کا تختۂ مشق بناتے رہے ہیں؛ مگر آج جو فتنے ابھر رہے ہیں ،جو تاریکیاں فضا پر مسلط ہورہی ہیں، جیسی سرکش آندھیاں انسانیت کا خیمہ اکھاڑ رہی ہیں،اتنی بجلیاں خرمن عدل و مساوات کو خاکستر کرنے پر تلی ہوئی ہیں ، جیسے باد سموم کے جھونکے باغ آدم کو جھلسانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں اور جس کے نتیجے میں خدا کی زمین معصوموں کے خون سے لہو لہان ہے اور انسانیت کا مقتل بن گئی ہے، یہاں عصمتوں کی دھجیاں ہیں ، شرافت کا دریدہ پیرہن ہے، مظلوموں کی سسکیاں اور بیواؤں کی آہ و بکا ہے، یتیموں کی چیخیں اور بوڑھوں کے خاموش نالے ہیں، ایسا تاریک دور آنکھوں نے بہت کم دیکھاہے اور چشم فلک نے ایسے روح فرسا حالات کا مشاہدہ بہت کم کیاہے۔
آج پوری انسانیت ان فتنوں کی زد میں ہے ؛ مگر سب سے زیادہ حوادث کے شکار اسلام اور اس کے نام لیوا ہیں، آج اسلام اور مسلمان داخلی و خارجی فتنوں کی چکی میں پس رہے ہیں، ایک طرف اہل بدعت کی ناپاک سازشیں ہیں ، تو دوسری طرف نہاد اہل حدیث کی ریشہ دوانیاں ہیں، ایک طرف شیعیت کی فتنہ سرائیاں ہیں ، تو دوسری طرف قادیانیت کی شر انگیزیاں، ایک طرف مرعوبان مغرب سانپ بن کر ڈستے ہیں ، تو دوسری طرف استعماریت کے زَلّہ ربا اس کے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، ایک طرف انھیں رجعت پسند اور دقیانوس کہاجارہا ہے ، تو دوسری طرف اس پر دھشت گردی کا لیبل لگایا جارہاہے، ایک طرف اگر تعلیم کے میدان میں پیچھے دھکیلا جارہا ہے ، تو دوسری طرف ا س کی اقتصادیات کو کمزور کیا جارہا ہے، ایک طرف اسے بے حیائی اور اباحت کا سبق پڑھایا جارہاہے تو دوسری طرف اس کو ایمان فروشی کا درس دیاجارہاہے، ایک طرف ان کی مساجد شہید کی جارہی ہیں، تو دوسری طرف ان کے مدارس کو دھشت گردی کا اڈہ قرار دیا جارہاہے۔
الغرض آج مسلمانوں کے دین و مذہب پر، ان کی تہذیب و ثقافت پر، ان کے شعار پر، ان کے امتیازات و خصوصیات پر ، ان کے علوم وفنون پر ، ان کی انفرادی شان پر، ان کے مال و جان پرہر طرف سے فتنوں کی یلغار ہے، مسلمان جس نے دنیا کو عدل ومساوات کا درس دیا، آج مظلوم و مقہور ہے ، وہ مسلمان، جنھوں نے دنیا کو آئین جہاں بانی و جہاں گیری سکھلایا، وہی آج محکوم و مجبور ہے، وہ مسلمان ، جنھوں نے جہالت کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں علم کی شمع روشن کی ، آج تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے ہے، جس نے قدم قدم پر الفت و محبت کے چراغ جلائے ، آج نفرتوں میں گھرا ہوا ہے ، وہ مسلمان ، جس کی بدولت دنیا سے ظلم و عدوان اور کفرو شرک کی ظلمتیں چھٹ گئیں ، آج تاریکیاں اس کا مقدر بن گئی ہیں۔
اے درد مند انسانو!ذرا سوچو تو سہی، آج مسلمان لوح جہاں پر حرف مکرر کیوں بن گیا ہے؟ کس جرم کی پاداش میں اسے حرف غلط کی طرح مٹایا جارہا ہے ؟ عصمتیں فریاد کررہی ہیں، بیوگی ماتم کررہی ہے، یتیموں کی دل دوز چیخوں سے فضا لرز رہی ہے ؛ مگر آسمان پھٹ کیوں نہیں جاتا؟ زمین کا سینہ چاک کیوں نہیں ہوجاتا، دعائیں رائیگاں کیوں جاتی ہیں؟ یہ بے بسی کیوں دیکھنی پڑ رہی ہے؟ آخر یہ مظلومی ومقہوری کیوں؟ یہ محکومی و مجبوری کس لیے؟
میرے دوستو! معاف کرنا، میں نے غلط کہا کہ مسلمان مظلوم و مقہور ہے؛ مسلمان مظلوم نہیں؛ بلکہ ظالم ہے، مقہور نہیں جابر ہے، محکوم نہیں ؛ ستم گر ہے، مجبور نہیں ؛ مجرم ہے، ستم رسیدہ و الم گزیدہ نہیں ؛ بلکہ پیکر عصیاں اور خوگر طغیاں ہے۔
شیدائیان اسلام! ہماری عزت ،ہمارے رنگ و روپ کی رہینِ منت نہیں ، ہماری سربلندی کا راز قوم ونسل میں نہیں، ایمان و یقین میں ہے، ہماری قوت و اعتصام کسی سیاسی پارٹی کی چاپلوسی میں نہیں ؛ بلکہ اعتصام بحبل اللہ میں پنہاں ہے اور ہماری سر فرازی کی شرط اولیں ان کنتم مؤمنین ہے۔آج اگر ہم پر فتنوں کی یلغار ہے، حوادث کی دست درازیاں ہیں ، ہم دبائے جارہے ہیں، ہم ستائے جارہے ہیں، ہم ملامتوں کے شکار ہیں، دشنام طرازیوں میں گرفتار ہیں ، تو قصور ہماراہے ، مجرم ہم ہیں، غلطی ہم سے ہوئی ہے ؛ کیوں کہ جادۂ حق سے منحرف ہوکر، کتاب و سنت کو چھوڑ کر ، احکام الٰہی سے منھ موڑ کر، شرائط کی تعبیر، نتائج کی تمنا، فرائض کے بغیرحقوق کی خواہش دیوانے کا خواب ہے، سوچ کا فریب ہے اور عقل کا سراب ہے۔
میرے دوستو! ابھرتے فتنوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ، عظمت رفتہ کے حصول کے لیے ہمیں اپنے ماضی کی طرف پلٹنا ہوگا، اللہ و رسول کے فرمان پر عمل پیر اہونا ہوگا، ان کنتم مؤمنین کو پیش نظر رکھنا ہوگا، ماضی کی روشنی سے مستقبل کو روشن کرنے کی کوشش کرنی پڑے گی، فتنوں کو حلم و تدبر اور متانت و سنجیدگی سے دبانا ہوگا۔
لیکن اگر وہ ہمارے اس امن کا مذاق اڑائے، صلح کے پھول کو پاؤں تلے روندے، انسانیت کا گلاگھونٹے، تو پھر تلواروں کی چھاؤں میں بات کرنا ہوگی، نیزوں کی زبان میں گفتگو کی جائے گی، ہنگامۂ داروگیر بپا کرنا ہوگا، بغاوت پر آزادی کا ترانہ گانا ہوگااور بزور شمشیر فتنوں کو شکست دینا ہوگی، کیوں کہ
وہیں سے پھوٹتے ہیں آب حیات کے چشمے
جہاں سے نہائے ہیں کربلا کی طرح
وما علینا الا البلاغ