باکمال خطیب بننے کے زریں اصول
محمد یاسین جہازی
کسی بھی میدان کے نوواردوں کے سامنے سب سے بڑی پریشانی یہ در پیش ہوتی ہے کہ اپنے سفر کو کیسے شروع کریں ؟چنانچہ وہ اس مسئلے کو لے
کراتنا حیران و سراسیمہ ہوجاتے ہیں کہ ہر کس ونا کس کی رائے و مشورے پر عمل کرنا شروع کردیتے ہیں ۔اس مرحلے پر اگر ان کی صحیح رہ نمائی نہیں ہو پاتی ہے اور صلاح کار ان کی نفسیات کے مطابق اچھی صلاح نہیں دے پاتا ہے ،تو انھیں آگے چل کر ناکامی و نامرادی کا منھ تک دیکھنا پڑ جاتاہے اور وہ یہ تصور قائم کرلیتے ہیں کہ اس فن کا حصول میری ہمت و حوصلے سے بالاتر ہے ۔ اس لیے یہ مرحلہ جہاں نوواردوں کے لیے صبر آزما اور مشقت آمیز ہوتا ہے ،وہیں رہ نماؤں کے لیے بھی محنت طلب اور آزمائش کن ہوتا ہے ؛ کیوں کہ اِنھیں کی نفسیات پرکھ کی صلاحیت اور ہر ہر طالب خطابت کے لیے جدا جدا مناسب ہدایات پر نوواردوں کی کامیابی و کامرانی اور ناکامی و نامرادی کا دارومدار ہوتا ہے ۔اس لیے اس مقام پر جہاں نوواردوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی رہ نمائی کے لیے اُنھیں حضرات کو رہ نما بنائیں،جو اس فن میں مکمل مہارت رکھتے ہوں اور ہر ایک کی نفسیات کے مطابق رہ نمائی کرسکتے ہوں ، وہیں رہ نماؤں سے یہ گذارش ہے کہ جو مبتدی آپ کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیے آئیں ،ان کی صحیح اور مکمل رہ نمائی کریں ۔آپ ان کی زندگی سے کھلواڑ نہ کریں ۔اگر ان میں سے کسی کی اصلاح آپ کے بس کی بات نہ ہو،تو ان کے سامنے اپنی عاجز ی کا اظہار کردیں اور دوسروں سے رجوع کرنے کی نیک صلاح دے دیں۔خواہ مخواہ ان کا قیمتی وقت ضائع نہ کریں ۔ذیل میں عمومی ہدایات کے تحت ہم نوواردوں سے چند گذارشات کر رہے ہیں ۔
(۱)کسی بھی علم وفن سیکھنے کے لیے صرف دوہی طریقے ہیں :(الف)مطالعہ اور اس فن کی بنیادی باتوں سے واقفیت ۔(ب)مشق وتمرین۔ہرچند کہ فن سیکھنے کے لیے مطالعہ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ؛لیکن فن خطابت کے لیے سب سے زیادہ اہمیت مشق وتمرین کی ہے۔اس لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ فنی نکتوں اور علمی موشگافیوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ وقت مشق و تمرین میں صرف کریں ۔
(۲)اگر چہ قدیم اساتذۂ فن نے سارا زور اس بات پرصرف کردیاہے کہ رٹ کر تقریر نہیں کرنی چاہیے ؛بلکہ ہمیشہ فی البدیہہ اور برجستگی کے ساتھ بولنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔یہ بات اس شخص کے حق میں تو قابل قبول ہوسکتی ہے ،جو خطبا کی فہرست میں آچکے ہیں ۔لیکن ایک مبتدی کے حق میں نہیں ؛کیوں کہ تجربہ بتلاتا ہے کہ ایک مبتدی کے لیے رٹ کر تقریر کی مشق جس قدر مفید اور سود مند ہے، وہ بغیر رٹے کرنے میں نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مبتدی بحیثیت مبتدی اس درجہ خالی الذہن ہوتا اور اسٹیج کا خوف اس قدرمسلط ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی کہنے سے عاجز و قاصر رہتا ہے ۔ایسی صورت میں کوئی چیز اسے سہارا دے سکتی ہے ،تو وہ رٹی ہوئی بات ہی ہوسکتی ہے ،جو وہ اسٹیج کا خوف محسوس کرتے ہوئے بھی بول سکتا ہے ۔اور جب متعدد بار اس طرح سے رٹ کر تقریر کر لے گا ،تو اسٹیج کا خوف بھی دور ہوتا چلاجائے گا اور مواد ومیٹر کا ایک بڑا ذخیرہ بھی اس کے سینے میں محفوظ ہوجائے گا ۔پھر وہ بلا خوف و تردد اپنے حافظے کے بھروسے پر خودبخود فی البدیہہ تقریر کرنے لگے گا اور رٹنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔اس لیے ایک مبتدی کے لیے رٹ کر تقریر کی مشق زیادہ مفید اور سود مند ہے ۔
(۳)آج کل طباعت کی سہولتوں اور رطب و یابس جمع کردینے والے مؤلفوں کی کثرت کی وجہ سے بری بھلی ہر طرح کی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں ،جس کی وجہ سے کتاب کے انتخاب کا مسئلہ ایک مبتدی کے لیے مشکل مسئلہ بن گیا ہے ۔اس لیے اس سلسلے میں راقم الحروف کا مشورہ یہ ہے کہ آپ انھیں خطیبوں اور ادیبوں کی کتابوں اور تحریروں کا مطالعہ کریں،جو اپنے فن میں سند کا درجہ اور اساتذۂ فن کی حیثیت رکھتے ہیں ،جیسے :مولانا ابوالکلام آزاد ؒ ، مولانا شاہ عطاء اللہ بخاری ،مولانا علی جوہر، مولانا حسین آزاد ،مولانا ڈپٹی نذیر احمد ،مولانا شبلی نعمانی ،ؒ مولانا الطاف حسین حالی ؒ ،علامہ اقبال ؒ ،مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ وغیرہ ۔ان کی رشحات و نگارشات کے مطالعہ کرنے سے جہاں آپ کی تقریری صلاحیت پروان چڑھے گی، وہیں آپ کی زبان وبیان کی بھی اصلاح ہوگی اور طلاقت وسلاست بھی پیدا ہوگی۔
(۴)آپ ہر طرح کے جلسے جلوس میں شرکت کرنے کی کوشش کریں اور نام ور خطیبوں کے لب ولہجے ، اشارات وحرکات ،مدوجزر،زیروبم،اندازواسلوب ؛غرض ہر چیز پر نگاہ رکھیں اور ان سے کچھ حاصل کرنے کوشش کریں ۔
(۵)ٹیپ،سی۔ڈی اور موبائل جیسے جدید آلات و سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان خطیبوں کوبار بار سنیں اور دیکھیں ،جن کو بہ راہ راست اسٹیج پر سن چکے ہیں اور ان کو بھی جن کو بہ راہ راست سننے کا اتفاق نہیں ہواہے۔
(۶)چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے،ملنے جلنے والے سبھی بے تکلف یارو احباب کے درمیان بے باکی کا مظاہرہ کریں اور جو کچھ بولیں ،قواعد زبان کی رعایت کرتے ہوئے بلا جھجھک اور انتہائی سلاست کے ساتھ بولیں۔اس میں کسی طرح کا خوف یا شرم کو مانع نہ بننے دیں ۔باقی مزید باتیں ’’مشق خطابت‘‘کے زیر عنوان آرہی ہیں ۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔ھوالموفق والمعین۔
مشقِ خطابت
ماقبل میں یہ بات آچکی ہے کہ کسی بھی فن کے حصول کا سراسر دارومدارمطالعہ اور مشق پر ہے۔ گرچہ ہر فن میں مطالعہ کو اولیت حاصل ہے ؛لیکن فنِ خطابت میں سب سے زیادہ اہمیت مشق کی ہے اور مطالعہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے ۔ مشق وتمرین کا مسئلہ اگر زیادہ مشکل نہیں ہے ،تو اس قدر آسان بھی نہیں ہے کہ جس کا جس طرح جی چاہے ، اسی طرح مشق کرنا شروع کردے؛بلکہ مشق خطابت کے بھی کچھ اصول اور زریں طریقے ہیں ،جن کو اپنا نااورصحیح طور پر برتنا ضروری ہے ۔ذیل میں وہ طریقے لکھے جارہے ہیں ،جنھیں خود مملکت خطابت کے بے تاج بادشاہوں نے عملی تجربے کے بعد مفید پایا ہے اور انھیں طریقوں پر چل کر وہ منزل مقصود تک پہنچے ہیں ۔
(۱)’’جو شخص خطابت سیکھنا چاہتا ہے ،اس کو چاہیے کہ بولنے سے پہلے لکھنے کی مشق کرے۔ مضمون لکھتے وقت کوئی سامنے نہیں ہوتا ،جس کا خوف ہو اور دماغ میں یکسوئی ہوتی ہے۔مضمون لکھ کر کسی جلسے میں لوگوں کے سامنے پڑھے ۔اس کے عیب وہنر سوچے اور دوسروں سے دریافت کرے ۔پہلے چھوٹے اور سہل مضامین سے ابتدا کرے۔ جس قدر مشق بڑھتی جائے اور لکھنے کا سلیقہ آتا جائے ،اسی قدر بڑے اور مشکل مضامین لیتا رہے۔اسی طرح پہلے چھوٹے جلسوں میں پڑھے پھر بڑے جلسوں میں بیان کرے ۔‘‘(خطابت وتقریر،ص؍۴۴)
(۲)تقریر کی کوئی معیاری کتاب سامنے رکھ لیجیے اور تقریری انداز میں بآواز بلند پڑھیے ۔
(۳)تقریر کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیجیے اور چھوٹے بڑے سبھی جلسوں میں تقریر کرنے کی کوشش کیجیے ۔
(۴)کسی بھی مضمون کا ذہن میں ایک خاکہ تیار کر لیجیے اور تنہائی میں نا قابل خطاب اشیا کو مخاطب بنا کر تقریر کیجیے اور یہ تصور قائم کر لیجیے کہ وہ ہمارے سامعین ہیں اور ہماری گفتگو کو سن رہے ہیں ۔
(۵) تنہائی میں چوں کہ کوئی ناقد نہیں ہوتا ،جو اس کو اس کی خامیوں پر تنبیہہ کرے ،اس لیے جو خامیاں ہوتی ہیں، ان کی اصلاح نہیں ہوپاتیں؛بلکہ وہ اور پروان چڑھ جاتی ہیں ،جو پھر بعد میں کبھی دور نہیں ہوپاتیں۔اس لیے ان کی اصلاح ضروری ہے ۔اور اس کے لیے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ آپ کسی ایسے کمرے کو مشق گاہ بنائیں، جس میں بڑے بڑے سائز کے شیشے فٹ ہوں ۔ان کے سامنے کھڑے ہو کر تقریر کریں اور ساتھ ہی یہ دیکھتے رہیں کہ ہماری کونسی حرکت نازیبا اور کونسا اشارہ نامناسب ہے ،پھر اس کی اصلاح کی کوشش کریں ۔اسی طرح اس پر بھی نگاہ رکھیں کہ ہم کسی مخصوص حرکتوں کا بار بار ارتکاب تو نہیں کر رہے ہیں ۔چہرے مہرے کی ہیئت ٹھیک ٹھاک رہتی ہے کہ نہیں وغیرہ وغیرہ ان تمام چیزوں پر نگاہ رکھیں اور ان کی اصلاح کی فکر کریں ۔اور اپنی آواز ، انداز ،لب ولہجے،تکلم کا زیرو بم ،الفاظ کا مدو جزر اور ان جیسے پہلووں کی خامیوں کو پکڑنے کے لیے ٹیپ وغیرہ کا سہارا لیں ۔
(۶)اگر کسی وجہ کر آپ کے لیے یہ صورت ممکن نہیں ہے ،تو پھر ایسے دوستوں کی ایک تنظیم بنائیں ،جو آپ ہی کی طرح تقریروخطابت سیکھنے کے شیدائی ہوں اور انھیں بھی کسی سہارے کی تلاش ہو اور ہر ایک فرد اس بات کے لیے فکرمند ہو کہ کوئی ایسا دوست ملے ،جو اس کی غلطیوں کی نشاندھی کرے ۔
(۷)اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو،تو پھر آپ کسی قریبی مدرسے ،کالج اور یونی ورسٹیوں کی انجمنوں ۔جن کا بنیادی مقصد طلبہ میں تقریرو خطابت کی روح پھونکنی ہوتی ہے ۔سے جڑ جائیں اور ان کے ہفتہ واری ،پندرہ روزہ یا ماہانہ پروگرام میں پابندی کے ساتھ شرکت کریں ۔
(۸)ملک کے طول عرض میں کہیں بھی مسابقۂ خطابت ہو رہاہو ،تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کریں۔
(۹)اگر مذکورہ بالا تمام صورتیں آپ کے لیے نا پید ہیں ،تو پھر آپ اپنے گھر کے افراد کو اکٹھا کرکے تقریر کی مشق کرسکتے ہیں۔
(۱۰)اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو ،توجنگل و بیابان میں نکل جائیں اور درخت ، پتھر اور ان جیسی بے جان چیزوں کو اپنا مخاطب بنا کر مشق کریں ۔ان شاء اللہ تعالیٰ کامیابی ضرور ملے گی اور بہت جلد ایک باکمال و بے مثال خطیب بن کر ابھریں گے۔