4 Aug 2020

فیملی یا فرینڈ……؟

فیملی یا فرینڈ……؟ 

محمد یاسین جہازی

شادی کے بعد مسلسل ساتھ رہنے سے پریشان شوہر نے بیوی سیلڑتے لڑتے یہ کہہ دیا کہ جہاں میرا وطن معیشت ہے، وہاں آگئی، تو تجھے طلاق ہے۔خدا جانے آگے کا واقعہ کس قدر مبنی بر صداقت ہے، کیوں کہ اس واقعہ کے راوی کو حتمی روایت سے انکار ہے۔ یعنی بیوی نے اعلان کردیا کہ میں شوہر کے وطن معیشت میں گئی تھی؛ لہذا مجھے طلاق ہوگئی، اور پھر شوہر کے ساتھ رہنے کی ضد کرنے والی بیوی نے شوہر سے علاحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنے مائکے میں اقامت اختیار کرلی۔ابھی کچھ ہی مہینے گذرے تھے کہ شوہر سے علاحدگی کا صدمہ برداشت نہ کرسکی اور اپنی تین بیٹیوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیں۔

اس واقعہ میں پھر یہ ہوا کہ شوہر نے دوسری شادی کرلی۔یہ دوسری بیوی نئی تو تھی؛ پر سکنڈ ہینڈ ہونے کی وجہ سے زندگی کے بہت سے مخفی تجربات سے واقف تھی، جس کا فوری اثر یہ ظاہر ہوا کہ پہلی بیوی کی تینوں بچیاں بے سہارا ہوگئیں۔ شوہر کے مزاج کو بھانپتے ہوئے اس نے جہاں ان بچیوں سے علاحدہ گھر بسایا، وہیں دوسری طرف اپنی بیٹے بیٹیوں کے ساتھ شوہر سے بھی علاحدہ اور آزاد زندگی گذارنے لگی۔اس کی یہ زندگی بہت پرفیکٹ ثابت ہوئی؛ کیوں کہ اس کے پہلے شوہر کے خلاف یہ دوسرا شوہر بالکل اپنی کیمسٹری کے مطابق ملا؛ کیوں کہ شوہر کو بھی فیملی سے زیادہ فرینڈ عزیز تھے اور بیوی بھی شوہر سے زیادہ فرینڈ لوور تھی۔ دونوں کی ایک ہی جیسی فطرت ان کی خوش حال زندگی کی ضامن تھی۔

اس فیملی کے حالات کے راوی نے پہلی بیوی کی بچیوں کے ناگفتہ بہ حالات کے بارے میں راقم کو بتایا، تو میں نے شوہر سے ملاقات کی،جو اتفاق سے مجھے پہلے سے ہی جانتے تھے؛ حال احوال میں شوہر محترم سے راقم نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک فیملی زیادہ عزیز ہے یا فرینڈ؟۔ ان کا برملا اعتراف تھا کہ مجھے فیملی بھی عزیز ہے؛ لیکن فرینڈ کے بغیر زندگی کا تصور پھیکا نظر آتا ہے۔ معلومات کے لیے عرض کردوں کہ شوہر محترم قاسمی اور ندوی دونوں نسبت رکھتے ہیں، اس لیے اس جواب پر جب پہلی بیوی سے پیدا شدہ بچیوں کی خیر و خبر، کفالت اور نگہہ داشت کے حوالے سے سوال کیا، تو برہم آمیز جواب دیا کہ میری فیملی کے بارے میں تمھیں اتنی دل چسپی کیوں ہے؟۔ سوال پر مبنی یہ جواب واقعتا مجھے خاموش کردینے کے لیے کافی تھا، اور ایک منٹ کے لیے مجھے بھی لگا کہ شاید یہ غیر ضروری سوال تھا؛ لیکن غیرت کے جذبات پر مبنی ان کے سوالیہ جواب سے اچانک یہ جواب ذہن میں آیا کہ اگر آپ کو اپنی فیملی سے زیادہ فرینڈ عزیز ہے، تو مجھے بھی فرینڈ سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ مجھے فیملی زیادہ عزیز ہے اور فرینڈ ثانوی درجہ رکھتے ہیں۔ اور آپ اس سے بالکل الٹا مزاج رکھتے ہیں۔ اور اس الٹا معاملہ نے آپ کی زندگی اور فیملی کے سارے معاملات کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔

یہ واقعہ سب سے پہلے میرے لیے عبرت پیش کرتا ہے کہ فرینڈ بیسیس زندگی رنگین ضرور ہے؛ لیکن وہ آپ کو فیملی جیسی حسین و خوب صورت زندگی عطا کردے؛ ایسا ممکن نہیں؛ اس لیے عبرت یہی ہے کہ ہر ایک شخص کو فیملی کو بھی عزیز رکھنا چاہیے اور فرینڈ کو بھی؛ لیکن جہاں ترجیحات کی بات آئے گی، تو زندگی اور شرعی تقاضا یہی کہاجائے گا کہ پہلے فیملی ہے، پھر فرینڈ ہے۔یہ تو میرا نظریہ ہے اور آپ کا……؟


18 Jul 2020

جہازی صاحب خیریت سے ہیں …… سے خیریت پوچھنے والے نہیں رہے!

جہازی صاحب خیریت سے ہیں …… سے خیریت پوچھنے والے نہیں رہے!
محمد یاسین جہازی 9891737350
غالبا 1996میں راقم کانپور کے ایک تعلیمی ادارہ ’مدرسہ مظہر العلوم بیگم گنج، دادا میاں چوراہا‘ میں زیر تعلیم تھا، اس وقت میری عمر بارہ چودہ سال کی تھی؛ اسی لاشعوری دور میں مدرسہ کے باشعور طلبہ سے مولانا متین الحق اسامہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی شعلہ آسا خطابت کے تذکرے سنا کرتا تھا؛ بالخصوص فرق باطلہ کے خلاف ان کی تقریر گویاشمشیر آبدار ہوا کرتی تھی، ہر ذہن و فکر کو متاثر کرنا، ان کی خطابت کا طلمساتی خاصہ تھا۔ بعد ازاں 2009کے آواخر میں راقم جب جمعیت علمائے ہند سے عملی طور پر وابستہ ہوا؛ تو مولانا کو بارہا دیکھا اور مزید جاننے کا موقع ملا۔ دہلی میں منعقد ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے حضرت کی معیت کا شرف حاصل ہوا؛ اس سفر میں حضرت کے کریمانہ و متواضعانہ اخلاق کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
مولانا مرحوم جمعیت علمائے ہند کی میٹنگوں میں برابر شرکت فرمایا کرتے تھے اور اکابرین کی صف میں نمایاں نظر آتے تھے۔ دفتر جمعیت علمائے ہند میں جب بھی مولانا سے ملاقات ہوئی، توہمیشہ چہرے پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ خود سلام کرتے یا سلام کا جواب دیتے اور ساتھ ہی فرمایا کرتے کہ’’جہازی صاحبخیریت سے ہیں!“۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ملاقات ہوئی اور یہ جملہ نہ کہا ہو۔ کبھی کبھار اس کے ساتھ ”جہازی میڈیا“ کے حال احوال بھی پوچھا کرتے تھے۔
10مارچ 2018کو لکھنو میں منعقد جمعیت علمائے اتر پردیش کا تحفظ ملک و ملت کے اجلاس عام کی تیاریوں کے سلسلے میں مرکزی دفتر سے جو حضرات لکھنو میں قیام پذیر رہے، ان میں ناچیز بھی شامل تھا، جب اجلاس مکمل طور پر کامیاب رہا، توکلمات تشکر پیش کرتے ہوئے کامیابی کا سہرا، دیگر اکابرین کے سر باندھتے ہوئے، مولانا مرحوم نے ناچیز کا بھی نام لیا۔ یقین مانیے کہ مولانا مرحوم کی اس حوصلہ افزائی نے ان کے تئیں جو جذبات قدر دل میں پیدا کیے، ان کے بیان کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
11/ستمبر1917بروز سوموار میری دادی ماں کا انتقال ہوگیا تھا۔ کچھ دنوں بعد جب میں دہلی واپس ہوا اور مولانا سے دہلی دفتر میں ملاقات ہوئی، تو سب سے پہلے مولانا نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں نے آپ کی دادی کے لیے مدرسہ میں ایصال ثواب کرایا تھا۔ مولانا کا یہ مشفقانہ کردار جان کر بلا اختیار آنکھیں نم ہوگئیں۔
مولانا کے ہم سبق مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی سکریٹری جمعیت علمائے ہند سے ملی جان کاری کے مطابق آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت جامعہ ہتھورا باندہ میں ہوئی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور ممتاز شاگرد کے طور پر 1989میں فراغت حاصل کی۔
عملی زندگی میں پہلے جامع العلوم پٹکاپور میں تدریس میں قدم رکھا۔ بعد ازاں انھوں نے مدرسہ اشرف العلوم جاجمؤ قائم کیا۔ تدریس کے ساتھ ساتھ ملی خدمات میں بھی وہ پیش پیش رہے اور ملی تنظمیوں کو اپنی وابستگی سے زینت بخشتے رہے۔ چنانچہ وہ پہلے جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے مدعو خصوصی رہے، بعد ازاں رکن منتخب کیے گئے۔ جمعیت علمائے اتر پردیش کے سکریٹری، نائب صدر، جمعیت علمائے کان پور کے صدر اور حالیہ ٹرم کے 2016میں جمعیت علمائے اتر پردیش کے صدر تھے۔
دو دن پہلے مولانا مرحوم کے صاحبزادے مولانا امین الحق عبد اللہ اسامہ صاحب سے منسوب واٹس ایپ پر ایک خبر نظر سے گذری، جس میں مولانا کو کورونا پوزیٹیو بتایا گیا تھا۔ خبر پڑھ کر انہونی کا شبہ گذرا۔ یہ شبہ اتنا بھی قوی نہیں تھا کہ وہ آج کی خبر کا سبب بن جائے۔ بس شبہ اتنا تھا کہ ہاسپٹیل والے کہیں غیر انسانی حرکت نہ کردے۔ لیکن آج مورخہ 18جولائی 2020بروز سنیچر صبح صبح تقریبا چار بجے، جو تہجد اور مقبولیت کی گھڑی ہوتی ہے، گھڑی دیکھنے کے لیے موبائل آن کیا، تو سب سے پہلے اسی جان کاہ خبر پر نظر پڑی۔ دل دھک سا ہوکر رہ گیا۔ طبیعت میں کافی بے چینی محسوس ہونے لگی، جب کسی پہلو قرار نہیں آیا، تو مسجد کا رخ کیااور امام صاحب سے مل کر واقعہ کی اطلاع دی، انھوں نے بھی انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا۔ اور بعد نماز فجر الحاح و زاری کے ساتھ مولانا مرحوم کے لیے جہاز قطعہ گڈا کی جامع مسجد میں دعائے مغفرت کی۔
پونے آٹھ بجے صبح مدرسہ اشرف العلوم جاج مؤ کے احاطہ میں پہلی نماز جنازہ ہوئی، پھر یکے بعد دیگرے لوگ آتے گئے، تو کئی کئی بار جنازے کی نماز اد اکی گئی۔ موقع پر موجود مولانا مرحوم کے خادم خاص مولانا اظہار مکرم صاحب سے ملی فونک رابطہ کی معلومات کے مطابق آٹھ نو مرتبہ جناز کی نماز ادا کی گئی اور مدرسہ کے احاطہ میں ہی تدفین عمل میں آئی۔ …… اس طر ح چہرے کی بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ”جہازی صاحب خیریت سے ہیں!“ سے خیریت پوچھنے والے ہمیشہ ہمیش کے لیے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ آمین

4 Jul 2020

مولانا معز الدین صاحب! مشکور ہوں آپ کا

مولانا معز الدین صاحب! مشکور ہوں آپ کا
محمد یاسین جہازی
مشہور اسلامی اہل قلم، استاذگرامی قدر حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب دامت برکاتہم استاذ ادب عربی دارالعلوم دیوبند، تاجدار ادب حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمۃ اللہ علیہ کی زبان و بیان کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
ہم ایسے لوگوں کو ان سے بات کرکے اتنا مزا آتا تھا کہ اسے بیان کرنے کے لیے راقم کے پاس موزوں الفاظ نہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں ان کے ایسے چند ہی لوگ دیکھے ہیں، جو اس صفت میں ان کے شریک تھے، ان کی جدائی سے شدید رنج ہوا۔ اور ایسے ہی مولاناؒ کی وفات سے؛ کیوں کہ سخن وری اور الفاظ و تعبیرات کی نزاکت کی معرفت کی صفت جن لوگوں میں ہوتی ہے، وہ اپنے ایسے دیگر لوگوں کی بھی بے حد قدر کرتے ہیں اور ان سے مخاطب ہوکر جی اتنا خوش ہوتا ہے کہ تا دیر وہ خوشی قائم رہتی ہے۔ان کے برعکس لوگوں سے بات کرکے بہت افسوس ہوتا ہے؛ کیوں کہ یہ لوگ گھوڑے اور گدھے کے فرق کو ذرا بھی در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔“ (ہفت روزہ الجمعیۃ، مولانا ریاست علی بجنوری نمبر، ص/31، اکتوبر 2017)
واقعہ یہ ہوا کہ ناچیز ”جمعیت کا دائرہ حربیہ یا مجلس حربی“ کے مضمون کے تعلق سے کچھ استفسار کے لیے مولانا معز الدین احمد صاحب قاسمی ناظم امارت شرعیہ ہند جمعیت علمائے ہند کی خدمت میں حاضر ہوا۔جمعیت نے کچھ دنوں پہلے حضرت مولانا احمد سعید صاحب ناظم جمعیت علمائے ہند نور اللہ مرقدہ پر ایک سیمنار کیا تھا اوراب اس کے مقالات کو کتابی شکل دے دی گئی ہے۔ چوں کہ راقم کے پاس یہ کتاب نہیں تھی، تو سوچا کہ لاک ڈاون میں کتاب خریدنے سے بچنے کے لیے عاریت پر پڑھ لیتے ہیں۔ اگر کوئی نئی تحقیق ہوگی، تو استفادہ کرلیا جائے گا۔چنانچہ حضرت سے یہ کتاب عاریت پردو دن کے لیے عنایت فرمانے کی گزارش کی۔ حضرت نے یہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ میں خرید کر لایا ہوں،اور میں کتاب بیچتا ہوں، اس لیے میں نہیں دوں گا، تمھیں خریدنی ہوگی۔ میں نے دوبارہ گزارش کی اور صرف ایک دن کے لیے مانگا، اس پر جواب تھا کہ جب میں ایسے ہی دے دوں گا، تو کتاب کون خریدے گا۔ بعد ازاں یہ وقت کم کرتے کرتے راقم اس پرپہنچا کہ صرف مشمولات دیکھنے کی اجازت دے دیں؛ حضرت نے بظاہر ناراضگی ظاہر فرماتے ہوئے سختی سے دینے کی ممانعت کی۔ کچھ دیر دوسرے موضوعات پر گفت و شنید ہوتی رہی۔ جب راقم نے واپسی کی اجازت طلب کی، تو مولانا محترم نے نہ صرف یہ کہ ”تذکرہ سحبان الہند“ ہدیہ کردیا؛ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حال کی اشاعت پذیر ایک اور کتاب ”تذکرہ مولانا عبد الباری فرنگی محلی“ بھی پیش کردی۔ یہ کتاب 1108صفحات پر مشتمل ہے، جب کہ اول الذکر میں 880صفحات ہیں۔ اور بازار کی قیمت کے اعتبار سے دونوں کتابیں خریدینے میں تقریبا دو ہزار روپے لگ سکتے ہیں۔
مولانا محترم اس سے پہلے بھی دو ضخیم کتابیں: ”تذکرہ فدائے ملت“ اور”تذکرہ ابوالمحاسن“ عنایت فرماچکے ہیں۔
جمعیت کے دائرہ حربیہ پر میری جان کاری کے مطابق اس کی پچاسی سالہ مدت میں کسی نے بھی مستقل موضوع بناکر نہیں لکھا ہے۔ اور جن حضرات نے بھی کچھ لکھا ہے، تو مورخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی لکھی ایک صفحہ کی تحریر کو مآخذ بناکر لکھا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھا ہے۔اور اس تحریر کے متعلق خود مورخ ملت کا بیان یہ ہے کہ
بہرحال احقر کو اپنے متعلق یہ بات یاد ہے کہ وہ جمعیت علمائے ہند کانواں ڈکٹیٹر تھا۔(اس زما نہ کا تمام ریکارڈپولیس کے چھاپو ں اور باقی ماندہ دیمک کی نذر ہوچکا، لہذاپختہ بات عرض کرنی مشکل ہے)علاوہ ازیں ایسی باتیں ریکارڈ میں رکھی بھی نہیں جاتی تھیں۔ ان کو یا تو ذہن میں محفوظ رکھا جاتا یا انفرادی یادداشتوں میں۔“ (الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص/90)
جس کی وجہ سے بعد کے تمام مولف اور مقالہ نگار سے یہ تسامح ہوگیا کہ کچھ سے کچھ لکھتے رہے۔ لیکن راقم نے اصل ریکارڈ تلاش کرکے، مستند جان کاری پیش کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اور اب تک اختصار کے باوجود سو صفحات سے متجاوز ہوچکی ہے۔ یہ تحریر ناچیز کی تالیف”جمعیت علمائے ہند کے سو سال …… قدم بہ قدم، جلد سوم“ کا حصہ ہے۔
جب اس تحریر کو کچھ ارباب علم و دانش کے سامنے تنقید و تبصرہ کے مقصد سے پیش کیا، تو کسی سے یہ تاثر ملا جیسے کہ بھینس کے سامنے بیم بجانے کی غلطی ہوگئی؛ لیکن بعض محقق اہل قلم نے نہ صرف اس تحریر کو سراہا، اور مفید مشورے دیے؛ بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی بھی نصیحت کی۔ ناچیز ان سبھی ارباب ذوق کا شکر گزار ہے۔
ان محقق اہل قلم میں مولانا معز الدین احمد صاحب کے سامنے جب یہ تحریر آئی، تو انھوں نے  بھی حوصلہ افزائی کی اور درج بالا واقعہ میں مذکور خود کے لیے خریدی دو دو کتابیں ناچیز کو بطور ہدیہ پیش کردیا۔ ایسے وقت میں جب کہ ضروریات حیات کے لیے پیسے کی قلت ہے اور  راقم کے لیے شوق طلب کو تسکین دینے کے لیے کتاب خریدنا بھی ضروریات حیات کا ایک حصہ بن چکا ہے؛ دو دو کتابیں ہدیہ کردینا؛ یہ کسی”نزاکت کی معرفت کی صفتشخصیت کا کارنامہ ہی ہوسکتا  ہے، جواپنے ایسے دیگر لوگوں کی بھی بے حد قدر کرتے ہیں اور ان سے مخاطب ہوکر جی اتنا خوش ہوتا ہے کہ تا دیر وہ خوشی قائم رہتی ہے۔
یہ کام ایسے لوگوں کا بالکل نہیں ہوسکتا جو بقول اسلامی اہل قلم ”ان کے برعکس لوگوں سے بات کرکے بہت افسوس ہوتا ہے؛ کیوں کہ یہ لوگ گھوڑے اور گدھے کے فرق کو ذرا بھی در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔
اس لیے مولانا کا دوبارہ تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مولانا معز الدین احمد صاحب کی عمر کو دراز فرمائے اور ہم چھوٹوں پر شفقت و عنایات کا سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے۔

2 Jul 2020

تجارتی شادی کے بھیانک انجام

تجارتی شادی کے بھیانک انجام
محمد یاسین جہازی 9891737350
مکئی اپنی پورے شباب پر تھی،اس کے ہرے بھرے پتے اور بھٹوں کی دراز زلفوں نے مسکرا مسکرا کر منظر کو بے انتہا حسین بنا دیا تھا؛ ساتھ ہی بادل سے آنکھ مچولی کرتے چمچماتی دھوپ اور خنک آمیز پر لطف ہواموسم کو انتہائی خوشگوار بنا رہی تھی۔اتنے پرکیف ماحول میں کھیتوں کے بیچوں مچان کی چارپائی پرلیٹا ہواایک یتیم نہ جانے کس غم میں ڈوب کر پر فریب مناظر کا منھ چڑھا رہا تھا۔وہ موسم کی دل کشی سے بے خبر کسی اور دنیا میں گم سم ہوکر سوچ کی عمیق گہرائی ڈوبا ہوا تھا، تو اسے کیسے پتہ رہتا کہ وہ پرکیف موسم میں ایک اونچے مچان پر ہے۔ اسی دوران ایک نیک صفت آدمی ادھر سے گذرے، انھوں نے پرکیف موسم میں بے کیف یتیم کو دیکھ کر مخاطب ہوا کہ آخر اس بے چینی کی وجہ کیا ہے۔ یتیم نے جواب دیا کہ بارہ تیرہ سال کی عمر میں میرے والد محترم کا انتقال ہوا۔ میں نے اس غم کو برداشت کرلیا۔ یتیمی نے پیروں میں زنجیریں ڈالیں، پڑھائی چھوڑ دی۔ بھکمری نے ستایا، تو نوکری کر رہا ہوں۔ تین چارسالہ بھائی کی پرورش و پرداخت کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے؛ والد محترم نے بینک سے جو بھاری قرض لیا تھا، اس کی قسطیں بھی ادا کرنے کی ہمت ہے مجھ میں؛لیکن میرے دوش ناتواں پر بہن کی شادی کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔…… میں کیسے پورا کروں بھاری بھرکم جہیز کے مطالبہ کو۔ پورے گوتیہ کی دعوت کا انتظام کیسے ہوگا۔ باراتیوں کی سواگت میرے لیے کیسے ممکن ہے۔ سماج کے درجنوں رسوم کی ادائیگی کے لیے میں کیا کروں، کہاں جاوں ……۔ کیا میں خود کشی کرلوں؟۔ عزت کا جنازہ نکلنے سے تو بہتر ہے کہ عزت کے وجود کو ہی ختم کردیا جائے۔ اس بے رحم سماج میں گھٹ گھٹ کر زندہ لاش بن کررہنے سے تو بہتر ہے کہ لاش کا کفن اوڑھ لوں۔ زندگی میں نہیں، تو کم از کم کفن میں دیکھ کر لوگ فاتحہ خوانی کا رحم تو کریں گے ہی۔ …… آپ ہی بتائیے نا، کیا ایک زندگی بسانے کے لیے ایک گھر کو برباد کرنا ضروری ہے؟۔ …… یتیم بولتے بولتے بے قابو ہوگیا، آنکھیں بادل بن گئیں۔ گلے میں خشکی کے تالے لٹک گئے…… اور بالآخر الفاظ نے بھی زبان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ بس آنکھوں میں آنسو تھے، جو رواں تھے۔ ایک بے بسی تھی، جو اس کے پورے وجود پر چھائی ہوئی تھی۔ نیک صفت آدمی نے جب یہ دیکھا کہ اب اس یتیم کی زبان میں تاب گویائی نہیں بچی ہے، اور سارے جذبات نچوڑ کر غم میں تبدیل ہوگیا ہے، تواس نے بولنا شروع کیا کہ زندگی سے ہارمان لینا شیر صفت بچوں کو زیب نہیں دیتا، اور تم تو شیر ہو شیر۔ تم اٹھو اور حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے دوسروں کے لیے مثال بننے کی کوشش کرو۔
بہر کیف اس افسانوی دنیا سے نکل کر حقیقی واقعہ کی طرف آتے ہیں۔ اس نیک صفت آدمی نے پوچھا کہ سر دست تمھارے پاس کیا انتظام ہے۔ یتیم نے جواب دیا کہ میرے پاس  کچھبیگھا کھیت ہے، اس کے علاوہ کوئی سرمایہ حیات نہیں ہے۔ نیک صفت آدمی نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہے۔ تم ایسا کرو کہ یہ کھیت مجھے سود بھرنا پر دے دواور تم ہی اس میں کھیتی بھی کرنا؛ البتہ آدھی پیداوار خود رکھ لینا اور آدھی پیداوار مجھے حوالے کردینا۔ چنانچہ سود بھرنے کا حساب لگایا گیا، تو بھی شادی کے اخراجات پورے نہیں ہوسکے، تو اس یتیم نے اپنے کھیتوں کا اسی قسم کا معاملہ ایک اور شخص سے کیا۔ اور یہ کہا کہ کھیتی بھی میں ہی کروں گا؛ البتہ آدھی پیداوار آپ کو دے دیا جائے گا۔ چنانچہ معاملہ طے ہوگیا۔ان دو معاملے کی وجہ سے ہوتا یہ تھا کہ یتیم کھیتی کرتا تھا اور آدھی پیداوار ایک شخص کو اور آدھی پیداوار اس بزرصفت شخص کو حوالے کردیتا تھا؛ لیکن گھر کے لیے ایک کلو پیداوار بھی نہیں بچاپاتا تھا۔
دو دو شخص سے معاملہ کرنے کے باوجود جب شادی کے اخراجات مکمل نہیں ہوئے، علاوہ ازیں گھر میں بھی پیداوار کا کوئی حصہ نہیں آنے لگا کہ تو یتیم اور پریشان ہوااور اس کی حالت بد سے بد تر ہونے لگی۔ البتہ اس یتیم کے لیے ایک راحت کا واقعہ یہ ہوا کہ جب اس بزرگ صفت کو اس دوسرے معاملہ کا علم ہوا، تو انھوں نے اپنا حصہ لینے سے انکار کردیا اور یہ کہا کہ میرا حصہ بھی تم ہی رکھ لینا۔
ذرا خود کو اس جگہ رکھتے ہوئے سوچیے کہ آپ چھوٹی عمر میں یتیم ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے آپ کی پڑھائی رک جاتی ہے، ساتھ ہی آپ اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کی پرورش کرنے کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ آپ کے والد محترم بینک کا بھاری قرضہ آپ کے سر چھوڑ کے چلے جاتے ہیں۔ پھر جب آپ کی عمر تیرہ چودہ سال کی ہوتی ہے، توآپ کواپنی بہن کی شادی کے انتظامات کے لیے پریشان ہونا پڑتاہے، مزید برآں پورا سماج آپ کو جہیز، لین دین اور دعوت کرنے پر مجبور کرتا ہے، تو بتائیے کہ آپ کی کیا حالت ہوگی۔ کیا آپ خود کشی کے بارے میں سوچنے پر مجبورنہیں ہوں گے……؟
پھر اس کے بعد اس یتیم کی زندگی کا نقشہ یہ بنا کہ والد محترم کے  بینک قرضہ کے ساتھ ساتھ اپنی بہن کی شادی کے قرضوں کے بوجھ تلے دبتا رہا، دبتا رہا اور اتنا دبا کہ بینک نے گھر قرق کرلیے، سماج نے یتیم کی لعنت سمجھ کر ساتھ دینا چھوڑ دیا؛ حتیٰ کہ رشتہ دار بھی کوئی معاملہ کرنے سے اس لیے بچنے لگے کہ یہ پھر ہمیں دے گا کہاں سے، وغیرہ وغیرہ۔
راقم نے جب سے اس یتیم کی کہانی کو سنا اور دیکھا ہے، تب سے مجھے شادی کی رسوم و رواج سے نفرت سی ہوگئی ہے۔ جہیز کے لین دین سے نہ صرف شادی مشکل ہوتی ہے؛ بلکہ اس سے کئی نسلیں متاثر ہوجاتی ہیں۔یتیم خودغریب ہوتا ہے، اس کا بیٹا بھی غریب ہوجاتا ہے اور یہ غریبی کئی نسلوں تک محیط ہوجاتی ہے۔ ایک بات اور بتا دوں کہ جس شخص نے اس یتیم کی بہن سے شادی کی تھی، اور یتیم کو غریبی کے دلدل میں دھکیلنے کا کام کیا تھا، جب اس کی بیٹی کی شادی کا معاملہ آیا، تو راقم نے دولہے کو ماضی کے واقعات بتاکر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ ماضی کے اس کردار کو نہ دھرائیں۔ چنانچہ دولہے نے حقیقت جاننے کے بعد وعدہ کیا کہ اب میری وجہ سے کوئی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے لیے قرضے میں نہیں ڈوبے گا اور نہ ہی وہ اس کی نسلوں کو مقروض ہونے پر مجبور ہونے دے گا۔ چنانچہ اس نے اس یتیم کی بہن کی بیٹی سے شادی کی اور شادی میں ایک ڈھیلا تک لینے سے انکار کردیا۔ اس حقیقت کو جاننے کے بعد کیا آپ بھی کسی کو جہیز دینے، یا لینے کے لیے مجبور کریں گے……؟  میرے خیال سے جس کے دل میں ذرہ  برابربھی انسانیت باقی ہوگی، وہ کبھی رسمی شادی کی حمایت نہیں کرے گا۔ میرا فیصلہ اور عمل تو یہ تھا اور آپ کا……؟۔ 
آج 2 جولائی 2020 کو ایک اور یتیم حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی پوتی کی شادی ہے۔ سنا ہے کہ لڑکا حافظ ہے، اس نے اس یتیم خاندان سے ستر ہزار کیش جہیز اور گھریلو سازو سامان کے ساتھ ایک تعداد باراتی لے کرآیا ہے۔ ساتھ ہی گوتیہ نے دعوت کے لیے مجبور کرتے ہوئے کھانا بھی پکوایا ہے۔ اس دعوت میں شریک تمام حضرات سے میری گذارش ہے کہ جس وقت آپ دعوت کا لقمہ اپنے منھ میں ڈالیں گے، تو اس وقت یہ ضرور سوچنا کہ یہ اس یتیم بچی کی دعوت ہے، جس کا باپ دنیا میں نہیں ہے اور نہ جانے کہاں کہاں سے قرضہ کرکے اس کھانے کا انتظام کیا ہے۔ اور دولہے سے کیا کہوں ، جو خود حافظ ہے ، یعنی قرآن اس کے سینے میں محفوظ ہے، اسے مجھے کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہے، بس شادی مبارک ہو اوردعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایسے حالات پیدا نہ کرے۔ آمین۔

1 Jul 2020

اصل ہیرو تو یہ لوگ ہیں

اصل ہیرو تو یہ لوگ ہیں
محمد یاسین جہازی 9891737350
ایک چھوٹے سے قبیلے: قائی قبیلے سے تعلق رکھنے والا ارطغرل، اور شاہی عیش و عشرت کو چھوڑ کر دربدر کی زندگی کو ترجیح دینے والی حلیمہ سلطان؛ کروڑوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن اس لیے بن گئے کہ ارطغرل نے قبیلہ کی نگہ بانی کو خلافت اسلامیہ عثمانیہ کے تاج تک پہنچا دیا۔ اورحلیمہ نے محبت کو امر کرنے کے لیے زندگی کے مصائب و حالات کی کوئی پرواہ نہ کی؛ اس لیے تاریخ میں یہ دونوں ہمیشہ کے لیے ”ہیرو“ بن گئے۔
 مسلمانوں کے سماج نے شادی کو ایک تجارت اور بھیگ مانگنے کا ذریعہ بنالیا ہے؛ اتنے گندے ماحول اور تعفن زدہ سماج میں، زر طلبی کی ہوس و حرص کوٹھوکر مارتے ہوئے شریعت کی سادگی کے ساتھ نکاح کرکے، ایک مردہ سنت کو زندہ کرنا؛ بالیقین بڑی بہادری اور ہیرو گیری کا کام ہے۔اور جن لوگوں نے ایسا کیا ہے؛ وہ اس کے حق دار ہیں کہ انھیں ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات میں زندہ جاوید کردیا جائے۔ چنانچہ اسی مقصد کے پیش نظر آئیے ہم آپ کو متعارف کراتے ہیں، ایسے ہی چند عظیم ہیرو سے، جنھوں نے انتہائی سادگی کے ساتھ نکاح کرکے یہ پیغام دیا کہ زندگی کا اصل لطف محبت میں ہے؛ شادی کی تجارت میں نہیں۔
ہیرو نمبر۶: مفتی محمد سفیان ظفر صاحب قاسمی جہازی
میری جان کاری کے مطابق گڈا و اطراف کے علاقہ میں نئی نسلوں میں مفتی صاحب وہ پہلی شخصیت ہیں، جنھوں نے تمام رسوم و رواج اور لین دین پر لعنت بھیجتے ہوئے، مدرسہ اشرف المدارس رحمان ڈی کے جلسہ میں بہت ہی سادگی کے ساتھ …… 2020میں الحاج مولانا یونس صاحب کیتھپورہ کی صاحب زادی سے نکاح کیا۔ ان کا نکاح مولانا تشریف صاحب پلواڑہ غازی آباد نے پڑھایا۔
ہیرو نمبر ۵: مولانا عبد القیوم صاحب قاسمی جہازی
مولانا کا نکاح، علاقہ کا ایک بڑا دینی ادارہ مدرسہ اسلامیہ سین پور کے مہتمم مولانا محمد نعمان صاحب کی صاحبزادی سے 15مئی 2013میں ہوا۔ اگرچہ مہتمم صاحب نے اپنے لڑکے کی شادی میں جتنی مذموم حرکتیں ہوسکتی تھیں، ان کو کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی؛ لیکن اس سے پہلے، جب مولانا عبد القیوم صاحب نے ان کی صاحبزادی سے نکاح کیا، تو چند لوگوں کے ہمراہ جاکر نکاح پڑھ آئے اور ساتھ ہی دلہن کو بھی رخصت کرالیا۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی شادی میں جو کیا اور اس کا جو بھی انجام ہوا، اس کو دھرانے کا یہ موقع نہیں ہے؛ لیکن مولانا عبد القیوم کی فیملی لائف آج بھی خوش و خرم ہے۔
ہیرو نمبر۴: مفتی محمد نظام الدین قاسمی جہازی مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ
مفتی محمد نظام الدین صاحب کے سامنے کئی بڑے بڑے آفرز آئے؛ لیکن انھوں نے اپنی شادی کے متعلق ناچیز سے مشورہ کیا اور خود ہی ایک یتیم لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔چنانچہ میں نے اپنے نظریے کے مطابق یتیمی رشتہ کا مشورہ دیا؛ چنانچہ مفتی صاحب نے سماج کی لعنتوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے حافظ سخاوت صاحب مرحوم بسنت رائے کی صاحبزادی سے سادگی کے ساتھ جمعہ کی محفل میں نکاح کیا۔ آپ کا نکاح مشہور صوفی شخصیت مولانا احمد نصر بنارسی صاحب نے پڑھایا۔ یہ بابرکت نکاح 15اگست 2013میں ہوا۔
ہیرو نمبر۳: مفتی محمد زاہد امان قاسمی مہتمم جامعہ خدیجۃ الکبریٰ بسنت رائے
”چٹ منگنی، پٹ بیاہ“ کا پھکڑا آپ نے بہت سنا ہوگا؛ لیکن میں نے اسے دیکھا ہے۔ مفتی زاہد صاحب کے نکاح کے تعلق سے 8فروری 2014کو صبح نو بجے بات شروع ہوئی۔ گیارہ بجتے بجتے نکاح طے ہوگیا۔ تین بجے نکاح کی تاریخ متعین کردی گئی۔ اور اسی دن شام کو پانچ ساڑھے پانچ بجے پرسہ کے اجتماع میں بعد العصر نکاح ہوگیا۔ نکاح کے بعد لڑکی والوں کی طرف سے یہ پیغام ملا کہ شام کو پندرہ بیس لوگوں کی زبردست دعوت ہے۔ دولہے اور ناچیز میں آپسی صلاح و مشورہ کے بعد یہ طے ہوا کہ جب لڑکی والوں کے یہاں کھانا ہی نہیں ہے، تو پھر سادگی کے باوجود یہ کھانا کیوں؛ چنانچہ ہم دونوں اجتماع کی اختتامی دعا سے پہلے ہی بھاگ آئے اور موبائل سوچ آف کرکے گمنام جگہ پر رات گذاری۔ اگرچہ بے صبری سے دعوت اڑانے والوں نے برا بھلا کہا؛ لیکن رسم کی ادائیگی کو بالکل بھی برداشت نہیں کیا گیا۔ آپ کا نکاح ڈاکٹر سلیم الدین صاحب سانچپور سانکھی کی صاحب زادی سے ہوا۔
ہیرو نمبر۲: مولانا محمد تحسین قاسمی جہازی
علاقے میں ہم لوگوں نے سادی شادی اور جہیز کے خلاف جو تحریک چھیڑ رکھی تھی، اس میں میرے چھوٹے بھائی عزیزم تحسین سلمہ نے نہ صرف دل سے قبول کیا؛ بلکہ اس کے محرک اور عملی مثال پیش کرنے والے بھی بنے۔ سلمہ کے کئی بڑے چھوٹے رشتے آئے؛ لیکن نگاہ طلب اچانک آنے والے اس رشتہ پر ٹھہر گئی، جو نہ صرف خود سادگی کے حامی تھے؛ بلکہ کئی صاحبزادیوں کے ابو جان ہونے کی وجہ سے سماج سے بہت زیادہ دکھی تھے۔ چنانچہ ایک دو دن کی گفتگو کے بعد نکاح طے ہوگیا اور نہایت سادگی کے ساتھ، ایک مسجد میں 30جون 2020کو حیدرآباد میں مقیم مولانا عبد الحمید صاحب سرسی کی صاحبزادی سے ہوگیا۔
ہیرو نمبر ون: جناب جمال صاحب جہازی
یہ میرے نزدیک ہیرو نمبر ون ہیں۔ اوپر جتنے لوگوں کا تذکرہ ہوا، وہ یا تو مولوی ہیں یا مفتی ہیں؛ لیکن یہ نام نہ تو عالم اور نہ ہی مفتی؛ اس کے باوجود انھوں نے سادگی اور سنت کو حرز جان بنایا؛ اس کے لیے انھیں اپنے گھر والوں کی مخالفت بھی سہنی پڑی اور گھر نکالا بھی دیا گیا، اس کے باوجود اپنے فیصلے پر اٹل رہے اور سادگی کے ساتھ اور وہ بھی ایک طلاق یافتہ سے شادی کرکے مثال قائم کردی۔ واقعہ یہ ہوا کہ ڈلیوری کیس میں ان کی پہلی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ اس کے کچھ مہینے کے بعد شادی کا معاملہ سامنے آیا۔ راقم ”اگوا“ بنا۔ اور تین کنواری لڑکیاں اور ایک طلاق یافتہ لڑکی کے رشتہ کی پیشکش کی گئی۔ اس کے علاوہ خود ان کے ایک رشتہ دار کی طرف سے پانچ لاکھ نقد کیش کا آفر بھی ملا۔ ان تمام چیزوں کے باوجود مجھ سے مشورہ طلب کیا۔ ناچیز نے نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث سنائی اور کہا کہ اس مردہ سنت کو زندہ کرنے کی وجہ سے سو شہیدوں کا درجہ ملے گا۔اور سماج کے خلاف سنتی شادی کرنے کا ثواب الگ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہمارے آقا کا یہ فرمان ہے، تو پھر چھوڑیے کنواریوں کو اور پیچھے دھکیل دییجیے پانچ لاکھ کے آفرکو؛ میں تو سو شہیدوں کا ثواب حاصل کرنے کے لیے مطلقہ سے شادی کرنے کو رواج دوں گا۔ اس عزم کو دیکھتے ہوئے، گھر اور سماج کی مخالفت کا خدشہ بتایا گیا۔ انھوں نے تمام مخالفتوں کا سامنے کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے اسی رشتہ کو ترجیح دی۔ چنانچہ شادی کی تاریخ طے کردی گئی اور وقت آنے کا انتظار کیا جانے لگا۔
۲ / ستمبر2017عید الاضحی کے دن، نماز عید کے بعد عیدگاہ کے محراب کے پاس نکاح کی محفل سجی۔ سیکڑوں لوگوں اور درجنوں علمائے کرام کی موجودگی میں خطبہ نکاح پڑھا گیا۔ ا ن کے بڑے بھائی مسلسل اختلاف کرتے رہے، حتیٰ کہ مائک کو چھین کر پھینک دیا، اس کے باوجودنکاح خواں حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند نے یہ کہا کہ……کیا آپ نے قبول کیا،تو دولہا میاں نے اپنے عزم کا اعلان کرتے ہوئے بآواز بلند کہا کہ ”ہاں میں نے قبول کیا“۔ اس آواز پر اہل دل نے خوشی کے تالی بجائے اور جہیز کے بھوکے بھیڑیوں کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگا۔
شادی کے بعد عید گاہ سے گھر لوٹے، تو امی نے برے بھلے الفاظ سے دھتکارتے ہوئے گھر سے نکال دیا۔ اور اس پروگرام میں شامل شریک لوگوں کو بھی صلواتیں سنائیں۔ بہرکیف ان تمام مزاحمتوں کے باوجود وہ اپنے فیصلہ پر قائم رہے اور آج بھی خوش و خرم پاکیزہ زندگی گذار رہے ہیں۔ اور ہزاروں ایسے نوجوانوں کے لیے ہیرو بنے ہوئے ہیں، جو اپنی شادی کو پرمسرت اور سادہ بنانا چاہتے ہیں۔اگر یہ کام کوئی عالم کرتا، تو تعریفی عمل ہونے کے باوجود اتنا تعریفی کام نہیں ہوتا؛ جتنا کہ ایک غیر عالم شخص نے محض نبی اکرم ﷺ کی ایک متروک العمل حدیث سن کراس پر عمل کرنے کا تہیہ کیا اور ہمیشہ کے لیے مثال بن گئے۔ معاشرے کو ایسے نوجوانوں کو سلام کرنا چاہیے۔
معلومات کے لیے عرض کردوں جس مطلقہ سے جمال صاحب نے شادی کی، وہ دو دن کے لیے ایک ایسے عالم کی بیوی بنی تھی، جو اپنے نام کے آگے مظاہری کا لاحقہ لگاتے ہوئے مولانا امتیاز گھٹیانی کہلاتے ہیں۔ اور ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا کے والد ماشاء اللہ حاجی بھی ہیں؛ یعنی حاجی سمیر پہلوان گھٹیانی صاحب۔ شادی کے دوسرے ہی دن اس بات پر جھگڑا شروع ہوگیا کہ موٹر سائیکل اور گھر کے سارے سازو سامان تو مل گئے؛ لیکن مزید ایک لاکھ روپے دینا ہوگا۔ لڑکی کے والد اپنی بچی کی زندگی کو دیکھتے ہوئے دینے کے لیے تیار بھی ہوگئے؛ لیکن حاجی صاحب مصر تھے کہ پیسہ حاجی کے ہاتھ میں دیا جائے؛ جب کہ مولانا شہاب الدین صاحب کھیتپورہ کا کہنا تھا کہ پیسہ میں اپنی بچی کے اکاونٹ میں دوں گا۔ بس اسی بات پر بات بڑھی اور مظاہری صاحب نے دوسرے دن ہی ایک سانس میں تینوں طلاق دے ڈالی۔ …… اور بھیک کی ساری امید پر خود ہی پانی پھیر دیا۔
مجھے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے افسوس ہورہا ہے کہ میں ”ہیرو“ کی اس ترتیب میں سے کسی نمبر پر نہیں آسکا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ میری شادی 27جون 2012میں پھوپھا کی صاحبزادی سے ہوئی۔ میرا ارادہ سادگی والا نکاح کا تھا؛ لیکن گارجین اور معاشرے نے ایسا کرنے نہیں دیا۔ میں نے مخالفت کی۔ لیکن گھر والوں نے کہاکہ میری بات نہیں مانو گے، تو گھر سے نکل جاو۔ میں گھر سے نکل گیا، تو پھر گھر والے ہی ڈھونڈھ کر لائے اور مختصر سہی؛ لیکن برات لے کر چلے گئے اور جزوی رسموں کی کراہت کے ساتھ نکاح کرادیا۔ …… میری اس طرح کی شادی پر مجھے آج بھی افسوس ہے۔ کاش میرے ساتھ بھی میرا کوئی ساتھی یا رشتہ دار کھڑا ہوتا، اور سادگی کے ساتھ شادی کرنے کے لیے دیتا، تو اپنے بارے میں فخر کے ساتھ کہتا کہ ’ہاں میں بھی ہیرو ہوں‘۔ اس فہرست میں نام نہ آنے پر میں خود کے ساتھ گارجین کو بھی مورد الزام ٹھہراوں گا، جنھوں نے مجھے ایساکرنے نہیں دیا۔
بہرکیف! درج بالا حضرات بالیقین سماج اور بالخصوص نوجوانوں کے لیے آئیڈیل اور قابل تقلید ہیرو ہیں، جنھوں نے سماج کی لعنتوں کو دھتکارتے ہوئے اسوہ نبی ﷺ کو زندہ کیا اور ہمیشہ کے لیے تاریخ کے ہیرو بن گئے۔ راقم ان تمام حضرات کو اس مقام کے لیے تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہے۔

29 Jun 2020

جمعیت کا آن لائن ممبر اس طرح بنیں

جمعیت کا آن لائن ممبر اس طرح بنیں

محمد یاسین جہازی 9891737350

بھارت کی قدیم اور فعال تنظیم جمعیت علمائے ہند نے سال رواں سے آن لائن ممبر بننے کا سسٹم شروع کیا ہے۔ جمعیت علمائے ہند سے آن لائن اسکالر شپ حاصل کرنے، یا تصدیق نامہ مدارس لینے یا چندہ دینے کے لیے ممبر بننا ضروری ہے اور اس کا طریقہ بالکل آسان رکھا گیا ہے، جو اس طرح ہے
آپ تین طریقے سے آن لائن ممبر بن سکتے ہیں:
(
۱)سب سے پہلے اس کے ویب سائٹ پر جائیں۔ ایڈریس یہ ہے: https://jamiat.org.in/
(
۲) ہوم پیج کے دائیں جانب Loginآپشن کلک کریں۔ کلک کرتے ہی ایک مینو بار کھلے گا، جس کی اوپر پٹی پر دو آپشن ہوں گے: ایک Loginکا اور دوسرا Registerکا۔ آپ کو دوسرے آپشن پر کلک کرنا ہے۔

(
۳) اس رجسٹرآپشن میں لوگن کے تین آپشن ہیں: ایک FaceBook۔ دوسرا Google۔ اگر آپ کے کمپیوٹر یا موبائل میں فیس بک یا جی میل لوگن ہے، تو صرف اس پر کلک کرنے کے بعد پرمیشن دینے سے لوگن ہوجائے گا۔آپ کو بہت زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیسرا آپشن ہے موبائل نمبر سے۔ اس آپشن میں اپنا موبائل نمبر درج کرنے کے بعد اس کے سامنے موجود آپشن Request Codeپر کلک کریں گے۔ اس پر کلک کرنے سے OTP Sent Successfully… کا باکس ظاہر ہوگا، اس کے Okپر کلک کریں گے۔ اس کے بعد اپنا موبائل کا میسج باکس چیک کریں، چار عدد کا ایک او ٹی پی آیا ہوگا۔ اس کو Enter OTPباکس میں درج کریں اور اس کے سامنے موجود آپشنLoginپر کلک کریں۔ اس کے بعد ایک میسج باکس ظاہر ہوگا، جس پر لکھا ہوگا کہ OTP Verified Successfully۔ یعنی آپ نے صحیح او ٹی پی درج کیا۔ اس کے Okپر کلک کریں گے۔

یہاں کلک کرنے کے بعد ایک باکس ظاہر ہوگا، جس پر لکھا ہوگا کہ Please Add Member Information Below….۔ اس پٹی کے نیچے کئی آپشن ہیں، جنھیں بھرنا ضروری ہے، جو علیٰ الترتیب اس طرح ہے۔
(2) Member Type۔ یعنی ممبر کی قسم۔ اس پر لال اسٹار لگا ہوا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کرنا ضروروی ہے۔ اس کے نیچے پٹی میں Select Member Type۔ اس پر کلک کریں گے، تو تین آپشن نظر آئے گا۔
(الف) Associate۔ اس کو سردست چھوڑ دینا ہے۔
(ب) Active Memebr۔ اس کو بھی سردست چھوڑ دینا ہے۔
(ج) Primary Member۔ یعنی ابتدائی ممبر۔ اس پر آپ کو کلک کرنا ہے۔
(2) اس کے نیچے First Nameآپشن میں اپنے نام کا پہلا حصہ لکھنا ہے۔ جیسے محمد۔

(3) Last Name۔ اس میں اپنے نام کا آخری حصہ لکھنا ہے، جیسے یاسین۔
(4)User Nameمیں ای میل، فیس بک وغیرہ کی آئی ڈی بنانے کی طرح یہاں بھی ایک آئی ڈی بنائیں گے۔
(5) چوں کہ ہم موبائل سے رجسٹر کرنے کے بعد یہ فارم بھر رہے ہیں، اس لیے یہاں ہمارا موبائل نمبر پہلے سے درج نظر آئے گا۔ دوبارہ درج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

(6) Password۔ جی میل، فیس بک وغیرہ کی طرح اس کا بھی پاس ورڈ بنایا جائے گا۔ یہاں پاسورڈ کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں:
(الف) کم سے کم چھ تعداد میں ہونا ضروری ہے، اس سے کم سے نہیں بنے گا۔

(ب) کم سے کم ایک حرف بڑا۔ باقی سب چھوٹا، یا ایک چھوٹا باقی بڑے حروف میں ہونا ضروری ہے۔
(ج) کم سے کم ایک کیرکٹر ہندسہ یعنی نمبر میں ہونا ضروری ہے۔
(7)Select Religionکا مطلب ہے کہ اپنا مذہب درج کریں۔ اس میں پانچ مذاہب سکھ، بدھسٹ، کرسچن، ہندو اور اسلام کا آپشن موجود ہے، آپ جو ہیں، اسے منتخب کریں۔
(8) Gender۔ اس میں اپنا جنس حسب حال Maleیا Female پر کلک کریں۔
(9) Date of Birthکے نیچے پٹی پر کلک کرتے ہی کلینڈر ظاہر ہوگا۔ اس سے آپ اپنا دن، تاریخ اور سال منتخب کرتے ہوئے اپنی تاریخ پیدائش درج کریں۔
(10)Pin Code۔ اس میں اپنے علاقے کا پن درج کریں، جس کے بعد پن نمبر سے ویب سائٹ خود بخود آپ کے ضلع کا نام اس کے نیچے شو کردے گا۔
(11) Upload Photo۔ اس میں Choose Fileپر کلک کریں۔ جس کے بعد آپ کے موبائل یا کمپیوٹر کا ایک فائل باکس نظر آئے گا۔ آپ نے جس جگہ اپنی تصویر محفوظ رکھی ہے، وہاں جاکر اپنی تصویر کو سلیکٹ کریں، اور Okیا Openجیسا بھی آپ کے ڈیوائس میں گرین رنگ یا یائی لائٹ نظر آئے اس کو کلک کریں۔ آپ کی تصویر اپلوڈ ہوکر سامنے والے باکس میں نظر آئے گی۔
(12) Select ID Proof: اس میں پین کارڈ، آدھار کارڈ، پاسپورٹ، ووٹر کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس میں سے جو آپ کے پاس ہے، اس پر کلک کریں۔ اس کے نیچے ظاہر ہونے والے میسج Choose Fileپر کلک کرکے اپلوڈ کریں۔
(13) اس کے بعد Emailآئی ڈی درج کریں۔ اس پر لال مارک نہیں ہے، تو یہ ضروری نہیں ہے، اختیاری آپشن ہے۔
(14) Qualification۔ اس آپشن میں آپ اپنی تعلیمی صلاحیت کو منتخب کرکے اس پر کلک کریں۔
(15) Profession۔ یعنی آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے، اسے لسٹ سے منتخب کریں۔
(16)اس کے نیچے نظر والے کیپچا کو اس کے نیچے والی پٹی میں درج کریں۔
(17) Submit۔ اس کے بعد سبمٹ یعنی جمع کرنے کا آپشن ہے۔ لیکن یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ نے پہلے جوپن کوڈ درج کیا ہے، تو اس کے اعتبار سے ایڈریس والے آپشن خود بخود بھر جائیں گے۔اس میں اگر کچھ غلط ایڈریس شو کر رہا ہے، تو Submitکرنے سے پہلے، اسے ٹھیک کرلیں، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
(الف) Select Country: میں اپنے ملک کا نام منتخب کریں۔
(ب) Select State: میں اپنا صوبہ منتخب کریں۔
(ج)Select District: میں اپنا ضلع منتخب کریں
(د) Taluka: میں سب ڈویژن یا پولیس اسٹیشن منتخب کریں۔
(ھ) Residential Address: اس میں اپنا رہائشی پتہ درج کریں۔
(و) Admin: اس جگہ اگر ایڈمن لکھا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ضلعی جمعیت کے ذمہ دار کا نام ویب سائٹ کے ڈیٹا بیس میں ابھی درج نہیں ہے۔ اگر درج ہوگا، تو وہاں پر ان کا نام شو کرے گا۔
اس کے بعد اب Submitپر کلک کردیں۔جس کے بعد ایک باکس ظاہر ہوگا، جس میں لکھا ہے کہ پرائمری ممبری فیس دس روپے ادا کریں۔ چنانچہ اس کے لیے آپ Pay Nowکے بٹن پر کلک کریں۔ کلک کرتے ہیں۔ پیمنٹ آپشن کھل کر آئے گا، جس میں ڈیبٹ کارڈ، کریڈیٹ کارڈ،نیٹ بینکنگ اور یو پی آئی کے ذریعہ پیمنٹ کرنے کی سہولیات موجود ہیں۔ان میں سے کسی ایک طریقہ کو سلیکٹ کرنے اور اس کی ضروری تفصیلات درج کرنے کے بعد Make Paymentپر کلک کریں۔ اس کے بعد ایک باکس ظاہر ہوگا، اور آپ کے موبائل پر بینک کی طرف سے ایک او ٹی پی آئے گا۔ آپ اس اوٹی پی کو نیچے باکس میں درج کریں اور MakePaymentپر کلک کردیں۔ اس کے بعد ایک پروسیس پیج کھلے گا، جو ویب سائٹ بینک سے پیسے ٹرانسفر کرتا ہے۔ پروسیسنگ کے دوران کچھ نہ کریں۔ کچھ ہی سکنڈ کے بعد ایک میسج ظاہر ہوگا، جس میں بینک سے کٹے پیسے کی آئی ڈی نمبر اور جمعیت علمائے ہند کے آرڈر نمبر آپ کو ملے گا۔ جسے آپ Prntکے آپشن پر کلک کرکے پرنٹ لے سکتے ہیں۔ اس پرنٹ رسید میں آپ کی تفصیلات موجود ملیں گی۔
مبارک ہو، آپ جمعیت علمائے ہند کے پرائمری ممبر بن گئے۔
نمبر(۳) میں آپ نے لوگن کے تین طریقے پڑھے۔ ویب سائٹ کے رجسٹر کے اس آپشن کے نیچے Orکے بعد لوگن کا ایک چوتھا آپشن ہے۔ اور اس چوتھے آپشن سے لوگن ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ ابھی آپ نے ترتیب وار فارم بھرنے کے دوران جو یوزر نام اور پاس ورڈ بنایا ہے، اس کے ذریعہ آپ لوگن ہوجائیں، یعنی
(
۱) Username: اس میں جو یوزر نام بنایا ہے، وہ درج کریں۔
(
۲) Password: اس میں جو پاسور ڈ بنایا ہے وہ درج کریں۔
(
۳) اس کے نیچے جو کیپچا نظر آرہا ہے، اسے نیچے کے باکس میں درج کریں۔
(
۴) اس کے بعد Loginپر کلک کردیں۔ آپ جمعیت علمائے ہند کے ویب سائٹ پر لوگن ہوجائیں گے۔
جمعیت علمائے ہند نے نئے لوگوں سے جڑنے اور ان تک اپنی خدمات پہنچانے کے لیے اپنے ویب سائٹ کو نئے لباس میں پیش کرتے ہوئے، کورونا لاک ڈاون کے باعث پروگرام کی ممانعت کی وجہ سے Premiere کے ذریعہ 26اپریل 2020کو قائد جمعیت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیت علمائے ہند نے اس کا افتتاح کیا۔ ویب سائٹ آپ حضرات کی خدمت میں ہے۔ آپ حضرات سے یہی گذارش ہے کہ اپنی اس تنظیم سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں جڑیں اور اس کے لیے آن لائن ممبر بن کر اپنا ممبر شپ حاصل کریں۔



تغلقی مہتمم

تغلقی مہتمم
محمد یاسین جہازی 9891737350
کووڈ لاک ڈاون نے بھارت کی تاریخ کے وہ تاریک گوشے بھی اجاگر کردیے، جن کی طرف نہ اہل سیاست توجہ دے رہے تھے اور نہ اہل قلم بھارت کو اس نظریے سے دیکھنے کے بارے میں سوچ پارہے تھے۔ سبھی دیس واسی سمجھ رہے تھے کہ بھارت کی جی ڈی پی بہت زیادہ آگے بڑھ  رہی ہے اور اب یہ ملک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ میں شمار کیا جانے لگے گا۔ عوام کے ساتھ ساتھ طبقہ خواص بھی ڈیجیٹل انڈیا اور شائنگ انڈیا کے نعروں میں مدہوش ہوچکے تھے۔
لیکن اچانک کورونا لاک ڈاون کی وجہ سے ہجرت اور مزدور طبقے کی مظلومیت، بے کسی، بے بسی، بھوک، پیاس اور پیدل اسفار کی جو بھیانک تصویریں سامنے آئیں، انھوں نے سب انسانیت پسند طبقے کو ہلاکر رکھ دیا۔ مودی حکومت کے علاوہ، سیکڑوں تنظیمیں، ہزاروں سماج سیوا اور انسانیت کا مفہوم سمجھنے والے افراد میدان عمل میں آئے اور جن کی جہاں تک وسعت اور گنجائش تھی، انھوں نے وہاں تک ان لوگوں کی مدد کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ بھارت کی سب سے بڑی تنظیم جمعیت علمائے ہند نے براہ راست اور اپنی ریاستی و ضلعی یونٹوں کے تعاون سے مشترکہ طور پر ساٹھ کروڑ روپے کا رفاہی کام انجام دیا، جو اپنے آپ میں ایک بڑی تاریخ ہے اور اس کا سہرا، اس کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب کے ساتھ ساتھ ان کے سبھی رضاکاروں کے سر جاتا ہے۔
مدارس-جونبوی تعلیمات اور انسانیت و بھلائی کی تعلیم کی آماجگاہیں ہیں - نے اپنے اسٹاف و ملازمین کے ساتھ ہمدردی اور انھیں تنخواہ دینے کی حتی الامکان کوشش کی۔ بعض چھوٹے مدارس جن کا ذریعہ آمدنی صرف رمضان کا چندہ ہی ہے، انھوں نے بھی مدرسین کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور ان کو تنخواہیں دیتے رہے۔ جو مدارس سردست نہیں دے پارہے ہیں، ان کے ذمہ دار اپنے اساتذہ کے ساتھ یہ معاملہ کر رہے ہیں کہ جہاں تک گنجائش نکل رہی ہے، دے رہیں اور جب گنجائش باقی نہیں رہی، تو ان سے کہا کہ حالات معمول ہونے پر بقیہ تنخواہ بھی رفتہ رفتہ دی جائے گی۔ ایسے ایک مدرسہ کے مہتمم ہیں مفتی محمد نظام الدین صاحب قاسمی مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا، جھارکھنڈ۔ انھو ں نے بتایا کہ جب تک گنجائش رہی دیتے رہے، جب گنجائش کم ہونے لگی، تو کہا کہ آدھی تنخواہ ابھی لے لیں۔ بقیہ ان شاء اللہ تھوڑی تھوڑی کرکے بعد میں دی جائے گی۔ اب جب کہ بالکل گنجائش نہیں بچی، تو ان سے کہا کہ آپ کی آدھی تنخواہ حسب معمول جاری رہے گی، تاہم ادائیگی کے لیے حالات کے معمول پر آنے کا انتظار کریں۔ اس قسم کے ذمہ داران مدارس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، وہ کم ہے۔ یہ حضرات بالیقین نبوی تعلیمات کے عملی مظاہر ہیں۔
اسی لاک ڈاون میں جب اپنے اساتذہ اور اسٹاف کا تعاون کرنا اسوہ نبی کی بہترین تقلید ہے؛ بعض ایسے مدارس جو نہ مجبور ہیں اور نہ ہی انھیں کسی قسم کی مجبوری ہے اور یہ مدارس سالوں اپنے اساتذہ اور اسٹاف کو تنخواہیں دینے کی اہلیت رکھتے ہیں، اس مصیبت کی گھڑی میں نہ صرف اپنے اساتذہ کی تنخواہ کاٹ رہے ہیں؛ بلکہ انھیں مدرسہ بدر بھی کردے رہے ہیں۔
اس حوالے سے ایک خبر شروع لاک ڈاون میں ہی دارالعلوم نیرل سے آئی تھی کہ اس ادارے نے اپنے آٹھ اساتذہ کو یک قلم مدرسے سے نکال دیا ہے۔ جب یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور مولانا سجاد نعمانی صاحب کو شیخ الاسٹیج کا خطاب دیے جانے لگا تو ادارے کی طرف سے صحیح صورت حال کی وضاحت آئی کہ وہاں ایک سال کے لیے عارضی تقرر ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی استقلال کے بارے میں فیصلہ کیا جاتاہے، جن اساتذہ کو نکالا گیا ہے، وہ اسی قسم کے اساتذہ ہیں، جن کا استقلال نہیں ہوا ہے اور یہ وہاں کے روٹین میں شامل ہے۔
اسی بیچ کئی اور چھوٹے بڑے مدارس کے تعلق سے خبریں آئیں کہ انھوں نے بھی اپنے اساتذہ کو باہر کا راستہ دکھا دیا۔ ایک خبر دارالعلوم حیدرآباد سے آئی کہ اس نے مدرسہ کھلنے تک اساتذہ کی تنخواہوں کو بند کردیا ہے۔ ان دنوں کی تنخواہیں بعد میں بھی نہیں دی جائیں گی۔ حالاں کہ عوامی رائے یہ ہے کہ یہ ادارہ اتنا غریب نہیں ہے کہ وہ تنخواہیں برداشت نہ کرسکے۔
اسی دوران کچھ لوگوں نے دارالعلوم دیوبند سے یہ فتویٰ بھی حاصل کرلیا کہ لاک ڈاون کی تنخواہیں دینا ضروری ہیں۔ ادارے والے کاٹ نہیں سکتے۔ یہ فتویٰ ابھی وائرل ہو ہی رہا تھا کہ دارالعلوم کنتھاریہ کے مہتمم کا ایک تغلقی فیصلہ وائرل ہوا کہ انھوں نے اپنے یہاں کے دو سو اساتذہ کو یک قلم باہر نکال دیا ہے، تاکہ انھیں تنخواہ نہ دینی پڑے۔ اس ادارے کو قریب سے جاننے والے ایک شخص نے جب راقم کو یہ خبر دی، تو میں نے وہاں کے مالی کیفیت کے بار ے میں سوال کیا، تو ان کا جواب تھا کہ ادارہ اتنا مضبوط ہے کہ سالوں اگر بیٹھا کر تنخواہیں دے، تو بھی ادارہ مفلوک الحال نہیں ہوسکتا۔ یہ حقیقت جان کر ایسا محسوس ہوا کہ جو ادارے ان تعلیمات نبوی کی تعلیم کے لیے شناخت رہکھتے ہیں، جو اپنے ملازمین کو پسینے خشک ہونے سے پہلے حق المحنت دینے کی وکالت کرتے ہیں، جو یہ سکھاتے ہیں کہ تم اہل زمیں پر رحم کروگے، تو خدا عرش بریں پر تمھارے لیے رحم و کرم کے دروازے کھول دیں گے۔ اور اس قسم کی درجنوں تعلیمات کا درس یہ خود دیتے ہیں، اس کے باوجود مہتمم کا ایسا فیصلہ؛ ایک مہتمم کا نہیں؛ بلکہ فرعونی یا تغلقی فرمان ہی ہوسکتا ہے، جو تعلیمات نبوی کے مزاج سے کبھی بھی ہم آہنگ نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ ایسے مہتمموں کو دین کی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔  

26 Jun 2020

آہ چچا اطہر!

آہ چچا اطہر!
محمد یاسین جہازی
9891737350
معصوم عمر سے چچا اطہر کا نام سنتے آئے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ چچا اطہر میری مرحومہ دادی نور اللہ مرقدہا کے سگے بھتیجے تھے۔ چچا اطہر کے والد کا انتقال تقریبا تیس سال کی عمر میں ہوگیا تھا،جب کہ چچا اطہر اس وقت ڈیڑھ دو سال کے تھے۔چچا اطہر کی یتیمی انھیں زندہ رکھنے کے لیے کڑے امتحان لینے لگی اور تلاش معاش میں گھر سے نکلے، تو غائب ہوگئے۔ عرصہ دراز کے بعد ان کے چچا قاری عبد الجبار صاحب قاسمی صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی کوششوں سے دریافت ہوئے، تو گھر لے آئے اور رشتہ ازدواج سے منسلک کردیا۔ لیکن یتیمی کے زخم ابھی نہیں بھرے تھے، اس لیے زندہ رہنے کی ضرورت نے دوبارہ گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا، اور خود کو اپنوں سے روپوش کرلیا۔ نئی نویلی چاچی کے لیے گھر کا بڑا آنگن بیوگی کا احساس دلانے لگا، جس کو مٹانے کے لیے میری دادی مرحومہ اور دادی کے ساتھ ناچیز چچا اطہر کے گھر میں مہینوں قیام پذیر رہتے تھے۔ اور ہمیشہ چچا اطہر کا ذکر لاشعور کانوں سے ٹکراتا رہتا تھا۔
بعد میں بالیدہ شعورنے سمجھا اور جانا کہ یہ چچا اطہر کون تھے۔ان کے والد محترم  حضرت مولانا محمد اسلام ساجد مظاہری (جون1943-19اپریل1972) استاذ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ تھے، جو تعلیم و تربیت اور تقویٰ و طہارت میں خاصی شہرت رکھتے تھے۔
چچا اطہر کو جب خانگی ذمہ داری کا احساس ہوا، تو انھوں نے سمجھا کہ زندگی سے بھاگنے کا نام زندگی نہیں؛ بلکہ زندگی کو سہارا دینے کا نام زندگی ہے؛ چنانچہ انھوں نے زندگی کے بارے میں اپنا نظریہ بدلہ اور خانگی زندگی جینا شروع کیا۔ اسی دور میں چچا اطہر سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور ان کو قریب سے جاننے سمجھنے کا موقع ملا۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اس حوالے سے اتنے انسان پسند اور اولو العزم واقع ہوئے تھے کہ اتنا شاید بعض دانش مندبھی نہیں ہوتے۔ایک مرتبہ میں نے ان سے فیملی سے دوری کا سبب پوچھا، تو انھوں نے کہا کہ میں ایک لمبی چھلانگ میں ہوں، اگر اس میں کامیاب ہوگیا، تو میں اس طرح کی چھوٹی موٹی نوکری سے نجات پاجاوں گا۔ وہ لمبی چھلانگ کیا تھی، مجھ سے شیئر نہیں کیا۔ لیکن ان کے بعد کے حالات شاہد ہیں کہ شاید وہ لمبی چھلانگ  نہیں لگا پائے۔
پہلے وہ ٹرک ڈرائیورتھے۔ پھر فروٹ جوس کا کاروبار کیا۔ بعد ازاں مدرسہ ربانیہ پرشواتم مدراس میں معاون باورچی بنے۔ یہاں کے دینی ماحول میں ایسے گھلے ملے اور چہرے پر ایسی سنت سجائی کہ کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ پہلے یہ ٹرک ڈرائیور رہے ہوں گے۔
پچھلے کئی سالوں سے گھر میں ہی کھیتی باڑی کو اپنا ذریعہ معاش بنالیا تھا۔ اور صاف ستھری زندگی گزار رہے تھے۔
آج (26جون2020) کو علیٰ الصباح مفتی نظام الدین صاحب قاسمی مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کے فون سے اطلاع ملی کہ چچا اطہر اب دنیا میں نہیں رہے، ان کا صبح تقریبا پانچ اور چھ بجے درمیان انتقال ہوگیا۔ پہلے سے کوئی بیماری نہیں تھی۔ آج بھی بے تکلف احباب کے ساتھ انھوں چائے کی محفل سجائی تھی؛ لیکن اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، چچا اطہر بھی محض تقریبا پچاس سال کی عمر میں اپنی دو بچیوں کو یتیم کرکے چلے گئے۔ رضائے مولیٰ بر ہمہ اولیٰ ہوتا ہے۔ اس لیے ہم بھی انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہیں، اور لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے، دعا گو ہیں کہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ تدفین آج ہی(26جون2020، بروز جمعہ)  بعد نماز جمعہ جہازی قبرستان میں کی جائے گی۔ 

12 Jun 2020

ویڈیو کتاب لکھیں

ویڈیو کتاب لکھیں
محمد یاسین جہازی
زبان کی ارتقائی تاریخ میں آپ نے یہ ضرور پڑھا ہوگا کہ جو زبان آج ہم اور آپ بول رہے ہیں، اس میں اور وجودی عہد کی زبان میں بے شمار فرق ہے۔ پہلے ہم شکستہ زبان استعمال کیا کرتے تھے، لیکن جوں جوں زبان کا ذوق اور مذاق جمالیات بڑھتا گیا، توں توں زبان کی شیرینی، تسلسل اور سائستگی میں خوبصورتی پید اہوتی گئی۔ اور یہ سفر آج بھی جاری ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ زبان کے پیدائشی دور میں اشارات و کنایات ہی زبان ہوا کرتے تھے۔ پھر ترقی کرکے ان میں الفاظ کا اضافہ ہوا۔ الفاظ کو خارجی وجود دینے کے لیے تحریر وجود میں آئی؛ اور اس تثلیث سے زبان کی تکمیل ہوئی۔ الفاظ اورتحریر میں ایک خامی یہ ہے کہ الگ الگ زبانوں اور تحریروں کی ہیئتیں، مصوتے، مصمتے اور رسم الخط الگ الگ ہیں، جو ان سے غیر متعلق افراد کے لیے ناقابل استعمال اور ناقابل فہم ہوتے ہیں۔ اردو والوں کو انگریزی اور انگریزی جاننے والوں کے لیے اردو پڑھنا، بولنا اور سمجھنا فطری تربیت میں مشکل ہوتا ہے۔ دوسری زبان، بولنے، پڑھنے اور سمجھنے کے لیے سیکھنے کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ اور یہ ناممکن ہے کہ دنیا کا ہر انسان دنیا کی سبھی زبانیں سیکھ لے۔
علاوہ ازیں ایک زبان والوں کے لیے بولنے، پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے بھی درجے ہوتے ہیں۔ بولنے والا یا سمجھنے والا ضروری نہیں ہے کہ لکھنا بھی جانتا ہو۔ بہت سارے لوگ اردو یا ہندی بولتے یا سمجھتے ہیں، لیکن تحریر سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ خود اپنی زبان والا اپنی زبان میں لکھی ہوئی تحریر سے استفادہ نہیں کرپاتا۔ چنانچہ انسان کے متجسس دماغ نے اس تاریکی پرقابو پانے کے لیے کئی طریقے ایجاد کیے ہیں، جن سے فائدہ اٹھا کر ہم بے زبانوں تک بھی اپنی بات پہنچا سکتے ہیں۔
 کمپیوٹر ایک ایسی مشین ہے، جو دنیا کی ہر زبان کے رسم الخط کو لکھ بھی سکتا ہے اور پڑھ بھی سکتا ہے؛ کیوں کہ کمپیوٹر کی ساخت کسی ایک زبان پر رکھنے کے بجائے بائنری زبان پر رکھی گئی ہے۔ بائنری زبان کے صرف دو حروف تہجی ہیں ایک زیرو (0)اور دوسرا ایک (1)۔ زیرو کو آف اور ایک کو آن کہا جاتا ہے۔ اور انھیں دونوں حروف سے دنیا کی ہر زبان کی سوفٹویر کے ذریعہ کوڈنگ کی جاتی ہے اور اس کا رسم الخط اسکرین پر نظر آتا ہے۔ لیکن یہ کوڈنگ انتہائی مشکل اشاریہ ہوتا ہے، جو صرف انجنیر اور سافٹویر ہی سمجھ پاتا ہے۔ سافٹویرکے کمانڈ کو آسان بنانے کے لیے انجنیر اشاراتی زبان استعمال کرتا ہے، جسے سیمبل لنگویج کہا جاتا ہے۔ یہ سیمبل لنگویج ایک ایسی ایجاد ہے، جس نے رسم الخط سے ناواقف افراد کے لیے تحریر فہمی کو آسان بنا دیا ہے۔ چنانچہ آپ اپنے موبائل میں اس کی لاتعداد مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک بچہ یا ان پڑھ آدمی واٹس ایپ یا فیس بک لکھنا یا پڑھنا نہیں جانتا، لیکن اس کے آئیکن سے یہ سمجھ اور پڑھ لیتا ہے کہ واٹس ایپ اور فیس بک کا ایپ یہی ہے۔
تحریری زبان سے ناواقف افراد کے لیے ایک جدید طریقہ ویڈیو تحریر بھی ہے۔ جس میں مضمون کو سمجھانے کے لیے کسی مخصوص رسم الخط کو استعمال کرنے کے بجائے، اس کی کوریو گرافی اور فریمنگ کی جاتی ہے اور ان دونوں کو سمجھانے کے لیے آواز کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اور چوں کہ ویڈیو میں آواز سنائی دینے کے ساتھ ساتھ سیمبل لنگویج یعنی تصاویر، گرافکس وغیرہ بھی نظر آتے ہیں، توہر شخص کے لیے مضمون کو سمجھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے؛ اس لیے اس جدید ایجاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں تحریری کتاب لکھنے کے ساتھ ساتھ ویڈیو کتاب لکھنے کا بھی رواج دینا چاہیے۔

سیمینار کو ویبینار بنائیں

سیمینار کو ویبینار بنائیں
محمد یاسین جہازی 9891737350
دیگر مخلوقات الہی میں انسان کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے خیالات وتجربات کا تبادلہ کرکے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاکراور فائدہ حاصل کرکے اپنی زندگیوں کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔تبادلہ خیالات کے طریق عمل زمانے کے اعتبارسے بدلتا رہا ہے۔ کاغذ اور تحریر کی ایجاد سے پہلے تبادلہ خیال کا طریقہ زبانی روایات پر مبنی تھا، جو سینہ بہ سینہ نسل در نسل منتقل ہوا کرتی تھیں۔ تحریر کا طریقہ دریافت ہونے کے بعد زبانی روایات کا سلسلہ کمزور ہوتا گیا اور اس کی جگہ کاغذ قلم نے لے لی۔
عصر حاضر میں ڈیجیٹل طریقہ ایجاد ہوجانے کی وجہ سے کاغذقلم کی اہمیت بھی کمزور ہوتی جارہی ہے۔ کاپی پیسٹ کی زبردست طاقت کے وجود میں آجانے کے بعد ماضی کے دور کی بہت سے پریشانیوں کا تصور تک مٹتا جارہاہے۔کاغذ قلم کے دور کی ایک سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ کاپی تیار کرنے میں بھی اصل کے برابر ہی محنت اور وقت درکار ہوا کرتا تھا، لیکن سوشل میڈیا اور کاپی پیسٹ کے آسان طریقہ وجود میں آجانے کی وجہ سے تعلیم و تعلیم اور تجربات کے تبادلہ میں زبردست انقلاب پیدا ہوگیا ہے۔ اب نہ تو اصل بنانے میں مہینوں اور سالوں کا وقت درکار ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی کاپی بنانے میں لمبی چوڑی محنت صرف کی جاتی ہے؛ بلکہ سب کچھ ایک کلک اور چند کلک سے ہوجاتا ہے۔ بالخصوص یونی کوڈ فارمیٹ کی سہولت ایجاد ہونے کے بعد ایک شخص کی محنت سے سبھی لوگ یکساں فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ آج لوگ گوگلنگ مزاج کے حامل ہوچکے ہیں، سب کچھ چند لمحوں میں حاصل کرکے،اس کی کاپی بناکر پیش کردینا چاہتے ہیں اور جدید ذرائع میں یہ سب آپشن موجود ہے؛ اس لیے ان سہولیات سے فائدہ نہ اٹھانا،اور ماضی کے فرسودہ طریقہ پر ہی قائم رہنا، راقم کے عندیہ میں وقت ضائع کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ کچھ مہینے پہلے ایک موقرشیخ الحدیث صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ راقم نے اصلاح کی نیت سے ایک مضمون پیش کیا، تو انھوں نے فرمایا کہ اسے لکھنے میں کتنا وقت لگا؟ میں نے کہا کہ دیگر مصروفیات کے ساتھ تقریبا ایک ہفتہ میں مکمل ہوا۔ یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ اتنے حوالوں کے ساتھ ایک ہفتہ میں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ تو میں نے بتایا کہ قرآن اور احادیث کمپوزشدہ انٹرنیٹ سے مل جاتی ہیں۔ حوالے بھی اسی ذریعہ سے تلاش کرلیتا ہوں۔ باقی دیگر ہزاروں کتابیں مختلف سائٹوں پر موجود ہیں، جہاں سے پڑھ لیا جاتا ہے، کاپی کا آپشن ہوتا ہے، تو کاپی اور پیسٹ کرلیتے ہیں۔ اور اس طرح کم وقت میں مستند و محقق مضمون تیار ہوجاتا ہے۔ پھر میں نے حضرت سے پوچھا کہ آپ کا کیا طریقہ ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ پہلے کاغذ پر قرآن کی آیتیں لکھتا ہوں، پھر رنگین قلم سے اعراب لگاتا ہوں، پھر کمپوزر کو دیتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر اس میں مہینوں لگ جاتا ہے۔
بہرحال جدید ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنے ماضی کے طریقے کو بدل کر جہاں ہم اپنا وقت اورمحنت بچاسکتے ہیں، وہیں خرچ ہونے والے کثیر صرفے سے بھی بچ سکتے ہیں؛ کیوں کہ ہر شخص سیکڑوں کتابیں نہیں خرید سکتا، البتہ ایک لیپ ٹاپ خرید کر سائٹوں سیمفت میں یا پھر معمولی ممبرشپ پر ہزاروں کتابوں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔
عصر حاضر میں تبادلہ خیال کا ایک طریقہ سیمینار بھی ہے، لیکن جدید ایجادات سے فائدہ اٹھایا جائے، تو ہم سیمینار کو ویبینار بناسکتے ہیں۔ سیمینار کے مقابلہ میں ویبینار جہاں کم خرچ میں ہوجاتا ہے، وہیں وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ ریکارڈ اور کاپی کی سہولیات بھی میسر آجاتی ہیں۔ اسی طرح اس میں مجمع اور سامعین و ناظرین کو لامحدود سعت دے سکتے ہیں۔
ویسے تو ویبینار کرنے کے لیے کئی طریقے اور ایپس ہیں؛ لیکن ہم ذیل میں تین آسان طریقوں کا تعارف پیش کرتے ہیں۔
(۱) زوم(Zoom cloud meeting): اس کورونا لاک ڈاون میں اس ایپ کا سب سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ایپ دوسرے ایپ کے مقابلہ میں قدرے آسان ہے اور زیادہ آپشن سے لیس ہے۔ اس کے استعمال کا آسان طریقہ یہ ہے کہ لیپ ٹیپ میں انٹرنیٹ سے یا موبائل میں پلے اسٹور یا ایپ اسٹور سے ڈاون لوڈ کریں اور پھر میل آئی ڈی کی طرح آئی ڈی بناکر استعمال کرنا شروع کردیں۔ اگر کوئی آپشن سمجھ میں نہیں آرہا ہے، تو سیکھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ سیکھنا ہے وہ یوٹیوب میں سرچ کرکے سیکھ سکتے ہیں۔
(۲) لارک(Lark): یہ ایپ بھی زوم ہی کی طرح ہے۔ البتہ اس میں ایک اضافی آپشن یہ ہے کہ آپ جو کچھ بولتے ہیں، اسے ساتھ ساتھ ٹیکسٹ میں بھی بدل سکتے ہیں۔ تاکہ جو کوئی آپ کی زبان نہیں سمجھتا ہے، وہ اس کا ٹیکسٹ ترجمہ کی شکل میں پڑھ کر سمجھ سکتا ہے۔
(۳) میٹ (Meet): یہ گوگل کا ایپ ہے، جو ہر جی میل کے ساتھ اٹیچ ہے۔ اگر آپ اپنا جی میل لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر میں استعمال کر رہے ہیں، تو کوئی ایپ لوڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے  اور نہ ہی کوئی آئی ڈی بنانے کی ضرورت ہے۔ جی میل کی آئی ڈی ہی کافی ہے۔ لیکن اگر موبائل میں استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو پھر پلے اسٹور یا ایپ اسٹور سے میٹ نامی ایپ لوڈ کرنا ہوگا اور اپنی جی میل آئی ڈی استعمال کرکے اس سے ویڈیو کانفرنسنگ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کی ایک خامی یہ ہے کہ اس میں ریکارڈ اور لائیو کا آپشن نہیں ہے، جب کہ زوم میں ریکارڈ اور اسے لائیو کرنے کا بھی آپشن موجود ہے۔
اس کورونا لاک ڈاون میں جب کہ اجتماع سے بیمار ہونے کا خطرہ ہے، ایک دوسرے کے تجربات و خیالات سے فائدہ اٹھانے کا ویبینار ایک بہترین طریقہ ہے۔ اس میں جہاں آمدو رفت اور قیام و طعام کے اخراجات سے بچ سکتے ہیں، وہیں وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ ریکارڈ، کاپی اور لائیو کے آپشن سے فائدہ اٹھاکر افادے کے دائرے کو لامحدود وسعت دے سکتے ہیں۔ تو راقم کا یہی مشورہ ہے کہ اب سیمینار نہیں؛ بلکہ ویبینار کو فروغ دیں اور جدید ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افادے و استفادے کے حلقہ اثر کو عالمی بنانے میں ایک موثر کردار ادا کریں۔