تجارتی شادی کے بھیانک انجام
محمد یاسین جہازی 9891737350
مکئی اپنی پورے شباب پر تھی،اس کے ہرے بھرے پتے اور بھٹوں
کی دراز زلفوں نے مسکرا مسکرا کر منظر کو بے انتہا حسین بنا دیا تھا؛ ساتھ ہی بادل
سے آنکھ مچولی کرتے چمچماتی دھوپ اور خنک آمیز پر لطف ہواموسم کو انتہائی خوشگوار بنا
رہی تھی۔اتنے پرکیف ماحول میں کھیتوں کے بیچوں مچان کی چارپائی پرلیٹا ہواایک یتیم
نہ جانے کس غم میں ڈوب کر پر فریب مناظر کا منھ چڑھا رہا تھا۔وہ موسم کی دل کشی سے
بے خبر کسی اور دنیا میں گم سم ہوکر سوچ کی عمیق گہرائی ڈوبا ہوا تھا، تو اسے کیسے
پتہ رہتا کہ وہ پرکیف موسم میں ایک اونچے مچان پر ہے۔ اسی دوران ایک نیک صفت آدمی ادھر
سے گذرے، انھوں نے پرکیف موسم میں بے کیف یتیم کو دیکھ کر مخاطب ہوا کہ آخر اس بے چینی
کی وجہ کیا ہے۔ یتیم نے جواب دیا کہ بارہ تیرہ سال کی عمر میں میرے والد محترم کا انتقال
ہوا۔ میں نے اس غم کو برداشت کرلیا۔ یتیمی نے پیروں میں زنجیریں ڈالیں، پڑھائی چھوڑ
دی۔ بھکمری نے ستایا، تو نوکری کر رہا ہوں۔ تین چارسالہ بھائی کی پرورش و پرداخت کرنے
میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے؛ والد محترم نے بینک سے جو بھاری قرض لیا تھا،
اس کی قسطیں بھی ادا کرنے کی ہمت ہے مجھ میں؛لیکن میرے دوش ناتواں پر بہن کی شادی کا
بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔…… میں کیسے پورا کروں بھاری بھرکم جہیز کے مطالبہ
کو۔ پورے گوتیہ کی دعوت کا انتظام کیسے ہوگا۔ باراتیوں کی سواگت میرے لیے کیسے ممکن
ہے۔ سماج کے درجنوں رسوم کی ادائیگی کے لیے میں کیا کروں، کہاں جاوں ……۔ کیا میں خود
کشی کرلوں؟۔ عزت کا جنازہ نکلنے سے تو بہتر ہے کہ عزت کے وجود کو ہی ختم کردیا جائے۔
اس بے رحم سماج میں گھٹ گھٹ کر زندہ لاش بن کررہنے سے تو بہتر ہے کہ لاش کا کفن اوڑھ
لوں۔ زندگی میں نہیں، تو کم از کم کفن میں دیکھ کر لوگ فاتحہ خوانی کا رحم تو کریں
گے ہی۔ …… آپ ہی بتائیے نا، کیا ایک زندگی بسانے کے لیے ایک گھر کو برباد کرنا ضروری
ہے؟۔ …… یتیم بولتے بولتے بے قابو ہوگیا، آنکھیں بادل بن گئیں۔ گلے میں خشکی کے تالے
لٹک گئے…… اور بالآخر الفاظ نے بھی زبان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ بس آنکھوں میں آنسو تھے،
جو رواں تھے۔ ایک بے بسی تھی، جو اس کے پورے وجود پر چھائی ہوئی تھی۔ نیک صفت آدمی
نے جب یہ دیکھا کہ اب اس یتیم کی زبان میں تاب گویائی نہیں بچی ہے، اور سارے جذبات
نچوڑ کر غم میں تبدیل ہوگیا ہے، تواس نے بولنا شروع کیا کہ زندگی سے ہارمان لینا شیر
صفت بچوں کو زیب نہیں دیتا، اور تم تو شیر ہو شیر۔ تم اٹھو اور حالات کا مقابلہ کرتے
ہوئے دوسروں کے لیے مثال بننے کی کوشش کرو۔
بہر کیف اس افسانوی دنیا سے نکل کر حقیقی واقعہ کی طرف آتے
ہیں۔ اس نیک صفت آدمی نے پوچھا کہ سر دست تمھارے پاس کیا انتظام ہے۔ یتیم نے جواب دیا
کہ میرے پاس کچھبیگھا کھیت ہے، اس کے علاوہ
کوئی سرمایہ حیات نہیں ہے۔ نیک صفت آدمی نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہے۔ تم ایسا
کرو کہ یہ کھیت مجھے سود بھرنا پر دے دواور تم ہی اس میں کھیتی بھی کرنا؛ البتہ آدھی
پیداوار خود رکھ لینا اور آدھی پیداوار مجھے حوالے کردینا۔ چنانچہ سود بھرنے کا حساب
لگایا گیا، تو بھی شادی کے اخراجات پورے نہیں ہوسکے، تو اس یتیم نے اپنے کھیتوں کا
اسی قسم کا معاملہ ایک اور شخص سے کیا۔ اور یہ کہا کہ کھیتی بھی میں ہی کروں گا؛ البتہ
آدھی پیداوار آپ کو دے دیا جائے گا۔ چنانچہ معاملہ طے ہوگیا۔ان دو معاملے کی وجہ سے
ہوتا یہ تھا کہ یتیم کھیتی کرتا تھا اور آدھی پیداوار ایک شخص کو اور آدھی پیداوار
اس بزرصفت شخص کو حوالے کردیتا تھا؛ لیکن گھر کے لیے ایک کلو پیداوار بھی نہیں بچاپاتا
تھا۔
دو دو شخص سے معاملہ کرنے کے باوجود جب شادی کے اخراجات
مکمل نہیں ہوئے، علاوہ ازیں گھر میں بھی پیداوار کا کوئی حصہ نہیں آنے لگا کہ تو یتیم
اور پریشان ہوااور اس کی حالت بد سے بد تر ہونے لگی۔ البتہ اس یتیم کے لیے ایک راحت
کا واقعہ یہ ہوا کہ جب اس بزرگ صفت کو اس دوسرے معاملہ کا علم ہوا، تو انھوں نے اپنا
حصہ لینے سے انکار کردیا اور یہ کہا کہ میرا حصہ بھی تم ہی رکھ لینا۔
ذرا خود کو اس جگہ رکھتے ہوئے سوچیے کہ آپ چھوٹی عمر میں
یتیم ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے آپ کی پڑھائی رک جاتی ہے، ساتھ ہی آپ اپنے چھوٹے بھائی
اور بہن کی پرورش کرنے کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ آپ
کے والد محترم بینک کا بھاری قرضہ آپ کے سر چھوڑ کے چلے جاتے ہیں۔ پھر جب آپ کی عمر
تیرہ چودہ سال کی ہوتی ہے، توآپ کواپنی بہن کی شادی کے انتظامات کے لیے پریشان ہونا
پڑتاہے، مزید برآں پورا سماج آپ کو جہیز، لین دین اور دعوت کرنے پر مجبور کرتا ہے،
تو بتائیے کہ آپ کی کیا حالت ہوگی۔ کیا آپ خود کشی کے بارے میں سوچنے پر مجبورنہیں
ہوں گے……؟
پھر اس کے بعد اس یتیم کی زندگی کا نقشہ یہ بنا کہ والد
محترم کے بینک قرضہ کے ساتھ ساتھ اپنی بہن
کی شادی کے قرضوں کے بوجھ تلے دبتا رہا، دبتا رہا اور اتنا دبا کہ بینک نے گھر قرق
کرلیے، سماج نے یتیم کی لعنت سمجھ کر ساتھ دینا چھوڑ دیا؛ حتیٰ کہ رشتہ دار بھی کوئی
معاملہ کرنے سے اس لیے بچنے لگے کہ یہ پھر ہمیں دے گا کہاں سے، وغیرہ وغیرہ۔
راقم نے جب سے اس یتیم کی کہانی کو سنا اور دیکھا ہے، تب
سے مجھے شادی کی رسوم و رواج سے نفرت سی ہوگئی ہے۔ جہیز کے لین دین سے نہ صرف شادی
مشکل ہوتی ہے؛ بلکہ اس سے کئی نسلیں متاثر ہوجاتی ہیں۔یتیم خودغریب ہوتا ہے، اس کا
بیٹا بھی غریب ہوجاتا ہے اور یہ غریبی کئی نسلوں تک محیط ہوجاتی ہے۔ ایک بات اور بتا
دوں کہ جس شخص نے اس یتیم کی بہن سے شادی کی تھی، اور یتیم کو غریبی کے دلدل میں دھکیلنے
کا کام کیا تھا، جب اس کی بیٹی کی شادی کا معاملہ آیا، تو راقم نے دولہے کو ماضی کے
واقعات بتاکر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ ماضی کے اس کردار کو نہ دھرائیں۔ چنانچہ
دولہے نے حقیقت جاننے کے بعد وعدہ کیا کہ اب میری وجہ سے کوئی اپنی بیٹی یا بہن کی
شادی کے لیے قرضے میں نہیں ڈوبے گا اور نہ ہی وہ اس کی نسلوں کو مقروض ہونے پر مجبور
ہونے دے گا۔ چنانچہ اس نے اس یتیم کی بہن کی بیٹی سے شادی کی اور شادی میں ایک ڈھیلا
تک لینے سے انکار کردیا۔ اس حقیقت کو جاننے کے بعد کیا آپ بھی کسی کو جہیز دینے، یا
لینے کے لیے مجبور کریں گے……؟ میرے خیال سے
جس کے دل میں ذرہ برابربھی انسانیت باقی ہوگی،
وہ کبھی رسمی شادی کی حمایت نہیں کرے گا۔ میرا فیصلہ اور عمل تو یہ تھا اور آپ کا……؟۔
آج 2 جولائی 2020 کو ایک اور یتیم حضرت مولانا محمد منیر
الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی پوتی کی شادی ہے۔ سنا ہے کہ لڑکا حافظ ہے، اس نے اس
یتیم خاندان سے ستر ہزار کیش جہیز اور گھریلو سازو سامان کے ساتھ ایک تعداد باراتی
لے کرآیا ہے۔ ساتھ ہی گوتیہ نے دعوت کے لیے مجبور کرتے ہوئے کھانا بھی پکوایا ہے۔
اس دعوت میں شریک تمام حضرات سے میری گذارش ہے کہ جس وقت آپ دعوت کا لقمہ اپنے منھ
میں ڈالیں گے، تو اس وقت یہ ضرور سوچنا کہ یہ اس یتیم بچی کی دعوت ہے، جس کا باپ دنیا
میں نہیں ہے اور نہ جانے کہاں کہاں سے قرضہ کرکے اس کھانے کا انتظام کیا ہے۔ اور دولہے
سے کیا کہوں ، جو خود حافظ ہے ، یعنی قرآن اس کے سینے میں محفوظ ہے، اسے مجھے کچھ
کہنے کی ہمت نہیں ہے، بس شادی مبارک ہو اوردعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایسے حالات
پیدا نہ کرے۔ آمین۔