26 Jun 2020

آہ چچا اطہر!

آہ چچا اطہر!
محمد یاسین جہازی
9891737350
معصوم عمر سے چچا اطہر کا نام سنتے آئے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ چچا اطہر میری مرحومہ دادی نور اللہ مرقدہا کے سگے بھتیجے تھے۔ چچا اطہر کے والد کا انتقال تقریبا تیس سال کی عمر میں ہوگیا تھا،جب کہ چچا اطہر اس وقت ڈیڑھ دو سال کے تھے۔چچا اطہر کی یتیمی انھیں زندہ رکھنے کے لیے کڑے امتحان لینے لگی اور تلاش معاش میں گھر سے نکلے، تو غائب ہوگئے۔ عرصہ دراز کے بعد ان کے چچا قاری عبد الجبار صاحب قاسمی صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی کوششوں سے دریافت ہوئے، تو گھر لے آئے اور رشتہ ازدواج سے منسلک کردیا۔ لیکن یتیمی کے زخم ابھی نہیں بھرے تھے، اس لیے زندہ رہنے کی ضرورت نے دوبارہ گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا، اور خود کو اپنوں سے روپوش کرلیا۔ نئی نویلی چاچی کے لیے گھر کا بڑا آنگن بیوگی کا احساس دلانے لگا، جس کو مٹانے کے لیے میری دادی مرحومہ اور دادی کے ساتھ ناچیز چچا اطہر کے گھر میں مہینوں قیام پذیر رہتے تھے۔ اور ہمیشہ چچا اطہر کا ذکر لاشعور کانوں سے ٹکراتا رہتا تھا۔
بعد میں بالیدہ شعورنے سمجھا اور جانا کہ یہ چچا اطہر کون تھے۔ان کے والد محترم  حضرت مولانا محمد اسلام ساجد مظاہری (جون1943-19اپریل1972) استاذ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ تھے، جو تعلیم و تربیت اور تقویٰ و طہارت میں خاصی شہرت رکھتے تھے۔
چچا اطہر کو جب خانگی ذمہ داری کا احساس ہوا، تو انھوں نے سمجھا کہ زندگی سے بھاگنے کا نام زندگی نہیں؛ بلکہ زندگی کو سہارا دینے کا نام زندگی ہے؛ چنانچہ انھوں نے زندگی کے بارے میں اپنا نظریہ بدلہ اور خانگی زندگی جینا شروع کیا۔ اسی دور میں چچا اطہر سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور ان کو قریب سے جاننے سمجھنے کا موقع ملا۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اس حوالے سے اتنے انسان پسند اور اولو العزم واقع ہوئے تھے کہ اتنا شاید بعض دانش مندبھی نہیں ہوتے۔ایک مرتبہ میں نے ان سے فیملی سے دوری کا سبب پوچھا، تو انھوں نے کہا کہ میں ایک لمبی چھلانگ میں ہوں، اگر اس میں کامیاب ہوگیا، تو میں اس طرح کی چھوٹی موٹی نوکری سے نجات پاجاوں گا۔ وہ لمبی چھلانگ کیا تھی، مجھ سے شیئر نہیں کیا۔ لیکن ان کے بعد کے حالات شاہد ہیں کہ شاید وہ لمبی چھلانگ  نہیں لگا پائے۔
پہلے وہ ٹرک ڈرائیورتھے۔ پھر فروٹ جوس کا کاروبار کیا۔ بعد ازاں مدرسہ ربانیہ پرشواتم مدراس میں معاون باورچی بنے۔ یہاں کے دینی ماحول میں ایسے گھلے ملے اور چہرے پر ایسی سنت سجائی کہ کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ پہلے یہ ٹرک ڈرائیور رہے ہوں گے۔
پچھلے کئی سالوں سے گھر میں ہی کھیتی باڑی کو اپنا ذریعہ معاش بنالیا تھا۔ اور صاف ستھری زندگی گزار رہے تھے۔
آج (26جون2020) کو علیٰ الصباح مفتی نظام الدین صاحب قاسمی مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کے فون سے اطلاع ملی کہ چچا اطہر اب دنیا میں نہیں رہے، ان کا صبح تقریبا پانچ اور چھ بجے درمیان انتقال ہوگیا۔ پہلے سے کوئی بیماری نہیں تھی۔ آج بھی بے تکلف احباب کے ساتھ انھوں چائے کی محفل سجائی تھی؛ لیکن اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، چچا اطہر بھی محض تقریبا پچاس سال کی عمر میں اپنی دو بچیوں کو یتیم کرکے چلے گئے۔ رضائے مولیٰ بر ہمہ اولیٰ ہوتا ہے۔ اس لیے ہم بھی انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہیں، اور لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے، دعا گو ہیں کہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ تدفین آج ہی(26جون2020، بروز جمعہ)  بعد نماز جمعہ جہازی قبرستان میں کی جائے گی۔