18 Jul 2020

جہازی صاحب خیریت سے ہیں …… سے خیریت پوچھنے والے نہیں رہے!

جہازی صاحب خیریت سے ہیں …… سے خیریت پوچھنے والے نہیں رہے!
محمد یاسین جہازی 9891737350
غالبا 1996میں راقم کانپور کے ایک تعلیمی ادارہ ’مدرسہ مظہر العلوم بیگم گنج، دادا میاں چوراہا‘ میں زیر تعلیم تھا، اس وقت میری عمر بارہ چودہ سال کی تھی؛ اسی لاشعوری دور میں مدرسہ کے باشعور طلبہ سے مولانا متین الحق اسامہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی شعلہ آسا خطابت کے تذکرے سنا کرتا تھا؛ بالخصوص فرق باطلہ کے خلاف ان کی تقریر گویاشمشیر آبدار ہوا کرتی تھی، ہر ذہن و فکر کو متاثر کرنا، ان کی خطابت کا طلمساتی خاصہ تھا۔ بعد ازاں 2009کے آواخر میں راقم جب جمعیت علمائے ہند سے عملی طور پر وابستہ ہوا؛ تو مولانا کو بارہا دیکھا اور مزید جاننے کا موقع ملا۔ دہلی میں منعقد ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے حضرت کی معیت کا شرف حاصل ہوا؛ اس سفر میں حضرت کے کریمانہ و متواضعانہ اخلاق کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
مولانا مرحوم جمعیت علمائے ہند کی میٹنگوں میں برابر شرکت فرمایا کرتے تھے اور اکابرین کی صف میں نمایاں نظر آتے تھے۔ دفتر جمعیت علمائے ہند میں جب بھی مولانا سے ملاقات ہوئی، توہمیشہ چہرے پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ خود سلام کرتے یا سلام کا جواب دیتے اور ساتھ ہی فرمایا کرتے کہ’’جہازی صاحبخیریت سے ہیں!“۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ملاقات ہوئی اور یہ جملہ نہ کہا ہو۔ کبھی کبھار اس کے ساتھ ”جہازی میڈیا“ کے حال احوال بھی پوچھا کرتے تھے۔
10مارچ 2018کو لکھنو میں منعقد جمعیت علمائے اتر پردیش کا تحفظ ملک و ملت کے اجلاس عام کی تیاریوں کے سلسلے میں مرکزی دفتر سے جو حضرات لکھنو میں قیام پذیر رہے، ان میں ناچیز بھی شامل تھا، جب اجلاس مکمل طور پر کامیاب رہا، توکلمات تشکر پیش کرتے ہوئے کامیابی کا سہرا، دیگر اکابرین کے سر باندھتے ہوئے، مولانا مرحوم نے ناچیز کا بھی نام لیا۔ یقین مانیے کہ مولانا مرحوم کی اس حوصلہ افزائی نے ان کے تئیں جو جذبات قدر دل میں پیدا کیے، ان کے بیان کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
11/ستمبر1917بروز سوموار میری دادی ماں کا انتقال ہوگیا تھا۔ کچھ دنوں بعد جب میں دہلی واپس ہوا اور مولانا سے دہلی دفتر میں ملاقات ہوئی، تو سب سے پہلے مولانا نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں نے آپ کی دادی کے لیے مدرسہ میں ایصال ثواب کرایا تھا۔ مولانا کا یہ مشفقانہ کردار جان کر بلا اختیار آنکھیں نم ہوگئیں۔
مولانا کے ہم سبق مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی سکریٹری جمعیت علمائے ہند سے ملی جان کاری کے مطابق آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت جامعہ ہتھورا باندہ میں ہوئی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور ممتاز شاگرد کے طور پر 1989میں فراغت حاصل کی۔
عملی زندگی میں پہلے جامع العلوم پٹکاپور میں تدریس میں قدم رکھا۔ بعد ازاں انھوں نے مدرسہ اشرف العلوم جاجمؤ قائم کیا۔ تدریس کے ساتھ ساتھ ملی خدمات میں بھی وہ پیش پیش رہے اور ملی تنظمیوں کو اپنی وابستگی سے زینت بخشتے رہے۔ چنانچہ وہ پہلے جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے مدعو خصوصی رہے، بعد ازاں رکن منتخب کیے گئے۔ جمعیت علمائے اتر پردیش کے سکریٹری، نائب صدر، جمعیت علمائے کان پور کے صدر اور حالیہ ٹرم کے 2016میں جمعیت علمائے اتر پردیش کے صدر تھے۔
دو دن پہلے مولانا مرحوم کے صاحبزادے مولانا امین الحق عبد اللہ اسامہ صاحب سے منسوب واٹس ایپ پر ایک خبر نظر سے گذری، جس میں مولانا کو کورونا پوزیٹیو بتایا گیا تھا۔ خبر پڑھ کر انہونی کا شبہ گذرا۔ یہ شبہ اتنا بھی قوی نہیں تھا کہ وہ آج کی خبر کا سبب بن جائے۔ بس شبہ اتنا تھا کہ ہاسپٹیل والے کہیں غیر انسانی حرکت نہ کردے۔ لیکن آج مورخہ 18جولائی 2020بروز سنیچر صبح صبح تقریبا چار بجے، جو تہجد اور مقبولیت کی گھڑی ہوتی ہے، گھڑی دیکھنے کے لیے موبائل آن کیا، تو سب سے پہلے اسی جان کاہ خبر پر نظر پڑی۔ دل دھک سا ہوکر رہ گیا۔ طبیعت میں کافی بے چینی محسوس ہونے لگی، جب کسی پہلو قرار نہیں آیا، تو مسجد کا رخ کیااور امام صاحب سے مل کر واقعہ کی اطلاع دی، انھوں نے بھی انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا۔ اور بعد نماز فجر الحاح و زاری کے ساتھ مولانا مرحوم کے لیے جہاز قطعہ گڈا کی جامع مسجد میں دعائے مغفرت کی۔
پونے آٹھ بجے صبح مدرسہ اشرف العلوم جاج مؤ کے احاطہ میں پہلی نماز جنازہ ہوئی، پھر یکے بعد دیگرے لوگ آتے گئے، تو کئی کئی بار جنازے کی نماز اد اکی گئی۔ موقع پر موجود مولانا مرحوم کے خادم خاص مولانا اظہار مکرم صاحب سے ملی فونک رابطہ کی معلومات کے مطابق آٹھ نو مرتبہ جناز کی نماز ادا کی گئی اور مدرسہ کے احاطہ میں ہی تدفین عمل میں آئی۔ …… اس طر ح چہرے کی بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ”جہازی صاحب خیریت سے ہیں!“ سے خیریت پوچھنے والے ہمیشہ ہمیش کے لیے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ آمین