تغلقی مہتمم
محمد یاسین جہازی 9891737350
کووڈ لاک ڈاون نے بھارت کی تاریخ کے وہ تاریک گوشے بھی اجاگر
کردیے، جن کی طرف نہ اہل سیاست توجہ دے رہے تھے اور نہ اہل قلم بھارت کو اس نظریے سے
دیکھنے کے بارے میں سوچ پارہے تھے۔ سبھی دیس واسی سمجھ رہے تھے کہ بھارت کی جی ڈی پی
بہت زیادہ آگے بڑھ رہی ہے اور اب یہ ملک ترقی
پذیر سے ترقی یافتہ میں شمار کیا جانے لگے گا۔ عوام کے ساتھ ساتھ طبقہ خواص بھی ڈیجیٹل
انڈیا اور شائنگ انڈیا کے نعروں میں مدہوش ہوچکے تھے۔
لیکن اچانک کورونا لاک ڈاون کی وجہ سے ہجرت اور مزدور طبقے
کی مظلومیت، بے کسی، بے بسی، بھوک، پیاس اور پیدل اسفار کی جو بھیانک تصویریں سامنے
آئیں، انھوں نے سب انسانیت پسند طبقے کو ہلاکر رکھ دیا۔ مودی حکومت کے علاوہ، سیکڑوں
تنظیمیں، ہزاروں سماج سیوا اور انسانیت کا مفہوم سمجھنے والے افراد میدان عمل میں آئے
اور جن کی جہاں تک وسعت اور گنجائش تھی، انھوں نے وہاں تک ان لوگوں کی مدد کرنے میں
کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ بھارت کی سب سے بڑی تنظیم جمعیت علمائے ہند نے براہ راست اور
اپنی ریاستی و ضلعی یونٹوں کے تعاون سے مشترکہ طور پر ساٹھ کروڑ روپے کا رفاہی کام
انجام دیا، جو اپنے آپ میں ایک بڑی تاریخ ہے اور اس کا سہرا، اس کے جنرل سکریٹری مولانا
محمود مدنی صاحب کے ساتھ ساتھ ان کے سبھی رضاکاروں کے سر جاتا ہے۔
مدارس-جونبوی تعلیمات اور انسانیت و بھلائی کی تعلیم کی
آماجگاہیں ہیں - نے اپنے اسٹاف و ملازمین کے ساتھ ہمدردی اور انھیں تنخواہ دینے کی
حتی الامکان کوشش کی۔ بعض چھوٹے مدارس جن کا ذریعہ آمدنی صرف رمضان کا چندہ ہی ہے،
انھوں نے بھی مدرسین کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور ان کو تنخواہیں دیتے رہے۔ جو مدارس
سردست نہیں دے پارہے ہیں، ان کے ذمہ دار اپنے اساتذہ کے ساتھ یہ معاملہ کر رہے ہیں
کہ جہاں تک گنجائش نکل رہی ہے، دے رہیں اور جب گنجائش باقی نہیں رہی، تو ان سے کہا
کہ حالات معمول ہونے پر بقیہ تنخواہ بھی رفتہ رفتہ دی جائے گی۔ ایسے ایک مدرسہ کے مہتمم
ہیں مفتی محمد نظام الدین صاحب قاسمی مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا، جھارکھنڈ۔
انھو ں نے بتایا کہ جب تک گنجائش رہی دیتے رہے، جب گنجائش کم ہونے لگی، تو کہا کہ آدھی
تنخواہ ابھی لے لیں۔ بقیہ ان شاء اللہ تھوڑی تھوڑی کرکے بعد میں دی جائے گی۔ اب جب
کہ بالکل گنجائش نہیں بچی، تو ان سے کہا کہ آپ کی آدھی تنخواہ حسب معمول جاری رہے گی،
تاہم ادائیگی کے لیے حالات کے معمول پر آنے کا انتظار کریں۔ اس قسم کے ذمہ داران مدارس
کی جتنی بھی تعریف کی جائے، وہ کم ہے۔ یہ حضرات بالیقین نبوی تعلیمات کے عملی مظاہر
ہیں۔
اسی لاک ڈاون میں جب اپنے اساتذہ اور اسٹاف کا تعاون کرنا
اسوہ نبی کی بہترین تقلید ہے؛ بعض ایسے مدارس جو نہ مجبور ہیں اور نہ ہی انھیں کسی
قسم کی مجبوری ہے اور یہ مدارس سالوں اپنے اساتذہ اور اسٹاف کو تنخواہیں دینے کی اہلیت
رکھتے ہیں، اس مصیبت کی گھڑی میں نہ صرف اپنے اساتذہ کی تنخواہ کاٹ رہے ہیں؛ بلکہ انھیں
مدرسہ بدر بھی کردے رہے ہیں۔
اس حوالے سے ایک خبر شروع لاک ڈاون میں ہی دارالعلوم نیرل
سے آئی تھی کہ اس ادارے نے اپنے آٹھ اساتذہ کو یک قلم مدرسے سے نکال دیا ہے۔ جب یہ
خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور مولانا سجاد نعمانی صاحب کو شیخ الاسٹیج کا خطاب
دیے جانے لگا تو ادارے کی طرف سے صحیح صورت حال کی وضاحت آئی کہ وہاں ایک سال کے لیے
عارضی تقرر ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی استقلال کے بارے میں فیصلہ کیا جاتاہے، جن اساتذہ
کو نکالا گیا ہے، وہ اسی قسم کے اساتذہ ہیں، جن کا استقلال نہیں ہوا ہے اور یہ وہاں
کے روٹین میں شامل ہے۔
اسی بیچ کئی اور چھوٹے بڑے مدارس کے تعلق سے خبریں آئیں
کہ انھوں نے بھی اپنے اساتذہ کو باہر کا راستہ دکھا دیا۔ ایک خبر دارالعلوم حیدرآباد
سے آئی کہ اس نے مدرسہ کھلنے تک اساتذہ کی تنخواہوں کو بند کردیا ہے۔ ان دنوں کی تنخواہیں
بعد میں بھی نہیں دی جائیں گی۔ حالاں کہ عوامی رائے یہ ہے کہ یہ ادارہ اتنا غریب نہیں
ہے کہ وہ تنخواہیں برداشت نہ کرسکے۔
اسی دوران کچھ لوگوں نے دارالعلوم دیوبند سے یہ فتویٰ بھی
حاصل کرلیا کہ لاک ڈاون کی تنخواہیں دینا ضروری ہیں۔ ادارے والے کاٹ نہیں سکتے۔ یہ
فتویٰ ابھی وائرل ہو ہی رہا تھا کہ دارالعلوم کنتھاریہ کے مہتمم کا ایک تغلقی فیصلہ
وائرل ہوا کہ انھوں نے اپنے یہاں کے دو سو اساتذہ کو یک قلم باہر نکال دیا ہے، تاکہ
انھیں تنخواہ نہ دینی پڑے۔ اس ادارے کو قریب سے جاننے والے ایک شخص نے جب راقم کو یہ
خبر دی، تو میں نے وہاں کے مالی کیفیت کے بار ے میں سوال کیا، تو ان کا جواب تھا کہ
ادارہ اتنا مضبوط ہے کہ سالوں اگر بیٹھا کر تنخواہیں دے، تو بھی ادارہ مفلوک الحال
نہیں ہوسکتا۔ یہ حقیقت جان کر ایسا محسوس ہوا کہ جو ادارے ان تعلیمات نبوی کی تعلیم
کے لیے شناخت رہکھتے ہیں، جو اپنے ملازمین کو پسینے خشک ہونے سے پہلے حق المحنت دینے
کی وکالت کرتے ہیں، جو یہ سکھاتے ہیں کہ تم اہل زمیں پر رحم کروگے، تو خدا عرش بریں
پر تمھارے لیے رحم و کرم کے دروازے کھول دیں گے۔ اور اس قسم کی درجنوں تعلیمات کا درس
یہ خود دیتے ہیں، اس کے باوجود مہتمم کا ایسا فیصلہ؛ ایک مہتمم کا نہیں؛ بلکہ فرعونی
یا تغلقی فرمان ہی ہوسکتا ہے، جو تعلیمات نبوی کے مزاج سے کبھی بھی ہم آہنگ نہیں ہوسکتا۔اللہ
تعالیٰ ایسے مہتمموں کو دین کی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔