مولانا معز الدین صاحب! مشکور ہوں آپ کا
محمد یاسین جہازی
مشہور اسلامی اہل قلم، استاذگرامی قدر حضرت مولانا نور عالم
خلیل امینی صاحب دامت برکاتہم استاذ ادب عربی دارالعلوم دیوبند، تاجدار ادب حضرت مولانا
ریاست علی صاحب بجنوری رحمۃ اللہ علیہ کی زبان و بیان کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
”ہم
ایسے لوگوں کو ان سے بات کرکے اتنا مزا آتا تھا کہ اسے بیان کرنے کے لیے راقم کے پاس
موزوں الفاظ نہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں ان کے ایسے چند ہی لوگ دیکھے ہیں، جو اس صفت
میں ان کے شریک تھے، ان کی جدائی سے شدید رنج ہوا۔ اور ایسے ہی مولاناؒ کی وفات سے؛
کیوں کہ سخن وری اور الفاظ و تعبیرات کی نزاکت کی معرفت کی صفت جن لوگوں میں ہوتی ہے،
وہ اپنے ایسے دیگر لوگوں کی بھی بے حد قدر کرتے ہیں اور ان سے مخاطب ہوکر جی اتنا خوش
ہوتا ہے کہ تا دیر وہ خوشی قائم رہتی ہے۔ان کے برعکس لوگوں سے بات کرکے بہت افسوس ہوتا
ہے؛ کیوں کہ یہ لوگ گھوڑے اور گدھے کے فرق کو ذرا بھی در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔“
(ہفت روزہ الجمعیۃ، مولانا ریاست علی بجنوری نمبر، ص/31، اکتوبر 2017)
واقعہ یہ ہوا کہ ناچیز ”جمعیت کا دائرہ حربیہ یا مجلس حربی“
کے مضمون کے تعلق سے کچھ استفسار کے لیے مولانا معز الدین احمد صاحب قاسمی ناظم امارت
شرعیہ ہند جمعیت علمائے ہند کی خدمت میں حاضر ہوا۔جمعیت نے کچھ دنوں پہلے حضرت مولانا
احمد سعید صاحب ناظم جمعیت علمائے ہند نور اللہ مرقدہ پر ایک سیمنار کیا تھا اوراب
اس کے مقالات کو کتابی شکل دے دی گئی ہے۔ چوں کہ راقم کے پاس یہ کتاب نہیں تھی، تو
سوچا کہ لاک ڈاون میں کتاب خریدنے سے بچنے کے لیے عاریت پر پڑھ لیتے ہیں۔ اگر کوئی
نئی تحقیق ہوگی، تو استفادہ کرلیا جائے گا۔چنانچہ حضرت سے یہ کتاب عاریت پردو دن کے
لیے عنایت فرمانے کی گزارش کی۔ حضرت نے یہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ میں خرید کر لایا
ہوں،اور میں کتاب بیچتا ہوں، اس لیے میں نہیں دوں گا، تمھیں خریدنی ہوگی۔ میں نے دوبارہ
گزارش کی اور صرف ایک دن کے لیے مانگا، اس پر جواب تھا کہ جب میں ایسے ہی دے دوں گا،
تو کتاب کون خریدے گا۔ بعد ازاں یہ وقت کم کرتے کرتے راقم اس پرپہنچا کہ صرف مشمولات
دیکھنے کی اجازت دے دیں؛ حضرت نے بظاہر ناراضگی ظاہر فرماتے ہوئے سختی سے دینے کی ممانعت
کی۔ کچھ دیر دوسرے موضوعات پر گفت و شنید ہوتی رہی۔ جب راقم نے واپسی کی اجازت طلب
کی، تو مولانا محترم نے نہ صرف یہ کہ ”تذکرہ سحبان الہند“ ہدیہ کردیا؛ بلکہ اس کے ساتھ
ساتھ حال کی اشاعت پذیر ایک اور کتاب ”تذکرہ مولانا عبد الباری فرنگی محلی“ بھی پیش
کردی۔ یہ کتاب 1108صفحات پر مشتمل ہے، جب کہ اول الذکر میں 880صفحات ہیں۔ اور بازار
کی قیمت کے اعتبار سے دونوں کتابیں خریدینے میں تقریبا دو ہزار روپے لگ سکتے ہیں۔
مولانا محترم اس سے پہلے بھی دو ضخیم کتابیں: ”تذکرہ فدائے
ملت“ اور”تذکرہ ابوالمحاسن“ عنایت فرماچکے ہیں۔
جمعیت کے دائرہ حربیہ پر میری جان کاری کے مطابق اس کی پچاسی
سالہ مدت میں کسی نے بھی مستقل موضوع بناکر نہیں لکھا ہے۔ اور جن حضرات نے بھی کچھ
لکھا ہے، تو مورخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی لکھی ایک صفحہ کی تحریر کو
مآخذ بناکر لکھا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھا ہے۔اور اس تحریر کے متعلق خود مورخ
ملت کا بیان یہ ہے کہ
”بہرحال
احقر کو اپنے متعلق یہ بات یاد ہے کہ وہ جمعیت علمائے ہند کانواں ڈکٹیٹر تھا۔(اس زما
نہ کا تمام ریکارڈپولیس کے چھاپو ں اور باقی ماندہ دیمک کی نذر ہوچکا، لہذاپختہ بات
عرض کرنی مشکل ہے)علاوہ ازیں ایسی باتیں ریکارڈ میں رکھی بھی نہیں جاتی تھیں۔ ان کو
یا تو ذہن میں محفوظ رکھا جاتا یا انفرادی یادداشتوں میں۔“ (الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر،
ص/90)
جس کی وجہ سے بعد کے تمام مولف اور مقالہ نگار سے یہ تسامح
ہوگیا کہ کچھ سے کچھ لکھتے رہے۔ لیکن راقم نے اصل ریکارڈ تلاش کرکے، مستند جان کاری
پیش کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اور اب تک اختصار کے باوجود سو صفحات سے متجاوز ہوچکی
ہے۔ یہ تحریر ناچیز کی تالیف”جمعیت علمائے ہند کے سو سال …… قدم بہ قدم، جلد سوم“ کا
حصہ ہے۔
جب اس تحریر کو کچھ ارباب علم و دانش کے سامنے تنقید و تبصرہ
کے مقصد سے پیش کیا، تو کسی سے یہ تاثر ملا جیسے کہ بھینس کے سامنے بیم بجانے کی غلطی
ہوگئی؛ لیکن بعض محقق اہل قلم نے نہ صرف اس تحریر کو سراہا، اور مفید مشورے دیے؛ بلکہ
حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی بھی نصیحت کی۔ ناچیز ان سبھی ارباب
ذوق کا شکر گزار ہے۔
ان محقق اہل قلم میں مولانا معز الدین احمد صاحب کے سامنے
جب یہ تحریر آئی، تو انھوں نے بھی حوصلہ افزائی
کی اور درج بالا واقعہ میں مذکور خود کے لیے خریدی دو دو کتابیں ناچیز کو بطور ہدیہ
پیش کردیا۔ ایسے وقت میں جب کہ ضروریات حیات کے لیے پیسے کی قلت ہے اور راقم کے لیے شوق طلب کو تسکین دینے کے لیے کتاب
خریدنا بھی ضروریات حیات کا ایک حصہ بن چکا ہے؛ دو دو کتابیں ہدیہ کردینا؛ یہ کسی”نزاکت
کی معرفت کی صفتشخصیت کا کارنامہ ہی ہوسکتا
ہے، جواپنے ایسے دیگر لوگوں کی بھی بے حد قدر کرتے ہیں اور ان سے مخاطب ہوکر
جی اتنا خوش ہوتا ہے کہ تا دیر وہ خوشی قائم رہتی ہے۔“
یہ کام ایسے لوگوں کا بالکل نہیں ہوسکتا جو بقول اسلامی
اہل قلم ”ان کے برعکس لوگوں سے بات کرکے بہت افسوس ہوتا ہے؛ کیوں کہ یہ لوگ گھوڑے اور
گدھے کے فرق کو ذرا بھی در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔“
اس لیے مولانا کا دوبارہ تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے
دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مولانا معز الدین احمد صاحب کی عمر کو دراز فرمائے اور ہم
چھوٹوں پر شفقت و عنایات کا سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے۔