24 May 2020

سرور کائنات ﷺ کی عید

سرور کائنات ﷺ کی عید
محمد یاسین جہازی
رمضان کے آخری دن کا سورج غروب ہونے کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کے صحن سے چاند دیکھا اور یہ دعا پڑھی کہ
 اللَّہُمَّ أَہْلِلْہُ عَلَیْنَا بِالیُمْنِ وَالإِیمَانِ وَالسَّلاَمَۃِ وَالإِسْلاَمِ، رَبِّی وَرَبُّکَ اللَّہُ۔
نماز مغرب ادا کرنے کے بعد گھر تشریف لائے اور تمام ازواج مطہرات سے ملاقات کی۔ پھر اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لائے۔ اتنے میں عشا کا وقت ہوچکا تھا، اس لیے پہلے عشا کی نماز ادا فرمائی۔ پھر صدقۃ الفطر غریبوں میں تقسیم فرمایا اور لیٹ گئے۔
رات کے آخری پہر میں نماز تہجد کے لیے بیدار ہوئے، تو پہلے غسل فرمایا، ہرے رنگ کا لباس اور سیاہ کلر عمامہ مبارک زیب تن کیا اور مسجد نبوی تشریف لے گئے اور نماز فجر ادا فرمائی۔ نماز فجر کی بعد کی مجلس جلدی ختم فرماکر گھر تشریف لے آئے اور طاق عدد کھجور تناول فرمایا۔ اس کے بعد صحابہ کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے تھوڑی دور پر واقع حضرت سعید بن ابی العاصؓ کے گھر کے راستے سے عیدگاہ تشریف لے آئے۔ راستے میں زبان اطہر پر تکبیر جاری تھی۔یہ ایک کھلی جگہ تھی، جہاں ایک نیزہ گاڑ کر عیدگاہ بنالیا گیا تھا، اس کے پیچھے چند صفیں بنا لی گئی تھیں جہاں بچے، جوان اور بوڑھے سب موجود تھے۔ اور یہاں سے کچھ فاصلہ پر عورتیں بھی موجود تھیں۔ اور سب لوگ رنگ برنگے نئے لباسوں میں ملبوس امام الانبیا ﷺ کا انتظار کر رہے تھے۔ سرور کائنات ﷺ سیدھے مصلیٰ پر تشریف لائے، صفیں درست کرنے کا حکم دیا اور عید کی دو رکعت نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا۔
چوں کہ مجمع کافی تھا اور عورتیں بالکل اخیر میں تھیں، اس لیے اس خیال سے کہ خطبہ کی آواز یہاں تک نہیں پہنچی ہوگی، آپ ﷺ عورتوں کے مجمع کے پاس تشریف لائے اور انھیں نصیحت فرماتے ہوئے کہا کہ جہنم میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہوگی۔ اس پر ایک خواتین نے سوال کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے یا رسول اللہ!تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس لیے کہ عورتیں ناشکری اور شوہروں کی نافرمانی کرتی ہیں۔ اس خطاب کا فوری اثر یہ ہوا کہ صحابیات مطہرات نے اپنے زیورات اور کانوں کی بالیاں تک اتار کر حضرت بلال حبشی ؓ کے حوالے کردیا، جنھیں آپ ﷺ نے مستحقین میں تقسیم کردیا۔ پھر آپ ﷺ بنی زریق کے راستے سے عیدگاہ سے گھر تشریف لے آئے۔
آپ ﷺ کا حجرہ مبارکہ مسجد نبوی سے متصل تھا، یہاں مسجد نبوی میں کچھ حبشی تماشہ دکھا رہے تھے اور آس پاس بچوں کی بھیڑ جمع تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ چوں کہ کم سن تھیں، اس لیے ان کی بھی خواہش ہوئی، تو سرورکائناتﷺنے انھیں اپنے کاندھے کے آڑ سے اس وقت تک دکھاتے رہے، جب تک کہ خود اماں حضرت عائشہ ؓ تھک نہیں گئیں۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ آگئے، انھوں نے دیکھا کہ مسجد نبوی میں تماشہ کیا جارہا ہے، اس لیے حبشیوں کو مارنے کے لیے کنکریاں اٹھانے لگے، تو حضورﷺ نے دیکھ کر فرمایا کہ ائے عمر! چھوڑ دو، دکھانے دو، آج عید کا دن ہے۔
 چوں کہ شب بیداری ہوگئی تھی، اس لیے گھر آکر بستر پر منھ ڈھانپ کر سوگئے۔ کچھ دیر میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی نو عمر سہیلیاں آگئیں اور مل کر اشعار گانے لگیں۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ آگئے۔ انھوں نے سرورکائنات ﷺ کی نیند میں خلل اندازی سمجھ کر بچیوں کو ڈانٹنا شروع کیا، تو چہر انور سے چادر ہٹاکر فرمایا کہ ان بچیوں کو گانے دو، آج عید کا دن ہے۔
اس لیے عید کا پیغام یہ ہے کہ ؎
گلے شکوے مٹاکر مسکراؤ عید کا دن ہے
پرانی رنجشوں کو بھول جاؤ عید کا دن ہے
وہ جن کو بے سبب ٹھکرا دیا ہے دنیا والوں نے
گلے ان بے سہاروں کو لگاؤ عید کا دن ہے
اخوت، بھائی چارہ، دوستی، اخلاص پھیلاؤ
محبت کے دیے گھر گھر جلاؤ عید کا دن ہے
وہ جن بچوں کے بچپن کارخانے چھین لیتے ہیں
وہ بچپن پھر انھیں واپس دلاؤ عید کا دن ہے
کسی کے واسطے نفرت نہ رکھو اپنے سینے میں
جو روٹھے ہیں انھیں چل کر مناؤ عید کا دن ہے
کم از کم آج کے دن ہو ہو خوشی ہر ایک چہرے پر
سبھی مل کر دعا کو ہاتھ اٹھاؤ عید کا دن ہے

22 May 2020

مفتی سعید احمد پالنپوری ؒ اور جمعیت علمائے ہند

مفتی سعید احمد پالنپوری ؒ اور جمعیت علمائے ہند
محمد یاسین جہازی
نیا میں آنا ہی درحقیقت یہاں سے جانے کی تمہید ہے۔ اگر آخر الذکرکا تسلسل نہ ہو، تو ایک مومن کے لیے یہ سب سے بڑی سزا ہوگی؛ کیوں کہ ہمیشہ میدان امتحان میں ہی رہنااور اس کا انعام نہ ملنا؛ ایک قسم کی سزا ہے۔ حضرت الاستاذ حضرت مولانا و مفتی سعید احمد پالنپوری نور اللہ مرقدہ شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند 19مئی 2020بروز منگل صبح سات و آٹھ کے درمیان قید حیات سے آزاد ہوکر ابدی زندگی کی طرف منتقل ہوگئے۔اور جوگیشوری ممبئی کے اوشیورہ قبرستان میں تدفین کردی گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
راقم زمانہ طالب علمی کے بعد جمعیت علمائے ہند کے شعبہ ”ادارہ مباحثہ فقہیہ“ کے ایک کام کے حوالے سے حضرت مفتی صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جمعیت نے حالات حاضرہ کے متعلق کچھ عنوانات طے کیے تھے، سیمینار کے لیے کسی ایک عنوان کی تعیین یا تخلیق کی گذارش حضرت کی خدمت میں پیش کی گی۔ بعد العصرکی محفل تھی، درجن کی تعداد میں طلبہ بھی موجود تھے۔ حضرت نے ہر ایک عنوان کو غور سے دیکھا اور کچھ مفید مشورے بھی دیے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ حضرت فدائے ملت ؒ کے دور صدار ت میں جمعیت کے مختلف پروگراموں میں شرکت ہوتی تھی؛ لیکن اب پروگراموں سے یکسو ہوگیا ہوں اور بہت کم ہی شرکت کرتا ہوں۔
حضرت کے انتقال کے اگلے دن یعنی 20مئی 2020بروز بدھ نماز ظہر دفتر جمعیت علمائے ہند کے مدنی ہال میں ایک تعزیتی نشست رکھی گئی، جس میں خطاب کرتے ہوئے مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی سکریٹری جمعیت علمائے ہند نے حضرت کی زندگی اور کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سال گذشتہ رمضان سے پہلے(اپریل2019) مظفر نگر میں واقع جمعیت یوتھ کلب کے سینٹر پر تشریف لائے۔ یہاں کے منظر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میدان میں لگے جھولے پر بیٹھ کر بچپنہ احساس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جب یہ زمین خریدی گئی تھی، تب بھی  میں یہاں آیا تھا۔ اور آج جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آباد کردیا ہے، تو یہاں آنے کا موقع ملا ہے۔ مفتی صاحبؒ نے جمعیت یوتھ کلب کے بارے میں معلومات حاصل کرکے اپنی خوشی کا اظہار کیا، بہت ساری دعائیں دیں اور کہا کہ دیوبند کے آس پاس اگر کوئی پروگرام ہو تو مجھے بھی بتانا، میں اس میں شرکت کروں گا۔ مفتی صاحب مرحوم نے مزید بتایا کہ حضرت فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ مجھ سے ہمیشہ مشورہ فرمایا کرتے تھے؛ بالخصوص فرقہ باطلہ کے تعلق سے مجھ سے ضرور صلاح و مشورہ کیا کرتے تھے۔ مفتی صاحب ؒ نے جمعیت علما سے وابستگی کے تعلق سے بتاتے ہوئے کہا کہ جب میں دارالعلوم اشرفیہ راندیر سورت گجرا ت میں مدرس تھا، تو حضرت مولانا و مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپپوری ؒ وہاں کے صدر ہواکرتے تھے اور میں ناظم اعلیٰ تھا۔ آپ مارچ 1965سے اگست1973یعنی کل نو سال تک جمعیت علما سورت کے ناظم اعلیٰ رہے۔
قائد جمعیت،جانشین فدائے ملت حضرت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیت علمائے ہند سے بھی آپ کا خصوصی تعلق تھا۔چنانچہ فدائے ملتؒ کے انتقال کے بعد پروگراموں سے الگ تھلگ ہوجانے کے باوجود قائد جمعیت کی دعوت پرجمعیت کے فقہی اجتماعات میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ اور پچھلی مرتبہ جب رابطہ مدارس اسلامیہ کا اجلاس دیوبند میں ہورہا تھا اور دوران پروگرام قائد جمعیت پروگرام میں شریک ہوئے، تو حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ آپ کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے اورگلے لگاکر اپنے بازو میں بٹھایا۔ معلومات کے لیے عرض کردوں کہ قائد جمعیت حضر ت مفتی صاحب مرحوم کے شاگرد ہیں۔ اس کے باوجود آپ کے لیے کھڑے ہوگئے؛ جو بالیقین جمعیت اور خانوادہ مدنی سے عقیدت و محبت کی واضح علامت ہے۔
جمعیت علمائے ہند نے بھی حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کو درج ذیل عبارت میں خراج عقیدت اور اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا:
”جمعیت علمائے ہند کے صدرامیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور ناظم عمومی مولانا محمود مدنی نے دارالعلوم دیوبند کے انتہائی موقر شیخ الحدیث و صدرالمدرسین حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری کی وفات حسرت آیات پردلی رنج و الم ظاہرکیا ہے۔دارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس کے اڑتالیس سالہ دورمیں ہزارہا تشنگان علوم آپ کے سرچشمہ فیض سے بلاواسطہ فیضیا ب ہوئے۔آپ جیسے کریم النفس، صاحب تقوی،مشفق استاذ کا سایہ بہت بڑی سعادت اور ان کی وفات بڑی محرومی اور عظیم نقصان ہے۔ آپ کی ذات ستودہ صفات بہت سی علمی و عملی خوبیوں کا مظہر تھی۔رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ، افادات درس ترمذی ’تحفۃ المعی‘ افادات درس بخاری’تحفۃ القاری‘ زبدۃ الطحاوی،داڑھی اور انبیا کی سنتیں، حرمت مصاہرت، العون الکبیر وغیرہ ان کی بہترین تصنیفات ہیں، ان کے علاوہ انھوں نے متعدد علمی و فقہی کتابیں لکھی ہیں۔
مولانا موصوف کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کے ابتدا سے تا حیات ناظم عمومی رہے، انھوں نے دارالعلوم دیوبند میں بوقت ضرورت فتاوی نویسی فرمائی اور اہم فتاوی کے جوابات کی نگرانی فرماتے۔ آپ نے ہمیشہ جمعیت علمائے ہند اور اکابر جمعیت سے خصوصی تعلق رکھا اور دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد 1384 ھ(1965) میں دارالعلوم اشرفیہ راندیر سورت میں درجہ علیا کے استاذ مقرر ہوئے، تو وہاں جمعیت علما کی سرگرمیوں سے باضابطہ وابستہ ہوئے اور مسلسل نو سال تک جمعیت علمائے راندیر کے ناظم بھی رہے۔حضرت فدائے ملت مولانا اسعد مدنی ؒ ان سے مشورہ فرماتے اور جب بھی مباحث فقہیہ جمعیت علمائے ہند کے اجتماعات منعقد ہوتے، ان کو خصوصی طور سے مدعو فرماتے۔حضرت مولانا سال گزشتہ بھی مباحث فقہیہ کے اجتماع میں شریک ہوئے، وہ فقہ حنفی کے برصغیر میں نامور عالموں میں تھے اور دلائل کی قوت سے مسلک احناف کو عصر حاضر کے مسائل کا بہتر ین حل کے طور پر پیش کرتے۔
جمعیت علما حضرت مولانا کے پسماندگان سے دلی ہمدرردی ظاہر کرتی ہے اور دست بہ دعا ہے کہ اللہ تعالی آ پ کو زمرہ صالحین میں مقام اعلی عطا فرمائے اور انبیا و صدیقین کا رفیق بنائے، نیز اہل خاندان، اولادو رفقا،ہزارہا تلامذہ اور ہم متوسلین کو صبرو استقامت کے ساتھ اس غم کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جمعیت علمائے ہند اپنے تمام جماعتی احباب،دینی مدارس کے ذمہ داروں سے مولانا مرحوم کے لیے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کے اہتمام کی اپیل کرتی ہے۔ ممبئی میں صبح حضرت مولانا موصوف کی انتقال کی خبر موصول ہوتے ہی جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری نے دیوبند میں ان کے گھر جا کر برادر خورد حضرت مفتی امین پالن پوری صاحب اور مفتی صاحب مرحوم کے صاحبزادگان و دیگر اہل خانہ سے تعزیت مسنونہ پیش کی۔ نئی دہلی میں جمعیت علمائے ہند کے دفتر میں بعد نماز ظہر ایک تعزیتی نشست بھی منعقد ہوئی، جس میں دعائے مغفرت کی گئی،اس میں جمعیت علمائے ہند کے سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی، مولانا کلیم الدین قاسمی، مولانا عرفان، مولانا نجیب اللہ قاسمی، مولانا ضیاء اللہ قاسمی، مولانا یاسین جہازی،مولانا عظیم اللہ قاسمی سمیت دفتر میں موجود سبھی اسٹاف شریک ہوئے۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ جمعیت علمائے ہند سے فکری اور عملی دونوں طور پر وابستہ رہے اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔ دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت استاذ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیع عنایت کرے۔ آمین۔  

15 May 2020

لنگی امام، پائجامہ امام

لنگی امام، پائجامہ امام
محمد یاسین جہازی
شروع رمضان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہوا۔ ویڈیو میں ایک لنگی پہنا شخص امامت کرارہا ہے، جب کہ اس کے پیچھے برقعے میں دو عورتیں اقتدا کر رہی ہیں۔ امام و مقتدیوں کے درمیان میں ایک بچہ امام صاحب کی لنگی سے کھیل رہا ہے۔ کھیلتے کھیلتے امام صاحب کی لنگی میں گھس جاتا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر پیچھے کھڑی دونوں مقتدیاں ہنسی کو قابو میں نہیں رکھ پاتیں اور نماز دوڑ دیتی ہیں۔ بعد ازاں لنگی امام بھی نمازتوڑ دیتا ہے، جس کے بعد ایک قہقہ بار ماحول پیدا ہوکرویڈیو ختم ہوجاتا ہے۔
اب تک تو ’پائجامہ شخص‘، ’پائجامہ امام‘ ہی کا محاورہ سنتے پڑھتے تھے؛ لیکن اس واقعہ سے ’لنگی امام‘ کا محاورہ بھی تخلیق کیا جاسکتا ہے۔
اسلام میں ’امامت‘ کا تصور بہت اعلیٰ ہے۔ امام کا حقیقی مصداق وہی شخص ہوسکتا ہے،جو دینی و سیاسی؛ تمام امور میں مکمل بصیرت رکھتا ہے۔ امامت کا امتیاز یہ ہے کہ اسی کے فیصلہ پر جملہ دینی امور اور سبھی سیاسی معاملے انجام پذیر ہوتے ہیں۔ امام کے آوامر اور اس کے نواہی دونوں فیصلے کا درجہ رکھتے ہیں؛ قصہ مختصر یہ ہے کہ انسان کی دنیوی و اخری زندگی کے لیے امام ہیئت حاکمہ ہوتا ہے۔
لیکن آج ہم نے امامت کا مفہوم اور اس کے کردار کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔آج ہمارے لیے امام محض تنخواہ یافتہ ایک ملازم بن کر رہ گیا ہے، اماموں کے پاس نہ دینی رہنمائی کی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی سیاست کے سین سے واقف ہے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ معاشرے میں امام کی حیثیت صرف نماز پڑھانے اور دعا درودکرنے کی رہ گئی ہے۔امامت کے مقام و مرتبہ کو اس حد تک گرانے میں جہاں مقتدیوں کی غلطی ہے، وہیں امام بھی اس کے کم ذمہ دار نہیں ہیں۔اور شاید انھیں حالات کی وجہ سے جمعیت علمائے ہند کوآج سے چھیانوے سال پہلے درج ذیل تجویز پاس کرنی پڑی تھی:
”تجویز نمبر-6۔ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اِس امر واقع کو دیکھتے ہوئے کہ قصبات و دیہات میں مساجد کے امام ہی قصبوں اور گاؤں کے مذہبی مقتدا سمجھے جاتے ہیں اور اِن کی مذہبی ضروریات کے متکفل ہوتے ہیں، لیکن اکثر امام محض جاہل اور بندہئ زر ہوتے ہیں، اِس وجہ سے مسلمانوں کی مذہبی حالت میں ترقی ہونے کی بجائے روز بروز تنزل اور انحطاط ہوتا جاتا ہے، تمام قصبات و دیہات کے مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے کہ وہ اپنی مساجد میں امام مقرر کرتے وقت مقامی یا اپنے سے قریب تر دفتر جمعیت علما کے مشورہ اور استصواب کے بعد امام مقرر کیا کریں، تاکہ اِن کو اچھے واقف کار امام میسر ہوں اور مساجد کے اماموں سے یہ درخواست کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو نماز اور روزہ اور اسلام کے دیگر ضروری مسائل کی سیدھی سادی تعلیم دیتے رہا کریں۔“ (تجاویز ساتواں اجلاس عام جمعیت علمائے ہند، منعقدہ11 تا 14مارچ1926 ، کلکتہ، جمعیت علمائے ہند کے سو سال قدم بہ قدم جلد دوم، ص/ 90غیر مطبوعہ)

اسی طرح بعض امام نماز، وقت اور مقتدیوں کی نفسیات سے بالکل عاری ہوتے ہیں، انھیں یہ پتہ نہیں ہوتا ہے کہ کس وقت حدر کی تلاوت سے نماز میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے اور کہاں ترتیل کی ضرورت ہے۔ موسم کی سختی و گرمی کے اعتبار سے نماز میں اختصار سے کام لینا چاہیے یا لمبی نماز زیادہ مناسب ہوگی۔سری دعا کا موقع ہے یا جہری دعا ہونی چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے امام بالعموم مقتدیوں کی نفسیات اور مقتضیات سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نمازیوں کو مسجد سے متنفر کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
دراصل ایسے افراد امام کم ہوتے ہیں اور پائجامہ زیادہ؛ اس لیے راقم کا بھی یہی مشورہ ہے کہ آپ اپنی مسجد میں امام کا تقرر کرتے وقت درج بالا تجویز پر ضرور عمل کریں؛ ورنہ آپ جس کی اقتدا کریں گے، وہ امام کم اور پائجامہ زیادہ ہوگا۔ یہ سطور خودی کے محاسبہ کی بھی دعوت دیتی ہیں کہ اب تک آپ جس کی اقتدا کرتے آئے ہیں، وہ امام ہیں یا پائجامہ……؟

10 May 2020

میں پوچھتا ہوں وہ تیسرا آدمی کون ہے؟

میں پوچھتا ہوں وہ تیسرا آدمی کون ہے؟
محمد یاسین جہازی
کورونا وائرس کی روک تھام کے بہانے حکمت و مصلحت سے خالی اچانک لاک ڈاون کردینے کی وجہ سے محنت کش اور مزدور طبقے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوگئے۔ پہلی بار جب اکیس دن کا لاک ڈاون لگایا گیا، تو مزدوروں نے کسی طرح صبر کرکے وقت گذار لیا، لیکن اس کے بعد پھر انیس دن کا اضافہ کردیا۔ اور ابھی اضافہ کے یہ دن پورے نہیں ہوئے تھے کہ پھر چودہ دن اور بڑھادیا۔ اور ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ یہ تیسرا اضافہ آخری اضافہ ہوگا۔ بار بار لاک ڈاون بڑھانے کی وجہ سے مزدوروں کے پیسے اور کھانے پینے کی چیزیں ختم ہوگئیں، تو ان کا صبر ٹوٹنے لگا اور انھوں نے خالی پیٹ اور ننگے پیر سفر کرنا شروع کردیا اور اپنے گاوں پہنچنے کی کوشش کرنے لگے۔ چنانچہ پہلے انھوں نے سڑک اور ہائیوے کا سہارا لیا، تو پولیس کے تشددکے نشانہ بننے لگے۔پھر انھوں نے اپنی جان کو جوکھم میں ڈالتے ہوئے ریل پٹریوں کو راستہ بنایا، تو یہاں بھی پولیس کی لاٹھی ڈنڈوں نے ان کا استقبال کیا۔ان تمام دشواریوں کے باوجود مزدوروں نے اپنی ہمت نہیں ہاری اور اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسی سلسلہ کے سترہ مسافروں نے مہاراشٹر کے شہر جالنا سے پٹری پٹری چلتے ہوئے مدھیہ پردیش آنے کا فیصلہ کیا۔ اور ساتھ میں ایک سو پچاس روٹی اور دال زاد سفر رکھ لیا۔ ریل کی پتھریلی زمین پر، بھوک اور دھوپ کی سختی کو برداشت کرتے ہوئے جالنا سے پینتیس کلو میٹر پیدل چلتے چلتے جب تھک کر چور ہوگئے تو کچھ روٹیاں کھاکر ریل کی پٹری کو تکیہ بناکر سو گئے۔
 8مئی 2020کو جمعہ کے دن صبح کاذب کے وقت گڑگڑاتی ہوئی ایک مال ریل گاڑی آئی اور ان پچاس روٹی والے سترہ مزدوروں میں سے سولہ مزدوروں کو روندتی ہوئی چلی گئی۔ ٹرین گذرنے کے بعد کیمرے نے جو مناظر قید کیے، وہ یہ تھے کہ چاروں طرف خون کے چھینٹوں سے زمین لالہ زار ہوچکی تھی،جگہ جگہ گوشت کے لتھڑے بھیانک درندگی کے وحشت انگیزنظارہ پیش کر رہے تھے، چند روٹیاں اوربکھری دال کے دانے مزدوروں کی داستان بے ستون بیان کر رہے تھے۔ یہ مزدور جن روٹیوں کی تلاش کے لیے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر دیار غیر گئے تھے، اور وہاں سے ایک سو پچاس روٹیوں کی گھٹری لے کر اپنے گھر کی طرف رواں دواں تھے، وہ روٹی بھی ان کو نصیب نہ ہوسکی۔
جب سے لاک ڈاون ہوا ہے، تب سے اس قسم کے کئی بھیانک مناظر سامنے آچکے ہیں، جہاں مزدور طبقہ بھوک سے مرجانے کے خوف سے ہزاروں کلو میٹر بھوکا پیاسا پیدل چلنے پر مجبور ہے۔ اس طبقہ کے لیے نہ تو سرکارکی طرف سے دو وقت کھانے کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی ان کے گھر تک پہنچانے کے لیے کسی معقول سواری کا انتظام ہے، جس کے نتیجے میں ہائیوے کے کنارے پیدل چلنے کی وجہ سے ٹرک ان کی جان لے رہے ہیں اور ریل پٹری پر چلنے سے ریل گاڑیاں ان کی جان کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔ میڈیا کے توسط سے ہزاروں کی تعداد میں فیڈ بیک ملنے کے باوجود سرکار کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر ان مزدور طبقوں کا اصلی دشمن کون ہے، جو ان کے خوفناک حالات کو دیکھنے کے باوجود ان کے تحفظات کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھارہا ہے۔ سوداما پانڈے دھومل لکھتے ہیں کہ
ایک آدمی روٹی بیلتا ہے
ایک آدمی روٹی کھاتا ہے
ایک تیسرا آدمی بھی ہے
جو نہ روٹی بیلتا ہے، نہ روٹی کھاتا ہے
وہ صرف روٹی سے کھیلتا ہے
میں پوچھتا ہوں
یہ تیسرا آدمی کون ہے؟
میرے دیش کی سنسد مون ہے
بس جواب مل گیا کہ ان تمام حادثوں اور خوفناک مناظر کا اصلی ذمہ دار بھارت کا سسٹم ہے۔ بھارت کی موجودہ بی جے پی کی سرکار ہے، جو شہروں کو روٹی فراہم کرنے والے مزدوروں کی روٹیوں سے کھیلواڑ کر رہی ہے۔یہ سرکار حکومت کے نشے میں اتنے چور اور مغرور ہوگئی ہے کہ اسے مزدوروں کی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اتنا غرور بھی اچھا نہیں ہے۔ان مزدوروں اور بے سہاروں کی آہ سے ڈریے اور ان کے کھانے پینے اور آمدورفت کا معقول انتظام کیجیے؛ ورنہ ایک دن ان مظلوموں کی آہ تمھارے وجود کو خاکستر کرکے رکھ دے گی؛ کیوں کہ یہی قانون فطرت ہے۔


8 May 2020

کم تنخواہ والے اور یومیہ مزدوروں کی خدمت میں

کم تنخواہ والے اور یومیہ مزدوروں کی خدمت میں
محمد یاسین جہازی
نومبر 1981میں اوم پرکاش والمیکی نے ’ٹھاکر کا کنواں‘ کے نام سے ایک کویتا لکھی تھی، پہلے آپ بھی اس سے محظوظ ہوجائیں:
چولہا مٹی کا
مٹی تالاب کی
تالاب ٹھاکر کا

بھوک روٹی کی
روٹی باجرے کی
باجرا کھیت کا
کھیت ٹھاکر کا

بیل ٹھاکر کا
ہل ٹھاکر کا
ہل کی مٹھ پر ہتھیلی اپنی
فصل ٹھاکر کی

کنواں ٹھاکر کا
پانی ٹھاکر کا
کھیت کھلیان ٹھاکر کے
گلی محلے ٹھاکر کے
پھر اپنا کیا؟
گاوں؟
شہر؟
دیش؟
بھارت کے وزیر اعظم 24 مارچ 2020 کو رات آٹھ بجے ٹی وی پر آتے ہیں اورکورونا وائرس (Covid-19) کے پھیلاو کو روکنے کا حوالہ دیتے ہوئے اچانک پہلے مرحلہ میں 25مارچ 2020سے 14اپریل کل اکیس دن کے لیے، بعد ازاں 15اپریل سے 3مئی تک اور پھر 4مئی سے 17مئی تک، کل 54دن کے لیے مکمل لاک ڈاون کافرمان جاری کردیتے ہیں۔اور ابھی تک پتہ نہیں کہ یہ آخری تاریخ ہے یا اور آگے بڑھایا جائے گا۔اس اچانک فیصلے کے ایک دو دن کے بعدہی یومیہ کمانے والے مزدور وں کی نقل مکانی اور بھکمری کی جو بھیانک تصاویر سامنے آئیں، انھوں نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک طرف کام بند ہونے کی وجہ سے ان کے پاس پیسے ختم ہوگئے، وہیں دوسری طرف ہوٹل اور ڈھابہ وغیرہ بند ہونے کی وجہ سے، ان ذرائع پر منحصر افراد دانہ دانہ کو ترسنے لگے۔جن کے پاس پیسے تھے، وہ جب اپنے بچوں کے لیے کھانا اور کھانے کی چیزیں خریدنے کے لیے باہر نکلے تو پولیس نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔کہیں پر کرایہ داروں نے مزدوروں کو اپنے گھروں سے نکال دیا، تو کچھ جگہ پر کام دینے والے مالکوں نے مزدوروں کے کمائے ہوئے پیسے بھی دینے سے انکار کردیا۔ رد عمل کے طور پر مزدوروں نے شہروں سے ہجر ت کرنا شروع کردیا۔ سواری اور دکانیں بند ہونے کی وجہ سے لوگ پیدل اور پیٹ پر پتھر باندھ کر چلنے لگے۔ ان مسافروں میں کچھ معذور بھی تھے، جو رینگنے کی رفتار سے چلتے نظر آئے۔ معصوم بچوں کو تیز دھوپ میں پیٹھ پر لادے کمزور مائیں، سروں پر سامان کی گھٹری لیے ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کرنے لگیں۔ پیدل پیدل چلتے چلتے ان مزدوروں کے پاوں زخموں سے چور ہوگئے۔ ایک تصویر یہ بھی سامنے آئی کہ ایک شخص اپنی اسی سالہ ماں کو گود میں اٹھائے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ کھانے پینے کی دکانیں بند ہونے اور مفلسی کی وجہ سے مزدور کوڑوں میں پھیکے ہوئے کھانے اور نالی کے گندے پانی پینے پر مجبور ہوگئے۔ ایک تصویر نے تو انسانیت کو شرمسار کرکے رکھ دیا کہ سڑک کے کنارے پھیکے ہوئے کھانے پر انسان اور کتے دونوں جھپٹے اور اپنی اپنی زندگی بچانے کے لیے خوں ریز لڑائی ہوگئی۔
ان حالات اور سچائیوں کو دیکھتے ہوئے کم تنخواہ پر کام کرنے اور یومیہ مزدوروں کو ’ٹھاکر کا کنواں‘ سے سبق لیتے ہوئے درج ذیل سوالات کا جواب ڈھونڈھنا ضروری ہے کہ
(1) کیا وہ شہرآپ کا ہوا، جس کی تعمیر و ترقی کے لیے آپ نے اپنی زندگی کے حسین لمحات وقف کردیے؟
(2)کیا وہ مالک آپ کا ہوا، جس کی اسائش حیات کے لیے آپ نے خون پسینے بہادیے؟
(3) کیا وہ حکومت آپ کی ہوئی، جس کو بنانے کے لیے آپ نے اپنے قیمتی ووٹ دیے؟
(4)کیا وہ سرکار آپ کے لیے سہارا بنی، جس کے شہروں کو چکا چوند بنانے کے لیے آپ نے اپنی بیوی بچوں اور گھر بار کو چھوڑا؟ 
اس لاک ڈاون میں جس طرح کے بھیانک مناظر سامنے آئے ہیں، ان سب کے تناظر میں تو سبھی مزدوروں کا جواب یہی ہوگا کہ ”نہیں“۔ تو پھر یہی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مزدوروں کو کیا کرنا پڑے گا جس کے بعد ان سوالوں کا جواب ”ہاں“ میں آئے۔
اس کا سب سے پہلا جواب تو یہ ہے کہ مزدوروں کو سب سے پہلے اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہوگا کہ ہمارا کوئی نہیں ہے اور ہمیں اپنے ہی سہارے زندگی کی جنگ لڑنی ہے۔ جب یہ احساس پیدا ہوجائے گا، تو پھر اس کا دوسرا جواب یا حکمت عملی یہ اختیار کرنی پڑے گی کہ آپ کی جو بھی کمائی ہے، اس میں سیونگ کا مزاج بنانا ضروری ہے۔ اگر آپ یومیہ سو روپے کماتے ہیں، تو اس میں کم از کم دس پرسینٹ یعنی دس روپے بچانا ضروری ہے۔ اور یہ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا آپ کا ساتھ چھوڑ دے، تو اس وقت آپ کی یہ سیونگ آپ کا سہارا بنے۔
یہ تو خود آپ کے لیے ایک تجویز تھی۔اور دوسرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنے خاندان کے لیے ایک لونگ ٹرم پالیسی بنائیے۔ اور وہ پالیسی یہ ہے کہ یہ طے کریں کہ اگر ہم غلامی اور مزدوری کر رہے تھے تو ہماری اگلی نسل غلام اور مزدور نہیں بننا چاہیے؛ بلکہ ملازم یا اسٹاف بننا چاہیے۔ اور اگر دوسری نسل ملازم اور اسٹاف ہے، تو اس سے اگلی نسل تاجر یا مالک بننا چاہیے۔ ہم تیسری نسل میں مالک ہونے کی پوزیشن میں اسی وقت پہنچ پائیں گے، جب کہ ہم اپنی غلامیت کی نسل میں یہ لونگ ٹرم پالیسی بنالیں گے۔
یاد رکھیے کہ اگرایسا نہیں سوچیں گے اور ایسا نہیں کریں گے، تو ہم مزدور پیدا ہوتے آئے ہیں، اگلی نسل مزدور پیدا ہوگی اور قیامت تک مزدور ہی پیدا ہوتی ہی رہے گی۔ اور یاد رکھیے کہ غلاموں اور مزدوروں کا کوئی نہیں ہوتا؛
نہ شہر
نہ گاوں
نہ دیش
نہ مالک

اور نہ حکومت

1 May 2020

نئی نویلی دہلی

نئی نویلی دہلی
محمد یاسین جہازی
ہمہ وقت چلنے والی فیکٹریوں، بحری و فضائی جہازوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھواں اور زہریلی ہوا، جہاں انسان سمیت ہر جاندار مخلوق کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے، وہیں طبعی آب وہوا اور فطری حیاتیاتی نظاموں کو بری طرح متاثر کردیتی ہے۔جس سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور قدرتی زندگی تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔
 ہوا میں انسان کے ایک بال کے تین فی صد کے برابر(Particulate Matter) یعنی (P.M.2.5) ہوتا ہے، جس کی پیمائش کو (Air quality index) ایر کوالٹی انڈیکس کہاجاتا ہے۔ اگر (P.M.2.5) زیرو سے سو تک ہے، تو اسے ٹھیک کہاجاتا ہے۔ ایک سو ایک سے دو سو تک نارمل سمجھا جاتا ہے، اس سے زیادہ تین سو تک خراب کے زمرہ میں آتا ہے،  چار سو تک پہنچ جائے تو بہت خراب ہوتاہے، لیکن جب چار سوسے اوپر ہوجائے تو وہ خطرناک سطح پر پہنچ جاتا ہے۔
کورونا وائرس (Covid-19) کی وجہ سے 25مارچ 2020سے 3مئی 2020تک مکمل بھارت کو لاک ڈاون کردیا گیا ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف یومیہ کمانے والے مزدور اور کم تنخواہ پانے والے تھرڈ گریڈ کے ملازمین کے ساتھ ساتھ مدارس کے اساتذہ بھکمری کے شکار ہوگئے ہیں، جو تالہ بندی کا انتہائی تکلیف دہ پہلو ہے، وہیں دوسری طرف خوشی کی خبر یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر فضائی آلودگی ’خطرناک‘ سطح سے ’ٹھیک‘ اور ’نارمل‘ سطح پر آگئی ہے۔
ہم بھارت کی راجدھانی نئی دہلی کی بات کریں، تو لاک ڈاون سے پہلے؛ بالخصوص دیوالی کے موقع پر(P.M.2.5) چار سو یعنی خطرناک سطح سے بھی اوپر پہنچ جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہوا کی کوالٹی کی پیمائش کرنے والی مشین میں 999تک ہی پیمائش کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ آلودگی ہو تو یہ مشین ریکارڈ نہیں کرپاتی۔ ہر دیوالی کی طرح پچھلی دیوالی اور دہلی کے اڑوس پڑوس علاقوں میں پرالی جلائے جانے کے دنوں میں پیمائش کی یہ مشین 999 تک پہنچ کر جام ہوجاتی ہے؛ یعنی اس سے زیادہ اور کتنا پولیوشن بڑھ جاتا ہے، اسے بتایا نہیں جاسکتا۔ ایسے دنوں میں دیکھا گیا ہے کہ دہلی کی فضا بالکل مسموم ہوجاتی ہے، آسمان میں دھواں کی چادر تن جاتی ہے۔ آنکھ میں جلن، سانس میں گھٹن، دماغی صلاحیت کمزور اور گلابی پھیپھڑے بالکل کالے ہوجاتے ہیں۔درجہ حرارت میں زبردست اضافہ ہوکر دہلی گیس چیمبر بن جاتی ہے۔
دیوالی اور پرالی جلانے کے علاوہ دنوں کی بات کریں، تو چوبیسوں گھنٹے چلنے والی فیکٹریوں اور گاڑیوں کی وجہ سے بعض علاقے ہمیشہ ”خطرناک سطح“ پر ہی رہتے تھے، جس میں آئی ٹی او، آنند وہار اور کئی علاقوں میں (P.M.2.5) پانچ سو یا اس سے زائد رہتا تھا۔ اور یہ ایک ایسا مسئلہ تھا، جس پر قابو پانے کے لیے دہلی حکومت نے اوڈ، اوین فارمولہ بھی جاری کیا، جگہ جگہ پیوری فائے کی مشینیں بھی نصب کیں؛ لیکن اس سے کوئی امید افزا نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
لیکن جب سے لاک ڈاون ہوا ہے، اس سے کچھ دنوں کے بعد ہی دہلی کا  (P.M.2.5) تا دم تحریر(یکم مئی 2020) 85 سے لے 170کے درمیان ہے۔ یعنی فضائی آلودگی ”ٹھیک“ اور ”نارمل“ سطح پر پہنچی ہوئی ہے۔ دہلی کی ماحولیات پر اس کا اثر یہ دکھ رہا ہے کہ آسمان بالکل صاف اور ہرا نظر آرہاہے۔ درختوں اور پیڑ پودوں پر ہریالی مسکرا رہی ہے۔پھولوں پر جوانی ناچ رہی ہے۔ سانس لینے میں تازگی کا احساس ہورہا ہے۔پوری دہلی اتنی خوشنما اور دل کش نظر آرہی ہے کہ میں نے اتنی خوب صورت اور خوش منظر دہلی اس سے پہلی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ پہلی والی دلی نہیں؛ بلکہ نئی نویلی دہلی ہے۔  

رمضان اور تکوینی نظام میں تبدیلیاں

رمضان اور تکوینی نظام میں تبدیلیاں


  ماہ رمضان میں غیر رمضان کی بنسبت تین طرح کی تبدیلیاں کی جاتی ہیں: (۱) تکوینی نظام میں تبدیلی۔ (۲) اعمال کے ثواب میں اضافہ۔ (۳) روزہ مرہ کے معمولات اور عبادات میں تبدیلیاں۔
(۱) تکوینی نظام میں تبدیلیاں
رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتے ہی کائنات کے نظام کا جو سسٹم ہے، اس میں قدرت الٰہی تھوڑی بہت تبدیلی کردیتی ہے۔ پوری تبدیلی نہیں کرتی، مثلا عام دنوں کا تکوینی نظام یہ ہے کہ سورج مشرق سے نکل کرمغرب میں غروب ہوتا ہے، تو رمضان میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جو جزوی تغیر ہوتا ہے، وہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے، جس کا اشارہ درج ذیل حدیث پاک میں موجود ہے۔ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ:
اذا دخل شھر رمضان، غلقت ابواب جھنم، و فتحت ابواب الرحمۃ، و سلسلت الشیاطین (مسند عبد بن حمید، باب اذا دخل)
ترجمہ: جب رمضان کا مہینہ آجاتا ہے تو جہنم کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں۔ رحمت و جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف رمضان میں ہوتی ہے۔ دوسرے مہینوں میں ایسا نہیں کیا جاتا؛لیکن لیلۃ القدر میں اس تکوینی نظام میں مزید تبدیلیاں کردی جاتی ہیں، جو کچھ درج ذیل ہیں:
(الف) یہ رات کھلی ہوئی اور چمک دار ہوتی ہے۔
(ب) نہ زیادہ گرم ہوتی ہے اور نہ زیادہ سرد، معتدل رہتی ہے۔
(ج) اس رات صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے۔
(د) اس صبح کا آفتاب شعاع کی تیزی کے بغیر چودھویں چاند کی طرح نکلتا ہے۔
(ہ) عبدۃ ابن لبابہ ؓ کہتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو سمندر کا پانی چکھا تو وہ بالکل میٹھا تھا۔
(و) ایوب بن خالد کہتے ہیں کہ مجھے نہانے کی ضرورت ہوئی۔ میں نے سمندر کے پانی سے غسل کیا تو وہ بالکل میٹھا تھا۔
(ز) آسمان تھوڑا بہت ابر آلود ہوتا ہے۔ درخت وغیرہ جھکے جھکے سے نظر آتے ہیں گویا وہ بھی سجدہ ریزی کی کوشش کر رہا ہو۔
(ک) حضرت جبرئیل فرشتوں کی ایک جماعت لے کر دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔
(ل) پوری رات عام راتوں کے بالمقابل شیاطین کی ضرر رسانی سے محفوظ و مامون رہتی ہے۔
(۲) اعمال کے ثواب میں کئی گنا کا اضافہ
رمضان میں دوسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ اعمال کا ثواب عام دنوں کے مقابلے کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ:
کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر امثالھا الیٰ سبع ماءۃ ضعف، الا الصوم، فانہ لی و انا اجزی بہ، یدعو شھوتہ و طعامہ من اجلی (مسلم، باب فضل الصیام)
انسان کے ہر عمل کا ثواب بڑھا دیاجاتا ہے۔ ایک نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک کردیا جاتا ہے۔ (آگے حدیث قدسی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ)مگر روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ ددں گا، کیوں کہ اس نے کھانا پینا اور خواہشات کو میری خاطر چھوڑا۔ایک دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ رمضان کی عبادتوں کا اجر باقی گیارہ مہینے کی عبادتوں سے ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ملتا ہے۔ گویا ثواب ملنے کا نظام یہ ہے کہ بندہ ایک نیکی کرتا ہے، تو اللہ اس پر دس گنا ثواب لکھتے ہیں۔ اور دس ہی تک محدود نہیں رہتا؛ بلکہ رمضان کی وجہ سے اس سے بڑھا کر ستر اور ستر سے بھی اضافہ کرکے سات سو گنا تک کردیا جاتا ہے۔لیکن روزہ کی جزا اس سے بھی زیادہ ہے۔
(۳) روز مرہ کے بالمقابل عبادات اور معمولات میں تبدیلیاں
(الف)عبادات میں تبدیلیاں
            (الف) تراویح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔
            (ب)نماز وتر جماعت سے ادا کی جاتی ہے۔
            (ج) آخر عشرے کا اعتکاف کیا جاتا ہے۔
            (د) تراویح میں پورا قرآن سننے اور سنانے کا بہت زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔
(ب)معمولات میں تبدیلیاں
            (الف) دن میں کھانے، پینے اور جماع کرنے سے رکا جاتا ہے۔
            (ب) بطور خاص رمضان میں فحش باتوں اور لایعنی چیزوں سے پرہیز کیا جاتا ہے۔
            (ج) افطاری کی جاتی ہے۔
            (د) سحری کا کھانا کھایا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے انوارو برکات سے لطف اندوز ہونے کی توفیق بخشے، آمین۔

24 Apr 2020

کیابلی کا حملہ جائز تھا؟

کیابلی کا حملہ جائز تھا؟
محمد یاسین جہازی
کورونا لاک ڈاون کی وجہ سے ایک طرف جہاں یومیہ کمانے والے مزدور اور انتہائی کم تنخواہ پانے والے ملازمین ضروریات زندگی کے لیے بے حد پریشان ہیں، وہیں دوسری طرف دیگر جاندار مخلوقات بھی مسائل حیات سے جوجھ رہی ہیں۔خالق کائنات نے اس دنیا کے سسٹم میں سبھی تخلیقات کے الگ الگ کردارمتعین کردیے ہیں۔ اور ہر ایک کے کردار الگ الگ ہونے کے باوجود اپنی بقا کے لیے ایک دوسرے کے کردارپر منحصر ہے۔ ایک شخص اگر کسان ہے اور اناج پید اکرتا ہے، تو وہ شخص صرف اپنے کردار کی وجہ سے اپنی زندگی کی سبھی ضروریات پوری نہیں کرسکتا، کیوں کہ اس کے پاس اناج توہے، لیکن پیٹ تک پہنچانے کے لیے برتن بنانے والے، چولہا بنانے والے وغیرہ کے کردارکا محتاج ہے، ان حضرات کے کردار کے تعاون کے بغیر اپنا پیٹ بھی نہیں بھرسکتا۔ اسی طرح سونے جاگنے اور پہننے اوڑھنے غرض ہر شعبہ ہائے حیات میں ان کے مخصوص کردار والوں کے تعاون کا محتاج ہے، اس کے بغیر ان کی زندگی کی گاڑی ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔
اس تعامل میں ہر فن کے ماہرین ایک دوسرے کے کردار کے حاجت مند ہیں، اس میں کسی کا استثنیٰ نہیں ہے؛ بلکہ انسان تو چھوڑیے؛ انسان اور دیگر مخلوقات بھی ایک دوسرے کے کردار و تعامل کے ضرورت مند ہیں۔ درخت اگر پھل، پھول یا لکڑی دینا بند کردے، تو انسان سمیت چرند، پرند اور درند کی زندگیاں متاثر ہوجائیں گی۔ اسی طرح اگر انسان اپنیعام معمولات سے ہٹ کر زندگی گذارنا شروع کردے، تو بہت سی دوسری مخلوقات موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوجائیں گی۔
شہروں کی بات کریں، تو ہوٹلوں اور چائے کی دکانوں کے ویسٹ کھانے پرندوں اور کتوں کے سامان زندگی ہوا کرتے ہیں۔ خوردنی اشیا اور دیگر چیزوں سے پیدا شدہ کوڑے کرکٹ میں خود رو حشرات الارض، دوسری مخلوقات کے لیے غذا بنتے ہیں۔ لیکن جب سے لاک ڈاون ہوا ہے اور انسانوں کی زندگی معمول کے ڈگر سے ہٹ گئی ہے، تب سے نہ تو ہوٹل کھل رہے ہیں اور نہ ہی چائے کی دکان وغیرہ سے ویسٹ چیزیں نکل رہی ہیں۔ جس کا اثرفطری زندگی کے سسٹم پر یہ پڑ رہا ہے کہ گلی کے کتے پاگل ہوتے جارہے ہیں، اور پرندے بھوک و پیاس سے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ 
عشا کی نماز کے بعد راقم میس کی طرف جارہا تھا، تو اچانک پھولواریوں سے پھڑپھڑانے کی آواز سنائی دینے لگی۔ ذوق تجسس کو تسکین دینے کے لیے قریب پہنچا، تو دیکھا کہ ایک کبوتر بے آب و دانہ ہونے کی وجہ سے بھکمری کا شکار ہوگیا ہے۔ اس کا لرزتا جسم اور گھبراتا وجود بتارہا تھا کہ وہ بھی لاک ڈاون کے فیصلے کی سختی سے جوجھ رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر انسانیت اور ہمدردی کے جذبات نے مجبور کردیا کہ اس کے لیے بھی ریلیف ورک کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ راقم ریلیف ورک لے کر آتا، اس جگہ سے تھوڑی دورہٹتے ہی لاک ڈاون کا ایک دوسرا متاثر آ پہنچا اور اپنی زندگی بچانے کی خاطر خوراک حاصل کرنے کے لیے کبوتر کو لقمہ تر بنانے کی کوشش کرنے لگا۔یہ منظر دیکھ کر راقم سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کبوتر کو بلی کے حملے سے بچانا انسانیت ہوگی، یا پھر بلی کو خوراک سے محروم کرنے کا جرم ہوگا۔ قبل اس کے کہ راقم کسی فیصلے پر پہنچتا، تب تک بھوکی بلی کبوتر پر جھپٹ پڑی اور سامان خورد و نوش ملنے پر ضیافت کے جشن میں مشغول ہوگئی۔ راقم یہ منظر دیکھتے دیکھتے اب تک محو خیال ہے کہ کیا بلی کا حملہ جائز تھا؟۔ 

10 Apr 2020

مولانا و قاری و کاتب عبد الجبار قاسمی صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند

مولانا و قاری و کاتب عبد الجبار قاسمی صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
جہاز قطعہ جن اکابرین کی بدولت اہل علم اور صاحب فضل وکمال کی خصوصیات سے مشہور ہے، ان میں ایک درخشاں نام مولانا و قاری و کاتب عبد الجبار صاحب قاسمی حفظہ اللہ بھی ہے۔ شہری چمک دمک اور زمانے کی ترقیات سے کوسوں دور واقع ایک چھوٹی سی بستی سے تعلق رکھنے والی یہ ہستی قدرو منزلت کی بلندمرتبت تک کیسے پہنچی، اس کا تجزیہ و تذکرہ بالیقین ان حضرات کے لیے قابل تقلید نمونہ ہوگا، جو زندگی میں تمام محرومیوں کے باوجود حوصلہ پاکر رفعت وعظمت کی چوٹی سر کرنا چاہتے ہیں۔
ولادت و تربیت
مولانا موصوف ریاست جھارکھنڈ کے ضلع گڈا میں واقع گاوں جہاز قطعہ میں پیدا ہوئے۔ اصلی تاریخ پیدائش 9ذی الحجہ، 1379ھ، مطابق 6جون1960ء ہے۔ والد محترم کا نام شیخ کرامت علی ابن شیخ نصیر الدین ابن شیخ فخر الدین ابن شیخ لوری تھا۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب محفوظ نہیں ہے۔ آپ نمونہ اسلاف حضرت مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز کے سگے بھتیجے ہیں۔
ابتدائی تعلیم
آپ نے اپنے چچا کے زیر سرپرستی تعلیمی سفر کا آغاز کیا اور مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں ابتدا سے فارسی کی پہلی، دوسری، کریما، پند نامہ وغیرہ حضرت مولانا محمد منیر الدین رحمہ اللہ سے پڑھی۔ لیکن کچھ دنوں بعد درجہ فارسی کی تکمیل کیے بغیر حفظ کرنا شروع کردیا۔ اس ادارہ میں جن اساتذہ کرام سے آپ نے فیض حاصل کیا، ان میں حضرت مولانا کے علاوہ قاری محمد قطب الدین صاحبؒ، مولانا محمد اسلام ساجد مظہریؒ صاحب،مولانا ذکیر الدین صاحب اور مولانا عبد الغفور صاحب کے نام شامل ہیں۔ ہندی، انگریزی، حساب کی بنیادی تعلیم جناب اسٹر عبد الرزاق صاحب (عرف کوکا ماسٹر) سے حاصل کی۔
گھر میں معاشی تنگی بہت زیادہ تھی، جس کے باعث تعلیمی سفر جاری نہ رہ سکا اور والد صاحب کی مزدوری کے کام میں ہاتھ بٹانے لگے۔ چنانچہ آپ نے لاشعوری عہد میں گاوں سے متصل مہیش پور اور مہیش ٹکری تک سڑک کی تعمیر میں مٹی ڈھلائی کا کام کیا۔ والد محترم مٹی کاٹ کر دیتے، اور آپ اٹھا کر سڑک پر ڈالتے۔ کم عمری کی وجہ سے ٹھیکدار کو بہت ترس آتا اور اکثر آپ کے کیے ہوئے کام کی پیمائش کیے بغیر پورا کھنتہ(مٹی کٹائی کی پیمائش) لکھ لیتے۔ اسی طرح اکثرو بیتشتر کام سے زیادہ مزدوری دے دیا کرتے تھے۔
دوبارہ تعلیم کی طرف
1973میں گاوں کے ایک عالم مولانا مسعود عالم صاحب کو ان کے گھر والے مولانا عبد الحمید صاحب بیربلپوری کے ہمراہ تعلیم کے لیے علاقے سے ہزاروں کلو میٹر دور اجراڑہ میرٹھ بھیجنے لگے، تو آپ کے مشفق استاذ حضرت قاری قطب الدین صاحب ؒ نے آپ کے گھر والوں سے تعلیم کے لیے اصرار کیا۔ چنانچہ گھر والے راضی ہوگئے، تو مولانا بیربلپوری کی سرپرستی میں آپ نے دوبارہ تعلیمی سفر کا آغاز کیا اور مدرسہ بحر العلوم اصیل پور میرٹھ میں داخلہ لے کر دوبارہ حفظ کرنا شروع کردیا۔ اور یہیں حفظ کی تکمیل کی۔ اساتذہ میں حافظ و کاتب عرفان الدین بجنوری، قاری تجمل حسین اور اکثر حصہ قرآن حافظ بد ر الدین صاحب موانی سے کیا۔ یہاں کے عہد طالب علمی میں 1975میں ایک مرتبہ اتنے سخت بیمار ہوگئے کہ زندگی کی امید نہ رہی۔ مہتمم مدرسہ جناب منشی محمد یعقوب صاحب اصیل پوری اور دیگر اساتذہ کرام بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہوگئے؛ مگر ان حضرات نے علاج میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی؛ لیکن خدا کرنا ایسا ہوا کہ بعد میں بالکل صحت یاب ہوگئے۔
1976 میں مدرسہ جامع مسجد امروہہ میں داخلہ لیا اور جناب قاری اختر حسین صاحبؒ سے تجوید کی تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں فارسی کی پہلی، گلزار دبستاں، کریما، پند نامہ، گلستاں، بوستاں، نحومیر، میزان وغیرہ اور ہدایۃ النحو تک کی تعلیم اسی ادارہ میں حاصل کی۔ حضرت مولانا عزت اللہ صاحب مین پوری، مولانا اکمل حسین صاحب، مولانا منظور احمد صاحب، حضرت مولانا طاہر حسین صاحب امروہوی اور مولانا اسماعیل صاحب ؒ آپ کے خاص اساتذہ میں سے تھے۔ آپ کو کتابت سے بڑا لگاؤ تھا، اس لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ جناب منشی معراج النبی خاں صاحبؒ انجم امروہی سے کتابت سیکھتے رہے اور بالآخر ماہر خطاط بن گئے۔
قاری صاحب موصوف نے اپنا ایک واقعہ اس طرح بیان کیا کہ منشی جی مرحوم نے ایک مرتبہ ایک تختی کو دیکھنے کے بعد فرمایا: ان شاء اللہ تم اول نمبر پر رہوگے۔ خدا جانے حضرت نے  کس حال میں فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر پہنچایا کہ دارالعلوم دیوبند میں صدر شعبہ خطاطی کی حیثیت سے تقرر کرادیا۔ منشی جی ؒ اکثرو بیشتر میری لکھی ہوئی تختی پر یہ دعائیہ جملہ لکھتے کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ ایک مرتبہ اسی طرح ایک تختی پر لکھا تو وہاں موجود حضرت مولانا طاہر حسن صاحب امروہوی شیخ الحدیث مدرسہ جامع مسجد امروہہ نے اس پر آمین لکھ کر اپنا دستخط ثبت کردیا۔
ازدواجی زندگی کا آغاز
تکمیل حفظ کے بعد آپ نے دوبارہ مولویت کے کورس کا آغاز کیا اور ابھی اس کے درجہ اول میں ہی تھے کہ گھر والوں نے شادی کرادی۔ چنانچہ 1980میں گاوں سے متصل ایک دوسرا گاوں جمنی کولہ میں پہلی شادی ہوئی۔ لیکن کچھ وجوہات کی بنیاد پر نباہ نہ ہوسکا اور ایک سال کے بعد ہی جدائیگی ہوگئی۔ بعد ازاں 1982 میں دوسری شادی مشفق استاذ قاری قطب الدین جہازیؒ کی صاحبزادی بی بی شہناز بیگم سے ہوئی۔
 1981ء میں مدرسۃ العلوم حسین بخش میں کافیہ، قدوری وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ پھر 1981کے آواخر میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا، جہاں عربی سوم سے دورہ حدیث تک کی تعلیم حاصل کی۔ اور 1407ھ، مطابق 1987میں فراغت پائی۔
1406ھ، مطابق 1986میں جب کہ آپ عربی ہفتم کے طالب علم تھے اور ششماہی امتحان دے کر گھر کے لیے روانہ ہوئے، تو گھر پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ آج سے دو دن پہلے ہی  والد محترم کا انتقال ہوگیا ہے۔ والدہ محترمہ کا انتقال 19شعبان 1440ھ، مطابق  اپریل2019کو ہوا؛ لیکن حسن اتفاق دیکھیے کہ بسیار کوشش کے باوجود جنازے میں شرکت نہ کرسکے اور تدفین کے دو دن بعد ہی قبر پر حاضر ہوسکے۔
تعلیم، تدریس اور کتابت
1982 میں شادی کے بعد سے ہی والد محترم کا اصرار ہونے لگا کہ تعلیم منقطع کرکے کہیں پڑھائیں اور گھر چلانے میں تعاون کریں۔ اس پر مولانا موصوف نے والد صاحب سے عرض کیا کہ حفظ پڑھانے والوں کو بالعموم ڈھائی سو روپے ملتے ہیں، میں ان شاء اللہ تعالیٰ ہر مہینے اتنے روپے آپ کو دے دیا کروں گا، مجھے پڑھنے دیا جائے۔ چنانچہ آپ دارالعلوم دیوبند میں خارج اوقات کے دوران کتابت کرکے گھر کو خرچ دیا کرتے تھے۔ آپ نے حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانویؒ کی ڈکشنری القاموس الاصطلاحی، دیوان متنبی کی شرح اور دیگر کتابوں کی کتابت کی۔
1987میں دارالعلوم دیوبند سے مولویت کی سند حاصل کرنے کے بعد ایک سال تک مزید دیوبند ہی میں کرایہ کا کمرہ لے کر قیام پذیر رہے اور حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم کی کتابوں: مفتاح العوامل، مفتاح التہذیب وغیرہ کی کتابت کی۔ اس کے بعد بھاگلپور میں یاسمین پریس میں تقریباایک سال کام کیا۔ بعد ازاں 1989 میں دہلی آکر مسجد صغیر حسن محلہ نیاران عقب جی بی روڈ میں کچھ مہینے امامت کی اور ساتھ میں کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ پھر اونچی مسجد حوض قاضی دہلی کے امام و خطیب ہوگئے۔ یہاں انیس سال تک امامت و خطابت کے ساتھ کتابت کا کام کرتے رہے۔ اس دوران ادلہ کاملہ اور ایضاح الادلہ وغیرہ کی کتابت کی۔ لیکن کاتب صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آ پ نے کئی نئی خصوصیات کے ساتھ حافظی قرآن کریم کی کتابت کی جو 2019کے آواخر میں محمود المصاحف کے نام سے طبع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے۔
کتابت کے ساتھ ساتھ تدریسی خدمات بھی انجام دیتے رہے۔ چنانچہ غالبا 1990 میں مدرسہ عبد الرب دہلی میں حمد باری، کریما وغیرہ پڑھایا۔ پھر جب دارالعلوم دہلی کا قیام عمل میں آیا، تو یہاں نحومیر، علم الصیغہ، نور الایضاح وغیرہ اعزازی طور پر پڑھاتے رہے۔ 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر آپ کو مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ کا صدر بنایا گیااور آپ مسلسل اس ادارہ کی سرپرستی فرماتے رہے۔
دارالعلوم دیوبند میں تقرر
کمپیوٹر کے دور میں بھی آپ کی کتابت کی فنی چھاپ برقرار ہے۔ آپ کے قلم دلکش سے لکھے طغرے، کتبے، اہل ذوق حضرات اپنے گھروں میں وال پیپر بنانا آرائش و زیبائش کا ضروری حصہ سمجھتے ہیں۔ آپ صرف کتابت میں دل کشی نہیں؛ بلکہ اخلاص و مودت کے موتی پیروتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کی نظر عنایت آپ پر پڑی اور اس کی مجلس عاملہ منعقدہ ذی قعدہ 1429ھ، مطابق نومبر 2008 کی ایک تجویز میں صدر شعبہ خوش خطی کی حیثیت سے آپ کا تقرر عمل میں آیا اور یکم محرم 1430ھ، مطابق 30 دسمبر2008کو دارالعلوم دیوبند پہنچ کر اپنے کار مفوضہ کی انجام دہی میں مصروف ہوگئے، جس کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔
دارالعلوم دیوبند میں تقرری کا پس منظر قاری صاحب نے خود بیان کرتے ہوئے بتایا کہ دارالعلوم میں میرا تقرر”موسیٰ اگ لینے جائے اور پیمبری مل جائے“کے مصداق ہے۔ میں عزیزم مولوی محمد طلحہ سلمہ کا داخلہ تقابل میں نام نہ آسکا تو سفارش کے لیے حضرت اقدس مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری دامت برکاتہم کے پاس پہنچا، تو سفارش فرماکر فرمایا کہ’’تم دارالعلوم آؤگے میرے لیے؟“۔ اس سعادت کے حاصل کرنے کے لیے اس بہتر اور کونسا موقع ہوسکتا تھا، میں نے فورا ہاں کردیا، تو حضرت نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، میں کوشش کرتا ہوں اور ایک ہفتہ کے بعد حضرت نے کچھ نمونہ منگوایا، جسے حضرت نے مجلس عاملہ میں پیش فرمایا اور اس طرح میرا تقرر عمل میں آگیا۔
امتیازی خصوصیات
آپ بہت سادہ طبیعت کے حامل ہیں۔ خوش اخلاقی، ملنساری اور حسن اخلاق میں منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ سب سے امتیازی صفت یہ ہے کہ آپ بہت فیاض طبع ہیں۔ مہمان نوازی اور خاطر داری میں یکتائے روزگار ہیں۔ حضرت موصوف جب دہلی کی اونچی مسجد حوض قاضی میں امام تھے، تو بارہا جانے کا اتفاق ہوا اور جب بھی گیا، ہمیشہ اپنی سخاوت کے عملی مظاہر پیش کیے۔ معلومات کے لیے عرض کردوں کہ حضرت نے یہاں انیس سال تک امامت کے فرائض انجام دیے۔ جب اس مسجد سے وابستہ ہوئے تھے تو تنخواہ کل پانچ سو روپے تھی، اور جب انیس سال کے بعد یہاں سے رخصت ہوئے تو اس وقت کل چودہ سو روپے تن خواہ تھی، اس اقل قلیل آمدنی میں بھی انھوں نے اپنی فیاضانہ روش میں لچک آنے نہیں دی، حالاں کہ دہلی میں یہ مسجد ایسی جگہ واقع ہے، جہاں روز بروز متعلقین و غیر متعلقین کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔
بیعت و ارشاد
10 شوال1407ھ، مطابق 8 جون 1987میں حضرت اقدس مفتی محمود حسن صاحب گنگوہیؒ سے بیعت ہوئے۔ ان کے انتقال کے بعد جانشین فقیہ الامت حضرت مولانا ابراہیم صاحب پانڈور کے دامن سلوک سے وابستہ ہیں۔
صلاحیت کے ساتھ صالحیت
 دارالعلوم دیوبند میں تقرری کے بعد اہل گاوں نے آپ کو استقبالیہ دینے کے لیے تقریب تہنیت کے نام سے ایک پروگرام کیا، جس میں علاقے کی اہم شخصیات نے شرکت کرتے ہوئے حضرت مولانا موصوف کے لیے خیر مقدمی کلمات پیش کیے۔ اس تقریب میں مولانا محمد عرفان صاحب مظاہری جہازی نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دارالعلوم دیوبند کسی کو محض صلاحیت کی بنیاد پر قبول نہیں کرتا، دارالعلوم دیوبند اسی کو اپنے دامن میں پناہ دیتا ہے، جس میں صلاحیت بھی ہو اور صالحیت بھی ہو۔ اور حضرت قاری صاحب کے اندر بالیقین یہ دونوں صفتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ناچیز نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ حضرت موصوف جہاں صوم و صلاۃ اور سنن و نوافل کے بے حد پابند ہیں، وہی سفر ہو یا حضر ذکر جہری کبھی نہیں چھوڑتے، اور اپنے شیخ کے بتائے ہوئے معمول پر ہمیشہ عامل رہتے ہیں۔
اولاد
آپ سات بچو کے والد ہیں، جن میں چار صاحب زادے اور بقیہ صاحب زادیاں ہیں۔ علی الترتیب صاحبزادوں کے نام اس طرح ہیں: مولانا محمد طلحہ قاسمی، محمد طٰہٰ، محمد اسامہ اور محمد عکرمہ۔ صاحبزادیوں کے نام صفیہ، خاتون، زکیہ خاتون اور عطیہ خاتون ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا و قاری و کاتب صاحب کے سایہ عاطفت کو تا دیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور ان کی ذات سے امت مسلمہ کو عظیم فوائد بخشے۔ آمین۔