نئی نویلی دہلی
محمد یاسین جہازی
ہمہ وقت چلنے والی فیکٹریوں، بحری و فضائی جہازوں اور گاڑیوں
سے نکلنے والے دھواں اور زہریلی ہوا، جہاں انسان سمیت ہر جاندار مخلوق کے لیے نقصان
دہ ہوتی ہے، وہیں طبعی آب وہوا اور فطری حیاتیاتی نظاموں کو بری طرح متاثر کردیتی ہے۔جس
سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور قدرتی زندگی تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی
ہے۔
ہوا میں انسان
کے ایک بال کے تین فی صد کے برابر(Particulate
Matter) یعنی (P.M.2.5) ہوتا ہے، جس کی پیمائش کو (Air
quality index) ایر کوالٹی انڈیکس کہاجاتا ہے۔ اگر (P.M.2.5) زیرو سے سو تک ہے، تو اسے ٹھیک کہاجاتا ہے۔ ایک سو ایک سے دو سو تک
نارمل سمجھا جاتا ہے، اس سے زیادہ تین سو تک خراب کے زمرہ میں آتا ہے، چار سو تک پہنچ جائے تو بہت خراب ہوتاہے، لیکن جب
چار سوسے اوپر ہوجائے تو وہ خطرناک سطح پر پہنچ جاتا ہے۔
کورونا وائرس (Covid-19) کی وجہ سے 25مارچ 2020سے 3مئی 2020تک مکمل بھارت کو لاک ڈاون کردیا
گیا ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف یومیہ کمانے والے مزدور اور کم تنخواہ پانے والے تھرڈ گریڈ
کے ملازمین کے ساتھ ساتھ مدارس کے اساتذہ بھکمری کے شکار ہوگئے ہیں، جو تالہ بندی کا
انتہائی تکلیف دہ پہلو ہے، وہیں دوسری طرف خوشی کی خبر یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر فضائی
آلودگی ’خطرناک‘ سطح سے ’ٹھیک‘ اور ’نارمل‘ سطح پر آگئی ہے۔
ہم بھارت کی راجدھانی نئی دہلی کی بات کریں، تو لاک ڈاون
سے پہلے؛ بالخصوص دیوالی کے موقع پر(P.M.2.5) چار سو یعنی خطرناک سطح سے بھی اوپر پہنچ جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے
کہ ہوا کی کوالٹی کی پیمائش کرنے والی مشین میں 999تک ہی پیمائش کی صلاحیت ہوتی ہے۔
اس سے زیادہ آلودگی ہو تو یہ مشین ریکارڈ نہیں کرپاتی۔ ہر دیوالی کی طرح پچھلی دیوالی
اور دہلی کے اڑوس پڑوس علاقوں میں پرالی جلائے جانے کے دنوں میں پیمائش کی یہ مشین
999 تک پہنچ کر جام ہوجاتی ہے؛ یعنی اس سے زیادہ اور کتنا پولیوشن بڑھ جاتا ہے، اسے
بتایا نہیں جاسکتا۔ ایسے دنوں میں دیکھا گیا ہے کہ دہلی کی فضا بالکل مسموم ہوجاتی
ہے، آسمان میں دھواں کی چادر تن جاتی ہے۔ آنکھ میں جلن، سانس میں گھٹن، دماغی صلاحیت
کمزور اور گلابی پھیپھڑے بالکل کالے ہوجاتے ہیں۔درجہ حرارت میں زبردست اضافہ ہوکر دہلی
گیس چیمبر بن جاتی ہے۔
دیوالی اور پرالی جلانے کے علاوہ دنوں کی بات کریں، تو چوبیسوں
گھنٹے چلنے والی فیکٹریوں اور گاڑیوں کی وجہ سے بعض علاقے ہمیشہ ”خطرناک سطح“ پر ہی
رہتے تھے، جس میں آئی ٹی او، آنند وہار اور کئی علاقوں میں (P.M.2.5) پانچ سو یا اس سے زائد رہتا تھا۔ اور یہ ایک ایسا مسئلہ تھا، جس پر
قابو پانے کے لیے دہلی حکومت نے اوڈ، اوین فارمولہ بھی جاری کیا، جگہ جگہ پیوری فائے
کی مشینیں بھی نصب کیں؛ لیکن اس سے کوئی امید افزا نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
لیکن جب سے لاک ڈاون ہوا ہے، اس سے کچھ دنوں کے بعد ہی دہلی
کا (P.M.2.5) تا دم تحریر(یکم مئی 2020) 85 سے لے 170کے درمیان ہے۔ یعنی فضائی
آلودگی ”ٹھیک“ اور ”نارمل“ سطح پر پہنچی ہوئی ہے۔ دہلی کی ماحولیات پر اس کا اثر یہ
دکھ رہا ہے کہ آسمان بالکل صاف اور ہرا نظر آرہاہے۔ درختوں اور پیڑ پودوں پر ہریالی
مسکرا رہی ہے۔پھولوں پر جوانی ناچ رہی ہے۔ سانس لینے میں تازگی کا احساس ہورہا ہے۔پوری
دہلی اتنی خوشنما اور دل کش نظر آرہی ہے کہ میں نے اتنی خوب صورت اور خوش منظر دہلی
اس سے پہلی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ پہلی والی دلی نہیں؛ بلکہ نئی
نویلی دہلی ہے۔