24 Apr 2020

کیابلی کا حملہ جائز تھا؟

کیابلی کا حملہ جائز تھا؟
محمد یاسین جہازی
کورونا لاک ڈاون کی وجہ سے ایک طرف جہاں یومیہ کمانے والے مزدور اور انتہائی کم تنخواہ پانے والے ملازمین ضروریات زندگی کے لیے بے حد پریشان ہیں، وہیں دوسری طرف دیگر جاندار مخلوقات بھی مسائل حیات سے جوجھ رہی ہیں۔خالق کائنات نے اس دنیا کے سسٹم میں سبھی تخلیقات کے الگ الگ کردارمتعین کردیے ہیں۔ اور ہر ایک کے کردار الگ الگ ہونے کے باوجود اپنی بقا کے لیے ایک دوسرے کے کردارپر منحصر ہے۔ ایک شخص اگر کسان ہے اور اناج پید اکرتا ہے، تو وہ شخص صرف اپنے کردار کی وجہ سے اپنی زندگی کی سبھی ضروریات پوری نہیں کرسکتا، کیوں کہ اس کے پاس اناج توہے، لیکن پیٹ تک پہنچانے کے لیے برتن بنانے والے، چولہا بنانے والے وغیرہ کے کردارکا محتاج ہے، ان حضرات کے کردار کے تعاون کے بغیر اپنا پیٹ بھی نہیں بھرسکتا۔ اسی طرح سونے جاگنے اور پہننے اوڑھنے غرض ہر شعبہ ہائے حیات میں ان کے مخصوص کردار والوں کے تعاون کا محتاج ہے، اس کے بغیر ان کی زندگی کی گاڑی ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔
اس تعامل میں ہر فن کے ماہرین ایک دوسرے کے کردار کے حاجت مند ہیں، اس میں کسی کا استثنیٰ نہیں ہے؛ بلکہ انسان تو چھوڑیے؛ انسان اور دیگر مخلوقات بھی ایک دوسرے کے کردار و تعامل کے ضرورت مند ہیں۔ درخت اگر پھل، پھول یا لکڑی دینا بند کردے، تو انسان سمیت چرند، پرند اور درند کی زندگیاں متاثر ہوجائیں گی۔ اسی طرح اگر انسان اپنیعام معمولات سے ہٹ کر زندگی گذارنا شروع کردے، تو بہت سی دوسری مخلوقات موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوجائیں گی۔
شہروں کی بات کریں، تو ہوٹلوں اور چائے کی دکانوں کے ویسٹ کھانے پرندوں اور کتوں کے سامان زندگی ہوا کرتے ہیں۔ خوردنی اشیا اور دیگر چیزوں سے پیدا شدہ کوڑے کرکٹ میں خود رو حشرات الارض، دوسری مخلوقات کے لیے غذا بنتے ہیں۔ لیکن جب سے لاک ڈاون ہوا ہے اور انسانوں کی زندگی معمول کے ڈگر سے ہٹ گئی ہے، تب سے نہ تو ہوٹل کھل رہے ہیں اور نہ ہی چائے کی دکان وغیرہ سے ویسٹ چیزیں نکل رہی ہیں۔ جس کا اثرفطری زندگی کے سسٹم پر یہ پڑ رہا ہے کہ گلی کے کتے پاگل ہوتے جارہے ہیں، اور پرندے بھوک و پیاس سے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ 
عشا کی نماز کے بعد راقم میس کی طرف جارہا تھا، تو اچانک پھولواریوں سے پھڑپھڑانے کی آواز سنائی دینے لگی۔ ذوق تجسس کو تسکین دینے کے لیے قریب پہنچا، تو دیکھا کہ ایک کبوتر بے آب و دانہ ہونے کی وجہ سے بھکمری کا شکار ہوگیا ہے۔ اس کا لرزتا جسم اور گھبراتا وجود بتارہا تھا کہ وہ بھی لاک ڈاون کے فیصلے کی سختی سے جوجھ رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر انسانیت اور ہمدردی کے جذبات نے مجبور کردیا کہ اس کے لیے بھی ریلیف ورک کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ راقم ریلیف ورک لے کر آتا، اس جگہ سے تھوڑی دورہٹتے ہی لاک ڈاون کا ایک دوسرا متاثر آ پہنچا اور اپنی زندگی بچانے کی خاطر خوراک حاصل کرنے کے لیے کبوتر کو لقمہ تر بنانے کی کوشش کرنے لگا۔یہ منظر دیکھ کر راقم سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کبوتر کو بلی کے حملے سے بچانا انسانیت ہوگی، یا پھر بلی کو خوراک سے محروم کرنے کا جرم ہوگا۔ قبل اس کے کہ راقم کسی فیصلے پر پہنچتا، تب تک بھوکی بلی کبوتر پر جھپٹ پڑی اور سامان خورد و نوش ملنے پر ضیافت کے جشن میں مشغول ہوگئی۔ راقم یہ منظر دیکھتے دیکھتے اب تک محو خیال ہے کہ کیا بلی کا حملہ جائز تھا؟۔