22 May 2020

مفتی سعید احمد پالنپوری ؒ اور جمعیت علمائے ہند

مفتی سعید احمد پالنپوری ؒ اور جمعیت علمائے ہند
محمد یاسین جہازی
نیا میں آنا ہی درحقیقت یہاں سے جانے کی تمہید ہے۔ اگر آخر الذکرکا تسلسل نہ ہو، تو ایک مومن کے لیے یہ سب سے بڑی سزا ہوگی؛ کیوں کہ ہمیشہ میدان امتحان میں ہی رہنااور اس کا انعام نہ ملنا؛ ایک قسم کی سزا ہے۔ حضرت الاستاذ حضرت مولانا و مفتی سعید احمد پالنپوری نور اللہ مرقدہ شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند 19مئی 2020بروز منگل صبح سات و آٹھ کے درمیان قید حیات سے آزاد ہوکر ابدی زندگی کی طرف منتقل ہوگئے۔اور جوگیشوری ممبئی کے اوشیورہ قبرستان میں تدفین کردی گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
راقم زمانہ طالب علمی کے بعد جمعیت علمائے ہند کے شعبہ ”ادارہ مباحثہ فقہیہ“ کے ایک کام کے حوالے سے حضرت مفتی صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جمعیت نے حالات حاضرہ کے متعلق کچھ عنوانات طے کیے تھے، سیمینار کے لیے کسی ایک عنوان کی تعیین یا تخلیق کی گذارش حضرت کی خدمت میں پیش کی گی۔ بعد العصرکی محفل تھی، درجن کی تعداد میں طلبہ بھی موجود تھے۔ حضرت نے ہر ایک عنوان کو غور سے دیکھا اور کچھ مفید مشورے بھی دیے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ حضرت فدائے ملت ؒ کے دور صدار ت میں جمعیت کے مختلف پروگراموں میں شرکت ہوتی تھی؛ لیکن اب پروگراموں سے یکسو ہوگیا ہوں اور بہت کم ہی شرکت کرتا ہوں۔
حضرت کے انتقال کے اگلے دن یعنی 20مئی 2020بروز بدھ نماز ظہر دفتر جمعیت علمائے ہند کے مدنی ہال میں ایک تعزیتی نشست رکھی گئی، جس میں خطاب کرتے ہوئے مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی سکریٹری جمعیت علمائے ہند نے حضرت کی زندگی اور کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سال گذشتہ رمضان سے پہلے(اپریل2019) مظفر نگر میں واقع جمعیت یوتھ کلب کے سینٹر پر تشریف لائے۔ یہاں کے منظر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میدان میں لگے جھولے پر بیٹھ کر بچپنہ احساس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جب یہ زمین خریدی گئی تھی، تب بھی  میں یہاں آیا تھا۔ اور آج جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آباد کردیا ہے، تو یہاں آنے کا موقع ملا ہے۔ مفتی صاحبؒ نے جمعیت یوتھ کلب کے بارے میں معلومات حاصل کرکے اپنی خوشی کا اظہار کیا، بہت ساری دعائیں دیں اور کہا کہ دیوبند کے آس پاس اگر کوئی پروگرام ہو تو مجھے بھی بتانا، میں اس میں شرکت کروں گا۔ مفتی صاحب مرحوم نے مزید بتایا کہ حضرت فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ مجھ سے ہمیشہ مشورہ فرمایا کرتے تھے؛ بالخصوص فرقہ باطلہ کے تعلق سے مجھ سے ضرور صلاح و مشورہ کیا کرتے تھے۔ مفتی صاحب ؒ نے جمعیت علما سے وابستگی کے تعلق سے بتاتے ہوئے کہا کہ جب میں دارالعلوم اشرفیہ راندیر سورت گجرا ت میں مدرس تھا، تو حضرت مولانا و مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپپوری ؒ وہاں کے صدر ہواکرتے تھے اور میں ناظم اعلیٰ تھا۔ آپ مارچ 1965سے اگست1973یعنی کل نو سال تک جمعیت علما سورت کے ناظم اعلیٰ رہے۔
قائد جمعیت،جانشین فدائے ملت حضرت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیت علمائے ہند سے بھی آپ کا خصوصی تعلق تھا۔چنانچہ فدائے ملتؒ کے انتقال کے بعد پروگراموں سے الگ تھلگ ہوجانے کے باوجود قائد جمعیت کی دعوت پرجمعیت کے فقہی اجتماعات میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ اور پچھلی مرتبہ جب رابطہ مدارس اسلامیہ کا اجلاس دیوبند میں ہورہا تھا اور دوران پروگرام قائد جمعیت پروگرام میں شریک ہوئے، تو حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ آپ کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے اورگلے لگاکر اپنے بازو میں بٹھایا۔ معلومات کے لیے عرض کردوں کہ قائد جمعیت حضر ت مفتی صاحب مرحوم کے شاگرد ہیں۔ اس کے باوجود آپ کے لیے کھڑے ہوگئے؛ جو بالیقین جمعیت اور خانوادہ مدنی سے عقیدت و محبت کی واضح علامت ہے۔
جمعیت علمائے ہند نے بھی حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کو درج ذیل عبارت میں خراج عقیدت اور اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا:
”جمعیت علمائے ہند کے صدرامیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور ناظم عمومی مولانا محمود مدنی نے دارالعلوم دیوبند کے انتہائی موقر شیخ الحدیث و صدرالمدرسین حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری کی وفات حسرت آیات پردلی رنج و الم ظاہرکیا ہے۔دارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس کے اڑتالیس سالہ دورمیں ہزارہا تشنگان علوم آپ کے سرچشمہ فیض سے بلاواسطہ فیضیا ب ہوئے۔آپ جیسے کریم النفس، صاحب تقوی،مشفق استاذ کا سایہ بہت بڑی سعادت اور ان کی وفات بڑی محرومی اور عظیم نقصان ہے۔ آپ کی ذات ستودہ صفات بہت سی علمی و عملی خوبیوں کا مظہر تھی۔رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ، افادات درس ترمذی ’تحفۃ المعی‘ افادات درس بخاری’تحفۃ القاری‘ زبدۃ الطحاوی،داڑھی اور انبیا کی سنتیں، حرمت مصاہرت، العون الکبیر وغیرہ ان کی بہترین تصنیفات ہیں، ان کے علاوہ انھوں نے متعدد علمی و فقہی کتابیں لکھی ہیں۔
مولانا موصوف کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کے ابتدا سے تا حیات ناظم عمومی رہے، انھوں نے دارالعلوم دیوبند میں بوقت ضرورت فتاوی نویسی فرمائی اور اہم فتاوی کے جوابات کی نگرانی فرماتے۔ آپ نے ہمیشہ جمعیت علمائے ہند اور اکابر جمعیت سے خصوصی تعلق رکھا اور دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد 1384 ھ(1965) میں دارالعلوم اشرفیہ راندیر سورت میں درجہ علیا کے استاذ مقرر ہوئے، تو وہاں جمعیت علما کی سرگرمیوں سے باضابطہ وابستہ ہوئے اور مسلسل نو سال تک جمعیت علمائے راندیر کے ناظم بھی رہے۔حضرت فدائے ملت مولانا اسعد مدنی ؒ ان سے مشورہ فرماتے اور جب بھی مباحث فقہیہ جمعیت علمائے ہند کے اجتماعات منعقد ہوتے، ان کو خصوصی طور سے مدعو فرماتے۔حضرت مولانا سال گزشتہ بھی مباحث فقہیہ کے اجتماع میں شریک ہوئے، وہ فقہ حنفی کے برصغیر میں نامور عالموں میں تھے اور دلائل کی قوت سے مسلک احناف کو عصر حاضر کے مسائل کا بہتر ین حل کے طور پر پیش کرتے۔
جمعیت علما حضرت مولانا کے پسماندگان سے دلی ہمدرردی ظاہر کرتی ہے اور دست بہ دعا ہے کہ اللہ تعالی آ پ کو زمرہ صالحین میں مقام اعلی عطا فرمائے اور انبیا و صدیقین کا رفیق بنائے، نیز اہل خاندان، اولادو رفقا،ہزارہا تلامذہ اور ہم متوسلین کو صبرو استقامت کے ساتھ اس غم کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جمعیت علمائے ہند اپنے تمام جماعتی احباب،دینی مدارس کے ذمہ داروں سے مولانا مرحوم کے لیے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کے اہتمام کی اپیل کرتی ہے۔ ممبئی میں صبح حضرت مولانا موصوف کی انتقال کی خبر موصول ہوتے ہی جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری نے دیوبند میں ان کے گھر جا کر برادر خورد حضرت مفتی امین پالن پوری صاحب اور مفتی صاحب مرحوم کے صاحبزادگان و دیگر اہل خانہ سے تعزیت مسنونہ پیش کی۔ نئی دہلی میں جمعیت علمائے ہند کے دفتر میں بعد نماز ظہر ایک تعزیتی نشست بھی منعقد ہوئی، جس میں دعائے مغفرت کی گئی،اس میں جمعیت علمائے ہند کے سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی، مولانا کلیم الدین قاسمی، مولانا عرفان، مولانا نجیب اللہ قاسمی، مولانا ضیاء اللہ قاسمی، مولانا یاسین جہازی،مولانا عظیم اللہ قاسمی سمیت دفتر میں موجود سبھی اسٹاف شریک ہوئے۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ جمعیت علمائے ہند سے فکری اور عملی دونوں طور پر وابستہ رہے اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔ دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت استاذ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیع عنایت کرے۔ آمین۔