کم تنخواہ والے اور یومیہ مزدوروں کی خدمت میں
محمد یاسین جہازی
نومبر 1981میں اوم پرکاش والمیکی نے ’ٹھاکر کا کنواں‘ کے
نام سے ایک کویتا لکھی تھی، پہلے آپ بھی اس سے محظوظ ہوجائیں:
چولہا مٹی کا
مٹی تالاب کی
تالاب ٹھاکر کا
بھوک روٹی کی
روٹی باجرے کی
باجرا کھیت کا
کھیت ٹھاکر کا
بیل ٹھاکر کا
ہل ٹھاکر کا
ہل کی مٹھ پر ہتھیلی اپنی
فصل ٹھاکر کی
کنواں ٹھاکر کا
پانی ٹھاکر کا
کھیت کھلیان ٹھاکر کے
گلی محلے ٹھاکر کے
پھر اپنا کیا؟
گاوں؟
شہر؟
دیش؟
بھارت کے وزیر اعظم 24 مارچ 2020 کو رات آٹھ بجے ٹی وی پر
آتے ہیں اورکورونا وائرس (Covid-19) کے پھیلاو کو روکنے کا حوالہ دیتے ہوئے اچانک پہلے مرحلہ میں 25مارچ
2020سے 14اپریل کل اکیس دن کے لیے، بعد ازاں 15اپریل سے 3مئی تک اور پھر 4مئی سے
17مئی تک، کل 54دن کے لیے مکمل لاک ڈاون کافرمان جاری کردیتے ہیں۔اور ابھی تک پتہ نہیں
کہ یہ آخری تاریخ ہے یا اور آگے بڑھایا جائے گا۔اس اچانک فیصلے کے ایک دو دن کے بعدہی
یومیہ کمانے والے مزدور وں کی نقل مکانی اور بھکمری کی جو بھیانک تصاویر سامنے آئیں،
انھوں نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک طرف کام بند ہونے کی وجہ سے ان کے پاس
پیسے ختم ہوگئے، وہیں دوسری طرف ہوٹل اور ڈھابہ وغیرہ بند ہونے کی وجہ سے، ان ذرائع
پر منحصر افراد دانہ دانہ کو ترسنے لگے۔جن کے پاس پیسے تھے، وہ جب اپنے بچوں کے لیے
کھانا اور کھانے کی چیزیں خریدنے کے لیے باہر نکلے تو پولیس نے شدید تشدد کا نشانہ
بنایا۔کہیں پر کرایہ داروں نے مزدوروں کو اپنے گھروں سے نکال دیا، تو کچھ جگہ پر کام
دینے والے مالکوں نے مزدوروں کے کمائے ہوئے پیسے بھی دینے سے انکار کردیا۔ رد عمل کے
طور پر مزدوروں نے شہروں سے ہجر ت کرنا شروع کردیا۔ سواری اور دکانیں بند ہونے کی وجہ
سے لوگ پیدل اور پیٹ پر پتھر باندھ کر چلنے لگے۔ ان مسافروں میں کچھ معذور بھی تھے،
جو رینگنے کی رفتار سے چلتے نظر آئے۔ معصوم بچوں کو تیز دھوپ میں پیٹھ پر لادے کمزور
مائیں، سروں پر سامان کی گھٹری لیے ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کرنے لگیں۔ پیدل پیدل
چلتے چلتے ان مزدوروں کے پاوں زخموں سے چور ہوگئے۔ ایک تصویر یہ بھی سامنے آئی کہ ایک
شخص اپنی اسی سالہ ماں کو گود میں اٹھائے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ کھانے پینے
کی دکانیں بند ہونے اور مفلسی کی وجہ سے مزدور کوڑوں میں پھیکے ہوئے کھانے اور نالی
کے گندے پانی پینے پر مجبور ہوگئے۔ ایک تصویر نے تو انسانیت کو شرمسار کرکے رکھ دیا
کہ سڑک کے کنارے پھیکے ہوئے کھانے پر انسان اور کتے دونوں جھپٹے اور اپنی اپنی زندگی
بچانے کے لیے خوں ریز لڑائی ہوگئی۔
ان حالات اور سچائیوں کو دیکھتے ہوئے کم تنخواہ پر کام کرنے
اور یومیہ مزدوروں کو ’ٹھاکر کا کنواں‘ سے سبق لیتے ہوئے درج ذیل سوالات کا جواب ڈھونڈھنا
ضروری ہے کہ
(1) کیا وہ شہرآپ کا ہوا، جس کی تعمیر و ترقی
کے لیے آپ نے اپنی زندگی کے حسین لمحات وقف کردیے؟
(2)کیا وہ مالک آپ کا ہوا، جس کی اسائش حیات کے
لیے آپ نے خون پسینے بہادیے؟
(3) کیا وہ حکومت آپ کی ہوئی، جس کو بنانے کے
لیے آپ نے اپنے قیمتی ووٹ دیے؟
(4)کیا وہ سرکار آپ کے لیے سہارا بنی، جس کے شہروں
کو چکا چوند بنانے کے لیے آپ نے اپنی بیوی بچوں اور گھر بار کو چھوڑا؟
اس لاک ڈاون میں جس طرح کے بھیانک مناظر سامنے آئے ہیں،
ان سب کے تناظر میں تو سبھی مزدوروں کا جواب یہی ہوگا کہ ”نہیں“۔ تو پھر یہی سے یہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مزدوروں کو کیا کرنا پڑے گا جس کے بعد ان سوالوں کا جواب
”ہاں“ میں آئے۔
اس کا سب سے پہلا جواب تو یہ ہے کہ مزدوروں کو سب سے پہلے
اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہوگا کہ ہمارا کوئی نہیں ہے اور ہمیں اپنے ہی سہارے زندگی
کی جنگ لڑنی ہے۔ جب یہ احساس پیدا ہوجائے گا، تو پھر اس کا دوسرا جواب یا حکمت عملی
یہ اختیار کرنی پڑے گی کہ آپ کی جو بھی کمائی ہے، اس میں سیونگ کا مزاج بنانا ضروری
ہے۔ اگر آپ یومیہ سو روپے کماتے ہیں، تو اس میں کم از کم دس پرسینٹ یعنی دس روپے بچانا
ضروری ہے۔ اور یہ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا آپ کا ساتھ چھوڑ
دے، تو اس وقت آپ کی یہ سیونگ آپ کا سہارا بنے۔
یہ تو خود آپ کے لیے ایک تجویز تھی۔اور دوسرا مشورہ یہ ہے کہ
آپ اپنے خاندان کے لیے ایک لونگ ٹرم پالیسی بنائیے۔ اور وہ پالیسی یہ ہے کہ یہ طے کریں
کہ اگر ہم غلامی اور مزدوری کر رہے تھے تو ہماری اگلی نسل غلام اور مزدور نہیں بننا
چاہیے؛ بلکہ ملازم یا اسٹاف بننا چاہیے۔ اور اگر دوسری نسل ملازم اور اسٹاف ہے، تو
اس سے اگلی نسل تاجر یا مالک بننا چاہیے۔ ہم تیسری نسل میں مالک ہونے کی پوزیشن میں
اسی وقت پہنچ پائیں گے، جب کہ ہم اپنی غلامیت کی نسل میں یہ لونگ ٹرم پالیسی بنالیں
گے۔
یاد رکھیے کہ اگرایسا نہیں سوچیں گے اور ایسا نہیں کریں گے،
تو ہم مزدور پیدا ہوتے آئے ہیں، اگلی نسل مزدور پیدا ہوگی اور قیامت تک مزدور ہی پیدا
ہوتی ہی رہے گی۔ اور یاد رکھیے کہ غلاموں اور مزدوروں کا کوئی نہیں ہوتا؛
نہ شہر
نہ گاوں
نہ دیش
نہ مالک
اور نہ حکومت